سورج سے 18 ارب گنا بڑا بلیک ہول
بلیک ہول کا زمین سے فاصلہ قریباً ساڑھے تین ارب نوری سال ہے ماہرینِ فلکیات نے کائنات میں پائے جانے والے سب سے بڑے ‘بلیک ہول’ کی کمیت(Mass) معلوم کر لی ہے۔فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے مطابق یہ عظیم الجثہ بلیک ہول جسامت میں سورج سے اٹھارہ ارب گنا بڑا ہے۔
OJ287 نامی اس بلیک ہول کے گرد دیگر چھوٹے بلیک ہول گردش کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کی کمیت بالکل صحیح طور پر معلوم کی جا سکی ہے۔ اس دریافت کی تفصیلات امریکی ریاست ٹیکساس میں ہونے والی امریکی فلکیات سوسائٹی کے اجلاس میں پیش کی گئیں۔سائنسدانوں کے مطابق یہ بلیک ہول ایک ستارہ نما اجرام(quasar) کو قوت مہیا کرتا ہے۔یہ بلیک ہول اس ستارہ نما اجرام کے قریب سرطان کی کہکشاں میں واقع ہے اور اس کا زمین سے فاصلہ قریباً ساڑھے تین ارب نوری سال ہے۔
کھربوں میل لمبی دم والا ستارہ
امریکی خلائی ادارے ناسا کے سائنسدانوں نے ایک ایسا ستارہ دریافت کرنے کا دعوی کیا ہے جو کہ خلا میں انتہائی تیز رفتاری سے سفر کر رہا تھا اور جس کی دم کھربوں میل لمبی ہے۔اس ستارے اور اس کے پیچھے دم کی لمبائی تیرہ نوری سال کے قریب ہے اور اسے ناسا کی دریافت گلیکسی ایولوشن ایکسپلولر خلائی ٹیلی سکوپ کے ذریعے ممکن ہو سکی ہے۔خلائی سائنسدانوں کا خیال ہے اس ستارے جسے ‘میرا ’کا نام دیا گیا ہے انہیں یہ پتا لگانے میں مدد دے گا کہ کس طرح ستارے اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔خلائی رسدگاہ کارنیگی کے سائنسدان مارک سیبرت کا کہنا ہے کہ یہ بالکل نئی چیز ہے اور انہیں اس کی فزکس کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔یہ زمین سے ساڑھے تین سو سال کی دوری پر ستاروں کے جھرمٹ میں ہے ۔اربوں سال قبل ‘میرا’ بھی ہمارے سورج کی طرح تھا لیکن اب جب یہ اپنے اختتام کے قریب ہے اس کا سائز بہت بڑا ہو گیا ہے اور ایسا ستارہ بن گیا ہے جسے ‘ریڈ جائنٹ’ کہا جاتا ہے۔یہ ستارہ خلا میں ایک سو تیس کلو میٹر یا اسی میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے اور اپنے پیچھے بہت ملبہ چھوڑ رہا ہے۔لیکن کئی صدیوں کے مشاہدے کے باوجود اس کی لمبی دم سائنسدانوں کی نظروں سے اوجھل رہی ۔گلیکسی سپیس ٹیلی سکوپ کے ذریعے حاصل کیے گئے الٹرا وائلٹ تصاویر سے ‘میرا’ کی ان غیر معمولی خصوصیات کا علم ہوا ہے۔
دیوہیکل بادل کا کہکشاں سے ٹکراؤ
سائنسدانوں کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ ہائیڈروجن گیس کا ایک دیوہیکل بادل ہماری کہکشاں کی جانب بڑھ رہا ہے جس سے ایک تصادم کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔‘سمتھ’ نامی اس بادل کے بیس سے چالیس ملین سال کے عرصے میں ہماری کہکشاں سے ٹکرانے کے عمل کے دوران اس میں سے آگ کے غیرمعمولی گولے خارج ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بادل میں اس قدر ہائیڈروجن موجود ہے جو سورج جیسے ایک ملین ستاروں کی تشکیل کے لیے کافی ہے جبکہ ہماری کہکشاں سے نکلنے والی گیس پہلے ہی اس بادل کے سامنے والے حصے سے ٹکرا رہی ہے۔ بادل کے ٹکرانے کا عمل کہکشاں میں ایک نئے ستارے کے جنم کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس میں فلکیات سے متعلق سوسائٹی کے 211ویں اجلاس کے دوران یو ایس نیشنل ریڈیو ایسٹرونومی اوبزرویٹری اور وسکونسن وائٹ واٹر یونیورسٹی کے سائنسدانوں پر مشتمل ٹیم کے اس تحقیقی کام کی تفصیلات پیش کی گئیں سائنسدانوں کی اس ٹیم کے حالیہ اندازوں کے مطابق سمتھ نامی بادل ہماری کہکشاں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ٹیم نے مغربی ورجینیا میں نصب گرین بینک ٹی سکوپ کی مدد سے اس عمل کا مشاہدہ بڑی باریک بینی سے کیا۔ حالیہ اندازوں سے پتا چلا ہے کہ یہ بادل گیارہ ہزار نوری سال کے برابر لمبا اور پچیس سو نوری سال کے برابر چوڑا ہے۔ یہ دیو ہیکل کہرے نما غبار دو سو چالیس کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ہماری کہکشاں کی طرف بڑھ رہا ہے اور کہکشاں سے پینتالیس ڈگری کے زاویے سے ٹکرائے گا۔ تحقیقاتی ٹیم کے ایک اہم رکن ڈاکٹر فیلکس لوک مین نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ سمتھ نامی بادل زمین سے تقریباً چالیس ہزار نوری سال کی مسافت پر ہے اگر اس بادل کو کھلی آنکھ سے دیکھا جا سکتا تو یہ دیکھنے میں بڑا دلفریب لگتا۔
ماہرین فلکیات نے سمتھ نامی اس بادل کی بڑی تفصیلی تصاویر اتاری ہیں۔ان کے مطابق ٹکراؤ کاعمل کسی بم دھماکے کے جیسا ہوگا تاہم اس ٹکراؤ کے نتیجے میں ہونے والے دھماکے سے بڑی مقدار میں کسی نئی گیس کی تشکیل بھی ہو سکتی ہے جسکی خصوصیات پہلے سے موجود گیس سے مختلف ہوں۔ اس بادل کا نام امریکی ماہر فلکیات گیل سمتھ کے نام پر رکھا گیا ہے جنہوں نے 1963 میں اس کی موجودگی کا پتا لگایا تھا تاہم سائنسدان اب تک یہ پتا لگانے سے قاصر تھے کہ یہ آیا بادل کہکشاں سے باہر نکل رہا تھا یا اس میں داخل ہو رہا تھا۔
زمین کے قریب نیا ستارہ دریافت
نیوٹرون ستارے بڑے ستاروں کے ایندھن کے اخراج سے وجود میں آتے ہیں۔ماہرین فلکیات نے زمین کے قریب غیر معمولی خواص رکھنے والے ایک پراسرار ستارے کی موجودگی کا پتا لگایا ہے۔یہ ستارہ جس کو ‘نیوٹرون سٹار’ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کا مشاہدہ خلائی دوربینوں اور زمین پر واقع مشاہدہ گاہوں سے کیا گیا۔تاہم یہ ستارہ جو ستاروں کے جھرمٹ ‘ارسا مائنر’ میں واقع ہے اس میں دوسرے نیوٹرونی ستاروں کی نسبت بعض اہم خصوصیات کی کمی نظر آتی ہے۔محققین کا اندازہ ہے کہ زمین سے اس ستارے کا فاصلہ دو سو پچاس سے ایک ہزار نوری سال کے برابر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ستارہ اب تک دریافت ہونے والے نیوٹرون ستاروں میں زمین کے سب سے قریب واقع ہے اور امکان ہے کہ یہی سب سے قریب ہے۔
زحل کے چاند پر تیل کا سمندر
