انسانی خیالات پڑھنے کی جانب پہلا قدم
امریکہ میں سائنسدانوں نے دعوٰی کیا ہے کہ انہوں نے دماغ سے نکلنے والی لہروں کو پڑھنے اور خیالات کو الفاظ کی شکل دینے کی جانب پہلا قدم بڑھا لیا ہے۔اس سے یہ ممکن ہو سکے گا کہ کسی شخص کے کچھ بولنے سے پہلے ہی یہ جانا جا سکے گا کہ وہ کیا کہنے جا رہا ہے۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محققین نے دماغ میں کچھ آلات لگا کر اور ایک کمپیوٹر پروگرام کی مدد سے ایسا ممکن کر دکھایا ہے۔اس تحقیق کے نتائج سے یہ امید جاگی ہے کہ مستقبل میں دماغی بیماریوں کا شکار یا صحیح طریقے سے بولنے سے معذور افراد کی باتیں سمجھنا آسان ہو جائے گا۔سائنسدانوں نے یہ آلات دماغ کے اس حصے میں لگائے جو زبان پر کام کرتا ہے اور وہاں سے حاصل ہونے والے پیچیدہ برقی سگنلز کو کمپیوٹر کی مدد سے صوتی لہروں میں بدل کر اسے ڈی کوڈ کیا گیا اور یوں اسے الفاظ اور جملوں کی شکل میں سنا جا سکا۔سائنسی امور کے لیے بی بی سی کے نامہ نگار جیسن پامر کا کہنا ہے کہ یہ کسی سائنسی افسانے کی طرح ہے جس میں آپ کسی کے خیالات کو پڑھ کر انہیں سن بھی پا رہے ہیں یعنی آپ کسی شخصیت کے دماغ سے براہ راست بات کر رہے ہیں۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محقق رابرٹ نائیٹ کا کہنا ہے دماغ سے نکلنے والی لہروں کو پڑھنے کے دو طریقے ہیں، پہلا بنیادی سائنسی طریقہ کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے اور دوسرا طریقہ دماغ میں مصنوعی آلات لگا کرسننے کا طریقہ۔رابرٹ نائیٹ کے مطابق ایسے افراد جو بول نہیں سکتے دماغ میں لگائے جانے والے آلات کی مدد سے جو کچھ کہنا چاہیں گے اس کا تصور کر سکیں گے۔
محقیقین کے مطابق صحیح طریقے سے بولنے سے معذور افراد کے علاج میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔فلوریڈا میں اورلینڈو نامی ہسپتال کی ڈاکٹر منڈی کا کہنا ہے کہ ایسے آلات کے انقلابی فوائد ہیں۔انہوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے میں دیکھ سکتی ہوں کہ دماغی بیماریوں کا شکار افراد کے علاج میں یہ طریقہ بہت فائدہ مند ہو گا۔
جسم کو بظاہر غائب کرنے کا تجربہ
محققین پہلی بار کسی جسم کو غائب کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تاہم یہ تجربہ برقناطیسی شعاؤں کے پیمانے میں صرف مائیکرو ویو شعاؤں پر کامیاب رہا ہے۔اس مقصد کے لیے ‘پلاسمونک’ مواد کی مدد سے کام لیا جاتا ہے۔ پلاسمونک مواد چھپائی جانے والی چیز کے منافی مائیکرو ویو عکس بنا دیتا ہے جس سے وہ چھپ جاتی ہیں۔اس طریقے سے اشیاکو بظاہر غائب کرنے کی تفصیلات نیو جرنل آف فزکس نامی جریدے میں شائع کی گئی ہیں
ماضی میں کیے جانے والے تجربات میں کوشش کی جاتی رہی ہے کہ روشنی کی شعاؤں کو غائب کی جانے والی اشیا کے گرد انتہائی پیچیدہ ڈھانچوں کی مدد سے لے جایا جائے اور دوسری طرف ان کے عکس کو واپس بنایا جائے۔ اس طرح شعاؤں کو دوسری طرف عکس بند کرنے والے آلہ یا شخص کو بیچ میں موجود چیز کا پتا نہیں چلتا۔دوسری طرف یونیورسٹی آف ٹیکسز ایٹ آسٹن کی ایڈدریا لوع اور ان کی ساتھیوں کے تجربے میں میٹا مٹیریئلز غائب کی جانے والی اشیاء کے وجود سے شعاؤں میں آنے والی تبدیلیوں کا بالکل منافی اثر پیدا کر کے شعاؤں کو واپس ابتدائی حالت میں لے آتا ہے۔ چنانچہ دوسری طرف ان شعاؤں کو عکس بند کرنے والے آلہ یا شخص کو شعائیں ایسی حالت میں ملتی ہیں جیسے کہ درمیان میں کوئی چیز تھی ہی نہیں۔
بغیر کھانے کے اٹھارہ برس کیسے گزرے
