بزنس، انجنیئرنگ اورتعمیرات کے حوالے سے جناب پرویز ہاشمی کا نام یقینا ایک اہمیت کا حامل ہے لیکن جو لوگ پرویز صاحب کو ان کے درد دل ، ان کی سچائی ، ان کی محنت ،ان کے علمی ذوق اور دینی لگن کے حوالے سے پہچانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان حوالوں سے ان کا نام اور بھی زیاد ہ اہم اورمنفرد ہے۔زیر نظر انٹرویو بھی انہی حوالوں سے لیا گیا ہے اور ہمارا احساس یہ ہے کہ اسے پڑھ کر ہمارے قارئین بھی اپنے علمی جذبوں میں نئی توانائی اور دینی ذوق میں ایک نئی امنگ اور حرارت محسوس کر یں گے۔
س۔ ہم بات آپ کے دینی پس منظر کے حوالے سے شروع کرتے ہیں۔
ج۔ دین یا دینی علم کے حوالے سے میں ذاتی طور پر بھی بالکل نا بلد تھا اور خاندانی پس منظر بھی کوئی نہ تھا۔ نماز روزے سے بھی کوئی تعلق نہ تھامگر ایک چیز کے بارے میں ہمیشہ حساس رہتا تھا اوروہ یہ تھی کہ مجھے جھوٹ نہیں بولنا۔
س۔ گویا آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ؟
ج۔ میں یہ دعوی تو نہیں کرتا۔ کبھی کبھار تو آدمی ملوث ہوہی جاتا ہے مگر شعوری طور پر اورجانتے بوجھتے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ البتہ چھوٹے موٹے جھوٹ چلتے رہتے تھے مثلاًکوئی آگیا تو کہہ دیا کہ گھر پہ نہیں ہیں۔ اس قسم کی چیزیں تو ہوتی تھیں مگر میں نے بڑی کوشش کی کہ یہ بھی نہ ہوکیونکہ میرا ضمیر اس پہ بھی ٹوکتا تھا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ کسی کے ساتھ وعد ہ اور کمٹمنٹ کے بارے میں بھی بہت محتاط رہتا تھا۔ یہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کا دین کہتا ہے بلکہ میرے اندر یہ چیز تھی کہ انسان کو ایسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
س۔ گویا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ خیر اور شر کا شعور انسان کے اندر ودیعت ہوتا ہے؟
ج۔ جی اب تو یہ بات بڑی واضح ہے ۔اس وقت یہ احساس تو نہ تھا کہ قدرت نے یہ شعور میرے اندر رکھ کر مجھے اس دنیا میں بھیجا ہے البتہ یہ احساس ضرور تھا کہ یہ کوئی چیز ہے ضرور۔
س۔ ایک عام آدمی پر یہ بات کیسے واضح کی جاسکتی ہے؟
ج۔ بہت آسان ہے۔ تین سال کے بچے کو دو ٹافیاں دیں کہ بیٹا ایک خود کھالینا اور ایک بہن کو دے دینا ۔ وہ دونوں خود کھالیتا ہے ۔ تو آپ اس کو کہتے ہیں کہ تو نے بے ایمانی کی ہے؟ تو وہ کبھی پلٹ کر یہ نہیں پوچھتا کہ بے ایمانی کیا چیز ہے؟ بلکہ شرمند ہ سا ہوتا ہے اور کوئی تاویل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے یعنی تصور اس کے اندر موجود ہے ۔البتہ اس کو بیان کرنے میں اس کو دیر لگتی ہے ۔ زبان پر عبور ہو گا تو انگریزی میں کسی اور طریقے سے بیان کر ے گا اور عربی اردومیں کسی اور طرح سے ۔
س۔ دین کے ساتھ تعلق کا آغاز کیسے ہوا؟
ج۔ یہ تو میں نے عرض کر دیا کہ دینی حوالے سے میرا کوئی خاندانی پس منظر نہ تھا۔ میری والدہ کا انتقال 89میں ہوا۔ بہن بھائیوں نے کہا کہ ہم قرآن پڑھ کر بخشیں گے تو میرے دل میں بھی خیا ل آیا کہ مجھے بھی والدہ کے لیے کچھ کرنا چاہیے اور یہ فطری بات ہے کہ انسان والد ہ کے لیے جذباتی ہوتا ہی ہے۔اب مسئلہ یہ تھا کہ مجھے قرآن تجوید کے ساتھ پڑھنا نہیں آتا تھا البتہ مجہول توپڑھ ہی لیتا تھا۔میں نے یہ سوچا کہ میں اگر translationپڑھ لیتا ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے ؟یعنی قرآن ہی پڑھنا ہے نا ؟یہ سوچ کر میں نے ان دنوں قرآن کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا۔تقریباً تیس بتیس دن تھے۔ جوں جوں میں پڑھتا گیا میرے اوپر دو چیزیں واضح ہوتی گئیں۔ ایک یہ کہ جس چیز کو ہم نے دین بنایا ہوا ہے قرآن مجید میں اِس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔یعنی دین کا جو تصور ، جو شکل میرے ذہن میں تھی قرآن اس سے خالی تھا۔ہمارے خیال میں نذر نیاز کا اہتمام، مزاروں پہ جانا،ختم دلوانا، اورمرنے جینے کے حوالے سے بہت سی رسومات سب دین تھیں۔مگر قرآن مجید میں کہیں بھی ان کا ذکر نہ تھا ۔ دوسری چیز جو میرے ذہن میں آئی اور جس نے مجھے بڑا پریشان کر دیاوہ یہ تھی کہ قرآن کے ہردوسرے صفحے پریہ لکھا تھا کہ یہ زندگی عارضی ہے ۔ میں نے غور کیا تواحساس ہوا کہ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔یعنی جو آدمی بھی اس دنیا میں آیا ہے وہ بہرحال رخصت ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی قرآن میں ایک اور بات بھی تھی کہ انسان کی اصل زندگی موت کے بعد شروع ہو گی اوروہاں انسان کو ایک ایک بات کاحساب دینا ہو گا۔