رمضان کے بارے میں سوال، جواب (درج ذیل سوال و جواب معتبر علما کی کتابوں سے ترتیب دیے گئے ہیں)

مصنف : محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جولائی 2013

جواب : روزہ جسے عربی میں صوم کہتے ہیں۔ اس کے معنی ہیں ‘‘رکنا’’ ۔قرآن کریم میں ‘‘صوم’’ کو صبر سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ ضبط نفس ، ثابت قدمی اور استقلال ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک روزہ کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی نفسانی ہوا و ہوس اور جنسی خواہشوں میں بہک کر غلط راہ پر نہ پڑے اور اپنے اندر موجود ضبط اور ثابت قدمی کے جوہر کو ضائع ہونے سے بچائے۔

روزمرہ کے معمولات میں تین چیزیں ایسی ہیں جو انسانی جوہر کو برباد کرکے اسے ہوا وہوس کا بندہ بنا دیتی ہیں یعنی کھانا، پینا اور عورت مرد کے درمیان جنسی تعلقات انہی چیزوں کو اعتدال میں رکھنے اور ایک مقررہ مدت میں ان سے دور رہنے کانام روزہ ہے۔لیکن اصطلاح شریعت میں مسلمان کا بہ نیت عبادت ، صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے اور جماع سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ کی پانچ قسمیں ہیں:

1۔ فرض، 2۔ واجب، 3۔ نفل، 4۔ مکروۂ تنزیہی اور5۔  مکروۂ تحریمی۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : فرض معین جیسے رمضان المبارک کے روزے جو اسی ماہ میں ادا کیے جائیں۔ اور فرض غیر معین جیسے رمضان کے روزوں کی قضا اور کفارے کے روزے ، کفار ہ خواہ روزہ توڑنے کا ہو یا کسی اور فعل کا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : واجب معین جیسے نذر و منت کا وہ روزہ جس کے لیے وقت معین کر لیا ہو اور واجب غیر معین جس کے لیے وقت معین نہ ہو۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : صوم دہر یعنی ہمیشہ روزہ رکھنا۔ صوم سکوت یعنی ایسا روزہ جس میں کچھ بات نہ کرے، صوم وصال کہ روزہ رکھ کر افطار نہ کرے اور دوسرے دن پھر روزہ رکھ لے۔ یہ سب مکرؤ ہ تنز یہی ہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جیسے عیدالفطر کا روزہ۔عیدالاضحی کاروزہ ۔ایام تشریق (یعنی ذی الحجہ کی ۱۱،۱۲،۳ ۱تاریخ ) کے روزے ۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : نفلی روزے جیسے عاشور ا یعنی دسویں محرم کا روزہ اور اس کے ساتھ نویں کا بھی۔ ایام بیض یعنی ہر مہینے میں تیر ہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کا روزہ عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ ، شوال کے چھ روزے ، صوم داؤد علیہ السلام یعنی ایک دن روزہ ایک دن افطار۔ پیر اور جمعرات کا روزہ ۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ کا بلا عذر شرعی ترک کرنے والا سخت گناہگار اور فاسق و فاجر ہے اور عذاب جہنم کا مستحق۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : خدا و رسول ہی اس کی حکمت کو بہتر جانتے ہیں۔ ہاں بظاہر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ قمری حساب پر رکھنے میں عام مسلمانوں کو یہ فائد ہ پہنچتا ہے کہ قمری مہینہ ادل بدل کر آنے سے کل دنیا کے مسلمانوں کے لیے مساوات قائم کر دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شمسی مہینہ روزوں کے لیے مقرر کر دیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ موسم سرما کی سہولت میں روزے رکھتے اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ گرمی کی سختی اور تکلیف میں رہا کرتے اور یہ امر عالم گیر دین اسلام کے اصول کے خلاف ہوتا کیونکہ جب نصف دنیا پر سردی کا موسم ہوتا ہے تو دوسرے نصف پر گرمی کا موسم ہوتا ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : ٭سحری کھانے کی حرص اوراس میں تاخیر کرنا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ سحری کیا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ’’ صحیح بخاری ( 4 / 139 )۔

٭افطاری میں جلدی کرنا

 اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ‘‘ جب تک لوگ افطاری جلدی کرتے رہیں گے ان میں خیروبھلائی موجود رہے گی ) صحیح بخاری ( 4 / 198 )۔

