سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : ستمبر 2012

قسط ۹۳

نورالقرآن

 سات تراجم ، نو تفاسیر

محمد صدیق بخاری

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

سورۃ نسا

آیات ۸۶۔۔۔۱۰۰

وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْرُدُّوْھَا ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا ہالنصف ۸۶ اَللّٰہُ لَا ٓ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ط لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ ط وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا ہع ۸۷ فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَاللّٰہُ اَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا ط اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَھْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰہُ ط وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلاً ہ۸۸ وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآءً فَلاَ تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآءَ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْھُمْ وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ ص وَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا ہلا ۸۹ اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰی قَوْمٍ م بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِّیْثَاق‘’ اَوْجَآءُ وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُھُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَھُمْ ط وَ لَوْشَآءَ اللّٰہُ لَسَلَّطَھُمْ عَلَیْکُمْ فَلَقٰتَلُوْکُمْ ج فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَاَلْقَوْا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ لا فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْھِمْ سَبِیْلاً ہ۹۰ سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّاْمَنُوْکُمْ وَیَاْمَنُوْا قَوْمَھُمْ ط کُلَّمَا رُدُّوْٓا اِلَی الْفِتْنَۃِ اُرْکِسُوْا فِیْھَا ج فَِانْ لَّمْ یَعْتَزِلُوْکُمْ وَیُلْقُوْٓا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ وَیَکُفُّوْٓااَیْدِیَھُمْ فَخُذُوْھُمْ وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ ط وَاُولٰٓئِکُمْ جَعَلْنَا لَکُمْ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا ہع ۹۱ وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّاخَطَأً ج وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِیَۃ‘’ مُّسَلَّمَۃ‘’ اِلٰٓی اَھْلِہٖٓ اِلَّا ٓ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا ط فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ وَھُوَ مُؤْمِن‘’ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ط وَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ م بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِّیْثَاق‘’ فَدِیَۃ‘’ مُّسَلَّمَۃ‘’ اِلٰٓی اَھْلِہٖ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ج فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ ز تَوْبَۃً مِّنَ اللّٰہِ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ہ۹۲ وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا ہ۹۳ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا ج تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ز فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃ‘’ ط کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عََلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ہ۹۴ لَایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ ط فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً ط وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ط وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا ہلا ۹۵ دَرَجٰتٍ مِّنْہُ وَمَغْفِرَۃً وَّرَحْمَۃً ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ہع ۹۶ اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ ط قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ ط قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا ط فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰئھُمْ جَھَنَّمُ ط وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا ہلا ۹۷ اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّ لَا یَھْتَدُوْنَ سَبِیْلاً ہلا ۹۸ فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْھُمْ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا ہ۹۹ وَمَنْ یُّھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً ط وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ م بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ہع ۱۰۰

تراجم

            ۱۔ اور جب تم کو دعا دیوے کوئی، تو تم بھی دعا دو اس سے بہتر، یا وہی کہو الٹ کر ۔ اللہ ہے ہر چیز کا حساب کرنے والا(۸۶) اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں۔ تم کو جمع کرے گا قیامت کے دن، اس میں شک نہیں۔ اور اللہ سے سچی کس کی بات؟(۸۷) پھر تم کو کیا پڑا ہے؟ منافقوں کے واسطے دو جانب ہو رہے ہو، اور اللہ نے ان کو الٹ دیا ان کے کاموں پر، کیا تم چاہتے ہو کہ راہ پر لاؤ جس کو بچلایا اللہ نے، اور جس کو اللہ راہ نہ دے، پھر تو نہ پاوے اس کے واسطے کہیں راہ(۸۸) چاہتے ہیں کہ تم بھی کافر ہو، جیسے وہ ہوئے، پھر سب برابر ہو جاؤ، سو تم ان میں کسی کو مت پکڑو رفیق، جب تک وطن چھوڑ آویں اللہ کی راہ میں۔ پھر اگر قبول نہ رکھیں، تو ان کو پکڑو اور مارو جہاں پاؤ۔ اور نہ ٹھہراؤ کسی کو رفیق، اور نہ مددگار(۸۹) مگر وہ جو مل رہے ہیں ایک قوم سے، جن میں اور تم میں عہد ہے، یا آئے ہیں تمھارے پاس،خفا ہو گئے دل اُن کے، تمھارے لڑنے سے، اور اپنی قوم کے لڑنے سے بھی۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ا ن کو تم پر زور دیتا، پھر تم سے لڑتے۔ تو اگر تم سے کنارہ پکڑیں، پھر نہ لڑیں، اور تمھاری طرف صلح لاویں، تو اللہ نے نہیں دی تم کو اُن پر راہ(۹۰) اب تم دیکھو گے ایک اور لوگ چاہتے ہیں کہ امن میں رہیں تم سے بھی، اور اپنی قوم سے بھی۔ جس بار بلائے جاتے ہیں فساد کرنے کو، الٹ جاتے ہیں فساد کرنے کو، الٹ جاتے ہیں اس ہنگامہ میں۔ پھر اگر تم سے کنارہ نہ پکڑیں اور صلح نہ لاویں، اور اپنے ہاتھ نہ روکیں، تو ان کو پکڑو اور مارو جہاں پاؤ، اور اُن پر ہم نے ملا دی تم کو سند صریح(۹۱) اور مسلمان کا کام نہیں کہ مار ڈالے مسلمان کو، مگر چوک کر۔ اور جن نے مارا مسلمان کو چوک کر، تو آزاد کرنی گردن ایک مسلمان کی، اور خون بہا پہنچانی اس کے گھر والوں کو، مگر کہ وہ خیرات کریں (بخش دیں)۔ پھر اگر وہ تھا ایک قوم میں کہ تمھارے دشمن ہیں، اور آپ مسلمان تھا، تو آزاد کرنی گردن ایک مسلمان کی۔ اور اگر وہ تھا ایک قوم میں کہ تم میں اور اُن میں عہد ہے، تو خون بہا پہنچانی اس کے گھر والوں کو، اور آزاد کرنی گردن ایک مسلمان کی۔ پھر جس کو پیدا نہ ہو تو روزہ دو مہینے لگے تار، بخشوانے کو اللہ سے۔ اور اللہ جانتا سمجھتا ہے(۹۲) اور جو کوئی مارے مسلمان کو قصد کر کر، تو اس کی سزا دوزخ ہے، پڑا رہے اس میں، اور اللہ کا اس پر غضب ہوا، اور اس کو لعنت کی، اور اس کے واسطے تیار کیا بڑا عذاب(۹۳) اے ایمان والو! جب سفر کرو اللہ کی راہ میں، تو تحقیق کرو، اور مت کہو جو شخص تمھاری طرف سلام علیک کرے، کہ تو مسلمان نہیں۔ چاہتے ہو مال دنیا کی زندگی کا، تو اللہ کے ہاں بہت غنیمتیں ہیں۔ تم ایسے ہی تھے پہلے، پھر اللہ نے تم پر فضل کیا، سو اب تحقیق کرو۔ اللہ تمھارے کام سے واقف ہے(۹۴) برابر نہیں بیٹھنے والے مسلمان جن کو بدن کا نقصان نہیں، اور لڑنے والے اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اور جان سے۔ اللہ نے بڑائی دی لڑنے والوں کو اپنے مال اور جان سے، ان پر جو بیٹھتے ہیں درجہ ہیں۔ اور سب کو وعدہ دیا اللہ نے خوبی کا۔ اور زیادہ کیا اللہ نے، لڑنے والوں کو بیٹھنے والوں سے، بڑے ثواب ہیں(۹۵) بہت درجوں میں اپنے ہاں کے، اور بخشش میں اور مہربانی میں۔ اور اللہ ہے بخشنے والا مہربان(۹۶) جن لوگوں کی جان کھینچتے ہیں فرشتے اس حال میں کہ وہ برا کر رہے ہیں اپنا، کہتے ہیں تم کس بات میں تھے؟ وہ کہتے ہیں: ہم تھے مغلوب، اس ملک میں۔ کہتے ہیں، کیا نہ تھی زمین اللہ کی کشادہ، کہ وطن چھوڑ جاؤ وہاں۔ سو ایسوں کا ٹھکانا ہے دوزخ، اور بہت بری جگہ پہنچے(۹۷) مگر جو ہیں بے بس مرد اور عورتیں اور لڑکے، نہ کر سکتے ہیں تلاش، اور نہ جانتے ہیں راہ(۹۸) سو ایسوں کو امید ہے کہ اللہ معاف کرے اور اللہ ہے معاف کرنے والا بخشتا(۹۹) اور جو کوئی وطن چھوڑے اللہ کی راہ میں، پاوے اس کے مقابلہ میں جگہ بہت اور کشایش۔ اور جو کوئی نکلے اپنے گھر سے، وطن چھوڑ کر اللہ اور رسول کی طرف، پھر آ پکڑے اس کو موت، سو ٹھہر چکا اس کا ثواب اللہ پر۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے(۱۰۰) (شاہ عبدالقادرؒ)

