وہ زمانہ اب بیت چکا ہے جب دوزخ کا تذکر ہ سنتے ہی ہم کراہنا شروع کر دیتے تھے اور ٹھنڈے پسینے چھوٹ جاتے تھے ۔ جب مذ ہبی تعلیما ت کے تبلیغی اراکین نے یہ بتا یا کہ جسے ہم خدا تسلیم کر تے ہیں وہ وقت ہے یا خلا ہے یا کچھ خاص قسم کا مر کب یا زمان و مکان کا مشتر کہ اسم ہے اور گنا ہ گاروں کے لیے ایک کیمیائی ردعمل متو قع ہے۔ یہ دورِ جدید کا ایک منطقی مفروضہ ہے لیکن قدیم عقا ئد بھی بہر حال کہیں گہرا ئیوں میں اپنا تاثر چھوڑ جا تے ہیں۔دنیا میں دو ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں آپ بلا خوف و خطر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اوّل یہ کہ آپ ان خوابوں کے بارے میں گفتگو کر سکتے ہیں اور دوم یہ کہ آپ نے طوطے کی زبان سے کیا سنا۔ خواب اور پرندے دونوں نا قابل اعتماد گواہان ہیں اور آپ کی قوتِ سما عت آپ کی قوتِ گو یا ئی پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی۔
میں نے ایک خواب دیکھا جس کے بارے میں میں بتا تا ہوں۔یہ خواب تنقید سے ما ورا قرار دیا گیا ہے۔ اس کا تعلق قدیم، قابل احترام اور فیصلہ کن نظر یے سے ہے۔
جبرا ئیل نے اپنا کھیل کھیلا، صورِ اسرا فیل کی صدائیں کائنا ت کے ذرے ذرے میں سرائیت کر چکی تھیں اور ہم سب میں سے جنہوں نے احکامات کی پیروی نہیں کی ان کو جواب دہی کے لئے طلب کیا گیا ہے۔ میں نے ایک جانب پیشہ وارانہ افرادکا ایک گر وہ دیکھا جو کہ پاک کالے رنگ کے لباس میں ملبوس تھے جن کی پشت پر بٹن نصب تھے ۔ لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے حقیقی مراتب کے حوالے سے کچھ مسا ئل کا سامنا ہے اور ہم میدان ِ حشر میں آخری فیصلے کے منتظر تھے۔ایک فر شتہ میرے اوپر اڑ تا ہوا آیا اور مجھے اپنے با ئیں پر کی مدد سے اپنی گرفت میں لے لیا۔ مجھے اس جانب لے گیا جہاں دولت مند اور خوش حال دکھائی دینے والے چند انسانوں کا ایک گر وہ فیصلے کا منتظر تھا۔‘‘کیا تم اس گر وہ سے تعلق رکھتے ہو؟’’فر شتے نے اس گر وہ کی جانب اشارہ کرتے ہو ئے مجھ سے پوچھا۔‘‘وہ کون ہیں؟’’میں نے جواباً کہا‘‘یہ وہ لوگ جو ۔۔۔۔۔۔’’فر شتے نے میرا بغور جا ئزہ لیتے ہو ئے کہا۔ لیکن یہ غیر متعلقہ مکالمہ بلا وجہ بات کی طوا لت کی جانب جا رہا ہے۔ مجھے اصل کہا نی کی طرف آنا چاہیے۔
ڈولسی ایک سپر سٹور میں ملا زمت کر تی تھی۔ وہاں وہ مصالحہ جات، موٹر گاڑیاں اور چھوٹی چھوٹی نمائشی چیزیں فروخت کر تی تھی۔ ہفتے کے اختتام پر ڈولسی کو صرف چھ ڈالر کا معاوضہ ادا کیا جاتا اور پو ری تنخواہ کی رسید پر دستخط لے لیے جا تے تھے۔ بقیہ تنخواہ کاغذات پر ڈولسی کے نام ہونے کے باوجود کسی اور کے اکا ؤنٹ میں منتقل کردی جاتی تھی۔ سٹور میں ملا زمت کے پہلے سال کے دوران ڈولسی کو ہفتہ وار پا نچ ڈالر کا معاوضہ ادا کیا جاتا تھا۔ یہ جاننا ایک نصیحت آمیز عمل ہو گا کہ وہ اس قلیل سی تنخواہ میں کیسے گزر بسر کرتی تھی۔‘‘آپ کو کوئی فر ق نہیں پڑتا؟’’بہت خوب!غالباً آپ ایک کثیر رقم میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ چھ ڈالر ایک کثیر رقم ہے۔ میں آپ کو بتاؤں گا کہ وہ ہفتہ وار اداکی جا نے والے چھ ڈالر کے معاوضے میں کیسے گزر بسر کر تی تھی۔
ایک دو پہر چھ بجے ڈولسی نے اپنے سر پر رکھی ہوئی ٹوپی پر پن لگا تے ہوئے اپنی دوست کو بتا یا جوکہ بائیں جانب کھڑکی اس کا انتظار کر رہی تھی۔‘‘میں آج شام پگی سے ملا قات کے لیے کھانے پر جارہی ہوں۔’’‘‘تم کبھی نہیں گئی؟’’اس کی دوست نے رشک آمیز لہجے میں کہا‘‘تم بہت خوش قسمت ہو۔پگی ایک زبر دست انسان ہے۔ وہ ہمیشہ لڑکیوں کو شاندار جگہوں پر لے کر جاتا ہے۔گرینڈ کلب جیسی جگہ۔ جہاں شاندار لوگ اور شاندار مو سیقی کا اہتمام ہو تاہے۔ تم اس کے ساتھ اچھا وقت گزارو گی ڈولسی۔’’ڈولسی بہت تیزی سے کھڑکی کی جا نب بڑھی۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور اس کے نازک گلابی رنگ کے رخسار زندگی کی ایک خوبصورت صبح کی نوید سنا رہے تھے۔ اس کے بٹو ے میں گزشتہ ہفتے کی تنخواہ کے بچے ہوئے چند سکے تھے۔ سکے چھنکے تو اس کے چہرے میں مزید نکھا ر پیدا ہو گیا۔ گلیوں میں لوگوں کا ہجوم ٹھا ٹھیں مار رہا تھا۔ برا ڈوے کے بر قی قمقمے جگمگا رہے تھے۔ سینکڑوں، ہزاروں یا شاید لا کھوں انسان سڑکوں پر دوڑتے چلے جارہے تھے۔ ڈولسی اپنے بدن پران گنت آنکھوں کا بو جھ محسوس کر تی چلی جارہی تھی۔ رات کے وقت رنگ و نور سے لبریز ہو جانے والا مخصوص علاقہ آہستہ آہستہ بیدار ہو رہا تھا۔ اس مخصوص علاقے کی گلیاں پھول کی پنکھڑیوں کی مانند کھلنا شروع ہو گئی تھیں۔ڈولسی اس سٹور کے پاس جا کر رُک گئی۔ جہاں پر اشیاء انتہائی سستے داموں فروخت کی جارہی تھیں اور اس نے پچاس سکوں کے عوض ایک لیس کالر خریدا ۔ حالانکہ اس نے اس رقم سے پندرہ سکے رات کے کھانے کے لیے،دس سکے ناشتے اور دس ہی سکے دوپہر کے کھانے کے لیے مختص کیے تھے۔اور شراب کے لیے بھی پانچ سکے الگ کرنے تھے۔ایک ایسی قسم کی شراب جس کی وجہ سے اس کے رخسار ایسے محسوس ہوتے جیسے دانت میں درد ہو اور کافی وقت ایسے ہی رہتے۔ شراب نوشی ایک اسراف تھا لیکن خوشیوں کے بغیر زندگی کی کیا حقیقت ہے؟ڈولسی ایک مزین کمرے میں رہائش پذیر تھی۔ یہ کمرہ عام گھروں کے کمروں سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ اس کے مکینوں کے بھوکے سو جانے کی کوئی فکر نہیں ہو تی تھی۔ڈولسی اپنے کمرے کی جانب بڑھی جوکہ بھورے پتھروں سے بنی ہوئی عمارت کے مغربی جانب واقع تیسری منزل پر ہے۔ اس نے گیس کو روشن کیا۔ سا ئنس دان بتا تے ہیں کہ ہیرا سخت قسم کی جا نی پہچانی چیز ہے۔