برطانیہ میں مقیم اٹھارہ سالہ محمد میاں کبھی بھی عام کھانا نہیں کھا پائے ہیں۔ اس کی وجہ ہے ان کی آنتوں کی بیماری جو کسی بھی طرح کے سخت کھانے کو ہضم نہیں کرپاتیں۔محمد میاں کا کہنا ہے ‘میرے لیے یا تو پانی ابلا ہوا ہونا چاہیے ورنہ میرا پیٹ اس کو ہضم نہیں کرپاتا۔ میرا ہاضمے کا نظام بے حد حساس ہے۔’محمد میاں کا معدہ بے حد کمزور ہے اور اسی وجہ سے وہ پیدائش کے بعد سے ہی مصنوعی غذائیت پر منحصر ہیں۔دن میں وہ ملائم کھانے کی شکل میں پروٹین، کاربوہائڈریٹ، وٹامنز کی خوراک لیتے ہیں۔ رات کو ایک خصوصی ٹیوب کے ذریعے براہ راست کھانا ان کے پیٹ میں پہنچایا جاتا ہے۔چند روز پہلے محمد کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ محمد کہتے ہیں ‘میرے معدے نے بالکل کام کرنا بند کردیا تھا۔ میں پانی بھی نہیں پی سکتا تھا۔ میری کئی مہینوں تک ایسی ہی حالت رہی۔’محمد کو جو بیماری ہے اسے ‘Intestinal pseduo obstruction’ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس وقت برطانیہ میں بارہ سے پندرہ بچے اس بیماری میں مبتلا ہیں۔اس بیماری میں آنتیں کھانا ہضم کرنے کا کام بالکل بند کردیتی ہیں۔لندن کے گریٹ آرمونڈ سٹریٹ ہسپتال میں محمد کا علاج جاری ہے اور وہاں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے محمد کی یہ حالت اس لیے ہوئی ہے کیونکہ آنتوں کے اندر مخصوص پٹھے نے کام کرنا بند کردیا ہے۔محمد اپنی اس بیماری کے مثبت پہلوں کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں ‘ کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں دوسرے لوگوں سے زیادہ صحت مند ہوں۔ جب میں سب لوگوں کو جنک فوڈ کھاتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کم از کم میں موٹا نہیں ہونگا۔’کیا محمد کا دل نہیں چاہتا کہ وہ بھی عام لوگوں والا کھانا کھائیں، اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں ‘ کھانے کا وقت اس طرح مقرر ہے کہ میں کبھی بھوکا نہیں رہتا ہوں، اور جب میں واقعی بیمار ہوتا ہوں تو میرا کھانا کھانے کا دل ہی نہیں چاہتا ہے۔’اس کے باوجود بھی محمد اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں اور آئندہ برس وہ یونیورسٹی جانے کے بارے میں پرامید ہیں۔یونیورسٹی کالج لندن انسٹیٹوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے ڈاکٹر نکھل تھارپر کا کہنا ہے کہ معدے کی اس طرح کی بیماری کو سمجھنے کی فوری ضرورت ہے۔انکا کہنا ہے ‘فی الوقت ہم صرف اس بیماری کی علامت پر قابو پا سکتے ہیں۔ اس بیماری کا جو علاج ہے وہ صرف محمد جیسے مریضوں کو مرنے سے بچائے ہوئے ہے۔ ہمارے پاس اس کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے۔’ان کا کہنا ہے کہ اس بیماری سے متاثر بچے ایک مشکل زندگی گزارتے ہیں۔لندن کے گریٹ آرمونڈ سٹریٹ ہسپتال کو اس بیماری کے علاج کا قومی سینٹر مقرر کیا گیا ہے اور اس ہسپتال میں محمد جیسے بچے زیر علاج ہیں۔
کاغد سے بجلی پیدا کرنے والی بیٹری
جاپانی کمپنی سونی ایک ایسی بیٹری منظرعام پر لائی ہے جو عام کاغذ کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس نئی ٹیکنالوجی میں عام کاغذ کے ٹکڑوں کو چینی کی شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے اور چینی کو ایندھن کے طور پر استعمال کر کے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔
سونی نے اس منصوبے کو گزشتہ ہفتے ٹوکیو میں منعقدہ ماحول دوست مصنوعات کی نمائش میں پیش کیا ہے۔اگر اس ٹیکنالوجی کو فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے تو صارفین اپنے موبائل فونز کی بیٹریوں کو ردی کاغذ کی مدد سے چارج کر سکیں گے۔بیٹری میں استعمال ہونے والے ٹینکالوجی میں حیاتی کیمیا کے ذریعے مواد کے اجزاء کو علیحدہ کر کے گلوکوز چینی میں تبدیل کیا جاتا ہے، بعد میں آکسیجن کے ذریعے اجزا کو مزید علیحدہ کیا جاتا ہے جو مواد کو الیکڑونس اور ہائیڈروجن ایون (کوئی ایٹم یا ایٹموں کا مجموعہ جس میں ایک یا زیادہ الیکڑون خارج ہوتے ہیں) میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