 ٭حدیث میں بیان کی گئی اشیا سے روزہ افطار کرنا

 انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے قبل چند رطب ( تازہ کھجور) سے افطاری کرتے اگر رطب نہ ہوتیں تو چند ایک پکی ہوئی کھجوریں کھا لیتے ، اوراگر یہ بھی نہ ہوتیں تو ایک آدھ پانی کا گھونٹ پی کر افطار کرتے تھے ۔’’ سنن ترمذی ( 3 / 79 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 922 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

٭افطاری کے وقت دعا مانگنا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطاری کے وقت یہ دعا مانگا کرتے تھے :ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب افطاری کرتے تویہ دعا پڑھا کرتے تھے : ( ذھبت الظم ، وابتلت العروق ، وثبت الاجر ان شاء اللہ ) پیاس جاتی رہی اوررگیں تر ہوگئیں اورانشا اللہ اجر ثابت ہوگیا۔

٭بے ہودہ بات چیت اوراعمال سے اجتناب کرنا ۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے‘‘ تم میں سے جب کوئی روزہ سے ہو تووہ گناہ کے کام نہ کرے’’ رفث معصیت وگناہ کوکہاجاتا ہے۔اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘جوکوئی بے ہودہ باتیں اوران پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کواس کے بھوکے اورپیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1903 )۔ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ بہت سے روزہ دارایسے ہیں جنہیں بھوک کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 539 ) صحیح الترغیب ( 1 / 453 )۔

٭روزہ دار کوشور شرابا نہیں کرنا چاہیے

 کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ اگر روزہ دار سے کوئی شخص لڑائی جھگڑا کرے یا اسے گالی گلوچ دے تو اسے یہ کہنا چاہیے میرا روزہ ہے ۔’’ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1894 )۔

٭ کھانا پینے میں کمی کرنا

 ، اس لیے کہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ ابن آدم کا بھرا ہوا پیٹ سب سے برا برتن ہے۔۔۔۔ ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2380 )۔

 ٭روزہ میں علم و مال میں سخاوت کرنا

صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ خیروبھلائی کی جود وسخا کرنے والے تھے ، اوررمضان المبارک میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل امین ملتے تو آپ اوربھی زیادہ جود وسخا کرتے۔ جبریل امین ہر رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم تیز آندھی سے بھی زیادہ خیروبھلائی کی جود وسخا کرنے والے تھے۔ ’’صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6 )۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : ٭ نفوس اورماحول کو عبادت کے لیے تیار کرنا ۔

٭ توبہ و اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے میں جلدی کرنا ۔

٭ ماہ رمضان کے آنے پر خوشی محسوس کرنا ۔ ٭روزے کو اچھے اوربہتر انداز اورپختگی سے رکھنا ۔

٭ لیلۃ القدر کی تلاش اورعبادت کرنا ۔

٭ ایک بارقرآن مجید پڑھنے کے بعد دوبارہ غوروفکر اورتدبر سے پڑھنا ۔

٭ رمضان میں عمرہ کرنا (یہ حج کے برابر ہے)

