جو ہری توانائی کے سوا انسان نے جب بھی کسی توانائی کو استعمال کیاہے تو اس کا سرچشمہ ہمیشہ سورج رہا ہے۔ ہم لوگوں کو جس مقدار میں اور جس رفتار سے شمسی توانائی ملتی ہے اسی مقدار میں اور اسی رفتار سے اگر ہم دنیا کے سارے کوئلے ،تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر کو استعمال کریں تو یہ سارا کا سارا ذخیرہ تین دن کے اندر ختم ہوجائے گا۔ اگرچہ ہم سورج کی بے پناہ توانائی سے واقف تھے لیکن اس کا استعمال ہم لوگوں نے حال ہی میں شروع کیاہے۔
شمسی توانائی کو محصور کرنے کا سب سے قدیم طریقہ باغبان کا شیشے کا وہ گھر تھا جس میں وہ پودے رکھتا تھا۔ اس کا جدید روپ سورج سے پانی گرم کرنے والا ، ہیٹر (Heater) ہے۔ یہ عموماً گھوما ہوا پائپ ہوتا ہے جسے خفیف گہرائی والے بکس میں رکھ کر گھر کی چھت کے اوپر رکھ دیا جاتاہے۔ بکس کا لے کنکریٹ (Concrete) میں جما دیا جاتا ہے۔ کالے رنگ کی چیز سورج کی شعاع کو قبول کرتی ہے اور سفید چیز اْسے منعکس کردیتی ہے۔ بکس کا بالائی حصہ شیشے سے ڈھکا ہوتا ہے۔ پائپ کے اندر چکر لگاتا پانی سورج کی شعاع سے گرم ہوجاتا ہے اور اسے گرم پانی کے ٹینک میں پمپ کردیا جاتا ہے۔ گھر کے مکین گرم پانی اسی ٹینک سے حاصل کرتے ہیں۔ امریکہ کے صرف فلور یڈ ا شہر ہی میں تقریباً پچاس ہزار ایسے کنبے ہیں جو گرم پانی اسی طرح حاصل کرتے ہیں اسرائیل کے دیہی علاقوں میں یہ عام رواج ہے جو بھی نیا مکان بنتا ہے اس پر شمسی آبی ہیٹر لگائے جاتے ہیں۔
حرارتی پمپ نسبتاً زیادہ کار آمد ہوتا ہے اور ساخت میں پیچیدہ بھی۔ یہ در حقیقت ریفریجریٹر میں اپنائے گئے اصول کے برعکس طریقۂ کار پر عمل کرتا ہے۔ یہ فضا سے ، زمین سے ندی یا تالاب کے پانی سے اپنی بساط کے مطابق جس درجہ ممکن ہے تپش یکجا کرلیتا ہے۔ یہ تپش سردیوں میں کم اور گرمیوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس تپش کو انتہائی کم حرارت سے اْبلنے والے رقیق (Liquid) کو گیس میں تبدیل کرنے کے لیے کام میں لایا جاتا ہے۔ اب اسی گیس پر لیمپ کے ذریعے دباؤ میں اضافہ کیا جاتا ہے اور اسے کنڈنسر کے لچھوں میں داخل کیاجاتا ہے جہاں گیس پھر رقیق حالت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس طرح رقیق بننے کے عمل میں خارج ہونے والی تپش کو گھر گرم کرنے، پانی گرم کرنے کے کام میں لایا جاتا ہے۔ حرارتی پمپ سے اس کے برعکس کام کراکر گھر کو گرمیوں میں ٹھنڈا رکھا جاسکتا ہے۔
