اصلی دہی محبت کو ممکن بناتا ہے
اصلی دہی دانتوں و دہانے کو صحت مند اور سانس کو خوشگوار بناتا ہے۔ سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اصلی دہی سانس کی بدبو کو کم کرتا ہے اور دانتوں اور مسوڑھوں کو خرابی سے بچاتا ہے۔ اس لیے جن لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ ان کی سانس یا دہانے کے منہ کی بدبو کی وجہ سے لوگ ان کی قربت سے گریز کرتے ہیں انہیں اصلی دہی استعمال کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے قربت کے امکان بڑھ سکتے ہیں۔ جاپانی محققین کا کہنا ہے کہ بازار میں اب میٹھے اور مختلف ذائقوں والے جو دہی اب عام ملتے والے ان کے مقابلے میں اصلی دہی انسانی جسم میں ہائیڈروجن سلفائیڈ کے اس عنصر کو کم کرتا ہے جس سے سانس میں بدبو پیدا ہوتی ہے۔دانتوں کے بارے میں تحقیق پر ایک عالمی کانفرنس کے دوران پیش کی جانے والی تفصیلات کے مطابق اصلی دہی میں کام وہ بکٹیریا کرتے ہیں جو اصلی دہی کا بنیادی عنصر ہوتے ہیں۔اس تحقیق میں چوبیس رضاکاروں نے حصہ لیا۔ ان رضاکاروں کو دو ہفتے تک اصلی دہی پنیر یا اس طرح کو کوئی بھی دوائی استعمال نہیں کرنے دی گئی جو اس طرح کی کسی بھی شکایت کے لیے ہو۔
اس کے بعد ان کے تھوک اور منہ و زبان میں موجود نمی کے نمونے حاصل کیے گئے اور ان میں بدبو دار ہائیڈروجن سلفائیڈ کی مقدار کا جائزہ لیا گیا۔اس کے بعد ان رضاکاروں کو چھ ہفتے تک روزانہ کھانے کی دوسری اشیا کے ساتھ نوے گرام دہی پر رکھا گیا اور اس کے بعد ان کے تھوک اور منہ میں موجود لعاب کے نمونے لیے گئے اور دونوں کا مقابلہ کیا گیا اور دیکھا گیا کہ کہ ہائیڈروجن سلفائیڈ کا عنصر دہی کے استعمال کے بعد اسی فی صد کم ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ دانتوں پر جمنے والے مادے، مسوڑھوں، کھوڑوں کی بیامریاں بھی دہی استعمال کرنے والوں میں کم پائی گئیں۔
قہقہے گردش خون کے لیے مفید
روزانہ پندرہ منٹ کے قہقہے صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں۔سائنسدانوں نے تحقیق کے ذریعے پتہ لگایا ہے کہ قہقہے لگانے سے انسانی جسم میں خون کی گردش کا نظام بہتر ہو جاتا ہے جس سے دل کی بیماریوں کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔امریکی شہر بالٹی مور کی یونیورسٹی میری لینڈ سکول آف میڈیسن میں تحقیق کاروں نے پتہ چلا ہے کہ قہقہے خون کی شریانوں کو مضبوط کرتے ہیں جس سے جسم میں خون کی گردش بہتر ہوتی ہے۔تحقیق کے مطابق مزاحیہ فلمیں دیکھنے سے صحت اچھی ہوتی ہے ۔تناؤ کی کیفیت گردش خون میں رکاوٹ بنتی ہے۔ تحقیق کاروں نے بیس صحت مند افراد پر تحقیق کی جس سے یہ پتا چلا ہے کہ قہقہے انسانی صحت کے لیے مفید ہیں۔اس تحقیق میں شامل لوگ تمباکو نوشی سے پرہیز کرتے تھے اور ان سب کی عمریں تینتیس سال سے کم تھیں۔تحقیق کاروں کی ٹیم کے سربراہ مائیکل ملر کے مطابق ایک ہفتے میں تین بار آدھے گھنٹے کی ورزش اور روزانہ پندرہ منٹ تک قہقے دل کی بیماریوں کو دور رکھنے کے لیے کافی ہیں۔تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بات ثابت ہو گئی کہ زندگی میں مثبت رویوں سے صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔
خواتین کا دل مردوں سے مضبوط
