سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : اگست 2013

قسط۱۰۴

نورالقرآن 
 سات تراجم ، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری
نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔
سورہ المائدہ 
آیات ۱۴۔۱۲

وَلَقَدْ اَخَذَاللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ج وَبَعَثْنَا مِنْھُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ط وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ ط لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْھُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا لَّا ُ کَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَلَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ج فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ ہ۱۲ فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً ج یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ لا وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ج وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنْھُمْ اِلَّا قَلِیْلاً مِّنْہُمْ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاصْفَحْ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ہ۱۳ وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓی اَخَذْنَا مِیْثَاقَھُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْابِہٖ ص فَاَغْرَیْنَابَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ طوَسَوْفَ یُنَبِّئُھُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ ہ

تراجم

            ۱۔ اور لے چکا ہے اللہ عہد بنی اسرائیل کا ، اور اٹھائے ہم نے ان میں بارہ سردار ۔ اور کہا اللہ نے ، میں تمہارے ساتھ ہوں ، تم اگر کھڑی رکھو گے نماز ، اور دیتے رہو گے زکوٰۃ ، اور یقین لاؤ گے میرے رسولوں پر ، اور ان کو مدد دو گے ، اور قرض دو گے اللہ کو ، اچھی طرح کا قرض ، تو میں اتاروں گا تم سے برائیاں تمہاری ، اور داخل کروں گا تم کو باغوں میں ، کہ بہتی نیچے ان کے نہریں ، پھر جو کوئی منکر ہوا تم میں اس کے بعد ، وہ بے شک بھولا سیدھی راہ سے۔۱۲۔سو ان کے عہد توڑنے پر ہم نے ان کو لعنت کی ، اور کر دئے ان کے دل سیاہ ۔ بدلتے ہیں کلام کو اپنے ٹھکانے سے ، اور بھول گئے ایک فائدہ لینا اس نصیحت سے جو ان کو کی تھی ۔ اور ہمیشہ تو خبر پاتا ہے ان کی ، ایک دغا کی ، مگر تھوڑے لوگ ان میں ، سو معاف کر اور درگذر ان سے ۔ اللہ چاہتا ہے نیکی والوں کو۔ ۱۳۔اور ہو جو کہتے ہیں آپ کو نصاریٰ ، ان سے بھی لیا تھا ہم نے عہد ان کا ، پھر بھول گئے ایک فائدہ لینا، اس نصیحت سے جو ان کو کی تھی ، پھر ہم نے لگا دی آپس میں د شمنی اور کہنہ قیامت کے دن تک ۔ اور آخر جزا دے گا ان کو اللہ جو کچھ کرتے تھے ۔۱۴۔ (شاہ عبدالقادرؒ)

            ۲۔ اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا اور ہم نے ان میں سے بارہ سردار مقرر کیے اور اللہ تعالیٰ نے یوں فرما دیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز کی پابندی رکھو گے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو گے اور میرے سب رسولوں پر ایمان لاتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو اچھے طور پر قرض دیتے رہو گے تو میں ضرور تمہارے گناہ تم سے دور کر دوں گا اور ضرور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے کو نہریں جاری ہوں گی اور جو شخص اس کے بعد بھی کفر کرے گا تو وہ بیشک راہ راست سے دور جا پڑا۔۱۲۔تو صرف ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کر دیا اور ہم نے ان کے قلوب کو سخت کر دیا وہ لوگ کلام کو اس کے مواقع سے بلدتے ہیں اور وہ لوگ جو کچھ ان کو نصیحت کی گئی تھی اس میں سے ایک بڑا حصہ فوت کر بیٹھے اور آپ کو آئے دن کسی نہ کسی نئی خیانت کی اطلاع ہوتی رہتی ہے ، جو ان سے صادر ہوتی ہے بجز ان میں کے معدو دے چند شخصوں کے سوا آپ کو معاف کر دیجیے اور ان سے در گزر کیجئے بلا شبہ اللہ تعالیٰ خوش معاملہ لوگوں سے محبت کرتا ہے ۔ ۱۳۔اور جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ میں ہم نے ان سے بھی ان کا عہد لیا تھا سو وہ بھی جو کچھ ان کو نصیحت کی گئی تھی اس میں سے اپنا ایک بڑا حصہ فوت کر بیٹھے تو ہم نے ان میں باہم قیامت تک کے لیے بغض و عداوت ڈال دی اور ان کو اللہ تعالیٰ ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے ۔ ۱۴۔ (مولانا تھانویؒ)

