نیویارک کی ایک بلند پایہ یونیورسٹی کے شعبہ مذہبی تعلیمات میں ایک ہوشیار طالب علم پچھلے کچھ سال سے تعلیم حاصل کر رہا تھا اس کی پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری میں تھوڑا وقت رہ گیا تھا۔ یونیورسٹی کے ڈین نے اسے صلاح دی کہ اگر وہ سند حاصل کرنے سے پہلے شادی کر لے تو مستقبل میں اس کی ترقی کے مواقع زیادہ ہو جائیں گے۔ اس طالب علم کا نام فرینکل تھا۔ اس کی عمر ستائیس سال کی تھی۔ وہ کتابی کیڑا تھا اس لئے اسے سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی فرصت نہیں تھی۔ وہ دینی علوم میں کافی حد تک عبور حاصل کر چکا تھا لیکن انفرادی اور اجتماعی روابط قائم کرنے میں پیچھے رہ گیا تھا۔ جب ڈین نے اسے شادی کا مشورہ دیا تو اس کے سامنے اندھا کنواں تھا۔ وہ نیو یارک کے بالائی علاقے کی ایک پرانی عمارت کی چوتھی منزل پر رہتا تھا۔ اسے خیال آیا کہ اِس مقصد کے لئے اخبار ات و رسائل کا سہارا لیا جائے۔ اس دوران اس کی نظر ایک اخباری تراشے پر پڑی جو دو سطری تھا۔ یہ ‘ضرورت رشتہ’ کا اشتہار تھاجس میں میرج بیوروکے مالک سالزمن نے ہر کسی کے لئے موزوں رشتوں کا بندوبست کرنے کا دعوی کیا تھا۔ اس نے اپنے اشتہار میں کوئی ٹیلی فون نہیں دیا تھا بلکہ صرف پتا دیا تھا کہ رابطہ بذریعہ خط و کتابت کیا جائے۔ فرینکل نے اپنے بارے میں ضروری معلومات جیسے اس کی حیثیت، تعلیم، عمر، آمدن، توقعات، رتبہ کیا ہے اور وہ ڈگری کے حصول میں آخری منزل پر ہے وغیرہ بھیج دیں۔ ایک ہفتے بعد اس کے خط کا جواب آ گیا۔ میرج بیورو کے سالزمن نے اسے اپنے ہاں بلا یا تاکہ دوبدوملاقات ہو سکے اور اس کی پسند کے مطابق رشتہ تلاش کیا جا سکے۔
فرینکل ملاقات کے مقررہ دن اور وقت پرسالزمن کے پاس اس کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ سالزمن شہر کے نواحی علاقے میں ایک مخدوش عمارت کے ایک کمرے میں رہائش پذیر تھا۔ اس نے فرینکل کو اس عمارت کی لابی میں بٹھایا۔ شکل سے وہ ایک تجربہ کار اور بظاہر ایک معقول شخص لگ رہا تھا۔ اس نے کالے رنگ کے سوٹ پر کالے ہی رنگ کا اوورکوٹ پہنا ہوا تھا جو بے حد تنگ تھا۔ اس کے کپڑوں سے مچھلی کی بو آ رہی تھی۔ اس کے دانت اگرچہ کچھ ٹوٹے ہوئے تھے لیکن پھر بھی وہ برا نہیں لگ رہا تھا۔ وہ چرب زبان تھا اور ہر بات کا جواب اس کے پاس تھا ۔ وہ پچھلے پچیس سال سے اس پیشے سے منسلک تھا۔ اُس کے مطابق اس کے پاس ہر قسم کے رشتے تھے۔ ابتدائی انٹرویو میں فرینکل نے بتایا کہ اس کے والدین کی شادی بھی میرج بیورو کے ذریعے ہی ہوئی تھی۔ اگرچہ اس شادی میں اس کے باپ کو لڑکی کی طرف سے کوئی مالی فائدہ ہوا تھااور نہ ہی سماجی حیثیت میں بہتری ہوئی تھی لیکن اس میں ہم آہنگی ضرور پیدا ہو گئی تھی۔ اس کی ماں اس کے باپ پر جان چھڑکتی تھی۔ اس کے والدین اس سے اور وہ ان سے بہت محبت کرتا تھا۔
ابتدائی گفتگو کے بعد سالزمن اسے اپنے کمرے میں لے گیا۔ کمرے کے ایک حصے میں ایک الماری، میزاور کرسیاں رکھی تھیں جن کے درمیان پردہ لٹکا ہوا تھا۔ اس نے فرینکل کو کمرے کی کھڑکی کے پاس بٹھا دیا جس سے باہر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ میز پر فائلوں اور ضرورت رشتہ کے خواہش مندوں کی تصاویر کے پیکٹ تھے۔ فائلوں میں ان رشتوں کی تمام تر تفصیل بیان کی گئی تھی۔ فروری کے آخری ایام تھے۔ سردی کا موسم قریب قریب جانے کو تھا۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ اس نے دورانِ تعلیم کبھی بھی آسمان کی طرف نہیں دیکھا تھا اس وقت شام ڈھلنے کو تھی اور جب اس نے نیلگوں آسماں کی طرف نگاہ اٹھائی تو اسے چاند، تارے اور اڑتے ہوئے بادل نظر آئے۔ اسے بہت اچھا محسوس ہوا۔ وہ اس طرح کے قدرتی نظاروں سے محروم رہا تھا۔
سالزمن فائلیں اٹھا اٹھا کر اُن میں دی گئی تفاصیل پڑھتا رہا۔ کبھی کبھار وہ اپنی عینک کے اوپر سے فرینکل کی طرف بھی دیکھتا تھاجس میں اسے ذہانت، متانت، تدبر اور عالمانہ پن ظاہر ہوتا تھا۔ فرینکل خوبصورت جوان تھا۔ سالزمن جب عینک سے فرینکل کا جائزہ لیتا تو اسے بڑی الجھن ہوتی تھی۔ بالآخر سالزمن نے چھانٹ کر کچھ فائلیں الگ رکھ دیں اور کہا کہ اس کے پاس بے شمار رشتے ہیں۔ اس نے چند ایک خواتین چنی ہیں جو مذہبی عالم کے لئے بہترین ثابت ہو سکتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اس نے ایک انکشاف یہ بھی کیا کہ ایسے رشتے جو کہ وہ غیر موزوں سمجھتا ہے یا جن کے لئے بر نہیں مل سکتا، وہ اس نے ایک ڈرم میں رکھے ہیں۔ وہ اسے طلسماتی ڈرم کہتا ہے جس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایسے رشتوں کا کوئی مستقبل نہیں۔
