سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : جولائی 2012

 

قسط ۹۱
نورالقرآن 
 سات تراجم ، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری
نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔
 سورۃ نسا 
آیات ۷۶۔۔۷۱
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِانْفِرُوْا جَمِیْعًا ہ۷۱ وَاِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ ج فَاِنْ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃ‘’ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیَّ اِذْلَمْ اَکُنْ مَّعَھُمْ شَھِیْدًا ہ۷۲ وَلَئِنْ اَصَابَکُمْ فَضْل‘’ مِّنَ اللّٰہِ لَیَقُوْلَنَّ کَاَنْ لَّمْ تَکُنْ م بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہٗ مَوَدَّۃ‘’ یّٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ مَعَھُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْمًا ہ۷۳ فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَۃِ ط وَمَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا ہ۷۴ وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا ج وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا جلا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا ہط ۷۵ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ج وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْایُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓااَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِ ج اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا ہع ۷۶ 
تراجم
    ۱۔ اے ایمان والو! کر لو اپنی خبرداری، پھر کوچ کرو جدا جدا فوج یا سب اکٹھے(۷۱) اور تم میں کوئی ایسا ہے کہ البتہ دیر لگا دے گا۔ پھر اگر تم کو مصیبت پہنچے، کہے: اللہ نے مجھ پر فضل کیا، کہ میں نہ ہوا ان کے ساتھ(۷۲) اور اگر تم کو پہنچا فضل اللہ کی طرف سے، تو اس طرح کہنے لگے گا کہ گویا نہ تھی تم میں اور اس میں کچھ دوستی، اے کاش کہ میں ہوتا ان کے ساتھ، تو بڑی مراد پاتا(۷۳) سو چاہیے لڑیں اللہ کی راہ میں، جو لوگ بیچتے ہیں دنیا کی زندگی آخرت پر۔ اور جو کوئی لڑے اللہ کی راہ میں، پھر مارا جاوے یا غالب ہووے، ہم دیں گے اس کو بڑا ثواب(۷۴) اور تم کو کیا ہے؟ کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں، اور واسطے ان کے جو مغلوب ہیں مرد اور عورتیں اور لڑکے، جو کہتے ہیں: اے رب ہمارے، نکال ہم کو اس بستی سے کہ ظالم ہیں لوگ اس کے۔ اور پیدا کر ہمارے واسطے اپنے پاس سے کوئی حمایتی۔ اور پیدا کر ہمارے واسطے اپنے پاس سے مددگار(۷۵) وہ جو ایمان والے ہیں، سو لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں۔ اور وہ جو منکر ہیں، سو لڑتے ہیں مفسدوں کی راہ، سو لڑو تم شیطان کے حمایتیوں سے۔ بے شک فریب شیطان کا سست ہے(۷۶) (شاہ عبدالقادرؒ)
    ۲۔ اے ایمان والو، اپنی تو احتیاط رکھو پھر متفرق طور پر یا مجتمع طور پر نکلو(۷۱) اور تمھارے مجمع میں بعضا بعضا شخص ایسا ہے جو ہٹتا ہے پھر اگر تم کو کوئی حادثہ پہنچ گیا تو کہتا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ (لڑائی میں) حاضر نہیں ہوا(۷۲) اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو جاتا ہے تو ایسے طور پر کہ گویا تم میں اور اس میں کچھ تعلق ہی نہیں، کہتا ہے کہ ہائے کیا خوب ہوتا کہ میں بھی ان لوگوں کا شریک حال ہوتا تو مجھ کو بڑی کامیابی ہوتی(۷۳) تو ہاں اس شخص کو چاہیے کہ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑے جو آخرت کے بدلے دنیوی زندگی کو اختیار کیے ہوئے ہیں اور جو شخص اللہ کی راہ میں لڑے گا پھر جان سے مارا جائے یا غالب آ جاوے تو ہم اس کو اجر عظیم دیں گے(۷۴) اور تمھارے پاس کیا عذر ہے کہ تم جہاد نہ کرو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور کمزوروں کی خاطر سے جن میں کچھ مرد ہیں اور کچھ عورتیں اور کچھ بچے ہیں جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو اس بستی سے باہر نکال جس کے رہنے والے سخت ظالم ہیں۔ اور ہمارے لیے غیب سے کسی دوست کو کھڑا کیجیے اور ہمارے لیے غیب سے کسی حامی کو بھیجئے( ۷۵) جو لوگ پکے ایماندار ہیں وہ تو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو لوگ کافر ہیں وہ شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو تم شیطان کے ساتھیوں سے جہاد کرو۔ واقع میں شیطانی تدبیر لچر ہوتی ہے(۷۶) (مولانا تھانویؒ)
    ۳۔ اے ایمان والو، ہوشیاری سے کام لو پھر دشمن کی طرف تھوڑے ہو کر نکلو یا اکٹھے چلو(۷۱) اور تم میں کوئی وہ ہے کہ ضرور دیر لگائے گا پھر اگر تم پر کوئی افتاد پڑے تو کہے خدا کا مجھ پر احسان تھا کہ میں ان کے ساتھ حاضر نہ تھا(۷۲) اور اگر تمھیں اللہ کا فضل ملے تو ضرور کہے گویا تم میں اس میں کوئی دوستی نہ تھی۔ اے کاش، میں ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی مراد پاتا(۷۳) تو انھیں اللہ کی راہ میں لڑنا چاہے جو دنیا کی زندگی بیچ کر آخرت لیتے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں لڑے پھر مارا جائے یا غالب آئے تو عنقریب ہم اسے بڑا ثواب دیں گے(۷۴) اور تمھیں کیا ہوا کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے۔ یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے(۷۵) ایمان والے اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو شیطان کے دوستوں سے لڑو بے شک شیطا ن کا داؤ کمزور ہے(۷۶) (مولانا احمد ر ضا خانؒ)
    ۴۔ اے مسلمانو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو، پھر گروہ گروہ بن کر کوچ کر و یا سب کے سب اکٹھے ہو کر نکل کھڑے ہو(۷۱) اور یقینا تم میں بعض وہ بھی ہیں جو پس و پیش کرتے ہیں، پھر اگر تمھیں کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا(۷۲) اور اگر تمھیں اللہ تعالیٰ کا کوئی فضل مل جائے تو اس طرح کہ گویا تم میں ان میں دوستی تھی ہی نہیں، کہتے ہیں کاش میں بھی ان کے ہمراہ ہوتا تو بڑی کامیابی کو پہنچتا(۷۳) پس جو لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ چکے ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا چاہیے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پا لے یا غالب آ جائے یقینا ہم اسے بہت بڑا ثواب عنایت فرمائیں گے(۷۴) بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لیے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی اور کارساز مقرر کر دے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا(۷۵) جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کی راہ میں لڑتے ہیں، پس تم شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو، یقین مانو کہ شیطانی حیلہ بالکل بودا اور سخت کمزور ہے(۷۶) (مولانا جوناگڑھیؒ)
