بے خوابی قوت فیصلہ پر اثر انداز
بے خوابی کی دو راتیں انسان کی اخلاقی قوت فیصلہ پر منفی طور پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔فوج پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق فوجی دو راتیں جاگنے کے بعد اپنے فیصلے صحیح طور پر کرنے کے قابل نہیں رہتے اور ان کے فیصلوں میں حد درجہ جذباتیت شامل ہوجاتی ہے۔امریکی تحقیقات کاروں کا کہنا ہے کہ بے خوابی کے یہ اثرات چند خاص پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں مثلاً ڈاکٹر جن کی رات کی شفٹوں سے نیند کا معمول تبدیل ہوجاتا ہے اور انہیں کئی مرتبہ بہت جلدی میں بہت اہم فیصلے بھی کرنے ہوتے ہیں۔یہ تو کئی تحقیقات سے پہلے ہی ثابت ہوچکا ہے کہ بے خوابی یا نیند میں خلل کئی جسمانی و ذہنی مسائل کا باعث ہوتا ہے مثلاً یادداشت وغیرہ۔مختلف افراد کی نیند کی طوالت کی ضرورت مختلف ہوتی ہے کچھ کی نیند دو گھنٹے میں پوری ہوجاتی ہے کچھ کی چار اور کچھ کی چھ گھنٹے میں جبکہ بعض افراد گیارہ گھنٹے کی نیند سے اپنے آپ کو پرسکون محسوس کرتے ہیں جبکہ ماہرین کا خیال ہے کہ اوسطاً ہر ایک کو آٹھ گھنٹے کی نیند لینا چاہیے۔
امریکہ کے والٹر ریڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے تحقیق کی اور نیند کی طوالت میں تبدیلی کے اثرات کاجائزہ لیا۔اگرچہ ہر شخص کی قوت فیصلہ مختلف انداز میں اثر انداز ہوئی تاہم کچھ افراد نے ایسے فیصلے لیے جن سے دوسرے افراد کونقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔دو راتیں جاگنے کے بعد عمومی معاملات کے بارے میں بھی کئی افراد کی رائے میں تبدیلی آگئی۔نیند پر تحقیق کرنے والے ایک برطانوی ادارے کے ڈائریکٹر ایلن ڈیوی کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں کم از کم ایک چوتھائی افراد مناسب نیند صرف اس لیے نہیں لے پاتے کیونکہ ان کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد خراٹے لیتا ہے۔
کم نیند، جگر کے امراض
تحقیق سے یہ بات سا منے آئی ہے کہ بھرپور نیند نہ لینے والے افراد میں عام شخص کی نسبت جگر کے امراض پیدا ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
نیند کی کمی کے لیے ماہرین سلیپ اپنیا کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ موٹاپا بھی جگر کے امراض کا سبب ہو سکتا ہے مگر پیرس سے تعلق رکھنے والے محقیقن نے بھر پور نیند نہ لینے کو براہِ راست جگر کی بیماری کا سبب بیان کیا ہے۔ جگر کے بارے میں کی گئی یہ تحقیق اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کے عام شخص کی نسبت فربہ افراد میں نیند کے پورا نہ ہونے سے جگر کے مسائل پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔لوگوں کی اکثریت سلیپ اپنیا کا شکار ہوتی ہے اس مرض میں مبتلا افراد کی سانس رات میں نیند کے دوران کچھ دیر کے لیے بند ہو جاتی ہے۔ اور نیند پوری نہ ہ ہونے کے باعث دن بھر جسم شدید قسم کی تھکاوٹ کا شکار رہتا ہے۔