میں نے اس بات پر غورشروع کیا تو معلوم ہوا کہ یہ بات تو میرے علم میں ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے ۔میں نے پھر خودسے یہ سوال کیا کہ واقعی اس بات پر یقین بھی ہے ؟تو میرے اندر سے جواب آیا کہ تواس پر یقین نہیں رکھتا ۔کیونکہ اگر اس پر یقین ہوتا تو پھر اِس عارضی زِندگی کے حوالے سے انداز ہی بالکل مختلف ہوتا۔ اس کی وجہ ہے کہ کوئی آدمی بھی بے وقوف نہیں ہوتا۔اگر وہ اس عارضی زندگی کے لیے اتنی کوشش کرتا ہے تو جو اصل اور ہمیشہ کی زندگی ہے تواس کے لیے کیوں پلاننگ اورکوشش نہ کر ے گا ۔نہیں کرتا، تو صاف واضح ہے کہ اسے یقین حاصل نہیں ہے ۔ یقین بھی ہو مگر کوشش نہ ہو تو یہ کامن سینس کے خلاف ہے ۔ یہ بات میں نے کسی مولوی صاحب سے نہیں سیکھی بلکہ میرے اند ر سے یہ بات ابھری۔ جوں ہی مجھے یہ محسوس ہوا کہ اصل زندگی تو موت کے بعدہے تو قدرتی طور پر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ پھر اس کے بارے میں تیاری کرنی چاہییے۔چنانچہ اس نہج پر میں نے مزید غورشروع کر دیا۔
س: یعنی دین کی طرف آپ کے سفر کا آغاز ہی قرآن مجیدسے ہوا؟
ج: جی بالکل ۔میری چونکہ کوئی مذہبی بیک گراؤنڈ نہ تھی اس لیے میرے لیے کامن سینس سے کام لینا آسان تھا۔وہ افراد جو ایسے خاندانوں میں پلتے بڑھتے ہیں جو مخصوص مذہبی فکر کے حامل ہوتے ہیں انکے لیے بندشیں زیادہ ہوتی ہیں ۔
س: یعنی وہ زیاد ہ الجھے ہوتے ہیں؟
ج۔ جی ہاں۔ غیر مذہبی انسان کی ذہنی سلیٹ صاف ہوتی ہے ۔ اس کے تعصبات بہت کم ہوتے ہیں۔اس نے مذہب کے حوالے سے کوئی محلات نہیں بنائے ہوتے ،چھوٹی موٹی جھونپڑی کوئی ہو بھی تو اسے گرانا آسان ہوتا ہے ۔
س۔تو اس کے بعد آپ کی سوچ کے دھارے نے کیا رخ اختیار کیا؟
ج۔ میری تمام تر توجہ اس سوال کے جواب پرمرکوز ہو گئی کہ کیا واقعتا مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے؟ اگر ہے تو کس قسم کی ؟ کیا واقعی مجھے اللہ کے حضور جوابدہ ہونا ہے ؟
س۔ یہ مرحلہ کتنی دیر جاری رہا؟
ج۔ چار سے پانچ ماہ یہ سفر جاری رہا۔سچی بات تو یہ ہے کہ میرا دل تو اس وقت یہ چاہ رہا تھا کہ کسی طریقے سے میں اس چیز کو غلط ثابت کر سکوں ۔ کیونکہ صحیح ثابت ہونے کی صورت میں مجھے اپنی زندگی کا انداز تبدیل کرنا پڑنا تھا ۔
س: غورو فکر کا یہ سفر اکیلے ہی طے کیا یا دوست بھی شریک سفر رہے؟
ج: بالکل اکیلے۔ اس مرحلے میں میں نے ساری چیزیں سوچنا شروع کیں ۔ کائنات کیا ہے؟ زمین کیاہے؟انسان کیا ہے ؟کہاں سے آیا ہے ؟کہاں جانا ہے؟ لوگ کیا بیان کرتے ہیں اس بارے میں؟ ۔ان موضوعات پر ہرممکن کتابیں جمع کی اور مطالعہ شروع کر دیا۔ان دنوں رات دن میر ا یہی کام ہوتا تھا۔دوستوں سے بھی اسی کے بارے میں بحث ہوتی تھی ۔یہ تو یقین تھا کہ موت اٹل ہے لیکن اس پربحث تھی کہ آیا دوبارہ زندگی ممکن ہے؟
س۔ مسئلہ کیسے حل ہوا؟
ج۔ اس بات نے حل کیا کہ اگر میں کسی کے بارے میں یہ مانتاہوں کہ اس نے ہی یہ چیز پہلی بار بنائی ہے تو پھر میں یہ کیوں نہیں مانتا کہ وہ جس نے پہلی بار یہ چیز بنائی ہے وہ دوسری بار کیوں نہیں بنا سکتا؟ دوسری بار بناناتو زیادہ آسان ہوتاہے۔قرآن مجید بھی اس کو بیان کرتا ہے۔ اسی حوالے سے میں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ ہمارے ایک دوست مجھے کہتے تھے یار یہ جو تم ہر وقت آنے والی زندگی کی بات کرتے رہتے ہو یہ کوئی irrational سی چیز ہے۔ rational نہیں لگتی اس سلسلے میں آپ کے ساتھ بیٹھ کے بات ہو گی مگر آپ کے پاس پانچ چھ گھنٹے ہونے چاہئیں۔ تو میں نے ان سے کہا ٹھیک ہے جب آپ کے پاس ٹائم ہوگا بتا دیجیے گا۔اس وقت ہم سنٹرل پوائنٹ بنا رہے تھے۔( سینچری ٹاور کلمہ چوک فیروز پور روڈ لاہور کے بالکل دوسری طرف ایک بلڈنگ ہے سنٹرل پوائنٹ) ایک دن ان کا فون آیا کہ وقت ہے آپ کے پاس؟ میں نے کہا بالکل آجائیے۔تو یہ صاحب آگئے ۔ انہوں نے کہا اچھا بات چیت شروع کرتے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا اس سے پہلے کہ ہم گفتگو کا آغاز کریں میں آپ سے دو تین questionپوچھنا چاہتا ہوں ۔ اس کے بعدہم گفتگو کر تے ہیں ۔ انہوں نے کہا پوچھیے۔میں نے ان سے کہا کہ آپ اس وقت کس بلڈنگ میں بیٹھے ہیں ؟ انہوں نے کہا جی سنٹرل پوائنٹ میں ۔ میں نے کہا یہ کس نے بنائی ہے ؟ انہوں نے کہا آپ نے بنائی ہے میں نے کہا ،اگر میں کہوں کہ میں اسے دوبارہ بنالوں گاتو یہ عقلی ہے غیر عقلی ؟تو انہوں نے کہا جی آپ نے ایک دفعہ بنائی ہے آپ دس دفعہ بنالیں گے۔ اس سے بہتر بنا لیں گے ۔ میں نے پوچھا کہ اس کائنات کو کس نے بنایا ہے ؟ کہنے لگے جی اللہ نے۔ میں نے کہا اگر وہ کہتا ہے کہ میں اس کو دوبارہ بنالوں گا تو یہ عقلی ہے یا غیر عقلی ہے؟؟تو چار پانچ گھنٹے کی ساری بحث ختم ہوگئی ۔