            ۳۔ اور بے شک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ، اور ہم نے ان میں بارہ سردار قائم کیے ، اور اللہ نے فرمایا بے شک میں ، تمہارے ساتھ ہوں ضرور اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو ، بے شک میں تمہارے گناہ اتار دوں گا اور ضرور تمہیں باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں پھر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے وہ ضرور سیدھی راہ سے بہکا۔۱۲۔تو ان کی کیسی بد عہدیوں ، پر ہم نے انہیں لعنت کی اور ان کے دل سخت کر دیئے اللہ کی باتوں کو ، ان کے ٹھکانوں سے بدلتے ہیں اور بھلا بیٹھے بڑا حصہ ان نصیحتوں کا جو انہیں دی گئیں ، اور تم ہمیشہ ان کی ایک نہ ایک دغا پر مطلع ہوتے رہو گے ، سوا تھوڑوں کے ، تو انہیں معاف کر دو اور ان سے در گزر ، بے شک احسان والے اللہ کو محبوب ہیں۔ ۱۳۔اور وہ جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نصاریٰ ہیں ہم نے ان سے عہد لیا، تو وہ بھلا بیٹھے بڑا حصہ ان نصیحتوں کا جو انہیں دی گئیں، تو ہم نے ان کے آپس میں قیامت کے دن تک بیر اور بغض ڈال دیا، اور عنقریب اللہ انہیں بتا دے گا جو کچھ کرتے تھے ۔۱۴۔ (مولانا احمد رضا خانؒ)

            ۴۔ اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لیا ، اور انہیں میں سے بارہ سردار ہم نے مقرر فرمائے اور اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ یقینا میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقینامیں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں، اب اس عہدو پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وہ یقینا راہ راست سے بھٹک گیا۔ ۱۲۔پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر اپنی لعنت نازل فرما دی اور ان کے دل شخت کر دیئے کہ وہ کلام کو اس کی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں اور جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے ، ان کی ایک نہ ایک خیانت پر تجھے اطلاع ملتی ہی رہے گی ، ہاں تھوڑے سے ایسے نہیں بھی ہیں پس تو انہیں معاف کر تا جا اور درگزر کرتا رہ ، بے شک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔۱۳۔اور جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں، ہم نے ان سے بھی عہد و پیمان لیا انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض و عداوت ڈال دی جو تا قیامت رہے گی ، اور جو کچھ یہ کرتے تھے عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں سب بتا دے گا۔ ۱۴۔ (مولاناجوناگڑھیؒ)

            ۵۔ اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا ، اور ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ ‘‘میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اورا پنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں ’’ تم سے زائل کرد وں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل گم کر دی۔ (۱۲) پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کہ وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا الٹ پھیر کر کے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں ، جو تعلیم انہیں دی گئی تھی اس کا بڑا حصہ بھول چکے ہیں ، اور آئے دن تمہیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں۔ (پس جب یہ اس حال کو پہنچ چکے ہیں تو جو شرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں) لہذا انہیں معاف کر دو اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو، اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش رکھتے ہیں۔ (۱۳) اسی طرح ہم نے ان لوگوں سے بھی پختہ عہد لیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم ‘‘نصاری’’ ہیں ، مگر ان کو بھی جو سبق یاد کرایا گیا تھا اس کا ایک بڑا حصہ انہوں نے فراموش کر دیا ، آخرکار ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے دشمنی اور آپس کے بغض و عناد کا بیج بو دیا ، اور ضرور ایک وقت آئے گا جب اللہ انہیں بتائے گا کہ وہ دنیا میں کیا بناتے رہے ہیں۔ (۱۴) (مولانا مودودیؒ)