سلیپ اپنیا کے شکار افراد میں بلڈ پریشر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جو بعدازاں فالج اور دل کے امراض پیدا کر سکتا ہے۔ آ کسفرڈ سینٹر فار ریسپاریٹری میڈیسن کے پروفیسر جون سٹریڈلنگ کا کہنا ہے اس مرض کی وجوہات اور محرکات کے بارے میں ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔ان کا کہنا ہے کہ سلیپ اینپیا کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں بلڈ پریشر، انسولین کی مزاحمت اورمیٹا بولک سینڈروم شامل ہیں۔ یہ یقین سے کہنا بہت مشکل ہے کہ سلیپ اینویا ان تمام امراض کا نتیجہ ہے جو دراصل موٹاپے کا شاخسانہ ہیں ۔لیکن اس کے ساتھ ہی پروفیسر جون سٹریڈلنگ کایہ بھی کہنا ہے کہ رات میں نیند کے دوران سانس کا بند ہوجانا جگر پر خطرناک اثرات مرتب کرنیکاباعث بن سکتا ہے۔
موسمیاتی تغیر، انسان بھی ذمہ دار
امریکہ کی ایک سائنسی رپورٹ کے مطابق اس بات کے واضح شواہد ملے ہیں کہ انسانی کارروائیوں سے ماحولیاتی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ ‘فیڈرل کلائیمیٹ چینج’ نامی سائنس پروگرام کے مطابق گزشتہ پچاس سال سے سامنے آنے والی موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی کا رجحان صرف قدرتی عمل کا نتیجہ نہیں ہیں۔رپورٹ کے مطابق زمین کی سطح اور نچلی فضا کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے مزید تجزیے کے لیے بہترڈیٹا کی ضرورت ہے۔
سالہا سال سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ زمین کی سطح کا درجہ حرارت (یا گلوبل وارمنگ) مسلسل بڑھ رہا ہے، زمین کی نچلی فضا کا درجہ حرارت بڑھ نہیں رہا۔ اور یہ حقیقت ماحولیاتی طبیعات کے اصولوں یا قدرتی عمل کے برعکس ہے۔برطانیہ کے موسمیاتی ادارے کے پیٹر تھورن کے مطابق زمینی آب و ہوا پر انسانی کارروائیوں کا واضح اثر ہے۔تاہم اس تحقیق میں چند بڑی غیر یقینی باتیں بھی ہیں جنہیں یقینی بنانا ضروری ہے۔سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے چند موسمیاتی یا ماحولیاتی تبدیلیوں کی مختلف حلقوں نے مختلف وضاحتیں پیش کی ہیں جن میں مماثلت ہونا ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق زمین کی نچلی فضا کے درجہ حرارت کا مشاہدہ ایک نہایت پیچیدہ عمل ہے جس میں غلطی کی کافی گنجائش ہوسکتی ہے۔
سورج سے آگے جہانوں کی تلاش
فرانس کی نگرانی میں کوروٹ نامی خلائی مِشن قازاقستان کے خلائے اڈے سے روانہ ہوگیا ہے جو ہمارے نظام شمسی سے باہر سیاروں کو تلاش کرے گا۔یہ ایک خلائی دوربین ہے جو ایک لاکھ بیس ہزار ستاروں کی نگرانی کرے گی اور ان کی چمک میں پیدا ہونے والے تغیر کا جائزہ لے گی۔ خیال ہے کہ جب ان ستاروں کے گرد گردش کرنے والے سیارے ان کے سامنے سے گزرتے ہیں تو ان سے نکلنے والی روشنی کچھ مدھم پڑ جاتی ہے۔یہ کیثرالملکی مشن خود ستاروں کا بھی بغور جائزہ لے گا تاکہ یہ پتاچلایا جا سکے کہ ان کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے۔یورپی خلائی ادارے کی ایک ترجمان نے بتایا کہ مشن بغیر کسی مشکل کے روانہ ہوا۔کورٹ خلائی دوربین تقریباً ڈھائی برس تک ستاروں کا مشاہدہ کرے گی۔ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اس مشن کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ آیا خلا میں زمین جیسے دوسرے سیارے موجود ہیں۔
چاند پر مستقل ٹھکانے کا منصوبہ