بیٹری ان الیکڑون کے ذریعے بجلی پیدا کرتی ہے۔اس تحقیقاتی منصوبے میں شامل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی میں اس طریقہ کار کو بنیاد بنایا گیا ہے جس کے تحت سفید چونٹیاں لکڑی کو کھانے کے بعد اس کو توانائی میں تبدیل کرتی ہیں۔سونی کی ایڈوانس میٹریل لیبارٹری کے سربراہ یوچئی ٹوکیٹا کا کہنا ہے کہ‘ایک عام ایندھن کا استعمال جیسا کہ مبارکباد کے پرانے کارڈز، جو اس کرسمس پر ہمیں لاکھوں کی تعداد میں موصول ہونگے، ان کے ذریعے بائیو بیٹری اتنی بجلی تیار کر سکتی ہے جس کی مدد سے ایک پنکھا چلایا جا سکتا ہے۔’انھوں نے مزید کہا ہے کہ بالکل ابھی یہ ٹیکناجوجی ابتدائی سطح پر ہے لیکن جب آپ اس ٹیکنالوجی کے نتائج کے بارے میں سوچتے ہیں تو یہ بہت خوشی ملتی ہے۔ماحول دوست تنظیموں نے اس نئی ایجاد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ روایتی بیٹریوں کی ٹیکنالوجی کے اس لیے خلاف ہیں کہ بیٹریوں میں زہریلے کیمیکل استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کو تلف کرنے کا عمل بھی بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔
دھوپ سے چکن پاکس میں کمی
چکن پاکس کا سبب بننے والا وائرس ‘ویریسیلا زوسٹر’ بہت تیزی سے پھیلتا ہے ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لاکڑا کاکڑا یا چکن پاکس کا پھیلاؤ دھوپ لگنے سے کم ہوجاتا ہے۔جرنل ورولوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں لندن یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے کا کہنا ہے کہ چکن پاکس ان خطوں میں اتنا عام نہیں ہے جہاں سورج کی شعاعیں زیادہ ہوتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سورج کی روشنی جلد پر چکن پاکس کے وائرس کو غیرمتحرک کردیتی ہے جس کے بعد وائرس کے لیے دوسروں تک منتقل ہونا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔لیکن دوسرے طبی ماہرین کہتے ہیں کہ چکن پاکس کے پھیلاؤ کی روک تھام میں صرف سورج کی روشنی ہی نہیں بلکہ دوسرے عوامل بھی اہم کردار ادا کرتے ہے مثلاً درجہ حرارت، ہوا میں نمی کی شرح اور رہائش کی جگہ اور ماحول وغیرہ۔چکن پاکس کا سبب بننے والا وائرس ‘ویریسیلا زوسٹر’ بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ یہ وائرس مریض کے کھانسنے اور چھینکوں سے دوسروں کو لگ سکتا ہے لیکن اس کے پھیلنے کا اصل سبب چکن پاکس کے دانے ہوتے ہیں جن کا لمس دوسروں کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔یہ پہلے سے معلوم ہے کہ دھوپ میں الٹرا وئلٹ شعاعیں وائرس کو غیر متحرک کردیتی ہیں۔ تحقیق کے سربراہ اور سینٹ جارج میں لندن یونیورسٹی کے ڈاکٹر فِل رائس کو یقین ہے کہ اصل وجہ یہ ہی ہے کہ ایسے خطوں میں جہاں دھوپ کم ہوتی ہے چکن پاکس کے وائرس تیزی سے پھیلتے ہیں۔ یونیورسٹی کالج لندن کی پروفیسر جْوڈی بریور کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ سورج کی شعاعیں وائرس کو محدود رکھنے میں کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان وائرس کے پھیلاؤ میں دیگر عوامل کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا ‘الٹرا وائلٹ کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جیسے حرارت، نمی، معاشی عوامل اور لوگوں کا رش بھی قابل ذکر ہے ۔