امریکہ کی جاسوس شارک
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون شارک کو ایک ایسا خفیہ سمندری جاسوس بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جو زیر آب رہتے ہوئے ایسے جہازوں یا آبدروزوں کا سراغ لگا سکے گی۔ایک برطانوی میگزین میں شائع ہونے والے سائنس سے متعلق مضمون میں کہا گیا ہے کہ سائنسدان شارک کے دماغ میں ایک ایسا برقی آلہ لگانا چاہتے ہیں جس کے ذریعے وہ اسے ریموٹ کنٹرول کر سکیں۔‘وہ اس کی زیر آب رفتار کافائدہ اٹھانا چاہتے ہیں’اس غیر روایتی منصوبے کا انکشاف جزیریہوائی میں امریکن جیو فزیکل یونین کے سمندری سائنس پر ہونے والے ایک اجلاس میں ہوا۔میگزین کے مطابق اس تحقیق کے لیے پینٹاگون کی ایڈوانس ریسرچ پراجیکٹ ایجنسی نے فنڈز فراہم کیے ہیں اور اس منصوبے کی بنیاد اس جدید ٹیکنالوجی پر رکھی گئی ہے جس کے تحت مجھلیوں، چوہوں اور بندروں کی حرکات و سکنات کو اپنے قابو میں لانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔میگزین کے اس خصوصی مضمون میں کہا گیا ہے کہ اس کام کے لیے برقی آلات جانوروں کے دماغ میں لگائے جاتے ہیں۔بوسٹن یونیورسٹی میں سائنسدان ایک تالاب میں موجود ایک چھوٹی قسم کی شارک ( سنگ ماہی) پر اس آلے کے استعمال کا تجربہ کر چکے ہیں اور اگلے مرحلے پر پینٹاگون کے سائنسدان بلیو شارک کو اسی طرح کا آلہ لگا کر فلوریڈا کے سمندر کے نزدیک چھوڑیں گے۔عام ریڈیو سگنل سمندر کی زیادہ گہرائی میں نہیں جاسکتا اس کے لیے خاص قسم کے سگنلز کی ضرورت ہوتی ہے۔امریکی بحریہ کے پاس ایسے خاص سگنل بھیجنے والیٹاور موجود ہیں جس سے شارک کو تین سو کلومٹیر دور تک سگنل بھیجے جاسکتے ہیں۔میگزین کا کہنا ہے کہ سائنسدان اس بات کو بھی مدنظر رکھے ہوئے ہیں کہ شارک کو ضرر پہنچائے بغیر کتنی دیر تک اس کی حرکات وسکنات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
شارک جنسی فعل کی محتاج نہیں
سائنسدانوں نے اس امر کی تصدیق کر دی ہے کہ مادہ ہیمر ہیڈ شارک جنسی عمل کے بناء بچوں کو جنم دے سکتی ہے۔اس بات کا ثبوت نبراسکا کے ہنری ڈارل چھڑیا گھر میں موجود ایک شارک کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کے تفصیلی معائنے کے بعد ملاہے۔یہ بچہ سنہ 2001 میں پیدا ہوا تھا اور اس سے قبل مادہ شارک کا کسی نر سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ ایک سائنسی جریدے کے مطابق بلفاسٹ ، نبراسکا اور فلوریڈا کے سائنسدانوں پر مشتمل ٹیم نے جینیاتی تجزیوں نے اس بات کی حتمی طور پر تصدیق کی ہے کہ اس بچے میں باپ کی جانب کا کوئی ڈی این اے موجود نہیں۔بناء جنسی فعل کے تولید کی صلاحیت اس سے قبل‘بونی فش’ میں دیکھی گئی ہے لیکن شارک جیسی مچھلیوں میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ اس طریق? تولید میں مادہ خلیے بغیر کسی سپرم کی مدد لیے ایک‘ایمبریو’میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے شارک کے تحفظ کے بارے میں اہم نکات سامنے آئے ہیں۔دنیا بھر میں تیزی سے ہونے والے شکار کی وجہ سے شارک کی بہت سی اقسام کی تعداد میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بغیر جنسی فعل کے تولید کا عمل جینیاتی تغیر میں کمی لاتا ہے اور اگر شارک میں یہ طریقہ پیدائش پایا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ یہ مچھلیاں کسی نئی بیماری یا موسمی حالات کا مقابلہ اتنی بہتر طریقے سے نہ کر سکیں جیسا کہ عام طریقے سے پیدا ہونے والی مچھلیاں کر سکتی ہیں۔ڈاکٹر پاولو پروڈوہل کے مطابق‘ شارک کے بارے میں فکر صرف ان کی تعداد میں کمی کی نہیں بلکہ ان کی صحت اور چستی میں کمی کی بھی ہے اور شارک کے تحفظ کے لیے بنائی جانے والی کسی بھی حکمتِ عملی میں ہماری اس دریافت کو مدِ نظر رکھنا ہوگا’۔