            ۲۔ اور جب تم کو کوئی (مشروع طور پر) سلام کرے تو تم اس سلام سے اچھے الفاظ میں سلام کرو یا ویسے ہی الفاظ کہہ دو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر حساب لیں گے(۸۶) اللہ ایسے ہیں کہ ان کے سوا کوئی معبود ہونے کے قابل نہیں، وہ ضرور تم سب کو جمع کریں گے قیامت کے دن۔ میں اس میں کوئی شبہ نہیں اور خدا تعالیٰ سے زیادہ کس کی بات سچی ہو گی(۸۷) پھر تم کو کیا ہوا کہ ان منافقوں کے باب میں تم دو گروہ ہو گئے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو الٹا پھیر دیا ان کے (بد) عمل کے سبب۔ کیا تم لوگ اس کا ارادہ رکھتے ہو کہ ایسے لوگوں کو ہدایت کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے گمراہی میں ڈال رکھا ہے اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دیں، اس کے لیے کوئی سبیل نہ پاؤ گے(۸۸) وہ اس تمنا میں ہیں کہ جیسے وہ کافر ہیں تم بھی کافر بن جاؤ جس میں تم اور وہ سب ایک طرح کے ہو جاؤ سو ان میں سے کسی کو دوست مت بنانا جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں اور اگر وہ اعراض کریں تو ان کو پکڑو اور قتل کرو جس جگہ ان کو پاؤ۔ اور نہ ان میں کسی کو دوست بناؤ اور نہ مددگار بناؤ(۸۹) مگر جو لوگ ایسے ہیں جو کہ ایسے لوگوں سے جا ملتے ہیں کہ تمھارے اور ان کے درمیان عہد ہے یا خود تمھارے پاس اس حالت سے آویں کہ ان کا دل تمھارے ساتھ اور نیز اپنی قوم کے ساتھ لڑنے سے منقبض ہو اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کر دیتا پھر وہ تم سے لڑنے لگتے پھر اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں یعنی تم سے نہ لڑیں اور تم سے سلامت روی رکھیں تو اللہ تعالیٰ نے تم کو ان پر کوئی راہ نہیں دی(۹۰) بعضے ایسے بھی تم کو ضرور ملیں گے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم سے بھی بے خطر ہو کر رہیں اور اپنی قوم سے بھی بے خطر ہو کر رہیں جب کبھی ان کو شرارت کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے تو وہ اس میں جا گرتے ہیں سو یہ لوگ اگر تم سے کنارہ کش نہ ہوں اور نہ تم سے سلامت روی رکھیں اور نہ اپنے ہاتھوں کو روکیں تو تم ان کو پکڑو اور قتل کرو جہاں کہیں ان کو پاؤ اور ہم نے تم کو ان پر صاف حجت دی ہے(۹۱) اور کسی مومن کی شان نہیں کہ وہ کسی مومن کو (ابتداء ً) قتل کرے لیکن غلطی سے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس پر ایک مسلمان غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا ہے اور خون بہا ہے جو اس کے خاندان والوں کو حوالہ کر دی جائے مگر یہ کہ وہ لوگ معاف کر دیں اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو جو تمھارے مخالف ہیں اور وہ شخص خود مومن ہے تو ایک غلام یا لونڈی مسلمان کا آزاد کرنا اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں معاہدہ ہو تو خون بہا ہے جو اس کے خاندان والوں کو حوالہ کر دیا جائے اور ایک غلام یا لونڈی مسلمان کا آزاد کرنا پھر جس شخص کو نہ ملے تو متواتر دو ماہ کے روزے ہیں۔ بطریق توبہ کے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہوئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں(۹۲) اور جو شخص کسی مسلمان کا قصداً قتل کر ڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہنا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ غضب ناک ہوں گے اور اس کو اپنی رحمت سے دور کر دیں گے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے(۹۳) اے ایمان والو، جب تم اللہ کی راہ میں سفر کیا کرو تو ہر کام کو تحقیق کر کے کیا کرو اور ایسے شخص کو جو کہ تمھارے سامنے اطاعت ظاہر کرے دنیوی زندگی کے سامان کی خواہش میں یوں مت کہہ دیا کرو کہ تو مسلمان نہیں کیونکہ خدا کے پاس بہت غنیمت کے مال ہیں پہلے تم بھی ایسے ہی تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا سو غور کرو بے شک اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں(۹۴) برابر نہیں وہ مسلمان جو بلا کسی عذر کے گھر میں بیٹھے رہیں اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کریں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا درجہ بہت زیادہ بنایا ہے جو اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں بہ نسبت گھر میں بیٹھنے والوں کے اور سب سے اللہ تعالیٰ نے اچھے گھر کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو بمقابلہ گھر میں بیٹھنے والوں کے بڑا اجر عظیم دیا ہے(۹۵) یعنی بہت سے درجے جو خدا کی طرف سے ملیں گے اور مغفرت اور رحمت اور اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں(۹۶) بے شک جب ایسے لوگوں کی جان فرشتے قبض کرتے ہیں جنھوں نے اپنے کو گنہگار کر رکھا تھا تو وہ ان سے کہتے ہیں کہ تم کس کام میں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سرزمین میں محض مغلوب تھے۔ وہ کہتے ہیں کیا خدا تعالیٰ کی زمین وسیع نہ تھی۔ تم کو ترک وطن کر کے اس میں چلا جانا چاہیے تھا۔ سو ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور جانے کے لیے وہ بری جگہ ہے(۹۷) لیکن جو مرد اور عورتیں اور بچے قادر نہ ہوں کہ نہ کوئی تدبیر کر سکتے ہیں اور نہ راستہ سے واقف ہیں(۹۸) سو ان کے لیے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف کر دیں اور اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے اور بڑے مغفرت کرنے والے ہیں(۹۹) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرے گا تو اس کو روئے زمین پر جانے کی بہت جگہ ملے گی اور بہت گنجائش اور جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہو کہ اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کروں گا پھر اس کو موت آ پکڑے تب بھی اس کا ثواب ثابت ہو گیا اللہ تعالیٰ کے ذمہ اور اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں بڑے رحمت والے ہیں(۱۰۰) (مولانا تھانویؒ)

            ۳۔ اور جب تمھیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو تم اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا وہی کہہ دو۔ بے شک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے(۸۶) اللہ ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں اور وہ ضرور تمھیں اکٹھا کرے گا قیامت کے دن جس میں کچھ شک نہیں اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی(۸۷) تو تمھیں کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو فریق ہو گئے اور اللہ نے انھیں اوندھا کر دیا ان کے کوتکوں (کرتوتوں) کے سبب۔ کیا یہ چاہتے ہو کہ اسے راہ دکھاؤ جسے اللہ نے گمراہ کیا اور جسے اللہ گمراہ کرے تو ہر گز تو اس کے لیے راہ نہ پائے گا(۸۸) وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ کہیں تم بھی کافر ہو جاؤ جیسے وہ کافر ہوئے تو تم سب ایک سے ہو جاؤ ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک اللہ کی راہ میں گھر بار نہ چھوڑیں۔ پھر اگر وہ منہ پھیریں تو انھیں پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرو اور ان میں کسی کو نہ دوست ٹھہراؤ نہ مددگار(۸۹) مگر وہ جو ایسی قوم سے علاقہ رکھتے ہیں کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے یا تمھارے پاس یوں آئے کہ ان کے دلوں میں سکت نہ رہی کہ تم سے لڑیں یا اپنی قوم سے لڑیں اور اللہ چاہتا تو ضرور انھیں تم پر قابو دیتا تو وہ بے شک تم سے لڑتے پھر اگر وہ تم سے کنارہ کریں اور نہ لڑیں اور صلح کا پیام ڈالیں تو اللہ نے تمھیں ان پر کوئی راہ نہ رکھی(۹۰) اب کچھ اور تم ایسے پاؤ گے جو یہ چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امان میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امان رہیں جب کبھی ان کی قوم انھیں فساد کی طرف پھیرے تو اس پر اوندھے گرتے ہیں پھر اگر وہ تم سے کنارہ نہ کریں اور صلح کی گردن نہ ڈالیں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو انھیں پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرو اور یہ ہیں جن پر ہم نے تمھیں صریح اختیار دیا(۹۱) اور مسلمانوں کو نہیں پہنچتا کہ مسلمان کا خون کرے مگر ہاتھ بہک کر اور جو کسی مسلمان کا نادانستہ قتل کرے تو اس پر ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا ہے اور خون بہا کہ مقتول کے لوگوں کو سپرد کی جائے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں پھر اگر وہ اس قوم سے ہو جو تمھاری دشمن ہے اور خود مسلمان ہے تو صرف ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا اور اگر وہ اس قوم میں ہو کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے تو اس کے لوگوں کو خوں بہا سپرد کی جائے اور ایک مسلمان مملوک آزاد کرنا تو جس کا ہاتھ نہ پہنچے وہ لگا تار دو مہینے کے روزے رکھے یہ اللہ کے یہاں اس کی توبہ ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے(۹۲) اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے تیار رکھا بڑا عذاب(۹۳) اے ایمان والو، جب تم جہاد کو چلو تو تحقیق کر لو اور جو تمھیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو تو مسلمان نہیں تم جیتی دنیا کا اسباب چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بہتیری غنیمتیں ہیں پہلے تم بھی ایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا تو تم پر تحقیق کرنا لازم ہے بے شک اللہ کو تمھارے کاموں کی خبر ہے(۹۴) برابر نہیں وہ مسلمان کہ بے عذر جہاد سے بیٹھ رہیں اور وہ کہ راہ خدا میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں۔ اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کا درجہ بیٹھنے والوں سے بڑا کیا اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا اور اللہ نے جہاد والوں کو بیٹھنے پر بڑے ثواب سے فضیلت دی ہے(۹۵) اس کی طرف سے درجے اور بخشش اور رحمت اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے(۹۶) وہ لوگ جن کی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے ان سے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے۔ کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے۔ کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے تو ایسوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت بری جگہ پلٹنے کی(۹۷) مگر وہ جو دبا لیے گئے مرد اور عورتیں اور بچے جنھیں نہ کوئی تدبیر بن پڑے نہ راستہ جانیں(۹۸) تو قریب ہے اللہ ایسوں کو معاف فرمائے اور اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے(۹۹) اور جو اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ کر نکلے گا وہ زمین میں بہت جگہ اور گنجائش پائے گا اور جو اپنے گھر سے نکلا اللہ و رسول کی طرف ہجرت کرتا۔ پھر اسے موت نے آ لیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ پر ہو گیا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے(۱۰۰) (مولانا احمد رضا خانؒ)

            ۴۔ اور جب تمھیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انھی الفاظ کو لوٹا دو، بے شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے(۸۶) اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود (بر حق) نہیں، وہ تم سب کو یقینا قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں، اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہو گا(۸۷) تمھیں کیا ہو گیا؟ کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو؟ انھیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اوندھا کر دیا ہے۔ اب کیا تم یہ منصوبے باندھ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے گمراہ کیے ہوؤں کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو، جسے اللہ تعالیٰ راہ بھلا دے تُو ہر گز اس کے لیے کوئی راہ نہ پائے گا(۸۸) ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہو جاؤ، پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں، ان میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ، پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو انھیں پکڑو اور قتل کرو جہاں بھی یہ ہاتھ لگ جائیں، خبردار، ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ سمجھ بیٹھنا(۸۹) سوائے ان کے جو اس قوم سے تعلق رکھتے ہوں جن سے تمھارا معاہدہ ہو چکا ہے یا جو تمھارے پاس اس حالت میں آئیں کہ تم سے جنگ کرنے سے بھی تنگ دل ہیں اور اپنی قوم سے بھی جنگ کرنے سے تنگ دل ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انھیں تم پر مسلط کر دیتا اور وہ تم سے یقینا جنگ کرتے، پس اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کشی اختیار کر لیں اور تم سے لڑائی نہ کریں اور تمھاری جانب صلح کا پیغام ڈالیں تو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے ان پر کوئی راہ لڑائی کی نہیں کی(۹۰) تم کچھ اور لوگوں کو ایسا بھی پاؤ گے جن کی (بظاہر) چاہت ہے کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں (لیکن) جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو اوندھے منہ اس میں ڈال دئیے جاتے ہیں، پس اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کشی نہ کریں اور تم سے صلح کی سلسلہ جنبانی نہ کریں اور اپنے ہاتھ نہ روک لیں تو انھیں پکڑو اور مارو جہاں کہیں بھی پا لو، یہی وہ ہیں جن پر ہم نے تمھیں ظاہر حجت عنایت فرمائی(۹۱) کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کر دینا زیبا نہیں مگر غلطی سے ہو جائے (تو اور بات ہے) جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے اس پر ایک مسلمان کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کر دیں۔ اور اگر مقتول تمھاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وہ مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیمان ہے تو خون بہا لازم ہے جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا (بھی ضروری ہے)۔ پس جو نہ پائے اس کے ذمے دو مہینے کے لگاتار روزے ہیں، اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لیے اور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے(۹۲) اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے(۹۳)اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں، تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں، پہلے تم بھی ایسے ہی تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا، لہٰذا تم ضرور تحقیق و تفتیش کر لیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال سے باخبر ہے(۹۴) اپنی جانوں اور مالوں سے خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے۔ اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعدہ دیا ہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے(۹۵) اپنی طرف سے مرتبے کی بھی اور بخشش کی بھی اور رحمت کی بھی۔ اور اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے(۹۶) جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے تو پوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے۔ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں، کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے(۹۷) مگر جو مرد عورتیں اور بچے بے بس ہیں جنھیں نہ تو کسی چارۂ کار کی طاقت اور نہ کسی راستے کا علم ہے(۹۸) بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے درگزر کرے، اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے(۹۹) جو کوئی اللہ کی راہ میں وطن کو چھوڑے گا وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا۔ اور کشادگی بھی، اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف نکل کھڑا ہوا پھر اسے موت نے آ پکڑا تو بھی یقینا اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہو گیا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے(۱۰۰) (مولاناجوناگڑھیؒ)