    ۵۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر(۷۱) ہاں تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے جو لڑائی سے جی چراتا ہے، اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو کہتا ہے اللہ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ نہ گیا(۷۲) اور اگر اللہ کی طرف سے تم پر فضل ہو تو کہتا ہے، اور اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمھارے اور اس کے درمیان محبت کا تو کوئی تعلق تھا ہی نہیں، کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑا کام بن جاتا(۷۳)۔ (ایسے لوگوں کو معلوم ہو کہ) اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے اُن لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں، پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اسے ضرور ہم اجر عظیم عطا کریں گے(۷۴) آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں او رفریاد کر رہے ہیں کہ خدایا، ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے(۷۵) جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں او ر جنھوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں(۷۶)(مولانامودودیؒ)
    ۶۔ اے ایمان والو، اپنے اسلحہ سنبھالو اور جہاد کے لیے نکلو، ٹکڑیوں کی صورت میں یا جماعتی شکل میں(۷۱) اور تم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، پس اگر تم کو کوئی گزند پہنچ جائے تو کہتے ہیں کہ مجھ پر اللہ نے فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ شریک نہ ہوا(۷۲) اور اگر تمھیں اللہ کا کوئی فضل حاصل ہو، تو اس طرح کہ گویا تمھارے اور ان کے درمیان کوئی رشتۂ محبت ہے ہی نہیں، کہتے ہیں کہ اے کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا کہ ایک بڑی کامیابی حاصل کرتا(۷۳) پس چاہیے کہ اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے وہ لوگ اٹھیں جو دنیا کی زندگی آخرت کے لیے تج چکے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا تو خواہ مارا جائے یا غالب ہو ہم اس کو اجر عظیم دیں گے( ۷۴)اور تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں اس ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار کھڑے کر(۷۵)جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنھوں نے کفر کیا وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں تو تم شیطان کے حامیوں سے لڑو، شیطان کی چال تو بالکل بودی ہوتی ہے(۷۶) (اصلاحیؒ)
    ۷۔ ایمان والو، اپنے اسلحہ سنبھالو اور (مظلوموں کی مدد کے لیے) نکلو، (جیسا موقع ہو)، الگ الگ دستوں کی صورت میں یا اکٹھے ہو کر(۷۱) تم میں یقینا وہ لوگ بھی ہیں جو (اِس طرح کے موقعوں پر) ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، پھر اگر تمھیں کوئی گزند پہنچے توکہتے ہیں کہ اللہ نے مجھ پر بڑی عنایت کی کہ میں اِن کے ساتھ موجود نہ تھا(۷۲) اور اگر اللہ تم پر کوئی فضل فرمائے تو کہتے ہیں ـــــ اور اِس طرح کہتے ہیں کہ گویا اُن کے اور تمھارے درمیان کبھی کوئی رشتۂ محبت نہ تھاــــ کہ اے کاش، میں بھی اِن کے ساتھ ہوتا تو بڑی کامیابی حاصل کر لیتا(۷۳)۔ (ایسے لوگوں کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے)، اِس لیے وہی لوگ اللہ کی راہ میں لڑنے کے لیے نکلیں جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔ (اُن کے لیے بشارت ہے کہ) جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غلبہ پائے گا، اُسے ہم اجر عظیم عطا کریں گے(۷۴)(ایمان والو)، تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو فریاد کر رہے ہیں کہ پروردگار، ہمیں ظالموں کی اِس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر دے اور اپنے پاس سے حامی اور مددگار پیدا کر دے(۷۵)(اِنھیں بتاؤ ، اے پیغمبر کہ) ایمان والے خدا کی راہ میں لڑتے ہیں اور منکرین اپنے سرکشوں کی راہ میں۔ (یہ شیطان کے دوست ہیں)، سو تم شیطان کے اِن دوستوں سے لڑو اور یقین رکھو کہ شیطان کی چال بڑی کمزور ہے(۷۶) (غامدی)
تفاسیر
نظم کلام
