نیٹ ورک مارکیٹنگ اور اسلامی شریعت

مصنف : سیّد سعادت اللہ حسینی

سلسلہ : گوشہ تحقیق

شمارہ : ستمبر 2004

[ملٹی لیول مارکیٹنگ کی شرعی حیثیت پر ایک اہم تحریر]

             ملٹی لیول مارکیٹنگ ساری دنیا میں بڑی تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ گلوبلائز یشن اور اوپن مارکیٹ کے نتیجے میں اونچی آمدنی ہر ایک کی ضرورت بن چکی ہے،اپنے آسان اور بھاری بھر کم منافع کی وجہ سے نیٹ ورک مارکیٹنگ نے مڈل کلاس کے لیے امیدوں کے نئے مرکز کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ چونکہ یہ آمدنی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہر ایک کے لیے ہر وقت دستیاب ہے اس لیے مارکیٹنگ کا یہ طریقہ لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کے لیے بھی کشش کا مرکز بن گیا ہے۔

             ایسی صورت میں فطری طور پر اہل اسلام کے ذہنوں میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نیٹ ورک مارکیٹنگ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ زیر نظر مضمون میں انہی سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ مضمون کے پہلے حصے میں نیٹ ورک مارکیٹنگ کے طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے اور دوسرے حصے میں ا سکی شرعی حیثیت زیر بحث لائی گئی ہے۔

 نیٹ ورک مارکیٹنگ کیا ہے؟

              نیٹ ورک مارکیٹنگ (ملٹی لیول مارکیٹنگ یا ایم ایل ایم) تجارت کا منفرد طریقہ ہے ۔ جو کمپنیاں نیٹ ورک مارکیٹنگ کے طریقہ سے اپنی مصنوعات کی تجارت کرتی ہیں ، ان کے خریداروں کویہ موقع حاصل رہتا ہے کہ وہ خود دوسرے خریدار بنائیں اور ان کی خرید پر منافع حاصل کریں۔ ایک شخص کمپنی کی مصنوعات خریدتا ہے ، اسے یہ مصنوعات کافی مہنگی قیمت پر خریدنا پڑتی ہیں۔ ان مصنوعات کے بارے میں وہ دوسرے لوگوں کو بتلاتا ہے، اگر وہ ان مصنوعات کو خریدنے کے لیے تیار ہو جائیں تو وہ انہیں کسی کمپنی کے شوروم یا دکان کا پتہ نہیں بتلاتا بلکہ وہ خود ان کا سپانسرڈ ڈسٹری بیوٹر بن جاتا ہے۔ فرض کیجئے ۵ لوگ اس کے ذریعے سے کمپنی کی مصنوعات خریدنے لگتے ہیں ، یہ پانچ خریدار مزید پانچ خریدار بناتے ہیں، اس طرح گویا خریداروں کا ایک شجرہ وجود میں آتا ہے۔ اس شجرہ کی چوتھی نسل (کڑی) میں تقریباً ۶۲۵ خریدار ہو جا تے ہیں۔ اگر یہ ماہانہ ۳۰۰ روپے کی مصنوعات مذکورہ بالا کمپنی سے خریدیں تو اس شجرہ میں جملہ ۳۰ لاکھ روپے کی خریداری ہو گئی اور اس شجرہ میں ہونے والی ہر خریدو فروخت پر پہلے شخص کو کمیشن ملے گا اس طرح اس کا جملہ کمیشن جملہ تجارت (۳۰لاکھ روپے) کے تقریباً ایک چوتھائی کے برابر ہوجا تا ہے ۔

نیٹ ورک مارکیٹنگ کیسے کام کرتی ہے؟

            نیٹ ورک مارکیٹنگ تجارت کے عام طریقوں سے یکسرمختلف ہے ۔ عام طریقوں میں تاجر کو اسی مال پر منافع حاصل ہوتا ہے جوبراہِ راست فروخت کرتا ہے۔ وہ کمپنی کا مالک ہو یا ڈیلر ہو، تھوک بیوپاری ہو یا سادہ تاجر ہو، اسے منافع اسی مال پر حاصل ہوتا ہے جو وہ خود کسی اگلے خریدار کو فروخت کرتا ہے۔ لیکن نیٹ ورک مارکیٹنگ میں تجارت کے اس عام مرحلے کے بعد بھی آپ کو ا گلے مراحل کے ایسے تجارتی معاہدوں پر بھی منافع حاصل ہوتا ہے جس میں آپ سرے سے شریک ہی نہیں ہیں اور محض اس بناء پر اس کی فروخت میں آپ بھی کمیشن حاصل کر لیتے ہیں کہ اس خریدار نے کبھی آپ سے، یا آپ کے ڈاؤن لائن (شجرہ) میں کسی سے تجارتی اشیاء خریدی تھیں۔

