مدینہ منورہ میں کسی صاحب کا ایک نخلستان تھا جس میں بہت سے کھجور کے درخت تھے، باغ کے اطراف باڑھ لگا دی گئی تھی، تاکہ کوئی شخص یا جانور اس میں داخل نہ ہوسکے۔ ایک اجنبی مسافر جو سفر کرتے ہوئے کہیں جا رہا تھا کھجور کے اس باغ کے پاس سے گزرا اور اپنی تھکان دُور کرنے کے لیے کچھ دیر وہاں ٹھہر گیا۔ مسافر کی خواہش تھی کہ اس کا اُونٹ بھی سستا لے ۔لہذا س نے اپنے اُونٹ کو باغ کے قریب ایک چراگاہ میں چھوڑا اور خودایک درخت کے سائے میں سو گیا۔ مسافر کو اچانک کچھ شور سنائی دیا۔ شور سن کر وہ بیدار ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس کا اُونٹ باڑھ کراس کر کے باغ میں داخل ہوچکا ہے اور باغ ہی میں چرنے لگا ہے۔ ایک معمر بوڑھا اس وقت باغ کی حفاظت اور رکھوالی کر رہا تھا جیسے ہی اُونٹ باغ میں داخل ہو کر چرنے لگا، بوڑھے نے اُونٹ کو باہر کرنے کے لیے اس پر پتھر یا ڈنڈے سے زوردار حملہ کیا، جس کی وجہ سے اُونٹ زخمی ہوگیا اور بلبلاتا ہوا باغ سے باہر نکل آیا۔ مسافر اپنے زخمی اُونٹ کو بلبلاتے ہوئے دیکھ کر طیش میں آگیا اور اس نے جوشِ غضب میں بوڑھے پر اپنی لاٹھی سے ایک شدید حملہ کیا۔ بوڑھا اپنی پیرانہ سالی اور ضعیف العمری کی وجہ سے نوجوان کا یہ حملہ برداشت نہ کرسکا اور کچھ ہی دیر میں اس نے دم توڑ دیا۔ یہ ماجرا دیکھ کر مسافر پریشان ہوگیا۔ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس حادثے کی اطلاع کسے دی جائے، اور کیسے دی جائے کہ اتنے میں دو نوجوان وہاں پہنچ گئے جو اس بوڑھے کے فرزند تھے۔ دونوں نے اپنے باپ کو تڑپتے ہوئے دیکھا تو نوجوان مسافر سے دریافت کیا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟
نوجوان مسافر نے پوری تفصیل بے کم و کاست بتا دی۔ یہ سن کر بوڑھے کے دونوں فرزند مسافر کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کے دربارِ خلافت میں لے گئے اور فریاد کرنے لگے کہ یہ نوجوان ہمارے بوڑھے باپ کا قاتل ہے، لہٰذا ہمیں قصاص دلایا جائے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے نوجوان مسافر سے بازپرس کی، اس نے سارا ماجرا ٹھیک ٹھیک بتاد یا۔ مقتول کے صاحبزادوں سے حضرت عمرؓ نے قاتل کے بارے میں سفارش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حادثہ قتلِ عمد والا نہیں ہے بلکہ سہواً ہو گیا ہے، لہٰذا قصاص کے بجائے دیت قبول کرلی جائے۔ لیکن مقتول کے وارثین دیت لینے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہوئے بلکہ قصاص ہی کے لیے اصرار کرتے رہے۔ حضرت عمرؓ نے جب یہ دیکھا کہ وارثین قصاص ہی پر تلے ہوئے ہیں تو آپ نے مجبوراً قصاص ہی کا فیصلہ کردیا، جسے نوجوان قاتل نے خاموشی کے ساتھ سنا اور قصاص کے لیے تیار ہوگیا۔ چنانچہ قاتل کو حراست میں رکھا گیا اور قصاص لینے کے لیے ایک وقت مقرر کردیا گیا۔ پھر دستور کے مطابق مدینہ منورہ میں منادی کرا دی گئی کہ فلاں دن فلاں وقت ایک قاتل سے قصاص لیا جائے گا۔ لہٰذا اس موقع پر لوگ موجود رہ کر اس معاملہ کو دیکھیں اور اس سے عبرت حاصل کریں۔ چنانچہ مقررہ دن اور وقت جب آگیا تو قصاص کے لیے متعین مقام پر قاتل کو لایا گیا۔ شہر کے لوگ اس عبرت ناک منظر کو دیکھنے کے لیے جمع ہوگئے۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ کے علاوہ جتنے صحابہ کرامؓ اس وقت بقید حیات تھے وہ سب مقامِ قصاص پر پہنچ گئے۔ بعض جلیل القدر صحابہ نے مقتول کے ورثاکو سمجھایا بھی کہ وہ قصاص کے بجائے دیت کے لیے راضی ہوجائیں مگر وہ راضی نہ ہوسکے۔ اس کے باوجود قاتل کے چہرہ پر سکون تھا اور اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ جلاد بھی وہاں موجود تھا،اور اس بات کا منتظر تھا کہ اجازت ملتے ہی قصاص کے طور پر قاتل کی گردن اڑا دی جائے۔ اتنے میں قاتل نے حضرت عمرؓ سے درخواست کی کہ اسے صرف تین دن کی مہلت دی جائے تاکہ وہ اپنے وطن واپس جائے اس کے ورثا کی کچھ امانتیں موجود ہیں، ان سب کو ادا کرکے وہ پھر واپس آجائے۔ چونکہ مدینہ منورہ میں کوئی بھی شخص قاتل کو نہیں پہچانتا تھا، اس لیے بظاہر یہ بات مشکل نظر آرہی تھی کہ قاتل کو بغیر کسی ضمانت کے تین دن کی مہلت دے دی جائے۔ قاتل بڑی عاجزی اور نیازمندی کے ساتھ بار بار درخواست کیے جا رہا تھا کہ کسی طرح اسے اپنے گھر جانے کی مہلت دی جائے۔ حضرت عمرؓ نے بھی اس کی مجبوری اور معذوری کو محسوس کرلیا اور اس سے کہا کہ اگر تم کسی شخص کو اپنا ضامن بناؤ اور وہ تمہاری ضمانت دے سکے تو صرف اسی صورت میں تمہیں اپنے وطن جانے کی اجازت دی جاسکتی ہے، لیکن مشکل یہ تھی کہ قاتل سب کے لیے اجنبی مسافر تھا اوروہاں مجمع عام میں کوئی شخص موجود نہیں تھا جسے قاتل جانتا پہچانتا ہو۔ انتہائی بے کسی اور بے بسی کی حالت میں اس نے پورے مجمع پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالی اور ایک بزرگ کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ یہ صاحب میرے ضامن ہوں گے اور میری طرف سے ضمانت دیں گے۔ جن صاحب کی طرف قاتل نے اشارہ کر کے انھیں اپنا ضامن بنایا تھا وہ نبی کریمؐ کے مشہورو معروف جلیل القدر صحابی حضرت ابوذرغفاریؓ تھے۔
قاتل نے جس وثوق و اعتماد کے ساتھ انہیں اپنا ضامن بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی اس کے پیش نظر حضرت ابوذر غفاریؓ نہ تو پریشان ہوئے اور نہ انہیں کوئی حیرت ہوئی بلکہ ان کے سکون و اطمینان کو دیکھتے ہوئے تمام حاضرین یہی سمجھ رہے تھے کہ قاتل اور حضرت ابوذر غفاریؓ کے درمیان کوئی رشتہ داری ہے یا دوستانہ تعلقات ہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم وہ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے پہچانتے ہیں۔ قاتل نے اپنی ضمانت کے لیے جب حضرت ابوذر غفاریؓ کی طرف اشارہ کرکے ان کی نشان دہی کردی تو امیرالمومنین حضرت عمرفاروقؓ نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے کہا کہ کیا آپ اس قاتل کی ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں؟ حضرت ابوذر غفاریؓ نے برضا و رغبت اثبات میں جواب دیا۔ اس پر امیرالمومنین نے ان سے کہا کہ آپ کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ اگر قاتل خدانخواستہ اپنے وعدہ کے مطابق تین دن کے بعد واپس نہ آیا تو آپ سے قصاص لیا جائے گا۔ کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں؟حضرت ابوذر غفاریؓ نے بڑے اطمینان کے ساتھ جواب دیا کہ میں بالکل تیار ہوں۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کے ضمانت دینے پر قاتل نوجوان کو تین دن کی مہلت دے کر اپنے گھر جانے اور واپس آنے کی اجازت دے دی گئی۔ ضمانت دینے والی شخصیت اس قدر عظیم المرتبت تھی کہ اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی بھی ضرورت نہیں محسوس کی گئی کہ قاتل کا نام نشان دریافت کیا جاتا۔ اس کا پتا لیا جاتایا اس کی بستی کا فاصلہ معلوم کیا جاتا۔