            ۶۔ اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیب مامور کیے اور اللہ نے ان سے وعدہ کیا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں ۔اگر تم نماز کا اہتمام رکھو گے ،زکوٰۃ دیتے رہو گے ،میرے رسولوں پر ایمان لاؤ گے ،ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ کو قرض حسن دیتے رہو گے تو میں تم سے تمھارے گناہ دور کر دوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا ،جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔پس جو اس کے بعد بھی تم میں سے کفر کر ے گا تو وہ اصل شاہراہ سے بھٹک گیا (۱۲)پس ان کے اپنے عہد کو توڑ دینے کے سبب سے ہم نے ان پر لعنت کر دی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا ۔وہ کلام کو اس کے موقع و محل سے ہٹاتے ہیں اور جس چیز کے ذریعے سے ان کو یاد دہانی کی گئی تھی اس کا ایک حصہ وہ بھلا بیٹھے اور تم برابر ان کی کسی نہ کسی خیانت سے آگاہ ہوتے رہو گے ۔پس تھوڑے سے ان میں سے اس سے مستشنیٰ ہیں ۔پس ان کو معاف کرو اور ا ن سے درگزر کرو ۔اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے (۱۳)اور جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ،ہم نے ان سے بھی عہد لیا تو جس چیز کے ذریعے سے ان کو یاد دہانی کی گئی و ہ اس کا ایک حصہ بھلا بیٹھے تو ہم نے قیامت تک کے لیے ان کے درمیان عداوت اور بغض کی آگ بھڑکا دی اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں عنقریب اللہ اس سے ان کو آگاہ کرے گا ۔(۱۴)(مولاناامین احسن اصلاحیؒ)

            ۷۔ اللہ نے (اِسی طرح) بنی اسرائیل سے بھی عہد لیا تھا اور (اُس کی نگرانی کے لیے) اُن میں سے بارہ نقیب اُن پر مقرر کیے تھے اوراللہ نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمھارے ساتھ رہوں گا۔ اگر تم نے نماز کا اہتمام کیا اور زکوٰۃ ادا کی اور میرے رسولوں کو مانا اور اُن کی مدد کی اور اپنے پروردگار کو قرض دیتے رہے، اچھا قرض تو یقین رکھو کہ میں تمھاری لغزشیں تم سے دور کردوں گا اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ پھر اِس (عہد و میثاق) کے بعد بھی جو تم میں سے منکر ہوں تو (اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ)وہ سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں۔ (۱۲) سو اپنے اِس عہد کو توڑ دینے ہی کی وجہ سے ہم نے اِن پر لعنت کی اور اِن کے دل سخت کر دیے۔ (اب اِن کی حالت یہ ہے کہ) یہ کلام کو اُس کے موقع و محل سے ہٹا دیتے ہیں اور جس چیز کے ذریعے سے اِنھیں یاددہانی کی گئی تھی ، اُسے بھلا بیٹھے ہیں اور (یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ) آئے دن تم اِن کی کسی نہ کسی خیانت کی خبر پاتے ہو۔ اِن میں سے بہت تھوڑے ہیں جو اِن چیزوں سے بچے ہوئے ہیں۔ (اِن سے اب تم کسی خیر کی توقع نہیں کر سکتے)، اِس لیے معاف کرو، (اے پیغمبر) اور اِن سے درگذر کرتے رہو(اوریاد رکھو کہ) اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔(۱۳) (اِسی طرح) ہم نے اُن سے بھی عہد لیا تھا جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔پھر جس چیز کے ذریعے سے اُنھیں یاددہانی کی گئی، اُس کا ایک حصہ وہ بھی بھلا بیٹھے تو ہم نے قیامت تک کے لیے اُن کے درمیان بغض و عداوت کی آگ بھڑکا دی۔(وہ اُسی میں جل رہے ہیں) اور اللہ عنقریب اُنھیں بتا دے گا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔(۱۴) (محترم جاوید احمد غامدی)

تفاسیر
نظم کلام

‘‘یہود و نصاریٰ سے جو عہد لیا گیا تھا آگے اس کا ذکر فرمایا ہے اور اس عہد کو توڑ کر وہ جن نتائج سے دوچار ہوئے بالاجمال ان کی طرف بھی اشارہ ہے۔ مقصود اس سے مسلمانوں کو متنبہ کرنا ہے کہ اب تم سے جو عہد لیا جا رہا ہے یہ بھی اسی نوعیت کا عہد ہے اور اگر تم نے بھی اس عہد کے ساتھ وہی معاملہ کیا جو یہود و نصاریٰ نے کیا تو تمھارے سامنے بھی وہی نتیجہ آئے گا جو ان کے سامنے آیا۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۳ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

