زیتون کے استعمال سے درد غائب
امریکہ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ زیتون کے تیل میں موجود ایک کیمیائی مادہ درد کی شدت کم کرنے والی دواؤں جیسا اثر رکھتا ہے۔تحقیق دانوں کے مطابق پچاس گرام زیتون کا تیل بروفن کی ایک خوراک کے دسویں حصے کے برابر اثر پذیر ہے۔فلاڈلفیا کے ایک تحقیقی ادارے کا کہنا ہے کہ زیتون کے تیل کا ایک جزو سوجن ختم کرتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس جزو کے اثر سے سر درد جیسے امراض پر مکمل طور پر قابو تو نہیں پایا جا سکتا تاہم اس سے بحیرہ روم کے علاقے کی خوراک کی افادیت ضرور ظاہر ہوتی ہے۔زیتون کا تیل بحیرہ روم کے علاقے کی خوراک کا لازمی جزو ہے اور اسے صحت کے لیے مفید تصور کیا جاتا رہا ہے۔ تحقیق کے مطابق زیتون کے استعمال سے جسم میں دل کی بیماریوں، چھاتی کے سرطان اور پھیپڑوں کے کینسر جیسی موذی بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا ہوتی ہے۔زیتون کی اس خاصیت کے بارے میں تحقیق کاروں نے اس وقت غور کیا جب ٹیم کے ایک رکن نے محسوس کیا کہ تازہ زیتون کھانے سے گلے میں ویسی ہی خراش ہوتی ہے جیسا کہ بروفن کھانے سے۔برٹش نیوٹریشن فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والی سائنسدان کلیئر ولیمسن کا کہنا تھا کہ زیتون میں متعدد بائیوایکٹو مرکبات پائے جاتے ہیں تاہم ہم ابھی مکمل طور پر یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کام کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین ہے زیتون انٹی آکسیڈنٹ خصوصیات کا حامل ہے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ وہ ایک دوا کا نعم البدل ہے۔ اس معاملے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ذہنی دباؤ کم کیجئے، صحت مند رہیے
یہ تو سائنسدان پہلے ہی جان چکے ہیں کہ ذہنی دباؤ سے دل کا دورہ پڑ سکتا ہے مگر اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ یہ ہوتا کیسے ہے۔ اب ایک نئی تحقیق کے مطابق ماہرین نے یہ بھی معلوم کرلیا ہے کہ ذہنی دباؤ سے دل کے دورے کا کیا تعلق ہے اور یہ عمل کیسے ہوتا ہے۔اس تحقیق میں دل کے ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا جن کو ذہنی دباؤ کے باعث دل کا درد یا پھر دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ ایک طویل عرصے تک ذہنی دباؤ کا شکار رہنے سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے جس سے خون میں جمنے والے اجزا پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو کہ شریانوں کو بند کرسکتے ہیں۔یونیورسٹی کالج آف لندن کی یہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ ذہنی دباؤ ہمارے لیئے کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ہم سب کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ ہمیں کیا چیز سب سے زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار کرتی ہے تاکہ ہم اس سے نمٹنے اور اپنے اوپر قابو پانے کے طریقوں پر غور کریں۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر انڈریو سٹیپٹو کا کہنا ہے کہ سالہا سال کا جذباتی و ذہنی دباؤ کمزور افراد میں دل کے دورے کا باعث بن سکتا ہے۔ اور اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ لوگ مختلف حالات میں کیسے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔اس کامطلب یہ ہوا کہ اگر لوگ مشکل صورتحال میں اپنے جذبات پر قابو پانا سیکھ جائیں تو یہ ان کی صحت کے لیئے بہت اچھا ہے۔
آکوپنکچر بھی اثر رکھتا ہے
