قسط: اول
اپنے خالق اور مالک کی پہچان کرنا ہم سب کے ذمہ ہے ۔‘‘علوم ارضی ’’ کا یہ سلسلہ ہم اسی لئے شروع کر رہے ہیں کہ انشاء اللہ یہ اس عرفان و آگہی میں موثر ثابت ہوگا ۔
یہ لا محدود کائنا ت’جو کہ ہمارا مسکن ہے کیسے وجود میں آئی ؟
اس کائنات میں پایا جانے والا حیرت انگیز توازن’ کیسے قائم ہوا ؟
ہماری یہ زمین ’زندگی کیلئے نہایت موزوں اور سازگار پناہ گاہ کیسے اور کب بنی ؟
ان سوالات نے انسا ن کو ابتدا ہی سے الجھا رکھا ہے۔سائنسدان اور مفکرین جو کہ اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ اس تلاش میں رہے ہیں بالآخر اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اس کائنات کی ترتیب اور تنظیم لا محدود طاقتوں کی حامل ہستی کی موجودگی پر دلالت کرتی ہے جو کہ اس کائنا ت کا مالک’ خالق اور بادشاہ ہے ۔ یہ ایک ایسا غیر متنازعہ سچ ہے جسے فطرت ِ سلیم بآسانی پا سکتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو ‘قرآن مجید ’میں جا بجا بیان کرتا ہے ۔ خالق ِ کائنات خود یہ اعلان کرتا ہے کہ اس نے کائنات بنائی ’ جبکہ یہ کچھ نہ تھی اور نہ صرف یہ کہ کائنات بنائی بلکہ اس کے تمام نظاموں کو بھی ترتیب دیاجو کہ انسانی زندگی کیلئے ضروری تھے۔ (ءَ انتم اشد....ذٰ لِک دحھا ) ۷۹: ۲۷۔۳۰
‘‘کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا ’ اللہ نے اْسے بنایا اسکی چھت اونچی کی ’ پھر اسے ٹھیک کیا ۔ اس کی رات اندھیری کی اور اسکی روشنی چمکائی ۔ اور اسکے بعد زمین پھیلائی ۔’’
اسی طرح قرآن یہ دعوت دیتا ہے کہ انسان کو کائنات میں پائے جانے والے توازن اور اس کے تمام نظاموں کو سمجھنا چاہئے جو کہ اس کے اپنے مفادمیں بنائے گئے ہیں ۔اور اپنے اس مشاہدے سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ (و سخرلکم ....یعقلون ۱۶:۱۲)
‘اور ا س نے تمہارے لئے رات اور دن مسخر کیے ’ اور سورج اور چاند اور ستارے اسکے حکم کے باندھے (پابند) ہیں ’ بے شک اس میں نشانیاں ہیں عقلمندو ں کیلئے’’
بعینہ ایک اور آیت میں اشارہ کیا گیا ہے : (یو لج الیل.....من قطمیر ۳۵:۱۳)
‘‘ رات لاتا ہے دن کے حصہ میں اور دن لاتا ہے رات کے حصہ میں ’ اور اس نے کام میں لگائے سورج اور چاند۔ ہر ایک ایک مقرر میعاد تک چلتا ہے ۔یہ ہے اللہ تمہارارب ’ اسی کی بادشاہی ہے ۔اور اس کے سوا تم جنہیں پوجتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی اختیار نہیں رکھتے’’
اسی طرح سورۃ الا عراف میں بیان ہے : (ان ربکم ....اللہ رب العلمین ۷:۵۴)
‘‘ بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے ۔پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا کہ اسکی شان کے لائق ہے ۔رات اور دن کو ایک دوسرے سے ڈھانکتا ہے ۔ایسے طو ر پر کہ شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے ۔اورسورج اور چاند اور تاروں کو بنایا سب اس کے حکم کے تابع ہیں ۔سن لو! اسی کے ہاتھ میں ہے پیدا کرنا اور حکم دینا۔ بڑی برکت والا ہے اللہ ’ سارے جہانوں کا رب ۔’’