            ۵۔ اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمھیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اسی طرح، اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے(۸۶) اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ تم سب کو اس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں شبہ نہیں، اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی بات اور کس کی ہو سکتی ہے(۸۷)پھر یہ تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقین کے بارے میں دو رائیں پائی جاتی ہیں، حالانکہ جو برائیاں انھوں نے کمائی ہیں ان کی بدولت اللہ انھیں الٹا پھیر چکا ہے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ جسے اللہ نے ہدایت نہیں بخشی اسے تم ہدایت بخش دو؟ حالانکہ جس کو اللہ نے راستہ سے ہٹا دیا اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے(۸۸) وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہو جائیں۔ لہٰذا ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے نہ آ جائیں، اور اگر وہ ہجرت سے باز رہیں تو جہاں پاؤ انھیں پکڑو اور قتل کرو اور ان میں سے کسی کو اپنا دوست او رمددگار نہ بناؤ(۸۹) البتہ وہ منافق اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جو کسی ایسی قوم سے جا ملیں جس کے ساتھ تمھارا معاہدہ ہے۔ اسی طرح وہ منافق بھی مستثنیٰ ہیں جو تمھارے پاس آتے ہیں اور لڑائی سے دل برداشتہ ہیں، نہ تم سے لڑنا چاہتے ہیں نہ اپنی قوم سے۔ اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کر دیتا اور وہ بھی تم سے لڑتے۔ لہٰذا اگر وہ تم سے کنارہ کش ہو جائیں اور لڑنے سے باز رہیں اور تمھاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمھارے لیے ان پر دست درازی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے(۹۰) ایک اور قسم کے منافق تمھیں ایسے ملیں گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی، مگر جب کبھی فتنہ کاموقع پائیں گے اس میں کود پڑیں گے۔ ایسے لوگ اگر تمھارے مقابلہ سے باز نہ رہیں اور صلح و سلامتی تمھارے آگے پیش نہ کریں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو جہاں وہ ملیں انھیں پکڑو اور مارو، ان پر ہاتھ اٹھانے کے لیے ہم نے تمھیں کھلی حجت دے دی ہے(۹۱)کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے، الاّ یہ کہ اُس سے چوک ہو جائے۔ اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کاکفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو خوں بہا دے، الاّ یہ کہ وہ خوں بہا معاف کر دیں۔ لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمھاری دشمنی ہو تو اس کا کفارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے۔ اور اگر وہ کسی ایسی غیر مسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمھارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خوں بہا دیا جائے گا او رمومن غلام کو آزاد کرنا ہو گا۔ پھر جو غلام نہ پائے وہ پے در پے دو مہینے کے روزے رکھے۔ یہ اس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے اور اللہ علیم و دانا ہے(۹۲) رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے(۹۳)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تو دوست دشمن میں تمیز کرو اور جو تمھاری طرف سلام سے تقدیم کرے اسے فوراً نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔ اگر تم دنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمھارے لیے بہت سے اموال غنیمت ہیں۔ آخر اسی حالت میں تم خود بھی تو اس سے پہلے مبتلا رہ چکے ہو، پھر اللہ نے تم پر احسان کیا، لہٰذا تحقیق سے کام لو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے(۹۴)مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اُس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے(۹۵) اُن کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا او ررحم فرمانے والا ہے(۹۶) جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے(۹۷) ہاں جو مرد، عورتیں اور بچے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے(۹۸) بعید نہیں کہ اللہ انھیں معاف کر دے، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے(۹۹) جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اور بسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا، اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے، پھر راستہ ہی میں اسے موت آ جائے اُس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہو گیا، اللہ بہت بخشش فرمانے والا اور رحیم ہے(۱۰۰) (مولانامودودیؒ)

            ۶۔ اور جب تمھیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم بھی سلامتی کی اس سے بہتر دعا دو یا اسی کو لوٹا دو۔ اللہ ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے(۸۶) اللہ ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ تم سب کو قیامت کے دن کی طرف لے کر جا کے رہے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا کون ہو سکتا ہے(۸۷)پس تمھیں کیا ہوا ہے کہ تم منافقین کے باب میں دو گروہ ہو رہے ہو۔ اللہ نے تو انھیں ان کے کیے کی پاداش میں پیچھے لوٹا دیا ہے، کیا تم ان کو ہدایت دینا چاہتے ہو جن کو خدا نے گمراہ کر دیا ہے؟ جن کو خدا گمراہ کر دے، تم ان کے لیے کوئی راہ نہیں پا سکتے(۸۸) یہ تو آروز رکھتے ہیں کہ جس طرح انھوں نے کفر کیا ہے تم بھی کفر کرو کہ تم سب برابر ہو جاؤ تو تم ان میں سے کسی کو اپنا ساتھی نہ بناؤ جب تک وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔ اگر وہ اس سے اعراض کریں تو ان کو گرفتار کرو اور قتل کرو جہاں کہیں بھی پاؤ اور ان میں سے کسی کو ساتھی اور مددگار نہ بناؤ(۸۹) صرف وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جن کا تعلق کسی ایسی قوم سے ہو جن کے ساتھ تمھارا کوئی معاہدہ ہے۔ یا وہ لوگ جو تمھارے پاس اس حال میں آئیں کہ نہ اپنے اندر تم سے لڑنے کی ہمت پا رہے ہیں نہ اپنی قوم ہی سے۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر دلیر کر دیتا تو وہ تم سے لڑتے۔ پس اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں، تم سے جنگ نہ کریں، تمھارے ساتھ صلح جویانہ رویہ رکھیں تو اللہ تم کو بھی ان کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں دیتا(۹۰)اور دوسرے کچھ ایسے لوگوں کو بھی تم پاؤ گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی محفوظ رہیں اور اپنی قوم سے بھی محفوظ رہیں لیکن جب جب فتنے کی طرف موڑے جاتے ہیں، اس میں گر پڑتے ہیں۔ پس اگر یہ تم سے کنارہ کش نہ رہیں، تم سے صلح جویانہ رویہ نہ رکھیں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تم ان کو گرفتار کرو اور قتل کرو جہاں کہیں پاؤ۔ یہ لوگ ہیں جن کے خلاف ہم نے تم کو کھلا اختیار دیا ہے (۹۱)اور کسی مومن کے لیے روا نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے مگر یہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے۔ اور جو کوئی کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کے ذمہ ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا اور خوں بہا ہے جو اس کے وارثوں کو دیا جائے الّا یہ کہ وہ معاف کر دیں۔ پس اگر مقتول تمھاری دشمن قوم کا فرد ہو لیکن وہ بذات خود مسلمان ہو تو ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہے۔ اور اگر وہ کسی ایسی قوم کا فرد ہے جس کے ساتھ تمھارا معاہدہ ہے تو خوں بہا بھی ہے جو اس کے وارثوں کو دیا جائے اورایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی۔ جس کو یہ استطاعت نہ ہو تو وہ لگاتار دو مہینے کے روزے رکھے۔ یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی توبہ ہے۔ اللہ علیم و حکیم ہے(۹۲) اور جو کوئی مسلمان کو عمداً قتل کرے گا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر خدا کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے ایک عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے(۹۳)اے ایمان والو، جب تم خدا کی راہ میں نکلا کرو تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو اور جو تمھیں سلام کرے اس کو دنیوی زندگی کے سامان کی خاطر یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔ اللہ کے پاس بہت سامان غنیمت ہے۔ تمھارا حال بھی پہلے ایسا ہی رہ چکا ہے۔ اللہ نے تم پر فضل فرمایا توتحقیق کر لیا کرو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے(۹۴)مسلمانوں میں غیر معذور بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں۔ مال و جان سے جہاد کرنے والوں کو اللہ نے بیٹھ رہنے والوں پر ایک درجہ فضیلت کا بخشا ہے۔ یوں دونوں سے اللہ کا وعدہ اچھا ہے لیکن اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر ایک اجر عظیم کی فضیلت دی ہے(۹۵) اس کی طرف سے درجے بھی اور مغفرت و رحمت بھی۔ اور اللہ غفور رحیم ہے( ۹۶)جن لوگوں کی جان فرشتے اس حال میں قبض کریں گے کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے ہوئے ہیں، وہ ان سے پوچھیں گے کہ تم کس حال میں پڑے رہے۔ وہ جواب دیں گے ہم تواس ملک میں بالکل بے بس تھے۔ وہ کہیں گے کہ خدا کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے(۹۷) البتہ وہ بے بس مرد، عورتیں اور بچے جو نہ تو کوئی تدبیر کر سکتے اور نہ کوئی راہ پا رہے ہیں(۹۸) یہ لوگ توقع ہے کہ اللہ ان سے درگزر فرمائے۔ بے شک اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے(۹۹) اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بڑے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے نکلے گا، پھراس کو موت آ جائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے لازم ہو گیا اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے(۱۰۰) (مولانااصلاحیؒ)