              یہ کمیشن کہاں سے حاصل ہوتا ہے؟نیٹ ورک مارکیٹنگ ایک بہت ہی سادہ اصول پر کام کرتی ہے۔ فرص کیجئے کہ خریداروں کے مذکورہ شجرہ (ڈاؤن لائن) میں آپ کا مقام پہلا ہے۔ اس صورت میں آپ اپ لائنر  up linerکہلاتے ہیں اور جو لوگ اتفاق سے اس شجرہ میں آپ کے بعد شامل ہوئے ہیں وہ آپ کے ڈاؤن لائنر کہلاتے ہیں ۔ اس طریقہ تجارت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ڈاؤن لائنر سے رقم وصول کیجیے اور اپ لائنر کو ادا کیجیے ۔ اس طرح ۱۰۰ ڈاؤن لائنر سے کمیشن وصول کیا جاتا ہے اور ایک اپ لائنر کو دیا جاتا ہے۔ جو لوگ اتفاق سے اپ لائنر بن گئے ہیں وہ دراصل اس یقین کی بنیاد پر مستقبل کی تجارت کرتے ہیں کہ اگر ان کی (ڈاؤن لائنر کی) ڈاؤن لائن میں کافی تعداد میں خریدار جمع ہو گئے تو وہ بھی مستقبل میں کبھی نہ کبھی اپ لائنر بن جائیں گے۔

              اگرچہ اس تجارت میں ہر خریدار سے منافع کا وعدہ کیا جاتا ہے لیکن منافع صرف اس شخص کو ہی حاصل ہوتا ہے جو خریداروں کے اس شجرہ میں اونچے مقام پر ہو ۔ آپ جتنی اونچی پوزیشن پر ہیں یعنی زمانی اعتبار سے جس قدر پہلے اتفاقاً آپ نے نیٹ ورک جوائن کیا آپ کے لیے منافع کا امکان اتنا ہی زیادہ ہے اور جو جتنی نچلی پوزیشن پر ہے اس کے لیے منافع کا امکان اتنا ہی کم ہے۔ حتیٰ کہ نقطہ سیرابی Saturation Point پر منافع کا امکان صفر ہو جاتا ہے، اور اس مرحلہ پر جو لوگ خریدار بنتے ہیں وہی اصل نقصان اٹھانے والے ہوتے ہیں۔

              ہر چیز کا ایک نقطہ سیرابی ہوتا ہے ۔ بازار میں مصنوعات اس وقت تک فروخت ہوتی رہتی ہیں جب تک کہ ان کی مانگ ختم نہ ہو اور اس کے بعد ان کی فروخت کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں ۔ یہ مرحلہ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بھی پیش آئے گا ۔ تجارت کے عام طریقوں میں کمپنیوں کی پیداوار مانگ کے مطابق ہوتی ہے لیکن چونکہ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں اس طرح کی منصوبہ بندی کے کوئی امکانات نہیں ہوتے ہیں ا س لیے مانگ ختم ہو جانے پر بھی کمپنی پیداوار جاری رکھتی ہے۔ اس طرح جو آخری ڈاؤن لائن وجود میں آتی ہے ان کے لیے مزیدگاہک دستیاب نہیں ہوتے، اس لیے حتمی طور پر انہیں نقصان ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ اس مرحلہ پر نقصان اٹھانے والے تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور نیٹ ورک مارکیٹنگ کا سسٹم جاری رہتا ہے۔ اگر کوئی فرد اس سسٹم کے ذریعہ معقول آمدنی حاصل کرنا چاہے تو اس کی ڈاؤن لائن میں کم از کم ۱۰۰ افراد چاہییں ۔ اس طرح ان ۱۰۰ افراد کو ۱۰۰۰۰ افراد چاہییں ۔ اس طرح محض چھٹی کڑی (نسل) میں درکار خریداروں کی تعداد دنیا کی آبادی سے تجاوز کر جائے گی ۔ اس سے بآ سانی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ طریقہ تجارت کس قدر تیزی سے نقطہ سیرابی تک پہنچ جاتا ہے۔

