اذکار ازہر خان درانی


مضامین

  عزم راسخ ہو تو سیلاب بھی ٹل جاتے ہیں  مستعد شخص کے حالات بدل جاتے ہیں   عمر بھر دل میں کھٹکتے ہیں جو کانٹوں کی طرح وہی سائے ہی تو جسموں کو نگل جاتے ہیں   کھیت پکتے نہیں سورج کی حرارت سے مگر دل کی آہوں سے تو پتھر بھی پگھل ...


  میرے بھی دل میں یہ حسرت ہے ایک مدت سے کہ میں بھی لپٹ کے روؤں نبیؐ کی تربت سے  سناؤں اتنے قصیدے شہ دو عالمؐ کو خطیب منبر دل کو رسولؐ اعظم کو کہ زندگانی کی شام ہو جائے  یہ عمر یوں ہی تمام ہو جائے   


مری کمر پہ شرافت کی کوئی لاش نہیں اِسی لیے تو مری ذات پاش پاش نہیں   تمام عمر گھسیٹا گیا ہوں کانٹوں پر یہ اور بات بدن پر کوئی خراش نہیں   شعورِ کرب کے اظہار کا وسیلہ ہے سخن حرم ہے مرا، ذریعہ معاش نہیں   میں خار زارِ محبت کو چھوڑ آیا...


  جو فردوس تصور ہیں وہ منظر یاد آتے ہیں مدینے کے گلی کوچے برابر یاد آتے ہیں   جو لگتا ہے کوئی کنکر بدن پر دین کی خاطر تو دل کو وادی طائف کے پتھر یاد آتے ہیں   فضاؤں میں اگر کوئی پرندہ رقص کرتا ہے تو آنکھوں کو مدینے کے کبوتر...


  مرے دل کا نہاں خانہ ابھی تک چمک رہاہے  تری چاہتوں کا ہی نور ہے جو چھلک رہا ہے   جو دھواں سا نکلتا ہے مرے سینے سے ہمیشہ غم امت مرحوم اس میں ازل سے پک رہا ہے   کبھی تو مجھے بھی لے ہی جائے گا ترے مدینے وہ جو آسماں پر بیٹھا م...


  اللہ ترے در کا یہ ادنیٰ سا بھکاری  زہرابِ غمِ زیست جو پیتا ہے دما دم   ہر درد کے درماں کا سوالی ہے تجھی سے رکھتا ہے یہ نخچیر ترے ذکر کا مرہم   دنیا تری چوکھٹ سے اٹھانے پہ تلی ہے رکھتی ہے روا جورو ستم مجھ پہ جو پیہم   ...


  تجھ کو پانے کی تمنا نے سمجھائے رستے جب بھی الجھے ہیں مرے ذوقِ سفر سے رستے   منزلیں عزمِ مصمّم پہ فدا ہوتی ہیں میں بھٹکتا تو مجھے راہ دکھاتے رستے   سادگی دیکھ کے منزل کے تمنّائی کی  قریہ قریہ لیے پھرتے رہے اندھے رستے   ...


  آتا ہے سکوں دل کو میسّر ترے گھر میں  سب اعلٰے وادنٰے ہیں برابر ترے گھر میں    رہتی نہیں غربت کی شکایت اسے ہر گز  ہوجاتا ہے آباد جو بے گھر ترے گھر میں    لیتے ہیں اسے تھام وہیں بڑھ کے فرشتے  کھاتا ہے جو معمولی سی ٹھوکر ترے...


  حمد کرتا ہوں باوضو تیری روز پڑھتا ہوں گفتگو تیری   اے جمال جہان کے خالق ہے نگاہوں کو جستجو تیری   ماسوا تیرے کون ہے قیوم ہے سوا سب سے آبرو تیری   رنگ پھیلے ہیں باغ میں تیرے خار زاروں میں بھی ہے بوُ تیری   ب...


  سوچ رہا ہوں پچھلے سال اس لمحے دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر کیسے کیسے لوگ شریک محفل تھے کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں سوچ رہا ہوں اگلے سال اسی لمحے دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر جب لکھے گا کوئی نظم تو سوچے گا پچھلے سال کی آخر ی نظ...


  خزاں کی رُت میں بھی خشک شاخوں پہ موسم ِ گل کے پھول رکھنا گناہ گاروں پہ روز ِمحشر بھی رحمتوں کا نزول رکھنا   قدم تمہار ے بہک نہ جائیں نئے زمانے کی روشنی میں مسافرانِ عدم نظر میں نقوشِ پائے رسولؐ رکھنا   خلوصِ دل سے ہے دوجہاں ...


  اک بار اُس کو دیکھ ذرا تو پکار کے  رکھ دے گا تیرے دل سے ہر اک بوجھ اتار کے    خود اپنے منکروں کی بھی کرتا ہے پرورش ‘‘دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے’’   شوقِ وصال دل میں لئے سرعتوں کے ساتھ اوراق الٹ رہا ہوں کتابِ نہار ک...