علم و دانش
حکایاتِ جبران
خلیل جبران
دانشمند بادشاہ
ایک دفعہ کا ذکرہے کہ ایک شہر پر جس کا نام ویرانی تھا۔ ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا ۔جو بہت بہادر اوردانشمند تھا اس کی بہادری کی وجہ سے لوگ اس سے ڈرتے تھے اور اس کی دانشمندی کی وجہ سے اسے پیار کرتے تھے ۔
اس شہر کے وسط میں ایک کنواں تھا جس کا پانی بہت ٹھنڈا اور موتی کی طرح شفاف تھا۔ شہر کے تمام لوگ بلکہ خود بادشاہ اور اس کے درباری اسی کنوئیں میں سے پانی پیتے تھے۔کیونکہ ان کے شہر میں کوئی اور کنواں نہ تھا۔ایک رات جب تمام لوگ محوخواب تھے ایک ساحرہ شہر میں داخل ہوئی اور ایک عجیب دوائی کے سات قطرے کنوئیں میں ڈال دیئے اور کہا ۔ ‘‘اسکے بعد جو شخص یہ پانی پیئے گا وہ دیوانہ ہو جائیگا۔‘‘دوسرے دن بادشاہ اور اس کے وزیروں کے سوا شہر کے تمام لوگوں نے کنوئیں کا پانی پیا اور ساحرہ کی پیشن گوئی کے مطابق دیوانے ہوگئے۔
اس دن شہر کے تنگ گلی کوچوں اور بازاروں میں لوگ ایک دوسرے کے کان میں یہی کہتے رہے کہ ہمارے بادشاہ اور وزیراعظم کی عقل ماری گئی ہے اور ہم اس اپاہج بادشاہ کی حکومت برداشت نہیں کر سکتے اور اسے تخت سے علیحدہ کر دیں گے۔جب شام ہوئی توبادشاہ نے سونے کے ایک برتن میں اس کنویءں کا پانی منگوایا جب پانی آیا تو اس نے خود پیا اور اپنے وزیراعظم کو بھی پلایا پھر کیا تھا۔ شہر ویرانی میں خوشی کے شادیانے بجنے شروع ہوگئے کیونکہ لوگوں نہ دیکھا کہ ان کے بادشاہ اور وزیراعظم کا دما غ درست ہوگیا ہے۔
متبرک شہر
میں اپنی جوانی کے زمانے میں سنا کرتا تھاکہ ایسا شہر ہے جس کے باشندے آسمانی صحیفوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔
میں نے کہا’’ میں اس شہرکوضرور تلاش کروں گا اور اس کی برکت حاصل کروں گا۔‘‘
یہ شہر بہت دور تھا۔میں نے سفر کے لئے خوب سامان جمع کیا۔چالیس دن کے بعد میں نے اس شہر کو دیکھا اور اکتالیسویں دن اس کے اندر داخل ہوا۔مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس شہر کے تمام باشندوں کاصرف ایک ہاتھ اور ایک آنکھ ہے۔ میں نے حیران ہوکر اپنے دل سے کہا۔’’کہ اتنے متبرک شہر کے باشندوں کا صرف ایک ہاتھ اور ایک آنکھ!‘‘میں نے دیکھا وہ خود بھی اس بات پر حیران ہیں ، میرے دو ہاتھوں اور دو آنکھوں نے انہیں محو حیرت میں ڈال دیا ہے۔اس لئے جب وہ میرے متعلق آپس میں گفتگو کر رہے تھے تو میں نے ان سے پوچھا ۔’’کیا یہی وہ متبرک شہر ہے جس کا ہر باشندہ مقدس صحیفوں کے مطابق زندگی بسر کر تا ہے؟؟‘‘انہوں نے جواب دیا ۔’’ہاں یہ وہی شہر ہے‘‘میں نے کہا ’’تمہاری یہ حالت کیونکر ہوئی؟تمہاری داہنی آنکھیں اور داہنے ہاتھ کیا ہوئے؟
