نیٹ سائنس

مصنف : ملک مسعود اصغر

سلسلہ : سائنس و ٹیکنالوجی

شمارہ : اپریل 2007

انسانی وجود کے قدیم سراغ

             روس میں محکمہ آثار قدیمہ کو بعض ایسے سراغ ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ یورپ میں انسان کا وجود زمانہ قدیم سے پا یا جاتا ہے محکمہ آثار قدیمہ نے بعض ایسے نوادرات پیش کیے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ پینتالیس ہزار برس قبل انسان نے یورپ کی طرف ہجرت کی ہوگی۔یہ نوادرات کوسٹینکی کے مقام سے دریافت ہوئے ہیں۔ ماہرین کی ٹیم کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ اوائل میں یورپ کی طرف سفر کرنے والوں نے موجودہ راستوں کے بجائے کسی متبادل راستے کو اپنایا ہو۔اس نئی دریافت کو سائنس میگزین میں تفصیل سے شائع کیا گیا ہے۔کلورڈو یونیورسٹی کے تحقیقات کار جان ہافیکر نے لکھا ہے‘ اب تک جو آثار ملے ہیں ان سے لگتا ہے کہ جنوبی یورپ کے بلغاریہ اور روم جیسے ممالک میں بہت پہلے سے انسان موجود تھے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 44 ہزار برس قبل بحیرہ روم کو پار کرکے لوگ وہاں پہنچے ہوں گے۔’ماہرین نے دریائے ڈان سے متصل ایک قدیم آتش فشاں پہاڑ کی راکھ کے نیچے سے زیورات اور ہاتھی دانت سے تیار کی گئی جو اشیاء بر آمد کی ہیں وہ جدید دور کے انسانوں کی ہیں۔پروفیسر ہافیکر کا کہنا ہے کہ یہ نوادرات اس سے قبل یورپ میں پائی گئی اشیاء سے کافی مختلف ہیں۔تاریخ کے ریکارڈز اور موجودہ نوادرات سے پتا چلتا ہے کہ جدید انسان کا وجود دو لاکھ برس قبل سب سے پہلے افریقہ کے سہار ا علاقے میں پایاگیا تھا اور ان کی ہجرت کا سلسلہ ساٹھ یا پچاس ہزار برس پہلے شروع ہوا تھا۔جدید انسان کے وجود کا ثبوت پچاس ہزار برس قبل سب سے پہلے آسٹریلیا میں پایاگیا تھا۔پروفیسر ہافیکر کے مطابق یہ کہنا مشکل ہے کہ کوسٹینکی میں پائے گئے انسان کس خطے سے آئے ہوں گے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی دریافت اس لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس سے یورپ میں انسانی آبادی اور اس کی تاریخ کے متعلق نئے نئے انکشافات کا امکان ہے۔

جِلد کاٹے بغیر آپریشن

             امریکی محققین کا کہنا ہے کہ بہت جلد میڈیکل آپریشن یعنی جراحی کے ایسے طریقے شروع ہو جائیں گے جس میں جلد کو کاٹے بغیر بڑے آپریشن بھی کیے جا سکیں گے۔اس تحقیق کی رپورٹ میڈیکل جریدہ ‘گیسٹرواِنٹیسٹینل اینڈوسکوپی’ کے جولائی کے شمارے میں چھپی ہے۔جانز ہاپکِنز یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے جانوروں پر کیے گئے سرجری کے اپنے تجربات کے بارے میں لکھا ہے کہ اب ٹیلیسکوپ سرجری کے ذریعے جگر، پیٹ، پِتّے اور انتڑیوں جیسے اعضا تک جِلد کاٹے بغیر پہنچنا ممکن ہوگا۔‘فلیکسِبل ٹرانس گیسٹرِک پیری ٹونیوسکوپی’ نامی اس سرجِکل طریقے میں ایک مِنی ٹیلیسکوپ یعنی بہت چھوٹی دوربین کو منہ کے ذریعے پیٹ تک ڈالا جاتا ہے اور پھر وہاں سے دو ملی میٹر لمبائی سے بھی کم ایک سراخ بنا کر ان اعضا تک پہنچا جا سکتا ہے۔چند سالوں سے ڈاکٹر پیٹ کے اندر کا احوال دیکھنے کے لئے جِلد کو کاٹ کر پھر ایک اینڈوسکوپ یعنی چھوٹی دوربین اندر ڈالتے رہے ہیں۔ لیکن اس نئی تحقیق کی بنیاد پر ڈاکٹر اینتھونی کیلو اور ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اب جلد پر یہ شگاف بھی ضروری نہیں ہوگا اور شگاف صرف پیٹ کے اندر سے کیا جائے گا۔ڈاکٹر کیلو کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے کیے گئے آپریشن کا یہ فائدہ ہے کہ زخم نسبتاً جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے کیونکہ پیٹ کی لائننگ جِلد کی نسبت زیادہ تیزی سے ٹھیک ہوتی ہے۔