            ۷۔ (تم جنگ کے لیے نکلو) اور جب (کسی شخص کی طرف سے) سلام کہا جائے تو تم بھی سلام کہو، اُس سے بہتر یا اُسی طرح (اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرو)، اِس لیے کہ اللہ یقیناہر چیز کا حساب لینے والا ہے(۸۶) اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ تم سب کو قیامت کے دن کی طرف لے جا کر رہے گا جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں، اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا کون ہو سکتا ہے(۸۷)(تم اُن لوگوں کو جانتے ہو جو ایمان لا کر پلٹ گئے ہیں)، پھر تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اِن منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو۔اللہ نے تو اُن کے کیے کی پاداش میں اُنھیں الٹا پھیر دیا ہے۔ کیا تم اُنھیں ہدایت دینا چاہتے ہو جنھیں اللہ نے (اپنے قانون کے مطابق) گمراہ کر دیا ہے۔ دراں حالیکہ جنھیں اللہ گمراہ کر دے، اُن کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے(۸۸) وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح خود منکر ہیں، اُسی طرح تم بھی منکر ہو جاؤ تاکہ وہ اور تم سب برابر ہو جائیں۔ لہٰذا اُن میں سے کسی کو اپنا ساتھی نہ بناؤ، جب تک وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے نہ آجائیں۔ پھر اگر وہ اِس سے گریز کریں تو اُنھیں پکڑو اور جہاں پاؤ، قتل کرو اور اُن میں سے کسی کو اپنا ساتھی اور مددگار نہ بناؤ(۸۹) اِس سے وہ لوگ، البتہ مستثنیٰ ہیں جو کسی ایسی قوم سے جاملے ہوں جن سے تمھارا کوئی معاہدہ ہے۔ اِسی طرح وہ لوگ بھی مستثنیٰ ہیں جو تمھارے پاس اِس طرح آئیں کہ نہ اپنے اندر تم سے لڑنے کی ہمت پاتے ہوں نہ اپنی قوم سے۔ اللہ چاہتا تو اُنھیں تم پر دلیر کر دیتا اور وہ بھی تم سے لڑتے۔ لہٰذا اگر وہ تم سے الگ رہیں اور جنگ نہ کریں اور تمھاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ تمھیں بھی اُن کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں دیتا(۹۰)(اِن کے علاوہ) کچھ دوسرے لوگ تم ایسے بھی دیکھو گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی، مگر جب فتنے کی طرف بلائے جاتے ہیں تو اوندھے منہ اُس میں جا گرتے ہیں۔ سو اگر وہ تم سے کنارہ نہ کریں اور تمھاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ نہ بڑھائیں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو اُنھیں جہاں پاؤ، پکڑو اور قتل کرو۔ یہ لوگ ہیں جن کے خلاف ہم نے تمھیں کھلا اختیاردیا ہے(۹۱)(لیکن کوئی بے احتیاطی نہیں ہونی چاہیے، اِس لیے کہ) کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کرے، الاّ یہ کہ اُ س سے غلطی ہو جائے۔ اور جو کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کرے، اُس کے ذمے ہے کہ ایک مسلمان کو غلامی سے آزاد کرے اور اُس کے گھر والوں کو خوں بہا دے، الاّ یہ کہ وہ معاف کر دیں۔ پھر اگر مقتول کسی دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو، مگر مسلمان ہو تو ایک مسلمان کو غلامی سے آزاد کر دینا ہی کافی ہے۔ اور اگر وہ کسی ایسی قوم کا فرد ہے جس کے ساتھ تمھارا معاہدہ ہے تو اُس کے وارثوں کو دیت بھی دی جائے گی اور تم ایک غلام بھی آزاد کرو گے۔ پھر جس کے پاس غلام نہ ہو، اُسے لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنا ہوں گے۔ یہ اللہ کی طرف سے (اِس گناہ پر) توبہ کا طریقہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے(۹۲) اُس شخص کی سزا، البتہ جہنم ہے جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، وہ اُس میں ہمیشہ رہے گا، اُس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اُس کے لیے اُس نے بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے(۹۳) ایمان والو، جب تم اللہ کی راہ میں (اِس جنگ کے لیے) نکلو تو (کسی اقدام سے پہلے) تحقیق کر لیا کرو اور جو تمھیں سلام کرے، اُسے یہ نہ کہا کرو کہ تم مسلمان نہیں ہو۔ تم دنیوی زندگی کا سازو سامان چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمھارے لیے بہت کچھ سامان غنیمت ہے۔ اِس سے پہلے تم بھی اِسی حالت میں تھے، پھر اللہ نے تم پر احسان کیا، اِس لیے تحقیق کر لیا کرو۔ اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو(۹۴)(اِس جنگ کے لیے نکلو، اِس لیے کہ) مسلمانوں میں سے جو لوگ کسی معذوری کے بغیر گھروں میں بیٹھے رہیں اور جو اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں، دونوں برابر نہیں ہیں۔ اللہ نے بیٹھنے والوں پر جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو ایک درجہ فضیلت دی ہے۔ (اِس میں شبہ نہیں کہ) اِن میں سے ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر اللہ نے ایک اجر عظیم کی فضیلت دی ہے(۹۵) اُس کی طرف سے درجے اور مغفرت اور رحمت۔ اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے(۹۶)(اِس موقع پر بھی جو لوگ اُن بستیوں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جہاں اُنھیں دین کے لیے ستایا جارہا ہے، اُنھیں بتاؤ، اے پیغمبر کہ) جن لوگوں کی جان فرشتے اِس حال میں قبض کریں گے کہ(اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال کر) وہ اپنی جان پر ظلم کر رہے تھے، اُن سے وہ پوچھیں گے کہ یہ تم کس حال میں پڑے رہے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم تو اِس ملک میں بالکل بے بس تھے۔ فرشتے کہیں گے: کیا خدا کی زمین ایسی وسیع نہ تھی کہ تم اُس میں ہجرت کر جاتے۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی بُرا ٹھکانا ہے(۹۷) ہاں، وہ مرد، عورتیں اور بچے جو فی الواقع بے بس ہیں اور نہ کوئی تدبیر کر سکتے ہیں نہ راستہ پاتے ہیں(۹۸) اُن کے لیے توقع ہے کہ اللہ اُن سے درگذر فرمائے ۔ بے شک، اللہ معاف کرنے والا اور درگذر فرمانے والا ہے(۹۹)۔ (یہ لوگ گھروں سے نکلیں اور مطمئن رہیں کہ) جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا، وہ زمین میں پناہ کے لیے بڑے ٹھکانے اور بڑی گنجایش پائے گا۔ اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے، پھر اُسے موت آجائے تو اُس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوگیا اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے(۱۰۰) (محترم جاوید احمدغامدی)

تفاسیر

واذا حییتم بتحیۃ………… من اللّٰہ حدیثاً

تحیت کا مفہوم

‘‘حیاہ تحیۃً’ کے اصل معنی کسی کو زندگی کی دعا دینے کے ہیں۔ اسی سے دعائیہ کلمہ ‘حیاک اللہ’ ہے جس کے معنی ہیں: اللہ تمہاری عمردراز کرے۔ سلام اور اس کے ہم معنی دوسرے دعائیہ کلمات بھی چونکہ کم و بیش یہی یا اسی سے ملتے جلتے مفہوم اپنے اندر رکھتے ہیں اس وجہ سے لفظ کے عام مفہوم میں وہ سب اس کے اندر شامل ہوجاتے ہیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۵۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

اسلامی معاشرہ میں سلام کی اہمیت

‘‘ہر معاشرے میں کچھ ایسے دعائیہ کلمات مروج ہوتے ہیں جو معاشرے کے افراد آپس میں ملتے جلتے وقت ابتدائی تعارف، اظہارِ محبت و اعتماد، نشانِ اخوت و مودت اور علامتِ وحدت فکروعقیدہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ معاشرتی اتصال و ارتباط کے نقطۂ نظر سے ان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ معاشرے کے افراد، خواہ ان کے اندر کتنی ہی دُوری و بے گانگی ہو، آمنے سامنے ہوتے ہی ان کے واسطے سے اس طرح باہم ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں گویا ان کے اندر کوئی اجنبیت و بیگانگی تھی ہی نہیں۔ عربوں میں اس مقصد کے لیے بہت سے الفاظ اور فقرے معروف تھے۔ مثلاً حیاک اللہ، اہلاً وسہلاً ومرحبا، وغیرہ۔ سلام کا لفظ بھی معروف تھا۔ جب اسلامی معاشرہ ظہور میں آیا تو بجز ان کلمات کے جن میں شرک کی کوئی آلائش تھی باقی تمام پاکیزہ کلمات باقی رہے۔ البتہ ‘السلام علیکم ’ کو ایک خاص اسلامی شعار کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ یہ کلمہ گویا مومن و کافر کے درمیان ایک علامتِ فارقہ بن گیا۔ جب ایک شخص نے دوسرے کے سامنے السلام علیکم کہہ دیا اور اس نے وعلیکم السلام سے اس کا جواب دے دیا تو گویا من و تو کا فرق اُٹھ گیا اور دونوں دو قالب و یک جان ہوگئے اور جواب نہ دیا تو اس کے معنی صرف یہی نہیں ہوتے تھے کہ اس نے اس کا سلام قبول نہیں کیا بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہوتے تھے کہ اس نے اس کے اسلام کو بھی تسلیم نہیں کیا۔الغرض یہ سلام اور جواب سلام کا معاملہ کوئی رسمی حیثیت نہیں رکھتا تھا بلکہ اسلامی معاشرہ میں یہ وصل و فصل کی بنیاد تھا اس وجہ سے قرآن نے اہمیت کے ساتھ اس کو بیان فرمایا اور تنبیہ فرمائی کہ خدا ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے اور قیامت کے دن سب کو اپنے اعمال و اقوال کی جواب دہی کرنی ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۵۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ اسلامی تحیہ ایک عالمگیر جامعیت رکھتا ہے : (۱) اس میں اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر ہے ۔ (۲) تذکیر بھی (۳) اپنے بھائی مسلمان سے اظہار تعلق و محبت بھی ، (۴) اس کے لیے بہترین دعا ء بھی ، (۵) اور اس سے یہ معاہدہ بھی کہ میرے ہاتھ اور زبان سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔’’ (معارف القرآن،ج۲ ، ص۵۰۲، ادارۃ المعار ف کراچی)

‘‘جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا واجب ہے ، اگر بغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دیا تو گناہگار ہو گا ، البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے ، ایک یہ کہ جن الفاظ سے سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیا جائے ، دوسرے یہ کہ بعینہ انہی الفاظ سے جواب دے دیا جائے۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۵۰۴، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘یعنی کسی مسلمان کو سلام کرنا یا دعا دینا درحقیقت اللہ سے اس کی شفاعت کرنا ہے ۔سلام کرنا شفاعت حسنہ کی ایک خاص صورت ہے جو مسلمانوں میں شائع ذائع ہے ۔’’ (تفسیر عثمانی ،ص ۱۲۰، پاک کمپنی لاہور)

سلام کرنے اور اس کاجواب دینے سے مستثنیٰ لوگ

‘‘ سلام کا جواب دینا واجب ہے مگر اس سے چند حالات مستثنیٰ ہیں ، جو شخص نماز پڑھ رہا ہے اگر کوئی اس کو سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں بلکہ مفسد نماز ہے ، اسی طرح جو شخص خطبہ دے رہا ہے یا قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہے ، یا اذان یا اقامت کہہ رہا ہے ، یا دینی کتابوں کا درس دے رہا ہے یا انسانی ضروریات استنجاء وغیرہ میں مشغول ہے اس کو اس حالت میں سلام کرنا بھی جائز نہیں اور اس کے ذمہ جواب دینا بھی واجب نہیں۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص۵۰۵، ادارۃ المعارف کراچی)

فما لکم فی المنفقین ………… منھم ولیا ولا نصیرا

‘‘فئتین’ ضمیر مجرور سے حال پڑا ہوا ہے مثلاً کہیں گے مالک قائماً۔رکس الشَّی کے معنی ہیں چیز کو اُلٹ دیا۔ ارکسَہ، اس کو اوندھا کر دیا۔ ارکس الشَّی چیز کو اس کی سابقہ حالت پر لوٹا دیا۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۵۷، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

دارالکفر کے مسلمانوں کے کفرو ایمان کے لیے کسوٹی ہجرت ہے

‘‘ ان منافقین کا جو بلاکسی عذر معقول کے، محض اپنے رشتوں اور قرابتوں یا جائداد و املاک کی محبت میں ہجرت سے گریزاں اور مدینہ میں دارالاسلام قائم ہوجانے کے باوجود، اب تک بدستور دارالکفر یا دارالحرب میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کا نفاق واضح تھا لیکن مسلمانوں میں سے کچھ لوگ، جو ان کے ساتھ رشتہ داریاں اور قرابتیں یا خاندانی اور قبائلی نسبتیں رکھتے تھے، ان کے معاملے میں بہت نرم تھے۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کو نہ صرف ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے بلکہ ان کے ساتھ ربط ضبط بھی قائم رکھا جائے، آہستہ آہستہ یہ لوگ سچے اور پکے مسلمان بن جائیں گے۔ قرآن نے اس خیال کے لوگوں کو تنبیہ کی کہ جو لوگ اس طرز پر سوچ رہے ہیں، غلط سوچ رہے ہیں۔ اب یہ منافقین اسلام کی طرف بڑھنے والے نہیں ہیں، انھوں نے اسلام کی طرف جو قدم بڑھایا تھا، دنیا کی محبت میں انھوں نے اپنے اُٹھائے ہوئے قدم کو پھر پیچھے ہٹا لیا جس کی سزا میں اللہ نے اپنی سنت کے مطابق ان کو پھر اسی کفر میں دھکیل دیا جس میں وہ پہلے تھے۔ جو لوگ خدا کے قانون اور اس کی سنت کی زد میں آچکے ہوں وہ اب راہِ راست پر نہیں آسکتے، کوئی لاکھ چاہے ان کو راہ ملنی ناممکن ہے۔ فرمایا کہ تم ان کی ہدایت کی توقع رکھتے ہو اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ تمہیں بھی اسی کفر میں واپس لے جانے کی آرزو رکھتے ہیں جس میں وہ خود ہیں اس وجہ سے جب تک وہ ہجرت نہ کریں اس وقت تک تم ان کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھو۔ یہ ہجرت ہی ان کے ایمان و اسلام کی کسوٹی ہے۔ اگر وہ اس سے گریز کرتے ہیں تو تم ان کو دشمن اور دشمنوں کا ساتھی سمجھو اور ان کو جہاں پاؤ گرفتار اور قتل کرو۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۵۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