یہ سیدھا سادہ سچ جو کہ قرآن میں بار ہا بیان ہوا ہے ’ جدید علم فلکیات کے بہت سے ماہرین بھی اسی کے قائل ہیں گلیلیو’ کیپلر اور نیوٹن ’ سب نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کائنات کی ساخت ’ نظام شمسی کی ترتیب ’ قوانین طبیعات اور اس میں پائی جانے والی یہ حیرت انگیز توازن کی حالتیں ، سب کی سب اللہ نے ‘‘تخلیق ’’ کی ہیں اور وہ سب سائنسدان مذہبی کتابوں کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنے تجربات ’ تحقیق اور مشاہدے کی روشنی میں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں ۔
ماضی میں کائنات کی تخلیق ، اس کے آغاز و انجام کے بارے میں بہت سے مفکرین نے اپنا اپنا نکتہ نظر پیش کیا ہے ۔ذیل میں ہم ان میں سے کچھ کا جائزہ لیں گے ۔
نظریہ مادیت
‘‘ نظریہ مادیت ’’ (materialism) کا جنم اصلاًتو یونانیوں کے ہاں ہوا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ دوسری تہذیبوں اور افرا دمیں بھی سرایت کر گیا ۔
یہ نظریہ بنیادی طور پر دو اصولوں پر مبنی ہے
ا۔ یہ کائنات وقت کی قید سے آزاد ہے ’اس کا نہ تو کوئی آغاز تھا اور نہ ہی کوئی انجام ہے گویا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
۲۔ کائنات کو کسی نے دانستہ تخلیق نہیں کیا بلکہ یہ محض اتفاقی طور پر وجود میں آئی ۔یہ کسی ارادی سوچ کا مظہر نہیں ۔
نظریہ مادیت کے پیرو کاروں نے کائنات کو بے مقصد قرار دیا ہے ۔ان کے مطابق کائنا ت میں پایا جانے والا توازن’ باہمی تعلق اور نظم و نسق جو ہمیں اپنے گردو پیش میں نظر آتا ہے محض اتفاقی ہے ۔یہ نظریہ تب سامنے آیا جب انسان کی اس دنیا میں آمد کے مقصد کا سوا ل اٹھایا گیا ۔
19ویں صدی اپنے ساتھ سائنسی دنیا میں ‘‘مادہ’’ (matter)کے حوالے سے نئے رحجانات ’ نئی سوچ اور نیا طرزِ فکرسامنے لائی ۔ا ن نظریات کو بہت سے گروہوں کی جانب سے جدید سائنس کے طور پر متعارف کرایا گیا ۔ اس صدی کی سیاسی اور سماجی صورتحال نے ان نظریات کو اپنے کندھے پیش کئے ۔ لہذا اس طرز فکر نے لوگوں کے ذہن میں اپنے پنجے گاڑے اور دور رس اثرات مرتب کئے اور ساتھ ہی ساتھ سائنسی حلقوں میں داد پائی ۔
نظریہ مادیت کا انجام
20ویں صدی کی سائنسی تحقیقات اور دریافتوں نے اس نظریہ کو خود ہی اپنے انجام تک پہنچا دیا ۔اوربقول مشہور سماجی مفکر ‘‘آرتھر کوسلر’’ ‘‘ نظریہ مادیت ایک سائنسی فلسفہ کے طور پر نہیں پنپ سکتا ’’
نظریہ مادیت کے پیروکاروں نے اس کے دو بنیادی اصولو ں کو اگر چہ اپنے خون ِ جگر سے پروان چڑھایا لیکن وہ اپنی نا پختہ بنیادوں کی وجہ سے زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔اصل میں یہ نظریہ نا مکمل اور ادھوری سائنسی معلومات پر مبنی تھا جو کہ اسوقت تک دستیاب تھیں۔ جدید سائنس کے اکثربانیوں کا ایمان اس بات پر پختہ تھا کہ اس کائنات کو تخلیق کیا گیا ہے اور یہ اللہ ہی ہے جس نے ان تمام نظاموں کوترتیب دیا ہے۔ 1920ء کی دہائی میں پہلا اصول رد ہوا ۔ جب ‘‘ بگ بینگ’’ (big bang)یعنی ‘‘عظیم دھماکہ ’’ کا نظریہ پروان چڑھا اور دوسرا اصول 1960ء کی دہائی میں رخصت ہوا کائنات کی حقیقت کو آشکار کرنے والا یہ ‘‘ بگ بینگ’’ کا نظریہ کیا ہے ؟ اور کائنات کے مزید رنگ دیکھنے کے لئے آپ کو انتظار کرنا پڑے گا .............اگلے شمارے کا ۔