اللہ کے نام پہ روٹی کا سوال کرنے والوں کو جھڑکیے مت
کبھی کبھی روٹی کا ایک نوالہ انسان کو چوری کرنے پر مجبور کردیتا ہے
تلخ معاشرتی رویوں پر مبنی، بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ایک پُراثر تحریر
میرے والد کا شمار گاؤں کے زمینداروں میں ہوتا تھا۔ ہماری زمینیں بہت زیادہ تو نہیں تھیں لیکن جو بھی پیداوار یہ زمینیں دیتی تھیں وہ ہمارے کنبہ کے لیے کافی تھیں۔ کچھ بھینسیں وغیرہ بھی تھیں اس لیے دودھ، مکھن کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ اچھا کھانا پیتا گھرانہ تھا۔ یہ گھرانہ کُل چار افراد پر مشتمل تھا۔ والدین کے علاوہ میں اور میرا ایک چھوٹا بھائی تھا۔ میرا نام بشیر اور بھائی کا نام نذیر تھا۔ میں دس سال کا تھا اور نذیر مجھ سے دو سال چھوٹا تھا۔ گاؤں کے لوگوں سے ہمارا میل جول اچھا تھا اس لیے سب میرے والد کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ہماری بھی قدر کرتے تھے۔ میرے ایک چچا جن کا نام سراج تھا، ذرا اکھڑ طبیعت کے مالک تھے۔ گاؤں کے لوگ ان کے پاس زیادہ اٹھنا بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ بابا جان ان کو ہمیشہ سمجھاتے کہ وہ لوگوں کے ساتھ پیارومحبت سے پیش آیا کریں تاکہ لوگ ان کی بھی عزت کریں لیکن چچا ہمیشہ ان باتوں کو نظرانداز کردیتے تھے بلکہ کئی مرتبہ ناراض ہوکر بابا جان سے جھگڑنے بھی لگ جاتے تھے۔ ان کی انہی باتوں کی وجہ سے ان کے ساتھ ہماری زیادہ بول چال نہیں تھی۔
قسمت کا لکھا کوئی ٹال نہیں سکتا۔ شاید آسمان کو ہماری خوشیاں پسند نہیں تھیں اور کچھ بُرے دن دیکھنا بھی میرے نصیب میں لکھے تھے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن بابا جان بھینسوں کا دودھ دھو کر ابھی فارغ ہی ہوئے تھے کہ اچانک ان کو دل کا دورہ پڑا۔ ہسپتال لے جانے سے پہلے ہی قضائے الٰہی نے انہیں فانی دنیا سے اپنی طرف اُٹھا لیا۔ ہمارے لیے یہ صدمہ ناگہانی تھا اس لیے امی جان کو سکتہ ہوگیا اور ہم بھی اپنے ہوش و حواس میں نہ رہے۔ دو دن بعد امی کی سکتے کی حالت ٹوٹی، آہستہ آہستہ انہیں ہوش آنے لگا۔ چہلم تک تو حالات معمول پر رہے۔ پھر چچا نے اپنے پر پرزے نکالنے شروع کیا۔ وہ ہر بات پر اپنی دھونس جماتے اور بات بے بات ہمیں ڈانٹنے لگے تھے۔ چچا ہماری زمینوں پر قبضہ کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ ان کا ایک بیل ایسا تھا جو پاگل ہونے کے قریب تھا، جگہ جگہ ٹکریں مارتا رہتا تھا۔ کئی لوگوں کو اس نے زخمی کیا تھا۔ سارا گاؤں اس سے دُور بھاگتا تھا۔ جس کھیت میں وہ کھڑا ہوتا لوگ مارے ڈر کے اس طرف جاتے ہی نہیں تھے۔
ایک دن امی کھیت میں سرسوں توڑنے کے لیے گئیں اور خلاف معمول سارا دن گزرنے کے بعد بھی وہ واپس نہیں آئیں۔ گاؤں میں سب کے دکھ سکھ سانجے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمارے ساتھ ہمسائیوں کو بھی فکر لاحق ہوئی۔ ہم سب مل کر امی کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے۔ لیکن ابھی زیادہ دُور نہیں گئے تھے کہ چند لڑکے ہمیں اپنی طرف آتے ہوئے نظر آئے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ کھیتوں میں امی مُردہ حالت میں پڑی ہیں۔ میرے اوسان خطا ہوگئے۔ بھاگم بھاگ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ امی زمین پر اوندھے منہ پڑی ہوئی ہیں اور سرسوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر ان کے پاس پڑا ہوا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ابھی انہوں نے سرسوں کاٹنی شروع ہی کی تھی کہ قضاء نے آلیا۔