امیر طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین ایک ایسے مر کب کے بارے میں جانتی ہیں جس کے مقابلے میں ہیرا ہیچ دکھا ئی دیتا ہے۔ وہ گیس بر نر کی نوک میں اس کو رکھتیں۔ ایک شخص کر سی پر کھڑا ہوتا اور اس کو کھودیتا۔یہاں تک کہ اس کی انگلیاں سرخ اور چکنا چو ر ہو جائیں۔ایک بالوں میں لگانیو الی پن بھی اسے مٹا نہیں سکتی تھی۔ اس لیے ہمیں اجا زت دی جائے کہ اس کو جامد شے قرار دیا جائے۔ڈولسی نے گیس روشن کی اور مو م بتی کی ایک چوتھائی کے برابر روشنی میں ہم کمرے کا بغور مشاہدہ کرسکتے تھے۔ایک چھوٹا پلنگ، ایک میز، ایک کرسی، ڈریسنگ ٹیبل پر سجی ہوئی ایک لپ سٹک اور پاوڈر کا ڈبہ،دیوار پر آویزاں سال رواں کا کلینڈر، بستر پر پڑی کتاب جس کے سر ورق پر جلی حروف میں‘‘آپ کے خواب اور ان کی تعبیریں ’’تحریر تھا۔ نمک اور کالی مرچ کی شیشیاں اور پلاسٹک کے بنے چند پھل جو ایک سرخ ریشمی ڈوری سے بندھے ہوئے تھے۔ آئینے کے عین اوپر وسط میں ایک فو جی کی تصویر آویزاں تھی۔ فوجی مردانہ وجاہت کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا۔ ڈولسی اکثر اوقات تنہائی کے عالم میں اس سے محو گفتگو رہتی اور اسے عرف عام میں جنرل صاحب کے نام سے پکارتی تھی۔دیوار کی دوسری جانب ہیلمٹ پہنے ہوئے اوکلا ہان کا پلا سٹر آف پیرس سے بنا مجسمہ تھا۔اس کے قریب ہی ایک آتش افروز تتلی پر حملہ آور ہوتے ہوئے بچے کی غیر طبعی روغنی تصویر موجود تھی۔ یہ فنونِ لطیفہ کے حوالے سے ڈولسی کاآخری مشاہدہ تھا۔ لیکن اس نے اس کو کبھی بھی پریشان نہیں کیا تھا۔
پگی اسے سات بجے لینے آئے گا جب تک کہ وہ تیار ہو تی ہے ہم منہ دوسری جانب موڑ کر پگی کے بارے میں گپ شپ کر سکتے ہیں۔ کمرے کے لیے ڈولسی نے ہفتہ وار دوڈالر کرایہ ادا کیا تھا۔ دوران ہفتہ اس کے ناشتے کی قیمت دس سکے تھی۔ لباس زیب تن کرنے کے بعد اس نے گیس کی آنچ پر کافی اورانڈہ بنایا۔ اتوار کی صبح کو باٹلی کے ریسٹو رنٹ میں اس کی دعوت بچھڑے کے قیمے اور انناس کے ساتھ شا ہانہ اندا ز میں کی گئی۔ جس کی لاگت بشمول ویٹر کی ٹپ کے پینتیس سکے تھی۔ نیویارک کا شہر لوگوں کو فضول خرچی کی طرف راغب کرنے کے کئی مواقع فراہم کرتا ہے جبکہ ڈولسی نے اس روز دن اور رات کا کھانا ریسٹورنٹ کے سٹور ڈیپارٹمنٹ میں بالتر تیب ساٹھ سکے اور 1.05پاونڈ کی لاگت سے تناول فرمایا۔شام کے اخبارات اور اتوار کے مقالہ جات جن میں سے ایک ذاتی کالم کے لیے تھااور دوسرا صرف ورق گر دانی کے لیے۔ان کی قیمت بالتر تیب چھ اور دس سکے تھی۔ اس لحاظ سے کل قیمت4.76پاونڈ ہے۔ اب اس نے پو شاک بھی خریدنی ہے اور۔۔۔۔!اور کپڑوں کی بابت حیران کن سودے بازی اور سوئی دھاگوں کی مدد سے پیش کیے جانے والے معجزات کے بارے میں سنا ہے۔ لیکن میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں۔ میں اپنے قلم کو اس وقت تک رائیگاں سمجھتا ہوں جب تک کہ میں ڈولسی کی زندگی میں عورت سے متعلقہ تمام خوشیا ں شامل نہ کردوں۔