میں نے ان سے کہا کہ ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے یہ تو آپ نے مان لیا کہ میں نے پہلی دفعہ سنٹرل پوائنٹ بنایا، میں دوبارہ بھی بنا سکتا ہوں۔ مگر مجھے دوبارہ بنانے کی آخر ضرورت کیا ہے ؟کہنے لگے ہاں یہ بات تو ہے بتائیں اللہ تعالیٰ کو کیا‘ مصیبت ’پڑی ہے دوبارہ بنانے کی ؟ چونکہ ان کا بیک گراؤنڈ گاؤں کاتھا اس لیے میں نے کہا کہ آپ نے گاؤں میں عام طور پر بڑے بڑے چودھری دیکھیں ہوں گے اور انہیں اپنے مزارعوں پر ظلم کرتے بھی دیکھا ہو گا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ان بیچاروں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔جاگیردار ساری عمر عیش کرتا ہے اور یہ بیچارہ عمر بھر جوتے کھاتا رہتا ہے۔ اب دونو ں پچاس سال بعد مر جاتے ہیں۔میں نے کہا میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ اگر آپ خدا ہوتے تو کیا مرنے کے بعد آپ ان دونوں کو برابر کر دیتے ۔برابر کی زندگی عطا کرتے؟کہنے لگے یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں تو اس جاگیردار کو اسکی کرتوتوں اور ظلم کا صحیح مزہ چکھاتا۔ میں نے کہا کہ خدا بھی یہی کہتا ہے ۔اس لیے دوبارہ بنانیکی عقلی ضرورت موجود ہے ۔تا کہ ہر ایک کے ساتھ انصاف ہوسکے کیونکہ یہاں انصاف نہیں ہورہا۔ ایک عام آدمی کو کہو کہ تم برابر کرو گے تو وہ کہتا ہے کہ میں تو نہیں کروں گا ۔ اچھا جی تم نہیں کروگے تو اللہ کیوں کر ے گا؟
میں نے کہا اس سے بھی اگلی بات ہے کہ ہم نے دوبارہ بنائے جانے کا امکان بھی تسلیم کر لیا اور ضرورت بھی مگر اس کے باوجود یہ ضروری تو نہیں کہ وہ بنائے ؟اگروہ کہے کہ میں نہیں بناتاتو پھر؟ میں نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو positively اعلان کرنا چاہیے کہ میں یہ کروں گا۔تو میں نے کہا اس اعتبار سے دیکھوتو بتاؤ کہ کونسا ایسا دور ہے جو اس سے خالی ہے؟ اس نے ہر دور میں یہ اعلان کیا ہے ۔ اپنے prophetsبھیجے ہیں اور ان کے ذریعے یہ اعلان کیا ہے کہ بھئی یہ ایسے ہی ہوگا۔
س۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آخرت کو شعور ی اور عقلی پراسس سے ماننا ہی نتیجہ خیز ہو سکتا ہے ؟
ج۔ جی بالکل، اب بھی کوئی دوست آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم توآخرت کو مانتے ہیں تو میں کہتا ہوں خوش قسمت ہیں آپ ،مجھے تو ماننے میں چارپانچ ماہ لگ گئے۔اصل میں مجر د ماننے کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔آخرت پر یقین پوری زندگی میں انقلاب برپا کر دیتا ہے اور انسان کے سفر کا رخ بدل جاتا ہے اگر یہ نہیں بدلتا تو پھر میں تو یہی کہتا ہوں کہ اصل میں اس انسان نے آخرت کو مانا ہی نہیں۔
س۔ آخرت کومانے بغیر غالبا ً کائنات کی پزل کا کوئی حل بھی تو نہیں ہے؟
ج۔ بات ایسے ہی ہے ۔بچوں کو کبھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ بہت سارے ٹکڑے جوڑ کرایک گیم مکمل کر لیتے ہیں۔ exactlyیہ ہی عمل انسان کو بھی کرنا ہوتا ہے خدا اور آخرت کو مانے بغیر اس کائنات اورانسان کے ہونے کے ٹکڑے صحیح فٹ نہیں بیٹھتے ۔میں یہ کوشش نہیں کر رہا تھا کہ میں اس کو صحیح ثابت کروں میں کوشش یہ کررہاتھا کہ کسی طریقے سے without GOD اس انسان اور کائنات کی کوئی explanation تلاش کرلوں ۔ پرابلم یہ ہے کہ یہ جڑتی صرف ایک طریقے سے ہے ۔ اوروہ ہے اللہ کے خالق ہونے پر یقین۔
س۔ آپ نے کامن سینس کی بات بہت کی، یہ آخرت پر یقین میں کس طرح معاون ہوتی ہے؟
ج۔ let's sayکہ آپ مجھے یقین دلا دیں کہ بھئی تمہاری زندگی یہاں لاہور میں ایک ماہ رہ گئی ہے ۔ اس کے بعد تمہیں مستقل طور پر امریکہ جانا ہو گا۔یعنی تم باقی زندگی امریکہ میں رہوگے اِدھر نہیں آسکو گے ۔ تو میں زیادہ کس کے متعلق سوچوں گا ؟ ایسا نہیں ہوگا کہ میں کھاؤں گا نہیں، یاپیوں گا نہیں۔یہ تو سب کچھ ہو گا مگر میرے ذہن پرایک ہی چیزسوار ہو گی اور وہ ہو گا امریکہ امریکہ امریکہ ۔لیکن اگر ساتھ یہ بھی بتا دیا جائے کہ جب تم امریکہ میں اترو گے تو، یا تو کوٹھیاں کاریں جائدادیں مل جائیں گی یا پکڑ کر جیل میں بند کر دیے جاؤ گے ۔اس صورت میں کیا میں امریکہ جانے کا چانس لوں گا؟ہرگز نہیں۔میں تو یہ چانس اسی وقت لوں گاجب سو فیصد ضمانت ہوکہ امریکہ میں جاتے ہی آرام و آسائش میسر آجائے گی ۔اس صورت میں کامن سینس یہی کہتی ہے کہ میں لاہور میں ساراماہ اسی کی تیاری میں گزار دوں گا۔کیونکہ مجھے پتا ہے کہ ایک ماہ ہی کی تو بات ہے ۔ ہماراسب سے بڑا پرابلم یہ ہے کہ جب ہم دین کے اوپر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کامن سینس کو چھوڑ دیتے ہیں ۔