پولیس آئی، اپنی کارروائی کی اور امی کو چارپائی پر ڈال کر گھر پہنچا دیا گیا۔ پولیس کے مطابق چچا کے بیل نے ٹکریں مار مار کر امی کو ہلاک کیا تھا۔ اس طرح یہ کیس یہیں ختم ہوگیا اور ہمارا ہنستا بستا گھرانہ بالکل اُجڑ گیا۔ اب ہم صرف دو بھائی ہی دنیا میں رہ گئے تھے یا پھر ہمارے سر پر ایک سایہ ظالم چچا کی صورت میں موجود تھا۔ ا ب چچا اور ان کے بچوں نے ہمارے گھر کو ہی اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا تھا۔ وہ اپنے والد کی شہ پر بات بے بات ہم سے جھگڑنے بھی لگتے تھے۔ کبھی کبھی تو نذیر پر ہاتھ بھی اٹھا لیتے تھے۔ چچا نے گھر کا سارا کام یعنی صبح کھیتوں سے بھینسوں کے لیے چارہ لانا، پھر بھینسوں کو چارے کے علاوہ پانی پلانا، ٹوکے سے چارہ کاٹنا، ہم دونوں بھائیوں کے سر ڈال رکھا تھا۔ ان کے اپنے بیٹے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے۔ ہمیں روزانہ وقت بے وقت پیٹا بھی جاتا تھا تاکہ چچا کا ڈر اور خوف ہمارے پر ہمیشہ مسلط رہے۔
ہم دونوں بھائیوں کو صبح سویرے کھیتوں میں بھیج دیا جاتا اور جب تک ہم چارہ کاٹ کر بھینسوں کو کھلا پلا نہ دیتے اس وقت تک ہمیں بھی بھوکا رکھا جاتا۔ سارا دن مشقت کرانے کے بعد رات کو ہمارے سامنے کھانا ایسے پھینکا جاتا جیسے کسی فقیر کو دیا جاتا ہے اور وہ بھی اتنا کہ جس سے پیٹ بھی نہ بھرے۔ چونکہ چچا کی نظر ہماری زمینوں پر تھی اس لیے وہ ہمیں راستے سے ہٹانے کے منصوبے بنانے لگے۔
مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے ۔ وہ سردیوں کی ایک سیاہ رات تھی اور رات گیارہ بجے کا وقت تھا۔ جب چچا نے ہم دونوں بھائیوں کو سوتے سے اُٹھایا اور جلد تیار ہونے کو کہا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کا بڑا لڑکا مقبول شہر جارہے ہیں۔ ہم بھی ساتھ چلیں۔ رات کی گاڑی اس لیے پکڑنی ہے تاکہ صبح صبح شہر پہنچ جائیں اور ہم تینوں بھائی شہر میں گھوم پھر کر خوب سیر کرسکیں۔ اس طرح بہانے سے ہمیں ساتھ لے کر وہ دونوں باپ بیٹا اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے۔ موسم سرد تھا اس لیے ہم نے چادریں لپیٹ رکھی تھیں۔ ابھی اسٹیشن سے تھوڑی دُور ہی تھے کہ ہلکی ہلکی بونداباندی بھی ہونے لگی۔ ہم تینوں کو ویٹنگ روم میں بٹھا کر چچا خود ٹکٹیں لینے چلے گئے۔ گاڑی آنے میں ابھی دس منٹ باقی تھے۔ ہم چاروں کے سوا اسٹیشن پر اور کوئی مسافر نہیں تھا۔ شاید ہماری ہی تقدیر میں یہ سیاہ رات لکھی تھی۔ جب گاڑی آئی تو چچا آخری ڈبہ میں سوار ہوئے۔ اندر رش کم تھا۔ کئی سیٹیں خالی پڑی تھیں۔ ہم ان پر بیٹھ گئے۔ باہر سردی تھی اور ہم ٹھٹھر بھی رہے تھے، گاڑی کے اندر بیٹھتے ہی حرارت پہنچی تو ہم چادریں لپیٹ کر لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہمیں نیند نے آلیا۔ مقبول کا ہمارے ساتھ سونا شاید ایک ڈھونگ تھا جس کا پتا ہمیں صبح کے وقت چلا کیوں کہ ہمیں سوتا دیکھ کر چچا اپنے بیٹے کے ساتھ راستے میں ہی کسی اسٹیشن پر اُتر گئے تھے۔ انھوں نے آخری ڈبے کا انتخاب اسی لیے کیا تھا کہ انہیں اترتے ہوئے کوئی دیکھ نہ سکے۔