             لیکن برطانیہ کے سرجنز کا اس نئے طریقے کے بارے میں رویہ محتاط ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس میں بہت سے خطرات لاحق ہیں۔ رائل کالج آف سرجنز کے ڈاکٹر روسن کے مطابق اس سے پیٹ کی لائننگ میں سْوجن یعنی پیری ٹونائٹِس ہو سکتی ہے جو عموماً جان لیوا ثابت ہوتی ہے ۔ دوسرا یہ کہ اینڈوسکوپ کی اپنی لائٹ اتنی تیز ہوتی ہے کہ یہ جلا کر زخم کر سکتی ہے۔ڈاکٹر روسن کا کہنا ہے کہ لیپروسکوپی سے یہی سب کچھ پتہ چل جاتا ہے اور وہ ایک بہت محفوظ طریقہ ثابت ہوچکا ہے۔برٹش سوسائٹی آف گیسٹرو اینٹولوجی کے ڈاکٹر روری مک کلوئے کی بھی اس طریقے کے بارے میں یہی سوچ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘مسئلہ یہ ہے کہ پیٹ کے اندر فاسد مادے ہوتے ہیں اور اگر آپ اس پیٹ کے راستے سے اندر گئے تو پھر خطرہ ہوتا ہے کہ اس سے انفیکشن ہو جائے گا جس کا نتیجہ پیری ٹونائٹِس ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ آپ پیٹ کے اندر سے سوراخ کریں گے جس کو پھر بند بھی کرنا ہوگا اور اگر اس کو ٹھیک سے بند نہ کیا گیا تو یہ بیحد خطرناک ہو سکتا ہے۔’

اب تک کی سب سے چھوٹی مچھلی

             ماہرین نے اب تک ملنے والی سب سے چھوٹی مچھلی کا پتہ چلایا ہے جو انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں دلدل میں پائی جاتی ہے۔ اس قسم کی ایک مچھلی کی لمبائی سات عشاریہ نو ملی میٹر تک ہو سکتی ہے۔ برطانوی جریدے رائل سوسائٹی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ دلدلوں کے خاتمے کی وجہ سے نئی ملنے والی مچھلی کا مستقبل خطرے میں ہے۔ مچھلی کو دلدلوں کے تیزاب ملے پانی کی وجہ سے انتہائی مشکل حالات سیگزارا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان مچھلیوں کو زیادہ خوراک کی ضرورت نہیں پڑتی اور یہ تالابوں کی تہہ میں خوراک تلاش کر لیتی ہیں۔ ان مچھلیوں کے دماغ پر تحفظ کے لیے ہڈیاں نہیں پائی جاتیں اور مادہ زیادہ انڈے نہیں رکھ سکتی۔ مچھلیوں کی اس قسم کو جنگلات کی تباہی، دلدلوں کے خاتمے اور بار بار لگنے والے آگ کی وجہ سے خاتمے کا سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق ممکن ہے اس سے بھی چھوٹی مچھلیاں ماضی میں پائی جاتی ہوں لیکن جن کی نسل پہلے ہی ختم ہو گئی ہو۔