عورتوں کی اوسط عمر مردوں سے پانچ سال زیادہ ہوتی ہے ایک حالیہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ خواتین کی اوسط عمر مردوں سے زیادہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کا دل مردوں سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ لیورپول جان مورز یونیورسٹی کے تحقیقات کاروں کی ایک ٹیم کے مطابق مرد اٹھارہ سال سے ستر سال کی عمر کے دوران اپنے دل کی خون پمپ کرنے کی ایک چوتھائی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ تاہم بیس سے ستر سال کی عمر کے دوران خواتین کے دل کی صلاحیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔اس تحقیق میں 250 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔تحقیقات کاروں کا کہنا ہے کہ تحقیق سے معلوم ہوگا کہ عورتوں کی عمر مردوں سے اوسطاً پانچ سال زیادہ کیوں ہوتی ہے۔تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ خون کی شریانیں سخت ہوتی جاتی ہیں جس سے فشار خون ورزش اور آرام دونوں کے دوران بڑھتا جاتا ہے۔ پروفیسر ڈیوڈ گولڈ سپلنک کا کہنا ہے کہ انہیں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ لگی ہے کہ مرد اور عورت کے دلوں کی مضبوطی میں واضح فرق ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ مردوں میں اپنی صحت بہتر بنانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سوزانا نے اس تحقیق کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ عورتوں کی اموات کی بڑی وجہ امراض دل ہیں۔برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے مطابق ہر چھ میں سے ایک خاتون کی موت دل کے مرض کے باعث ہوتی ہے۔
مرغی کے انڈوں سے کینسر کا علاج
امید ہے کہ اس تحقیق کے بعد کینسر کے علاج کے لیے ادویات کم لاگت اور آسانی سے بنائی جا سکیں گی۔برطانیہ میں سائنسدانوں نے ایسی مرغیاں تیار کر لی ہیں جو کینسر کی ادویات میں استعمال ہونے والی پروٹین کے حامل انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔اس سائنسی کامیابی کا دعویٰ اسی ریسرچ سنٹر نے کیا ہے جو اس سے پہلے کلون شدہ بھیڑ ڈولی کے ذریعے دنیا بھر میں شہرت پا چکا ہے۔ایڈنبرا کے نزدیک واقع روسلن انسٹیوٹ کا کہنا ہے کہ ادارے میں ہونے والی ریسرچ کے نتیجے میں ایسی مرغیوں کی پانچ نسلیں تیار ہو چکی ہیں جو انڈے کی سفیدی میں ادویات میں استعمال ہونے والی کارآمد پروٹین تیار کر سکتی ہیں۔امید ہے کہ روسلن انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں کینسر کے علاج کے لیے ادویات کم لاگت اور آسانی سے بنائی جا سکیں گی۔انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیری گرِفن نے بی بی سی کو بتایا کہ آج کل تیار ہونے والی زیادہ تر اویات کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت مہنگی ہیں۔
جینیاتی طریقے استعمال میں لاکر مرغیوں کے ذریعے کارآمد پروٹین حاصل کرنے کے پیچھے کارفرما سوچ یہ تھی کہ کوئی ایسا طریقہ نکالا جائے جس کے ذریعے مطلوبہ پروٹین بڑی مقدار میں حاصل کی جا سکے۔ ایسی مرغیوں سے یہ پروٹین بہت ہی کم لاگت سے حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ یہاں صحیح معنوں میں بنیادی خرچہ ان مرغیوں کی خوراک ہی ہے۔روسلن انسٹی ٹیوٹ میں جینیاتی طریقوں سے ترقی دادہ پانچ سو مرغیاں تیار کی گئی ہیں۔ ان مرغیوں کی تیاری پندرہ سالوں پر محیط اس سائنسی منصوبے کا نتیجہ ہے جسے ڈاکٹر ہیلن سانگ کی سربراہی میں تکمیل کو پہنچایا گیا۔