امریکہ کے خلائی ادارے ناسا نے کہا ہے کہ وہ چاند پر ایک مستقل ٹھکانہ بنانے کے لیے کام شروع کرنے والا ہے۔ اس منصوبے پر کام دوہزار بیس میں خلابازوں کے چاند پر دوبارہ پہنچنے کے بعد شروع ہوگا۔سائنس کے مرکز کے طور اس مستقل ٹھکانے کو چاند کے کسی ایک پول پر قائم کیا جائیگا اورمریخ مشن کے لیے یہ مجوزہ مرکز ایک سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ابھی اس نئے ٹھکانے کی شکل و صورت اور خلابازوں کے کام کاج کے طور طریقوں بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ ابھی یہ بھی نہیں پتا ہے کہ مجوزہ مرکز کب کام کرنا شروع کرے گا۔ناسا کے سینئر افسر سکاٹ ہورووز نے بتایا کہ ہم چاند پر ایک نیا مرکز بنانے جارہے ہیں۔ایجنسی کے نائب سربراہ شانا ڈیل کا کہنا تھا کہ چاند کے متعلق نئی حکمت عملی پہلے سے بالکل مختلف ہوگی۔ ناسا نے فیصلہ کیا ہے کہ خلائی تحقیق کے لیے پہلے کی طرح مختصر دوروں کے بجائے اب ایک مستقل سٹیشن کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اس نے دوسرے ممالک اور تاجروں سے مدد کی بھی درخواست کی ہے۔ کولمبیا خلائی شٹل تباہ ہونے کے بعد امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ وہ خلا بازوں کو دوہزار بیس تک دوبارہ چاند پر بھیجیں گے۔ گزشتہ اگست میں ناسا نے اعلان کیا تھا کہ چاند پر انسانوں کو لے جانے کے لیے ہیڈ مارٹن کارپوریشن، امریکہ کے لیے ایک نیاخلائی جہاز بنائیگی۔
خلائی جہاز مریخ کے قرب میں
ایک سیارچے کے دس سالہ سفر پر جانے والا یورپی خلائی مشن مریخ کے قریب سے گزرا ہے۔روسیٹا نامی یہ جہاز جس پر کوئی انسان سوار نہیں مریخ سے ڈھائی سو کلومیٹر کے فاصلے سے گزرا۔یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ روسیٹا مریخ کے پاس سے گزرا۔توقع کے عین مطابق جب روسیٹا پندرہ منٹ کے لیے مریخ کے پیچھے گیاا تو اس کا رابطہ جرمنی میں واقع کنٹرول روم سے منقطع ہوگیا۔ اس دوران روسیٹا کو اپنی بیٹریوں پر انحصار کرنا پڑا کیونکہ اس کے سولر پینل تک پہنچنے والی روشنی مریخ نے روک لی تھی۔یہ جہاز اس سال میں دو مرتبہ زمین کے قریب سے بھی گزرے گا۔ سائنسدانوں کو امید ہے کہ روسیٹا کے سفر کے نتیجے میں نظامِ شمسی کے کچھ پوشیدہ راز عیاں ہو سکیں گے۔
مریخ پرپانی کے ثبوت ملے ہیں
امریکہ کے خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ حال ہی میں مریخ پر پانی کے کچھ مزید پختہ ثبوت ملے ہیں۔
سیارہ مریخ پر پانی کی موجودگی سے اس نظریہ کو مزید تقویت ملتی ہے کہ وہاں زندگی ممکن ہے۔مریخ سے ملنے والی تصاویر میں نالوں کی موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کچھ برس پہلے یہاں پانی بہتا ہو۔سائنس دانوں کو مریخ کے نالوں میں ہلکے رنگ کے چمکیلے مادے کا بھی پتا چلا ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ ممکن ہے وہ کیچڑ یا نمک ہو یا پھر پانی گزرنے کے بعد فضا کہرآلود ہوگئی ہو۔
کلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پروفیسر اوڈیڈ اہرون سن کا کہنا ہے کہ جہاں پانی بہنے کے پختہ ثبوت کی بات کہی جارہی ہے وہیں یہ بھی ممکن ہے کہ تصویروں کامطلب کچھ اور بھی ہو۔کلوروڈو یونیورسٹی میں ماہر فلکیات پروفیسر بروس جیکوسکی کا کہنا ہے کہ اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مریخ پر زندگی چاہے ماضی کی ہو یا پھر موجودہ دورکی اسکی تلاش کتنی اہم ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دن بدن اس بات کے ثبوت مزید پختہ ہوتے جارہے ہیں کہ سیارہ مریخ پہلے سے اب زیادہ متحرک ہے۔
اسلامی فن تعمیر میں جدید جیومیٹری
قرونِ وسطیٰ کے اسلامی فنِ تعمیر کی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اس وقت کی عمارتوں میں نقش نگاری کے دوران جیومیٹری کے ایسے اصولوں کا استعمال کیا گیا تھا جو مغربی ریاضی دانوں نے بظاہر کئی صدیوں کے بعد ندریافت کیے۔اس تحقیق کو ‘سائنس’ نامی جریدے میں شائع کیا گیا ہے۔
