ایمیزن کا نام آتے ہی لوگوں کے ذہن میں نہایت گھنے اور غیر آباد جنگل کا تصور آتا ہے جہاں طرح طرح کے چرند پرند اور کیڑے مکوڑے قدم قدم پر آپ کو حیران کرنے کوموجود ہوں گے۔ ایمیزن کے اس تصور میں کسی حد تک صداقت ہوسکتی ہے لیکن اس جنگل کو غیرآباد سمجھنا یقیناً ایک غلطی ہوگی کیونکہ تین کروڑ لوگ اس علاقے میں رہتے ہیں جو دریائے ایمیزن سے سیراب ہوتا ہے اور ایمیزونیا کہلاتا ہے۔
یہ علاقہ آج اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے مقابلے میں اس کا کردار بنیادی ہے۔ایمیزون کا کردار کاربن کے اخراج کو کنٹرول کرنے میں نہایت اہم ہے۔ ساری دنیا میں ہر برس جو دو سو بلین ٹن کاربن استوائی علاقوں کے جنگلات جذب کرتے ہیں، ان میں سے ستر بلین ٹن اکیلے ایمیزن کے جنگل جذب کرتے ہیں۔
ایمیزونیا کے علاقے میں تین کروڑ افراد آباد ہیں۔ایمیزونیا کا علاقہ جنوبی امریکہ کے نو ملکوں میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس کا تین چوتھائی حصہ اکیلے برازیل میں واقع ہے۔ سن دو ہزار ایک میں سیٹلائیٹ سے لی گئی تصاویر کے مطابق ایمیزونیا کے جنگلات کا کل رقبہ پچاس لاکھ مربع کلومیٹر تھا اور اس وقت تک جتنے جنگلات کاٹے گئے تھے وہ رقبے میں مجموعی طور پر فرانس اور جرمنی کے برابر علاقہ تھا۔
ایمیزن میں پائے جانے والے استوائی جنگلات دنیا میں سب سے بڑے ہیں۔ یہ ایک اندازے کے مطابق ستر لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جو کہ براعظم جنوبی امریکہ کے چالیس فیصد رقبے کے برابر ہے۔ یہ جنگلات دنیا کے نو ممالک میں واقع ہیں جن میں برازیل، بولیویا، پیرو، ایکواڈور، کولمبیا، وینزویلا، گیانا، فرنچ گیانا اور سرینام شامل ہیں۔
ایمیزن کے جنگلات کو‘دنیا کے پھیپھڑے’ کہا جاتا ہے۔ یہ جنگلات بھر پور حیاتیاتی تنوع کے حامل ہیں۔ خطے میں پائے جانے والے چرند و پرند کی علاقائی اقسام کی ایک تہائی تعداد یہاں پائی جاتی ہیں۔ چونسٹھ ہزار کلومیٹر طویل ایمیزن دریا دنیا کا دوسرا بڑا دریا ہے اور اس میں دنیا بھر کے سمندروں میں گرنے والے تازہ پانی کا پانچواں حصہ پایا جاتا ہے۔ ایمیزن کے علاقے میں تین کروڑ افراد بستے ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی برازیلی ہیں اور نصف سے زائد شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہیں
ایمیزن کے ممالک
بولیویا
خشکی میں گھرا یہ ملک براعظم جنوبی امریکہ کا سب سے بلند ملک ہے۔ بولیویا میں جنوبی امریکہ کے قدرتی گیس کے دوسرے بڑے ذخائر بھی پائے جاتے ہیں اور یہاں پیرو اور کولمبیا کی طرح بڑے پیمانے پر کوکا کی کاشت بھی ہوتی ہے۔ نوے کی دہائی میں بولیویا میں حکومت کی جانب سے عمارتی لکڑی کی کمپنیوں کو دو کروڑ ہیکٹر علاقہ دیے جانے کے بعد بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی ریکارڈ کی گئی۔ جنگلات کا بڑا رقبہ سویابین اور کوکا کی پیداوار کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ حیاتیاتی تنوع کے اعتبار سے بولیویا دنیا میں بارہویں نمبر پر ہے اور یہاں چرند و پرند اور رینگنے والے جانوروں کی 2194 اور پودوں کی سترہ ہزار اقسام پائی جاتی ہیں۔
برازیل