٭ کھلے دل سے صدقہ وخیرات کرنا۔

٭ رمضان المبارک میں اعتکاف سنت مؤکدہ ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : سفر میں روزہ نہ رکھنے کی شرط یہ ہے کہ وہ عرف یا مسافت کے لحاظ سے سفر شمار ہو۔ امت اس پر متفق ہے کہ مسافر کے لیے روزہ نہ رکھنا جائز ہے چاہے وہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا بھی ہو۔جوشخص مقیم ہونے کی صورت میں روزے کا آغاز کرے پھر دن کے دوران ہی سفر کرے تو اس کیلیے روزہ افطار کرنا جائز ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے سفر کو رخصت کا سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے : جوکوئی بھی مریض یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے ۔ ہروقت سفر کرنے والے کے لیے بھی روزہ نہ رکھنا جائز ہے مثلا ڈاکیا جومسلمانوں کی مصلحت کے لیے سفر میں ہی رہتا ہے اوراسی طرح گاڑیوں کے ڈرائیور ، اورہوائی جہاز کے پائلٹ ، اورملازم حضرات اگرچہ وہ روزانہ ہی سفر پر رہتے ہوں لیکن انہیں قضامیں روزے رکھنا ہونگے ۔اسی طرح وہ ملاح بھی جس کی خشکی پر رہائش ہوروزہ افطار کر سکتا ہے لیکن وہ ملاح جس کیساتھ اس کی بیوی اورضروریات زندگی سب کشتی میں ہوں اوروہ ہر وقت سمندر میں سفر پر ہی رہتا ہو توایسا شخص نہ تو نماز قصرکرے گا اورنہ ہی روزہ افطار کرے گا۔اوراسی طرح وہ خانہ بدوش جوایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہوں اپنا ٹھکانہ بدلتے ہوئے سفر میں نماز بھی قصر کرسکتے ہیں اورروزہ بھی افطار کرسکتے ہیں ، لیکن جب وہ سردیوں اورگرمیوں والے اپنے ٹھکانہ پرپہنچ جائیں تووہ نماز مکمل پڑھیں گے اورروزہ بھی رکھیں گے، چاہے وہ اپنے جانوروں کے پیچھے ہی بھاگتے پھریں۔جب کسی ملک میں وہ رمضان کی ابتدا کرکے کسی دوسرے ملک میں جائے جہاں ایک دن قبل یا بعد میں رمضان شروع ہوا ہو تو اس کا حکم بھی ان کے ساتھ ہی ہوگا وہ ان کیساتھ ہی روزہ رکھے گا اوران کے ساتھ ہی عید کریگا ، اگرچہ تیس سے بھی زیادہ روزے ہوجائیں ۔اوراگر اس کے روزے انتیس سے بھی کم ہوجائیں توعید کے بعد اسے انتیس کرنا ہوں گے کیونکہ ہجری مہینہ انتیس یوم سے کم نہیں ہوتا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : ہروہ مرض جس کی وجہ سے انسان صحت کی تعریف سے خارج ہوجائے اس کی وجہ سے روزہ افطار کرنا جائز ہے ،اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے :

 جو کوئی مریض ہویا مسافر وہ دوسروں دنوں میں گنتی پوری کریں ۔ لیکن ہلکی پھلکی بیماری مثلا زکام ، اورسردرد ، وغیرہ کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز نہیں۔جب طبی طور پر یہ علم ہویا پھر کسی شخص کی عادت یا تجربہ کی وجہ سے یا پھر اس کا ظن غالب ہو کہ روزہ رکھنے سے مریض ہونے یا مرض میں زیادتی یا پھر مرض سے شفایابی میں تاخیر کا باعث ہوگا تواس کیلیے روزہ چھوڑنا جائز ہے بلکہ اس کے حق میں روزہ رکھنا مکروہ ہے۔اوراگرمرض زیادہ ہو تو مریض پر واجب نہیں کہ وہ رات کو روزے کی نیت نہ کرے چاہے یہ احتمال ہو کہ وہ صبح تک صحیح ہوجائے گا ،کیونکہ معتبر تو موجودہ وقت ہے نہ کہ مستقبل۔ اوراگر روزہ رکھنا اس کے لیے بے ہوشی کا سبب بنتا ہو تواسے روزہ افطار کرنے کی اجازت ہے اوراس کے بدلے وہ قضا میں روزہ رکھے گا۔ اورجب کوئی روزہ دار روزہ کی حالت میں بے ہوش ہوجائے اورمغرب سے قبل یا پھر مغرب کے بعد ہوش میں آئے تواس کا روزہ صحیح ہوگا کیونکہ اس نے روزہ رکھا تھا ، اوراگر وہ فجر سے لیکر مغرب تک بے ہوش رہے توجمہور علماء کرام کے ہاں اس کا روزہ صحیح نہیں۔اوربے ہوشی والے شخص پر جمہور علماء کے نزدیک بھی قضاء واجب ہے چاہے یہ بے ہوشی جتنی بھی طویل ہو۔بعض اہل علم کا فتوی ہے کہ : جوکوئی بے ہوش ہوجائے یا اسے کسی مصلحت کی بنا پرنیند کی دوائی دی جائے یا اسے سن کردیا جائے جس کی بنا پر اسے ہوش نہ رہے لھذا اگرتواس کی یہ حالت تین یا اس سے کم ایام ہوں تووہ سونے والے پر قیاس کرتے ہوئے قضاء کرے گا ، لیکن اگر تین ایام سے زیادہ بے ہوش رہے تو مجنون پر قیاس کرتے ہوئے قضاء نہیں کرے گا۔ جس شخص کوبہت زیادہ بھوک کمزور کردے یا شدید قسم کی پیاس نڈھال کردے جس کی بنا پر اسے ہلاک ہونے کا خدشہ ہو یا ظن غالب کی بنا پریہ خدشہ ہوکہ اس کے ہوش وحواس قائم نہیں رہیں گے تواس حالت میں وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے ، کیونکہ نفس کو بچانا واجب ہے ، لیکن جب وہم ہو تو پھر نہیں۔ لیکن صرف شدت یا تھکاوٹ اورمرض کے خوف اوراحتمال کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ، اورجولوگ مشقت والے کام کرتے ہیں انہیں اپنے کام کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ، انہیں چاہیے کہ وہ رات کو ہی روزہ کی نیت کریں ،اوردن میں اگر انہیں روزہ نقصان دے اوران سے برداشت نہ ہوسکے یا پھر انہیں اپنے ہلاک ہونے کا خدشہ ہویا اس کی وجہ سے زیادہ مشقت کا شکار ہوں جس کی بنا پروہ روزہ افطار کرنے پر مجبور ہوجائیں توپھر وہ اپنی مشقت دور کرنے کے لیے افطار کرسکتے ہیں اوراتنا ہی کھائیں جوان کی قوت بحال کرے اورپھر باقی دن انہیں کھانے پینے سے پرہیز کرنا ہوگا ، اور اس دن کی بعد میں قضاء ادا کریں گے۔وہ مزدور جو لوہے وغیرہ کی بھٹیوں پر معدنیات پگھلانے کا کام کرتے ہیں جس کی بنا پر وہ روزہ برداشت نہیں کرسکتے انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کام رات کے وقت کریں ، یا پھر رمضان میں چھٹیاں حاصل کرلیں اگرچہ یہ چھٹیاں بغیر تنخواہ ہی حاصل ہوں ، لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے توانہیں کوئی اورکام تلاش کرنا چاہیے جس میں دینی اوردنیاوی واجبات کوجمع کیا جاسکے ، کیونکہ جو شخص بھی اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اس کیلیے کوئی راستہ نکال دیتا ہے ، اوراسے رزق بھی وہاں سے دیتا ہے جہاں سے اس کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔طلاب کے لیے امتحانات ایسا عذر نہیں کہ اس کی وجہ سے روزہ افطار کرلیا جائے ، اوراسی طرح روزہ چھوڑنے میں بھی والدین کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو امتحان کی بنا پر روزہ رکھنے سے منع کریں ، اس لیے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔ جس مریض کی شفایابی کی امید ہو وہ اپنی شفایابی کا انتظار کرے اورصحت بحال ہونے کے بعد قضا میں روزے رکھے گا ، اسے فدیے میں کھانا کھلانا کافی نہیں ہوگا ، اور وہ مریض جس کی مرض دائمی ہواوراس کی شفایابی کی امید نہ ہواوراسی طرح وہ بوڑھا جوعاجز ہووہ بھی ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے جوعادی غلہ میں سے نصف صاع بنتی ہے ( موجود تول کے مطابق تقریبا ًڈیڑھ کلو چاول )۔یہ بھی جائز ہے کہ وہ سارا فدیہ اکٹھا کرے اورمہینہ کے آخر میں مساکین کو کھلائے یا پھر ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلائے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی ثقہ تنظیم کو کھانا خرید کر تقسیم کرنے پر وکیل بناتے ہوئے نقد رقم ادا کرے کہ وہ غلہ خرید کر اس کی جانب سے مساکین میں تقسیم کردیں۔وہ مریض جس نے رمضان میں روزے چھوڑے اورقضا کے لیے شفایابی کے انتظار میں تھا پھر اسے یہ علم ہوا کہ اس کا مرض دائمی ہے اس صورت میں اس پر واجب ہے کہ وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ اورشفایابی کی امید والے مرض والا مریض اگراپنی بیماری میں ہی چل بسے تواس صورت میں نہ تواس پراورنہ ہی اس کے اولیاء پر کچھ ہے ، اورایسا مریض جوکسی دائمی مرض میں مبتلاتھااوراس نے اپنے چھوڑے ہوئے روزوں کا فدیہ مساکین کوادا کردیا ، لیکن کچھ مدت بعد طب میں اس کا علاج دریافت کرلیاگیا ، اوروہ اس علاج کے ذریعہ شفایاب ہوگیا تواس پر گزشتہ روزوں کی کوئی چیز واجب نہیں کیونکہ اس نے اپنے واجب کردہ کو ادا کردیا تھا۔ وہ مریض جوشفایابی حاصل کرسکنے اورقضاکی استطاعت کے باوجود بھی روزے قضا نہ رکھ سکا اوراس سے پہلے ہی فوت ہوگیا تواس کے مال سے ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا دیا جائے گا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : بوڑھا اورقریب الموت شخص جس کی تمام طاقت ختم ہوچکی ہو اورہردن وہ موت کے قریب ہورہا ہو اورکمزوری بڑھتی چلی جائے اس پرروزے رکھنے لازم نہیں ، بلکہ ان دونوں کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہیں کیونکہ روزہ رکھنے میں ان کے لیے مشقت ہے۔ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما مندرجہ ذیل آیت کے بارہ میں کہا کرتے تھے :

