زبان وبیان
اخبار و صحافت کی لغزشیں
محسن فارانی
خبارات کی خبریں جو انگریزی سے ترجمہ ہو کر آتی ہیں، بعض اوقات مضحکہ خیز صورت پیدا کر دیتی ہیں۔ شام میں بم دھماکے میں 6 افراد کی ہلاکت کی خبر تھی مگر اخبار میں ایک ذیلی سرخی تھی: ’’دھماکہ حلب کے علاقے سالا حیدین میں ہوا۔‘‘عام قاری ’’سالا حیدین ‘‘ کو کیا سمجھے گا۔ یہ دراصل صلاح الدین (Salaheddin) ہے جسے مترجم نے بے خیالی میں ناقابل فہم بنا دیا۔ ظاہر ہے حلب کے اس علاقے کا نام عظیم فاتحِ اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام پر رکھا گیا ہے جو شام و مصر کے سلطان تھے اور لبنان، اردن ، فلسطین، حجاز اور یمن بھی ان کی عملداری میں شامل تھے۔ عراق کے ایک صوبے کا نام بھی صلاح الدین ہے جس کا دارالحکومت تکریت ہے ۔ سلطان صلاح الدین دریائے دجلہ کے کنارے آباد تکریت شہر کے ایک کرد گھرانے میں نجم الدین ایوب کے ہاں 1137ء میں پیدا ہوئے تھے اور 1187ء میں انھوں نے بیت المقدس صلیبیوں کے پنجے سے چھڑایا تھا اور پھر تیسری صلیبی جنگ (1189ء تا 1192ء) ناکام بنا دی تھی۔
جہان پاکستان (سنڈے میگزین4 تا 10 مارچ 2018ء) میں ڈاکٹر ساجد خاکوانی کے قلم سے ابن بطوطہ پر مضمون چھپا ہے۔ اس میں ابن بطوطہ کی جائے پیدائش کو ’’نانگیر‘‘ لکھا دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب نے’’ تانگیر‘‘ لکھا ہو گا جو کمپوزنگ میں بگڑ گیا لیکن یہ’’ تانگیر‘‘ بھی دراصل انگریزی کا تنجیر (Tangier)ہے۔ اس کا اصل عربی نام طنجہ ہے جس کا یورپی زبانوں میں تلفط مختلف ہے۔ طنجہ آبنائے جبل الطارق کے مغربی جانب ساحل مراکش پر واقع ہے۔ یہیں سے طارق بن زیاد کا لشکر آبنائے (Strait) پار کر کے جبل الطارق (جبرالٹر) کے ساحل پر جا اترا تھا۔
معروف مسلمان طبیب اور فلسفی ابن رشد پر انگریزی کتاب کا ترجمہ محمد احسن بٹ نے کیا تو مراکش شہر (اس دور میں دارالحکومت) کے ساتھ ملک کا نام’’ مراکو‘‘ لکھ دیا، حالانکہ مراکش ہی سے انگریزی میں بگڑ کر مراکو (Morocco) بنا ہے۔ ویسے ہم جس ملک کو مراکش کہتے ہیں، اس کا اصل عربی نام المغرب ہے اور ان دنوں اس کا دارالحکومت رباط ہے۔ یاد رہے مراکش کی سرکاری زبان عربی ہے۔
خاکوانی صاحب کے مضمون میں انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا کو ایک سے زیادہ بار ’’سمارٹا‘‘ لکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں ’’جب وہ (ابن بطوطہ) سر زمین ہند میں داخل ہو رہے تھے تو خود ان کے مطابق یہ 12 ستمبر 1333ء کی تاریخ تھی۔‘‘ ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے ’’رِحلہ‘‘ میں ہجری تاریخ لکھی ہو گی نہ کہ انگریزی تاریخ، کیونکہ اس زمانے میں عالم اسلام میں ہجری کیلنڈر رائج تھا اور انگریزی یعنی جولین کیلنڈرکو ادھر کوئی نہیں جانتا تھا۔ ویسے ہجری تاریخ کے مطابق قطعی انگریزی تاریخ نہیں لکھی جا سکتی کیونکہ 1582ء میں پاپائے روم گریگوری اعظم نے عیسوی یعنی جولین کیلنڈر کی تصحیح کرتے ہوئے ستمبر کے دس دن حذف کر دیے تھے اور طے پایا تھا کہ اس سال تین ستمبر کے اگلے دن چودہ ستمبر کی تاریخ ہو گی۔ برطانیہ میں گریگورین کیلنڈر کو 1752ء میں اختیار کیا گیا۔
خالد احمد مرحوم ایک بڑے قومی اخبار میں کالم لکھتے تھے۔ انھوں نے ایک کالم میں لکھا کہ’’ آزاد کشمیر میں بہنے والا دریا جو کشن گنگا ہے، یہی بھارت میں جا کر گنگا کہلاتا ہے جو بنگلہ دیش سے گزر کر خلیج بنگال میں جا گرتا ہے۔‘‘ ناموں کی مشابہت کے باعث ان سے یہ غلطی ہوئی۔ کشن گنگا دراصل ہمارا دریائے نیلم ہے جسے ہندو کشن گنگا کہتے ہیں اور یہ مظفر آباد کے پاس دریائے جہلم سے آ ملتا ہے جبکہ بھارت کا دریائے گنگا کوہستان ہمالیہ سے نکل کر الہٰ آباد کے مقام پر دریائے جمنا سے ملتا ہے اور پھر بنگلہ دیش میں دریائے برہم پتر کو ساتھ ملاتے ہوئے خلیج بنگال میں جا گرتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک دریائے جمونا بھی ہے جو دریائے برہم پتر کی ایک شاخ ہے۔
محترم رضا علی عابدی اپنے کالم ’’دوسرا رخ‘‘ میں چوک گئے اور یہ لکھا’’ملائیشیاجہاں کسی زمانے میں کالے پانی کے خطرناک مجرم بھیجے جاتے تھے جو وہیں مر کر گل سڑ جاتے تھے، اب وہی ملک امن کا گہوارہ ہے۔‘‘ کالا پانی تو برصغیر کی جغرافیائی اصطلاح میں جزائر انڈیمان کو کہا جاتا ہے جس کا ملائیشیاے کوئی تعلق نہیں اور وہ ملائیشیاکے شمال مغرب میں تقریباً ایک ہزار کلو میٹر دور خلیج بنگال میں واقع ہیں۔ 1857 ء کے مجاہد آزاد ی مولانا جعفر شاہ تھانیسری کو’’ حبس دوام بہ عبور دریائے شور‘‘ کی سزا سنا کر کالا پانی بھیجا گیا تھا اور وہ سزا کاٹ کر واپس آئے تو انھوں نے کالا پانی کے نام سے اپنی آپ بیتی لکھی تھی۔ بھارت کی نسبت جزائر انڈیمان میانمار (برما) کے زیادہ قریب ہیں اور ان کے جنوب میں واقع جزائر نکوبار انڈونیشی جزیرہ سماٹرا کے زیادہ قریب ہیں۔ لیکن برطانوی سامراج 1947ء میں بر صغیر سے رخصت ہوتے وقت یہ دونوں مجمع الجزائر بھارت کو دے گیا۔ ایسے ہی مالدیپ کے شمال میں واقع جزائر لکا دیپ بھی بھارت کو مل گئے۔ یاد رہے دیپ یا دویپ کے معنی ہیں جزیرہ۔ اسی لیے سری لنکا کو ماضی میں سراندیپ کہا جاتا تھا۔
ہمارے چودھری صاحب سیلانی ہیں وہ شمالی ناروے میں پہنچے جہاں آدھی رات کا سورج نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے کالم میں لکھا ’’میں قطب شمالی پر کھڑا تھا۔‘‘ دراصل وہ دائرہ قطب شمالی (Arctic Circle) پر کھڑے تھے جس کا عرض بلد 66.5 درجے شمال ہے اور اسے پار کریں تو نصف شب کا سورج نظر آتا ہے۔ دائرہ قطب شمالی ناروے، فن لینڈ، سائبیریا(روس)، کینیڈا اور الاسکا (یو ایس اے) میں سے گزرتا ہے۔ رہا قطب شمالی (North Pole) تو وہ د ائرہ قطب شمالی سے اڑھائی ہزار کلو میٹر مزید شمال میں ہے جبکہ قطب شمالی کا عرض بلد 90 درجے شمال ہے اور وہ محض ایک پوائنٹ ہے۔