زحل کے چاند کی ہموار سطح پر بڑے بڑے پتھر نظر آ رہے ہیں۔یورپی خلائی جہاز ہوئینگز سے موصول ہونے والی تصویروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں تیل کا ایک سمندر نظر آ رہا ہے۔ہوئیگنز سے بھیجی گئی بلیک اینڈ وائٹ تصویر سے ایسے لگتا ہے کہ جیسے شہر کی گندگی کو کسی میدان میں چھوڑا دیا گیا ہو۔ایک دوسری تصویر کے مطابق ہموار سطح نظر آ رہی ہے جہاں ہر طرف بڑے بڑے بڑے پتھر نظر آرہے ہیں۔سائنسدانوں کے مطابق ہوئیگنز نے جب چاند کی طرف سفر شروع کیا تو اس دوران تین سو تصویریں بھیجی ہیں۔تصویروں کی تشریح کرتے ہوئے ایک سائنسدان نے بتایا ہے کہ اگر یہ سمندر نہیں ہے تو پھر یہ تارکول کی ایک جھیل ہے۔ ان تصویروں کو ابھی مزید صاف کیا جانا ہے جس سے سائنسدانوں کو تصویروں کی مزید تشریح کرنے میں مدد ملے گی۔ہوئیگنز نے ٹائٹن کی سطح پر اترنے سے دو گھنٹے پہلے اس وقت سگنلز بھیجنے شروع کردیئے تھے جب وہ ٹائٹن کی فضا میں داخل ہوا تھا۔زحل کے چاند کی پراسرار دنیا کی تحقیقات شاید یہ واضح کرسکیں گی کہ کرہ ارض پر زندگی کس طرح وجود میں آئی تھی۔زحل کا چاند نارنجی رنگ کے غبار میں لپٹا ہوا ہے جس سے اس کی سطح کی خصوصیات جاننا مشکل ہے۔ہوئیگنز کی بھیجی جانے والی معلومات سے ٹائٹن کی آب و ہوا اور کیمیاوی ساخت کے بارے میں تفصیلات سامنے آسکیں گی۔ٹائٹن پر نائٹروجن، میتھین اور دیگر کیمیائی مواد پائے جانے کی بنیاد پر سائنسدان یہ قیاس کرتے ہیں کہ تقریباً ساڑھے چھ ارب سال پہلے ٹائیٹان کا ماحول زمین کے ماحول سے مشابہت رکھتا تھا۔
کائنات کا سب سے کم عمر سیارہ
فلکیات کے ماہرین کو ایک ایسے سیارے کا پتہ چلا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ شاید کائنات کا سب سے کم عمر سیارہ ہو سکتا ہے۔ناسا کی دوربین سے نظر آنے والا یہ سیارہ جس کا نام کوکوٹا فور رکھا گیا ہے، متعدد ستاروں کے اس جھرمٹ میں نظر آیا جہاں پانچ نسبتاً بڑے ستارے تھے اور جسے ثور کہہ کہ پکارا جاتا ہے۔ اس سیارے کا زمین سے فاصلہ چار سو بیس نوری سال ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ ان پانچ ستاروں میں سے ہر ایک کے گِرد ڈسکس تھیں جن پر گرد و غبار کا گمان ہوتا تھا۔ غالب امکان یہی ہے کہ ان ڈسکس میں نئے سیارے ہیں۔ناسا نے اجرامِ فلکی کے مشاہدے اور ان کی تلاش کا منصوبہ گزشتہ برس اگست میں شروع کیا تھا جس کی لاگت دو ارب ڈالر تھی اور تازہ ترین دریافت سے ادارہ بہت خوش ہے۔دوربین سپٹزر کو ایسے برفانی مواد کا علم بھی ہوا ہے جو اس زون میں بکھرا ہوا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں سیارے تخلیق ہوتے ہیں۔اس مواد سے جو گرد کے برفانی ذرات پر مشتمل ہے اور جس پر مینتھول اور کاربن ڈائی اوکسائڈ کی کوٹنگ ہے، خلا میں موجود برفانی اجسام کی اصل کا پتہ چل سکتا ہے۔کوکوٹا فور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو بنے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا یعنی محض دس لاکھ سال، لہذٰا یہ سیارہ غالباً سب سے کم عمر ہوگا۔خیال ہے کہ یہ سیارہ اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کے بارے میں معلومات ملنے سے ماہرینِ فلکیات کو دیگر کواکب کو سمجھنے میں مدد ملے گی جن میں زمین بھی شامل ہے۔
نظامِ شمسی سے باہر سب سے بڑا سیارہ