 چوہے گانا گاتے ہیں

             امریکی سائسندانوں نے پتہ لگایا ہے کہ نر چوہے پرندوں اور وہیل مچھلی کی طرح مادہ کو متاثر کرنے کے لیے گانا گاتے ہیں۔امریکہ میں چوہوں پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چوہوں کی آوازیں ریکارڈ کرنے سے پتہ چلا ہے کہ نر چوہے مادہ کو متاثر کرنے کے لیے مختلف طرح کی آوازیں بار بار نکالتے ہیں۔چوہوں کی ریکارڈ کی گئی آوازیں سننے کے بعد سائسندان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پرندوں، وہیل مچھلی اور دوسرے کئی کیڑوں مکڑوں کی طرح چوہے بھی مادہ کو متاثر کرنے کے لیے گلو کاری کا سہارہ لیتے ہیں۔سائنسدانوں کے مطابق چوہوں کے گانے انسانی کو سنائی نہیں دیتے اور یہ گانے صرف حساس قسم کے آلات لگا کر ہی سنے جا سکتے ہے۔سائنسدانوں کے مطابق پینتالیس چوہوں پر کی جانے والی ریسرچ کے دوران پتہ چلا کہ نر چوہے جنسی عمل کے لییتیار مادہ کی خوشبو آتے ہی انہوں نے گانے گانے شروع کر دیئے۔سائنسدان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ کیا چوہے بھی پرندوں کی طرح گانے سیکھے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں ۔

 وھیل شارک کی زندگی کے راز

              وھیل شارک پر لگائے گئے جدید برقیاتی آلات نے ظاہر کیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی مچھلی کیسے اور کہاں سے کھانا تلاش کرتی ہے۔بلیز میں تحقیق کرنے والوں کے مطابق انہوں نے وھیل شارک کو ایک کلومیٹر تک پانی میں کھانے کی تلاش میں ڈبکی لگاتے ہوئے نظر میں رکھا۔وھیل شارک لمبائی میں بیس میٹر تک ہوتی ہے اور اس کے ناپید ہونے کا خدشہ ہے۔تحقیق کرنے والوں کے مطابق ان کی تحقیق سمندر میں وھیل شارک کے قریب سیاحت کے مناسب مواقع فراہم کرنے میں مدد کرے گی۔یہ تحقیق بلیز میں واقع دنیا کی دوسری بڑی بیریر ریف (یعنی مونگے) میں کی گئی ہے جس کو اہم عالمی ورثہ کا درجہ حاصل ہے۔امریکی ادارہ ڈبلیو سی ایس کی محقق، ریچل گراہم کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق نے ظاہر کیا ہے کہ وھیل شارک پرانی تحقیق کے برعکس کھانے کی تلاش میں ایک ہزار میٹر تک کی گہرائی میں جاتی ہے۔وھیل شارک پر لگائے گئے جدید برقیاتی آلات درج? حرارت، پانی کے دباؤ اور روشنی کے اندراج کے بعد خود بخود وھیل شارک سے الگ ہو کر پانی کی سطح پر آجاتے ہیں۔اپنے سائز اور ہجم کہ باوجود وھیل شارک انسانوں کو نہیں کھاتی، جبکہ اس کی ہلکی رفتار کی وجہ سے اس کو جال سے پکڑنا آسان ہے۔دنیا کے ماحول کے تحفظ کے لیے قائم ادارے، آی یو سی ان، کے مطابق وھیل شارک کے ناپید ہونے کا خدشہ ہے۔وھیل شارک کے کئی اعضاء-04 کی دنیا میں بہت مانگ ہے جس وجہ سے ان کی تجارت صرف‘ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار جانوروں کی اقسام کے بارے میں قوانین ’ کے تحت ہوسکتی ہے۔وھیل شارک پوری دنیا میں سمندر اور ساحل کے پاس پائی جاتی ہے۔