محققین کو پندرہویں صدی کی اسلامی تعمیرات میں ایے شواہد ملے ہیں جن میں جیومیٹری کی جدید شاخ ‘کواسی کرسٹلائن جیومیٹری (Quasicrystalline Geometry)’ کا استعمال کیا گیا ہے۔کواسی کرسٹل ایسی شکلوں کو کہا جاتا ہے جو بظاہر تو جانی پہچانی شکلوں کی طرح نظر آتی ہیں لیکن ریاضی کے اصولوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ان شکلوں کی منطقی ترکیب کو ثابت کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرونِ وسطیٰ کے کاریگروں کو ریاضی کے مشکل ترین فارمولوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ لوگ اس زمانے میں ریاضی کے ان اصولوں پر اتنی عمدہ ٹائلیں بناتے تھے جن اصولوں سے ہم بیس یا بائیس سال پہلے تک بالکل ناواقف تھے۔امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق پیٹر لْو کی اسلامی آرٹ میں دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب ازبکستان کے دورے پر انہوں نے ایک سولہویں صدی کی اسلامی عمارت میں دس ضلعی ڈیزائن کی ٹائلیں لگی ہوئی دیکھیں۔پیٹر لْو نے اسلامی فنِ تعمیر پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ‘وہ لوگ اس زمانے میں ریاضی کے ان اصولوں پر اتنی عمدہ ٹائلیں بناتے تھے جن اصولوں سے ہم بیس یا بائیس سال پہلے تک بالکل ناواقف تھے’۔اسلامی ڈیزائن میں ‘کواسی کرسٹلائن جیومیٹری’ کے تحت کثیرالاضلاعی شکلوں کا استعمال اس انداز میں کیا گیا ہے کہ ڈیزائن کو لامحدود حد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ فنِ تعمیر میں اس عمل کو ‘گرہ’ کی اصطلاح سے جانا جاتا ہے۔اب تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ اسلامی ڈایزائن میں ستارے اور کثیرالاضلاعی شکلیں سیدھے پیمانوں اور قطب نماؤں کے ذریعے آڑھی ترچھی لکیروں کے کھینچنے کے بعد وجود میں آئیں۔
خلا میں قبلہ کس طرف ہوگا؟
ملائشیا کی قومی خلائی ایجنسی اس بات کا پتہ چلانیکی کوشش میں مصروف ہے کہ مسلم خلاباز خلا میں کس طرح اسلامی شعائر کی پابندی کر سکتے ہیں۔ملائشیا عنقریب اپنے دو خلاباز روسی خلائی ادارے کے تعاون سے خلا میں بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ملائشیا اس مہم کے لیئے اپنے ان چار خلابازوں میں سے دو کا انتخاب کرے گا جن میں سے تین مسلمان ہیں۔یہ خلاباز اس تجسس کا شکار ہیں کہ وہ دوران ِ پرواز کس طرح نمازِ پنجگانہ ادا کر سکیں گے۔ ان کا خلائی جہاز اس سفر کے دوران نوے منٹ میں زمین کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرے گا اور اس طرح ان خلابازوں کے پاس پانچوں نمازوں کی ادائیگی کے لیئے صرف نوے منٹ کا وقت ہوگا۔
یونیورسٹی آف جارجیا میں مذاہبِ عالم کے استاد ایلن گوڈلاس کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا حل اس صورت میں نکالا جا سکتا ہے کہ ادائیگیِ نماز کے لیئے اسی طرح مختلف اوقات مقرر کریں جیسا کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے علاقے میں نماز کی ادائیگی کے لیئے مقرر کیے جاتے ہیں۔یہی نہیں اٹھائیس ہزار کلومٹیر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والے اس جہاز میں قبلے کی سمت بھی ہر لمحہ تبدیل ہوتی رہے گی جبکہ نماز کے لیئے قبلہ رو ہونا لازم ہے۔خلابازوں کو درپیش ایک اور مسئلہ وضو کا ہے۔ خلائی جہاز میں کششِ ثقل کی مکمل موجودگی نہ ہونے سے پانی کاانسانی اعضا پربہانا ممکن نہیں۔ تاہم اس مسئلے کا حل تیمم کے ذریعے ممکن ہے ملائشیا میں ہی پچیس اور چھبیس اپریل کو‘خلا میں زندگی اور اسلام’ کے عنوان کے تحت ایک اجلاس بھی ہو رہا ہے جس میں ایک سو پچاس کے قریب سائنسدان، خلاباز، مذہبی علما اور اساتذہ شریک ہو رہے ہیں۔