روسلن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اس پروٹین کے مریضوں پر تجرباتی استعمال کا آغاز پانچ سال تک ہو سکتا ہے جبکہ ادویات کی صورت میں اس کے ثمر کے لیے مزید دس سال درکار ہوں گے۔شوگر کے مریضوں میں استعمال ہونے والے انسولین کی طرح کی تھیراپوٹک پروٹین ایک لمبے عرصے سے بیکٹیریا میں تیار کی جا رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف پیچیدہ نوعیت کی چند دیگر پروٹین بڑے جانوروں کے نسبتاً حساس سیلوں میں تیار کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے جینیاتی طریقوں سے ترقی دادہ بھیڑوں، بکریوں، گائیوں اور خرگوشوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔روسلن انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے کام سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب مرغیوں کو بھی بائیو فیکٹری کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔روسلن انسٹی ٹیوٹ میں تیار کردہ کئی مرغیوں کی جینیاتی ساخت ایسی رکھی گئی ہے کہ ان کے ذریعے جلد کے کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والی ایٹی باڈی ایم آئی آر 24 حاصل کی جا سکتی ہے۔ڈاکٹر سانگ کے مطابق ٹیم کو مرغیوں کی پیداواری صلاحیت سے بہت حوصلہ ملا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔
ورزش سے بڑی آنت کے کینسر میں کمی
گھر کے کام کاج کر کے بھی کینسر سے بچا جا سکتا ہے ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق جسمانی طور پر چاق و چوبند رہنے سے بڑی آنت کے کینسر کا خطرہ بہت حد تک کم ہو جاتا ہے۔اس سلسلے میں سائنسدانوں نے دس یورپی ملکوں سے چار لاکھ تیرہ ہزار افراد سے لیے گئے مواد کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا کہ جسمانی طور پر چاق و چوبند لوگ باقی لوگوں کی نسبت بائیس فیصد تک کم تعداد میں بڑی آنت کے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق دن بھر میں ایک گھنٹے کی سخت ورزش یا بھر دو گھنٹے کی درمیانے درجے کی ورزش کینسر کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کافی ہے۔اس تحقیق سے پتا چلا ہے جسمانی طور پر فعال افراد کی پینتیس فیصد تعداد بڑی آنت کے دائیں جانب کے حصے کے کینسر سے محفوظ رہتی ہے۔ ایسے لوگ جو کہ چاق و چوبند ہوتے ہیں اور ان کا وزن بھی کم ہوتا ہے ان میں اس طرح کے کینسر کا خطرہ اور بھی کم ہو جاتا ہے۔
زیادہ ڈبل روٹی: کینسر کا خطرہ
ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ ڈبل روٹی کی بجائے سبزیوں کا استعمال کرنا چاہیے۔ ایک اطالوی تحقیق کے مطابق کثرت سے ڈبل روٹی کھانے والے لوگوں کو گردوں کے سرطان کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔دو ہزار تین سو لوگوں پر تحقیق کے بعد اس بات کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ چاول اور پاستا کھانے سے بھی اس سرطان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ سبزیاں اور گوشت کھانے سے اس رسک میں کمی ہو جاتی ہے۔میلان میں فرماکولاجیکل ریسرچ کے ادارے کے تحقیق کاروں نے ایسے 767 افراد جو کہ گردوں کے کینسر کا شکار تھے کا ایسے لوگوں سے موازنہ کیا ہے جنہیں یہ بیماری نہیں تھی۔انہوں نے دو سال تک ان لوگوں کی ذاتی اور خاندانی میڈیکل ہسٹری، رہن سہن کے طریقے اور خوراک کا مطالعہ کیا۔ سائنسدانوں کی کوشش تھی کہ وہ یہ جان سکیں کہ ایسی کون سی غذائیں ہیں جو رینل سیل کارسینوما کے خطرے میں اضافہ کرتی ہیں۔ یہ ریسرچ کینسر کے بین الااقوامی جریدے ‘انٹرنیشنل جرنل آف کینسر’ میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جو مریض ڈبل روٹی کا استعمال زیادہ کرتے ہیں انہیں گردوں کے کینسر کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دیگر کھانے پینے کی اشیاء جن میں کافی، چائے، انڈے، گوشت، مچھلی، پنیر، آلو، اور پھل شامل ہیں گردوں کو متاثر نہیں کرتے۔اس تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈبل روٹی میں گلائیکامی انڈکس کی زیادہ مقدار کینسر کے رسک میں اضافہ کرتی ہے۔یو کے کینسر ریسرچ کا کہنا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس طرح کا دعویٰ کیا گیا ہے اور انہوں نے لوگوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ اس سے پریشان نہ ہوں۔اس ادارے کے ترجمان کا کہنا ہے تمباکو نوشی اور موٹاپا دو ایسی وجوہات ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سے بچ کر کینسر سے بچا جا سکتا ہے۔برطانیہ میں ہر سال چھ ہزار چھ سو سے زائد افراد میں گردوں کے سرطان کی تشخیص ہوتی ہے۔
وٹامن ڈی سے کینسر میں کمی
چکنائی دار مچھلی سے وٹامن ڈی حاصل کیا جا سکتا ہے امریکی سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وٹامن ڈی کے زیادہ مقدار میں استعمال سے کینسر کی کئی اقسام کوپچاس فیصد تک کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔تحقیق کاروں نے تریسٹھ تحقیقاتی رپورٹوں کے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی یقینی نتیجے پر پہنچنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ماہرین نے کیلیفورنیا یونیورسٹی کی اس کاوش کا خیر مقدم کیا ہے لیکن انہوں نے خبردار کیا ہے کہ وٹامن ڈی کی زیادتی سے گردے اور جگر متاثر ہو سکتے ہیں۔اس وٹامن کی قدرتی شکل جسے ڈی 3 کہا جاتا ہے عام طور پر سورج کی شعاؤں سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ چند غذاؤں میں بھی پائی جاتی ہے جن میں گوشت مکھن اور چکنائی والی مچھلی شامل ہیں۔تحقیق کاروں نے اپنے مطالعے کے دوران خون میں وٹامن ڈی کی مقدار اور کینسر کے خطرے کے باہمی تعلق کا جائزہ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ افریقہ کے لوگوں میں کینسر کے خلاف کم مدافعت پائی جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی سیاہ جلد وٹامن ڈی کو بنانے میں مددگار ثابت نہیں ہوتی۔تحقیق کے دائرے میں لائی گئی رپورٹوں کا تعلق 1966 سے 2004 کے درمیانی عرصہ سے ہے جو کینسر کی سب سے عام قسموں کے متعلق ہیں۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کینسر کی کچھ ایسی اقسام ہیں جن میں وٹامن ڈی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔وٹامن ڈی کی پچیس مائیکروگرام مقدار کے روزانہ استعمال سے کینسر کا خطرہ پچاس فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔ تاہم تحقیق نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ اس وٹامن کی زیادہ مقدار بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔اس تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر سیڈرک جیرالڈ کا کہنا ہے کہ‘طب کی دنیا کی بہترین تحقیق پر غور کرنے سے یہ نتائج اخذ کیے گئے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ سورج کی روشنی کی عدم موجودگی میں خوراک اور ‘فوڈ سپلیمنٹ’ کے ذریعے وٹامن ڈی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سورج کی شعاؤں میں بھی کینسر کا خطرہ موجود ہے۔