ماہرینِ فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے اب تک سب سے بڑے سیارے کو دریافت کر لیا ہے جو ایک اور سیارے کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ایک اور سیارے کے مدار میں گردش کرنے والا یہ سیارہ مشتری سے ستر فیصد بڑا ہے۔لیکن دریافت ہونے والے نئے سیارے کی کثافت نظامِ شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری سے بہت کم ہے جو اسے انتہائی کم کثافت والا سیارہ بنا دیتا ہے۔اس نئی تحقیق کی تفصیلات آسٹروفزیکل جرنل میں شائع کی جائیں گی۔اس سیارے کا درجہ حرارت 1327 سینٹی گریڈ ہے۔ چونکہ اس سیارے کے اوپر کی فضا میں نسبتاً کم کشش پائی جاتی ہے اس لیے غالباً اس کا کچھ حصہ شہابِ ثاقب کی دم کی طرح خمیدہ ہے۔لوول آبزرویٹری سے تعلق رکھنے والے تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ جارجی مینڈوشیو کا کہنا ہے کہ ٹریس فور نظام شمسی سے باہر سب سے بڑا سیارہ ہے۔یہ سیارہ اتنا بڑا ہے کہ موجود سیاروں کو ماپنے کے لیے استعمال ہونے والے پیمانوں کے مدد سے اس کے سائز کی وضاحت کرنا بہت مشکل ہے۔
نظامِ شمسی: ‘نو کی جگہ بارہ سیارے’
اگر جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں‘انٹرنیشنل آسٹرونومیکل یونین’ کے اجلاس میں شریک ماہرینِ فلکیات نظام شمسی کی نئی شکل پر متفق ہو گئے تو نظام شمسی میں شامل سیاروں کی تعداد نو سے بڑھ کر بارہ ہو سکتی ہے۔ اگر نظام شمسی کی اس نئی شکل پر اتفاقِ رائے ہوا تو دنیا بھر کا سائنسی نصاب بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔ نظام شمسی کی نئی شکل کے مطابق اب اس نظام میں عطارد، زہرہ، زمین، مریخ، مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون کو کلاسیکی سیاروں کا درجہ ملے گا جبکہ پلوٹو کو ایک نئی درجہ بندی‘پلوٹونز’ میں رکھا جائے گا جس میں اس کے علاوہ دو دیگر سیارے چیرون اور یو بی 313 شامل ہوں گے۔ چیرون کو اب تک پلوٹو کا چاند تصور کیا جاتا رہا ہے تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک جڑواں سیارہ ہے۔ نظام شمسی کا بارہواں رکن سب سے بڑا شہابِ ثاقب سیرس ہوگا۔ نظامِ شمسی کی یہ نئی شکل‘انٹرنیشنل آسٹرونومیکل یونین’ کے اجلاس میں شریک 2500 ماہرین نے تشکیل دی ہے تاکہ اس بات کا فیصلہ کیا جا سکے کہ سیارے کی اصل تعریف کیا ہے۔ یہ ماہرین اس منصوبے پر جمعرات کو ووٹنگ میں شریک ہوں گے۔ ماہرین نے اس اجلاس میں سیارے کی تعریف بھی وضع کی ہے جس میں شناخت کی بنیاد کششِ ثقل کو بنایا گیا ہے۔ اس تعریف کے مطابق اجرامِ فلکی میں سے کسی بھی چیز کو اس وقت تک سیارہ نہیں مانا جا سکتا جب تک وہ چیز ایک ستارے کے گرد مدار میں حرکت نہ کرے اور وہ خود ستارہ بھی نہ ہو۔ اس کے علاوہ اس چیز میں اتنی کشش ِ ثقل ہونی چاہیئے کہ وہ از خود ایک گول شکل اختیار کر سکے۔
برفانی چیتے کے پٹے کی تلاش
دنیا سے برفانی چیتے کی نسل ختم ہوجانے کا خطرہ ہے ۔پاکستان کے پہاڑی اور برف سے ڈھکے ‘توشی گیم ریزرو’ میں کہیں ایک کالر یعنی گلے کا پٹہ ہے جس میں ایک برفانی چیتے یا سنو لیپرڈ کے راز موجود ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا حامل یہ کالر پچھلے ایک سال سے برفانی چیتے کے گلے میں تھا۔ گلوبل پوزیشننگ سسٹم یا جی پی ایس سے لیس یہ کالر اس برفانی چیتے کی پاکستان اور افغانستان میں ایک ایک حرکت کو ریکارڈ کر رہا تھا۔ پروگرام کے عین مطابق اب یہ کالر اس چیتے کے گلے سے گر گیا ہے اور اب اس کالر کو تلاش کیا جا رہا ہے تاکہ اس میں چھْپی معلومات کا پتا چلایا جا سکے۔