الا الذین یصلون……………… علیھم سبیلًا

‘‘حصر حصرًا’ کے معنی عاجز ہونا، تنگ ہونا، بے ہمت ہونا ‘حصرالرجل ضاق صدرہ’ اس کا سینہ تنگ ہوا، اس نے ہمت چھوڑ دی۔سلم کے معنی انقیاد و اطاعت اور حوالگی و سپردگی کے ہیں۔ ‘القاء السلم’ سے مراد کسی کے آگے سپر ڈال دینا، گھٹنے ٹیک دینا، سپرانداز ہونا اور اس سے صلح کی درخواست کرنا۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۵۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

مذکورہ بالا حکم کے بعض مستثنیات

‘‘یہ ان لوگوں کا حکم بیان ہو رہا ہے جو مذکو رہ بالا اخذ و قتل کے حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ دو قسم کے لوگ ہیں:ایک وہ جو کسی ایسی قوم اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ صلح ہے۔ ایسے لوگوں کی جان بخشی محض معاہدے کے احترام میں کی گئی۔ اس لیے کہ معاہدے کے قیام تک ان کے کسی فرد کو گرفتار یا قتل کرنا عہدشکنی ہوتی، عام اس سے کہ وہ کافر ہے یا منافق۔دوسرے وہ لوگ جو اپنی کمزوری اور پست ہمتی کی وجہ سے مسلمانوں کے پاس غیرجانبداری کی درخواست لے کر آئیں، نہ وہ اپنی قوم اور قبیلہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہوں اور نہ مسلمانوں میں شامل ہوکر اپنی قوم سے جنگ کے لیے آمادہ ہوں۔ ان کو مہلت دیے جانے کی یہ مصلحت واضح فرمائی کہ ایسے کمزور لوگوں کی طرف سے یہ غیر جانب داری کا رویہ بھی غنیمت ہے۔ آخر یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ اللہ ان کو جرأت دے دیتا تو یہ کھلم کھلا دشمن بن کر تم سے جنگ کے لیے اُٹھ کھے ہوتے تو جب تک یہ تم سے تعرض کرنے سے کنارہ کش رہیں، تم سے جنگ نہ کریں، تمہارے ساتھ صلح جویانہ روش رکھیں، تم بھی ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کرو۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۵۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

 ستجدون اخرین یریدون………… سلطناً مبیناً

‘فتنہ ’سے مراد

‘‘یہاں فتنہ سے مراد کفار کے وہ جارحانہ اور ظالمانہ اقدامات ہیں جو وہ مسلمانوں کو اسلام سے پھیرنے اور بزعمِ خویش اسلام کو مٹانے کے لیے کر رہے تھے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۵۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘سلطان’ کا مفہوم

‘‘سلطان’ کا لفظ قرآن میں دلیل و حجت کے معنی میں بھی آیا ہے اور اختیار و اقتدار کے معنی میں بھی۔ اس دوسرے معنی کے لیے بھی متعدد نظیریں موجود ہیں مثلاً: ما کان لی علیکم من سلطن (ابراہیم:۲۲) (مجھے تم پر کوئی اختیار حاصل نہیں تھا)۔ ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لولیہ سلطاناً (اسراء:۳۲) (جو مظلومانہ قتل کیا گیا تو ہم نے اس کے وارث کے لیے قاتل پر اختیار بخشا)۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۵۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

غیرجانبداری کے جھوٹے مدعیوں کا حکم

‘‘یہ ان جھوٹے غیر جانبداروں کی طرف اشارہ ہے جو اسلام کا دعویٰ کرکے مسلمانوں کے خطرے سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے اور اپنی قوم کے اندر شامل رہ کر اس سے بھی مامون رہنا چاہتے تھے۔ یہ لوگ بظاہر تو غیر جانب داری کے مدعی تھے لیکن یہ غیر جانبداری محض نمائشی تھی۔ جب ان پر ان کی قوم کا دباؤ پڑ جاتا۔ یہ ان شرارتوں میں شریک ہوجاتے جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرنا چاہتی۔ ان لوگوں کی بابت فرمایا کہ یہ لوگ اس رعایت کے مستحق نہیں ہیں جو مذکورہ بالا جماعت کے لیے بیان ہوئی ہے۔ بلکہ یہ بھی کھلے ہوئے دشمنوں ہی کے حکم میں داخل ہیں۔ اگر یہ تمہاری مخالفت نہ چھوڑیں، تمہارے ساتھ صلح جویانہ رویہ نہ اختیار کریں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو تم جہاں کہیں پاؤ ان کو گرفتار اور قتل کرو، ان کو گرفتار کرنے اور ان کے قتل کرنے کا خدا نے تم کو کھلا ہوا اختیار بخشا۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۵۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

تین گروہوں کا ذکر

‘‘یہاں تین فرقوں کا ذکر فرمایا گیا :۱۔جو ہجرت کہ شرط اسلام تھی کے زمانہ میں باوجود قدرت کے ہجرت نہ کریں ، یا کرنے کے بعد دارالاسلام سے نکل کر دارالحرب میں چلے جائیں۔ ۲۔مسلمانوں سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ خود کر لیں ، یا ایسا معاہدہ کرنے والوں سے معاہدہ کر لیں۔ ۳۔ جو دفع الوقتی کی غرض سے صلح کر لیں، اور جب مسلمانوں کے خلاف جنگ کی دعوت دی جائے تو اس میں شریک ہو جائیں ، اور اپنے عہد پر قائم نہ رہیں۔ پہلے فریق کا حکم عام کفار کی مانند ہے ، دوسرا فریق قتل اور پکڑ دھکڑ سے مستثنیٰ ہے ، تیسرا فریق اسی سزا کا مستحق ہے جس کا پہلا فریق تھا ، ان ٓآیتوں کے کل دو حکم مذکور ہیں، یعنی عدم صلح کے وقت قتال ، اور مصالحت کے وقت قتال نہ کرنا۔’’ (معارف القرآن،ج۲ ،ص ۵۱۱، ادارۃ المعارف کراچی)

وما کان لمومن ان یقتل …… واعد لہ عذاباً عظیما

دارالحرب کے مخلص مسلمانوں کی جان کا تحفظ

‘‘کفار کے علاقوں میں بہت سے مخلص مسلمان بھی تھے جو خود تو ہجرت کے دل سے آرزومند تھے لیکن مجبوریوں نے ان کی راہ روک رکھی تھی۔ جنگ پیش آجانے کی صورت میں اندیشہ تھا کہ مبادا ان کو خود مسلمانوں ہی کے ہاتھوں کوئی گزند پہنچ جائے۔ اس وجہ سے قران نے قتل مومن کے جرم کی سنگینی بھی واضح فرما دی اور اس سلسلے میں ایسے واضح احکام بھی دے دیے جن کے بعد کسی خدا ترس مسلمان کے لیے اس معاملے میں کسی بے احتیاطی و سہل انگاری کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔پہلے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کرے، غلطی سے یہ فعل صادر ہوجائے تو اس کی بات دوسری ہے۔ غلطی کی صورت میں بھی لازم ہے کہ جس سے یہ غلطی صادر ہوئی ہے وہ ایک مسلمان غلام کو آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو اس کا خوں بہا ادا کرے الاآنکہ وارثانِ مقتول خون بہا معاف کر دیں۔پھر اس اجمال کی وضاحت فرمائی کہ اگر مقتول مسلمان، دشمن قوم یا قبیلہ کا فرد ہو تب تو ایک مسلمان غلام کا آزاد کر دینا ہی کافی ہے۔ لیکن اس کا تعلق اگر معاہد قوم اور قبیلے سے ہے تو اس صورت میں خوں بہا ادا کرنا بھی ضروری ہوگا اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی۔ اگر کوئی شخص غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں اس کو لگاتار دو ماہ کے روزے رکھنے ہوں گے۔ فرمایا کہ یہ اللہ کی مشروع کی ہوئی توبہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۶۰، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

قتلِ عمد کے جرم کی سنگینی

‘‘قتل خطا کے احکام بیان کرنے کے بعد قتلِ عمد کے بارے میں فرمایا کہ جو مسلمان کسی مسلمان کو عمداً قتل کرے گا اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر خدا کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اس کے لیے عذاب دردناک خدا نے تیار کر رکھا ہے۔یہاں قتلِ عمد کے جرم کی جو سزا بیان ہوئی ہے وہ بعینہٖ وہی سزا ہے جو کٹر کافروں کے لیے قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ اس آیت کو پڑھ کر ہر مسلمان کا دل لرز اُٹھتا ہے۔ اس سزا کی سنگینی کی علّت سمجھنے کے لیے اس امر کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب سے بڑا حق اس کی جان کا احترام ہے، کوئی مسلمان اگر دوسرے مسلمان کی جان لے لیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ حقوق العباد میں سے اس نے سب سے بڑے حق کو تلف کیا جس کی تلافی و اصلاح کی بھی اب کوئی شکل باقی نہیں رہی، اس لیے کہ جس شخص کے حق کو اس نے تلف کیا وہ دنیا سے رخصت ہوچکا اور حقوق العباد کی اصلاح کے لیے تلافی مافات ناگزیر ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۶۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

فجزاؤ ہ جہنم خلدا فیہا

‘‘فجزآء ہ سزا ایسے قاتل کی مذکور ہو رہی ہے جو اس قتل کو جائز سمجھے یا بلا توبہ مر جائے۔پھر یہ بھی لحاظ رہے کہ نوعیت جرم کی شدت کے لحاظ سے اصل سزا یہی ہے جو یہاں مذکور ہوئی، لیکن یہ لازمی نہیں کہ ہرمومن کو بھی انتہائی سزا مل کر ہی رہے اور یہ تفسیر حدیث نبویؐ سے ماخوذ اور اس پر مبنی ہے، دنیوی قانون میں بھی جرائم کی ایک انتہائی سزا مقرر ہوتی ہے لیکن یہ حاکم کی رائے تمیزی پر ہوگا کہ اس حد کے اندر جتنی سزا مناسب سمجھے دے۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۷۹، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

‘‘خلود کالفظ مدت طویلہ کے معنی میں ہوتا ہے تو قرآن کریم میں اس کے ساتھ لفظ ابد مذکور نہیں ہوتا اور کفار کے حق میں خلود بمعنی دوام آیا ہے تو اس کے ساتھ ابد بھی ذکر فرمایا گیا ہے ۔’’(خزائن العرفان،ص ۱۶۹، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

عرف پر مبنی احکام حالات کی تبدیلی سے متغیر ہوتے ہیں

‘‘جن معاملات کا تعلق معروف سے ہو وہ زمانہ اور حالات کے تغیر سے اپنے اصل مقصد کو باقی رکھتے ہوئے متغیر ہوجاتے ہیں۔ مثلاً خوں بہا میں اُونٹوں اور بکریوں کی جگہ نقد بھی دیا جاسکتا ہے اور نقد کی مقدار بھی معاشی حالات کی تبدیلی سے تبدیل ہوسکتی ہے۔ اس تغیر کی نوعیت کو طے کرنا اربابِ اجتہاد کا کام ہے اور سلف کے اجتہادات کی نظیریں اس باب میں موجود ہیں۔’’(تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۶۱ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