وٹامن ڈی حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے انہوں نے کہا کہ‘سیاہ رنگت والے لوگوں کو وٹامن بنانے کے لیے سورج کی شعائیں زیادہ دیر تک لینی پڑتی ہیں’۔انسٹیٹیوٹ آف کینسر ریسرچ کے پروفیسر کولن کوپر کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ اگر آپ کسی ایک تحقیق کا مطالعہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ثبوت صرف ایک رائے کی حیثیت رکھتے ہیں اور کوئی حتمی نتیجہ نہیں بتا سکتے’۔انہوں نے اعتراض کیا کہ ‘تحقیق کار یہ بتانے میں ناکام رہے ہیں کہ وٹامن کی کم مقدار کس طرح کینسر کے امکانات میں اضافہ کرتی ہے؟’ ایسوسی ایشن آف کینسر ریسرچ کے پروفیسر مارک میٹفیلڈ نے بھی اس بات کی تائید کی ہے کہ یہ تحقیق وٹامن ڈی کے فوائد کے بارے میں کوئی حتمی ثبوت فراہم نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ‘یہ ٹھیک ہے کہ وٹامن ڈی اور کینسر کے مرض کے درمیان ایک تعلق ظاہر ہو رہا ہے لیکن یہ صرف ایک تعلق ہے’۔
انسانی جلد کے رنگ کا راز
زیبرا مچھلی کی جلد کی جنیاتی ساخت انسانی جلد سے ملتی جلتی ہے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زیبرا مچھلی کے جلد کے خلیوں کے مطالعہ سے انسانی جلد کے رنگ کا راز جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔پین سٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیقی ٹیم کا کہنا ہے کہ جین میں معمولی ردو بدل جلد کا رنگ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔سائنس نامی رسالے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے اس بات کی مزید وضاحت ہو سکتی ہے کہ یورپی ممالک میں رہنے والوں کا رنگ افریقہ میں رہنے والوں کی نسبت ہلکا کیوں ہوتا ہے۔اس تحقیق کی روشنی میں جلد کے کینسر کے علاج کے سلسلے میں مزید طریقے سامنے آنے کی امید ہے۔ اس کے ساتھ ہی جلد کو نقصان پہنچائے بغیر اس کے رنگ کو تبدیل کرنے کے لیے رنگ ہلکا کرنے والے سخت کیمیکل کو استعمال کرنے کے حوالے سے بھی نئے طریقے سامنے آسکتے ہیں۔ انسانی جلد اور اس کے رنگ کی جینتیاتی ساخت حیاتیاتی رازو ں میں سے ایک رازہے تاہم انسانی جلد کے رنگوں میں فرق کے ذمہ دار بہت سے جین ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ دوران تحقیق پین سٹیٹ کی تحقیقاتی ٹیم نے ایک جین ،جسے ٹیم نےSLC24A5 کا نام دیا، دریافت کیا۔ اس جین کے بارے میں پہلے یہ معلوم نہیں تھا کہ جلد کے رنگ میں اس کا بھی کوئی کردار ہے۔جلد کے حوالے سے تحقیق کے لیے زیبرا مچھلی آئیڈیل تصور کی جاتی ہے کیونکہ اس کی جلد کی ساخت کسی قدر انسانی جلد کی ساخت سے ملتی جلتی ہے۔زیبرا مچھلی پر تحقیق کرنے والے محققین نے پتہ لگایا کہ زیبرا مچھلیوں میں انسانی پگمنٹ سیل کی طرح کے دانے ہوتے ہیں جنہیں Melanosomes کہا جاتا ہے۔ زیبرا مچھلی کی ایک قسم گولڈن فش میں عام مچھیلوں کی نسبت ان دانوں کی تعداد کم، ہلکی اور ذرا چھوٹی دیکھی گئی۔ محققین نے اس بات کو بھی محسو س کیا کہ جلد کا ہلکا رنگ SLC2A5 نامی جین میں تغیر سے پیدا ہوا جس نے جلد میں پروٹین بننے کاعمل ختم کر دیا۔گولڈن فش کی جلد میں پروٹین کی مقدار شامل کرنے سے اس کا رنگ گہرا ہو گیا۔ اگلے مرحلے پر سائنسدانوں نے انسانی جینز (genome) سے حاصل نتائج کا تجزیہ کیا اور اس میں بھی اسی قسم کی بات محسوس کی۔