برطانیہ میں سائنسدانوں نے ایک تحقیق کے بعد پہلی مرتبہ کہا ہے کہ چینیوں کا قدیم طبی طریقہ آکوپنکچر بھی ایک طرح سے اپنا اثر رکھتا ہے۔یونیورسٹی کالج لندن اور ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آکوپنکچر کے دوران دماغ کا ایک حصہ خود بخود حرکت میں آ جاتا ہے اور اس کی ہی وجہ سے درد میں کمی واقعہ ہوتی ہے۔
گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے مغرب میں آکوپنکچر کے طریقہ علاج کو جس میں جسم کے حصوں میں سوئیاں چبھوئی جاتی ہیں، بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ خاص کر درد کو کم کرنے میں اس طریقہ علاج کو کافی موثر مانا جاتا ہے۔ تاہم کئی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ اس لیے موثر لگتا ہے کہ مریض توقع کرتا ہے کہ یہ کام کرے گا۔برطانوی سائنسدانوں کی تحقیق جریدے نیورو امیج میں شائع ہوئی ہے۔
سائنسدانوں نے آکوپنکچر کے ذریعے گٹھیا کا علاج کرانے والے مریضوں کا سکین کرنے کے لیے پوزیٹرون ایمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ برطانوی آکوپنکچر ایسوسی ایشن کونسل کی سارہ ولیمز نے کہا ہے کہ یہ آکوپنکچر کے لیے بڑی مثبت خبر ہے اور یہ نئی تحقیق اْس بات کو واضح کرتی ہے جو آکوپنکچر کرنے والے بڑی عرصے سے جانتے ہیں۔ وہ یہ کہ آکوپنکچر کا طریقہ علاج اپنا کام کرتا ہے اور اس کا اثر ‘پلاسیبو ایفیکٹ سے کہیں زیادہ ہے۔
پانی کے نیچے ہزاروں طرح کی حیات
دنیا بھر کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے سال آبی حیات کی تیرہ ہزار نئی قسمیں دریافت کی ہیں۔ان میں تقریباً ایک سو نئی مچھلیاں شامل ہیں۔لگ بھگ ستر ممالک کے سائنس دانوں کے تعاون کے ادارے سنسس آف مرین لائف نے ٹونا اور شارک جیسی مچھلیوں کے بارے میں نئی معلومات بھی حاصل کی ہیں۔ان نئی قسموں میں سے زیادہ تر گہرے پانی میں دریافت کی گئیں اور ان میں سے تقریباً نصف مائکروبز ہیں۔بی بی سی کے ماحولیاتی نامہ نگار کے مطابق اس دریافت سے ایسا لگتا ہے کہ ابھی اور بھی بہت ساری قسموں کی دریافت ہونے والی ہے۔آبی حیات کے بارے میں تحقیق کرنے والے ایک محقق ڈاکٹر ران ڈار کہتے ہیں ‘ہمیں معلوم ہے کہ آبی حیات کا موضوع اتنا وسیع ہے کہ ہمیں یہ علم ہی نہیں کہ پانیوں کی تہوں میں کس طرح کی حیات ہے۔‘ہماری تحقیق اور تجزیہ کے مطابق اگر آپ دو ہزار میٹر گہرے پانی میں مچھلی پکڑ لیں تو اس بات کا امکان پچاس فیصد بڑھ جاتا ہے کہ ہمیں سمندری حیات کی اس قسم کا پتہ پہلے نہیں تھا۔ایک اور تحقیق کار ڈاکٹر کرس جرمن کہتے ہیں کہ ‘ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ گہرے پانیوں کے نیچے حیات کس طرح کی ہے اور سمندر میں کاربن کو کس طرح روک لیتی ہے کہ یہ کاربن واپس ہماری جانب نہیں آتا۔
ماں کا دودھ ، بلڈ پریشر بہتر
حال ہی میں کیے جانے والے ایک مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ ماں کا دودھ پینے والے بچوں کے بلڈ پریشر پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔محقین کا کہنا ہے کہ ماں کا دودھ پینا بچوں کے لیے ایک اچھی ورزش ثابت ہوتا ہے اور بچہ جس قدر زیادہ عرصے تک ماں کا دودھ پیتا ہے اسی قدر اس کے بلڈ پریشر پر مثبت اثرات زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔یہ نتائج دو ہزار بچوں پر کی جانے والی تحقیق کے بعد مرتب کیے گئے ہیں اور انہیں بچپن میں امراض کے بارے میں شائع ہونے والے ایک جریدے میں شائع کیا گیا ہے۔
ان بچوں کا تعلق ڈنمارک اوراستونیا سے تھا اور اس سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا گیا کہ ماں کا دودھ پینے کے دل پر پڑنے والے اثرات جغرافیائی حالات کے نتیجے میں بھی تبدیل ہوتے ہیں یا نہیں۔محقیقن کا کہنا ہے کہ جغرافیائی تبدیلی ماں کے دودھ کے اثرات میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتی۔لیکن یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ جو بچے زیادہ عرصے تک ماؤں کا دودھ پیتے ہیں ان میں خون کا دباؤ کم رہتا ہے۔