              اس وقت سب سے کامیاب نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی ایموے Amway ہے اور خود ایموے کے مطابق اس کا ایک اوسط ڈسٹری بیوٹر فروخت کے ذریعے سالانہ ۷۰۰ ڈالر حاصل کرتا ہے اور اسے اس تجارت میں سالانہ ۱۰۰۰ ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یعنی اوسطاً ۳۰۰ ڈالر کا سالانہ نقصان ۔

              چونکہ یہ تجارت ذاتی تعلقات اور ذاتی روابط کے ذریعے انجام دی جاتی ہے اس لیے ڈاؤن لائن کی تشکیل کے لیے عموما قرابت داریوں اور رشتوں کا استحصال کیا جاتا ہے ۔ اس طرح ایک فرد اپنے خاندانی تعلقات اور دوستی کے رشتوں کا استحصال کرتے ہوئے خود اپنے عزیزوں کو اس بات کے لیے مجبور کرتا ہے کہ وہ اسے منافع فراہم کرنے کے لیے خود نقصان اٹھائیں ۔

              در اصل یہ حقیقتاً کوئی تجارت نہیں ہے کیونکہ بیچی اور خریدی جانے والی مصنوعات میں کسی بھی شخص کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ مصنوعات خریدنے کا واحد سبب محض یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے ڈاؤن لائن بنائی جائے اور منافع حاصل کیا جائے ۔

اسلامی قوانین تجارت

              وسیع تر معاشی بہبود ، سماجی اور معاشی انصاف اور دولت کی منصفانہ تقسیم اسلامی نظام معیشت کے بنیادی مقاصد ہیں۔ اسلام دولت کے بہاؤ کو امیروں سے غریبوں کی جانب کرنا چاہتا ہے اور ایسے ذرائع اختیار کرتا ہے جن کے ذریعے دولت کا ارتکاز روکا جاسکے ۔

             کَی لَا یَکُونَ دولَۃً بَینَ ا لاَغنِیَاءِ مِنکُم (الحشر:۷)

‘‘             تاکہ وہ (مال) تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔’’

              اخوت اور انصاف اسلام کے بنیادی اہداف ہیں اور تمام انسانوں کی فلاح اسلام کا بنیادی مقصد ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے اسلام تجارت کے سلسلے میں چند شرائط عائد کرتا ہے ۔ یہ شرائط تجارت میں شفافیت اور دیانتداری کو یقینی بنانے اور اسلامی نظام معیشت کے مذکورہ اہداف کے حصول کے لیے متعین کی گئی ہیں۔

(۱) تمام تجارتی معاہدے ، دیانتدارانہ، واضح اور شفاف ہوں، اسلامی شریعت نے ایسے معاہدوں کو باطل قرار دیاہے جو گنجلک او ر غیر واضح ہوں اور جن سے تنازعات پیدا ہونے کے امکانات ہوں ۔

)۲) تمام متعلقہ معلومات واضح طورپر فریقین پر ظاہر کر دی جائیں اور کوئی بات چھپائی نہ جائے ۔ ہر وہ لین دین جس میں کسی فریق کو کسی اہم حقیقت سے لا علم رکھا گیا ہو یا غلط معلومات دی گئی ہوں یا دھوکہ دیا گیا ہو ، شرعاً حرام ہے۔

(۳) تجارتی لین دین میں کوئی غیر یقینی کیفیت یا اتفاق کا عنصر شامل نہ ہو ۔ اسلامی قانون میں ایسے معاہدے کو ‘‘غرر’’ کہا گیا ہے ۔ ابن تیمیہؒ نے ‘‘غرر’’ کی تشریح یوں کی ہے:

 ‘‘             کوئی بھی تجارت جو کہ مکمل طور پر قسمت (مواقع) پر منحصر رہے وہ غرر ہے ’’ اور غرر سے نبی کریمﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے ۔

 غرر کی مثالیں جو فقہ کی کتابوں میں ملتی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں :

(الف)  معلوم یا نا معلوم اشیاء ’ نا معلوم قیمت پر فروخت کرنا ۔ مثلاً کسی بند ڈبے کے نا معلوم مشتملات فروخت کر دینا۔

(ب)    کسی تجارتی معاہدہ کو کسی نا معلوم واقعہ سے مربوط کرنا’ مثلاً یہ چیز اس صورت میں فروخت ہو گی جب میرا دوست آئے گا ۔