برازیل جنوبی امریکہ کا سب سے بارسوخ اور اقتصادی طور پر طاقتور ملک ہے۔ ایمیزن کے جنگلات کا پینسٹھ فیصد رقبہ برازیل میں واقع ہے اور ورلڈ وائلڈ فنڈ(WWF) کے مطابق سنہ 1970 سے لے کر آج تک برازیل میں 700000 مربع کلومیٹر رقبے سے جنگلات کاٹے گئے ہیں۔ یہ فرانس اور بلجیئم کے رقبے کے برابر علاقہ ہے اور جنگلات کی یہ کٹائی ایمیزن سے حال ہی میں کاٹے جانے والے جنگلات کا اسّی فیصد ہیں۔ اس کٹائی کے باوجود برازیل کے ایمیزن استوائی جنگلات خطہ ارض پر پایا جانے والے سب سے بڑا جنگلاتی سلسلہ ہیں۔ مویشیوں کے لیے فارمز کی تعمیر جنگل کے ستّر فیصد حصے کے خاتمے کی وجہ بنی ہے جبکہ سویا کی پیداوار اور درختوں کی کٹائی جنگلات کے خاتمے کی دیگر اہم وجوہات ہیں۔ پن بجلی کے نئے ڈیموں اور خطے میں سڑکوں کی تعمیر کو بھی جنگلات کی کٹائی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے علاقے میں نئے آباد کاروں کی آمد ہوتی ہے۔
برازیل دنیا میں سویا اور گائے کے گوشت کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور اس کے بڑے خریداروں میں چین جیسی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتیں شامل ہیں۔
کولمبیا
کولمبیا براعظم جنوبی امریکہ کا چوتھا بڑا اور بڑے گنجان آباد ملکوں میں سے ایک ملک ہے۔ کولمبیا میں تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں اور یہاں سے بڑی مقدار میں سونا، چاندی، زمرد، پلاٹینیم اور کوئلہ نکالے جاتے ہیں۔ کولمبیا کوکا نامی اس پودے کا اہم پیداواری ملک ہے جو کوکین کا مرکزی جزو ہے۔ بلند علاقوں میں کوکا کی کاشت کے حوالے سے جاری جنگ نے جنگلات پر خاصا اثر ڈالا ہے۔ کوکا کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادوں نے ماحول پر برا اثر ڈالا ہے جبکہ منشیات کے خاتمے کی کارروائیوں خصوصاً دواؤں کے فضائی چھڑکاؤ سے نباتات کو نقصان پہنچا ہے۔ کولمبیا میں جنگلات کے خاتمے کی وجہ صرف کوکین کی تجارت ہی نہیں بلکہ چھوٹے اور تجارتی پیمانے پر کاشتکاری، درختوں کی کٹائی، کان کنی اور انفرا سٹرکچر کی تعمیر بھی اس کی اہم وجوہات ہیں۔
ایکواڈور
ایکواڈور روایتی طور پر ایک زرعی ملک تھا تاہم ساٹھ کی دہائی میں صنعتی ترقی اور تیل کی دریافت نے نہ صرف ملکی معیشت کا رخ بدل دیا بلکہ اس دریافت سے صحت، تعلیم اور ہاؤسنگ کے شعبہ جات میں ترقی دیکھنے میں آئی۔ تاہم اس ترقی کا اثر ایکواڈور کے ایمیزن جنگلات پر پڑا۔ ایک اندازے کے مطابق ایکواڈور اپنے ہاں پائے جانے والے جنگلات کے چھپن فیصد حصے سے محروم ہو چکا ہے اور یہاں جنگلات کے خاتمے کی رفتار برازیل کے بعد سب سے تیز ہے۔ جنگلات کے خاتمے کی اہم وجوہات میں کاشتکاری میں اضافہ، لکڑی کے حصول کے لیے درختوں کی کٹائی، تیل کی تلاش کا عمل اور سڑکوں کی تعمیر شامل ہیں۔
فرنچ گیانا
فرنچ گیانا جنوبی امریکہ کے شمال مشرقی ساحل پر واقع ایک ایسی فرانسیسی نوآبادی ہے جس کی معیشت مراعات اور تجارتی روابط کے ذریعے فرانسیسی معیشت سے وابستہ ہے۔ اس ملک کی زیادہ تر آبادی ساحلی علاقوں میں رہائش پذیر ہے اور ملک کے زیادہ تر اندرونی علاقے تک رسائی صرف دریا کے راستے ممکن ہے۔ انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے اس ملک میں سیاحت کو فروغ نہیں مل سکا ہے۔ ماہی گیری اور جنگل اگانا اس ملک کی اہم معاشی سرگرمیاں ہیں۔ یہاں موجود استوائی لکڑی کے ذخائر لکڑی چیرنے کی صنعت کے پھلنے پھولنے کی اہم وجہ ہیں۔ چری ہوئی لکڑی بعد ازاں برآمد کر دی جاتی ہے۔
گیانا
