حافظ محمد یوسف سدیدی ہمارے عہد کے خطاّطِ بے بدل تھے۔ آپ کی پیدائش اپریل۱۹۲۷ء کو ضلع چکوال کے موضع بھون میں ہوئی(۱)۔ ۱۹۳۹ء میں آپ چکوال سے لاہور تشریف لے آئے اور مسجد وزیر خاں میں قاری محمد طفیل سے حفظِ قرآن کی تکمیل کی۔ حافظ محمد یوسف کو بچپن ہی سے فنِ خطاّطی سے خاص لگاؤ تھا۔ لاہور آمد کے بعد آپ نے لاہوری طرزنستعلیق کے بانی عبدالمجیدپروین رقم سے ملاقات کی اور منشی محمد شریف لدھیانوی سے خط نستعلیق میں اصلاح لینا شروع کی۔ منشی محمد شریف لدھیانوی ’ خطاّط قرآن’ مولانا محمد قاسم لدھیانوی کے صاحبزادے تھے۔ ۱۹۴۴ء میں حافظ یوسف پشاور چلے گئے ۔ جہاں ایم ایم شریف آرٹسٹ سے ایک سال تک ڈرائنگ اور فن مصوری کی تحصیل کی(۲)۔
۱۹۴۵ء میں آپ نے شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے مزار کے کتبے خطِ ثلث وکوفی میں لکھے۔ اسی سال آپ نے خطاطی کا نادر نمونہ یوں پیش کیا کہ چاول کے ایک دانے پر مکمل سورۂ فاتحہ مع بسم اللہ لکھی اور آخر میں اپنا نام بھی لکھا۔ ۱۹۴۶ء میں جمعیت علمائے ہند نے دہلی میں ایشیا کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس موقعہ پر آپ نے پمفلٹ‘‘باقت الابتھاج’’ انتہائی خوبصورت عربی میں لکھا(۳)۔ اس موقع پر کانفرنس کے مہمانِ خصوصی مولانا ابوالکلام آزاد نے حافظ یوسف سدیدی کی خطّاطی کو بے حد پسند کیا اور انہیں ان الفاظ میں داد دی‘‘تم نے عربی رسم الخط کا حق ادا کر دیا ہے(۴)۔’’
تقسیم سے قبل حافظ یوسف دہلی میں تھے ۔ دہلی میں حافظ یوسف اور ان کے دوست معروف خطاط’ رضی الدین دہلوی نے بڑی محنت سے دہلی کی قدیم عمارات پر موجود خطاطی کی نقلیں(Tracing) اتاریں(۵)۔ تقسیم کے بعدحافظ یوسف دوبارہ لاہور آگئے اور اس عہد کے صاحبِ کمال نستعلیق نگار تاج الد ین زریں رقم(۶) سے رشتہ تلمذ قائم کیا۔ یہ رشتہ ۱۹۵۵ء میں زریں رقم کے انتقا ل تک برقرار رہا۔ اسی دوران ۱۹۴۸ء میں آپ روزنامہ ‘‘امروز’’ سے بحیثیت خوش نویس وابستہ ہو چکے تھے ۔ روزنامہ ‘‘امروز’’ کی خط ثلث میں لکھی گئی خوبصورت لوح حافظ یوسف ہی کے قلم کا شاہکار ہے جو ہمیشہ امروز کی پیشانی پر شائع ہوئی ۔‘‘ امروز’’ کے اس وقت کے مدیر اعلیٰ اور معروف ادیب مولانا چراغ حسن حسرت نے اس لوح کو بے حد پسند کیا اور حافظ یوسف کو اس پر خوب داد تھی (۷)۔ ۱۹۴۸ء میں‘‘ امروز’’ سے ’ جو رشتہ قائم کیا وہ ۱۹۸۱ء میں آپ کی ریٹائر منٹ پر ختم ہوا۔ حقیقت میں یہی زمانہ حافظ محمد یوسف کے فنی سفر کا سنہری دور ہے۔ اس دوران ہزارہا کتب و رسائل کے سرورق لکھے’ پتھروں پر خطاّطی کی ’ پوسٹر لکھے’ اخبارات کی خوبصورت سرخیاں اور کتابوں کی کتابت کی اور خود کو ماہر خطاّط کی حیثیت سے منوایا ۔
