جزیرہ ماریشس بحر ہند میں مڈغاسکر کے مشرق میں ۷۵۵ کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً دو ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ سب سے پہلے یہاں عرب آئے لیکن طوفانوں کی کثرت کے باعث وہ اسے اپنا مسکن نہ بنا سکے اور ان کی آمد کا مقصد یہاں آباد ہونا بھی نہ تھا وہ تو صرف تجارت کی غرض سے آئے تھے۔ عربوں کے بعد ۱۵۱۰ء میں واسکوڈے گاما کے عہد میں یہاں پرتگالیوں نے قدم رکھا اور اسے ‘‘ڈرسکاین’’ کا نام دیا۔ پھر پرتگالی بھی یہاں نہ ٹھہر سکے۔
پھر ۱۵۸۹ء (۱۰۶۰ ہجری) میں ولندیزی یہاں آئے۔ انہی لوگوں نے اپنے ایک بڑے کے نام پر اس کا نام ماریشس رکھا۔ ۱۷۱۰ء میں ولندیزی بھی اسے چھوڑ کر چلے گئے اور پھر فرانسیسی یہاں داخل ہوئے جنھوں نے اسے ۹۵ برس تک آباد کیے رکھا۔ پورٹ لوئس شہر فرانسیسیوں ہی نے آباد کیا تھا اور یہی شہر بعد میں جزیرے کا دارالحکومت بنا۔ ۱۸۱۰ء میں انگریزی استعمار نے فرانسیسیوں کو یہاں سے بے دخل کر دیا اور یوں ۱۹۶۸ء تک جزیرہ آزاد رہا لیکن عملاً یہ آزادی اس وقت مکمل ہوئی جب اس کے جمہوریہ ہونے کا اعلان کیا گیا تاہم یہ کامن ویلتھ کا بدستور رکن رہا۔ اس کی دستوری زبان انگریزی ہے اور سکہ روپے ہے۔ ۳۰ روپے ایک ڈالر کے برابر ہیں۔ جزیرہ ماریشس کی معیشت کا انحصار گنے کی کاشت پر ہے۔
ماریشس کی آبادی ۱۲ لاکھ ہے۔ مسلمانوں کی تعداد دو لاکھ دس ہزار ہے جن کی اکثریت ہندوستانیوں پر مشتمل ہے۔ کل آبادی کے لحاظ سے مسلمان آبادی کی شرح اٹھارہ فیصد ہے۔ ماریشس کے بیشتر باشندے ہندو ہیں۔ تاہم نصرانی، یہودی، بدھ اور سکھ اقلیتیں بھی موجود ہیں۔
مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد دارالحکومت ‘‘پورٹ لوئس’’ میں آباد ہے۔ یہاں مسلمان کل آبادی کا ۶۰ فیصد ہیں۔ اس لحاظ سے اس شہر کو اسلامی شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ۱۵ مساجد ہیں۔ "Star"کے نام سے ایک اسلامی اخبار نکلتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی نشریات میں دو گھنٹے روزانہ اسلامی نشریات کو دیے جاتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر ہفتہ وار پروگرام بھی دیا جاتا ہے اور دیگر مخصوص مواقع پر بھی خصوصی نشریات کا اہتمام ہوتا ہے۔
مسلمانوں کو دینی اور مذہبی لحاظ سے وسیع آزادی حاصل ہے۔ ملک بھر کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں دو سو سے زائد مساجد ہیں۔ مسلمانوں کو سرکاری ملازمت اور سیاسی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے کے مواقع حاصل ہیں اور بعض افراد اس سے بھر پور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ چند اسلامی تنظیمیں بھی اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں مشغول ہیں۔ حکومت میں مسلمان ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ تین وزراء مسلمان ہیں اور ملک کا نائب صدر بھی مسلمان ہے۔
مسلمان اپنے کچھ مطالبات منوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ عید کے دونوں مواقع پر سرکاری چھٹی کا حق انھیں حاصل ہے، کام اور ڈیوٹی کے دوران میں نماز پنج گانہ و جمعہ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ مسلمان بچوں کے لیے گورنمنٹ کے پرائمری اور مڈل اسکولوں میں عربی زبان کی تعلیم کا اہتمام ہے۔
حکومت مدارس، مساجد اور حجاج کے مسائل میں بھی تعاون کرتی ہے۔ مسلمان از خود بھی مسلمان کمیونٹی کی اجتماعی کفالت کی غرض سے مختلف تنظیموں کی صورت میں سرگرم عمل ہیں۔ زکوٰۃ صدقات جمع کرکے انھیں فقراء و یتامیٰ اور بیوگان و مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
حصول تعلیم میں مسلمان دیگر مذاہب سے بہت آگے ہیں۔ ملک بھر میں ۱۲۵۰سکول ہیں جو حکومت کی امداد سے چل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ دینی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے مخصوص ادارے بھی ہیں۔ پرائمری اور مڈل اسکول بھی ہیں اور حفظ قرآن کریم کے ادارے بھی ہیں اسی طرح مساجد کے تحت کچھ حلقے بھی قائم ہیں جو مسلمان بچوں کو عربی، زبان، قرآن کریم اور اسلام کی بنیادی تعلیم دے رہے ہیں۔
ماریشس میں اسلام اٹھارہویں صدی کے انگریزی استعمار کے عہد میں ہندوستان کے راستے داخل ہوا۔ یہاں کے سب سے پہلے مسلمان، ماہی گیر، تاجر اور بعض بیرونی افراد تھے۔ یہاں اسلامی بیداری کا حالیہ سبب وہ نوجوان ہیں جو بیرونِ ملک اسلامی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرکے واپس لوٹے ہیں۔ ۸۰ء کی دہائی سے لے کر تاحال یہ لوگ دعوت دین میں مصروف ہیں۔ انھوں نے عربی زبان کی تعلیم و اشاعت کے لیے وسیع پیمانے پر کوششیں کی ہیں انہی کوششوں کے نتیجے میں حکومت کے پرائمری اور مڈل اسکولوں میں مسلمان طلبہ کے لیے عربی زبان کو شامل کیا گیا ہے۔
(ماخذ ہفت روزہ ‘‘المجتمع’’ کویت، شمارہ ۱۶۶۵)