سات ماہ کی بچی کے آٹھ اعضا تبدیل
اعضاء کی تبدیلی آج کل حیرت کی بات نہیں رہی لیکن امریکہ میں محض سات ماہ کی ایک بچی کے آٹھ اعضاء تبدیل کئے گئے ہیں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچی اب تندرست ہو رہی ہے۔بارہ گھنٹوں پر محیط اس آپریشن کے دوران اٹلی کی الیسیا ڈی میٹیو کا جگر، معدہ، لبلبہ، چھوٹی آنت، بڑی آنت، تلی اور دونوں گردے بدل دیئے گئے ہیں۔الیسیا کے آٹھ اعضاء ایک سال کے بچے کے جسم سے حاصل کئے گئے تھے۔یہ بچی ایک ایسے مرض کا شکار تھی جس سے اس کا نظامِ ہضم خراب ہو گیا تھا۔الیسیا کی والدہ مونیکا نے میامی کے جیکسن میموریل ہسپتال میں اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں امید کرتی ہوں کہ الیسیا عام لوگوں کی طرح زندگی گزارے گی۔’یہ آپریشن پرفیسر اینڈریئز تزاکس نے کیا جن کا کہنا تھا کہ ‘ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ الیسیا کے متعلق ہمیں اب کوئی پریشانی نہیں رہی بلکہ ایک سال تک ہم تشویش میں مبتلا رہ سکتے ہیں۔’انہوں نے کہا کہ ان کے علم کے مطابق اعضائے جسمانی کی اس نوعیت کی تبدیلی پہلے نہیں ہوئی۔ انیس سو ستانوے میں ڈاکٹر اینڈریئز نے سات اعضاء-04 کی تبدیلی کے لئے ایک آپریشن کیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ جسم کے اعضاء تبدیل کرانے والے مریضوں میں سے ایک دس برس تک زندہ رہا جبکہ باقی صحت مند ہیں۔الیسیا کی تشویشناک حالت کا اندازہ سکیننگ کے دوران اس وقت ہوا جب وہ بطنِ مادر ہی میں تھی۔ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر بچی کا علاج نہ کیا جاتا تو اس کے زندہ رہنے کے امکانات معدوم تھے۔ڈاکٹر اینڈرئیز کہتے ہیں کہ الیسیا کی زندگی کا پہلا برس کافی اہم ہے لیکن اب تک کی علامات امید افزا ہیں۔ ‘بچی اپنی ماں کی گود میں ہے اور خوراک کے لئے اسے نئی آنتوں سے مدد مل رہی ہے۔’ڈاکٹر کہتے ہیں کہ الیسیا کو مزید کچھ عرصہ زیرِ نگرانی رکھا جائے گا لیکن تین ماہ بعد وہ اپنی والدہ کے ساتھ اٹلی جا سکے گی۔
دماغ خطرات کیسے بھانپتا ہے؟
برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن میں ماہرین نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دماغ کس طرح لاشعوری طور پر ماضی میں پیش آنیوالے خطرات کی تفصیل یاد رکھتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کی مدد سے درد کا علاج کیا جا سکے گا۔ ان ماہرین نے چودہ رضاکاروں پر تجربہ کے ذریعے اپنا موقف واضح کرنے کی کوشش کی۔ آدھ گھنٹے جاری رہنے والے اس تجربے میں ان افراد کو مختلف تصاویر دکھائی گئیں اور وقفے وقفے سے انتہائی معمولی طاقت کے بجلی کے جھٹکے دیئے جاتے رہے۔ جب تجربہ مکمل ہوا تو اس میں حصہ لینے والے افراد کو یہ یاد نہیں تھا کہ ان کو تصاویر کس ترتیب سے دکھائی گئی تھیں۔ لیکن دماغ کی کارروائی مانیٹر کرنے والی مشینوں نے دکھایا کہ وہ مسلسل یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ مثلاً اگر رضاکاروں کو بجلی کے جھٹکے سے پہلے گول شکل دکھائی گئی تو دماغ نے آئندہ کے لیے جان لیا کہ گول شکل اچھی خبر نہیں۔ اسی طرح اگر گول شکل سے پہلے چکور شکل دکھائی گئی تو دماغ نے سمجھ لیا کہ چکور شکل بھی کوئی اتنی خوش آئندہ بات نہیں کیونکہ اس کے بعد گول تصویر آتی ہے جس کے بعد بجلی کا جھٹکا لگتا ہے۔
تجربے میں شامل ڈاکٹر بین سیمور کا کہنا ہے کہ دماغ انتہائی غیر معمولی حیاتیاتی کمپیوٹر ہے جس میں ایک سو ارب خلیے ہیں جو ہماری سوچوں اور اعمال کا تعین کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسانوں کو شاید ہر وقت اس بات کا احساس نہ ہو لیکن دماغ ایک انتہائی مشکل حکمت عملی کے تحت ہماری بقا میں مصروف رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انسان کو ایک بار کتا کاٹ لے تو وہ نہ صرف کتوں سے ہوشیار ہو جاتا ہے بلکہ ان جگہوں سے بھی کتراتا ہے جہاں کتوں کی موجودگی کا امکان ہو۔