ولقد اخذ اللّٰہ…… سوآء السبیل

‘نقیب’ کا مفہوم

‘‘نقیب کے معنی ہیں کھوج لگانے والا، معاملات کی ٹوہ میں رہنے والا، لوگوں کے حالات کی جستجو کرنے والا۔ یہیں سے یہ قوم اور قبیلہ کے سردار، نگران، ذمہ دار افسر اور مانٹیر کے معنی میں استعمال ہوا۔ اس لیے کہ نگرانوں اور مانٹیروں کا اصلی کام لوگوں کے حالات کی نگرانی اور ان کی محافظت ہی ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے شریعت کی پابندی اور اس کی حفاظت کا عہد لینے کے بعد بنی اسرائیل کے ہرقبیلے پر ایک ایک نقیب اس مقصد سے مقرر کیا کہ وہ لوگوں کی نگرانی رکھے کہ وہ شریعت کے حدود و قیود کی پابندی کریں۔ بنی اسرائیل کے قبیلے چونکہ بارہ تھے۔ اس وجہ سے نقیب بھی بارہ مقرر ہوئے۔ ان کا تقرر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت کیا تھا اس وجہ سے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۴ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘نقیب کے معنی نگرانی اور تفتیش کرنے والے کے ہیں۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر قبیلہ پر ایک ایک نقیب خود اسی قبیلہ سے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اورانھیں بے دینی و بداخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے۔ بائیبل کی کتاب گنتی میں بارہ ‘‘سرداروں’’ کا ذکر موجود ہے، مگر ان کی وہ حیثیت جو یہاں لفظ ‘‘نقیب’’ سے قرآن میں بیان کی گئی ہے ، بائیبل کے بیان سے ظاہر نہیں ہوتی۔ بائیبل انھیں صرف رئیسوں اور سرداروں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور قرآن ان کی حیثیت اخلاقی و دینی نگرانِ کار کی قرار دیتا ہے۔’’(تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص ۴۵۱، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)

‘‘ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے بارہ سردار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چن لیے تھے جن کے نام بھی مفسرین نے تورات سے نقل کیے ہیں، ان کا فرض یہ تھا کہ وہ اپنی قوم پر عہد پورا کرنے کی تاکید اور ان کے احوال کی نگرانی رکھیں۔ عجب اتفاق یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے جب ‘‘انصار’’ نے ‘‘لیلۃ العقبہ’’ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو ان میں سے بھی بارہ ہی ‘‘نقیب’’ نامزد ہوئے۔ ان ہی بارہ آدمیوں نے اپنی قوم کی طرف سے حضوؐر کے دستِ مبارک پر بیعت کی تھی۔ جابرؓ بن سمرہ کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اُمت کے متعلق جو بارہ خلفاء کی پیشین گوئی فرمائی ان کا عدد بھی ‘‘نقبائے بنی اسرائیل’’ کے عدد کے موافق ہے اور مفسرین نے تورات سے نقل کیا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ‘‘میں تیری ذُریت میں سے بارہ سردار پیدا کروں گا’’۔ غالباً یہ وہی ‘‘بارہ’’ہیں جن کا ذکر جابرؓ بن سمرہ کی حدیث میں ہے۔’’(تفسیر عثمانی ، ص ۱۴۵ ، پاک کمپنی لاہور)