امریکہ میں ہزاروں کی تعداد میں شمسی گھر تعمیر کیے گئے ہیں۔ امریکہ میں انجینئر اور فن تعمیر کے ماہرین نے شمسی گھروں سے متعلق طرح طرح کے ڈیزائن نکالے ہیں۔ ان شمسی گھروں میں کسی نہ کسی واسطے کے ذریعے سورج کی گرمی کو ذخیرہ کیا جاتا ہے اور ضرورت کے حساب سے اسے رفتہ رفتہ کرکے استعمال کرتے ہیں۔ اس نقطہ نگاہ سے پانی اچھا وسیلہ ہے لیکن گلوبر سالٹ (Glauber's Salt) یا نم سوڈیم سلفیٹ اور بھی زیادہ کارآمد ہے۔ یہ 90 ڈگری فارن ہائیٹ پر پگھل جاتا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ کافی مقدار میں گرمی بھی جذب کرلیتا ہے اور اس کی دوبارہ جب فلمیں بنتی ہیں تو حرارت کا اخراج ہوتا ہے۔ایک شمسی گھر کے تہہ خانے میں حرارتی باسکٹ میں صرف بیس ٹن نمک موسم گرما میں ذخیرہ کی ہوئی حرارت سے سارے کمروں کو سردیوں میں گرم رکھ سکتا ہے۔
گھروں کو گرم رکھنے کا دوسرا دلچسپ طریقہ دیواروں میں کنکر لگانا ہے۔ بادل کے دنوں میں جب سورج نہیں نکلتا ہے تو یہ کنکریاں دیواروں کو گرم رکھتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ چھت پر رکھنے پر حرارت یکجا کرنے والے نظام سے ہوا کو گزار کر چھوٹے روشندان کے ذریعے دیوار میں لگی کنکریوں کے درمیان بھیجتے ہیں۔ کنکریاں گرمی کو جذب کرلیتی ہیں اور اسے ایک انداز سے رہا کرتی رہتی ہیں۔سورج کی تپش کو استعمال کرنے والی کوششوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماہرین اور انجینئر بڑے پیمانے پر سورج سے حرارت کے حصول کے اس کے امکانات ہی سے واقف نہیں بلکہ اس کو کس حد تک کام میں لاسکتے ہیں اس کو بھی جانتے ہیں۔
سوڈان اور مشرقی افریقہ میں ایک سادہ شمسی کو کر بہت مقبول ہوا ہے۔ اس میں ساڑھے چار فیٹ کا پھیلا ہوا المونیم کا موقر عاکسہ ہوتا ہے۔ یہ سیدھے لوہے کے چھڑ پر لگا ہوتا ہے۔ سورج کی مرکوز شعاعیں تار کی جالی پر رکھے ایک برتن پین پر پڑتی ہیں۔ یہ تار کی جالی عاکسہ کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔
ایک اور اہم ا ختراع سولار اسٹل کی بھی ہے جس سے کھارے پانی کی تقطیر سے میٹھا پانی حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ اسٹل نمک کے پانی کو رکھنے کے لیے برتن کے مثل ہوتی ہے جس پر ڈھلوان شیشے کی چھت ہوتی ہے۔ دھوپ کی شدت سے نمک کا پانی جب اڑتا ہے تو ابخرات شیشے کی چھت پر قطروں کے مثل یکجا ہوجاتے ہیں۔ یہ قطرے اچھے پانی کو ذخیرہ کرنے والے برتن میں پہنچ جاتے ہیں۔ نمک جو کہ پانی کے مثل اہم شے ہے برتن میں باقی رہ جاتا ہے۔