وہ سب میری بات سے بہت متاثر ہوئے اور مجھ سے کہا،آ اور دیکھ۔۔۔وہ مجھے شہر کے ایک معبد میں لے گئے جو اس کے وسط میں واقع تھا۔میں نے اس معبد کے صحن میں ہاتھوں اور آنکھوں کا انبار لگا ہوا دیکھا وہ سب گل سڑ رہے تھے پھر میں نے کہا۔
’’افسوس کس سنگ دل فاتح نے تمھارے ساتھ یہ بدسلوکی کی ہے؟‘‘
اس پر انہوں نے زیرلب گفتگو شروع کی اور ایک بوڑھے آدمی نے آگے بڑھ کر مجھ سے کہا۔۔۔ ‘‘یہ ہمارا اپنا کام ہے خدا نے ہمیں اپنی برائیوں پر فتح دی ہے۔۔‘‘یہ کہہ کروہ مجھے ایک اونچے منبر پر لے گیا۔ باقی تمام ہمارے پیچھے تھے پھر اس نے منبر کے اوپر ایک تحریر دکھائی جس کے الفاظ یہ تھے۔
’’اگر تمھاری داہنی آنکھ تمہیں ٹھوکر کھلائے تو اسے باہر نکال پھینکو ، کیونکہ سارے جسم کے دوزخ میں پڑنے سے ایک عضوکاضائع ہونا بہتر ہے ۔اور اگر تمہارا داہنا ہاتھ تمہیں برائی پر مجبور کرے تو اسے کاٹ کر پھینک دو تاکہ تمہارا صرف ایک عضو ضائع ہوجائے اور سارا جسم دوزخ میں نہ پڑے۔‘‘ (انجیل)یہ عبارت پڑھ کر مجھے ساری حقیقت معلوم ہوگئی۔میں نے منہ موڑ کر تمام لوگوں کو مخاطب کیا اور کہا۔’’کیا تم میں کوئی آدمی یا عورت نہیں جس کے دو ہاتھ اور دو آنکھیں ہوں‘‘ان سب نے جواب دیا ‘‘ نہیں کوئی نہیں یہاں۔ ان بچوں کے سوا جو کمسن ہونے کی وجہ سے ان احکام پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔۔کوئی شخص صحیح سالم نہیں۔‘‘جب ہم معبد سے باہر آئے تومیں فورا اس متبرک شہر سے بھاگ نکلا کیونکہ میں کمسن نہ تھا اور اس کتبے کو باآسانی پڑھ سکتا تھا۔
انصاف
ایک رات قصر شاہی میں ایک دعوت ہوئی ۔ اس موقع پر ایک آدمی آیا اور اپنے آپ کو شہزادے کے حضور پیش کیا۔ تمام مہمان اس کی طرف دیکھنے لگے ۔ انہوں نے دیکھا کہ اس کی ایک آنکھ باہر نکل آئی ہے اور خالی جگہ سے خون بہہ رہا ہے ۔شہزادے نے اس سے پوچھا کہ ‘‘ تم پر کیا واردات گزری ہے؟؟؟‘‘اس نے جواب دیا ’’عالی جاہ میں ایک پیشہ ور چور ہوں اور آج شب جب کہ چاند طلوع نہیں ہوا تھا ۔ میں ساہوکار کی دکان لوٹنے کے لئے گیا لیکن غلطی سے جلاہے کے گھر میں داخل ہوگیا۔ جوں ہی میں کھڑکی سے کودا میرا سرجلاہے کے کرکھے کے ساتھ ٹکرایا۔ اور میری آنکھ پھوٹ گئی۔‘‘اے شہزادے اب میں اس جلا ہے کے معاملے میں انصاف چاہتا ہوں۔۔۔یہ سن کر شہزادے نے جلاہے کو طلب کیا ۔اور یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ اس کی ایک آنکھ نکال دی جائے ۔جلاہا بولا۔’’ظل سبحانی آپ کا فیصلہ درست ہے کہ میری آنکھ نکالی جانی چاہیے۔ لیکن میرے کام میں دونوں آنکھوں کی ضرورت ہے تاکہ میں اس کپڑے کے دونوں اطراف میں دیکھ سکوں جسے میں بنتا ہوں۔میرے پڑوس میں موچی ہے جس کی دونوں آنکھیں سلامت ہیں اس کے پیشے میں دونوں کی کوئی ضرورت نہیں۔۔یہ سن کر شہزادے نے موچی کو طلب کیا وہ آیا اوراس کی دو آنکھوں میں سے ایک آنکھ نکال دی گئی۔اس طرح انصاف کا تقاضا پورا ہوا۔