فرینکل نے جب سالزمن کو اسے ‘عالم’ کے لفظ سے مخاطب کرتے سنا تو اسے بے حد شرمندگی محسوس ہوئی۔ وہ خود کو کسی لحاظ سے عالم نہیں سمجھتا تھابلکہ وہ محض ایک طالب علم تھا۔ اس کی تو ابھی پی۔ایچ۔ڈی بھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اسے اپنی اس بات پر پچھتاوا محسوس ہوا کہ اس نے اپنے بارے میں مبالغہ آرائی کی تھی اور ایسی خصوصیات بھی لکھ دی تھیں جو اس میں نہیں پائی جاتی تھیں۔
فرینکل نے پوچھا کہ جن خواتین کی فائلیں منتخب کی گئی ہیں کیا وہ ان کی تصاویر دیکھ سکتا ہے؟ شادی کے بندھن میں سب سے پہلے خاندان، پھر اس کی اور اس کے خاندان کی مالی حیثیت، جہیز کے معاملات، دولہے کے معاملات اور پھر تصویر دکھانے کی باری آتی ہے۔ سالزمن نے اوورکوٹ کے بٹن کھولتے ہوئے ایک فائل اٹھائی اور اس کی تفصیل پڑھنے لگا۔ یہ فائل ایک بیوہ سوفی کی ہے۔ اس کی عمر چوبیس سال ہے۔ ایک سال پہلے اس کا خاوند مر گیا تھا۔ وہ بے اولاد ہے۔ ہائی سکول کے بعد اس نے دو سال کالج میں تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کاباپ پراپرٹی ڈیلر ہے اور اس نے جہیز میں آٹھ ہزار ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کی ماں کے شجرہ نسب میں زیادہ تر لوگ تعلیم و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ اس کے رشتے داروں میں ایک مشہور اداکارہ بھی ہے جو نیو یارک کے خوشحال علاقے سیکنڈ ایونیو میں رہتی ہے۔فرینکل نے حیرانی سے اسے دیکھا اور بولا، کیا تم نے بیوہ کہا؟پیارے عالم، بیوہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ کوئی سڑی ہوئی اور بے کار شے ہوتی ہے۔ یہ لڑکی بمشکل چار یا پانچ ماہ اپنے خاوند کے ساتھ رہی ہو گی۔ وہ ایک بیمار شخص تھا، آخر اس نے اسے کتنا استعمال کر لیا ہو گا؟ اس لڑکی نے بیمار شخص کے ساتھ شادی کر کے غلطی کی، سالزمن نے وضاحت کی۔ایک بیوہ سے شادی کرنے کا اس نے کبھی تصور نہیں کیا، فرینکل نے حتمی رائے دی۔تم نا تجربہ کار ہو۔ ایک ایسی خاتون جوصحت مند، خوبصورت اور نوجوان ہو، سے شادی بہت عمدہ رہتی ہے۔ ایسی خواتین عمر بھر مشکور رہتی ہیں۔ اگر اب میں کسی سے شادی کروں تو ایسی ہی لڑکی سے کروں گا۔ سالزمن نے اس رشتے کی پر زور حمایت کی۔فرینکل نے اس بات پر غور کیا اور نفی میں سر ہلا دیا۔سالزمن نے دوسری فائل اٹھائی۔ اس خاتون کا نام جینی ہے۔ یہ ایک ہائی سکول ٹیچر کے طور پر مستقل ملازمت کر رہی ہے۔ اس کے پاس اچھی جمع پونجی ہے۔ وہ نئے ماڈل کی اچھی گاڑی چلاتی ہے۔ اس نے ایک سال پیرس میں بھی گزارا ہے۔ اس کا باپ دانتوں کا ڈاکٹر ہے اور پچھلے پینتیس سال سے اس پیشے سے وابستہ ہے۔ یہ خاتون ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہے جو ہنر مند ہو۔ اس کی تمام تر اقدار اور روایات امریکی ہیں۔ میں ذاتی طور پر اسے جانتا ہوں۔ یہ ایک ذہین لڑکی ہے جس کی اعلی ٰپرورش ہوئی ہے اور وہ بہت عمدہ باتیں کرتی ہے۔ وہ پانچ زبانیں جانتی ہے اور ہر موضوع پر سیرِحاصل گفتگو کر سکتی ہے۔ میری رائے ہے کہ تم اس کو دیکھ لو۔ تم اس سے کتب، ادب، ثقافت اور کسی بھی اور معاملے پر معیاری گفت و شنید کر سکتے ہو۔تم نے اس کی عمر نہیں بتائی؟ فرینکل نے پوچھا۔بتیس برس کی ہے، سالزمن نے جواب دیا۔میرے حساب سے یہ غیر موزوں ہے۔ اس کی عمر زیادہ ہے، فرینکل نے اپنی رائے پیش کی۔سالزمن نے قہقہہ لگایااور پوچھا، تمہاری عمر کیا ہے؟ستائیس سال، فرینکل نے جواب دیا۔تو عمر میں کونسا اتنا فرق ہے؟ صرف پانچ سال۔ میری بیوی مجھ سے سات سال بڑی ہے تو کیا مجھے اس سے کبھی پریشانی ہوئی؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ اگر کسی ارب پتی کی بیٹی کی عمر اتنی ہوتی تو کیا تم اس سے انکار کرتے؟ سالزمن نے پوچھا۔یقینا۔ ہاں کر دیتا، فرینکل نے جواب دیا۔فرینکل کی نہیں کوسالزمن نے ہاں سمجھ لیااور بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ پانچ سال کا فرق کوئی فرق نہیں ہوتا۔ میں اپنے تجربے سے تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر تم ایک ہفتے بھی اس کے ساتھ رہو گے تو عمر کا فرق بھول جاؤ گے۔ پانچ سال بڑے ہونے کا مطلب ہے کہ وہ زیادہ تجربہ کار ہے، زیادہ لطف دے گی، وہ زیادہ جانتی ہے۔ اس نے اپنی زندگی بے کار نہیں گزاری۔ ایک ایک لمحہ بھرپور طریقے سے گزارا ہے اور یہ تمہارے لئے عمدہ رہے گی۔ سالزمن نے افادیت بیان کرتے ہوئے کہا۔وہ کونسا مضمون پڑھاتی ہے؟ فرینکل نے پوچھا۔ زبانیں جب تم اس سے فرانسیسی میں بات کرو گے تو محسوس کرو گے کہ تمہارے کانوں میں موسیقی رنگ گھول رہی ہے۔ میں پچھلے پچیس برس سے اس پیشے سے وابستہ ہوں۔ میری عمر پچاس سال ہے۔ میں دل و جان سے اسے تمہارے لئے پسند کرتا ہوں۔ میرا یقین کرو۔ میں سچ بول رہا ہوں۔ سالزمن نے منطق پیش کی۔اگلی فائل میں کیا ہے؟ فرینکل نے پوچھا۔سالزمن نے کندھے اچکائے۔ یہ فائل رُتھ کی ہے جو بی اے آنرزکی طالبہ ہے۔ اس کی عمر انیس سال ہے۔ اس کا باپ پندرہ ہزار ڈالر دینے کو تیار ہے۔ وہ ڈاکٹر ہے اور معدے کا سپیشلسٹ ہے۔ اس کی بہت عمدہ پریکٹس ہے۔ اس لڑکی کے بہنوئی کی کپڑوں کی مِل ہے۔ امیر لوگ ہیں۔ سالزمن نے اسے اس طرح دیکھا جیسے کہ ایک ترپ کا پتہ ہو جس پر جیت یقینی ہو۔فرینکل نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا، کیا اس کی عمر تم نے انیس سال بتائی ہے؟یہی لکھا ہے، سالزمن نے پڑھ کر بتایا۔کیا وہ دلکش ہے، خوبصورت ہے؟ فرینکل نے پوچھا۔سالزمن نے انگلیاں چومتے ہوئے کہاکہ وہ ایک ننھی سی گڑیا ہے۔ آج میں اس کے والد سے رابطہ کرتا ہوں۔ تم خود دیکھ لو کہ خوبصورتی کیا چیز ہوتی ہے؟فرینکل کو اس بات پر یقین نہیں آ یا۔ اس نے تصدیق کے لئے پوچھا، کیا تمہیں یقین ہے کہ وہ انیس سال کی ہے؟
مجھے پورا یقین ہے۔ اس کا باپ تمہیں اس کی تاریخ پیدائش کا سرٹیفکیٹ پیش کر دے گا، سالزمن نے کہا۔کیا تمہیں یقین ہے کہ اس لڑکی میں کوئی ذہنی یا جسمانی نقص نہیں؟ فرینکل نے پوچھا۔کون کہتا ہے کہ اس لڑکی میں کوئی نقص ہے؟ سالزمن نے پوچھا۔میں اس بات پر حیران ہوں کہ اتنی کم عمر لڑکی جو خوبصورت ہو، امیر خاندان کی ہو، کیوں میرج بیورومیں شادی کے لئے رابطہ کرے گی۔ جبکہ اس عمر میں اسے بے تحاشہ موزوں رشتے مل سکتے ہیں؟ فرینکل نے پوچھا۔سالزمن کے چہرے پر بھرپور مسکراہٹ چھا گئی۔ اس نے اسی طرح مجھ سے رابطہ کیا جس طرح تم نے کیا۔ دراصل رابطہ اس نے نہیں، اس کے باپ نے کیا تھا۔ وہ اس کے لئے بہترین بر تلاش کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک عمدہ شادی ہو گی۔ ایک نا تجربہ کار کم عمر لڑکی جب خود سے کوئی رشتہ ڈھونڈے گی تو وہ جذباتی ہو گی۔ شادی کے بعدحقیقت اس کے بر عکس نکلے گی۔ اس میں دھوکہ دہی کازیادہ عنصر پایا جائے گا۔ سالزمن نے اپنی بات میں وزن پیدا کرتے ہوئے کہا۔ علاوہ ازیں تم ایک کم عمر لڑکی کو آسانی سے اپنے رنگ میں ڈھال سکتے ہو۔کیا تم یہ نہیں سمجھتے کہ اس عمر میں محبت سب سے اہم تصور کی جاتی ہے اور باقی تمام عوامل پیچھے چھوڑ دیے جاتے ہیں؟ ایک شخص اپنی محبت کے حصول کے لئے دنیا بھی ترک کر دیتا ہے، فرینکل نے کہا۔ محبت پانی کا بلبلہ ہے۔ حقیقی محبت صرف ایک صحیح شخص سے ہی ہو سکتی ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں، سالزمن نے اپنا قہقہہ بمشکل روکتے ہوئے کہا۔فرینکل نے پوچھا کہ اس کی جسمانی صحت کیسی ہے؟بالکل درست لیکن دائیں ٹانگ سے تھوڑی سی لنگڑی ہے۔ بچپن میں اسے پولیو ہو گیا تھالیکن اگر غور نہ کیا جائے تو پتہ بھی نہیں چلتا۔یہ سن کر فرینکل اضطراری حالت میں اٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو ا اور خود کو کوسنے لگا کہ اس نے کیوں میرج بیورو کا سہارا لینے کا سوچا۔ اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔کیوں نہیں؟ سالزمن نے پوچھا۔ کیونکہ میں معدے کے ڈاکٹروں سے نفرت کرتا ہوں، فرینکل نے جواب دیا۔
تمہیں اس بات سے کیا غرض کہ اس کا باپ معدے کا ڈاکٹر ہے۔ جب تمہاری اس لڑکی سے شادی ہو جائے گی تو تمہیں اس کے باپ کی کیا ضرورت ہو گی؟ وہ جمعے کے جمعے آیا کرے گا۔