غلام کا بدل، صدقہ

‘‘زیربحث آیت میں توبہ کے طور پر غلام آزاد کرنے کا حکم بھی ہے۔ اس زمانے میں چونکہ غلامی ختم ہوچکی ہے اور یہ بات ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ اس کا ختم ہونا عین منشائے اسلام کے مطابق ہوا ہے۔ اس وجہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانے میں وہ شخص کیا کرے جو غلام آزاد کرنے کی مقدرت تو رکھتا ہو لیکن غلام میسر نہیں ہیں اور شریعت نے اس کا کوئی بدل بھی معین نہیں فرمایا ہے۔ ہمارے نزدیک اس زمانے میں اس کا بدل صدقہ ہے جو غلام کی قیمت کے تناسب سے ہو اور اگریہ صدقہ غریب و نادار مسلمانوں کے قرضوں کی ادائیگی اور ان کے رہن شدہ مکانوں اور سامانوں کے چھڑانے پر صرف کیا جائے تو انشاء اللہ یہ طریقہ شریعت کے منشا کے خلاف نہ ہوگا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۶۲ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘قرآن نے غلامی کو ختم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے، یہ بھی اُنھی میں سے ہے۔ اِس زمانے میں غلامی ختم ہو چکی ہے۔ لہٰذا کوئی شخص اگر روزے نہ رکھ سکے تو غلام کی قیمت کے تناسب سے قیدیوں کا جرمانہ ادا کر کے وہ اُنھیں رہا کرا سکتا یا اِسی تناسب سے کسی مسلمان کا قرض ادا کر سکتا ہے۔’’(البیان ، از غامدی)

توبہ کی تاکید اور اس کے مؤیدات

‘‘توبۃً من اللّٰہ وکان اللّٰہ علیماً حکیماً کا ٹکڑا بھی خاص طور پر قابلِ غور ہے۔ جب مفعول اس طرح فعل کے بغیر آئے تو اس پر خاص تاکید اور عزم کے ساتھ زور دینا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں خوں بہا کے ساتھ ساتھ ایک غلام آزاد کرنے اور غلام آزاد کرنے کی مقدرت نہ ہونے کی صورت میں مسلسل دو مہینے کے روزے رکھنے کی جو ہدایت ہوئی تو اس پر خاص تاکید کے ساتھ زور دیا کہ یہ خدائے علیم و حکیم کی طرف سے مقرر کردہ توبہ ہے، نہ کوئی اس کو شاق سمجھے، نہ اس کی خلاف ورزی کرے۔ قتلِ مومن، غلطی ہی سے سہی، عظیم گناہ ہے۔ اس گناہ کو دھونے کے لیے صرف خوں بہا کافی نہیں ہے بلکہ غلام بھی آزاد کیا جائے اور اگر اس کی مقدرت نہ ہو تو لگاتار دو مہینے کے روزے رکھے جائیں تاکہ دل پر سے ہر داغ اس گناہ کا دُھل جائے۔ گویا ایسے سنگین معاملے میں زبانی توبہ کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ اس کے مؤیدات بھی ہونے ضروری ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۶۲ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ کفارہ کے لغوی معنی ہیں چھپانے والی چیز۔ کسی کارِ خیر کو گناہ کا کفارہقرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نیکی اس گناہ پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانک لیتی ہے، جیسے کسی دیوار پر داغ لگ گیا ہو اور اس پر سفیدی پھیر کر داغ کا اثر مٹا دیا جائے۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۳۸۳، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

‘‘کل صورتیں ابتداء قتل کی آٹھ ہیں ، کیونکہ مقتول چار حال سے خالی نہیں ہے ، یا مومن ہے یا ذمی ، یا مصالح و مستا من ہے یا حربی ہے ، اور قتل دو طرح کا ہے یا عمدا یا خطاء ، پس اس اعتبار سے کل صورتیں قتل کی آٹھ ہوئیں ، اول مومن کا قتل عمد ، دوم مومن کا قتل خطاء ، سوم ذمی کا قتل عمد ، چہارم ذمی کا قتل خطاء ، پنجم مصا لح کا قتل عمد ، ششم مصالح کا قتل خطاء ، ہفتم حربی کا قتل عمد ، ہشتم حربی کا قتل خطاء۔ان صورتوں میں بعض کا حکم تو اوپر معلوم ہو چکا ، بعض کا آگے مذکور ہے ، اور بعض کا حدیث میں موجود ہے ، چنانچہ صورت اولیٰ کا حکم دنیوی یعنی وجوب قصاص سورۃ بقرہ میں مذکور ہے اور حکم اخروی آگے دیت و من یقتل میں آتا ہے ، اور صورت دوم کا بیان قول اللہ تعالیٰ و ما کان لمؤ من (الی قولہ) و ھو مؤ من فتحریر رقبۃ ، میں آتا ہے ، اور صورت سوم کا حکم حدیث دارقطنی میں ہے کہ ذمی کے عوض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان سے قصاص لیا (اخرجہ الزیلعی فی تخریج الہدایہ) صورت چہارم کا ذکر قول اللہ تعالیٰ و ان کان من قوم بینکم و بینھم میثاق میں آتا ہے ، صورت پنجم کا ذکر اوپر کے رکوع قول اللہ تعالیٰ فما جعل اللہ لکم علیھم سبیلاo میں آ چکا ہے ۔صورت ششم کا حکم صورت چہارم کے ساتھ ہی مذکور ہے ، کیونکہ میثاق عام ہے جو وقتی اور دائمی دونوں کو شامل ہے ، پس ذمی و مستامن دونوں آ گئے ، در مختار کی کتاب الدیات کے شروع میں مستا من کی دیت کے وجوب کی تصحیح کی ہے ، صور ت ہفتم و ہشتم کا حکم خود جہاد کی مشروعیت سے اوپر معلوم ہو چکا ، کیونکہ جہاد میں اہل حرب قصداً مقتول ہوتے ہیں، اور خطا ء کا جواز بدرجہ اولیٰ ثابت ہو گا۔ ’’ (معارف القرآں ،ج۲ ، ص ۵۱۴، ادارۃ المعار ف کراچی)

قتل کی تین قسمیں اور ان کا شرعی حکم

‘‘پہلی قسم ؛ عمد۔جو ظاہراً قصد سے ایسے آلہ کے ذریعہ سے واقع ہو جو آہنی یا تفریق اجزاء میں آہنی آلہ کی طرح ہو ، جیسے دھار والا بانس یا دھار والا پتھر وغیرہ۔دوسری قسم ؛ شبہ عمد :جو قصداً تو ہو مگر ایسے آلہ سے نہ ہو جس سے اجزاء میں تفریق ہو سکتی ہو ۔ تیسری قسم ؛ خطاء :یا تو قصد و طن میں کہ دور سے آدمی کو شکاری جانور یا کافر حربی سمجھ کر نشانہ لگا دیا یا فعل میں کہ نشانہ تو جانور ہی کو لگایا لیکن آدمی کو جا لگا، اس میں خطاء سے مراد غیر عمد ہے ، پس دوسری ، تیسری دونوں قسمیں اس میں آ گئیں ، دونوں میں دیت بھی ہے ، اور گناہ بھی ہے ، مگر ان دونوں امر میں دونوں قسمیں متفادت ہیں، دیت دوسری قسم کی سو اونٹ ہیں ، چار قسم کے ، یعنی ایک ایک قسم کے پچیس پچیس ، اور اور دیت تیسری قسم کے سو اونٹ ہیں، پانچ قسم کے یعنی ایک ایک قسم کے بیس بیس، البتہ اگر دیت میں نقد دیا جائے تو دونوں قسموں میں دس ہزار درہم شرعی یا ایک ہزار دینار شرعی ہیں، اور گناہ دوسری قسم میں زیادہ ہے بوجہ قصد کے ، اور تیسری قسم میں کم صرف بے احتیاطی کا (کذافی الہدایۃ) چنانچہ تحریر رقبہ کا وجوب و نیز لفظ توبہ بھی اس پر دال ہے ، اور یہ حقیقت ان تینوں کی دنیا میں جاری ہونے والے احکام شرعیہ کے اعتبار سے ہے، اور گناہ کے اعتبار سے عمد و غیر عمد ہونا، اس کا مدار قلبی قصد و ارادہ پر ہے ، جس پر وعید آئندہ کا مدار ہے ، وہ خدا کو معلوم ہے ، ممکن ہے کہ اس اعتبار سے قسم اول غیر عمد ہو جاوے اور قسم ثانی عمد ہو جاوے۔مسئلہ:یہ مقدار مذکور دیت کی جب ہے کہ مقتول مرد ہو اور اگر عورت ہو تو اس کی نصف ہے ۔ (کذافی الہدایۃ)مسئلہ:دیت مسلم اور ذمی کی برابر ہے ، قول رسول علیہ السلام ہے دیۃ کل ذی عھد فی عھد ہ الف دینار ، (کذافی الھدایۃ اخرجہ ابو داؤد فی مراسیلہ) ، مسئلہ:کفارہ یعنی تحریر رقبہ یا روزے رکھنا خود قاتل کو ادا کرنا پڑتا ہے ، اور دیت قاتل کے اہل نصرت پر ہے جن کو شرع کی اصطلاح میں عاقلہ کہتے ہیں ۔ (بیان القرآن)یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ قاتل کے جرم کا بوجھ اس کے اولیاء اور انصار پر کیوں ڈالا جاتا ہے کیونکہ وہ تو بے قصور ہیں؟ وجہ دراصل یہ ہے کہ اس میں قاتل کے اولیاء بھی قصو ر وار ہوتے ہیں ، کہ انہوں نے اس کو اس قسم کی بے احتیاطی کرنے سے روکا نہیں، اور دیت کے خوف سے آئندہ وہ لوگ اس کی حفاظت میں کو تاہی نہ کریں گے ۔ مسئلہ:کفارہ میں لونڈی غلام برابر ہیں، لفظ رقبہ عام ہے ، البتہ ان کے اعضاء سالم ہونے چاہیں۔ مسئلہ:دیت مقتول کی شرعی ورثہ میں تقسیم ہو گی ، اور جو اپنا حصہ معاف کر دے گا اس قدر معاف ہو جائے گی ، اور اگر سب نے معاف کر دیا سب معاف ہو جائے گی ۔مسئلہ:جس مقتول کا کوئی وارث شرعی نہ ہو اس کی دیت بیت المال میں داخل ہو گی ، کیونکہ دیت ترکہ ہے ، اور ترکہ کا یہی حکم ہے ۔ (بیان القرآن)مسئلہ:اہل میثاق (ذمی یا مستأ من) کے با ب میں جو دیت واجب ہے ظاہر یہ ہے کہ اس وقت ہے جب اس ذمی یا مسا من کے اہل موجود ہوں، اور اگر اس کے اہل نہ ہوں ، یا وہ اہل مسلمان ہوں اور مسلمان کافر کا وارث ہو نہیں سکتا ، اس لیے وہ بجائے نہ ہونے کے ہے ، تو اگر وہ ذمی ہے تو اس کی دیت بیت المال میں داخل کی جائے گی ، کیونکہ ذمی لاوارث کا ترکہ جس میں دیت داخل ہے ، بیت المال میں آتا ہے۔ (کما فی الدر المختار) ورنہ واجب نہ ہو گی ۔ (بیان القرآن)مسئلہ:روزے میں اگر مرض وغیرہ کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہا ہو تو از سر نو رکھنے پڑیں گے ،البتہ عور ت کے حیض کی وجہ سے تسلسل ختم نہیں ہو گا۔ مسئلہ:اگر کسی عذر سے روزہ پر قدرت نہ ہو تو قدرت تک توبہ کیا کرے ۔ مسئلہ:قتل عمد میں یہ کفارہ نہیں توبہ کرنا چاہیے ۔ ’’(معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۵۱۵، ادارۃ المعارف کر اچی)