وھیل شارک کی زندگی کے راز
وھیل شارک پر لگائے گئے جدید برقیاتی آلات نے ظاہر کیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی مچھلی کیسے اور کہاں سے کھانا تلاش کرتی ہے۔بلیز میں تحقیق کرنے والوں کے مطابق انہوں نے وھیل شارک کو ایک کلومیٹر تک پانی میں کھانے کی تلاش میں ڈبکی لگاتے ہوئے نظر میں رکھا۔وھیل شارک لمبائی میں بیس میٹر تک ہوتی ہے اور اس کے ناپید ہونے کا خدشہ ہے۔تحقیق کرنے والوں کے مطابق ان کی تحقیق سمندر میں وھیل شارک کے قریب سیاحت کے مناسب مواقع فراہم کرنے میں مدد کرے گی۔یہ تحقیق بلیز میں واقع دنیا کی دوسری بڑی بیریر ریف (یعنی مونگے) میں کی گئی ہے جس کو اہم عالمی ورثہ کا درجہ حاصل ہے۔امریکی ادارہ ڈبلیو سی ایس کی محقق، ریچل گراہم کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق نے ظاہر کیا ہے کہ وھیل شارک پرانی تحقیق کے برعکس کھانے کی تلاش میں ایک ہزار میٹر تک کی گہرائی میں جاتی ہے۔وھیل شارک پر لگائے گئے جدید برقیاتی آلات درجہ حرارت، پانی کے دباؤ اور روشنی کے اندراج کے بعد خود بخود وھیل شارک سے الگ ہو کر پانی کی سطح پر آجاتے ہیں۔اپنے سائز اور ہجم کہ باوجود وھیل شارک انسانوں کو نہیں کھاتی، جبکہ اس کی ہلکی رفتار کی وجہ سے اس کو جال سے پکڑنا آسان ہے۔دنیا کے ماحول کے تحفظ کے لیے قائم ادارے، آی یو سی ان، کے مطابق وھیل شارک کے ناپید ہونے کا خدشہ ہے۔وھیل شارک کے کئی اعضاء کی دنیا میں بہت مانگ ہے جس وجہ سے ان کی تجارت صرف‘ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار جانوروں کی اقسام کے بارے میں قوانین ’ کے تحت ہوسکتی ہے۔وھیل شارک پوری دنیا میں سمندر اور ساحل کے پاس پائی جاتی ہے۔
بارودی سرنگیں ڈھونڈتی مکھیاں
کروشیا کی جامعہ زغرب میں شہد کی مکھیوں کی مدد سے بارودی سرنگیں تلاش کرنے کا نیا طریقہ واضح کیا جا رہا ہے۔ جامعہ کے پروفیسر نکولائی کیچک نے کہا کہ بارودی سرنگوں سے لوگوں کو خطرہ رہتا ہے جس وجہ سے انہوں نے یہ نیا طریقہ اختیار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کروشیا میں شہد کی مکھیاں پالنا پرانی روایت ہے اور اس کا فائدہ اٹھایا جائے گا۔ کروشیا کو بوسنیا اور سابق یوگو سلاویہ کا حصہ رہنے والے دیگر علاقوں کی طرح بارودی سرنگوں کا مسئلہ انیس سو نوے کی دہائی میں ہونے والی لڑائی کے بعد ورثے میں ملا ہے۔کروشیا کے بارے میں خیال ہے کہ وہاں ایک ہزار مربہ کلومیٹر کے علاقے میں تقریباً ڈھائی لاکھ بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں اور انیس سو اٹھانوے کے بعد سے دس افراد ان سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو بارودی سرنگیں تلاش کرنے کی تربیت دینے کے لیے جامعہ کے شعبہ زراعت میں ایک ٹینٹ نصب کیا گیا ہے۔ ٹینٹ میں مکھیوں کی خوراک کی مختلف جگہیں بنائی گئی ہیں لیکن ان میں سے صرف چند میں خوراک رکھی گئی ہے اور وہاں بارود پھیلایا گیا ہے۔ ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ مکھیاں بہت جلد اپنی سونگھنے کی حص کی وجہ سے خوراک کی موجودگی کو بارود کی بو سے وابستہ کر لیں گی۔ پروفیسر کیچک کے مطابق مکھیوں کی تربیت کے لیے تین سے چار روز درکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے سال ان مکھیوں کی بارود سونگھنے کی حص کو تیز کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ تمام تیاریاں مکمل کرنے کے بعد مکھیوں کو بارودی سرنگوں والے علاقوں میں چھوڑ دیا جائے گا۔ اس سے پہلے گیمبیا میں بارودی سرنگیں تلاش کرنے کے لیے چوہے استعمال کیے گئے تھے۔