گفتگو جس سمت چل پڑی تھی وہ حساس بھی تھی اور شرمناک بھی۔ اس لئے فرینکل نے جھنجھلا کر گفتگو درمیان میں منقطع کی اور واپس چلاآیا۔ اس کیفیت نے اسے بے آرام کر دیا تھا۔ اگلے دو دنوں تک وہ بہت پریشان رہا۔ وہ سالزمن کو اس بات کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا جس نے اس کی خواہشات اور ضروریات کو مدِنظر نہیں رکھا تھااور غیر موزوں رشتے پیش کئے تھے۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ سالزمن کو فارغ کر کے کسی اور عمدہ میرج بیورو سے رابطہ کیا جائے۔ وہ سوچتا رہا لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ پایا۔ اگلے دن اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو پریشان حال، اجڑی ہوئی آنکھوں اور اترے ہوئے چہرے کے ساتھ سالزمن کھڑا تھا۔ اخلاقی تقاضوں کے مطابق فرینکل نے اسے اندر بلا لیا۔سالزمن پھیکی مسکراہٹ سے بولا، ڈاکٹر میں تمہارے لئے خوشخبری لایا ہوں۔ میں سکول ٹیچر کے باپ کے پاس اس کی بیٹی کی عمر کی تصدیق کرنے گیا تھا تو اس نے بتایا کہ درحقیقت اس لڑکی کی عمرانتیس سال ہے، بتیس نہیں۔ یہ تفاوت تونہ ہونے کے برابر ہے۔میں نے تمہیں کئی بار کہا ہے کہ مجھے ڈاکٹر نہ کہا کرو۔ میں ابھی طالب علم ہوں، فرینکل بولا۔تمہاری تمام تکالیف دور ہو جائیں گی۔ اس رشتے کو دیکھ لو۔ یہ تمہارے لئے بہت موزوں ہے، فرینکل نے اصرار کیا۔مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ مجھے اس موضوع سے کوئی دلچسپی نہیں رہی، فرینکل نے جان چھڑاتے ہوئے کہا۔تمہاری شادی پر تمام دنیا خوشی سے جھومے گی، سالزمن نے بات آگے بڑھائی۔
براہِ کرم۔ اور نہیں، فرینکل نے ٹوکتے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے کہ تم اس رشتے کے بارے میں مزید بولو، مجھے تنہا چھوڑ دو۔
سالزمن نے ہاتھ میں پکڑے لفافے سے ایک تلی ہوئی مچھلی نکالی اور اسے کھانا شروع کر دیا۔ کھانے کے بعداس کے کانٹے دوبارہ لفافے میں ڈالے اور کہا کہ کیا اسے چائے مل سکتی ہے؟فرینکل نے اسے چائے بنا دی۔کیا تمہیں کسی اور لڑکی کا رشتہ بتاؤں؟ فرینکل بولا۔نہیں۔ فرینکل نے جواب دیا۔تو پھر ہائی سکول کی استانی کے بارے میں کیا رائے ہے؟ وہ انتیس سال کی ہے، اس کے باپ نے پیدائشی سند دکھائی ہے۔ اس نے مجھے اس کی عمر کی تصحیح کرنے کا کہا تھا لیکن مجھے یاد نہیں رہااور میں فائل پردرست کرنا بھول گیا، سالزمن نے کہا۔ میرا خیال ہے کہ وہ بیوہ ہے۔لیکن تم نے تو بیوہ کی عمر کچھ اور بتائی تھی، فرینکل نے کہا۔
اوہ! پھر میں گڑبڑ کر گیا۔نہ تو میں کسی بیوہ سے اور نہ ہی کسی سکول کی استانی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، فرینکل نے دو ٹوک جواب دیا۔ اگر تمہیں سکول ٹیچر سے بھی شادی میں دلچسپی نہیں تو پھر کس سے ہے؟ اس کے پاس اپنے جمع کردہ ہزاروں ڈالر ہیں اور ایک بالکل نئی عمدہ گاڑی ہے۔ اس کا باپ بھی بارہ ہزار ڈالر دے گا۔ اس کی تعلیم و تربیت بڑے عمدہ طریقے سے ہوئی ہے۔ وہ تمہیں عمدہ اولاد دے سکے گی۔ اور تمہیں کیا چاہئیے؟ تمہارے لئے تو دنیا ہی جنت بن جائے گی، سالزمن نے اسے قائل کرتے ہوئے کہا۔جتنی تعریفیں تم کر رہے ہو ان میں اگر سچائی ہے تو اس کی بہت عرصہ پہلے شادی ہو جانی چاہیئے تھی، فرینکل نے اپنی دلیل دیتے ہوئے کہا۔کیونکہ وہ اپنے لئے ایک عمدہ ترین جیون ساتھی ڈھونڈنا چاہتی ہے، سالزمن نے جواب میں کہا۔
اس کی باتیں سن کر فرینکل کو خیال آیا کہ اگر بتائی گئی باتیں سچ ہیں تو اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے بات چیت کر لینی چاہیئے چنانچہ طے پایا کہ وہ اس سے مل لے گا۔اگلے ہفتے فرینکل سیاہ سوٹ اور ٹائی لگا کر اس سے دریا کے کنارے ملنے چلا گیا۔ اس نے ہلکی ہلکی داڑھی بھی رکھی ہوئی تھی۔ سر پر علما والا کلاہ پہنا ہوا تھا۔ اس نے آنکھوں پر فلسفیوں والی گول عینک پہنی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے سے گھبراہٹ عیاں تھی۔ اسے سکول ٹیچر جینی مقررہ مقام پر ملی۔ وہ قبول صورت تھی، دبلی پتلی تھی۔ لباس بھی بڑا سٹائلش تھااور موسم کی مناسبت سے موزوں تھا۔ وہ بہت ادا اور انتہائی سلجھے ہوئے لہجے میں بات کر رہی تھی وہ اس کے اطوار سے متاثر ہوا۔ اس نے سوچا کہ سالزمن بھی یہیں کہیں منڈلا رہا ہو گا۔ اس کے ہاتھ میں دوربین ہو گی اور وہ انہیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا ہو گا۔ ان کی شادی میں اپنے کردار کا سوچ رہا ہو گا۔ اس کے خیالوں میں خلل اس وقت پڑا جب اس نے جینی کو یہ کہتے سنا کہ سالزمن بھی ایک عجیب مخلوق ہے۔ کیا ایسا نہیں؟فرینکل نے سر ہلا دیا، تاہم میں اس کا مشکور ہوں کہ اس نے ہم دونوں کی ملاقات کا بندو بست کیا۔اوہ! میں نے یہ بات سالزمن کے بارے میں طنزیہ انداز میں نہیں کہی تھی۔ اس کا کوئی اور مطلب نہ لیا جائے۔ میں بھی یہ سمجھتی ہوں کہ ہماری ملاقات کروا کر سالزمن نے اچھا کیا، جینی نے فوری وضاحت کرتے ہوئے کہا۔بالکل! فرینکل نے ہاں میں ہاں ملائی۔ اس نے محسوس کیا کہ جینی اپنے تئیں پوری کوشش کر رہی ہے کہ رابطے کو آگے بڑھایاجائے۔ رشتہ قائم کرنے میں تجربات کے علاوہ ہمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ سالزمن نے ہماری ملاقات کروا کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے کام میں مخلص ہے۔ مجھے اس کے پیشہ وارانہ رویے سے کوئی شکایت نہیں۔ اس کا یہ رویہ روایتی بھی ہے اور قابلِ ستائش بھی۔ یہ بات اس کے فرائض میں شامل ہے، فرینکل نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ بہرحال اس نے یہ اچھا قدم اٹھایا ہے۔ہاں۔ اگر میں تم سے تمہارے بارے میں ذاتی سوال پوچھوں تو تم برا تو نہیں مانو گے؟ جینی نے پوچھا۔ میں اس موضوع پر بات کرنے سے اجتناب برتتی ہوں لیکن پھر بھی پوچھے بنا نہیں رہ سکتی کہ تم سالزمن کے کہنے پر مجھ سے ملنے کیوں چلے آئے ہو؟ کیا یہ جوش تھا، جذبہ یا جنون؟فرینکل نے آہستہ سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ سے مذہبی قانون کا طالب علم رہا ہے۔ اس کے نزدیک یہ ملاقات بھی خدا ئی رضامندی سے ہو رہی ہے۔میں نے سنا ہے کہ تم نے کچھ عرصہ پیرس میں بھی گزارا ہے؟کیا یہ بات تمہیں سالزمن نے بتائی ہے؟ہاں، فرینکل بولا۔بہت عرصہ پہلے میں وہاں گئی تھی۔ اب تو میں وہ بات بھول بھی چکی ہوں، جینی نے جواب دیا۔ میں اپنی بہن کی شادی پر یہاں آئی تھی اور پھر یہیں قیام کرنا پڑا۔کیا تم اپنی تمام زندگی مذہب کے لئے وقف کر چکے ہو؟ تم ایک مذہبی عالم ہو اور کیا تمام امور پر مکمل طور پر مذہب کی اطاعت کرتے ہو؟ جینی نے سوالوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ فرینکل اس کی بات سن کر چونکا کہ وہ اسے ایک مذہبی اور جیّد عالم تصور کر رہی تھی جبکہ در حقیقت وہ ایک طالب علم تھا۔ اسے لگا کہ اسکے بارے میں سالزمن نے دروغ گوئی سے کام لیا تھا۔ نہ وہ مذہبی عالم تھا اور نہ ہی وہ سخت مزاج تھا۔ اس بات نے اس میں تشویش پیدا کر دی۔ وہ ایک عام شخص کی طرح تھا۔ وہ مذہب کو پڑھتا تو تھا لیکن دراصل ایک کھلے ذہن کا مالک تھا۔ وہ ہر معقول دلیل کو قبول کرتا تھا جبکہ جینی اسے کٹر مذہبی عالم کے روپ میں لے رہی تھی جو کہ صحیح نہیں تھا۔ اس بات نے اسے صدمہ پہنچایا اور وہ لڑکی اسے اجنبی لگنے لگی۔ سالزمن نے اس کے سامنے ایک فرشتہ سیرت شخص بیان کیا تھا۔ اس نے اپنی پریشانی پر قابو پاتے ہوئے کہا وہ کوئی عظیم المرتبہ مذہبی عالم نہیں تھا۔ میں نے خدا کی طرف اس لئے رجوع نہیں کیا کہ میں خدا سے بے پناہ محبت کرتا تھابلکہ اس لئے راغب ہوا کیونکہ میں اس سے نفرت کرتا تھا اور ان جذبات اور احساسات میں وزن پیدا کرنے کے لئے، خدا کی نفی کے لئے مذہب کا مطالعہ شروع کیا تھا تاکہ ناقابلِ تردید ثبوت پیش کر سکوں جو کہ مذہبی حوالے سے بیان کئے گئے ہوں۔اُس کے اِس اعتراف پر جینی نے کہا کہ اپنی پینتیس سالہ زندگی میں ایسی بات اس نے پہلے بار سنی ہے۔ مذہبی تعلیمات کے حصول کی توجیہ بالکل انوکھی ہے۔ یہ بات سن کر کہ اس کی عمر پینتیس سال ہے فرینکل کے اوسان خطا ہو گئے۔ اسے محسوس ہواکہ اس کے سارے ارادے چکناچور ہو گئے تھے۔ اسے سالزمن پر شدید غصہ آیا کہ ایک تو اس نے فرینکل کے اوصاف بالکل غلط بتائے تھے اور دوسرا جینی کی ڈھلتی ہوئی عمر کے بارے میں بھی غلط بیانی کی۔ اس کے سامنے اس وقت اگر سالزمن آ جاتا تو وہ اسے قتل کر دیتا۔ وہ تلملاتا ہوا وہاں سے واپس آ گیا۔ اس پر شدید مایوسی کی کیفیت چھا گئی اور وہ کئی دن تک اسی حال میں مبتلا رہا۔ وہ سوچتا رہا اور اسے اس بات کا اندازہ ہوا کہ اسے اپنی حقیقی خواہشات کا علم ہی نہیں۔ اس نے اپنی توقعات حقیقت کے بر عکس قائم کر لی تھیں اور اسے اس بات کا شعور نہیں ہو پارہا تھا کہ وہ دراصل کیا چاہتا ہے؟ اس کے مقاصد غیر واضح تھے۔ عملی زندگی کے بارے میں اس نے غلط تصورات قائم کئے ہوئے تھے۔ اب اس کے ذہن میں یہ ارادہ پیدا ہوا کہ وہ دوسروں کے آسرے کے بغیر اپنا رشتہ خود تلاش کرے گا۔ وہ محبت کی شادی کرے گا۔ چونکہ اس کا وقت ہمیشہ پڑھائی میں صرف ہوتا تھا اور دنیوی معاملات میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی اس لئے وہ دوسروں سے انفرادی اور اجتماعی روابط قائم نہیں کر پایا تھا۔ روابط اور ان میں گہرائی تو باہمی میل جول سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے اس نے سماجی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔ وہ موسیقی کی محفلوں، دعوتوں اور ڈانس پارٹیوں میں بھی جانے لگا۔ وہ ہر معاملے میں نو وارد تھا۔ اس میں مواقع کی مناسبت سے ہنر کی کمی تھی اس لئے پذیرائی نہ ہو پائی۔