تیل دار مچھلی کھاؤ، ذہن بناؤ

              ایسی مائیں جو حمل کے دوران تیل والی مچھلی کھاتی ہیں ان کے بچے ذہنی طور پر بہت توانا ہوتے ہیں۔ اومیگا تھری روغنی ایسڈ ایسی بڑی مچھلیوں میں زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے جو چھوٹی مچھلیاں کھاتی ہیں۔تحقیق کار نو ہزار ماؤں پر ریسرچ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایسی مائیں جو حمل کے دوران اومیگا تھری روغنی ایسڈ سیبھرپور خوارک نہیں کھاتی ہیں ان کے بچے کے دماغ اور ہاتھ میں تال میل اچھانہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اچھے ڈرائیور ہوتے ہیں۔ایسے بچوں کا آئی کیو لیول بھی ان بچوں سے چھ پوائنٹ تک کم ہوتا ہے جن کی مائیں حمل کے دوران اومیگا تھری روغنی ایسڈ سے بھرپور خوراک کھاتی رہی ہوں۔ایسے بچے جن کی ماؤں نے اومیگا تھری روغنی ایسڈ سے بھرپور خوراک نہیں کھائی وہ معاشرتی طور پر بھی زیادہ فعال نہیں ہوتے اوران میں دوست بنانے کی اہلیت بہت کم ہوتی ہے۔تحقیق کارروں کے لیڈر ڈاکٹر جوزف ہبیلن نے بی بی سی کو بتایا کہ بچے کے ذہن کو اومیگا تھری روغنی ایسڈ کی بہت ضرورت ہوتی ہیاور وہ یہ روغنی ایسڈ بچہ خود نہیں بناتا بلکہ اس کا انحصار اپنی ماں کی خوراک پر ہوتا ہے۔خوراک کے ماہر پیٹرک ہولفورڈ نے کہا کہ بچوں کو اومیگا تھری روغنی ایسڈ کی سخت ضرورت ہوتی کیونکہ انسان کے ذہن کا ساٹھ فیصد چربی پر مشتمل ہوتا ہے۔

ونڈوز ‘وسٹا’ عام صارفین کے لیے

              مائیکرو سافٹ نے گھریلو صارفین کے لیے ونڈوز کا نیا ورڑن‘وسٹا’ لانچ کر دیا ہے اور یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ آنے والے ایک برس کے دوران دنیا بھر میں ایک سو ملین کمپیوٹروں میں یہ نظام استعمال ہو رہا ہوگا۔کاروباری صارفین کے لیے ‘وسٹا’ نظام دو ماہ قبل پیش کیا گیا تھا تاہم اب اس کا‘ہوم ورڑن’ بھی فروخت کے لیے پیش کر دیا گیا ہے۔مائیکرو سافٹ کے خالق بل گیٹس نے وسٹا کے لانچ کو ایک ‘ بڑا دن’ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ‘ہم نے اس نئے سافٹ وئر پلیٹ فارم کی تشکیل کے لیے بہت محنت کی ہے اور ہم یہ جاننے کے لیے بہت پر جوش ہیں کہ صارفین اسے کیسا پاتے ہیں’۔ونڈوز کے اس نئے ورڑن میں نہ صرف بہتر انٹرفیس موجود ہے بلکہ اس میں بہتر حفاظتی انتظامات بھی مہیا کیے گئے ہیں۔ تاہم تمام کمپیوٹر اس نئے نظام کو استعمال کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اس نظام کے بھرپور استعمال کے لیے ضروری ہے کہ کمپیوٹر کی ‘ریم’ کم از کم 512 ایم بی اور پروسیسر آٹھ سو میگا ہرٹز سپیڈ کا ہو جبکہ ہارڈ ڈرائیو پر پندرہ گیگا بائٹ جگہ میسر ہو۔مائیکروسافٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سنہ 2011 تک ونڈوز کا ایکس پی ورڑن استعمال کرنے والے صارفین کے لیے‘سپورٹ’ فراہم کرتی رہے گی۔‘وسٹا’ کا ایک کمتر ورڑن ‘وسٹا سٹارٹر’ کے نام سے بھی لایا گیا ہے جو کہ کم رفتار والے کمپیوٹروں پر چلایا جا سکے گا اور اسے دنیا کی سّتر زبانوں میں پیش کیا گیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کے لوگ بھی اس نئے آپریٹنگ سسٹم کو استعمال کر سکیں۔کمپیوٹر تجزیہ کار ڈیوڈ مچل کا کہنا ہے کہ‘گزشتہ پانچ برس سے ونڈو کا کوئی نیا آپریٹنگ سسٹم سامنے نہیں آیا۔ وسٹا کی تشکیل میں بہت وقت لگا ہے اور یہی وجہ ہے کہ صارفین میں اس کے حوالے سے بہت جوش موجود ہے’۔ان کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق اس برس کے آخر تک پندرہ فیصد ایکس پی آپریٹڈ کمپیوٹرز پر ونڈوز وسٹا استعمال ہو رہا ہوگا۔ڈیوڈ مچل نے یہ بھی کہا کہ ممکن ہے کہ وسٹا کے مختلف ورڑن کی موجودگی کی وجہ سے کچھ صارفین کمپیوٹر کی کم از کم درکار صلاحیت کے حوالے سے پریشان ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ‘اس سلسلے میں ونڈوز کی ویب سائٹ پر کم از کم درکار صلاحیت کے بارے میں سوالات کے جواب فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مائیکروسافٹ کا یہ بھی دعوٰی ہے کہ یہ نیا نظام ایکس پی سسٹم کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے اور ڈیوڈ مچل کے مطابق‘ وسٹا کی کاروباری ساکھ اور فروخت کے لیے صروری ہے کہ وہ ایکس پی سے زیادہ محفوظ ثابت ہو’۔