۴۹ ۱۹ء میں چینی وزیر اعظم چو این لائی کی آمد پر ‘‘امروز’’ نے خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر حافظ یوسف نے اخبار کی سرخیوں کوخطِ کوفی میں اس انداز سے لکھاکہ بظاہر چینی خط معلوم ہوتا ہے’ مگر عبارت اردو میں ہے۔ اس منفرد انداز خطاطی پر چینی وزیر اعظم نے بھی آپ کی تعریف کی(۸)۔ ۹۷۶ ۱ء میں جب لاہور میں قطب الدین ایبک کے مزار کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا تو ماہرینِ تعمیرات نے تجویز کیا کہ مقبرے کی دیواروں پر بھی وہی خط ہو’ جو قطب مینار’ دہلی پر موجود ہے۔ یہ کام انتہائی مشکل تھا ’ کیوں کہ قطب مینار پر موجود خط متروک ہو چکا ہے اور مروّجہ خطوط سے خاصا مختلف ہے۔ اس کام کی خاطر حافظ یوسف کی خدمات حاصل کی گئیں۔ آپ نے اس مشکل کام کونہایت خوبصورتی اور سلیقے سے کر دکھایا۔ ایبک روڈ ’ انار کلی ’ لاہور میں قطب الدین ایبک کے مزار کی چاروں دیواروں پر بیرونی جانب یہ خطاطی آج بھی دعوت نظارہ دیتی ہے۔
حافظ محمد یوسف ساری زندگی فن خطاطی میں’ خوب سے خوب تر کی جستجو میں کوشاں رہے۔ آپ نے خط نستعلیق و نسخ تو مقامی اساتذہ سے سیکھے مگر عربی خطوط مثلاًکوفی ’ ثلث ’ دیوانی ’ رقعہ وغیرہ کیلئے عالم اسلام کے عظیم خطّاطوں کے کام کا گہرائی سے مطالعہ کیا(۹)۔ آپ نے عظیم ترک خطاط عبدالعزیز الرفاعی کے قطعات کو نمونہ تقلید بنایا۔ اس کے علاوہ معروف مصری خطاط سیّد ابراہیم ’ محمد حسنی اور عراق کے ہاشم محمد بغداد ی کے کام کو بھی آپ بے حد پسند کرتے تھے۔ اخیر زمانے میں آپ کی شدید خواہش تھی کہ ترکی کے عہد جدید کے عظیم خطاط استاد حامد الآمدی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کریں اور ان سے عربی خطوط میں اصلاح لیں مگر یہ خواہش پوری نہ ہو سکی کیوں کہ حافظ محمد یوسف کے سعودی عرب پہنچنے کے کچھ ہی عرصہ بعد مئی۱۹۸۲ء میں استاد حامد کا استنبول میں تقریباً بانوے برس کی عمر میں انتقال ہو گیا (۱۰)۔
حافظ یوسف ذاتی طور پر انتہائی خوش اخلاق اور شریف الطبع انسان تھے۔ کسی کی دل آزاری آپ کو پسند نہ تھی’ اگر کوئی شخص کتابت کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کرتا تو فنی طور پر کمزور پہلوؤں میں سے بھی کوئی نہ کوئی خوبی کا پہلو تلاش کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرتے’ پھر انتہائی شفقت سے اس کی اصلاح کرتے۔ آپ نے بے شمار مساجد کے لیے خطّاطی کا کام کیا’ مگر کبھی اجرت نہ لی’ اسی طرح دینی مدارس’ مقابر و مزارات ’ قومی اداروں’ فلاحی کاموں’ علما’ طلبہ اور دیگر احباب کا کوئی کام کرتے تو اصرار کے با وجود اجرت نہ لیتے۔
یوں تو حافظ صاحب کی خطّا طی بے شمار مقا مات ’ کتب و رسائل اور اخبارات میں منتشر ہے’ مگر ان میں سے چند مشہور مقامات یہ ہیں:لاہور میں مینار پاکستان ’ مزارِ اقبال’ مزارِ قطب الدین ایبک ’ داتا دربار ’ مسجد شہداء’ جامع مسجد منصورہ ’ مسلم مسجد(چوک انار کلی)’ جامعہ اشرفیہ ’ دارالعلوم حزب الا حناف’ نیز چیرنگ کراس مال روڈ کے چوراہے پر سنگِ مر مر کی سلوں پر اردو ’ فارسی اور عربی عبارات آپکے خط کی عمدہ مثالیں ہیں۔ کراچی میں واقع جامع مسجد گلزار حبیب سولجر بازار ’ میں بھی آپ نے خطّا طی کی ۔ جن معروف ڈائجسٹوں کی الواح حافظ صاحب نے لکھیں ان میں:سیّارہ ڈائجسٹ ’ سب رنگ ’ سسپنس’ آنچل’ نیارخ اور حجاب شامل ہیں۔