السر پر تحقیق، طب کا نوبل انعام
دو آسٹریلوی سائنسدانوں کو السر پر تحقیق کی وجہ سے طب کے شعبے میں نوبل انعام ملا ہے۔رابن وارن اور بیری مارشل نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ معدے اور آنتڑیاوں کا السر ایک بیکٹریا کی انفیکشن کے باعت ہوتا ہے۔اس ریسرچ کے بعد اب السر کوئی ایسی بیماری نہیں رہے گی جو کہ کافی لمبا عرصہ چلے اور اب اس کا علاج دوائیوں اور اینٹی بائیوٹک کے ایک چھوٹے کورس سے بھی ہو سکتا ہے۔۱۹۸۲ میں جب رابن اور مارشل نے ہیلی کوبیکٹر پائیلوری بیکٹیریا دریافت کیا تھا تو اس وقت یہ عام خیال تھا کہ دباؤ اور مصروف لائف سٹائل کی وجہ سے معدے اور آنتڑیوں میں السر ہوتا ہے۔اب اس بات کی مکمل تصدیق ہو گئی ہے کہ نوے فیصد کیسوں میں آنتڑیوں کے السر کا باعث یہی بیکٹریا بنتا ہے اور تقریبا اسی فیصد معدے کے السر کی وجہ بھی یہی بیکٹیریا ہے۔
دونوں ڈاکٹروں نے یہ بھی دریافت کیا کہ السر کے مریض اس وقت تک صحتیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ بیکٹریا کو معدے سے بالکل نہ ختم کر دیا جائے۔
آسمان کے پراسرار بادلوں پر تحقیق
یہ بادل شام کے وقت آسمان پر نظر آتے ہی امریکی خلائی ادارہ ناسا اس سال سطح زمین سے بلند اور انتہائی پراسرار خیال کیے جانے والے بادلوں کے بارے میں تحقیق کے لیے مشن تشکیل دے گا۔نائٹ شائننگ یا رات میں چمکنے والے یہ بادل شام کے وقت لچھوں یا گچھوں کی شکل میں آسمان پر نظر آتے ہیں اور سطح زمین سے ان کی اونچائی اسی کلو میڑ یا پچاس میل تک ہوتی ہے۔ان بادلوں کے بارے میں حالیہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ یہ انتہائی چمکدار، زیادہ تعداد میں اور عام حالات کے برخلاف کم بلندی پر دیکھے جارہے ہیں۔سائنسدان اس بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے تاہم انہیں شک ہے کہ انسانی کارروائیاں ماحولیات میں ان تبدیلیوں کا باعث ہیں جو ان بادلوں کی تشکیل کا سبب بنتی ہیں۔ امریکہ کی ریاست ورجینا کی ہیمپٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر جیمز رسل نے بتایا کہ رات کو چمکنے والے یہ بادل پہلی مرتبہ اٹھارہ سو پچاسی میں سیاروں کے شوقین ایک برطانوی کو نظر آئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ‘اگر آپ ان کو دیکھیں تو یہ بہت خوب صورت ہوتے ہیں ان میں کئی نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں۔ جیسے ان میں لچھے اور لہریں ہوتی ہیں۔