ولقد اخذ اللہ میثاق۔۔۔۔۔ ضل سواء السبیل

بنی اسرائیل سے میثاق

‘‘وقال اللّٰہ انی معکم ایک جامع تعبیر ہے، خدا کی تائید و نصرت کے وعدے کی۔ ظاہر ہے کہ جن کے ساتھ خدا ہو ان کے ساتھ خدا کی پوری کائنات ہے۔لئن اقمتم الصلوٰۃ واتیتم الزکٰوۃسے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اُمت مسلمہ کے میثاق میں نماز اور زکوٰۃ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اسی طرح بنی اسرائیل کے میثاق میں بھی ان کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔وامنتم برسلی،میں یوں تو بعد میں آنے والے تمام انبیاء کی طرف اشارہ ہے لیکن اس میں خاص اشارہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے جن کا ذکر تورات میں نہایت نمایاں علامات کے ساتھ ہوا ہے۔واقرضتم اللّٰہ قرضاً حسناً میں جس انفاق کا ذکر ہے یہ زکوٰۃ کے مقررہ نصاب سے الگ ہے۔ اس سے مراد وہ انفاق ہے جو جہاد فی سبیل اللہ اور اس قسم کے کسی اور دینی و ملّی و اجتماعی مقصد کے لیے کیا جائے۔ اکفرن عنکم سیاتکم میں سیئات سے مراد لغزشیں اور کوتاہیاں ہیں، اگر دین کی بنیادی باتوں کا اہتمام کیا جائے تو بندے سے جو چھوٹی موٹی غلطیاں صادرہوجاتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دیتا ہے۔ فمن کفر بعد ذٰلک یہ ٹکڑا بھی معاہدے کا جزو ہے یعنی اس عہد اور اس عہد کی حفاظت کے اس اہتمام کے باوجود جس کا ذکر ہوا اگر کسی نے اس معاہدے سے انحراف اختیار کیا تو وہ خدا کی شاہراہ سے بھٹک گیا۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ اس عہد سے انحراف کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۵ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

و اقرضتم اللہ قرضا حسنا

‘‘خدا کو قرض دینے سے مراد اس کے دین اور اس کے پیغمبروں کی حمایت میں مال خرچ کرنا ہے۔ جس طرح روپیہ قرض دینے والا اس اُمید پر دیتا ہے کہ اس کا روپیہ واپس مل جائے گا اور قرض لینے والا اس کے ادا کرنے کو اپنے ذمہ پر لازم کرلیتا ہے، اسی طرح خدا ہی کی دی ہوئی جو چیز یہاں اسی کے راستہ میں خرچ کی جائے گی وہ ہرگز گم یا کم نہیں ہوگی، حق تعالیٰ نے کسی مجبوری سے نہیں محض اپنے فضل و رحمت سے اپنے ذمہ لازم کرلیا ہے کہ وہ چیز تم کو عظیم الشان نفع کی صورت میں واپس کردے۔‘‘اچھی طرح’’ سے مراد یہ ہے کہ اخلاص سے دو اور اپنے محبوب و مرغوب اور پاک و صاف مال میں سے دو۔’’ (تفسیر عثمانی ، ص ۱۴۵، پاک کمپنی لاہور)

لا کفرن عنکم سیاتکم

‘‘کسی سے اُس کی برائیاں زائل کر دینے کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ راہِ راست کو اختیار کرنے اور خدا کی ہدایت کے مطابق فکروعمل کے صحیح طریقے پر چلنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان کا نفس بہت سی برائیوں سے، اور اس کا طرزِ زندگی بہت سی خرابیوں سے پاک ہوتا چلا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ اس اصلاح کے باوجود اگر کوئی شخص بحیثیت مجموعی کمال کے مرتبے کو نہ پہنچ سکے اور کچھ نہ کچھ برائیاں اس کے اندر باقی رہ جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان پر مواخذہ نہ فرمائے گا اور ان کو اس کے حساب سے ساقط کر دے گا ، کیونکہ جس نے اساسی ہدایت اور بنیادی اِصلاح قبول کر لی ہو اس کی جزئی اور ضمنی برائیوں کا حساب لینے میں اللہ تعالیٰ سخت گیر نہیں ہے’’۔(تفہیم القرآن، جلد۱، ص ۴۵۱ ، مکتبہ تعمیر انسانیت ۔ لاہور )

فبما نقضھم میثاقھم لعنھم…… یحب المحسنین

یہود کی عہدشکنی کے نتائج

‘‘ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ معاہدہ کرکے اس کو جس درجے کی عزت و سرفرازی بخشتا ہے، معاہدہ توڑدینے کی صورت میں وہ اس کو اسی درجے کی ذلت کے ساتھ دھتکار بھی دیتا ہے۔ اس دھتکارنے کے لیے جامع تعبیر لعنت ہے۔ راندۂ درگاہ ہونے کا پہلا اثر جو اس قوم پر پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے اندر سے خدا کی خشیت، جو دل کی زندگی کی ضامن ہے، ختم ہوجاتی ہے اور دل پتھر ہوکر توبہ و انابت کی روئیدگی کے لیے بالکل بنجر ہوجاتا ہے۔ یہ حالت پیدا تو ہوتی ہے عہدشکن قوم کے اپنے عمل کے نتیجہ کے طور پر لیکن چونکہ واقع ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی مقررہ سنت کے مطابق اس وجہ سے اس کو منسوب اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمایا ہے۔ یہ قساوت عہدشکن قوم کے اندر جسارت پیدا کرتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ میثاق الٰہی کی خلاف ورزی ہی پر بس نہیں کرتی بلکہ وہ اس معاہدے کو اپنی خواہشات کے مطابق بنانے کے لیے اس کے الفاظ و کلمات کی تحریف بھی کرتی ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۶ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

