گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت سے مراد کرہ ارض کی سطح پر تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے ۔ ماحولیاتی مطالعات کی روشنی میں برابر یہ بات سامنے آرہی ہے کہ زمین پر درجہ حرارت لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق پچھلی صدی میں زمین کا درجہ حرارت 0.75 ڈگری سنٹی گریڈ تک بڑھ گیا ہے ۔ انٹرنیشنل پینل آن کلائمیٹ چینج international panel on climate change کی جائزہ رپورٹ میں جو کہ اس سال کے شروع میں جاری ہوئی ہے ، بتایا گیا ہے کہ آنے والے وقت میں زمین کا اوسط درجہ حرارت 2.0 ڈگری سنٹی گریڈ سے لے کر 4.5 ڈگری سنٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے ۔ ایک اور اندازے کے مطابق یہ اضافہ 6 ڈگری سنٹی گریڈ تک بھی ہو سکتا ہے ۔ اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث دنیا بھر میں جنگلات کے جلنے ، سیلاب اور خشک سالی کا امکان بڑھ گیا ہے ۔ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق inter governmental panel کی ایک رپورٹ اس سال اپریل میں جاری ہوئی ہے جس میں آب و ہوا میں تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی حدت کے نتیجے میں 2020 تک افریقہ میں 75 سے 250 ملین لوگ پانی کی قلت کا شکار ہو جائیں گے جبکہ کچھ افریقی ملکوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے زراعت کو زبردست نقصان ہو گا اور اس میں 50 فیصد تک کمی آجائے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افریقی ممالک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور دنیا کی غریب آبادی اس مصیبت کا سب سے زیادہ شکار ہو گی۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشئروں کی برف پگھل رہی ہے جس کے نتیجے میں سیلاب آرہے ہیں اور آنے والے وقت میں اس کیفیت میں اور اضافے کا اندیشہ ہے ۔ خشک علاقوں میں زمینیں بنجر ہونے اور پھٹنے کا امکان ہے جس کی وجہ سے قحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گلیشئروں کی برف پگھلنے سے ایک طبیعاتی اور کیمیائی نقصان یہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ سورج سے آنے والی الٹرا وائلٹ کرنوں کا انعکاس reflection گھٹ رہا ہے یا مستقبل میں گھٹے گا۔ اس کی وجہ سے زمین کی سطح پر زہریلی گیسوں کا لیول بڑھے گا اور اوزون کی سطح بھی مزید متاثر ہو گی۔ واضح رہے کہ زمین کی فضائی سطح کے اوپر قدرتی گیسوں ozone کی ایک پرت موجود رہتی ہے جو زمین پر سورج سے آنے والی حدت کو کم کرتی ہے اور سورج کی روشنی سے پھوٹنے والی نقصان دہ شعاؤں کو زمین پر پہنچنے سے روکتی ہے ۔ اوزون کی یہ پرت فضا میں خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کی وجہ سے پچھلے کچھ عرصے میں کافی متاثر ہوئی ہے اور اس میں کئی جگہ ‘‘سوراخ’’ نمودار ہو رہے ہیں۔
آب و ہوا میں اس تبدیلی کے جو مطالعات ابھی تک کیے گئے ہیں اس میں اس تبدیلی کے بہت سے اسباب کی نشاندہی ہوئی ہے جن میں ایک سبب قدرتی اور تاریخی عمل ہے ۔ اس کے مطابق زمین پر موسموں کی تبدیلی کا یہ سلسلہ ہزاروں برس سے چل رہا ہے اور اس وقت محسوس کی جانے والی حدت کا دور ایک ہزار سال پہلے بھی زمین پر گزر چکا ہے۔ گزشہ سال بھی سائنس دانوں کی ایک تحقیق سے یہ بات اجاگر ہوئی تھی کہ 890 سے لے کر 1170 تک شمالی نصف کرہ ارض پر کافی زیادہ گرمی تھی جبکہ 1580 سے 1750 تک کا زمانہ کافی سرد تھا ۔ موسموں میں تبدیلی کے اسباب کا یہ نظریہ کافی قدیم ہے اور پہلے اسے ہی بنیادی سبب مانا جاتا تھا لیکن پچھلے سو سالوں میں موسموں کی تبدیلی کا اہم سبب انسانی سرگرمیاں ہیں ۔ صنعتی انقلاب کے بعد فضا میں آلودگی بڑھنے کے جائزے بھی لیے گئے ہیں اور یہ پایا گیا ہے کہ فضائی آلودگی اور آب و ہوا میں تبدیلی کا ایک بڑا سبب معدنیاتی گیسوں ، تیل اور کوئلے وغیرہ کے جلنے سے پیدا ہونے والی گیسیں ہیں جن میں سب سے بڑا حصہ کاربن ڈائی آکسائڈ کا ہے ۔ اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن فار کلائمیٹ چینج frame work convention for claimate change کی تشکیل کے بعد سے یہ جائزہ لیا جاتا رہا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کا حصہ موسموں کے تغیر میں کتنا ہے۔ موسموں کے تغیر کو ایک وسیع اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس میں عالمی حدت کے ساتھ عالمی خنکی global cooling بھی شامل ہے۔ چونکہ موسم کے تغیرات میں فی الحال وارمنگ محسوس کی جا رہی ہے اس لیے عالمی خنکی کا زیادہ ذکر نہیں ہوتا ہے ۔ UNFCCC کے تحت ہونے والی تحقیقات اور جائزوں کے بعد یہ مان لیا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی حدت کو کم کرنے کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔ یہ گیسیں چونکہ زیادہ تر صنعتی ملکوں سے خارج ہوتی رہی ہیں اس لیے یہ ذمہ داری صنعتی ملکوں پر ڈالی گئی ہے کہ وہ گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے اہداف قبول کریں اور اسے پورا کریں لیکن یہ معاملہ صنعتی ترقی اور قومی روزگار سے براہ راست جڑا ہوا ہے کیونکہ گیسوں میں کمی لانے کے لیے ایندھن کے استعمال اور توانائی کی پیداوار میں کمی لانی ہو گی۔ اس لیے یہ مسئلہ ترقی پذیر ملکوں اور ترقی یافتہ ملکوں کے درمیان سیاسی کشمکش کی وجہ بن گیا ہے ۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ توانائی کے ایسے متبادل ذرائع تلاش کیے جائیں جن سے گرین ہاؤس گیس نہ پیدا ہوں یا ان کی شرح بہت کم ہو ۔ چنانچہ ‘‘کلین ٹیکنالوجی’’’ کا تصور سامنے آیا ہے اور ترقی یافتہ ملک اس ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ترقی پذیر ممالک چاہتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی انہیں بھی فراہم کی جائے ۔
UNFCCC کے تحت آلودگی کو کم کرنے کی مشترکہ کوشش کے طور پر clean development mechanism بھی وضع کیا گیا ہے ۔