نوجوان قاتل واپس آنے کا وعدہ کر کے رخصت تو ہوگیا مگر سارا مجمع فکروتردّد میں میں غلطاں و پیچاں اور اندیشہائے دُور دراز میں مبتلا ہوکر چھٹ گیا۔ ہرشخص کو یہی پریشانی لاحق تھی کہ قاتل واپس نہ آیا تو کس قدر تشویشناک صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ پہلا دن امن و سکون کے ساتھ گزر گیا، دوسرا دن بھی کچھ زیادہ پریشان کن نہیں تھا۔ تیسرا دن امیدوبیم کی کشمکش میں بیت گیا۔ قاتل کی واپسی کا چوتھا دن روزِ قیامت کا ایک ہلکا سا منظر پیش کر رہا تھا۔ نمازِ فجر کے فوراً بعد لوگ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرنے لگے کہ وہ صاحب لوٹ کر آگئے۔ نفی میں جواب ملتا تو دلوں پر دہشت طاری ہوجاتی۔ طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی سب لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے اور اجنبی مسافر کی راہ دیکھنے لگے۔ جو حضرات بہت زیادہ پریشان تھے وہ راستے کے اس موڑ پر جاکر بیٹھ گئے جہاں سے قاتل نے گھر جاتے ہوئے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ لوگ مجسم انتظار بنے ہوئے اسی رخ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ جدھر سے قاتل کو واپس آنا تھا۔ صبح سے ظہر تک کا وقت بڑے اضطراب کی حالت میں گزرا۔ نمازِ ظہر کے بعد مقتول کے ورثا حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر مطالبہ کرنے لگے کہ قصاص کا وقت گزرتا جا رہا ہے اور قاتل کا پتا نہیں ہے۔ امیرالمومنین انہیں دلاسا دیتے ہوئے ہوئے سمجھا رہے ہیں کہ ابھی دن کا بیشتر حصہ باقی ہے، لہٰذا نمازِ عصر تک انتظار کرلیا جائے۔ کچھ ہی دیر بعد عصر کا وقت آگیا۔ اذان دے دی گئی، نمازِ عصر پڑھ لی گئی۔ نماز کے بعد پھر راستے پر لوگوں کی نگاہیں جم گئیں، جو بھی شخص آتا ہوا دکھائی دیا، سمجھ لیا جاتا کہ ہو نہ ہو قاتل ہی آرہا ہوگا مگر جب وہ قریب پہنچتا تو معلوم ہوتا کہ وہ قاتل نہیں بلکہ کوئی دوسرا ہی شخص ہے۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں جب امید کی کوئی کرن باقی نہ رہی تو مقتول کے ورثاء کا مطالبہ تقاضے کی شکل اختیار کرنے لگا۔ پورے مجمع میں زیادہ نمایاں دو ہی قدآور شخصیتیں تھیں جو سب کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ ایک تو امیرالمومنین حضرت عمرؓ اور دوسری حضرت ابوذر غفاریؓ کی بلندوبالا شخصیت۔ سب سے زیادہ تشویش کسی کو لاحق تھی تو وہ امیرالمومنین حضرت عمرؓ کی ذاتِ گرامی تھی اور سب سے زیادہ سکون و اطمینان کے آثار کسی کے چہرے پر نظرآرہے تھے تو حضرت ابوذر غفاریؓ کا پیکر کردار تھا۔ مجمع کا ہرشخص مجسمہ اضطراب بنا ہوا تھا حتیٰ کہ مقتول کے ورثاء بھی عجیب و غریب کش مکش میں مبتلا ہوگئے تھے۔ حضرت عمرؓ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ حضرت ابوذر غفاریؓ سے کس اسلوب میں گفتگو کی جائے اور کچھ کہا بھی جائے تو آخر کیا کہا جائے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے خود ہی صورت حال کی نزاکت محسوس کرلی اور آگے بڑھ کر حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ ضامن قصاص کے لیے حاضر ہے۔ قصاص کی کارروائی شروع کردی جائے۔قبل اس کے کہ حضرت عمرؓ کوئی جواب دیتے یا ورثاء سے سفارش کرتے حضرت ابوذر غفاریؓ بذاتِ خود مقتل میں پہنچ کر جلاد سے مطالبہ کرنے لگے کہ وہ امیرالمومنین سے اجازت لے کر اپنا کام شروع کردے۔ جلاد بھی اپنی جگہ مبہوت کھڑا ہوا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا لوگوں کی بے چینی اور بے قراری بڑھتی جارہی تھی۔ غروبِ آفتاب میں کچھ ہی دیر باقی رہ گئی تھی اور سورج ڈوبنے سے قبل عمل قصاص پایۂ تکمیل کو پہنچنا ضروری تھا۔ چاروں طرف سناٹا تھا، ساری فضا سوگوار معلوم ہورہی تھی کہ اچانک خاموش مجمع میں کچھ ہلچل کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس لیے کہ دُور کچھ اُڑتا ہوا غبار سا محسوس ہونے لگا۔ لوگ بے چین کوکر اسی طرف دیکھنے لگے۔ غبار چھٹنے لگا،اور اس میں سے ایک سوار نمودار ہونے لگا جو بڑی تیزی کے ساتھ اپنے اُونٹ کو دوڑاتا ہوا مجمع کی طرف آرہا تھا۔ آخر جب وہ قریب پہنچ گیا تو سب نے اچھی طرح پہچان لیا کہ وہ اجنبی مسافر نوجوان ہے، جو انجانے میں قاتل بن گیا تھا۔ نہایت تیزرفتاری کے ساتھ سفر کر کے واپس آنے کے باعث اس کے کپڑے گردآلود ہوگئے تھے اور پورا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ جیسے ہی وہ اپنی سواری سے نیچے اُترا، انتہائی تھکان کی وجہ سے نیچے گرپڑا۔ پھر سنبھل کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ کپڑوں سے اس نے دھول جھاڑ دی اور چہرے کا پسینہ پونچھا۔ پھر بڑی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ کہنے لگا کہ مجھے اپنا ورثاء کی امانتوں کو پہنچانے میں اندازے سے کچھ زیادہ ہی وقت صرف ہوگیا جس کے باعث میری واپسی میں کسی قدر تاخیر ہوگئی اس لیے میں آپ تمام سے بڑی ندامت کے ساتھ معذرت خواہ ہوں۔ پھر بھی مجھے اطمینان ہے کہ میں غروبِ آفتاب سے قبل مقتل میں پہنچ کر اپنا وعدہ پورا کر رہا ہوں۔ اب جلاد کو حکم دیا جائے کہ وہ قصاص کی کارروائی شروع کرتے ہوئے مجھے قتل کردے، تاکہ قانون شریعت کے نفاذ کے ساتھ مقتول کے ورثاء کا بارِ غم کسی قدر ہلکا ہوجائے۔
نوجوان قاتل کا ایفائے عہد اس کی واپسی کا مؤثر انداز اور حضرت ابوذر غفاریؓ کا حیرت انگیز ایثار اس قدر ایمان افروز اور دلآویز تھا کہ مقتول کے ورثاء پکار اُٹھے کہ ہمیں اب قصاص کی ضرورت نہیں، ہم پوری خوش دلی کے ساتھ اپنے باپ کے قاتل کو معاف کرتے ہیں۔ ورثا کا غیرمتوقع فیصلہ سنتے ہی پورے مجمع نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور سب ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنے لگے۔ پھر امیرالمومنین حضرت عمرؓ اور دوسرے صحابہ کرامؓ نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے دریافت کیا کہ قاتل نوجوان کا آپ سے کیا رشتہ ناطہ ہے جس کی بنا پر آپ اس کے ضامن بن گئے اور اس کی طرف سے ضمانت دینے کے لیے بہ خوشی تیار ہوگئے۔حضرت ابوذر غفاریؓ نے جواب دیا کہ قاتل جس طرح پورے مجمع کے لیے ایک اجنبی مسافر تھا ، اسی طرح میرے لیے بھی تھا۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ ایک مسلمان بھائی نے دوسرے مسلمانوں کو چھوڑ کر مجھ پر بھروسہ کیا ہے تو مجھے اس کے اعتماد کی لاج رکھنی پڑی ۔اسی لیے میں بغیر کسی تکلف اور تامل کے ضمانت دینے کے لیے تیار ہوگیا۔ جب لوگوں کے علم و اطلاع میں یہ بات آئی تو ان کی حیرت و مسرت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مقتول کے ورثاء نے اگرچہ قصاص بالکل معاف کردی تھا اور ‘دیت’ یعنی خون بہا لینے کے لیے بھی تیار نہیں ہو رہے تھے لیکن امیرالمومنین حضرت عمرؓ اس قدر متاثر ہوئے کہ بیت المال کی طرف سے مقتول کے ورثا کو پوری دیت دلا دی اور خوش قسمت قاتل کو بھی بقدرِ ضرورت سازوسامان دے کر رخصت کردیا۔
(بشکریہ ماہنامہ زندگی نو، انڈیا ستمبر ۲۰۰۷)