فنسوا حظاً مما ذکروا بہ

‘‘ اور وہ بھلا بیٹھے۔ اس چیز کا ایک حصہ جس کے ذریعے سے ان کو یاد دہانی کی گئی تھی، ‘‘جس کے ذریعے سے یاد دہانی کی گئی تھی’’ سے مراد ہمارے نزدیک تورات ہے اس لیے کہ اسی کے اندر میثاق الٰہی کا سارا ریکارڈ محفوظ کیا گیا تھا اور وہ اسی لیے محفوظ کیا گیا تھا کہ بنی اسرائیل اور ان کی آئندہ نسلوں کے لیے ایک قابلِ اعتماد یادداشت کا کام دے لیکن جب وہ اس یادداشت ہی کا ایک حصہ بھلا بیٹھے تو اب ان کے پاس ایسی کیا چیز رہ گئی تھی جو ان کو یاد دہانی کرا سکتی۔ گھر کا چراغ ہی ہوتا ہے جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ اگر اسی کو بجھا دیا جائے یا چھپا دیا جائے تو اب دوسری کون سی چیز اُجالا کرے گی۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۶ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ حظّاً کی تنکیر تعظیم کے لیے ہے، یعنی اپنی کتاب کا بہت اہم حصہ فراموش کر دیا۔ ان کے انبیاء نے حضور رحمت عالمیاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کا جو بار بار انھیں حکم دیا تھا انھوں نے اُس بھلا دیا۔ حضوؐر کی تعریف و توصیف سے اُن کی کتابوں کے صفحات مزین تھے ان کو بھی فراموش کر دیا۔’’(ضیا القرآن ،ج ۱ ، ص ۴۵۱، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

ولا تزالُ تطلع علٰی خآئنۃٍ منھم

‘‘خائنۃ کے معنی خیانت کے ہیں جس طرح لائمۃ کے معنی ملامت کے۔ خیانت، بدعہدی اور عہدشکنی کے لیے عربی میں نہایت معروف ہے۔ قرآن نے یہود کی بہت سی بدعہدیوں اور ان کی تحریفات سے پردہ اُٹھایا ہے ۔قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ان کی صرف انھی تحریفات سے تعرض کیا ہے جن سے تعرض تجدید شریعت کے نقطۂ نظر سے ضروری تھا، جن سے تعرض ضروری نہیں تھا ان کو نظرانداز کردیا ہے اور ان کی مقدار بھی کم نہیں ہے، بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ آگے آیت ۱۵ میں ارشاد ہے: یبین لکم کثیرا مما کنتم تخفون من الکتب ویعفوا عن کثیر، (اور وہ تمھارے لیے ظاہر کررہا ہے بہت سی وہ چیزیں تورات کی جن کو تم چھپاتے تھے اور بہت سی چیزیں نظرانداز کر رہا ہے)۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۷ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

الا قلیلا منھم

‘‘ یہود کے اس مختصر گروہ کی طرف اشارہ ہے جو نقضِ عہد اور اس کے مذکورہ بالا نتائج سے محفوظ رہا ہے۔ اگرچہ یہ گروہ نہ تو اپنی قوم کو فتنوں سے بچا سکا نہ تورات کو شریروں کی دستبرد سے۔ تاہم یہ لوگ اپنے علم کے حد تک اصل شریعت پر قائم اور اس کی گواہی دیتے رہے۔ صالحین کا یہی گروہ ہے جس نے اسلام کا بھی خیرمقدم کیا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۷ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

فاعف عنھم واصفح

‘‘ عفو و صفح سے مراد دل سے معاف کرنا نہیں بلکہ مجرد درگزر کرنا ہے۔ عفو کے اس معنی کے لیے نظیر آیت ۱۵ کے اس ٹکڑے میں بھی ہے جو اُوپر ہم نے نقل کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ابھی ان کو نظرانداز کرو اور مہلت دو۔ ان سے نمٹنے کا زمانہ آگے آئے گا۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۷ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