چند ہفتوں بعد اس کے دروازے پر ایک بار پھر دستک ہوئی۔ وہ سالزمن تھا۔ اس کا دل چاہا کہ اسے اٹھا کر دور پھینکے لیکن اس نے خود پر ضبط کیا۔ سالزمن نے پوچھا کہ اس نے ابھی تک جینی کے بارے میں کوئی رائے پیش نہیں کی۔اس کے جواب میں فرینکل نے اس سے الٹا سوال کر دیا کہ اس نے جینی کے بارے میں جھوٹ کیوں بولا؟سالزمن بغلیں جھانکنے لگا، بات بناتے ہوئے بولا کہ اس کے والد نے اسے یہی بتایا تھا جس پر اس نے یقین کر لیا۔تم نے تو کہا تھا کہ تم نے خود اس کا پیدائشی سرٹیفیکیٹ دیکھا تھا، فرینکل نے بیان کیا۔وہ غلط فہمی ہو گئی تھی۔ وہ کوئی اور خاتون تھی، سالزمن نے جواباً کہا۔اس سے زیادہ بری بات یہ ہے کہ اسے تم نے میری تعلیمات اور رتبے کے بارے میں غلط بتایا، فرینکل بولا۔ میری خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیاجیسے میں در حقیقت بہت اوصاف کا مالک ہوں۔ جینی کے نزدیک میں ایک بہت بڑا عالم اور فرشتہ صفت انسان تھاجو کہ سراسر غلط ہے۔ وہ مجھے ڈاکٹر بول رہی تھی جو کہ میں نہیں ہوں۔میں نے اسے صرف یہ کہا تھا کہ تم ایک مذہبی شخص ہو۔ میں مانتا ہوں کہ یہ میری کمزوری ہے لیکن دوسرے کو رام کرنے کے لئے اتنا تو چلتا ہے، سالزمن نے جواب دیا۔ مجھے یہ اس لئے کرنا پڑتا ہے تاکہ جوڑ بن جائے۔مجھے دلہن کی ضرورت نہیں۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میں بڑی مشکل سے خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مجھے شادی کی ضرورت تو ہے مگر میرا مقصد اب مختلف ہو گیا ہے۔ اب میں شادی کروں گا تو اپنے جیون ساتھی کو راہِ راست پر لانے کے لئے ہی کروں گا۔ یہ کوشش میں از خود کروں گا اور محبت کی خاطر شادی کروں گا۔میرے پاس ایسے رشتے بھی ہیں جو حقیقی محبت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور جنہیں میں نے ضرورتِ رشتہ کے طلسماتی ڈرم میں ڈال کر بھلا دیا ہے، سالزمن بولا۔مجھے تنہا چھوڑ دو۔ میں نے کہا ناں کہ مجھے اب اس کی ضرورت نہیں۔ تم براہِ مہربانی چلے جاؤ۔
سالزمن یہ بات سن کر کھڑا ہو گیا اور اپنے کندھوں پر لٹکے ہوئے بستے میں سے کچھ تلاش کرنے لگا۔ پھر اس نے تین سیل بند پیکٹ جن میں لڑکیوں کی تصاویر تھیں، نکال کر میز پر رکھ دئیے اور بولا، یہ و ہ خواتین ہیں جو محبت کی متلاشی ہیں۔ ان کو دیکھ کر تمہیں جو بھی پسند آئے، مجھے بتا دینا۔ محبت ساری زندگی ساتھ ساتھ رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر تمہارا مقصد صرف محبت ہے تو وہ اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس سے متعلق تمام ضروری اقدامات نہ کر لئے جائیں۔ اس کے بعد اگر شادی کی جائے تو وہ کامیاب رہتی ہے۔ تمہیں تمہاری محبت اور مقصد ان تصاویر میں نظر آ جائے گا۔ جب فیصلہ کر لو تو مجھے بتا دینا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔فرینکل نے اس کی باتوں پر توجہ نہ دی۔ تصاویر کے پیکٹ میز پر ہی پڑے رہے۔ مارچ چڑھ گیا۔ وہ اپنی مصروفیات میں دوبارہ سے مشغول ہو گیا۔ کبھی کبھار چائے پیتے ہوئے اسے ان بند پیکٹوں کا خیال آ جاتا۔ ایک دن وہ افسردہ حالت میں کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا تو اس کا خیال پھر میز پر پڑے پیکٹوں پر چلا گیا۔ اس کے من میں آیا کہ دیکھے آخر کون سی ایسی خواتین ہیں جو سالزمن کے نزدیک دلکش بھی ہیں اور محبت کی شدید خواہش بھی رکھتی ہیں۔وہ میز کے پاس آ کرآدھ گھنٹہ اس شش و پنج میں کھڑا رہا کہ وہ لفافوں کو کھولے یا رہنے دے۔ آخر اس نے ایک لفافہ اٹھایا اور کھول لیاتو اس میں چھ تصاویر نکلیں۔ ہر ایک میں دلکشی پائی جاتی تھی۔ ان کی عمریں جوانی کی حد عبور کر چکی تھیں۔ اگرچہ وہ اپنے چہروں پر بھر پور مسکراہٹ لئے ہوئے تھیں لیکن وہ مسکراہٹیں کھوکھلی لگ رہی تھیں۔ ان کی اصلی شخصیت ظاہر نہیں ہو پا رہی تھی۔ ان میں گنوار پن، دیہاتی پن اور پاگل پن ظاہر ہو رہا تھا۔ ان سب میں سڑی مچھلی کی سی بدبو محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے وہ تصاویر پھر سے لفافے میں ڈال دیں۔ دوسرا پیکٹ کھولا تو اس میں بھی چھ تصاویر تھیں۔ ان میں سے ایک تصویر نے اس کے دل کو چھو لیا۔ نہ جانے کیا ہوا کہ اس نے اس تصویر کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا۔