س۔ چلیے ہم پھر وہیں سے بات شروع کرتے ہیں کہ چار پانچ ماہ کے بعد آپ ایک نتیجے تک پہنچے ۔اس کے بعد آپ کے دینی سفر کا اگلا مرحلہ کیا تھا؟
ج۔ چا رمہینے کے غوروخوض سے میں نے اس بات کا پورا یقین حاصل کر لیا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک وجود ہے ۔ اللہ کے وجودکے بغیرمیں نے کوشش کر کے دیکھ لی، معمہ حل نہ ہوا۔اللہ ہی آسمانوں اورزمین کا نور ہے ۔اس کے بغیر واقعتا اندھیرا ہی رہتا ہے۔اگلے مرحلے میں میں نے اس بات کی کوشش شروع کی کہ خد ا کا پیغام یعنی قرآن مجید سمجھنے کی کوشش کروں۔میں نے سوچا کہ اس نے چودہ سو سالوں سے اسے محفوظ رکھا ہوا ہے توایسے ہی تو نہیں محفوظ کررکھا۔ اس کا کوئی مقصد ہے مجھے اسے سمجھنے کے لیے اپنی پوری effortصرف کرنی چاہیے۔
س۔ اس میسج کو سمجھنے کے لیے آپ نے کن کتابوں کاانتخاب کیا؟
ج۔ میر ی کوشش یہ تھی کہ میں اسلام اور قرآن کو کسی خاص فرقے کے حوالے سے نہ سمجھوں ۔وہ جو صرف اپنے مسلک یا فرقے کا عالم ہوتاہے میں اس میں اور کسی پادری یا پروہت میں کوئی فرق نہیں دیکھتا۔اسلام کا عالم ہونے کے لیے آپ کو فرقہ واریت سے بلند ہونا پڑے گا۔
س۔ لیکن آپ تو تفسیریں تلاش کر رہے تھے تفسیروں پر تو فرقوں کی چھاپ ہے؟
ج: جی ہے لیکن میں یہ بھی چاہتا تھا کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے یہ بھی جانوں کہ پہلے لوگوں نے اسے کیسے سمجھا۔ میں اس تاریخ کے اندر کھڑاہو کر سمجھنا چاہتا تھا۔
س۔ تو کس تفسیر سے آغاز ہوا؟
ج: تفہیم القرآن سے ۔ اسی طرح نقوش کا مطالعہ کیا تا کہ سیرت سے آگاہی ہو۔تفہیم کے بعد مولانا وحیدالدین کی تذکیرالقرآن سامنے آگئی پھر امین احسن اصلاحی صاحب کی تدبر القرآن سامنے آگئی۔ اس طرح کی چیزیں میں نے collect کرنا شروع کر دیں۔
س: یہ کس سن کی بات ہے ؟
ج: یہ میں 90 کی بات کر رہا ہوں ۔ اس وقت مجھے کوئی اورکام نہیں تھا ۔ کسی اور چیز میں مجھے دلچسپی نہیں تھی دن رات میرا سوچنا، میری effortاسی پر ہوتی تھی کہ کوئی چیز مجھے ملے تو میں قرآن کو سمجھوں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ سوالات جو میرے ذہن میں تھے ان کے بارے میں اگر کوئی کتاب مل جاتی تو میں سمجھتا کہ خزانہ مل گیا ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مورس بکائی کی کتاب‘‘ دی بائبل ،قرآن اینڈ سائنس’’ کے بارے میں کسی سے سنا تو اس کی تلاش میں لگ کیا۔ وہ اس زمانے میں مل نہیں رہی تھی کہیں سے بھی ۔ تومیں نے کسی سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ قرآن اکیڈمی کی لائبریری میں ہے۔ تو میں گیا قرآن اکیڈمی، انہوں نے کہا کہ ادھر ہی بیٹھ کر پڑھ لیں ۔پھر خیرسفارشوں سے ایک دن کے لیے وہ کتاب لے گیااور جب میں وہ کتاب لے کے نکلا تو یوں لگ رہا تھا کہ واقعتا مجھے کوئی خزانہ مل گیا ہے ۔
س۔ کتابوں سے ہٹ کر شخصیات سے کوئی تعلق نہیں ہوا؟
ج۔ جی اس طرف بھی آتا ہوں۔یہ قدرتی بات ہے کہ آدمی کتابوں تک نہیں رہتا۔ اس کے ذہن میں ہوتا ہے کہ کوئی آدمی ایسا بھی ملے جو زندہ ہو۔اس سے ملوں اس سے بات کروں ۔ مجھے اس زمانے میں کوئی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ بریلویت ،اہلحدیثیت کیا ہے۔ صرف یہ پتا تھا کہ سنی اور شیعہ ہوتے ہیں ۔ ہمارے خاندان میں ایک بزرگ تھے۔ ان سے میں نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ میں کسی عالم سے ملنا چاہتاہوں۔انہوں نے کہا بہت بڑا عالم موجود ہے ۔میں نے کہا کہ وہ کون ہے ؟کہنے لگے ڈاکٹر طاہر القادری۔ دیکھیں اس مرحلے پر سفر کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے ؟ غالباً 90 کے شروع کی بات ہے۔وہ بزرگ کہنے لگے کہ یہ عالم جمعے کا بڑازبردست خطبہ دیتے ہیں۔ میں نے کہا اچھا جی ۔ پروگرام بن گیا ان کے ساتھ ۔ ان کے ساتھ میں خطبہ سننے گیا۔ جب قادری صاحب تشریف لائے تو ان کا آنا مجھے بالکل پسند نہ آیا ۔