‘‘امروز’’ سے ریٹائر منٹ کے بعد۱۹۸۱ء میں حافظ یوسف جدہ چلے گئے تھے’ جہاں ایک اشتہاری کمپنی ‘‘مروہ’’نے آپ کی خدمات حاصل کر لی تھیں۔ ۱۹۸۲ء میں آپ کو حکومتِ پاکستان نے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ دیا’ جو آپ کے صاحبزادے حافظ بہارِ مصطفی نے حاصل کیا۔ جولائی ۱۹۸۵ء کو جدہ سے ریاض جاتے ہوئے آپ روڈ کے ایک خطرناک حادثے سے دوچار ہوئے۔ اس کے نتیجے میں آپ کے ماتھے پر کئی چوٹیں آئیں اور یادداشت بھی محو ہو گئی۔ اب حافظ یوسف خطاطی نہیں کر سکتے تھے’ مگر اہل قرابت کا بیان ہے کہ اس حالت میں جب کبھی قرآن پڑھنے کو کہا جاتا تو فوراً تلاوت شروع کر دیتے ۔ اللہ کا پاک کلام لکھنے والی انگلیاں اپنا کام چھوڑ چکی تھیں’ مگر اسی کلام کی تلاوت کرنے والی زبان اب بھی اپنا کام کر رہی تھی (۱۱)۔ اس دوران مسلسل علاج جاری رہا ’ مگر خاطر خواہ افاقہ نہ ہوسکا۔ ۱۹۸۶ء کو آپ کی طبیعت اچانک بگڑ گئی ۔ حیات مستعار کی گھڑیاں پوری ہو چکی تھیں۔ اگلے روز آسمانِ خطاّطی کا یہ روشن آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔ تدفین ساندہ کلاں لاہور کے قبرستان ’ دھوپ سڑی میں ہوئی (۱۲)۔ حافظ یوسف کے انتقال پر ان کے قدیم ساتھی اور ہمارے ملک کے نامور خطاط حضرتِ نفیس الحسینی نے انہیں یوں خراج عقیدت پیش کیا۔
یوسفِ وقت ترے ہجر میں ہم روتے ہیں
اہل دل روتے ہیں اربابِ قلم روتے ہیں
تیرے شاہکار ترستے ہیں تری صورت کو
تیرے ہاتھوں کے تراشیدہ صنم روتے ہیں
دیکھ کیا حال ہوا ہے ترے دیوانوں کا
روتے ہیں اور بصد رنج و الم روتے ہیں۔(۱۳)
حافظ محمد یوسف کے لائق شاگرد ’ معروف خطاط جناب خالد جاوید یوسفی نے اپنے استاد کی خطّا طی کے نمونوں پر مشتمل خوبصورت مرقع‘‘جمالِ یوسف’’ کے عنوان سے ترتیب دیا ہے’ جس کی اشاعت مستقبل قریب میں متوقع ہے۔
حافظ صاحب کے صاحبزادے حافظ بہارِ مصطفےٰ بھی ایک صاحب فن خو شنویس ہیں اور آج کل عجائب گھر لاہور سے بحیثیت خطاط وابستہ ہیں۔
(ماخذ۔ تذکرہ خطاطین)
(۱) ‘‘حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم’’از سیّد انور حسین نفیس رقم’ رسالہ سویرا لاہور’ ص۱۱’ س ن ۔ حافظ محمد یوسف سدیدی کے حالات زندگی اور کارناموں کے بارے میں یہ سب سے زیادہ مستند دستاویز ہے۔ حافظ صاحب کا یہ مفصل انٹرویو سیّد نفیس الحسینی مدظلہ نے حافظ صاحب کی سعودی عرب روانگی سے کچھ ہی عرصے قبل لیا تھا۔ انٹرویو کے بعد نفیس شاہ صاحب کا تاثراتی مضمون بھی شامل ہے۔
(۲) ایضاً
(۳) ایضاً
(۴) ‘‘استاد محترم حافظ محمد یوسف سدیدی’’ از محمد خالد جاوید یوسفی ’سہ ماہی ادبیات اسلام آباد ’ جلد۴’ شمارہ۱۳’۱۴’ ۱۵ س ن ’ ص ۳۴۷۔