صبح جب ہماری آنکھ کھلی تو ہم نے خود کو اکیلا پایا۔ گاڑی اسٹیشن پر رُکی ہوئی تھی۔ سب مسافر ڈبے سے جاچکے تھے اور ایک قلی ہمیں اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہم نے چچا کو ڈھونڈا لیکن وہ کہیں نہیں ملے۔ ہم نے رونا شروع کردیا تو وہ قلی ہمیں اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں لے گیا۔ اسٹیشن ماسٹر بہت نیک طبیعت تھا اس نے ہمیں پیار سے اپنے پاس بٹھایا۔ ہماری باتیں غور سے سنیں۔ ہمارے لیے کھانا بھی منگوا کر ہمیں کھلایا اور پھر اسی قلی کو کہا کہ وہ جاکر ایک سپاہی کو لے آئے تاکہ وہ ہمیں تھانے لے جائے اور پھر ہمارا بیان لکھ کر ہمارے چچا کو ڈھونڈے۔ سپاہی کا سنتے ہی ہم کانپنے لگے کہ اب وہ ہمیں تھانے لے جاکر مارے گا۔ اس لیے میں وہاں سے بھاگنے کا پروگرام بنانے لگا۔ اسی دوران پلیٹ فارم پر ایک گاڑی آگئی اور اسٹیشن ماسٹر اُٹھ کر باہر چلا گیا۔ میں نے نذیر کا ہاتھ پکڑا اور کمرے سے باہر نکل آیا، اس طرح ہم مسافروں کی بھیڑ میں اسٹیشن سے باہر نکل آئے۔ دن کافی چڑھ چکا تھا، سڑک پر لوگوں کی آمد ورفت شروع ہو چکی تھی۔ لوگوں سے بھری ہوئی بسیں بھی گزر رہی تھیں۔ سڑکوں پر گھومتے گھومتے ہم اسٹیشن سے بہت دُور نکل آئے۔ نہ ہی ہمارا کوئی ٹھکانہ تھا اور نہ ہی کوئی منزل ،اس لیے چلتے چلتے وقت کا کچھ پتا ہی نہ چلا۔ جب بھوک نے ستانا شروع کیا تو احساس ہوا کہ دن کے دو بج رہے ہیں۔ نذیر نے کہا: ‘‘بھائی جان! مجھ سے اب چلا نہیں جاتا، مجھے بھوک لگ رہی ہے۔ اب ہم کھانا کہاں سے کھائیں گے؟’’ بھوک کا سنتے ہی مجھے بھی بھوک نے زور مارا۔ ایک دو راہگیروں کو میں نے روٹی کے لیے کہا تو انہوں نے جھڑک دیا۔ اب ہمارے لیے چلنا مشکل ہورہا تھا۔ پاؤں اُٹھ نہیں رہے تھے جس کو بھی روٹی کے لیے کہتے تو وہ یوں دھتکار دیتا جیسے اس شہر میں روٹی مانگنا کوئی بہت بڑا جرم ہو۔ مجبور بھوکا روٹی نہ مانگے تو کیا کرے؟ اجنبی جگہ مانگنے کے سوا ہم اور کر بھی کیا سکتے تھے؟
چلتے چلتے ہم ایک ایسے بازار میں پہنچے جہاں بہت سے ہوٹل تھے۔ سڑک پر جگہ جگہ میز اور کرسیاں رکھی ہوئی تھیں جن پر لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ میں نے باری باری کئی لوگوں سے روٹی مانگی۔ لیکن کسی نے ایک نوالہ بھی نہ دیا۔ کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو سے ہماری بھوک بھی خوب چمک اُٹھی تھی۔ ایک جگہ ایک صاحب اپنے بیٹے کو کھانا کھلا رہے تھے۔ نذیر نے ان سے روٹی مانگی تو اس نے بھی انکار کردیا۔ اس کے انکار پر نذیر نے اس کے آگے پڑی روٹیوں میں سے ایک روٹی اُٹھا لی۔ ان صاحب نے اُٹھ کر نذیر کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ مارا اور روٹی چھین کر پھر اپنے آگے رکھ لی اور گالیاں بکنے لگا۔ نذیر رونے لگا۔ آخر تھا تو وہ بھی بچہ ہی۔ کہاں تک بھوک برداشت کرتا؟ میں اسے روتا بلکتا لے کر آگے چل پڑا۔ جب ہم مانگ مانگ کر تھک گئے اور کسی نے ہمیں ایک نوالہ بھی نہ دیا تو میں نے نذیر کو ایک درخت کے سایہ میں بٹھا دیا اور کہا کہ وہ اس وقت تک وہیں بیٹھ کر میرا انتظار کرے جب تک میں واپس نہ آجاؤں۔ اس کو وہاں چھوڑ کر میں دوبارہ وہیں گیا۔ ایک ہوٹل کے باہر تندور پر ایک شخص بیٹھا روٹیاں لگا رہا تھا اور اس کے سامنے روٹیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا، میں نے اس سے ایک روٹی مانگی۔اس نے انکار کردیا۔ اس کے انکار پر میں نے روٹی اُٹھائی اور دوڑ لگا دی۔ اس نے شور مچانا شروع کردیا: ‘‘پکڑو…… پکڑو…… چور…… چور…… روٹی لے کر بھاگا ہے’’۔
اس وقت یہ ایک روٹی ہی ہم بھائیوں کے لیے جینے کا واحد سہارا تھی۔ ہوٹل کا ایک ملازم میرے پیچھے دوڑا۔ میں جلدی سے دوسری گلی میں گھوم کر وہاں کھڑی موٹرگاڑیوں کے پیچھے چھپ گیا۔ وہ کچھ دیر اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد واپس چلا گیا۔ میں نے سکھ کا سانس لیا اور نذیر کی طرف چل پڑا۔ وہ وہیں بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے آدھی روٹی توڑ کر اسے دی۔ آدھی خود کھانے کے لیے رکھی۔ نذیر نے ابھی پہلا نوالہ ہی توڑا تھا کہ ہوٹل کا وہی ملازم پھر اُدھر آنکلا اور ہم پر نظر پڑتے ہی ہماری طرف بھاگا۔ میں نے نذیر کا ہاتھ پکڑا اور دوڑ لگا دی۔ ہماری روٹیاں وہیں رہ گئیں۔ صرف وہ نوالہ نذیر کے ہاتھ میں رہ گیا جو اس نے ابھی توڑا ہی تھا لیکن اسے کھانے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ ہم بھاگے جارہے تھے اور وہ نوالہ اب بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔ ہمارے پیچھے وہ ملازم ہمیں پکڑنے کے لیے دوڑا چلا آ رہا تھا۔ آگے ایک بڑی سڑک تھی اور اس پر موٹرگاڑیاں کافی تیزرفتاری سے آجارہی تھیں۔ ہم اگر وہاں رُکتے تو پکڑتے جاتے اس لیے ہم نے دوڑتے ہوئے ہی سڑک عبور کرنا چاہی۔ ابھی ہم سڑک کے درمیان میں بھی نہ پہنچے تھے کہ ایک تیزرفتار موٹرگاڑی ہم سے آٹکرائی۔ میں چونکہ نذیر کے پیچھے تھے اس لیے گاڑی کا صرف ایک کنارا مجھ سے ٹکرایا۔ اور میں قلابازیاں کھاتا ہوا دُور جاگرا۔ سر پر چوٹ کافی گہری تھی اس لیے گرتے ہی بے ہوش ہوگیا۔ کچھ لوگوں نے بھاگ دوڑ کر پانی کا بندوبست کیا اور میرے منہ پہ ڈالا۔ جب مجھے ذرا ہوش آئی تو سب سے پہلے مجھے نذیر کا خیال آیا۔ سڑک کے درمیان میں لوگوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا اور وہ شور بھی مچا رہے تھے۔ میں فوراً ان کی طرف دوڑا۔ لوگوں کے گھیرے کو توڑنا جب میں آگے پہنچا تو دیکھا کہ نذیر سڑک پر چاروں شانے چت پڑا ہے۔ اس کے سر اور منہ سے خون بہہ بہہ کر جم گیا تھا اور اس کی انتڑیاں پیٹ سے نکل کر باہر جھانک رہی تھیں۔ میں روتا ہوا نذیر سے چمٹ گیا اور اس کا خون آلودہ چہرہ چومنے لگا۔ اس بھری دنیا میں میرا ایک ہی بھائی تھا وہ بھی آج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہوگیا تھا۔ اس کا بازو اُوپر آسمان کی طرف اُٹھا ہوا تھا اور وہی نوالہ اب بھی اس کی انگلیوں میں پھنسا ہواتھا۔ اسے دیکھ کر میں غصے سے کانپنے لگا اور میرا دل چاہا کہ اس نوالہ کو اس کی انگلیوں سے نکال کر کہیں دُور پھینک دوں کیونکہ اسی ایک نوالے نے میرے بھائی کی جان لی تھی۔ وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ایک نوالہ کی خاطر اپنی جان پر کھیل گیا جو اسے کھانا بھی نصیب نہ ہوا۔ میں نے وہ نوالہ اس کی انگلیوں سے نکال کر پاس کھڑے لوگوں کی طرف پھینک دیا اور روتے ہوئے لوگوں کو بتایا کہ یہی وہ قاتل نوالہ ہے جس نے میرے بھائی کی جان لی ہے۔ ایک بزرگ صورت شریف النفس آدمی میری طرف بڑھے اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے: ‘‘بیٹا! تم کون ہو؟ اور اس نوالے کے قاتل ہونے کا کیا مطلب ہے؟’’ میں نے ان کو سب ماجرا سنایا۔ یہ سن کر سب لوگوں کے چہروں پر غیض و غضب کے آثار نمودار ہوگئے۔ ان بزرگ سمیت سارا مجمع میرے ساتھ اس ہوٹل کی طرف چل پڑا۔ تندور پر وہی شخص اب بھی روٹیاں لگا رہا تھا۔ سب نے اسے خوب بُرا بھلا کہا اور کچھ تو اسے مارنے کے لیے بھی دوڑے۔ لیکن لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا دیا۔ وہ چونکہ خود سارے واقع سے بے بہرہ تھا۔ اس لیے جب اسے اصل واقعہ کا پتا چلا تو خود اسے بھی بہت افسوس ہوا اور اس نے اس ملازم کو بلا کر خوب ڈانٹا۔ وہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر سب سے معافیاں مانگنے لگا۔
میری تمام کہانی سننے کے بعد وہ بزرگ مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر لے گئے۔ اپنی بیوی کو ماجرا سنانے کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ آج سے تمہارا بیٹا ہے، اسے ماں کی مامتا کی کمی محسوس نہ ہونے دینا اور اپنے بچوں سے کہا: ‘‘یہ تمہارا بھائی ہے ، اسے بھائی کی کمی نہ محسوس ہونے دینا’’۔ انھیں بھی میری داستان سن کر بہت دکھ پہنچا۔ امی نے مجھے پیار سے اپنی گود میں بٹھا لیا۔
اب ان بزرگ نے مجھے اپنے بچوں کے ساتھ اسکول میں داخل کروا دیا ہے۔ میں بھی روزانہ خوب صورت اسکول یونی فارم پہنے ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اسکول جاتا ہوں۔ خوب دل لگا کر پڑھ رہا ہوں تاکہ اچھے نمبروں سے پاس ہوکر آگے اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکوں۔ کیوں کہ ابھی مجھے اپنے چچا اور ان کی اولاد سے اپنی زمینیں بھی واپس لینی ہیں اور اس بھوک کا بدلہ بھی چکانا ہے جو چچا کے پاس ہمارے اپنے گھر میں ہمیں ملی اور جس کی وجہ سے میرے پیارے بھائی نے بے رحم موت کے ہاتھوں اپنی جان گنوائی۔
ان نیک سیرت برگ کا نام شفیق ہے جہا ں اس دنیا میں میرے چچا جیسے ظالم سنگدل لوگ رہتے ہیں، وہاں شفیق صاحب جیسے نیک اور پاک باز لوگوں سے بھی یہ دنیا بھری پڑی ہے۔ مجھے بھوک کی خوب قدر ہے اس لیے میں جب کسی کو بھوکا دیکھتا ہوں توسب سے پہلے اسے کھانا کھلاتا ہوں۔ شاید میری اس نیکی سے ہی میرے بھائی کی روح کو سکون نصیب ہو اور آپ سب کو بھی چاہیے کہ اگر کبھی کوئی آپ سے روٹی کا سوال کرے تو اسے جھڑکنے کے بچائے حسبِ استطاعت اس کی مدد کریں۔
(بشکریہ ،ماہنامہ نور، رامپور،مارچ ۲۰۰۷ء)