گیانا جنوبی امریکہ میں واقع واحد ملک ہے جہاں انگریزی زبان بولی جاتی ہے۔ گیانا نے سنہ 1966 میں آزادی حاصل کی۔ اس ملک کا تین چوتھائی رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے اور یہاں بسنے والی اکثر مقامی آبادی کی زندگی کا مکمل دارومدار جنگل پر ہی ہے۔ گیانا ایک چھوٹا اور کم آبادی والا ملک ہے جسے ساحلی علاقے اور استوائی جنگلات کو درپیش ماحولیاتی خطرات، غربت اور منشیات کی تجارت کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے جرائم جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
پیرو
‘انکا’ تہذیب کے گم گشتہ شہر ماچو پیچو اور اپنی متنوع ثقافتی تاریخ سے شہرت پانے والا یہ ملک تانبے، چاندی، سیسے، زنک، تیل اور سونے جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔
پیرو کے نصف سے زائد رقبے پر ایمیزن کے استوائی جنگلات موجود ہیں اور یہاں جنگلات کی کٹائی کا عمل بھی خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت سست ہے۔ زیادہ تر جنگلات کی کٹائی کی وجہ ذاتی گزر بسر کے لیے کاشتکاری کا عمل ہے۔ بلند علاقوں سے آنے والے کسان پیرو کے ‘لینڈ ٹنیور’ قانون کا فائدہ اٹھاتے ہیں جو کہ شہریوں کو اس زمین کی ملکیت کا حق دیتا ہے جس پر وہ پانچ برس تک قابض رہتے ہیں۔جنگلات کی کٹائی میں اضافے کی دیگر اہم وجوہات میں تجارتی بنیادوں پر کاشتکاری، لکڑی کے حصول کے لیے درختوں کی کٹائی، کان کنی، تیل اور گیس کی تلاش کا عمل اور سڑکوں کی تعمیر بھی شامل ہیں۔ پیرو براعظم جنوبی امریکہ میں کوکین کی تیاری میں استعمال ہونے والے پودے کوکا کے چند بڑے پیداواری ممالک میں سے ایک ہے۔
سرینام
سرینام جس کا سابقہ نام ولندیزی گیانا تھا جنوبی افریقہ کے چھوٹے ممالک میں سے ایک ہے۔ یہاں کی پانچ لاکھ سے بھی کم آبادی کا زیادہ حصہ دارالحکومت اور دیگر ساحلی شہروں میں رہائش پذیر ہے۔ سرینام دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جہاں گھنے جنگلات ہونے کے باوجود جنگلات کی کٹائی کی شرح انتہائی کم ہے۔ سرینام کی صرف پانچ فیصد آبادی استوائی جنگلات میں رہتی ہے جن میں مختلف اقوام کے علاوہ میرونز کے چھ قبائل بھی شامل ہیں۔ میرونز ان غلاموں کی نسل سے ہیں جنہوں نے صدیوں پہلے اپنے آقاؤں کی قید سے بھاگ کر یہاں رہائش اختیار کی اور روایتی جنوبی افریقی طرزِ زندگی اپنایا۔ سرینام میں استوائی جنگلات کو سب سے بڑا خطرہ چھوٹے پیمانے پر کان کنی کی صنعت سے پیدا ہونے والی پارے کی آلودگی ہے۔
وینزویلا
وینزویلا براعظم جنوبی امریکہ کے ان چند ممالک میں سے ہے جہاں زیادہ آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ یہاں پر معدنی تیل کے بہت بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کوئلہ، باکسائٹ، سونا اور خام لوہا بھی نکلتا ہے۔ وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز نے وینزویلا کے قدرتی وسائل خصوصاً ایندھن کو لاطینی امریکہ کے ممالک پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ وینزویلا کے ایمیزن جنگلات ملک کے جنوبی علاقے میں واقع ہیں اور انہیں تیزی سے ہونے والی ترقی سے خطرہ ہے۔ وینزویلا کا پینتیس فیصد حصہ پارکوں اور شکارگاہوں کی شکل میں محفوظ ہے لیکن اس میں سے زیادہ تر علاقہ صرف کاغذات میں بطور پارک موجود ہے جبکہ علاقے میں کان کنی اور درختوں کی غیرقانونی کٹائی کا عمل جاری ہے۔