سنو لیپرڈ ٹرسٹ کے ڈائریکٹر ٹام مک کارتھی کے لیے کالر کا ملنا انتہائی اہم ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کچھ فنی مشکلات کی وجہ سے چیتے کی حرکات و سکنات کی مکمل معلومات صرف اس کالر ہی میں محفوظ ہیں۔ نومبر دو ہزار چھ میں ٹام اور ان کی ٹیم نے پاکستان میں چترال گول نیشنل پارک میں پینتیس کلوگرام وزنی ایک مادہ چیتا پکڑا تھا۔ اس کا نام ‘بیادِ کوہسار’ رکھا گیا۔ ٹیم کا منصوبہ تھا کہ بیادِ کوہسار کے گلے میں ڈالے گئے کالر سے ہر دو ہفتے بعد اس کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات سیٹیلائٹ کے ذریعے ان تک پہنچے گی۔
لیکن وسطی ایشیا میں فنی خرابی کی وجہ سے یہ معلومات اْن تک نہیں پہنچ سکیں اور کالر ہی میں محفوظ رہیں۔کالر میں پانچ سو سے ایک ہزار جی پی ایس مقامات کے بارے میں معلومات محفوظ ہیں جن کے ملنے سے اس جانور کے پہاڑوں اور دشوار گزار درّوں میں سفر کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی۔تاہم ٹیم کو سیٹیلائٹ کے ذریعے کچھ معلومات موصول ہوئیں۔ مئی دو ہزار سات میں انہیں معلوم ہوا کہ بیاد پاکستان سے افغانستان چلی گئی ہے اور پھر جولائی میں وہ افغانستان ہی میں دوسری جگہ میں ہے۔ ڈاکٹر ٹام نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت ان کو چھوٹی موٹی معلومات موصول ہو رہی ہیں لیکن پوری معلومات ملنے پر انتہائی اہم انکشافات ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ کالر میں پانچ سو سے ایک ہزار جی پی ایس مقامات کے بارے میں معلومات محفوظ ہیں جن کے ملنے سے اس جانور کے پہاڑوں اور دشوار گزار درّوں میں سفر کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی۔ کہا جاتا ہے کہ برفانی چیتوں کے بارے میں تحقیقات بہت مشکل ہیں۔ ٹام نے بتایا کہ اس کالر کی مدد سے چیتے کی حرکت کے بارے میں تو معلوم نہیں ہو گا لیکن یہ ضرور معلوم ہو جائے گا کہ آٹھ گھنٹے یا ایک ماہ میں کتنا فاصلہ طے کیا گیا اور سب سے زیادہ فاصلہ کب اور کتنا طے کیا۔ حالیہ معلومات کے مطابق بیاد واپس پاکستان میں آ گئی ہے اور کالر بھی وہیں گرا ہے۔ انہیں یہ تک معلوم ہے کہ کس دن بیاد کہاں ہو گی۔
ڈاکٹر ٹام کے مطابق عجب نہیں کہ بیاد واپس اْسی جگہ آ گئی ہے کیونکہ بی بی سی نے متواتر تین سال اسی مقام پر اس کی فلم بندی کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کو یہاں تک معلوم ہے کہ بیاد کس دن کہاں ہو گی۔ پاکستان میں سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد فسادات کی وجہ سے ڈاکٹر ٹام کو پاکستان جاننے سے منع کیا گیا ہے اس لیے مقامی لوگ اس کالر کو تلاش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سنو لیپرڈ ٹرسٹ کے لیے اس کے ایک سائنسدان ایرک یارک کی اچانک موت نے بھی مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔ ایرک یارک اْن سائینسدانوں میں سے تھے جنہوں نے بیاد کو کالر پہنایا تھا۔ ٹیم کے ارکان کو پوری امید ہے کہ انہیں کالر مل جائے گا اور اس میں محفوظ معلومات سے وہ چیتے کی اس مخدوش نسل کے بارے میں مزید جان سکیں گے۔
(بحوالہ بی بی سی ڈاٹ کام)