‘‘ان آیات میں خطاب اگرچہ عام مسلمانوں سے ہے لیکن تبصرہ انہی منافقین کے رویے پرہے جن کی بابت اوپرفرمایاہے کہ یہ اسلام کادعویٰ توکرتے ہیں لیکن اس راہ میں کوئی چوٹ کھانے اورہجرت وجہادکی آزمائشوں سے گزرنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۳۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
 یایھا الذین امنواخذواحذرکم۔۔۔۔
لفظ حذرکی تحقیق
‘‘حذرکے اصل معنی کسی خطرہ اورآفت سے بچنے کے ہیں۔اپنے اسی مفہوم سے ترقی کرکے یہ لفظ ان چیزوں کے لیے استعمال ہواجوجنگ میں دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔مثلاً زرہ بکتر،سپر،خودوغیرہ۔اس کاخاص استعمال تودفاعی آلات ہی کے لیے ہے لیکن اپنے عام استعمال میں یہ ان اسلحہ پربھی بولاجاتاہے جوحملے کے کام آتے ہیں۔مثلاً تیر،تفنگ،تلوار وغیرہ۔یہاں یہ لفظ اپنے عام مفہوم ہی میں معلوم ہوتاہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۳۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘خُذُوا حذرکم،حذر کا مفہوم بہت وسیع و جامع ہے، ہر وہ چیز جو دشمن سے بچاؤ کے کام آتی ہے، اس میں شامل ہے، خواہ ہتھیار ہوں، خواہ تدبیریں، گویا کہا یہ جا رہا ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں ہر طرح کیل کانٹے سے درست اور آمادہ رہو۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۵۹، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)
‘‘یا یھا الذین امنواخذواحذرکم اس آیت کے پہلے حسہ میں جہاد کرنے کے لیے اسلحہ کی فراہمی کا حکم دیا گیا، اور دوسرے حصہ میں اقدام جہاد کا، اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی جس کو متعدد مقامات پر واضح کیا گیا ہے کہ ظاہری اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ یہاں اسلحہ کی فراہمی کا حکم تو دے دیا گیا ، لیکن یہ وعدہ نہیں کیا گیا کہ اس کی وجہ سے تم یقینا ضرور محفوظ ہی رہو گے ۔ اس سے اشارہ اس بات کی طرف کر دیا گیا کہ اسباب کا اختیار کرنا صرف اطمینان قلبی کے لیے ہوتا ہے ، ورنہ ان میں فی نفسہٖ نفع و نقصان کی کوئی تاثیر نہیں ہے ۔’’(معار ف القرآن، ج۲ ،ص ۴۷۴، ادارۃ معارف القرآن ، کراچی)
ثبات کا مفہوم
‘‘ثبات،ثبۃ کی جمع ہے۔ثبۃ کے معنی سواروں کی جماعت،ٹکڑی اوردستے کے ہیں۔عرب میں جنگ کے دوطریقے معروف تھے۔ایک منظم فوج کی شکل میں لشکرآرائی۔دوسراوہ طریقہ جوگوریلاجنگ میں اختیارکیاجاتاہے یعنی ٹکڑیوں اوردستوں کی صورت میں دشمن پرچھاپہ مارنا۔یہاں ثبات،کے لفظ سے اسی طریقے کی طرف اشارہ ہے۔مسلمانوں نے یہ دونوں طریقے استعمال کیے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے منظم فوج کشی بھی فرمائی اوروقتاً فوقتاً سریے بھی بھیجے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۳۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
بطاّیبطی کا مفہوم
‘‘بطایبطی کے معنی ڈھیلے پڑنے،سست پڑنے اورپیچھے رہ جانے کے بھی ہیں اوردوسروں کوسست کرنے کے بھی ۔ایک حدیث میں ہے کہ‘ من بطا بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ’جس کاعمل اس کو پیچھے کردے گا اس کانسب اس کوآگے نہ بڑھا سکے گا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۳۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
 فلیقاتل فی سبیل اﷲ الذین یشرون
شوی یشوی کامفہوم
‘‘الذینیہا ں مفعول کے محل میں نہیں بلکہ فاعل کی حیثیت میں ہے اورشری یشری یہاں بیچنے کے معنی میں ہے۔سورہ یوسف میں ہے۔وشروہ بثمن بخس دراھم معدودۃ وکانوافیہ من الزاھدین(اورانہوں نے یوسف کونہایت حقیرقیمت پربیج دیا،گنتی کے چنددرہموں پر،اوروہ اس کی قدرسے ناآشنا تھے)دنیاکی زندگی کوآخرت سے بیچتے ہیں یعنی دنیا کی زندگی پر آخرت کوترجیح دیتے ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۳۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