سوچو، دماغ چھوٹا نہ ہو جائے
تحقیق کارو ں کا کہنا ہے کہ احساس کمتری کے شکار لوگوں کی یاداشت پر عمر کے ساتھ ساتھ باقی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ برا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس نئی تحقیق میں ، جسے لندن کی رائل سوسائٹی میں پیش کیا گیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کے دماغ کے حجم میں بھی کمی آ سکتی ہے، بنسبتاً ان لوگوں کے جو اپنے آپ کے بارے میں خوش آئند خیالات رکھتے ہیں۔کینیڈا کی میکگل یونیورٹسی کے ڈاکٹر سونیا لیوپئن نے بیانوے عمر رسیدہ افراد کا پندرہ برس تک جائزہ کیا اور ان کے دماغ کے عکس کا تجزیہ کیا۔ انہیں تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ احاس کمتری کے شکار لوگوں کے دماغ کا حجم ان لوگوں کے مقابلے میں پانچویں حصے سے بھی کم ہوتا ہے جو اپنے بارے میں اچھا سوچتے ہیں۔ڈاکٹر لویپئن کا کہنا ہے کہ اگر ان لوگوں کے اپنے بارے میں سوچنے کے ڈھنگ میں تبدیلی لائی جا سکے تو ان کے دماغی زوال کے سلسے کو روکا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا ‘ذہنی قوت کی بازیابی ممکن ہے، پہلے سمجھا جاتا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ جانوروں اور انسانوں پر کئے گئے تجربوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ماحول کو بہتر بنایا جائے،اور چند عناصر کو تبدیل کیا جائے، تو دماغ کی قوت و ہیئت معمول پر واپس لائی جا سکتی ہے۔’
ڈاکٹر لیوپئن کا کہنا ہے کہ یاداشت کھو جانے کا ڈر ایک جال ہے، کیونکہ اس پریشانی سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے ، جس سے دماغی صحت پر مزید برا اثر پڑتا ہے۔’
محبت اور دماغ
محبت کرنے والے مردوں اور عورتوں کے دماغوں میں کیا تبدیلیاں یا کیا عمل رونما ہوتے ہیں، سائنسدانوں نے اس کا پتا لگانے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس تحقیق میں کہ محبت میں انسانی دماغ کا کیا عمل ہوتا ہے، سائنسدانوں نے محبت کی بساط پر قدم رکھنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کے دماغوں کا تجزیہ کیا۔ امریکہ میں اعصابی سائنس پر تحقیق کرنیوالی سوسائٹی نے اپنی ایک تازہ ترین اشاعت میں اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے محبت کے دوران انسان کے دماغ کے ان حصوں میں تحریک کا مشاہدہ کیا جن کا تعلق قوت اور شادمانی سے ہے۔عورتوں کے دماغوں کے جو عکس لیے گئے ان میں جذباتی ردِعمل دیکھنے میں آیا جبکہ مردوں کے دماغوں کے جو عکس لئے گئے ان میں جو ردعمل دیکھا گیا اس کا تعلق جنسی جبلت سے تھا۔ماہرین نے دماغوں کے عکس حاصل کرنے کے لیے فنکشنل میگنیٹک ریزوننس ایمیجنگ (ایف ایم آر آئی) جیسی جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ اس مشین سے تقریباً ستر خواتین اور مردوں کے دماغ کے عکس لیے گئے۔عکس حاصل کرنے کے عمل کے دوران ان خواتین اور مردوں کو ان لوگوں کی تصاویر دکھائی گئیں جن سے یا تو یہ محبت کرتے تھے یا جن کو یہ پسند کرتے تھے۔اس دوران ان لوگوں سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ ان تصاویر سے پیدا ہونے والے جذباتی رد عمل کو ظاہر نہ کریں۔ماہرین نے کیمائی مادے ‘ڈپامین’ کا بھی پتا لگایا جو انسانی دماغ میں اطمینان اور مسرت کی کیفیت پیدا کرتاہے۔