وضع حمل میں دشواری کے مشا ہدا ت
سورۂ یسین شریف کو اس مو قعہ پر کئی بار آزمایا۔ چند سال قبل میری ایک عزیزہ وضع حمل کے لیے لیبر روم میں داخل ہوئی لیڈی ڈاکٹر نے بتایا کہ بچہ الٹا ہے اور تقریبا ً 12 گھنٹے میں فراغت ہو گی، ابھی کا فی دیر ہے۔ میں نے سورۂ یسیٰن شریف پڑھ کر بی بی کو پلا دی۔ تو آدھ گھنٹے میں بی بی فارغ ہو کر گھر چلی گئی۔ اس کے بعد لیڈی ڈاکٹر نے جب لیبر روم آنے کے لیے نر س کو فون کیاتو نر س نے بتا یا کہ وہ بی بی تو فا ر غ ہو کر گھر بھی چلی گئی اور کو ئی بھی دقت پیش نہیں آئی۔ یہ با ت سن کر لیڈی ڈاکٹر نے مجھے فو ن کیا کہ یہ کیسے ہو ا؟ میں نے اس کو سورۂ یسین شریف والی بات بتائی تو وہ محترمہ حیران رہ گئی۔ چند ماہ بعد اس طر ح میری ایک عزیزہ کا وضع حمل ہونا تھا۔ لیڈی ڈاکٹر نے 12 گھنٹے کا پروگرام بتا یا مگر با ری تعالیٰ نے سورۂ یسین شریف کی بر کت سے بخیریت ایک گھنٹہ کے اندر اندر فارغ کر دیا اور لیبر روم والے سارے حضرات حیرا ن رہ گئے۔ میں نے ان کو سورۂ یسین شریف کی برکات بتائیں تو وہ بہت حیران ہوئے۔ اصل بات دین سے دوری ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے کلا م کا یقین عطا فرمائے۔ آمین۔
مو لا نا محمد اسلم مر حوم نشتر کا لج ملتان کے خطیب رہے ہیں۔ ایک دن ان کی زیارت کے لیے گیا تو وہا ں ایک غریب آدمی بیٹھا رور ہا تھا اور مولانا مرحوم کو بتا رہا تھا کہ اس کی بیوی دو دن سے لیبر روم میں داخل ہے اس کا وضعِ حمل ہونا تھا ، بچہ ٹیڑھا ہونے کی وجہ سے بہت دیر ہوگئی ،اب ڈاکٹرو ں نے بڑا آپریشن تجویز کیا تھا علا ج پر کا فی رقم خر چ کر چکا تھا اور خون کی دو بوتلیں بھی فراہم کر نا تھیں۔ مولانا مر حوم نے تھوڑا سا پانی میرے سامنے منگوا یا سورۂ یسین پڑھی اور مریضہ کو پلانے کے لیے روانہ کر دیا۔ اللہ کی شان یہ پانی پلانے کے فوراً بعد وضعِ حمل ہو گیا اورآپریشن کے تمام پروگرام ختم ہو گئے۔
دو قبائل میں صلح
تقریباً 12 سال قبل بٹ گرام سے آ گے گجبوڑی کے علاقے میں ایک دفعہ دعوت والوں کے ساتھ جانا ہوا۔ ہمارے امیر محکمہ حیوانا ت کے ڈائریکٹر تھے۔ گجبوڑی ایک بہت بڑا پہاڑ ہے جس کی مختلف بلندیو ں پر پانچ شہر آبا دہیں اور ہر ایک کی علیحدہ مسجد ہے۔
جونہی ہم اس پہا ڑ کے قریب ہوئے تو سب سے پہلے پو لیس والو ں سے ملا قات ہوئی۔ پولیس والے ہمیں دیکھ کر خو ش ہوئے اور بتا یا کہ یہا ں ایک چشمہ پر جھگڑا چل رہا ہے پچھلے اٹھا رہ دن سے دو قبائل میں جنگ جاری ہے، بیس آدمی مر چکے ہیں ، لا کھو ں روپے کا اسلحہ ضائع ہو چکا ہے۔ یہ خبر ہما ر ے لیے پریشان کن تھی۔ ہم نیچے والی مسجد میں داخل ہوئے عصر کا وقت تھا، نما ز پڑھی اور اس کے بعد فائرنگ شروع ہو گئی اوراوپر پہاڑ والے نیچے والو ں پر گولیا ں برسا رہے تھے اورنیچے والے چھپ کر اوپر فائرنگ کر رہے تھے جنگ کا سماں تھا۔ تمام دعوت والے روزے سے تھے مغر ب کی اذان دی کوئی بھی مسجد میں نہ آیا۔ ہما رے کھا نے پینے کو کچھ نہ تھا۔ کھجور کے ایک دانے سے افطا ری کی ، پانی نہ مل سکا۔ تھو ڑی دیر کے بعد فائرنگ رک گئی بازار کھل گئے اور ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ دوسرے دن ایس پی ، اسسٹنٹ کمشنر وغیرہ وہا ں آگئے۔ ہما رے دوستوں سے ملے اور کہا کہ پٹھان ، دعوت والوں کی بات ما نتے ہیں آپ ان دونو ں قبائل میں صلح کرا دیں۔ دونو ں قبائل کے بزرگو ں کو پو لیس نے بلوایا۔ ہمارے امیر صاحب اور مجھے صلح کرانے کے لیے بلایا گیا ہم دونوں نے فریقین کی بات سنی پھر دونو ں کو صلح کی تر غیب دی اللہ کا وا سطہ دیا کئی گھنٹے تک ہم منتیں کر تے رہے ، مگر نا کام ر ہے۔ ایس پی اور اے سی صاحب نے آخر تنگ آکر ان کو دھمکیا ں دیں اور دونو ں قبائل نے ان کو بر ا بھلا کہا۔ معاملہ اور بگڑ گیا۔ ہم سب بہت پریشان تھے، نکلنے کا کوئی راستہ نہ مل رہا تھا۔ آخر مسجد میں وا پس آئے تو فائرنگ دوبا رہ شروع ہو گئی ہما رے سامنے ایک آدمی مرا پڑا تھا۔ عصر کا وقت ہو ا اور عصر گز رگئی اسی طرح مغر ب گزر گئی اور عشا ء کا وقت بھی گزر گیا کھانے پینے کو کچھ بھی نہ ملا کیو ں کہ با زار بند تھے پانی نہ ملتا تھا اس لیے آدھی را ت تک بھوک اور پیا س میں گزارہ کیا۔ افطاری کے لیے کچھ نہ ملا۔آخر اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہوئے۔ امیر صاحب نے سورۂ یسیٰن پڑھ کر دعاکرنے کی تر غیب دی، اکتالیس مرتبہ سورۂ یسیٰن شریف پڑھ کررورو کر ان دونوں قبائل کی صلح کے لیے دعا کی تمام ساتھی رو رہے تھے ، دعا ختم ہونے پر فائرنگ بھی ختم ہوگئی، مسجد نما زیو ں سے بھر گئی اور با زار کھل گئے۔ ہم نے مقامی ساتھیو ں سے پو چھا کہ کیا ہوا ؟تو انہو ں نے بتایا کہ ہم فائرنگ کر رہے تھے کہ یک دم خیا ل آیا کہ ہم کیا کر رہے ہیں اس میں کیا فا ئدہ ؟ یہ خیال دونو ں قبائل کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت ڈالا اور چند شرا ئط پر دونو ں قبائل میں صلح ہوگئی یہ سب کلا م اللہ کی برکت کا نتیجہ تھا۔
کھانا کم ہونے کا خوف اور سورۂ یسین کا اثر
ایک اور موقع پر گرمیو ں کے مو سم میں پہا ڑو ں پر دعوت والو ں کے ساتھ جاناہوا۔ صبح کے وقت ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی تک پیدل جا نا تھا۔ سفر لمبا تھا ہر ایک نے اپنا اپنا ساما ن سر پر اٹھا یا اور چلنا شروع کر دیا۔ کیونکہ رمضان کا مہینہ تھا اس لیے آٹا چاول وغیرہ نہ خریدے ، مشور ے میں یہ طے پایا کہ جہا ں جا رہے ہیں وہا ں سے خر ید لیں گے۔ دوپہر کے وقت نئی پہا ڑی پر پہنچے ، صرف پانچ مکان اور ایک مسجد تھی۔ کیو نکہ کھا نے پکا نے کا نظام میرے ذمہ تھا میں نے را شن چیک کیا تو ایک آدمی کے راشن سے بھی کم چا ول اور دال تھی۔ دکان کی تلا ش میں نکلے تومعلوم ہوا کہ یہا ں تو کوئی دکان نہیں راشن وغیرہ تو اسی پہا ڑی پر ملے گا جو ہم صبح کے وقت چھوڑ آئے تھے۔ ہما را رہبر ہمیں نئی پہا ڑی پر چھوڑ کر واپس چلا گیا اب وا پس جانا بھی نا ممکن تھا۔ عصر کے وقت چارآدمی اور آگئے اور انہو ں نے را ت ہما رے ساتھ ٹھہرنے کا ارا دہ ظا ہر کیا۔اب جماعت میں کل پندرہ آدمی تھے۔ جن کی افطاری اورسحری کا انتظام کرنا تھا۔میں بہت ہی پریشان بیٹھا تھا۔ امیر صاحب سے مشورہ کیا انہو ں نے میری پریشانی دیکھ کر کھا نا پکانے کا چا رج لے لیا اور مجھے اور میرے ایک ساتھی کو ساتھ والے جنگل میں جانے کو کہا۔وہاں سے ہمیں تھوڑے سے جنگلی شہتوت اور زیتو ن زمین پر پڑا ہو املا اٹھا کرلے آئے او رافطا ری اس سے کی۔اب امیر صاحب نے مجھ سے کہا کہ جو کچھ میں کر وں آپ دیکھتے رہیں پو چھیں نہیں کہ کیا کررہے ہواور جو کہو ں وہ کر و۔ امیر صاحب نے دو بڑے دیگچے پانی سے بھر کر چولہو ں پر چڑھا دئیے ایک میں ایک چھٹانک دال چنا اور دوسرے میں دو چھٹانک کے قریب چاول ڈال کر کچھ پڑھنا شروع کیا اور کھا نا تیا ر ہونا شروع ہو گیا۔ مغر ب کی نما ز کے بعد دستر خوان لگا یا گیا اور پندرہ ساتھیوں نے پیٹ بھر کر کھا نا کھایا۔ سحری کے و قت بھی امیر صاحب کچھ پڑھ رہے تھے۔ اور دونو ں دیگچے چولھو ں پر چڑھے ہوئے تھے چنانچہ سحری بھی پندرہ ساتھیوں نے پیٹ بھر کر کھائی فجر کی نماز اور دوسرے اعمال سے فا رغ ہو کر جب میں نے دیگچے کھو لے تو ان میں دال اور چا ول ابھی تک بچے ہوئے تھے۔ جب سب معمولا ت سے فا ر غ ہوگئے تو امیر صاحب نے بتایا کہ آپ کتا بو ں میں تو پڑھتے ہیں کہ جہا ں کھا نا کم ہونے کا ڈر ہو سورۂ یسین شریف پڑھو آج لو گو ں نے اس کا عملی نمونہ دیکھ لیا۔
٭٭٭