پگی کو صرف ایک لفظ کی ضرورت ہے۔ جب لڑکیوں نے اس کو اس کے نام سے پکارا تو سوا ئن جیسے نیک اور شریف النفس خاندان پر ایک کراہت آمیز داغ نمودار ہوا۔ پرانی نیلگوں ہجے کرنے والی کتاب کا تین الفاظ پر مشتمل سبق پگی کی سوانح عمری سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا بدن فر بہ ہے۔ اس میں چوہے جیسی روح،چمگادڑ کی جبلت اور بلی جیسی اعلیٰ دما غی پا ئی جا تی ہے۔ وہ نفیس لباس زیب تن کر تا اور مہنگے کھانے کھاتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بھوک اور افلاس زدہ لوگوں کو فی الفور پہچان لیتا ہے۔ خاص طور پرلڑکیوں کے بارے میں اس کا اندازہ کبھی غلط ثابت نہیں ہوا۔ وہ کسی بھی لڑکی کو دیکھ کر بتا سکتا ہے کہ اس نے کتنے دِنوں سے چائے اور روٹی کے سوا کچھ نہیں کھا یا۔ وہ اکثر اوقات مہنگے با زاروں اور ڈیپارٹمنٹل اسٹور وں میں گھومتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور وہ محروم اور مجبور لڑکیوں کو عالی شان جگہوں پر کھانے کے لیے مدعو کر تا ہے۔ مختصراًیہ کہ وہ پگی ہے۔اس کے بارے میں طول کلامی نہیں کروں گا۔ میرا قلم آگے بڑھنے سے انکاری ہو جا تا ہے۔
سات بجنے میں دس منٹ ابھی باقی تھے۔ ڈولسی نے ایک شکن آلود آئینے میں اپنا
جائزہ لیا۔ اس کا عکس اس کو طمانیت بخش رہا تھا۔ بغیر شکن کے گہرے نیلے رنگ کا لباس بہت عمدہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی خاکستری سیاہ پنکھ والی ٹوپی، تھوڑے غلیظ دستانے یہاں تک کہ کھانا بھی خود انکار ی کی نمائندگی کر تے تھے۔ڈولسی فی الوقت سب کچھ فراموش کر چکی تھی۔ اسے صرف یہ یاد تھا کہ وہ ایک حسین وجمیل لڑکی ہے اور زندگی کے روشن پہلو اس پر عیاں ہونے والے تھے۔ اسے اس سے قبل کسی امیر اور خوشحال آدمی نے اپنے ساتھ وقت گزارنے کی دعوت نہیں دی تھی۔ اب وہ بھی ان جگہوں کے لطف سے آشنا ہونے والی تھی۔جہاں فقط مالدار لوگ جاسکتے تھے۔ لڑکیاں بتا تی ہیں کہ پگی بہت شاہ خرچ ہے۔ دعوت میں زبردست ڈنر، موسیقی،عمدہ پوشاک زیب تن کیے ہوئے لڑکیوں کے جبڑوں میں جنبش پیدا ہو ئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سے یہ سب دوبارہ پو چھا جا ئے گا۔ایک کھڑکی میں اسے گہرے نیلے رنگ کا سوٹ دکھائی دیا۔ جیسے وہ جانتی تھی کہ ہفتے میں دس کے بجائے بیس سکوں کی بحث سے خریدا جا سکتا ہے۔ اوہ!یہ تو بر سوں چلے گا لیکن ساتویں ریو نیو میں استعمال شدہ اشیاء کی فروخت والا سٹو ر بھی تھا جہاں۔۔۔۔۔کسی نے دروازے پر دستک دی۔ ڈولسی نے دروازہ کھولا تو سامنے مالک مکان کو معنی خیز انداز میں مسکراتے پایا۔‘‘کوئی تمھیں ملنے آیا ہے۔’’اس نے آنکھ جھپکا کر کہا‘‘اپنا نام مسٹر ڈکنس بتا رہا ہے۔’’جو لوگ پگی سے ذاتی طور پر آشنا نہیں تھے وہ اسے اس کے