انار مثانے کے کینسر میں مفید
ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انار کے رس سے مثانے کے کینسر کے پھیلنے کی رفتار سست کی جاسکتی ہے۔مثانے کے کینسر کے لیے جب چوہوں پر تجربہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں کینسر کے پھیلنے کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔انار کا وطن مشرق وسطیٰ ہے۔ اس میں اینٹی اوکسیڈینٹس اور اینٹی انفلیمیٹری ایجنٹس پائے جاتے ہیں۔
وسکنسن یونیورسٹی کی یہ تحقیق نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نے پیش کی ہے۔ برطانیہ میں مردوں کو مثانے کے کینسر کی تشخیص بہت عام ہے۔ ہرسال تیس ہزار مردوں میں مثانے کے کینسر کی تشخیص کی گئی جبکہ دس ہزار مرد اس سے مر جاتے ہیں۔اس سے قبل تحقیق سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ انار کا رس چوہوں کی جلد میں پیدا ہونے والے ٹیومر کے خلاف موثر پایاگیا۔اسرائیل کے سائنسدان نے بتایا ہے کہ انار کے رس کا ایک گلاس روز پینے سے دل کی شریانوں کی بیماری کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے
دوران تحقیق ٹیم نے دیکھا کہ کس طرح انار کے رس نے کینسر پر قابو پا لیا اور اس کی مقدار زیادہ کرنے سے کینسر مکمل طور پر ختم ہو گیا۔دی پروسٹیٹ کینسر چیرٹی کے ڈاکٹر کرس ہلیے کا کہنا ہے کہ یہ ایک کارآمد تحقیق ہے۔ ان مردوں کو جو اس مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں یا وہ جو اس مرض میں پہلے سے مبتلا ہیں اس تحقیق سے فائدہ حاصل ہوسکتاہے۔انہوں نے کہا کہ متوازن غذا کے لیے کھانے میں پھل اور سبزیاں ضروری ہیں تو کیوں نہ بیماریوں خصوصاً کینسر سے بچاؤ کے لیے انار اور اس کے رس کا استعمال بڑھا دیا جائے۔
میاں بیوی کاجھگڑا ، علاج میں دیر
امریکی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جیون ساتھی کے ساتھ آدھے گھنٹے کی جھڑپ زخم کے ٹھیک ہونے میں ایک دن کی تاخیر کا باعث بننے کے لیے کافی ہے۔اوہایو یونیورسٹی کی تحقیقاتی ٹیم نے بیالیس جوڑوں پر اپنی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ لڑائی کرنے والے جوڑوں میں زخم کے ٹھیک ہونے کی رفتار چالیس فیصد کم ہے۔اس ٹیم نے ہسپتالوں پر زور دیا ہے کہ وہ آپریشن سے پہلے مریض کے ذہنی دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے مریض کو ہسپتال میں کم عرصہ کے لیے رہنا پڑے گا۔اس تحقیق میں مریضوں کے زخموں پر مختلف آلات نصب کیے گئے اور ان سے مختلف سوال نامے بھی پر کروائے گئے۔ اس کے بعد مختلف موقعوں پر انہیں آپس میں مختلف اختلافی امور پر گفتگو کرنے کے لیے کہا گیا۔لڑائی جھگڑا کرنے والے جوڑوں کے خون کا تجزیہ کیا گیا جس کے نتائج پرامن جوڑوں سے مختلف تھے۔ان کے خون میں مدافعت پیدا کرنے والے کیمیکل زیادہ پائے گئے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ زخم کی بحالی بہت حساس عمل ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحت اور تندرستی کا دماغی حالت سے گہرا تعلق ہے۔دماغی حالت کاجلد کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ اسی وجہ سے غصہ یا شرم کی حالت میں چہرے کی رنگت بدل جاتی ہے۔