یہ غالباًماڈل ٹاؤن ایم بلاک میں جہاں ان کا ادارہ ہے، اس کی بات ہے ۔ پانچ سات کلاشنکوف والے اترے، پھر گاڑی سے قادری صاحب اترے ۔ جب انہوں نے تقریر شروع کی تو میں نے نوٹ کیاکہ ان کا سارا stress حضورؐ کی ذات پر تھا جبکہ آپ کے پیغام یعنی قر آن پر کوئی بات بھی نہیں کی۔یہ بات مجھے بڑ ی عجیب سی لگی۔قرآن خود حضورﷺ کی سیرت بیان کرتا ہے۔ حضورﷺ کو بیان کر نا ہو تو بھی قرآن کافی ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ قرآن پہلے تو حضور کا کلام ہے کیونکہ ہم نے تو پہلے ان ہی کی زبان سے سنا ہے ۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جو عالم قرآن کی بات کرتا ہے وہ اصل میں حضور ہی کی بات کرتا ہے۔ وہ جو ہمارے بزرگ تھے انہوں نے کہا کہ آپ ان کی لائبریری کے ممبر بن جائیں۔میں فوراً ہی ممبر بن گیا۔قادری صاحب کی کیسٹیں سنیں ان میں بھی وہی بات تھی۔اس کے بعد شاید میرا خیال ہے کہ nextہی جمعہ تھا ۔ مجھے ان بزرگوں نے کہا کہ قادری صاحب کا ایک عیسائی پادری سے مناظر ہ ہوا ہے وہ آپ ضرور دیکھیں مجھے چونکہ comparitive religion سے بھی دلچسپی تھی اس لیے میں وہ ویڈیو کیسٹ لے گیا۔اس ویڈیو کیسٹ میں جو debate ہورہی تھی اس میں ایک طرف چھ سات christians تھے ۔ دوسری طرف قادری صاحب تھے اور ان کے ساتھ کوئی بارہ تیرہ اور بندے تھے ۔ہال میں enterہوں تو یہ لیفٹ سائڈ کیطرف بیٹھے ہوئے تھے و ہ رائٹ سائڈ کے اوپر۔ لمبا سا ہال تھا۔جس میں حاضرین بیٹھے ہوئے ہیں ۔ تو میں نے جب وہ کیسٹ دیکھی تو ایک تو مجھے یہ احساس ہوا کہ ان کو انگریزی نہیں آتی ۔ دوسرا ان کا جو knowledgeہے comparitive religion کے بارے میں وہ ٹھیک نہیں ہے ۔ احمد دیدات کو اور اس کو compareکریں تو سب حقیقت سامنے آ جائے گی ۔البتہ گفتگو اچھی ہوئی مگر اس کیسٹ کے آخر میں جا کے یکا یک یہ دیکھا کہ سٹائل بالکل تبدیل ہو گیا ہے اور قادری صاحب نے ان حضرات کو کھر ی کھر ی سنائیں۔مجھے یہ بات سمجھنے میں زیادہ غور نہیں کرنا پڑ اکہ یہ حصہ اِنہوں نے بعد میں addکیا ہے۔کیوں ؟اس لیے کہ جب یہ آئے ہوں گے تو لوگوں نے ان کو کہا ہوگا کہ ‘‘لو جی تسی تے اینہاں نوں گالاں کڈیاں ای نئیں’’۔اب آپ کی واہ واہ کیسے ہو گی؟تو یہ حصہ انہوں نے add کیا۔یہ دریافت اس طرح ہوا کہ let's say کیمرہ ہے پادریوں کی طرف تو تب یہ اضافہ نہیں ھو سکتا ۔ کیونکہ آواز face کے ساتھ نہیں آئے گی ؟آواز توقادری صاحب کی آ ہی نہیں سکتی تھی کیونکہ جب کیمرہ اِن کے اوپر ہو گاتو وہ lipsکے ساتھ نہیں ملے گا۔ اب انہوں نے کیا کیا کہ جب کیمرہ جاتا تھا حاضرین کے اوپر ایک دو منٹ کے لیے اس وقت انہوں نے addکیا۔ یہ addition اس طرح معلوم ہوجا تی ہے کہ اسوقت حاضرین سارے کے سارے پادریوں کی طرف توجہ کیے بیٹھے تھے۔ اس کامطلب ہے کہ پادری بول رہے تھے ۔مگر کیسٹ سے آوازقادری صاحب کی آرہی تھی۔ یعنی اصل میں اس وقت پادری بول رہے تھے ان کی آواز بند کی اور ان کی add کی گئی ۔ میں نے جب یہ دیکھاتو میں نے صبح ہی جاکر اپنے مینیجرصاحب سے کہا کہ ہماری تو ممبر شپ فوراًبند کراؤ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو آدمی دین کے حوالے سے فراڈ کر سکتا ہے اس سے آپ کیا ہدایت لیں گے ۔
س۔ اب بھی قادری صاحب سے کوئی تعلق ہے ؟
ج۔ اب میں انکو صرف اس لیے سنتایا پڑھتا ہوں کہ یہ جانوں کہ انہوں نے کیاغلط بات کی ہے۔
س: قادری صاحب کے بعد اگلی شخصیت کون سی تھی؟
ج۔ ہمارے ایک دوست ہیں ۔ یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ پڑھتے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ یار کوئی بندہ نہیں ہے جس سے دین سیکھا جائے۔ اس نے کہا کہ مجھے exactlyتوپتا نہیں ہے لیکن ہمارے ایک اور کلاس فیلو تھے شاہد عبداللہ، ان کے بارے میں ا نہوں نے کہا کہ وہ کسی ڈاکٹر اسرار کے پاس جاتے ہیں اور بہت بدل گئے ہیں۔ شاہد عبداللہ ویسے بڑا الٹا پلٹا آدمی تھا۔تومیں نے کہا کہ‘‘ او کوئی قرآن دی گل وی کردا اے یا ویسے ای ایدھر اودھر دی سٹوریاں بیان کردا رہندا’’۔ کہتے نہیں نہیں وہ درس قرآن دیتے ہیں۔میں ان سے رخصت ہو ا تو سیدھا قرآن اکیڈمی گیا ۔ کیونکہ میں تو تلاش میں تھا؟یہ کوئی دوسرا آدمی تو feelنہیں کرسکتا کہ یہ کیا جذبہ ہے ۔ یہ تو کوئی پیاسا ہی محسوس کرسکتا ہے۔ کہ مجھے کوئی پانی کا نشان ملا ہے تو میں بھاگ کر جاؤں۔ میں وہاں گیا تو ڈاکٹر صاحب بدھ کو درس دیا کرتے تھے وہاں شاہد عبداللہ صاحب جو ہمارے دوست ہیں ان سے بھی ملاقات ہو گئی ۔ اسی زمانے میں رمضان آیا تو ڈاکٹر صاحب نے پورے قرآن کا دورہ کیا۔ یہ غالباً90یا 91 کی بات ہے۔ مجھے یہ خوشی ہوئی کہ کم ازکم ایک آدمی توایسا ہے جو قرآن مجید کو سامنے رکھ کے درس دیتا ہے ۔اورتو کسی کو سنا ہی نہیں ۔ میں انجمن خدام القرآن میں شامل ہو گیاالبتہ تنظیم اسلامی میں نے جوائن نہیں کی۔ یہ کوئی سلسلہ چلا ہے 91کے آخر تک۔ ایک سے ڈیڑھ برس کے قریب باقاعدگی کے ساتھ۔ ہم نے سنٹرل پوائنٹ بنانا شروع کیا تھا 91کے شروع میں ،اس میں ہمارے پاس ایک انجینئررؤف صاحب تھے اور وہ اتفاق سے جاوید صاحب سے متعلق بھی تھے، المورد سے بھی،اور اشراق سے بھی ۔ میری ان سے گفتگو ہوتی رہتی تھی ۔ البتہ جاوید صاحب کا نام سب سے پہلے introduce ڈاکٹر اسرار صاحب نے ہی کروایا تھا اور وہ بھی negetiveانداز میں۔ ایک دفعہ انہوں نے باغِ جناح کے خطبہ میں بیان کیا مولانا اصلاحی کے حوالے سے کہ اب تو ان کی عمر بہت زیادہ ہو گئی ہے اب تو وہ کوئی بد گمانیاں پیدا نہیں کر سکتے مگر ان کے ایک شاگردِ رشیدالبتہ یہ کام کر رہے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کے بیٹے سے پوچھا کہ یہ شاگردِ رشید کون ہیں؟تو انہوں نے ہنس کر کہا ایک ہیں جاوید غامدی ۔خیر اس سے زیادہ ان سے گفتگو ہو نہ سکی۔ رؤف صاحب سے جاوید صاحب کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی میرا تاثر یہ بنا کہ جاوید صاحب بس تنقید ہی کرتے ہیں کیونکہ رؤف صاحب چیزوں کو صحیح بیان نہیں کرپاتے تھے انہوں نے کہا کہ میں جاوید صاحب کو یہاں لے آتا ہوں بات کرلیتے ہیں ۔میں نے کہانہ بھئی جیسے آپ ویسے آپ کے استاد۔انہی دنوں میں نے قرآن اور کائنات کے نام سے ایک کتابچہ لکھا۔اسے پرنٹ کروانے کا مسئلہ تھا اتفاق یہ ہے کہ احسن تہامی رؤف صاحب سے ملنے آئے ۔ رؤف صاحب نے مجھ سے introduceکرایا کہ جی یہ چھپائی کا کام بھی کرتے ہیں ۔ تو میں نے اِن سے کہا کہ یار میرا ایک کتابچہ ہے آپ میرا یہ کام کر دیں ۔تو انہوں نے حامی بھر لی ۔ اس سلسلے میں ہماری ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ وہ پھر میرے گھر تشریف لائے ۔ توانہوں نے مجھے بڑی لجاجت کے ساتھ کہا آپ ایک بار جاوید صاحب سے مل لیں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ یہ جو بڑے بڑے عالم ہیں یہ ایک دوسرے سے مل کر اپنے اختلافات طے کیوں نہیں کر لیتے ؟تہامی صاحب نے کہا کہ جاوید صاحب نے تو ملنے کی کوشش کی تھی مگر ڈاکٹر صاحب نے انکار کر دیا۔ میں نے تہامی صاحب سے کہا کہ مجھے ڈاکٹر اسرار یا جاوید غامدی کے اندر انٹرسٹ نہیں ہے مجھے تو اللہ تعالیٰ کی کتاب کے اندر انٹرسٹ ہے ۔ تو میں نے کہا آپ کے جاوید صاحب جو ہیں یہ تنقید ہی کرتے رہتے ہیں یا قرآن کا بھی کوئی درس دیتے ہیں ۔ کہنے لگے کہ ہر جمعے کو درس ہوتا ہے ۔ میں نے کہا دیکھیں آپ رؤف صاحب کو ایک سال سے مجھ سے گفتگو کر رہے ہیں ۔ ان سے اتنا نہیں ہو سکا کہ مجھے ایک کیسٹ لاکر دے دیں۔ اگلے ہی دن تہامی صاحب ایک کیسٹ سورہ انعام کی لے آئے اوردوسری کیسٹ مختلف مکاتب فکر کے باہمی فرق کے بار ے میں تھی وہ لے آئے۔اگلے ہی دن صبح سیر کے بعد میں قرآن مجید کھول کر بیٹھ گیااور کیسٹ لگا لی ۔ میں نے ان کا پہلا ہی درس سنا تو مجھے احساس ہوا کہ جس چیز کو علم کہتے ہیں وہ اس آدمی کے پاس ہے اور دوسری بات یہ محسوس کی کہ یہ آدمی نیک نیت لگتا ہے ۔دیکھیں ایک درس سننے سے ہی یہ بات پیداہوگئی جب کہ رؤف صاحب ایک سال سے مجھ سے بحث کر رہے تھے مگر مجھے اس بات کے اوپر بھی آمادہ نہیں کر سکے کہ میں ان سے ملاقات بھی کر لوں ۔ اسی دن دوپہرکو میں چلا گیا دارالاشراق، جو کہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا ۔ یہ 91کا آخر ہے ۔ میں نے ان سے کہاکہ جتنی بھی کیسٹس ہیں آڈیو اور ویڈیوآپ مجھے دے دیں۔ ڈاکٹر اسرار کو بھی میں نے کچھ نہیں تو کم از کم پندرہ سو گھنٹے تو سنا تھا۔ اس کے بعد میں نے خود خواہش ظاہر کی انہی رؤف صاحب سے کہ میں جاوید صاحب سے ملنا چاہتا ہوں تو اسی دن شام کو جاوید صاحب اور شہزاد صاحب ہمارے آفس لبرٹی میں آئے۔ ملاقات ہوئی تو ایک تعلق پیدا ہو گیا ۔ اس کے بعد مجھے پتا چلا کہ ان کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب ہیں اوروہ بھی درس دیتے ہیں ۔ اس زمانے میں انہوں نے حدیث کا درس جاری رکھا ہوا تھا ۔