(ج)      قیمت کے تعین کے بغیر فروخت کرنا ۔ مثلاً فلاں وقت میں جو قیمت رائج ہو گی اس قیمت پر وغیرہ۔

(۴) اگر کسی فریق کا منافع یا نقصان مکمل طور پر اتفاق پر مبنی ہو تو اسے ‘‘میسر’’ کہا جاتا ہے اور ایسی تجارت بھی شرعاً نا جائز ہے۔

            یَسئٗلُونَکَ عَنِ الخَمرِ وَالمَیسِرِ قُل فِیھِمَا اِثمٌ کَبِیرٌوَّ مَنَا فَعُ لِلنَّاسِ ’ وَ اِثمُھمَا اَکبَرُ مِن نَّفعِھِمَا (البقرۃ:۲۱۹) ‘‘پوچھتے ہیں:شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے ’ اگرچہ ان میں لوگوں کیلئے کچھ منافع بھی ہیں ’ مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔’’

            قمار ’ کسینو اور لاٹری یہ سب ‘ میسر’ کی مختلف اقسام ہیں ۔ میسر اس لیے حرام ہے کہ فریقین کے درمیان معاہدہ کی بنیادی وجہ ہی ان کے ذہنوں میں غیر متناسب (یا غیر متوازن) فائدہ کی غلط امیدیں ہوتی ہیں۔

(۵) روپیہ ’ قابل خرید یا قابل فروخت شے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اسلام میں ربا (سود) حرام ہے اور یہ اس لیے حرام ہے کہ روپیہ کوئی چیز نہیں ہے کہ جس کی کوئی قیمت ہو ۔ روپیہ تبادلہ جنس کا ذریعہ اور قیمت کا اسٹور ہے۔

(۶) کسی بھی فریق کے لئے نا انصافی یا استحصال کا عنصر تجارت میں شامل نہیں ہونا چاہیے ۔ اسلام تمام فریقین کے لیے انصاف کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ کسی فریق کو کسی نا منصفانہ شرط کو قبول کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ کسی فریق کی لاعلمی اور ضرورت کا نا جائز استحصال کرنا چاہیے۔

 (تجارت کی بنیاد غلط پروپیگنڈے یا دھوکہ با زی پر نہیں رکھی جانی چاہیے ۔ حدیث میں اسے ‘غش’ یا ‘مصراۃ’ کہا گیا ہے اور اسے قطعاً غیر قانونی قرا ر دیا گیا ہے ۔

(۸) تاجر اور خریدار کے درمیان غیر ضروری واسطے نہیں ہونے چاہییں ۔ استعمال کنندہ تک اشیاء کم سے کم واسطوں کے ذریعے پہنچنی چاہییں۔ احادیث میں نبی کریم ﷺ نے صارف اور تاجر کے درمیان غیر ضروری واسطہ بننے سے منع فرمایا ۔

              مختصر یہ کہ ہر وہ تجارتی معاہدہ جس میں خود غرضی ’ لالچ ’ اجتماعی مفادات کا نقصان ’ دھوکہ ’ سٹہ بازی ’استحصال ’ روپے کی تجارت وغیرہ شامل ہوں ’ اسلام کی روح کے خلاف ہے اور اس لیے نا جائز ہے ۔

کیا نیٹ ورک مارکیٹنگ غلط ہے؟

              مذکورہ بالا بیشتر عوامل نیٹ ورک مارکیٹنگ میں کارفرما ہوتے ہیں ۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ کو حلال قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ……

۱) یہ جائز تجارتی طریقوں میں سے کسی بھی طریقے سے میل نہیں کھاتا۔ یہ سادہ بیع نہیں ہے کیونکہ فروخت کنندہ اپنی ڈاؤن لائن میں ہونے والی تجارت کا بھی منافع وصول کرتا ہے ’ یہ شراکت بھی نہیں ہے کیونکہ منافع شراکت داروں میں تناسب کے ساتھ تقسیم نہیں ہوتا اور یہ کمیشن بھی نہیں ہے کیونکہ صرف راست فروخت پر کمیشن نہیں دیا جارہا ہے ۔