شمسی بھٹیاں ابھی تک تجربہ کی اسٹیج میں ہیں، اب تک تجرباتی مرحلات سے نہیں گزر رہی ہیں۔ فرانس کے ماہرین تحقیقی مقام پیرانیز میں ان بھٹیوں کو چلا رہے ہیں۔ یہ ساری بھٹیاں بہت بڑی ہیں۔ ان میں سے ایک کا رقبہ 43 مربع فیٹ ہے اور اس میں 516 عکسی شیشے لگے ہوئے ہیں۔ اس کے 80 فیٹ کے فاصلے پرایک شیشہ کا پیرا بولا ہے جو 31 فیٹ چوڑا اور 33 فیٹ لمبا ہے۔ اس نظام سے جو گرمی پیدا ہوتی ہے وہ فی گھنٹہ 130 پاؤنڈ لوہے کو پگھلا سکتی ہے۔ روسیوں نے ایک بہت بڑا ‘‘ہیلیو بائیلر’’ بنایا ہے۔ یہاں ایک 80 فیٹ اونچا مینار ہے جس کے چاروں طرف 23 ہم مرکز ریل کی پٹریاں ہیں۔ ان پٹریوں پر چلنے والے ڈبوں میں 16 فیٹ لمبا اور 10 فیٹ چوڑا عکسی شیشہ ہوتا ہے۔ ان شیشوں سے سورج کی شعاعیں مرکوز ہوکر مینار میں بائلر پر پڑتی ہیں۔ روسیوں نے دعویٰ کیاہے کہ اس سے بیش حرارت والی بھاپ اس قدر پیداہوتی ہے کہ ایک ایسے چرخابی جزیٹر کو چلایا جاسکتا ہے جو 1000 کیلوواٹ بجلی پیدا کرتی ہے۔
سورج کی شعاعوں سے بجلی پیدا کرنے کا سب سے اچھا طریقہ ‘‘شمسی بیڑی’’ ہی معلوم ہوتی ہے۔امریکہ کے بل تجربہ گاہوں کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے 1954 میں پہلی بار ایسی بیٹری کا مظاہرہ کیا، جس کو جرمینیم یا سلیکون سے بنے نیم موصل قلموں سے چلایا جاتاہے (ٹرانسیٹر میں بھی ایک برقی روپیدا ہوتی ہے۔ بل کی بنائی ہوئی ایک بیٹری جس میں 400 سلیکون خانے تھے، 12 وولٹ کی برقی رو پیدا کرسکتی تھی۔ اس پہلے مظاہرہ کے بعد سے اب تک شمسی بیٹری میں کافی ترقی ہوئی ہے اور اس کو انسان کی سب سے عظیم الشان مہم میں بھی استعمال کیاگیا ہے۔ سیارچوں اور ہوادار راکٹ بگھیوں کو خلا میں بھیجنے میں ا س بیٹری سے کام لیا گیا ہے اور جوہری بیٹریاں اپنی طویل عمر کے باعث خلائی گاڑیوں کے ٹرانس میٹروں کو پاور فراہم کرنے کے لیے انتہائی کار آمد ہیں۔
رہائشی مکانوں میں یہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ یہ بیٹریاں کم و ولٹیج کی برقی روکو اپنی ترقی کے باعث فراہم کرنے کی اہل ہوجائیں گی۔ اس کی سب سے بہتر کارگزاری 22 فی صد ہے جو کہ سلیکون کی فی مربع گزسطح سے 200 واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت سے واضح ہے۔
فرانسیسی سائنس دانوں نے ایک شمسی لیمپ بھی بنایا ہے جو چھوٹے سوٹ کیس کے برابر ہے۔ اس کے اوپر سورج کی توانائی کو جمع کرنے کے لیے درجنوں سلیکون کے سیل لگے ہوئے ہیں جو روشنی سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں۔ اس طرح جمع کی ہوئی سورج کی توانائی کو ایک مخزن میں رکھا جاتاہے۔ سوٹ کیس کے زیریں حصے میں ایک مختصر فلورنٹ ٹیوب ہوتا ہے۔ دن کے وقت اس آلہ کوسورج کی روشنی میں رکھ دیاجاتا ہے اور سورج غروب ہونے کے بعد اسے گھر کے اندر لے جاکر لیمپ کو بٹن دباکر جلا لیتے ہیں۔ یہ آلہ جتنی دیر تک سورج کی روشنی میں رہتا ہے اتنی ہی دیر تک یہ لیمپ روشنی دیتاہے۔