E بلاک کی مسجد میں بالکل regularlyمیں جایا کرتا تھا ۔اسی اثنا میں جاوید صاحب سے کبھی کبھی ملاقات اور گپ شپ بھی ہو جاتی تھی ۔میرے ذہن میں دو سوال تھے۔ ایک یہ کہ یہ تو میں مان گیا کہ یہ زندگی جو ہے اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے لیے شروع کی ہے ۔ مگر اس کے لیے کائنات ہی بنانے کی کیا ضرورت پڑی تھی ؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے تو جوابدہ کون ہے جسم یا روح ؟ جاوید صاحب سے جا کے میں نے سوالات پوچھے شاید اسی دن کا ذکر ہے کہ انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ ہاشمی صاحب کہ ایک تو میرا آپ کا تعلق یہ ہے کہ آپ آتے ہیں نشست سنتے ہیں ، چلے جاتے ہیں۔کبھی کبھی علمی حوالے سے بھی ہماری بات چیت بھی ہوجاتی ہے۔ مگر ہم یہ یہ کام کر رہے ہیں ۔ ایک المورد کا انہوں نے بتایادوسرا اشراق کا ۔انہوں نے مجھے کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس میں شامل ہوجائیں ۔ اور ساتھ ہی یہ کہا کہ نہ یہ پابندی ہے کہ آپ اس میں دس منٹ لگائیں اور نہ یہ پابندی ہے کہ دس روپے خرچ کریں ۔بس جو اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے آپ کریں۔ آپ سوچ لیں۔تو میں نے کہا جی کہ آپ دونوں میں اِسی وقت میرانام لکھ لیں ۔انہوں نے کہا جی نہیں آ پ سوچ لیں ۔ میں نے کہا جی میں سوچ کے ہی بیٹھا ہوں۔یہ عملی تعلق کا آغاز ہے جاوید صاحب سے جو 92سے شروع ہوا۔ ایک دفعہ ہمارے دوست شاھد صاحب نے پوچھا کہاں ہوتے ہو آجکل نظر ہی نہیں آتے؟میں نے کہا کہ میں نے عربی کی کچھ کلاسز attend کرنی شروع کی ہیں ۔ کہنے لگے اچھا ! بڑا اچھاکیا آپ نے ، کہاں؟میں نے کہا المورد میں۔ کہنے لگے او ہو ہو!تم کن گمراہوں کے پاس چلے گئے ہو؟میں نے ان سے پوچھا کیا گمراہی ہے ان میں ۔ کیا وہ قرآن کو نہیں مانتے یا سنت کو نہیں مانتے ؟کہنے لگے یہ تو مجھے پتا نہیں مگر جو بندہ ان کے پاس جاتا ہے واپس نہیں آتا۔ میں نے کہا کہ پھر تو آپ کو سوچنا چاہیے کہ آپ میں کون سی چیز غلط ہے ؟آخر واپس کیوں نہیں آتا؟
س۔ تو آپ کے اس سفر میں تین اہم شخصیات آئیں ، قادری صاحب ، ڈاکٹر صاحب اورجاویدصاحب ان تینوں میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
ج۔ جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا تعلق ہے ان کی نہ نیت پہ اعتبار کیا جاسکتا ہے نہ ہی ان کے علم پر،ڈاکٹر اسرارصاحب کی نیت کے اوپر اعتبار کیا جاسکتا ہے مگر ان کے علم کے اوپر نہیں کیونکہ وہ عالم نہیں ہیں ۔ بہت اچھے oratorہیں ۔ اور جہاں تک جاوید صاحب کا تعلق ہے ان کی نیت کے اوپر بھی اعتبار کیا جاسکتا ہے اور ان کے علم کے اوپر بھی ۔ مگر آنکھیں نہیں بند کی جاسکتیں۔آنکھیں کھول کر مانیں گے جو مانیں گے ۔
س: تقریبا پندرہ برس ہونے کو آئے کیا ابھی تک آپ کو جاویدصاحب کے علم پر ایسا ہی اعتماد ہے ؟
ج: انگریزی زبان خاص طور پر ایک ایسی زبان ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی تحقیق ہوتی ہے وہ اس زبان میں ضرور منتقل ہوتی ہے ۔اور آج کل ماشا ء اللہ ذرائع ایسے ہیں کہ آپ اس کو پڑھ بھی سکتے ہیں ۔انٹر نیٹ پہ چیز مل جاتی ہیں۔میں آپ کو honestly بتاتاہوں کہ اِس پائے کا عالم آپ کو شاید دنیا میں نہیں ملے گا۔قرآن کے حوالے سے جو ان کی studyہے۔ وہ واقعتا بے نظیر ہے ۔
س۔ تمام علما، فرقے یا مسالک اپنی بات کو قرآن ہی سے ثابت کرتے ہیں اور بعض اوقات ایک ہی آیت سے مختلف مطلب اخذ کر رہے ہوتے ہیں آپ اس چیز کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ج۔ میں اس بات کوبھی کامن سینس سے حل کرتا ہوں۔ہمارے ایک بزرگ دوست تھے وہ ایک بار عبدالقادر جیلانی کے فضائل پر گفتگو کر رہے تھے فرمانے لگے کہ ایک بڑے عالم دمشق میں تھے۔ انہوں نے سنا کہ بغداد میں ایک بہت بڑے عالم ہیں۔ وہ ان کی ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ جب وہ مسجد میں پہنچے تو عبدالقادر جیلانی ایک آیت کا درس دے ر ہے تھے انہوں نے اس آیت کا ایک مطلب بیان کیا پھر دوسرا پھر تیسرا پھر چوتھا حتی کہ جب انتالیسویں مطلب پر پہنچے تو یہ دمشق والے بزرگ ان کے پاؤں پڑ گئے کہا کہ حضور بس کریں میں قائل ہو گیا، جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔ میں نے ان سے کہا کہ جناب یہ جو آپ نے بیان کیا ہے اس کا مطلب پتا کیا ہے ؟ یا تووہ ہستی جوقرآن لکھنے والی ہے معاذاللہ پاگل ہے یا بڑی چال باز ہے ۔ آپ ایک مطلب بیان کریں گے وہ کہے گا نہیں میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔آپ دوسرا مطلب بیان کریں گے وہ کہے گامیرا یہ بھی مطلب تونہیں تھا اسی طرح تیسرا چوتھا وغیرہ۔