اصلی نام سے بلاتے تھے۔ڈولسی اپنا رومال اٹھانے کے لیے گھو می اور اچانک ٹھٹک گئی اس نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا لیا۔ آئینے پر نظر پڑتے ہی اسے محسوس ہوا کہ وہ پریشانی میں ہے اور سوسال تک سوئی رہنے والی پری کی طرح اب آہستہ آہستہ آنکھیں کھول رہی ہے۔آئینے کے اوپر سے وہ اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ جو اسے کسی بھی کام کا حکم دے سکتا تھا اور کسی بھی کام سے روک سکتا تھا۔۔۔۔جنرل صاحب ۔۔۔۔ آج جنرل صاحب کے دل کش چہرے پر اضطراب کی جھلک نمایاں تھی۔ وہ ناراض لگ رہے تھے۔ڈولسی کچھ دیر تک جنرل کے چہرے کی طرف بغور دیکھتی رہی اور پھر رو ہا نسی آواز میں گو یا ہوئی۔
‘‘میں نہیں آسکتی۔۔۔کہہ دو میری طبعیت ناساز ہے۔۔۔یا کچھ بھی کہہ دو۔۔۔میں نہیں جاؤں گی۔’’
جوں ہی دروازہ بند ہوا ڈولسی بستر پر منہ کے بل لیٹ کر رونے لگی۔ وہ کافی دیر تک روتی رہی پھر خاموش ہو کر وقفے وقفے سے ہچکیاں لینے لگی۔جنرل اس کا اچھا دوست تھا۔ وہ ڈولسی کے لیے بے مثال مر د کی سی حیثیت رکھتا تھا۔ ڈولسی اکثر اس سے خوابوں میں محوِ گفتگو رہتی۔ اس کے ساتھ دنیا کی سیر پر روانہ ہونے کے لیے جنرل کھڑا نظر آئے گا۔ وہ قدم بڑھائے گا تو اس کے سینے پر سجے بہادری کے تمغے سرشار کر دینے والی آواز میں چھنکتے جائیں گے۔ اس جھنکار کی آواز میں وہ ڈولسی کا بازو تھام کر اسے اس کی تنہائی اور گھٹن سے نجات دلا ئے گا۔ ایک لمحے کے لیے گلی میں جنرل کے تمغے کی جھنکار اس کی سما عتوں سے ٹکرائی۔ لیکن جب اس نے کھڑکی کھول کر دیکھا تو پڑوس میں رہنے والا ایک لڑکا بجلی کے کھمبے سے لوہے کی زنجیر کو ٹکرا رہا تھا۔ وہ بخوبی اس سے واقف تھی کہ یہ سب اس کے ذہن کا فتور ہے۔ اسے معلوم تھا کہ جنرل اس وقت جاپان میں ترکوں کی اپنی فوج کی قیادت کر رہا ہے۔ اور وہ کبھی بھی اس کے دروازے پر دستک نہیں دے گا۔ اس کے باوجود جنرل کی ایک نظر نے پگی کو بھگا دیا تھا۔ کم از کم ایک رات کے لیے اسے شکست سے دو چار کر دیا تھا۔
جب اس کے آنسو خشک ہو گئے تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ نیا لباس اتار کر اس نے گھر کے سادے کپڑے پہنے اور اس دوران اپنے پسندیدہ نغموں کے بول دہراتی رہی۔