۲) اس تجارت میں اشیاء بھاری قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں ۔ مارکیٹنگ پیرامڈ(مخروط) کی کئی سطحوں پر اس کے بغیر رقم ادا نہیں کی جا سکتی ہے ۔ لیکن ایک عام گاہک پر یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ و ہ عام بازاری قیمت پر اشیاء خرید رہا ہے اور یہ بیان کیے گئے اس اسلامی اصول کے خلاف ہے کہ ہر گاہک کو صاف ستھرے انداز میں لین دین کے تمام پہلوؤں سے واقف کرنا چاہیے ۔

۳) اس تجارت میں ایک قسم کا جوا (میسر) بھی شامل ہوتا ہے ۔ جوے کی ممانعت دراصل اس بناء پر آتی ہے کہ فریقین کے دلوں میں ایسے منافع کی غلط امید پیدا کر دی جاتی ہے جس کا حق اسے حاصل نہیں ہوتا ۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں رقم کئی ڈاؤن لائنز کے ذریعہ جمع کی جاتی ہے تاکہ ایک اپ لائنر کو ادا کی جائے جو‘‘میسر’’ کے متماثل ہے ۔

۴) فراڈ(فریب ) بھی اس تجارت کا ایک حصہ ہے ۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں باقاعدہ منصوبہ کے تحت بڑ ی تعداد میں ڈ اؤن لائنر کو نقصان اٹھانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے ۔ اس ناقابل نظر انداز نقصان کے بغیر ایک اپ لائنر زیادہ منافع حاصل کر ہی نہیں سکتا ۔ یہ حقیقت ایک عام گاہک سے چھپائی جاتی ہے ’ جو اس امید میں اپنی رقم تجارت میں لگاتا ہے کہ وہ مستقبل میں اس قدر رقم کما سکتا ہے جتنا کہ ایک اپ لائنر کما رہا ہے ۔ لیکن یہ درحقیقت کبھی ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ وہ اپ لائنر کے بعد اس تجارت میں شامل ہوا ہے ۔ اس لیے وہ کبھی بھی اس پرامڈ میں اعلیٰ ترین منافع کا مقام حاصل نہیں کر سکتا ۔

۵) ڈاؤن لائنرز کو واضح اطلاع دیے بغیر ان کی رقم غیر عادلانہ طورپر اپ لائنر کو ادا کر دی جاتی ہے یہ عدل کے اصول کے خلاف ہے جو اسلامی شریعت کا بنیادی مقصد ہے ۔

۶) اگرچہ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں اشیاء فرخت کی جاتی ہیں لیکن کوئی بھی فرد اصل اشیاء کی خرید و فر و خت میں دلچسپی نہیں رکھتاہے اور یہ عام تصور ہے کہ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں دراصل اشیاء کی حیثیت تجارتی سہارے کی ہے ۔ لوگ دراصل رقم اور منافع میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اس میں اصل تجارت رقم (پیسوں) کی ہوتی ہے جس کی اسلامی شریعت میں اجازت نہیں ہے ۔

۷) غلط پروپیگنڈہ اس قسم کی تجارتی حکمت عملی کا اہم جز ہوتا ہے ۔ افواہوں کی ترسیل اور ایک دوسرے کو ترغیب کے ذریعہ عام افراد کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ اس تجارتی اسکیم سے ہر شخص مساوی منافع حاصل کر سکے گا ۔ جب کہ اس اسکیم کو تیار ہی اس طرح کیا جاتا ہے کہ اوپری مقام پر چند افراد (اپ لائنر) ’ لاکھوں ڈاؤن لائنرز کو نقصان میں مبتلا کرتے ہوئے اپنا منافع وصول کریں ۔

۸) نیٹ ورک مارکیٹنگ کا بنیادی اصول غیر اخلاقی ہے ۔ تجارت کے معروف طریقوں میں اشیاء کو صارف تک پہنچانے کے لیے کئی طرح کی تجارتیں وجود میں لائی جاتی ہیں جن کے ذریعے یا تو اشیاء فروخت کی جاتی ہیں یا خدمات فر اہم کی جاتی ہیں ۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں منافع ان اپ لائنرز کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جو ڈ اؤن لائنرز کے ذریعے ادا کی گئی بھاری قیمت کا ایک حصہ وصول کرتے ہیں ۔ اسے منافع بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اپ لائنرز کا اشیاء کی فراہمی میں کوئی رول نہیں ہوتا ہے۔ یہ عام ڈ سٹری بیوشن(تقسیم) کے نظام سے یکسر مختلف ہے جہاں درمیانی آ دمی گاہک کو اشیاء کی فراہمی کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔

۹) یہ اسکیم لالچ’ مادہ پرستی اور کم محنت میں زیادہ کمانے کی خو اہش پر قائم ہے ۔ یہ تمام غلط جذبات ہیں جو نیٹ ورک مارکیٹنگ کے ذریعے پروان چڑھتے ہیں ۔ اشیاء کا معیار یا اشیاء کی کارکردگی کے بجائے ایک عام گاہک کے لیے اشیاء کی خرید کا محرک لامحدود رقم کے حصول کی خواہش ہوتی ہے ۔ زیادہ رقم کے لالچ کے باعث کئدفعہ عام گاہک ایسی اشیاء بھی خریدنے کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے ’ جس کی اسے قطعاً ضرورت نہیں ہوتی اور اس کے لیے عبث ہوتی ہیں۔یہ کنزیومرزم (صارفیت) کی بدترین شکل ہے اور اشیاء کی فروخت کا ایسا ذریعہ ہے جس کی بنیاد دھوکہ دہی ہے ۔

۱۰) اس میں اشیاء تیار کرنے والے اور ایک عام صارف کے درمیان لامحدود درمیانی واسطے ہوتے ہیں ۔ عام تجارت کے برخلاف ’ جس میں اس قسم کے درمیانی واسطوں کو بازار کا دباؤ خود کم کر دیتا ہے ’ ایم ایل ایم کی منصوبہ بندی ہی اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک چھوٹے علاقے میں بھی اشیاء آخری خریدار تک پہنچنے کے لیے کئی واسطوں کے ذریعے گزرتی ہیں ۔

یہ ایک بڑے منصوبہ کا حصہ ہے

              نیٹ ورک مارکیٹنگ (ایم ایل ایم ) محض ایک سادہ تجارتی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ دراصل ایک بڑی سرمایہ دارانہ اسکیم کا حصہ ہے جو اسلامی نظام معیشت کی روح کے خلاف ہے ۔ اس اسکیم کا بنیادی مقصد تمام دنیا کی دولت کو چند طاقتور ہاتھوں میں مرکوز کر کے ان عالمی طاقتوں کو مضبوط کرنا اور ان طاقتوں کو ہر میدان میں برتری دلانا ہے ۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کے پاس کئی ذرائع ہیں ۔ سود پر مبنی معاشی ادارے ’ کریڈٹ سسٹم ’ سٹہ پر مبنی تجارتی معاملات وغیرہ بڑے ذرائع ہیں جس کا وہ ابھی تک استعمال کر تے آئے ہیں ۔ اس مقصد کے حصول کی جانب ایم ایل ایم ان کی تازہ ایجاد ہے ۔ دوسرے ذرائع کی طرح ایم ایل ایم کے ذر یعے بھی وہ دنیا کے لاکھوں افراد کو اس بات کے لیے آمادہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے حسین خوابوں کے ساتھ (جو اس منصوبے کے مطابق کبھی پورے نہیں ہو سکتے ) اپنے سرمایہ کو اس اسکیم میں مشغول کریں جو صرف اسی لیے تیار کی گئی ہے کہ اس تمام سرمایہ کو چند ٹاپ (اپ) لائنرز کے ہاتھوں میں مرکوز کر دیا جائے ۔ چنانچہ اگر کوئی حقیقت پسندی سے اس خفیہ ایجنڈا اور اس کے پیچھے چھپی سرمایہ دارانہ ذہنیت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ایم ایل ایم نامی اسکیم کئی گنا زیادہ بھیانک نظر آتی ہے ۔ اس لیے یہ اسلام کے پیروکاروں اور ان تمام افراد کی ذمہ داری ہے جو انصاف’ مساوات’ غریبوں اور محروموں کی امداد پر یقین رکھتے ہیں کہ نہ صرف اپنے آپ کو اس قسم کی اسکیموں سے دور رکھیں بلکہ اس قسم کی برائیوں کے خلاف جدوجہد کے لیے آگے آئیں اور یہ اسلامی شریعت کا بنیادی جز ہے ۔

             یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِین بِالقِسطِ شُھَدَاءَ لِلّٰہِ……(النساء:۱۳۵)

‘‘             اے لوگو !جو ایمان لائے ہو انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو۔’’

Sadathusaini@hotmail.com

 بشکریہ:: ہفت روزہ ایشیا لاہور (۹جون ۲۰۰۴ء)