ماہرین نے دماغ کے دوسرے حصوں میں بھی عمل کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ انسان جسقدر جذباتی یا رومینٹک ہوتا ہے دماغ کے متعلقہ حصوں میں تحریک اْسی قدر بڑھ جاتی ہے۔ تاہم یہ عمل عورتوں اور مردوں کے دماغوں میں بااعتبارِ جنس مختلف ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ہیلن فشر جو کہ امریکی ریاست نیو جرسی کی رٹگرز یونیورسٹی میں تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں اس تحقیق کی سربراہی کر رہے تھے۔ ڈاکٹر ہیلن فشر نے کہا ہے کہ جذبات کا تعلق دماغ کے بنیادی حصوں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ دماغ ہی اشتہا کی کیفیت پیدا کرتا ہے جو انسانی کو اپنے مخالف سے جسمانی تعلقات استوار کرنے پر اکساتی ہے۔ماہرین انسانی دماغ پر مزید تحقیق کررہے ہیں اور اب وہ اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اْن لوگوں کے دماغوں میں کیا تبدیلی رونما ہوتی ہے کہ جن کو اْن کے ساتھی چھوڑ دیتے ہیں یا جن کو محبت میں ناکامی ہوتی ہے۔
انسانی دماغ بینک میں رکھے جائیں گے
چینی باشندوں کے دماغ کے سائنسی مطالعے کے لیے انسانی دماغوں کا ایک بینک قائم کیا جارہا ہے۔ہانگ کانگ اور چین کے محقیقین نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ چینی عوام کو اس بات پر قائل کرسکیں گے کہ وہ چینی باشندوں کے دماغ کے بارے میں مطالعے اور تحقیقی کے لیے اپنے دماغ اس بینک کو عطیہ کردیں۔مغرب میں قائم انسانی دماغ کے بینکوں میں چینی عوام کے دماغوں پر تحقیق کے لیے خاطر خواہ دماغ موجود نہیں ہیں۔
ہانگ کانگ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ مختلف نسلوں کے درمیان موجود تفریق کو سمجھنے کے لیے سائنسدانوں کے مددگار و معاون ثابت ہوگا اور مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے بھی مدد دے گا۔تاہم چینیوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ موت کے بعد آخری رسومات انسانی جسم کی ثابت و سالم حالت میں ہی ادا کی جائیں۔چینیوں کی اکثریت کا یہی خیال اس نئے منصوبے کے لیے مشکل ثابت ہوگا۔ایک بیان میں ہانگ کانگ یونیورسٹی نے کہا ‘انسانی دماغوں کے مغربی بینکوں میں چینی عوام کے دماغوں پر تحقیق کے لیے خاطر خواہ دماغ موجود نہیں ہیں۔ ایسے میں جبکہ مغرب میں انسانی دماغوں پر کی جانے والی تحقیق بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، ہمیں چینی دماغوں پر تحقیق کرنے کے لیے چینی باشندوں کے دماغوں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔’دماغ کو انسانی جسم کا آخری مورچہ قرار دیا جاتا ہے۔ انسانی سوچ اور جذبات کی بعض پیچیدگیاں اور مرکزی اعصابی نظام کو نقصان پہنچانے والے بعض بیماریاں اب تک مکمل طور نہیں سمجھی جاسکی ہیں۔امریکہ و یورپ میں اس بارے میں کی جانے والی تحقیق پر کثیر سرمایہ اور وقت صرف کیا جارہا ہے اور انسانی دماغ پر تحقیق کے لیے دماغ کے کئی بینک بھی قائم کیے جاچکے ہیں۔لیکن اب ہانگ کانگ اور چین کے حنان صوبے میں قائم کیا جانے والا یہ بینک اس لحاظ سے قدرے مختلف ہوگا کہ یہ چینی دماغوں کا ایک ذخیرہ جمع کرنے کی ایک کوشش ہوگا۔اس بینک میں اپنے دماغ عطیہ کرنے والوں کی مکمل طبّی معلومات اور نفسیاتی خاکے بھی ذخیرہ کیے جائیں گے۔ان میں سے بعض نفسیاتی اور بعض ذہن پیمائی کے مختلف تجربات سے بھی گزارے جائیں گے۔ اس طرح کی معلومات تو اب تک مغربی مالک میں قائم انسانی دماغ کے بینکوں میں بھی حاصل نہیں کی جاسکی ہیں۔انسانی دماغ کا یہ مجوزہ بینک صوبہ حنان کے ڑیانگیا میڈیکل اسکول اور فیکلٹی آف میڈیسن یونیورسٹی آف ہانگ کانگ میں قائم کیا جائے گا۔