‘‘ اس آیت کریمہ میں قتلِ خطا کی تین صورتیں اور ان کے احکام بتائے گئے ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ مقتول مسلمان ہو۔ اس کا حکم یہ ہے کہ قاتل ایک مسلمان غلام کو آزاد کردے اور اس کے ورثاء کو دیت ادا کرے۔ اس کی مقدار اللہ کے رسولؐ نے سو اُونٹ مقرر فرمائی ہے اور یہی مقدار ہر زمانہ کے لیے ہے۔ دیۃ الحر المسلم مأۃ ابل فی کل زمان (قرطبی) ہاں اگر کوئی شخص اُونٹ نہ ادا رکسکتا ہو تو ہر زمانہ میں سو اُونٹوں کی قیمت کے برابر نقد روپیہ دے سکتا ہے۔ اُونٹوں کی قیمتوں میں کمی بیشی سے روپیہ میں کمی بیشی ہوسکتی ہے بہرحال دیت سو اُونٹ ہی ہوگی۔ البتہ اگر مقتول کے وارث دیت بخش دیں تو وہ بخش سکتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ نے دیت کے لیے روپیہ کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی کیونکہ روپیہ کی قیمت یعنی قوتِ خرید گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ اگر روپیہ کی قوتِ خرید گھٹ جائے تو انسانی جان کی قدرومنزلت بھی گر جائے گی جو کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں۔ اس لیے شریعت نے خوں بہا ایک سو اُونٹ مقرر کیے ہیں تاکہ انسانی جان کی قدرومنزلت گرنے نہ پائے اور تمام حالات میں انصاف کے تقاضے پورے ہوتے رہیں۔ قتلِ خطا کی دوسری صورت یہ ہے کہ مقتول ہو تو مسلمان لیکن اس کی بودوباش کفار میں ہو۔ اس صورت میں صرف ایک مسلمان غلام آزاد کردے۔ اس پر دیت لازم نہ ہوگی اور وہ اس لیے کہ اس کے سب وارث کافر ہیں اور مسلمانوں سے برسرِپیکار ہیں۔ ان کو دیت ادا کرنا تو ان کو تقویت دینا ہے جو کسی طرح قرین عقل نہیں۔ اگر مقتول اُس قوم کا فرد ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر۔ اس صورت میں قاتل مسلمان غلام آزاد کرے اور مقتول کے ورثاء کو دیت ادا کرے۔ ذمّی یعنی اسلامی حکومت کی غیرمسلم رعایا کا بھی یہی حکم ہے۔ مسلم ، کفر، مجوسی وغیرہ سب کی دیت یکساں ہے یعنی سو اونٹ۔’’ (ضیا القرآن ،ج ۱ ،ص ۳۷۶، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

‘‘اِس آیت میں قتل خطا کا جو قانون بیان ہوا ہے، وہ درج ذیل تین دفعات پر مبنی ہے:اول یہ کہ مقتول اگر مسلمان ہے اور مسلمانوں کی ریاست کا شہری ہے یا مسلمانوں کی ریاست کا شہری تو نہیں ہے، لیکن کسی معاہد قوم سے تعلق رکھتا ہے تو قاتل پر لازم ہے کہ اُسے اگر معاف نہیں کر دیا گیا تو دستور کے مطابق دیت ادا کرے اور اِس جرم کے کفارے میں اپنے پروردگار کے حضور میں توبہ کے لیے ایک مسلمان غلام آزاد کرے۔دوم یہ کہ وہ اگر دشمن قوم کا کوئی مسلمان ہے تو قاتل پر دیت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اِس صورت میں یہی کافی ہے کہ اپنے گناہ کو دھونے کے لیے وہ ایک مسلمان غلام آزاد کردے۔سوم یہ کہ اِن دونوں صورتوں میں اگر غلام میسر نہ ہو تو اِس کے بدلے میں مسلسل دو مہینے کے روزے رکھے۔یہ کسی شخص کے غلطی سے قتل ہوجانے کا حکم ہے، لیکن صاف واضح ہے کہ جراحات کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے۔ چنانچہ اُن میں بھی دیت ادا کی جائے گی اور اِس کے ساتھ کفارے کے روزے بھی دیت کی مقدار کے لحاظ سے لازماً رکھے جائیں گے۔ یعنی، مثال کے طور پر، اگر کسی زخم کی دیت ایک تہائی مقرر کی گئی ہے تو کفارے کے بیس روزے بھی لازماً رکھنا ہوں گے۔’’ (البیان ، از غامدی)

‘‘اصل میں ‘دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَہْلِہٖٓ’ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ‘دِیَۃٌ’ کے معنی ہیں: وہ شے جو دیت کے نام سے معروف ہے اور ‘دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَہْلِہٖٓ’ کے الفاظ حکم کے جس منشا پر دلالت کرتے ہیں، وہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ مخاطب کے عرف میں جس چیز کا نام دیت ہے، وہ مقتول کے ورثہ کے سپرد کر دی جائے۔ قرآن مجید نے دیت کی کسی خاص مقدار کا تعین کیا ہے، نہ عورت اور مرد، غلام اور آزاد اور مسلم اور غیرمسلم کی دیتوں میں کسی فرق کی پابندی ہمارے لیے لازم ٹھیرائی ہے۔ اُس کا حکم یہی ہے کہ دیت معاشرے کے دستور اور رواج کے مطابق ادا کی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کے فیصلے اپنے زمانے میں عرب کے دستور کے مطابق کیے۔ فقہ و حدیث کی کتابوں میں دیت کی جو مقداریں بیان ہوئی ہیں، وہ اِسی دستور کے مطابق ہیں۔ عرب کا یہ دستور اہل عرب کے تمدنی حالات اور تہذیبی روایات پر مبنی تھا۔ زمانے کی گردش نے کتاب تاریخ میں چودہ صدیوں کے ورق الٹ دیے ہیں۔ تمدنی حالات اور تہذیبی روایات میں زمین و آسمان کا تغیر واقع ہوگیا ہے۔ اب ہم دیت میں اونٹ دے سکتے ہیں، نہ اونٹوں کے لحاظ سے اِس دور میں دیت کا تعین کوئی دانش مندی ہے۔ عاقلہ کی نوعیت بالکل بدل گئی ہے اور قتل خطا کی وہ صورتیں وجود میں آگئی ہیں جن کا تصور بھی اُس زمانے میں ممکن نہیں تھا۔ قرآن مجید کی ہدایت ہر دور اور ہر معاشرے کے لیے ہے۔ چنانچہ اُس نے اِس معاملے میں معروف کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ پھر معروف پر مبنی قوانین کے بارے میں یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ حالات اور زمانہ کی تبدیلی سے اُن میں تغیر کیا جا سکتا ہے اور کسی معاشرے کے ارباب حل و عقد اگر چاہیں تو اپنے اجتماعی مصالح کے لحاظ سے اُنھیں نئے سرے سے مرتب کر سکتے ہیں۔’’ (البیان ، از غامدی)

یایھا الذین امنوا ……………… بما تعملون خبیراً

دارالحرب کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے مزید اہتمام

‘‘دارالحرب میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کے تحفظ ہی کے پہلو سے مزید ہدایت یہ ہوئی کہ جب کسی علاقے پر حملے کے لیے نکلو تو اس علاقے کے اندر جو مسلمان ہوں ان کے متعلق پوری تحقیق کرلو کہ مسلمان کہاں کہاں اور کس حال میں ہیں تاکہ تمھارے حملے سے وہ محفوظ رہیں۔ دارالحرب میں عین دورانِ جنگ میں بھی اگر ایک شخص اپنے ایمان کے اظہار کے لیے سلام کردے یا کلمہ پڑھ دے تو مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ بغیر تحقیق کے اس کے خلاف تلوار اُٹھائے۔ ایک غزوہ میں ایک صحابیؓ سے اس معاملے میں بے احتیاطی ہوگئی تو حضوؐر نے اس طرح اس پر تنبیہ فرمائی کہ سننے والوں کے دل دہل گئے۔ اصل یہ ہے کہ اسلامی غزوات کا اصل مقصود فتوحات حاصل کرنا اور مالِ غنیمت جمع کرنا نہیں تھا بلکہ، مظلوم مسلمانوں کو کفار کے پنجہ سے چھڑانا تھا۔ جب اصل مقصد یہ تھا تو اس کے لیے تو ہر خطرہ گوارا کیا جاسکتا تھا لیکن یہ بات کس طرح گوارا کی جاسکتی تھی کہ کسی مسلمان کی جان خطرے میں پڑے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۶۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

ہر کلمہ گو مسلمان ہے

‘‘ ہر کلمہ گو اہل قبلہ کو مسلمان سمجھو اس کے باطن اور قلب میں کیا ہے ، اس کی تفتیش انسان کا کام نہیں، اس کو اللہ تعالیٰ کے حوالہ کرو ، البتہ اظہار ایمان کے ساتھ خلاف ایمان کوئی بات سر زد ہو تو اس کو مرتد سمجھو ، بشر طیکہ اس کا خلاف ایمان ہونا قطعی اور یقینی ہو ، اور اس میں کسی دوسرے احتمال یا تاویل کی راہ نہ ہو ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۵۳۱، ادارۃ المعار ف کراچی)

تبتغون عرض الحیو ۃ الدنیا

‘‘عرض الحیوۃِ الدنیا، عرض وہ چیز ہے جو بذاتِ خود قائم نہ رہ سکے اور اسی لیے متکلمین نے جوہر کے مقابل کی اصطلاح رکھی ہے۔یہاں عرض سے مراد مال ہے اور بجائے مال کے عرض اسی لیے لایا گیا ہے کہ اس سے مال کی بے ثباتی اور زُود فنائی کی جانب بھی پورا اشارہ ہوجائے۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۸۰، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)

‘‘: یہ آیت مَرْدَ اس بن َنہِیْک کے حق میں نازل ہوئی جو اہل فدک میں سے تھے اور ان کے سوااُن کی قوم کاکوئی شخص اسلام نہ لایا تھا اس قوم کو خبر ملی کہ لشکر اسلام ان کی طرف آرہا ہے تو قوم کے سب لوگ بھاگ گئے مگر مَرْدَ اس ٹھہرے رہے جب انہوں نے دور سے لشکر کو دیکھا تو بایں خیال کہ مبادا کوئی غیر مسلم جماعت ہو یہ پہاڑ کی چوٹی پر اپنی بکریاں لے کر چڑھ گئے جب لشکر آیا اور انہوں نے اللہ اکبر کے نعروں کی آوازیں سنیں تو خود بھی تکبیر پڑھتے ہوئے اتر آئے اور کہنے لگے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ السلام علیکم مسلمانوں نے خیال کیا کہ اہل فدک تو سب کافر ہیں یہ شخص مغالطہ دینے کے لئے اظہارِ ایمان کرتا ہے بایں خیال اُسامہ بن زید نے ان کو قتل کردیا اور بکریاں لے آئے جب سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں حاضر ہوئے تو تمام ماجرا عرض کیا حضور کو نہایت رنج ہوا اور فرمایا تم نے اس کے سامان کے سبب اس کو قتل کردیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسامہ کو حکم دیا کہ مقتول کی بکریاں اس کے اہل کو واپس کریں۔’’(خزائن العرفان ،ص ۱۶۹، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