انسانوں کی اکثریت SLC24A5 نامی جینیاتی ساخت رکھتی ہے لیکن یورپ سے تعلق رکھنے والوں میں جلد کی جنیاتی ساخت قدرے مختلف ہوتی ہے۔اس تحقیق میں شامل ڈاکٹر مارک شریور کہتے ہیں کہ‘ ہم انسان کے جنیاتی اور ارتقائی بناوٹ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ انسانی جسم کے حصوں جیسے آنکھ ، بال اور جلد کے رنگ کی بنیادی خصوصیات کو جانے بغیر محض انسانی جین کی مدد سے پیچیدہ بیماریوں کے بارے میں معلوم نہیں کرسکتے’۔انہوں نے کہا کہ زیبرا مچھلی کی جلد کے رنگ کے تجربے سے پیچیدہ جلدی بیماریوں کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔برطانیہ کے کینسر ریسرچ کے ادارے کی ڈاکٹر ایما کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج حوصلہ افزا نہیں کہ ان کی بنیاد پر جلد کے کینسر کے حوالے سے کسی پیش رفت کی امید لگائی جائے۔ خاص کر یورپی ممالک کے لوگو ں میں جلد کے مختلف ہونے کے حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کمپیوٹر اب انسانی خیالات پڑھیگا
میتھیو نیجل نامی مریض پر یہ آپریشن امریکہ میں کیا گیا۔چاقو کے حملے میں زخمی ہونے کے بعد مفلوج ہونے والے ایک شخص کے دماغ میں ایک ‘چپ’ نصب کی گئی ہے جو اس کے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو پڑھ سکے گی۔یہ ‘چپ’ مذکورہ شخص کے دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کو پڑھ کر اسے ایک کمپیوٹر پر ظاہر کرے گی جس سے اسے روزمرہ کے کام سر انجام دینے میں مدد ملے گی۔جیسے ہی وہ شخص کوئی کام سر انجام دینا چاہے گا، کمپیوٹر ‘ کرسر’ کو سکرین پر موجود متعلقہ آئیکون پر لے جائے گا۔اس ایجاد کی مدد سے مریض ٹی وی کھول سکے گا ، اسے بند کر سکے گا، چینل تبدیل کر سکے گا اور اس کی آواز میں ردوبدل کر سکے گا۔میتھیو نیجل نامی مریض پر یہ آپریشن امریکہ میں کیا گیا۔ بی بی سی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ یہ مفلوج افراد کی بحالی کی کوششوں میں ایک بڑا قدم ہے۔
رنگ کیوں نظر آتے ہیں؟
امریکی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ اب یہ بتا سکتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو ہندسے پڑھتے وقت رنگ کیوں دکھائی دیتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہر دو ہزار انسانوں میں ایک اس غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے جس میں تمام حسیات ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو موسیقی سنتے وقت رنگ نظر آتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ ہیں الفاظ کو ‘چکھ’ سکتے ہیں۔یونیورسٹی آف کلی فورنیا سان ڈیگو کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ ان کی دریافت سے ان خیالات کو تقویت ملی ہے کہ ایسی حالت تب پیدا ہوتی ہے جب دماغ کے ساتھ منسلک حصے دوسری حسیاتی معلومات کی تشکیل میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ حالت اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب بچہ ماں کے رحم میں دماغ کے ان حصوں اور اعصاب کے درمیان تعلق بنانے میں ناکام رہا ہو۔مثال کے طور پر ایک شخص جو اس حالت سے دوچار ہو اسے سیاہی میں لکھا ہوا 5 کا ہندسہ دیکھنے پر لال رنگ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دماغ میں لال رنگ میں امتزاج کرنے والا حصہ ہندسوں کی پہچان کرنے والے حصے کے ساتھ متحرک ہوتا ہے۔
ترتیب و تہذیب ،محمد آصف اقبال ، ابو ظبی