دو عالم
ایک شہر میں دو عالم رہتے تھے۔ جو آپس میں بہت اختلاف رکھتے تھے اور ایک دوسرے کی قابلیت کا مضحکہ اڑاتے تھے، ان میں ایک دہریہ تھا اور دوسرا خدا پرست۔
ایک دن دونوں بازار میں ملے اور اپنے اپنے معتقدوں کی موجودگی میں خدا کے وجود اور عدم وجود پر بحث کرنے لگے گھنٹوں مناظرہ کرنے کے بعد وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔اسی شام دہریہ مسجد میں گیا اور اپنے سابقہ گنا ہوں کی معافی کے لئے خدا سے التجا کی۔دوسرے عالم نے فوراًً ً اپنی کتابیں جلا دیں ۔کیونکہ وہ اب دہریہ بن چکا تھا۔
کتابیں جلا دیں کیونکہ اب یہ دہریہ بن چکا تھا۔
ضمیر کی بیداری
ایک اندھیری رات میں ایک شخص اپنے ہمسائے کے باغ میں داخل ہوا اور اپنی سمجھ میں سب سے بڑا تربوز چرایا اور اسے لے آیا۔جب اس نے اسے چیرا تو دیکھا کہ وہ ابھی کچا تھا۔تب ایک معجزہ رونما ہوا۔اس شخص کا ضمیر بیدار ہوااور اسے ندامت سے جلانے لگا اور وہ تربوز چرانے پر پچھتانے لگا۔
نا قد
ایک رات کا ذکر ہے کہ ایک آدمی گھوڑے پر سوار سمندر کی طرف سفر کرتا ہوا سڑک کے کنا رے ایک سرائے میں پہنچا ۔ وہ اترا اور سمندر کی جانب سفر کرنے والے سواروں کی طرح رات اور انسانیت پر اعتماد رکھتے ہوئے اپنے گھوڑے کو سرائے کے دروازے کے قریب درخت سے باندھا اور سرائے میں چلا گیا۔رات کے وقت جب تمام لوگ سو رہے تھے ایک چور آیا اور مسافر کا گھوڑا چرا لے گیا۔صبح وہ آدمی اٹھا تو دیکھا اس کا گھوڑا چوری ہو گیا ہے۔وہ گھوڑا چرائے جانے پر بیحد غمگین ہوا اور نیز اس بات پر اسے بے حد افسوس ہواکہ ایک انسان نے اپنے دل کو گھوڑا چرانے کے خیال سے ملوث کیا۔تب سرائے کے دوسرے مسافر آئے اور اس کے گرد کھڑے ہوکر باتیں کرنے لگے ۔پہلے آدمی نے کہا کہ ’’کیا یہ تمہاری حما قت نہیں کہ تم نے گھوڑے کو اصطبل سے باہر باندھا ‘‘ دوسرے نے کہا’’اور یہ اس سے بڑھ کر حماقت ہے کہ گھوڑے کو چھنال نہیں لگائی۔‘‘تیسرے نے کہا’’اور یہ حماقت کی انتہا ہے کہ سمندر کی طرف گھوڑے پر سفر کیا جائے‘‘چوتھے نے کہا ’’صرف سست اور کاہل لوگ ہی گھوڑے رکھتے ہیں‘‘
تب مسافر بے حد حیران ہوا آخر کار چلایا
’’میرے دوستو ! کیا تم اس لئے میری غلطیوں اور کوتاہیوں کو گنوارہے ہو کہ میرا گھوڑا چوری ہوگیا ہے لیکن عجوبہ یہ ہے کہ تم نے ایک لفظ بھی اس شخص کہ متعلق نہیں کہا جس نے میرا گھوڑا چرایا۔!
***