جیمز رسل اس سپیس کرافٹ ٹیم کے اعلی تحقیقات کار ہیں جو ان بادلوں کے بارے میں تحقیق کرے گا۔ 195 کلو گرام وزنی یہ مصنوعی سیارہ ایک راکٹ کی مدد سے خلا میں چھوڑا جائے گا۔ اے آئی ایم میں نصب تین آلات ان بادلوں کی بناوٹ کے بارے میں پتا لگائیں گے۔ جیسے کہ ان کا بہت زیادہ سرد ہونا، ان میں پانی کے بخارات اورمٹی کے چھوٹے ذرات کی موجودگی اور ان ذرات کے اطراف میں پانی منجمند ہو کر کیسے برف بن جاتا ہے وغیرہ۔سائنسدانوں کا خیال ہے مٹی کے یہ ذرات زمین سے نہیں بلکہ خلا سے آتے ہیں۔ اگرچہ خیال کیا جاتا ہے کہ انسانی سرگرمیوں سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بھی بڑھا ہے۔ڈاکٹر رسل کا کہنا تھا کہ‘بادلوں کے حوالے سے ہم تمام تبدیلیوں پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور ہمارے مشن کا مقصد ان بادلوں کی بناوٹ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا ہے جو ہمیں آگے چل کی ان کی ساخت کے بارے میں جاننے میں مدد دیں گی’۔
انسانی کینسر اور کیڑے میں رشتہ
جسم میں اور بھی ایسے پروٹین ہو سکتے ہیں جو کیسنر اور انسانی عمر دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے انسانوں میں کینسر کے مرض اور ایک ننھے کیڑے کی عمر کے درمیان ایک پراسرار رشتہ دریافت کیا ہے۔مشہور رسالے ‘سائنس’ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کیلیفورنیا کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ایک خاص قسم کی پروٹین جو انسانوں میں کیسنر کو روک سکتی ہے وہی دراصل ایک خوردبینی کیڑے کی طویل عمر کی وجہ بھی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق یہ بات سچ ہے کہ انسان کی عمر جتنی زیادہ ہوتی جاتی ہے اسے کینسر ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے جاتے ہیں لیکن سائنسدان ابھی تک یہ معلوم نہیں کر پا رہے ہیں کہ ایسا آخر کیوں ہوتا ہے۔انسانی خلیوں میں پروٹین کی ایک خاص قسم ‘چیک پوائنٹ پروٹین’ پائی جاتی ہے جو جسم میں توڑ پھوڑ کے شکار خلیوں کو مزید تقسیم ہوکر کینسر پھیلانے سے روکتی ہے۔ حالیہ تحقیق میں سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ جب یہی پروٹین ایک خورد بینی کیڑے ‘سی ایلیگنز’ کے جسم سے نکال دیا جائے تو اس کی عمر میں تیس فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔اس تجربہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر مذکورہ پروٹین انسانی جسم سے نکال لی جائے تو وہ بھی طویل عمر جی سکتا ہے مگر دوسری جانب اسے کینسر ہو جانے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اس تجربے سے ‘چیک پوائنٹ پروٹین’ کے دہرے عمل کے بارے میں ایک اور اہم سوال بھی ابھرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا جسم میں اس کی موجودگی کیسنر کے بغیر زندگی کی ضمانت دیتی ہے۔ تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چیک پوائنٹ کے علاوہ جسم میں اور بھی ایسے پروٹین ہو سکتے ہیں جو کینسر اور انسانی عمر دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔اس تحقیق کا مقصد ان جینز کا پتا لگانا ہے جو اس قسم کی پروٹین بناتے ہیں تا کہ کینسر کے خلاف زیادہ موثر دوائیں بنائی جا سکیں۔
چکنائیت وٹامن سی کو زائل کرتی ہے
تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ وٹامن سی سے بھرپور پھل اور سبزیاں کھانا کتنا اہم ہے ۔ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ معدہ میں چکنائیت کی موجودگی وٹامن سی کی سرطان کے خلاف کام کرنے کی صلاحیت پر حاوی ہو جاتی ہے۔ یونیورسٹی آف گلاسکو میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے لیبارٹری میں معدے میں ہونے والے کیمیائی عمل کو مصنوعی طور پر کرکے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ تجربے میں انہوں نے دیکھا کہ وٹامن سی (ایسکاربک ایسڈ) نے معدے میں کینسر پیدا کرنے والے ان عناصر کو صاف کر دیا جو معدے کی رطوبتوں کے خوراک اور معدے کے تیزاب کے ساتھ مل کر بنتے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے وٹامن سی اور ان عناصر کے مرکب میں چکنایت کا اضافہ کیا تو دیکھا کہ وٹامن سی کی مضر عناصر کو مفید عناصر میں تبدیل کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان کے تجربات یہ واضح کرتے ہیں کہ ہماری خوراک اور معدے کے سرطان کے درمیان تعلق ہو سکتا ہے۔معدے کے سرطان (گیسٹرک کیسنر) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس مرض کا سبب نٹرائیٹ نامی عنصر ہوتا ہے جو تھوک میں موجود ہوتا ہے اور اس کا ماخذ ہماری خوراک میں موجود نائٹریٹ ہوتا ہے۔ سرطان ایک پیچیدہ بیماری ہے جسے ہونے میں کئی سال لگتے ہیں اور اس کے پیچھے کئی جینیاتی اور ماحولیاتی اسباب ہوتے ہیں ، اس لیے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ صرف کوئی ایک عنصر کینسر نہیں پیدا کر سکتا۔ تاہم اس کے باوجود یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تحقیق خاصی دلچسپ ہے۔
ڈیزل کی جگہ ناریل کا تیل
روائتی ایندھن کی نسبت ناریل سے پیدا کردہ ایندھن سستا پڑتا ہے ۔پاپوا نیوگنی کے جزیرے میں لوگوں نے روایتی ایندھن کی قیمتوں میں روزافزوں اضافے کی وجہ سے ناریل کے تیل سے ایندھن بنانے کا آسان اور سستا طریقہ اپنا لیا ہے۔اس جزیرے پر لوگ ناریل کے تیل کو صاف کرکے ایندھن بنانے کے چھوٹے چھوٹے کارخانے یا ریفاینریاں لگا رہے ہیں۔ ناریل کے اس تیل کو ڈیزل کی جگہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔پولیس کے افسران سے لے کر پادری تک اپنی گاڑیوں اور بجلی کے جنریٹروں میں اس تیل کو استعمال کر رہے ہیں۔ناریل تیل کو ڈیزل کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں ایران سے لے کر یورپ تک سے دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں معلومات حاصل کرنے کے رابطے کیے گئے ہیں۔سالہاسال سے اس جزیرے کے لوگ تیل کی درآمد پر انحصار کر رہے تھے جو ان کو کافی مہنگا پڑتا تھا۔ایندھن کی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے کئی کاروباری ادارے بند ہوئے چکے ہیں اس کے علاوہ درآمد شدہ تیل کی قیمت سے بھی کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ان عوامل کے پیش نظر لوگوں نے سستے اور قابل اعتماد متبادل کی تلاش شروع کر دی اوراب اکثر ریفائنریوں کے عقبی باغات میں ناریل کی کاشت کی جا رہی ہے۔جرمنی سے نیوگنی میں سکونت اختیار کرنے والے ایک جرمن انجینئر کیتھس ہارن ایسی ہی ایک ریفائنری چلاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بعض لوگ انہیں پاگل جرمن کہتے ہیں۔ لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ آپ اپنی گاڑی کے ساتھ یہ کیسے کرسکتے ہیں جس تیل میں آپ مچھلی تلتے ہیں وہ گاڑی چلانے کے لیے کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا ‘ناریل کا درخت کتنا خوبصورت ہوتا ہے۔ یہ اچھا نہیں لگتا کہ آپ اپنی گاڑی درخت پر اگنے والی کسی چیز سے چلائیں۔ آپ اس پر اپنی گاڑی چلائیں اور یہ ماحول کے لیے بھی مضر نہیں ہے اور اس سے بدبو بھی نہیں آتی۔’انہوں نے کہا کہ ان کے کام میں ایران سے بھی لوگوں نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ان کے کارخانے میں خوردنی تیل کے علاوہ کامیکٹس اور صابن بھی بنایا جاتا ہے۔
(ماخذ ، بی بی سی ڈاٹ کام)