لا یستوی القعدون ……………… غفوراً رحیماً

جہاد کی ترغیب

‘‘ جن مسلمانوں کے پاس کوئی معقول عذر نہیں ہے، پھر بھی وہ جہاد کے لیے نہیں اُٹھ رہے ہیں۔ انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ خدا کے ہاں اجر کے لحاظ سے ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکیں گے جو آج خدا کی راہ میں جان و مال دونوں سے جہاد کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس اعتبار سے دونوں گروہ اللہ کے ہاں اچھے اجر کے مستحق ہیں کہ دونوں اسلام کے مخلص ہیں، ان میں سے منافق اور اسلام کا بدخواہ کوئی بھی نہیں ہے تاہم مجاہدین کا درجہ اللہ کے ہاں بہت اُونچا ہے۔ ان کے لیے خدا کے ہاں اجرعظیم ہے۔اس آیت نے جہاد کی ترغیب و تشویق کے ساتھ یہ بات بھی واضح فرما دی کہ اگرچہ وہ مسلمان جو بغیر کسی عذر و مجبوری کے جہاد میں عملاً حصہ نہیں لے رہے ہیں درجے اور مرتبے میں ان مسلمانوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو عملاً جہاد میں حصہ لے رہے ہیں، ان کے درجے خدا کے ہاں بہت بلند ہیں، تاہم جہاد میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے یہ منافق نہیں سمجھے جاسکتے۔ اس لیے کہ جہاد میں عملاً حصہ نہ لینا اس صورت میں نفاق ہے جب آدمی اس سے جی چرائے، دوسروں کی ہمت پست کرے یا جہاد کی نفیرعام ہوجانے کے باوجود گھر میں بیٹھا رہے۔ اگر یہ صورت نہ ہو تو جہاد ایک فضیلت ضرور ہے جس کے حاصل کرنے کا جذبہ ہرشخص کے اندر ہونا چاہیے لیکن اس کی حیثیت ایک درجۂ فضیلت ہی کی ہے، یہ شرائط ایمان میں سے نہیں ہے کہ جو اس کو حاصل نہ کرے وہ منافق خیال کیا جائے۔ وکُلًا وعد اللّٰہ الحُسنٰی کے الفاظ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص۳۶۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

غیر اولی الضرر

‘‘جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں تو حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم (نابینا صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں جس کی وجہ سے ہم جہا دمیں حصہ لینے سے مجبور ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ گھر میں بیٹھ رہنے کی وجہ سے جہاد میں حصہ لینے والوں کے برابر ہم اجر و ثواب حاصل نہیں کر سکیں گے ۔ درآں حالیکہ ہمارا گھر میں بیٹھ رہنا بطور شوق ، یا جان کی حافظت کے نہیں ہے بلکہ عذر شرعی کی وجہ سے ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے غیر اولی الضرر (بغیر عذر کے ) استثناء نازل فرما دیا۔ یعنی بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے ، مجاہدین کے برابر نہیں۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ عذر شرعی کی وجہ سے بیٹھ رہنے والے اپنی نیت کی وجہ سے اجر میں مجاہدین کے برابر ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ مدینہ میں بیٹھے ہوئے معذورین مجاہدین کے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ حبسھم العذر (ان کو عذر نے روکا ہوا ہے ) ۔ (صحیح بخاری ، کتاب الجہاد )(احسن البیان،ص ۱۲۰، دارالسلام لاہور)

 ‘‘المجہدین والقعدین، دونوں لفظوں میں جہاد اور قعُود کے عموم مفہوم کو پیش نظر رکھنا چاہیے، بیان یقینا میدانِ جہاد میں جانے والوں اور میدانِ جنگ سے رہ جانے والوں کا ہے، لیکن لفظ جہاد کو قتال کے معنی میں مخصوص و محدود کر دینا، صحیح نہیں بلکہ نصرتِ دین کی ہر سعی و فکر اس کے اندر آجاتی ہے (جس کی ایک فرد یقینا قتال بھی ہے)۔علٰی ھذا، قعُود یا خانہ نشینی کے تحت میں ہر امر شریعت میں سُستی آجاتی ہے اور اسی کی ایک اہم فرد قتال سے جی چُرانا ہے، گویا فضیلت دین کے ہر کام کرنے والے کو نہ کرنے والے پر حاصل ہے اور اس سے تو یہ شُبہ مٹ گیا کہ لشکرِ قتال کا ایک ایک سپاہی ہرغیرمقاتل سے افضل ہے خواہ وہ غیرمقاتل کسی پایہ و مرتبہ کا محدث، مفسر، فقیہ، متکلم و صوفی وغیرہ خادمِ دین ہو۔’’(تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۸۳، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

فرض کفایہ

‘‘فرض کفایہ شریعت میں ایسے ہی فرائض کو کہا جاتا ہے جن کی ادائیگی ہر فرد مسلم پر ضروری نہیں بلکہ بعض کا کر لینا کافی ہے ۔عام طور پر وہ احکام جو اجتماعی اور قومی ضرورتوں سے متعلق ہیں، ان کو شریعت اسلام نے فرض کفایہ ہی قرار دیا ہے ، تا کہ تقسیم عمل کے اصول پر تمام فرائض کی ادائیگی ہو سکے ، کچھ لوگ جہاد کا کام انجام دیں ، کچھ تعلیم و تبلیغ کا ، کچھ دوسری اسلامی یا انسانی ضروریات مہیا کرنے کا۔اس آیت میں و کلا وعد اللہ الحسنی فرما کر ان لوگوں کو بھی مطمئن فرما دیا ہے ، جو جہا دکے علاوہ دوسری دینی ضرورتوں میں مشغول ہیں، لیکن یہ حکم عام حالات میں ہے ، جب کہ کچھ لوگوں کا جہاد اسلام کے دشمنوں کی مدافعت کے لیے کافی ہو ، اور اگر ان کا جہاد کافی نہ رہے ان کو مزید کمک کی ضرورت ہو تو اول قرب و جوار کے مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے وہ بھی کافی نہ ہو تو ان کے آس پاس کے لوگوں پر فرض عین ہو جاتا ہے اور وہ بھی کافی نہ رہیں تو دوسرے مسلمانوں پر یہاں تک کہ مشرق و مغرب کے ہر مسلمان کا یہ فرض ہوجاتا ہے ’’(معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۵۲۳، ادارۃ المعارف کراچی)

ان الذین توفھم ……………… غفوراً رحیماً

جمع کے استعمال کا ایک خاص موقع

‘‘توفھم الملٰئکۃ میں لفظ ملٰئکۃ اسی طرح جمع آیا ہے جس طرح آل عمران کی آیات ۳۹، ۴۲ اور ۴۵ میں آیا ہے۔ وہاں فنادتہُ الملٰئِکۃُ کے تحت ہم اس کے جمع لانے کی وجہ بیان کر چکے ہیں۔ بعض مرتبہ جمع سے مقصود صرف جنس کا اظہار ہوتا ہے۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ، ص ۳۶۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ظالمی انفسھم حال ہے۔اپنی جانوں پر ظلم سے مقصود یہاں ہجرت کی استطاعت کے باوجود دارالکفر میں پڑے رہنے اور اس طرح اپنے ایمان کوخطرے میں ڈالنا ہے۔’’(تدبر قرآن، ج۲ ، ص ۳۶۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

سوال بطور زجر و توبیخ

‘‘فیم کنتم (تم کہاں پڑے رہے) یہ سوال زجر و توبیخ کی نوعیت کا ہے۔ مُراغم کے معنی ایسی جگہ کے ہیں جہاں انسان نکل کے جاسکے۔مستضعف کے معنی ہیں: بے بس، مجبور، دبا ہوا، زیردست۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ، ص ۳۶۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

تمام غیر معذور مسلمانوں کو ہجرت کا حکم

‘‘اب ان تمام غیرمعذور مسلمانوں کو جو اَب تک دارالحرب میں پڑے ہوئے تھے، ہجرت پر اُبھارا ہے اور یہ گویا ان کے لیے آخری تنبیہ ہے۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ نہایت بُرا ٹھکانا ہے۔اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو حقیقتاً بے بس اور معذور ہیں۔ فرمایا: خدا کے ہاں معذور صرف وہ مرد، عورتیں اوربچے قرار پائیں گے جو نہ تو کوئی تدبیر کرسکنے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ان کے لیے کوئی راہ کھل رہی ہے، یہ لوگ اُمید ہے کہ اللہ ان سے درگزر فرمائے گا۔اس کے بعد ہجرت کی راہ میں کمرہمت باندھ کر اُٹھ کھڑے ہونے والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی کہ جو اللہ کی راہ میں ہجرت کے لیے اُٹھ کھڑا ہوگا، وہ خدا کی زمین میں بہت ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا۔ آخر میں یہ اطمینان بھی دلا دیا کہ ہجرت کے اجرعظیم کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آدمی دارالہجرت میں پہنچ ہی جائے بلکہ صرف یہ کافی ہے کہ اللہ و رسول کی طرف ہجرت کے ارادے سے آدمی گھر سے نکل کھڑا ہو۔ جو گھر سے نکل کھڑا ہوا اگر فوراً ہی اس کی موت آگئی یا وہ قتل کر دیا گیا تو اس سے اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اللہ کے اُوپر اس کا اجر لازم ہوگیا۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ، ص ۳۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

ہجرت سے متعلق بعض حقائق

‘‘ان آیات سے ہجرت کے متعلق مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں:ایک یہ کہ ہر نقل مکانی ہجرت نہیں ہے۔ ہجرت یہ ہے کہ مسلمان ایک ایسے مقام کو جہاں اس کے لیے اپنے دین و ایمان پر قائم رہنا جان جوکھوں کا کام بن گیا ہو، چھوڑ کر ایک ایسے مقام کو منتقل ہوجائے جہاں اسے توقع ہو کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرسکے گا۔دوسرا یہ کہ اگر دارالاسلام موجود ہو، اس کی طرف ہجرت کی راہ باز ہو، کوئی سخت مجبوری بھی نہ ہو تو ایسے مقام سے ہجرت کرکے دارالاسلام میں منتقل ہوجانا واجب ہے ورنہ ایسے شخص کا ایمان معتبر نہیں۔تیسرا یہ کہ ہجرت کے معاملے میں ہر عذر، عذر نہیں ہے، معتبر عذر یہ ہے کہ آدمی اتنا بے بس ہو کہ نہ اس سے خود کوئی تدبیر بن آرہی ہو نہ اس کے لیے کوئی راہ کھل رہی ہو۔ ایسی مجبوری میں بھی اس پر اپنے ایمان کی حفاظت بہرحال لازم ہے۔ اگرچہ اس کو اصحابِ کہف کیطرح کسی غار ہی میں پناہ لینی پڑ جائے۔چوتھا یہ کہ ہجرت کا اجر آخرت میں تو جو ہے وہ ہے، دنیا میں بھی مہاجر کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص بدرقہ فراہم ہوتا ہے۔ خدا کی زمین اس کے لیے راہیں کھولتی ہے اور غیب سے اس کے لیے اسباب و سامان فراہم ہوتے ہیں۔پانچویں یہ کہ اس راہ میں پہلا قدم بھی منزل کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیت خالص اور ارادہ راسخ ہوتو گھر سے نکلتے ہی مہاجر کو موت آجائے تو ہجرت کا اجر اس کے لیے لازم ہوگیا۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ، ص ۳۶۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ حالات و ظروف کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس موقع پر ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دارالکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔ ’’(احسن البیان، ص۱۲۱، دارالسلام لاہور)

مترجمین: ۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ، ۵۔ سیّد ابو الاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاوید احمد غامدی

تفاسیرومفسرین: ۱۔ تفسیر عثمانی ، مولانا شبیرؒ احمد عثمانی، ۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیعؒ، ۳۔ خزائن العرفان ، مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ، ۴۔ تفہیم القرآن ، مولانا مودودیؒ ، ۵۔ احسن البیان ، محترم صلاح الدین یوسف ، ۶۔ ضیاء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہری ، ۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریا بادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی، ۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی