درس حدیث
توبہ کی حقیقت
مولانا عبدا لقدیر
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ ترجمہ گناہ سے توبہ کرنے والا مثل اس شخص کے ہے جس پر گناہ نہ ہو ( ابن ماجہ)
توبہ کی لفظی معنیٰ رجوع کرنا ہے۔ انسان عالم ارواح میں خدا سے ایک وعدہ کرکے آیا ہے کہ تو میرا رب ہے۔ جب خدا نے پوچھا اَلَستْ بِرَبکْم،کیا میں تمہارا رب ہوں ؟ انسان نے’’ بلیٰ ‘‘ بکیوں نہیں ۔بے شک آپ میرے رب ہیں ۔
اس کے بعد ایک امانت (احکام شرعیہ) انسان کے حوالے کردی گئی اس کو بھی انسان نے اٹھالیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ و حملہا الانسان‘‘۔ انسان نے جب دنیا پر ظہور کیا اور اس کی نشوونما ہوئی تو اس نے اپنے وعدے کو بھلادیا، خواہشات میں غرق ہوگیا تب اللہ تعالیٰ نے انسان کو متنبہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا! یا ایہا الانسان ما غرک بربک الکریم (پارہ 30)۔ اے انسان کونسی چیز رب کے بھلانے کا سبب بنی۔ اگر انسان ایسا ہی رہا تو خسارے میں پڑجائیگا جیسے ارشاد ہے کہ والعصر ان الانسان لفی خسر (پارہ 30)۔ اب اگر خسارے سے محفوظ رہنا ہے اور اخروی نعمتوں کو حاصل کرنا ہے تو وہ عہد جو رب کریم سے انسان کرکے آیا ہے اس کو پورا کرنا ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اوفوا بعہدی اوف بعہدکم (پارہ1) اے لوگو مجھ سے جو وعدہ کرکے آئے ہو وہ پورا کرو تو میں بھی تم سے اپنا وعدہ پورا کروں گا، نعمتوں اور نوازشوں سے نواز دوں گا اور اپنے دیدار کی نعمت بھی عطا کروں گا۔ اور ان لوگوں کی خدا تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے جو لوگ امانت اور عہد کا پاس رکھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے والذین ہم لاماناتہم و عہدہم راعون (پارہ 18)۔ حاصل یہ ہے کہ انسان جب گناہ کرتا ہے تو خدا سے دور ہوجاتا ہے اور ایسے میدان میں پہنچ جاتا ہے جو خدا کا ناپسندیدہ ہے۔ اب جب توبہ کرتا ہے تو اس میدان سے لوٹتا ہے اور پسندیدہ مقام کی طرف دوڑتا ہے۔ تو عموما توبہ کے لفظ کا ورد تو زبان پر ہوتا ہے لیکن عام انسان کو توبہ کی حقیقت کا علم ہی نہیں ہوتا کہ توبہ کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اپنا ہاتھ کان اور ناک پر لگاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہماری توبہ ہوگئی حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
توبہ میں تین چیزیں ضروری ہیں ۔علم ، حال اور فعل
علم: علم سے یہ غرض ہے کہ اس بات کو انسان جانے کہ گناہوں کا نقصان بہت بڑا ہے خواہ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ گناہ کی مثال انگارے کی سی ہے ، اگر وہ چھوٹا ہوگا تب بھی جلائے گا اور بڑا ہوگا تب بھی جلائے گا۔ بعض بزرگان دین نے تو صغیرہ کبیرہ گناہوں کی تقسیم سے ہی انکار کردیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہے وہ خواہ نظر میں چھوٹی ہی کیوں نہ ہو رب ذوالجلال کی عظمت کی وجہ سے وہ بڑی ہے۔ بہرحال انسان اپنے ذہن میں، اپنے دل و دماغ میں یہ بات بٹھادے کہ گناہ خسارے کا سبب ہے اور گناہ محبوب رب العالمین اور انسان کے درمیان حجاب اور آڑ کا سبب ہے۔ یہ جاننا توبہ کا پہلا جز ہے۔ اب انسان یہ سمجھ لے کہ توبہ کی شروعات ہوئی ہے۔
حال: اب اس بات کو جاننے کے بعد محب کو بحیثیت عاشق محبوب کے ناراض ہونے اور محبوب کی دوری کا فکر لاحق ہوتا ہے اور وہ عمل جو محبوب رب العالمین کی دوری کا سبب بنا اس پر افسوس ہوتا ہے اور اپنے کیے ہوئے پر پچھتاوا ہوتا ہے اور پشیمانی ہوتی ہے۔ اس ندامت کو حال کہا جاتا ہے، یہ توبہ کا دوسرا جز ہے۔