تاہم پروفیسر جین گلیسر کا کہنا ہے کہ اس سے نتائج اخذ کرنا قبل از وقت ہو گا کیونکہ اس تحقیق کا دائرہ کار صرف جلد تک محدود تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مدافعتی نظام کا آہستہ ہونا کئی دفعہ مثبت بھی ثابت ہو سکتا ہے انہوں نے کہا کہ شہروں میں رہنے والے لوگ انفکشن کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں پچاس فیصد لوگ ایک سال کی عمر سے پہلے مر جاتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کا مدافعتی نظام تیز ہو گیا اور شرح اموات کم ہو گئی۔انہوں نے کہا کہ لیکن اس کی وجہ سے خود مدافعتی بیماریاں پیدا ہو گئیں جیسے کہ دمہ، اس لیے اگر مدافعت کا نظام آہستہ ہو جائے تو اس کے بھی فائدے ہیں۔
سگریٹ کم ہوں یا زیادہ ، موت
ناروے سے تعلق رکھنے والے محققین کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک دن میں ایک سے چار سگریٹ پینے والوں کے دل کی بیماری میں مبتلا ہو کرمرنے کا خطرہ تین گنا بڑھ جاتا ہے۔تحقیقی کام کے مطابق تمبا کو نوشی کے مضر اثرات سے خواتین کے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ انتہائی کم مقدار میں سگریٹ پینے والے بھی دل کے کینسر کی بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔دن میں تین سے چار مرتبہ سگریٹ پینے والے مرد و خواتین کا مقابلہ ان افراد سے کیا گیا جنہوں نے کبھی سگریٹ ہی نہیں پیا تو یہ بات سامنے آئی کہ تین سے چار مرتبہ سگریٹ پینے والوں میں سگریٹ نہ پینے والوں کی نسبت دل کی شریانوں کی بیماری میں مبتلا ہونے کاخطرہ تین گنا بڑھ جاتا ہے۔انتہائی کم مقدار میں سگریٹ پینے والے بھی دل کے ساتھ ساتھ کینسر کی بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔دن میں ایک سے چار سگریٹ پینے والی خواتین میں پھیپھڑوں کے سرطان سے مرنے کاخطرہ پانچ فیصد جب کہ مردوں میں پھیپھڑوں کے سرطان سے مرنے کا خطرہ تین فیصد ہے۔ ایکشن آن سموکنگ اینڈ ہیلتھ سے تعلق رکھنے والی ایمنڈا سینڈفورڈ کا کہنا ہے کہ تحقیق نے ساری بات واضح کر دی ہے اور تین یاچار سگریٹ پینے والوں کو اس فرضی کہانی سے باہر لے آئے گی کہ تین یاچار سگریٹوں سے صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ سگریٹ پینے والے تمام افراد اپنی صحت کو خطرے کی لکیر پر لا کھڑا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دل، سرطان اور دوسری جان لیوا بیماریوں سے بچانے کا واحد راستہ تمباکو نوشی سے مکمل اجتناب ہے۔محکمہ صحت کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں تمباکو نوشی سے ہرسال ایک لاکھ چھ ہزار افراد مر جاتے ہیں۔یہ بات اس لیے تشویش ناک ہے کہ برطانیہ میں سگریٹ پینے والوں کی تعداد سینتیس لاکھ ہے یعنی تمباکو نوشی کرنے والا ہر تیسرا شخص دن میں دس یا دس سے کم سگریٹ پیتا ہے۔
حمل میں سگریٹ ، اولاد بدتمیز
ماہرین نے کہا ہے کہ حمل کے دوران تمباکو نوشی کرنے سے بچوں کے بد تمیز ہونے کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حمل کے دوران تمباکو نوشی اور غیر مہذب رویے میں تھوڑا لیکن اہم تعلق ہے۔ یہ تحقیق برطانیہ میں نفسیات کے ادارے ‘انسٹیٹیوٹ آف سائکایٹری’ نے سائکایٹری کے ایک جریدے میں شائع کی ہے۔
ماہرین نے ایک ہزار آٹھ سو چھیانوے جڑواں بچوں پر کی گئی تحقیق سے معلوم کیا ہے کہ حمل کے دوران سگریٹوں کی تعداد میں اضافے سے بچوں میں بے ہنگم رویے کی علامات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق بے ہنگم رویے کے لیے سماجی عوامل بھی بہت حد تک ذمہ دار ہوتے ہیں۔
ماہرین نے کہا ہے کہ تمباکونوشی اور بے ہنگم رویے میں تعلق کی بہت سی توجیہات ہیں۔ ایک رائے کے مطابق تمباکو کا دھواں بھی ماں کے پیٹ میں بچے پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے لیے آکسیجن کی کمی کا باعث بنتا ہے۔
(بحوالہ بی بی سی ڈاٹ کام)