خداکی راہ میں جہادکے سزاوارکون ہیں؟
‘‘آیت کامطلب یہ ہے کہ یہ منفاقین توصرف اس جنگ کے غازی بننا چاہتے ہیں جس میں نکسیربھی نہ پھوٹے اورمال ِ غنیمت بھی بھرپور ہاتھ آئے۔خداکے دین کے ایسے نام نہادغازیوں کی ضرورت نہیں ہے۔خداکی راہ میں جہادکے لیے وہ اٹھیں جوآخرت کے لیے اپنی دنیاتج چکے ہوں۔جولوگ دُنیا کوصرف آخرت کی کامیابی کے لیے جہادکریں گے وہ مارے جائیں یافتحمند ہوں،دونوں ہی صورتوں میں ان کے لیے اجرعظیم ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۳۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
ومالکم لاتقاتلون فی سبیل اﷲ
‘‘وما لکم (تمھیں کیا ہوا ہے) کا اسلوب کسی کام پر اُبھارنے اور شوق دلانے کے لیے ہے۔ مستضعف سے مراد مظلوم، مجبور اور بے بس کے ہیں۔ مستضعفین کا عطف فی سبیل اللہ پر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جو لوگ دین کی وجہ سے ستائے جا رہے ہوں ان کی آزادی کے لیے جنگ ‘قتال فی سبیل اللہ’ میں سب سے اوّل درجہ رکھتی ہے۔ ہم بقرہ کی تفسیر میں واضح کرچکے ہیں کہ اسلامی جہاد کا اصلی مقصد دنیا سے فتنہ (Persecution) کو مٹانا ہے۔ ‘قریہ’ کو یہاں صرف مکہ کے لیے خاص کر دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ان آیات کے نزول کے زمانے میں مکہ کے علاوہ اور بھی بستیاں تھیں جن میں بہت سے مرد، عورتیں اور بچے مسلمان ہوچکے تھے اور وہ اپنے کافر سرپرستوں یا اپنے قبیلے کے کافر زبردستوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ من لدنک کا موقع استعمال اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ظاہر حالات تو بالکل خلاف ہیں، کسی طرف سے اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی لیکن اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اپنی عنایت سے کوئی راہ کھول دے تو کچھ بعید نہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۳۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
جہاد کے لیے ایک اہم محرک
‘‘ظلم سے نجات دلانا بھی جہاد کا ایک اہم محرک ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۳۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
مظلوم کی فریاد درسی اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے
‘ ‘اس آیت میں صاف لفظوں میں حکم قتال دینے کے بجائے قرآن نے یہ الفاظ اختیار کیے ، ما لکم لا تقاتلون ، جن میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان حالات میں قتال وجہاد ایک طبعی اور فطری فریضہ ہے ، جس کا نہ کرنا کسی بھلے آدمی سے بہت بعید ہے۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۴۷۶، ادارۃ المعارف کراچی)
‘‘ اعلاء کلمۃ اللہ تو خود جہاد کا ایک مستقل محرک اور قوی داعی ہے۔ یہ دوسرا داعی جہاد کے لیے ارشاد ہوا، کمزوروں کی دستگیری و نصرت اور مظلوموں کی اعانت اور انھیں ظالم کافروں کے پنجہ سے رہائی دلانا بجائے خود مقاصدِ جہاد میں سے ہے۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۶۱، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)
اللہ تعالیٰ سے دعا تمام مصائب کا بہترین علاج ہے 
‘‘آیت یقو لون ربنا اخر جنا سے یہ بتلا یا گیا کہ حکم قتال کا ایک سبب ان کمزور مسلمان مردوں اور عورتوں کی دعا تھی جس کی قبولیت مسلمان کو حکم جہاد دے کر کی گئی ، اور ان کی مصائب کا فوری خاتمہ ہو گیا۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۷، ادارۃ المعارف کراچی) 