اس خاتون کا چہرہ دیکھ کر فرینکل پوری طرح کھو گیا۔ ایسا کیوں ہوا اسے معلوم نہ تھا۔ اس تصویر میں خاتون میں جوانی کی جھلک دکھائی دی۔ اس کی عمر ابھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ وہ بے حد ستم گزیدہ لگ رہی تھی۔ بے بسی، بے چارگی اس کی ویران آنکھوں سے ٹپک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں اسے ایک ایسا تاثر ملا جیسے وہ مدد کی طلب گار ہو۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس خاتون کا چہرہ کچھ مانوس سا تھا۔ اسے اس نے کہاں دیکھا تھا اسے کچھ یاد نہ آیا۔ وہ ایک بہت خوبصورت عورت نہیں تھی لیکن اس میں کشش تھی۔ اس تصویر میں اسے جس چیزنے سب سے زیادہ متاثر کیا تھاوہ پچھتاوے کی سی کیفیت تھی جو اس کی نظروں سے واضح ہو رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس نے وہ تصویر غیر آمادگی سے کھنچوائی تھی۔ اس کی آنکھوں میں لاچارگی چھپانے کی کوشش کے باوجود بھی دیکھی جا سکتی تھی۔ اس تصویر کو فرینکل نے بار بار دیکھا۔ اس کے چہرے کے ایک ایک حصے پر غور کیا۔ اس کی آنکھیں سکڑ گئیں اور ذہن ماؤف ہوگیا۔ اسے اس عورت سے خوف محسوس ہونے لگا جو بعد میں جوش و ولولہ میں تبدیل ہو گیا۔ اس کے ذہن میں یکدم یہ خیال آیا کہ یہ ہی وہ خاتون ہے جو اسے آسودگی اور بھر پور محبت دے سکتی ہے۔ وہ اس بات پر حیران تھا کہ سالزمن نے اس کی تصویر کو طلسماتی ڈرم میں کیونکرڈالا تھا کیو نکہ وہ خواتین اس کے خیال میں ایسی ہوتی تھیں جن کی شادی ناممکن تصور کی جاتی تھی۔ معاملہ کچھ بھی تھا پر اب وہ اس کے لئے اہم بن گئی تھی۔ اس نے اسے ہر حالت میں حاصل کرنے کا ارادہ باندھ لیا۔فرینکل اب سالزمن سے فوری رابطہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس اس کا فون نمبر نہیں تھا۔ اس نے ٹیلیفون ڈائریکٹری اٹھائی مگر اس کے گھر یا دفتر کا نمبر نہ ملا۔ اسے یاد آیا کہ اس کے ساتھ رابطہ تو خط و کتابت کے ذریعے ہوا تھا۔ اس نے اخبار کا تراشہ ڈھونڈ نکالا جس پر اس کا پتا درج تھا۔ وہ فوری اٹھا اور اس پتے پر پہنچ گیا۔ وہ گھر سالزمن کا سب کچھ تھا، دفتر بھی اور رہائش بھی۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ ایک خاتون نے کھانستے ہوئے دروازہ کھولا، لگتا تھا کہ وہ دمہ کی مریضہ تھی۔کیا یہ سالزمن کا گھر ہے؟ فرینکل نے پوچھا۔ہاں، خاتون نے جواب میں کہا۔فرینکل کودوبارہ ایسا لگا کہ جیسے اس نے اس خاتون کو پہلے کہیں دیکھا ہوا ہے لیکن کہاں؟ یاد نہ آیا۔ کیا سالزمن گھر پرہے؟ فرینکل بولا۔نہیں، جواب آیا۔
ایک اہم معاملہ ہے جو میں جلد حل کرنا چاہتا ہوں۔ کیا تم یہ بتا سکتی ہو کہ اس وقت وہ کہاں ہو گا؟ فرینکل نے کہا۔ہوا میں، خاتون نے جواب دیا۔ اس کا کوئی دفتر نہیں۔فرینکل نے خاتون کے پیچھے کمرے میں نظر دوڑائی تو تمام اشیاء بے ترتیب پڑی تھیں۔ اسے کہیں کوئی طلسماتی ڈرم نظر نہ آیا۔ اس نے سوچا کہ شایدوہ بھی سالزمن کا کوئی تصوراتی عمل تھا۔میں سالزمن سے فوری طور پر ملنا چاہتا ہوں۔ بہت ضروری کام ہے، فرینکل نے زور دے کر کہا۔کون جانے وہ کہاں ہے؟ ہر لمحہ اس کا مقام اور سوچ بدلتی رہتی ہے۔ تم گھر چلے جاؤ۔ وہ خود ہی تم سے رابطہ کر لے گا۔ تمہارا نام کیا ہے؟اسے کہنا کہ فرینکل آیا تھا۔خاتون نے سنی ان سنی کر دی۔
فرینکل واپس لوٹ آیا۔ گھر پہنچا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سالزمن وہاں پہلے ہی موجود تھا۔ فرینکل اسے اپنے کمرے میں لے آیا۔ اسے چائے دی اور سا تھ بسکٹ بھی رکھے۔ اس نے تصاویر کے پیکٹ سالزمن کو واپس دیتے ہوئے کہا کہ ان میں سے اس نے ایک خاتون کو پسند کر لیا ہے۔ اس نے وہ تصویر اسے دکھائی جسے دیکھ کر سالزمن پہلے تو بے حد حیران ہوااور پھر خوفزدہ ہو گیا۔ اس کے منہ سے غم اور تکلیف کی بدولت آہ نکلی۔مجھے معاف کرو۔ میں اس سے تمہاری شادی نہیں کروا سکتا، سالزمن نے کہا۔ یہ تصویر ضرور غلطی سے اس پیکٹ میں چلی گئی ہو گی۔ وہ اس تصویر کو جیب میں رکھ کر جلدی سے اٹھ کر چل دیا۔ فرینکل نے جب یہ دیکھا تو اسے سکتہ طاری ہو گیا۔ اسے جب سالزمن کے اٹھ کر چلے جانے کا احساس ہوا تو وہ اس کے پیچھے بھاگا اور اسے راہداری میں جا لیا۔مجھے وہ تصویر واپس دو، فرینکل نے کہا۔نہیں، سالزمن کی آنکھوں میں درد تھا۔مجھے بتاؤ کہ یہ خاتون کون ہے؟ فرینکل نے پوچھا مجھے معاف کر دو۔ میں یہ نہیں بتا سکتا، سالزمن یہ کہہ کر جانے لگا تو فرینکل نے اس کے کوٹ کا کالر پکڑ کر زور سے ہلایا۔ پلیز۔۔ پلیز۔۔ مجھے چھوڑ دو۔۔ سالزمن ملتجی ہو کر بولا۔تمہیں مجھے بتانا ہو گا کہ یہ خاتون کون ہے؟ میرے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے، فرینکل نے اصرار کیا۔وہ تمہارے لئے نہیں ہے۔ وہ غیر موزوں جوڑ ہے۔ وہ ایک بد تہذیب اور سر کش خاتون ہے۔ وہ جنگلی، اجڈ اور وحشی ہے۔ وہ مادہ پرست ہے۔ اس کے لئے غریب ہونا گناہِ عظیم ہے جسے وہ کسی بھی طریقے سے پاٹنا برا نہیں سمجھتی۔ وہ ایک جید عالم کی بیوی نہیں ہو سکتی۔سرکش اور جنگلی سے تمہاری کیا مراد ہے؟ فرینکل نے پوچھا۔وہ ایک جانور ہے۔ ایک کتے کی طرح ہے۔ وہ میرے لئے مر چکی ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی حدود نہیں، سالزمن نے تفصیل بیان کی۔
خدا کے واسطے مجھے صحیح صحیح بتاؤ کہ ماجرا کیا ہے؟ فرینکل بے چینی کی حالت میں بولا۔
میں اس کی ملاقات تم سے نہیں کروا سکتا۔ اس میں تمہیں کیا نظر آیا جو تم باؤلے ہو گئے ہو۔۔ کیوں تمام حدیں پار کرنا چاہتے ہو؟ سالزمن نے انکار کردیا۔آخر تم اس خاتون کے بارے میں اتنے حساس کیوں ہو گئے ہو؟ میں نے تمہاری کونسی دکھتی رگ پر پاؤں رکھ دیا ہے۔ اصل بات بتاؤ؟ فرینکل نے زور ڈالا۔کیوں؟۔۔ کیونکہ۔۔ کیونکہ وہ میری بیٹی سٹیلا ہے۔ اسے میں نے گھر سے نکال دیا ہوا ہے۔ وہ ایک دوزخی ہے، سالزمن نے جواب دیا۔
یہ سن کر فرینکل بھو نچکا رہ گیا۔ تبھی اسے اندازہ ہوا کہ اس لڑکی کی تصویر اسے مانوس کیوں لگی۔ وہ اپنی ماں اور باپ سے کافی حد تک مشابہ تھی۔ اس دریافت کو اس نے دل پر لے لیا۔ وہ اداس ہو کر سو گیا۔ خواب میں بھی یہ تمام معاملہ اس کے ذہن پر چھایا رہا۔ اس نے اپنے سر کو بے شمار جھٹکے دئیے کہ وہ شعور سے غائب ہو جائے لیکن بے سود۔ بالآخر اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اس خاتون سے ضرور ملے گا۔
اگلے روز وہ جا رہا تھا کہ اسے سالزمن ایک کیفے میں مچھلی کھاتے ہوئے نظر آیا جس کی حالت کافی دگرگوں تھی۔ اس کے چہرے پر غم کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ وہ تھکا تھکا دکھائی دے رہا تھا۔ فرینکل اس کے سامنے پہنچا تو اس نے اسے ایسے دیکھا کہ جیسے وہ اسے پہچانتا ہی نہ ہو۔سالزمن! میرے دل میں محبت نے انگڑائی لی ہے۔ مجھے اس خاتون سے محبت ہو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، فرینکل پرجوش لہجے میں بولا۔ایک تصویر کو دیکھ کر کسی کو کیسے محبت ہو سکتی ہے؟ سالزمن نے روکھے انداز میں پوچھا۔ اگر تم کو اس خاتون سے محبت ہو گئی ہے تومجھے سو فیصد یقین ہے کہ تم دنیا کے ہر شخص سے محبت کر سکتے ہو۔ میرے پاس کچھ اور تصاویر ہیں۔ میری رائے ہے کہ انہیں بھی دیکھ لو اور براہ ِ مہربانی اس سے ملنے کی ضد چھوڑ دو۔میں صرف سٹیلا سے ہی شادی کرنا چاہتا ہوں، فرینکل نے فیصلہ سنا دیا۔ڈاکٹر! بیوقوف نہ بنو۔ اس سے نہ ملو۔ وہ تمہارے لائق نہیں، سالزمن نے کہا۔ وہ فکر زدہ لگ رہا تھا۔ مجھے اسی سے ملنا ہے اور تم مجھے اسی سے ملواؤ، فرینکل بضد رہا۔سالزمن نے اس کا اصرار سن کر کھانا بند کر دیا اور سوچنے لگا جس پر فرینکل کو تسلی ہوئی کہ اب اس کی درخواست سن لی گئی ہے۔
فرینکل کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا گیاکہ سٹیلا اسے ہفتے کی رات آٹھ بجے فلاں ہال میں دروازے کے پاس کھڑی ہوئی ملے گی۔ وہ اس موسمِ بہار کی شب اپنے ہاتھ میں گلاب کا گلدستہ تھامے اپنے بہترین لباس میں مقررہ مقام پہنچا۔ وہاں اسے وہ خاتون سفید رنگ کے چھوٹے سکرٹ اور سرخ رنگ کے جوتوں میں ملبوس (جو کہ طوائف کے لباس کی پہچان ہے) سگرٹ نوشی کرتے ہوئے نظر آئی۔ فرینکل نے دیکھا تو جانا کہ اس کی آنکھیں ہو بہو اپنے باپ سالزمن اور چہرہ ماں پر گیا تھا۔ وہ دونوں کی شبیہ تھی۔ فرینکل نے کچھ سوچا اور گلاب کا گلدستہ اسے پیش کر دیا۔
اُدھر سالزمن ایک کونے میں دیوار کے ساتھ لگ کر چپکے سے اس خاتون کوجو اس کے نزدیک مر چکی تھی، کی بخشش اور رحمت کی دعائیں مانگ رہا تھا۔
٭٭٭
بشکریہ : ترجمہ ، پروفیسر غلام محی الدین