ایک ہزارکھرب فی سیکنڈ کی رفتار

             کمپیوٹر بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی آئی بی ایم امریکی حکومت کی ایک لیبارٹری میں دنیا کا سب سے تیز رفتار اور طاقتورسپر کمپیوٹر بنائے گی۔یہ کمپیوٹر مشین جس کا نام ‘ روڈ رنر’ رکھا جائے گا اس وقت موجود دنیا کے تیز ترین سپر کمپیوٹر ‘بلیو گرین’ سے چار گنا طاقتور ہو گی۔ بلیو گرین بھی آئی بی ایم نے ہی بنایا تھا۔نیا طاقتور سپر کمپیوٹر ہائبرڈ ڈزائن ہو گا جو کہ روائتی سپر کمپیوٹر اور نئے سیل جو کہ سونی پلے اسٹیشن تین میں استعمال ہو رہا ہے کو ملا کر بنایا جائے گا۔ جس لیبارٹری میں سپر کمپیوٹر بنایا جارہا ہے وہ توانائی کے امریکی ادارے یوایس ڈیپارٹمنٹ آف انرجی کی ملکیت ہے۔نیا سپر کمپیوٹر لوس ایلموس نیشنل لیباٹری میں نصب کیا جائے گا۔توانائی کے ادارے کے مطابق اس مشین کو اْس پروگرام کے لیئے استعمال کیا جائے جس کے ذریعے امریکی جوہری ہتھیاروں کو محفوظ اور قابل استعمال رکھنے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔سپر کمپیوٹر کے ذریعے یہ بات معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جوہری ہتھیاروں پر وقت گزرنے کے ساتھ کیا اثر پڑتا ہے اور اس سے اس دلیل کی نفی ہو سکے گی کہ جوہری ہتھیاروں پر وقت کے اثرات معلوم کرنے کے لیئے زیر زمین دھماکے دوبارہ شروع کرنے پڑیں گے۔یہ مشین پیٹا فلاپ کی رفتار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ آئی بی ایم کے مطابق ایک پیٹا فلاپ کا مطلب ہے کہ یہ کمپیوٹر ایک سیکنڈ میں ایک ہزار کھرب حساب لگا سکے گی یا ایک ٹریلن فی سیکنڈ کی رفتار سے کام کرے گا۔اپنی پوری رفتار میں یہ مشین سولہ ہزار کھرب فی سیکنڈ پر کام کرئے گی۔اگر اس کی رفتار کا موازنہ موجودہ سپر کمپیوٹر سے کیا جائے تو موجودہ سپر کمپیوٹر بلیو گرین ٹیرا فلاپ پر کام کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ایک کھرب فی سیکنڈ۔

             بلیو گرین جو اس وقت توانائی کے ادارے کی کیلفورنیا میں قائم لارنس لائیومور نیشنل لیباٹری میں نصب ہے دو سو اسی میرا فلاپ کی رفتار پر کام کر رہا ہے۔

ترتیب و تہذیب ،ملک مسعود اصغر (ابوظبی)