‘‘اوران لوگوں پرجواس کی طاقت نہیں رکھتے ان پر ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ہے ۔ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ بوڑھے مرد اورعورت کیلیے ہے جوروزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ وہ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گے۔اورایسا شخص جوکسی میں تمیز ہی نہ کرسکے اوربے وقوفی کی حدتک جا پہنچے تو اس پر اوراس کے گھروالوں پر کچھ نہیں کیونکہ وہ مکلف ہی نہیں رہا ، اوراگر بعض اوقات وہ تمیز کرتا ہو اوربعض اوقات ھذیان کی حالت ہو اورعقل فاسد ہوجاتی ہو توتمیز کی حالت میں روزہ واجب ہوگا ، لیکن حالت ھذیان میں روزہ واجب نہیں۔ جودشمن سے جنگ کررہا ہو یا دشمن نے اس کے ملک کا گھیراؤ کرلیا ہو اوراسے خدشہ ہو کہ روزہ اسے لڑائی سے کمزور کردے گا تواس لیے روزہ نہ رکھنا جائز ہے ، چاہے وہ سفر میں نہ بھی ہو ، اور اسی طرح اگر اسے لڑائی سے قبل روزہ افطار کرنے کی ضرورت ہو تووہ افطار کرسکتا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو لڑائی سے قبل فرمایا تھا :‘‘تم صبح دشمن کا مقابلہ کرنے والے ہو لھذا روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ طاقت کا باعث ہوگا توصحابہ کرام نے روزہ نہ رکھا ’’ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1120 ) طبع عبدالباقی۔ اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے اوراہل شام کو اسی کا فتوی دیا تھا کیونکہ تتاریوں نے جب شامیوں پر حملہ کیا تو شیخ الاسلام وہیں تھے اوریہی فتوی جاری کیا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : فرضی روزے میں نیت شرط ہے اوراسی طرح ہر واجبی روزے میں بھی نیت کی شرط ہے مثلا قضا ، اورکفارہ وغیرہ کے روزے اس لیے کہ حدیث میں فرمان نبوی ہے ۔

 کسی فعل پر دل کا عزم کرنا نیت کہلاتا ہے۔

نیت کے الفاظ کی ادائیگی بدعت ہے ۔

 جسے یہ علم ہوکہ صبح رمضان ہے اوروہ روزہ رکھنے کا ارادہ بھی کرے تویہی اس کی نیت ہے۔

رمضان کے روزے رکھنے والا ہررات تجدید نیت کا محتاج نہیں بلکہ رمضان کے شروع میں ہی نیت کافی ہے ، لیکن اگرسفر یا کسی مرض کی بنا پر نیت ختم کردے توپھر عذر زائل ہونے کی صورت میں اسے تجدید نیت کرنا ہوگی۔

 نفلی روزہ میں مطلقاً شرط نہیں کہ رات کو نیت کی جائے کیونکہ حدیث میں ہے :

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھرمیں داخل ہوئے اور فرمانے لگے کیا تمہارے پاس کچھ ہے تو ہم نے جواب دیا کچھ نہیں ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے پھر میں روزہ سے ہوں۔صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2 / 809 ) عبدالباقی۔

لیکن معین نفلی روزہ مثلاً یوم عرفہ ، اورعاشورا ، میں احتیاط یہ ہے کہ رات کو نیت کی جائے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : نفلی روزہ رکھنے والے کے لیے افضل اور بہتر یہ ہے کہ وہ روزہ پورا کرے لیکن اگر اس کے ختم کرنے میں کوئی شرعی مصلحت پائی جائے تو روزہ توڑنا جائز ہے۔ جوشخص واجب روزہ کو شروع کردے مثلاً قضا اورنذر اورکفارہ وغیرہ اسے مکمل کرنا ضروری ہے ، اوراس میں بغیر کسی عذر کے روزہ افطار کرنا جائز نہیں ، لیکن نفلی روزے میں اسے اختیارہے کہ وہ افطار کرلے یا نہ کرے حدیث میں ہے :