(۵) یہ بات رضی الدین دہلوی مرحوم نے راقم الحروف سے بیان کی تھی ۔
(۶) تاج الدین زرّیں رقم ۱۱’اکتوبر۱۹۰۶ء کو لاہور میں پیدا ہوئے ۔ بچپن ہی میں آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیاچنانچہ حقیقی ماموں حاجی نور احمد نے آپ کو اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا ۔ حاجی نور احمد منشی فضل الٰہی مرغوب رقم کے شاگرد اور مولانا احمد علی لاہوری ؒ کے مرید با صفا تھے زریں رقم نے آپ کے آگے زانوئے تلمذتہ کیا اور سات آٹھ سال تک مسلسل خطّا طی کی تعلیم حاصل کی۔ اس زمانے میں مجتہد خطِ نستعلیق عبد المجیدپرویں رقم کا آفتاب شہرت نصف النہار پر تھا ۔ زریں رقم نے بھی طرز پروینی ہی کی پیروی کی ۔ اور نستعلیق جلی لکھنے میں مہارت کا ثبوت دیا ۔ ۱۹۳۶ء میں آپ نے‘‘ مرقع زرّیں’’ کے عنوان سے خطِ نستعلیق سیکھنے والوں کیلئے کراسہ تحریر کیا ۔ مرقع زریں لاہوری طرز نستعلیق سیکھنے کے لیے آج بھی بہترین کتاب ہے۔ ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۸ء تک زریں رقم خو شنویس یو نین کے صدر رہے۔ اس دوران آپ نے خو شنویسوں کے حقوق اور ان کی بہتر اجرتوں کیلئے کئی اسفار کیے اور دن رات کوششیں کیں۔ آخری زمانے میں جناب زریں رقم کی تمام تر توجہ قطعات لکھنے کی جانب مائل ہو گئی تھی ۔ اس دوران میں آپ نے تقریباً دو سو قطعات لکھے ۔ آپ کی خواہش تھی کہ ان قطعات کو ‘‘مرقع تاج’’ کے عنوان سے شائع کرائیں مگر یہ تمنا تشنہ تکمیل رہ گئی ۔ انتقال سے کچھ عرصہ آپ کو اختلاج قلب کا عارضہ لاحق ہو گیااور اسی مرض میں۱۳’ جون۱۹۵۵ء کو آپ نے وفات پائی ۔ تدفین قبرستان میانی ’ لاہور میں ہوئی ۔ سیّد نفیس الحسینی مدظلّہ نے‘‘خوابگہ خطّا ط الملک’’ تاریخ کہی جو لوحِ مزار پر کندہ کی گئی ۔
تاج الدین زریں رقم کے معروف تلامذہ میں حافظ محمد یوسف سدیدی ’ صوفی خورشید عالم خورشید رقم کے علاوہ مشہور ادبی رسالے ‘‘نقوش’’ کے بانی و مدیر محمد طفیل شامل ہیں۔
(۷) ‘‘حافظ محمد یوسف سدیدی ’’ از سیّد انور حسین نفیس رقم ۔
(۸) ‘‘ایک منفرد دو نامور خطاط۔ ایک با کمال شخصیت’’ از مجاہد الحسینی’ روزنامہ امروزلاہور’ ہفت روزہ اشاعت ۱۷’اکتوبر ۱۹۸۶ء۔
(۹) ‘‘حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم’’ از سیّد انور حسین نفیس رقم ۔
(۱۰) ‘‘حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم’’ از سیّد انور حسین نفیس رقم۔
(۱۱) بہ روایت حافظ بہارِ مصطفی پسر حافظ محمد یوسف سدیدی ۔
(۱۲) عجیب اتفاق ہے کہ محمد یوسف نامی پاکستان کے دو عظیم خطاّط انتقال سے قبل سڑک کے حادثے سے دو چار ہوئے۔ پہلے محمد یوسف دہلوی جو کراچی میں ایک تیز رفتار گاڑی کا شکار ہوئے اور بعد میں حافظ محمد یوسف سدیدی جدہ سے ریاض جاتے ہوئے سڑک کے حادثے سے دوچار ہوئے۔
(۱۳) ‘‘حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم’’از سیّد انور حسین نفیس رقم۔