آیت ۷۵ کے اشارات
‘‘اس آیت سے کئی باتیں ظاہر ہو رہی ہیں۔ کوئی وطن اسی وقت تک اہلِ ایمان کے لیے وطن کی حیثیت رکھتا ہے جب تک اس کے اندر ان کے دین و ایمان کے لیے امن ہو۔ اگر دین و ایمان کو اس میں امن حاصل نہ ہو تو وہ وطن نہیں بلکہ وہ شیطانوں کا مرکز ہے۔ مظلوم مسلمانوں کو ظاہر میں نجات کی کوئی راہ بھی سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کے باوجود یہ مسلمان اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ اللہ اکبر! کیا شان تھی ان کی استقامت کی! پہاڑ بھی اس استقامت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگر کہیں مسلمان اس طرح کی مظلومیت کی حالت میں گھِر جائیں تو ان تمام مسلمانوں پر جو ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوں جہاد فرض ہوجاتا ہے۔ اگر وہ ان کی مدد کے لیے نہ اُٹھیں تو یہ صریح نفاق ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۳۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
الذین امنوا یقاتلون…… ضعیفاً 
‘‘ یہاں قرآن نے فقاتلوا اولیآء الشیطن کہہ کر خود واضح فرما دیا کہ طاغوت سے مراد شیطان ہے۔یہ آیت اہلِ ایمان کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کی جنگ خدا کی راہ میں ہوتی ہے اور خدا ان کے سر پر ہوتا ہے۔ برعکس اس کے اہلِ کفر کی جنگ شیطان کی راہ میں ہوتی ہے اور شیطان ان کے سر پر ہوتا ہے۔ گویا مقابلہ اصلاً رحمن اور شیطان کے درمیان ہوتا ہے۔ چونکہ خدا نے شیطان کو ایک محدود دائرے کے اندر مہلت دی ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنے حامیوں کو کچھ چالیں بتاتا اور سکھاتا ہے لیکن آخر خدا کے کیدمتین کا مقابلہ وہ اور اس کے اولیا کیا کرسکتے ہیں؟ اس وجہ سے اہلِ ایمان کو ان سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ اگر انھوں نے خدا کی وفاداری میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی تو بہرحال کامیابی انھی کی ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۳۷، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘کسی ملک پر قبضہ، کسی قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا، اپنے لیے تجارت کی منڈیاں قائم کرنا، مفتوحہ ممالک کی معدنیات اور قدرتی ذخائر سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ان تمام چیزوں کو طاغوت (یعنی باطل) کے ایک لفظ سے تعبیر کر دیا گیا ہے۔ ان مقاصد کے لیے جو جنگ لڑی جائے گی خواہ لڑنے والوں کے سر پر ہلالی پرچم لہرا رہا ہو اور غلغلہ ہائے تکبیر سے ساری فضا تھرا رہی تھی وہ جنگ فی سبیل اللہ نہیں ہوگی۔’’(ضیا القرآن ، ج ۱ ،ص ۳۶۶ ، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
ان کید الشیطن کان ضعفیا
‘‘اس آیت میں شیطان کی تدبیر کو جو ضعیف کہا گیا ہے اس کے لیے اسی آیت سے دو شرطیں بھی معلوم ہوتی ہیں، ایک یہ کہ وہ آدمی جس کے مقابلہ میں شیطان تدبیر کر رہا ہے مسلمان ہو، اور دوسری یہ کہ اس کا کام محض اللہ ہی کے لیے ہو ، کوئی دنیوی نفسانی غرض نہ ہو، پہلی شرط الذین امنوا سے دوسری یقا تلون فی سبیل اللہ سے معلوم ہوتی ہے ، اگر ان دونوں شرطوں میں سے کوئی فوت ہو جائے تو پھر ضروری نہیں کہ شیطان کی تدبیر اس کے مقابلہ میں کمزور ہو ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ‘‘ جب تم شیطان کو دیکھو تو بغیر کسی خوف و خدشہ کے اس پر حملہ کر دو ’’ ۔ اس کے بعد آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ ان کید الشیطن کان ضعفیا’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۴۷۸، ادارۃ المعارف کراچی)