ومن الذین قالوا…… بما کانوا یصنعون

نصاریٰ کی عہدشکنی کے نتائج

‘‘یہود کے نقضِ عہد کے بعد اب یہ نصاریٰ کے نقصِ عہد کا ذکر ہو رہا ہے اور ان کے ذکر کی تمہید ہی اس انداز سے اٹھائی ہے جس سے مترشح ہو رہا ہے کہ یہ نصاریٰ قرآن کے نزدیک نصاریٰ نہیں بلکہ صرف نصاریٰ ہونے کے مدعی ہیں۔ چنانچہ واقعہ یہی ہے کہ پال کے متبعین کو نہ صرف یہ کہ اصل نصرانیت سے کوئی علاقہ نہیں ہے بلکہ انھوں نے تو اپنا نام بھی بدل لیا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۸ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

فاغرینا بینھم العداوۃ

‘‘ یہ نتیجہ بیان ہوا ہے کتابِ الٰہی میں تحریف اور اس کے ایک حصے کو ضائع کر دینے کا۔ نصاریٰ کے لیے اس سے نجات کی واحد شکل یہ تھی کہ قرآن کی رہنمائی میں ان تاریکیوں سے نکل کر ہدایت کی روشنی اور امن و سلامتی کی شاہراہ پر آجاتے لیکن ان کے تعصب نے ان کو یہ سیدھی راہ اختیار نہ کرنے دی۔ اب نہ کوئی کتاب آنی ہے اور نہ کوئی رسول، اس وجہ سے اس جنگ و جدل سے نکلنے کا، اب ان کے لیے قیامت تک کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۸ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘اغراء کہتے ہیں کسی چیز کو کسی پر چسپاں کرنا مسلط کر دینا۔ الاغراء بالشیی الا لصاق بہ من جھۃ التسلیط علیہ’’( ضیا القرآن ،ج۱، ص ۴۵۲، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

فاغرینا بینہم العداوۃ و البغضا ء الی یوم القیامۃ

‘‘ یعنی جب تک وہ رہیں گے یہ اختلاف اور بُغض و عناد بھی ہمیشہ رہے گا۔ یہاں ‘‘قیامت تک’’ کا لفظ ایسا ہے جیسے ہمارے محاورات میں کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص تو قیامت تک بھی فلاں حرکت سے باز نہ آئے گا۔ اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ شخص قیامت تک زندہ رہے گا اور یہ حرکت کرتا رہے گا۔ مراد یہ ہے کہ اگر قیامت تک بھی زندہ رہے تو اس بات کو نہ چھوڑے گا۔ اسی طرح آیت میں الٰی یوم القیامۃ کا لفظ آنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ‘‘یہود و نصاریٰ’’ کا وجود قیامت تک رہے جیساکہ ہمارے زمانے کے بعض مبطلین نے اپنی تفسیر میں لکھ دیا ہے۔’’( تفسیر عثمانی ، ص ۱۴۵ ، پاک کمپنی لاہور)

وسوف ینبھم اللّٰہ

‘‘ یہ دھمکی ہے، یعنی عنقریب وہ وقت آئے گا جب اللہ ان کی یہ تمام کارستانیاں ان کے سامنے رکھ دے گا اور وہ اپنی ان تمام شرارتوں کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔ نقضِ عہد کی یہ تاریخ مسلمانوں کو محض ماضی کی ایک سرگزشت کی حیثیت سے نہیں سنائی جارہی ہے بلکہ اس لیے سنائی جارہی ہے کہ مسلمان اس سے سبق لیں اور یاد رکھیں کہ اگر انھوں نے بھی اپنے میثاق کے ساتھ وہی معاملہ کیا جو یہود و نصاریٰ نے کیا تو ان کا بھی وہی حشر ہوگا جو یہود و نصاریٰ کا ہوا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۸ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

مترجمین: ۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ، ۵۔ سیدّابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاویداحمد غامدی

تفاسیرومفسرین: ۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی، ۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیع ؒ ، ۳۔خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ، ۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ، ۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ، ۶۔ ضیا ء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہری ؒ ، ۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی، ۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی

٭٭٭