شمسی بیٹریوں میں نیم موصل کے بجائے تاب جگا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ جب تاب جگا کا ایک سرا سورج کی روشنی میں گرم ہوتا رہتا ہے تو دوسرے سرے کوکس طرح ٹھنڈا رکھا جائے؟
ایسا نہ ہونے کی صورت میں برقی رو پیدا نہیں ہوتی ہے۔
برٹیش نیشنل فیزیکل لیباریٹری کی سورج کی توانائی سے متعلق کمپنی نے 1956 میں ایک ایسا مشورہ دیا جس سے گرم سیر خطوں میں متواتر توانائی مہیا ہوسکتی تھی۔ مشورہ یہ تھا کہ جنگلوں سے لکڑی حاصل کرنے کے لیے یوکلپٹس اور اس کے مثل تیز بڑھنے والے پیڑ لگائے جائیں اور اوسط درجے کے پاور اسٹیشن میں اس کو مستقل طور پر جلایا جائے۔ چند مربع میل کے علاقے میں لگے ہوئے یو کلپٹس کے درختوں سے فاضل لکڑی پیداہوگی جس سے پاور اسٹیشن کے بائلروں کو ہمیشہ آگ ملتی رہے گی یہ سلسلہ نہ ختم ہونے والا ہوگا۔ ایک جانب لکڑی کا استعمال ہوگا تو دوسری طرف یہ کمی درختوں کے بڑھنے سے پوری ہوجائے گی۔
سورج کی توانائی کو یوکلپٹس کے ذریعے بجلی کی طاقت میں تبدیل کرنے کا طریقہ شاید بہت زیادہ کار آمد نہ ہولیکن اس سے ہمارے سائنس دانوں کی کاوشوں کا پتہ چلتاہے اور یہ علم ہوتا ہے کہ انھوں نے انسانیت کو کیسی کیسی نئی راہوں اور توانائی کے حصول کے ذریعوں سے روشناس کرایا ہے تاکہ معیار زندگی بلند ہوسکے۔ گزرے ہوئے دنوں میں کسی بھی قوم کی تہذیب کے معیار کا پیمانہ یہ ہوتا تھا کہ ایک شخص ایک سال میں کتنے پاؤنڈ صابن استعمال کرتا ہے۔ آج اس معیار کا پیمانہ یہ ہے کہ ہرکسی کو کتنے اسپی طاقت یا کتنے کیلوواٹ فی گھنٹہ بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ کیا یہ ہماری ترقی کی عمدہ مثال نہیں؟ آج مغربی دنیا کو پچھڑے ہوئے افریقی اور ایشیائی ملکوں کے مقابلے میں چالیس سے اسّی گنا زیادہ توانائی مہیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی دنیا کے باشندوں کو چالیس سے اسی گنا زیادہ خوراک ، مکان،کپڑے اور بہتر صحت اور نقل و حمل کی سہولتیں مہیا ہیں۔ الغرض ہر وہ چیز جس کی روز مرہ زندگی میں ضرورت ہوتی ہے اور ہر وہ چیز جسے پیدا کرتے ہیں یا استعمال کرتے ہیں یا بیرون ممالک کی اشیا یا خدمات سے تبدیل کرتے ہیں مغربی قوموں کو فوقیت حاصل ہے۔
آج ہمارے پاس ایسے تکنیکی ذریعے موجود ہیں جس سے کافی توانائی پیدا کر کے ساری دنیا کے معیار زندگی کو بلند کرکے اس درجے تک پہنچایا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ آسودہ و خوش خرم زندگی گزار سکیں۔ ہمارا یہ اولین فرض ہے کہ اس صدی کا جو کچھ بھی حصہ بچ رہاہے اس میں ہر ممکن کوشش کریں کہ کوئی بھی شخص دنیا کے کسی کونے میں بھوکا اور ننگا نہ رہنے پائے۔
٭٭٭