یاد رہے کہ ۱۹۸۵ میں سعودی عرب کے خلاباز سلطان سلمان السعود نے خلا کا سفر کیا تھا اور ماہِ رمضان کے خاتمے کی تصدیق انہوں نے خلائی جہاز کی کھڑکی سے ماہ شوال کا چاند دیکھ کر کی تھی۔
ایس ایم ایس سے طلاق
فوری طلاق کا حصول شاید اتنا آسان کبھی نہ تھا جتنا اب ملائشیا میں ایک شرعی عدالت کی طرف سے موبائل فون پر ایس ایم ایس کے ذریعے دی گئی طلاق کو موثر قرار دینے کے بعد ہو جائے گا۔ ملائشیا میں حکومت کے مشیر برائے مذہبی امور ڈاکٹر عبدل حمید نے کہا ہے کہ موبائل فون پر فوری تحریری پیغام رسانی کی سروس یعنی ایس ایم ایس کے ذریعے دی گئی طلاق اگر واضح ہو تو بقول ان کے اسلامی قانون کے تحت ایسی طلاق موثرہوگی۔ انگریزی روزنامے نیو سٹریٹس ٹائمز نے ڈاکٹر حمید کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایس ایم ایس بھی تحریر کی ایک قسم ہے۔ ملائشیا میں جمعرات کو شرعی عدالت نے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک مرد کی طرف سے ایس ایم ایس کے ذریعے دی گئی طلاق کو موثر قرار دیا تھا۔ یہ مقدمہ عزیدہ فضلینہ عبدل لطیف کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔ درخواست میں کہا گیا تھا اس کے خاوند شمس الدین نے اسے ایس ایم ایس کے ذریعے پیغام بھجوایا تھا کہ اگر اس نے والدین کا گھر نہیں چھوڑا تو اسے طلاق ہو جائے گی۔ ملائشیا کے ایک اخبار کے مطابق اس سے پہلے سنگاپور کی اسلامی عدالت بھی گزشتہ سال ایک مقدمے میں ایس ایم ایس کے ذریعے دی گئی طلاق کو جائز قرار دے چکی ہے۔
ریاضی میں زیادہ قابل کون
ہاورڈ کے صدر کے کلمات کہ مرد پیدائشی طور پر سائنس اور ریاضی کے مضامین میں عورتوں سے زیادہ قابل ہوتے ہیں، تعلیمی حلقوں میں بے چینی کا باعث بن رہے ہیں۔ان کلمات کے ادا کیے جانے پر بہت سے لوگ اس کانفرس سے اٹھ کر باہر چلے گئے جہاں لارنس سمرز خطاب کر رہے تھے۔ڈاکٹر سمرز نے بعد میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان مضامین میں اعلی تعلیم یافتہ عورتیں بچے پالنے کی ذمہ داریاں نبھانے کی وجہ سے کم ملیں گی۔انہوں نے کہا کہ عورتیں ان ذمہ داریوں کی وجہ سے ان مضامین میں ہر ہفتے اسی گھنٹے صرف نہیں کر سکتیں۔ ڈاکٹر سمرز نے کہا کہ یہ مضروضہ کہ مرد عورتوں کی نسبت پیدائشی طور پر سائنس اور ریاضی کے علوم میں زیادہ قابل ہوتے ہیں ایک تحقیق کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ لڑکے ان مضامین میں لڑکیوں سے زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں جس پر یقیناً تحقیق ہونی چاہیے۔کیمبرج میں اقتصادی تحقیق کے قومی بیورو میں ہونے والی اس کانفرنس کے منتظم رچرڈ فری مین نے کہا کہ ڈاکٹر سمرز کے کلمات واقعی اشتعال انگیز ہیں۔ڈاکٹر سمرز نے کہا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ عورتیں ریاضی اور سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتیں البتہ مرد زیادہ قابل ہوتے ہیں۔ ( بحوالہ بی بی سی ڈاٹ کام)