میں نے کہا کسی بات کے زیادہ مطالب کاہونا کلام کا نقص ہے خوبی نہیں۔میں نے کہا کہ میں اس چٹ پراپنے ورکروں کے لیے ایک پیغام لکھتا ہوں آپ اس کا دوسرا مطلب نکال کر دکھائیں۔ مطلب تو ایک ہی ہوتا ہے۔اس طر ح قرآن کی آیت کا بھی ایک ہی مفہو م ہونا چاہیے یہ ہی عقل اور فطرت کا تقاضاہے۔ورنہ یہ کلام اختلافات حل کرنے کے بجائے کنفیوژن میں اضافہ کرے گا۔وہ بزرگ فرمانے لگے جناب آپ انسان ہیں ہم تو اللہ تعالی کے کلام کی بات کررہے ہیں۔ آپ خود کو اللہ سے ملا رہے ہیں۔میں نے عرض کیا کہ کلام مخاطب کی نسبت سے ہوتا ہے کہ آپ بات کس سے کر رہے ہیں۔میں آپ سے بات کر رہا ہوں تو اور طرح کر وں گا کسی بچے سے بات کروں گا تو اور طرح۔یعنی میرا علم کاؤنٹ نہیں کرے گا بلکہ اس کا ،جس کو میں کوئی بات convey کرنا چاہتا ہوں۔تو یہاں انسانوں کا علم زیر بحث ہے اللہ کوہم سے ہماری استطاعت کے مطابق ہی بات کرنی چاہیے ورنہ تو مسئلہ حل نہیں ہو گا۔اور میں نے کہا کہ اللہ نے ایسے ہی کیاہے ۔قرآن کی آیت کو جب اس کے سیاق و سباق میں رکھتے ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہوتاہے کوئی دوسرا مطلب نکل ہی نہیں سکتا۔اختلافات سیاق کو چھوڑ نے ہی سے پیدا ہوتے ہیں۔
س۔ وہ کو ن سا پوائنٹ ہو گاجب آپ کی راہیں غامد ی صاحب سے جدا ہو سکتی ہیں؟
ج۔ اگر مجھے یہ نظر آئے کہ وہ قرآن مجید کو کما حقہ اہمیت نہیں دے رہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ رہے ہیں تو میری راہیں جدا ہوسکتی ہیں۔البتہ معاشرتی روابط قائم رہ سکتے ہیں۔خود اپنی فیملی میں بے شمار لوگ ہوتے ہیں جن کی فکر بالکل علیحدہ ہوتی ہے مگر معاشرتی تعلقات تو رہتے ہی ہیں۔
س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ غامد ی صاحب کی فکرکے حوالے سے مستقبل میں ایک نئے مسلک اور فرقے کا اضافہ ہونے والاہے ؟
ج: فرقہ اورمسلک بننے سے روکنے کی ذمے داری ان لوگوں کی ہوتی ہے جوکسی عالم کے ارد گرد ہوتے ہیں۔اور وہ ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس عالم کو صحیح رکھیں اوراپنے اند ر تقلید جامد پیدانہ ہونے دیں ۔ جب لوگ ہر بات سے صرف ِ نظر کرنا شروع کر دیتے ہیں تونیا فرقہ بننا لازمی ہو جاتا ہے ۔ اگر توغامدی صاحب نے اپنے آپ کو ایسے ہی اوپن رکھا جیسے رکھا ہوا ہے کہ ہرآدمی ان کے اوپر تنقید کر سکے اور یہ بتا سکے کہ کہاں کیاغلطی ہوئی ہے ۔ تو پھر تو مسئلہ ٹھیک رہے گا۔لیکن جس عالم سے محبت ہو اور اس کی علمی عظمت بھی دل کے اندر ہو تو اس پر تنقید ہے بڑا مشکل کام ۔ میں تو دوستوں سے کہتا ہوں کہ بھائی ذرا نظر رکھا کریں ۔ جب دوست یہ بیان کرتے ہیں کہ جی بس یہ جاوید صاحب کی رائے ہے تو میں تو ان سے کہتا ہوں کہ تمہارے پاس اس کے کیا دلائل ہیں؟ صرف جاوید صاحب کے نام سے مان لیا ہے یا دلائل بھی ہیں لیکن سچی بات ہے کہ اکثر دوست صرف نام ہی سے مان لیتے ہیں دلائل سے محروم ہوتے ہیں۔ایک زمانے تک جاوید صاحب کا خیال یہ تھاکہ جہنم میں جو ایک دفعہ داخل ہوگیا وہ باہر نہیں آسکتا تو ہماری ان سے گفتگو رہتی تھی۔ پھر ان کا خیال یہ ہوا کہ نہیں باہر آسکتا ہے تو لوگوں نے بھی اپنی رائے تبدیل کر لی ۔میری ان سے یہ بحث ہوتی تھی کہ محض اس وجہ سے رائے تبدیل کر لی ہے کہ جاوید صاحب نے تبدیل کر لی ہے یادلائل سمجھ آ گئے ہیں۔ تودوست خاموش ہوجاتے تھے۔
ایسا رویہ ہو تو پھر فرقہ بننے سے نہیں روکاجا سکتا۔ اگر کوئی صاحب علم پیدا ہوگیا ہے تو اس کے ارد گرد جو بھی شخص موجو د ہوں، آپ ہوں،میں ہوں،ہماری یہ ڈیوٹی بن جاتی ہے کہ ہم ایسا رویہ رکھیں کہ جس میں اس شخص کو تھوڑا سا اندیشہ ہوکہ مجھ پر تنقید بھی ہو گی ۔ آنکھیں کھلی رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔ورنہ معاملات بگڑ جاتے ہیں۔
(تو قارئین محترم یوں پرویز ہاشمی صاحب اپنے سفر میں المورد کے ‘گھاٹ’ تک پہنچے ہیں یہاں وہ کب تک اپنی پیاس بجھاتے رہیں گے یہ عالم الغیب ہی جانتاہے بہر حال آپ نے محسوس کر لیا ہو گا کہ پرویز صاحب اپنی اس تلاش میں کس قدر مخلص اور سچے ہیں۔تلاش کے اس سفر کی روداد آپ تک پہنچانے کا مقصد اسی رویے اورتلاش کی اہمیت کواجاگر کرنا ہے ۔ہم دیانتداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر مسلمان کو یہ رویہ اپنا نا اورسیکھنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی کو شعوری اسلام مطلوب ہے نہ کہ پیدائشی اورخاندانی اسلام)