اسے کھانے کی کوئی بھی خواہش نہیں رہی تھی۔ اچانک آئینے میں اسے اپنی ناک کے کونے پر ایک ننھا سا سرخ داغ نظر آیا۔ کچھ لمحے کے لیے وہ اس داغ کو بغور دیکھتی رہی۔ یہ ایک بے ضرر دھبہ ہے۔ اس نے کندھے اچکائے اور سرخ دھبے سے لا تعلق ہو گئی۔ پھر اس نے کمرے میں موجود واحد کرسی پر براجمان ہو کر اپنی گود میں تاش کے پتے پھیلا دیے اور اپنی قسمت کا حال معلوم کرنے کے لیے کھیل میں محو ہوگئی۔ ‘‘خوفناک، ناجا ئز بات!۔’’اس نے زور دار آوز میں کہا‘‘اور میں نے اسے کبھی بھی کوئی ایسا لفظ نہیں کہا یا ایسی نظر سے نہیں دیکھا کہ وہ یہ سب سوچنے پر مجبور ہو جائے۔
نو بجے کے قریب ڈولسی نے چائے بنائی اور ڈبے میں موجود بسکٹ نکال کر مزے سے نوش کرنے لگی۔ ایک بسکٹ اس نے جنرل کی طرف بھی بڑھایا لیکن جنرل اسے یوں دیکھتا جیسے اہرام مصر، اپنی آنکھوں کے سامنے منڈلاتی تتلی کو دیکھتے ہوں گے ۔۔۔اگر صحراؤں میں تتلیوں کا وجود ممکن ہوا۔‘‘۔۔۔۔۔نہیں کھانا مت کھاو۔ ’’ ڈولسی نے اٹھلا کر کہا اور جنر ل کی طرف بڑھا یا ہوا بسکٹ واپس اپنے منہ میں ڈال لیا۔‘‘اور یہ تم اس طرح گھورنا بند کر دو جنرل صاحب۔اگر میری طرح تمھیں بھی نصف معاوضہ ملتا تو میں دیکھتی ہوں کہ تم کتنا اتراتے ہو۔‘‘چھ ڈالر میں ایک ہفتہ کے لئے گزارہ کرسکتے ہو!۔’’ڈولسی کے لیے جنرل سے بد تمیزی کرنا کوئی اچھی علامت نہیں تھی۔ یہ ناقابل معافی تھا۔ اس نے ہمیشہ یہ سو چا تھا کہ وہ ہنری ہشتم ہے اور اسے دلی طو رپر قبول نہیں کر تی تھی۔
ساڑھے نو بجے ڈولسی نے آئینے پر رکھی ہوئی تصویر پر آخری نگاہ ڈالی۔ بتی بجھا ئی اور بستر پر دراز ہو گئی۔ تنہائی اور کرب کی زندگی میں جنر ل کو شب بخیر کہنا اتنا سہل نہ تھا۔ یہ کہانی اصل میں کہیں بھی اختتام پذیر نہیں ہوئی۔اس کا بقیہ حصہ بعد میں آتا ہے۔ اس لمحے جب پگی ایک بار پھر ڈولسی کو اپنے ہمراہ لے جانے کی دعوت دیتا ہے اور اس دفعہ وہ معمول سے زیادہ مضطرب اور تنہائی کا شکار ہے اور اسے پیٹ بھر کر کھانا کھائے کئی روز بیت چکے تھے اور جنرل صاحب دوسری جانب محو نظارہ ہیں۔ ۔۔اور۔۔۔۔’’
میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ میں نے ایک خواب میں اپنے آپ کو روزِ محشر ایک گر وہ کے قریب کھڑا پا یا تھا۔ اس گر وہ کے تمام افراد نہایت ہی خوشحال نظر آرہے تھے۔ اسی اثناء میں ایک فرشتے نے مجھے بازو سے پکڑ کر کہا۔‘‘کیا تم ان میں سے ایک ہو؟۔’’
‘‘یہ کون لوگ ہیں؟۔’’میں نے استفسار کیا
‘‘یہ؟’’فرشتے نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔‘‘یہ وہ لوگ ہیں جو مجبور اور افلاس زدہ لڑکیوں کو ملازمت دے کر انہیں نصف معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ کیاتم بھی ان میں سے ایک ہو؟’’
‘‘نہیں۔نہیں۔تمھاری لافانی زندگی کی قسم۔ میں ان میں سے نہیں ہوں۔’’میں نے گھبرا کر جواب دیا۔‘‘مجھ سے تو صرف ایک یتیم خانے کو آگ لگ گئی تھی اور ایک نابینا فقیر کو اس کی دولت کی خاطر قتل کر دیا تھا۔’’
بشکریہ : او ہنری ،، ترجمہ طیبہ بتول