فعل: اس پشیمانی اور پریشانی کے بعد انسان کو چاہیے وہ عہد کرے اور ماضی، حال و مستقبل اس عہد میں شامل کرے۔ ماضی اس طرح کہ جو گناہ کیا ہے اگر وہ قابل قضا ہے تو قضا کرے، اگر کسی طرح بھی تلافی معافی ہوسکتی ہے تو وہ تلافی کرے اور حال میں اپنی حالت کو درست کرلے، سر بسجود ہوکر رب تعالیٰ سے معافی مانگے، جتنا ہوسکے گڑگڑائے روئے اپنی آنکھوں سے آنسوبہائے۔ اگر ایسا کرے گا تو رحمت ایزدی اس بندے پر برسنا شروع ہوجائے گی۔ جس طرح رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ من تذکر خطایاء و بکیٰ عیناہ رضی منہ اللہ۔ ترجمہ جس شخص نے اپنی خطاؤں کو یاد کیا اور اپنے آنسووں کو بہایا تو اس شخص سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجاتا ہے۔ اور توبہ میں مستقبل بھی شامل کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ کے لیے یہ پختہ عزم کرے کہ یہ گناہ اور ہر ایسا فعل جو محبوب رب العالمین کے ناراض ہونے کا سبب ہے وہ چھوڑدوں گا، کبھی بھی اس کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ یہ عزم ہوگیا تو توبہ کا تیسرا جز حاصل ہوگیا اور یہی توبہ کی حقیقت اور تعریف ہے، باقی زبان سے صرف توبہ توبہ کا لفظ کہنا اور کان اور ناک پر ہاتھ لگانا اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جس طرح گنہگار کو چاہیے کہ توبہ کی طرف بہت جلد مبادرت کرے۔ ایسا نہ ہو کہ گناہوں کا زہر ایمان کے روح میں تاثیر کر جائے اور پھر طبیبوں کے ہاتھ سے اس کا علاج نکل جائے اور اس کے بعد نہ کوئی پرہیز اثر کرے نہ وعظ و نصیحت کام آئے اور تباہ کاروں میں لکھ دیا جائے اور اس آیت کریمہ کا مصداق بن جائے ’’و جعلنا من بین ایدیہم سدا و من خلفہم سدا فاغشینا ہم فہم لا یبصرون و سواء علیہم اء نذرتہم ام لم تنذرہم‘‘ (پارہ 22) ترجمہ ہم نے ان کے سامنے اور ان کے پیچھے دیوار بنادی پھر وہ ان کے اوپر حاوی ہوگئی اور وہ دیکھ نہیں سکتے، اور برابر ہے کہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں۔ تو جب انسان گناہ کرتا ہے تو قلب پر ایک سیاہ نقطہ آجاتا ہے۔ اس طرح گناہوں سے وہ نقطے بڑھتے جاتے ہیں، پھر قلوب سخت ہوجاتے ہیں جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے ’’فہی کالحجارہ او اشد قسوہ‘‘ قلوب پتھر کے مانند ہوجاتے ہیں یا اور بھی زنگ میں سیاہ ہوجاتے ہیں اور ایسے قلوب کو تالے بھی لگ جاتے ہیں جیسے ارشاد ایزدی ہے ’’ام علی قلوب اقفالہا‘‘ کیا ان کے قلوب پر تالے لگ گئے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ گناہ کرنے کے بعد قلب کو تالا لگ جائے اور رحمت خداوندی اس میں داخل نہ ہوسکے جیسا کہ آئینے پر زنگ آجانے کی وجہ سے زنگ اس کو بگاڑ دیتا ہے کہ پھر قابل مستعمل اور صیقل نہیں رہتا، اس میں صورت صحیح نظر نہیں آتی۔ تو انسان بھی اگر چاہتا ہے میرے دل میں باری تعالیٰ کی صورت نظر آئے تو اسے اپنا دل صاف رکھنا ہوگا، توبہ سے دل کا زنگ دور کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے کلا بل ران علیٰ قلوبہم ماکانوا یکسبون۔ ترجمہ: یہ اس لیے ہدایت نہیں لیتے کہ ان کے قلوب اپنے کیے ہوئے افعال کی وجہ سے سے زنگ آلود ہوگئے ہیں۔ لہٰذا توبہ میں تعجیل (جلدی) کرنا چاہیے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وسارعوا الیٰ مغفرہ من ربکم (پارہ4آل عمران) ترجمہ: اور جلدی کرو مغفرت کی طرف۔ اور مغفرت توبہ سے ہی ملتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: وانی لغفار لمن تاب۔ بیشک میں بخشنے والا ہوں اس شخص کے لیے جس نے توبہ کی۔
اس لیے توبہ میں جلدی کرنی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ تاخیر کرنے کی وجہ سے قیامت کے دن افسوس کرنا پڑے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے یٰحسرتی علی ما فرطت فی جنب اللہ (پارہ 24) افسوس میں نے اللہ کے حقوق میں کمی کوتاہی کی اور اس کی کوئی تلافی نہیں کی۔حدیث شریف میں ہے کہ مؤمن اپنے گناہ کو ایسا جانتا ہے کہ گویا ایک پہاڑ اوپر آگیا ہے اب سر پر گر پڑے گا، اور منافق اپنی خطا کو ایسا سمجھتا ہے جیسے ناک پر مکھی بیٹھی اور اس کو اڑادیا۔