ایک سینیئر کالم نویس نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ ’’خانہ کعبہ سمیت سارے حرم کو پیوندِ زمین کر دیا گیا اور (قرمطی) حجرِ اسود اٹھا کر بحرین لے گئے۔ 90سال حج موقوف رہا۔‘‘ عرض یہ ہے کہ کعبہ سیدنا ابراہیم ؑ کے دور سے قائم و دائم ہے اور اس کی تعمیرِ نو ہوتی رہی ہے مگر کسی زور آور نے اسے کبھی مسمار نہیں کیا۔ قرمطیوں نے چوتھی صدی ہجری میں حج کے موقع پرحرم میں قتلِ عام کیا تھا اور حجرِ اسود بحرین (مشرقی سعودی صوبہ منطقہ شرقیہ)اٹھا لے گئے تھے اور وہ بیس سال ان کے قبضے میں رہا تھا۔ 90سال حج موقوف رہنے کی بات بھی درست نہیں۔ حج مسلسل جاری رہا تھا۔ قرمطیوں کی دہشت گردی کا یہ واقعہ ’’محمود غزنوی کے دور ‘‘(388ھ421- ھ) کا نہیں بلکہ اس سے ایک صدی پہلے318ھ کا ہے اور حجرِ اسود ’’محمود غزنوی کی مالی پیشکش ‘‘پر نہیں بلکہ عباسی خلیفہ مطیع اللہ کے دور میں 339ھ میں واپس مکّہ لایا گیا تھا۔
اسی کالم میں انھوں نے لکھا کہ ’’یہودی رومنوں سے اتنی نفرت نہیں کرتے تھے جتنی مسلمانوں سے۔ہر طرح کے اچھے سلوک، سہولتوں اور مراعات کے باوجود ان کی ایک بڑی تعداد فلسطین چھوڑ کر یورپ اور روس میں آباد ہو گئی۔‘‘دراصل یہود کی جلا وطنی رومی قیصر ہیڈ ریان کے حکم پر 137ء میں عمل میں آئی تھی اور اس وقت وہ دنیا میں بکھر گئے تھے۔ علاوہ ازیں ’’برطانیہ نے فلسطین کا چوتھائی رقبہ یہودیوں کو اور چوتھائی مسلمانوں کو‘‘ نہیں دیا تھا بلکہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اکتوبر 1947ء میں فلسطین کو اس طرح تقسیم کیا تھا کہ سوا چھ لاکھ یہودیوں کو 55 فیصد رقبہ الاٹ کر دیا گیا جبکہ ساڑھے بارہ لاکھ عربوں کے لیے 45 فیصد رقبہ چھوڑا گیا ، تاہم یہودی ریاست اسرائیل نے 1948ء کی جنگ میں لڑ بھڑکراپنا علاقہ 78 فیصد تک بڑھا لیا۔ پھر اس کے انیس برس بعد (پندرہ برس بعد نہیں) جون 1967ء میں اسرائیل سارے فلسطین پر قابض ہو گیا۔ اور’’ شاہ حسین نے جان بوجھ کر بیت المقدس اور غربِ اردن سے پسپائی‘‘ اختیار نہیں کی تھی بلکہ اردنی فوج نے فلسطین کے ایک ایک چپّے کے لیے اسرائیلیوں کا جان توڑ مقابلہ کیا تھا۔ دراصل اردن کی فضائیہ نہایت کمزور تھی اور شاہ حسین بار بار صدر ناصر سے فضائی مدد مانگ رہے تھے مگر بڑھک باز ناصر نے شاہ حسین کو دھوکے میں رکھا جبکہ مصری فضائیہ اسرائیل نے 6 جون کو پہلے ہلّے ہی میں تباہ کر دی تھی۔ ***