( نفلی روزے والا اپنے آپ کا امیر ہے چاہے وہ روزہ رکھے اورچاہے تو افطار کرلے ) مسند احمد ( 6 / 342 )

نفلی روزہ والا بغیر کسی عذر بھی روزہ افطار کرسکتا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک بار روزہ سے تھے پھر بغیر کسی عذر کے کھا لیا جیسا کہ صحیح مسلم میں حدیث ہے : عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھرمیں آئے تو کہنے لگے کچھ کھانے کو ہے ہم نے کہا کچھ نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے میرا روزہ ہے ، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے گئے بعد میں بطور ھدیہ چوری لائی گئی ، بعدمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو میں نے کہا کہ کچھ ہدیہ آیا ہے اوراس میں سے میں نے کچھ آپ کے لیے چھپا کررکھا ہے نبی صلی اللہ علیہ کہنے لگے میں نے صبح روزہ رکھا تھا لاؤ توآپ نے وہ تناول فرمالیا۔صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1154 )

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : قیدی اورمحبوس شخص بھی اگر چاند دیکھ لے یا اسے کسی ثقہ شخص کے ذریعہ رمضان شروع ہونے کا علم ہوتواس پر بھی روزے رکھنا واجب ہیں ، لیکن اگر اسے علم نہ ہوسکے تووہ ظن غالب کے مطابق اجتھاد کرتا ہوا روزے رکھے اگر تواس کا روزہ رمضان کے موافق ہوتوجمہور علماء کے ہاں یہ روزہ ادا ہوجائے گا۔اوراگر اس کا روزہ رمضان کے بعد ہوا توجمہور فقھاء کے ہاں یہ روزہ ہوجائے گا ، اوراگر رمضان سے قبل ہوا تو کافی نہیں بلکہ اسے قضا میں روزہ رکھنا ہوگا ، اوراگر محبوس شخص کے کچھ روزے رمضان میں ہوں اورکچھ رمضان کے بعد تورمضان اوراس کے بعد رکھے ہوئے روزے کافی ہیں لیکن رمضان سے قبل رکھے گئے روزے کافی نہیں ہونگے۔اوراگر اشکال اسی طرح رہے اوراسے رمضان کا علم نہ ہوسکے تواس کے لیے یہ روزے کفائت کرجائیں گے کیونکہ اس نے اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کی ہے ، اوراللہ تعالی بھی کسی کواس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب سورج کی ٹکیا غائب ہوجائے توروزے دار کا روزہ افطار ہوجاتا ہے افطاری میں افق پر سرخی باقی رہنا معتبر نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ‘‘جب اس طرف سے رات آجائے اورادھرسے دن چلا جائے اورسورج غروب ہوجائے تو روزہ دار کا روزہ افطار ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1954 ) افطاری میں سنت یہ ہے کہ افطاری جلدی کی جائے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب سے قبل ہی افطاری کرتے تھے چاہے پانی پی کرہی کرلیں۔

اگر روزہ دار کو افطاری کے لیے کوئی چیز نہ مل سکے تواسے دل سے ہی افطاری کی نیت کرلینی چاہیے ۔افطاری میں وقت سے پہلے افطاری کرنے سے بچنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا قابل سزا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کونچوں کے بل لٹکا ہوا دیکھا کہ ان کی باچھیں کٹی ہوئی اوران سے خون بہہ رہا ہے ، جب ان کے بارہ میں فرشتوں سے پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ افطاری کے وقت سے قبل ہی روزہ افطارکرلیتے تھے۔

جسے یہ یقین ہوجائے یا پھر اس کا ظن غالب یا شک ہوکہ اس نے مغرب سے قبل ہی افطاری کرلی ہے تواسے ایک روزہ کی قضاء کرنا ہوگی اس لیے کہ اصل یہی ہے کہ دن باقی تھا۔

 جب طلوع فجر جو کہ مشرقی جانب ایک چوڑی سفیدی سی پھیلتی ہے ہوجائے توروزہ دار کو چاہیے کہ وہ کھانا پینا بند کردے یعنی سحری کا وقت ختم ہوجائے گا ، چاہے اس نے اذان سنی ہویا نہ سن سکے ، اوراسی طرح جب یہ علم ہو کہ مؤذن فجر کی اذان طلوع فجر سے قبل ہی کہتا ہے تو کھانا پینا بند کرنا واجب نہیں۔اوراگر مؤذن کے بارہ میں علم نہ ہو یا پھر اذانوں میں اختلاف پیدا ہوجائے اورخود بھی طلوع فجرمعلوم نہ کرسکتا ہو - جیسا کہ روشنی کی بنا پر شہروں میں ہوتا ہے - توپھر اس صورت میں اسے چھپے ہوئے کیلنڈروں کے مطابق عمل کرنا چاہیے لیکن جب ان میں بھی واضح غلطی ہو تو پھر نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : ان ممالک میں جہاں پر دن اور رات چوبیس گھنٹوں میں ہوتی ہے مسلمانوں پر روزہ رکھنا فرض ہے چاہے دن جتنا بھی لمبا ہوجائے جب تک دن اور رات میں تمیز باقی ہے وہ روزہ رکھیں ، اورجن ممالک میں دن اوررات میں تمیز ممکن نہیں وہ اپنے قریب ترین ممالک جہاں پر دن اوررات میں تمیز ہو کے مطابق عمل کریں گے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ دار کا روزہ اس وقت ٹوٹتا ہے جب اس میں تین شرطیں پائی جائیں :وہ علم رکھتا اورجاہل نہ ہو ، اسے یاد ہوبھول کرنہیں ، مختار ہو مجبور اورمضطر نہ ہو۔

٭ روزہ توڑنے والی کچھ اشیا کھانے پینے کے معنی میں آتی ہیں : مثلا ادویات ، اور کھائی جانے والی گولیاں ، اورغذائی ٹیکے ، اوراسی طرح خون لگوانا اورخون دینا۔لیکن وہ انجیکشن جو کھانے پینے کے عوض میں نہیں آتے بلکہ صرف بطور علاج استعمال ہوتے ہیں مثلا پنسلین ، اورانسولین یا پھر جسم کو نشیط رکھنے کے لیے یا وبائی امراض کے ٹیکے لگوانا یہ سب روزے کو نقصان نہیں دیتے چاہے یہ گوشت میں لگائے جائیں یا نس میں۔ لیکن احتیاط یہ ہے کہ یہ سب انجیکشن بھی رات کیوقت لگائے جائیں ۔

٭راجح یہی ہے کہ انیمہ وغیرہ کرانا اورآنکھوں اورکانوں میں قطرے ٹپکانا ، دانت نکلوانا ، اورزخموں کی مرہم پٹی کروانا ان سب سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

٭دمہ کے لیے سپرے کا استعمال روزہ کو نقصان نہیں دیتا کیونکہ یہ گیس ہوتی ہے جو صرف پھیپھڑوں میں جاتی ہے اورکھانا نہیں ، اورپھر مریض اس کا رمضان اورغیررمضان میں ہر وقت محتاج رہتا ہے ، اوراسی طرح ٹیسٹ کے لیے خون نکالنا بھی روزے کو فاسد نہیں کرتا بلکہ ضرورت کی بناپر اس سے معاف ہے۔

٭غرغرہ والی دوائی کو اگر نگلا نہ جائے تو وہ بھی روزے کو کچھ نقصان نہیں دیتی ، اورجس کے دانت میں طبی سوراخ یعنی کھوڑ بھری جائے جس کا ذائقہ حلق میں بھی محسوس ہو تویہ بھی اس کے روزے کو نقصان نہیں دیتی۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : مندرجہ ذیل امور روزہ کو کوئی نقصان نہیں دیتے :

٭ کان کی صفائی۔ ناک میں قطرے ٹپکانا ، یا ناک کے لیے سپرے ، ان میں سے اگرکوئی چیز بھی حلق میں پہنچے تو اسے نگلا نہیں جائے گا۔

٭ سینہ کے امراض کے لیے زبان کے نیچے رکھی جانے والی گولیوں کا استعمال ، جب کہ حلق میں جانے والی چیز کو نگلا نہ جائے۔

٭ دانت میں کھوڑ ، داڑھ نکالنا ، دانتوں کی صفائی ، مسواک یا ٹوتھ برش کا استعمال ، لیکن حلق میں جانے والی چیز کونگلنا نہیں چاہیے بلکہ تھوک دیں۔

٭ کلی اورغرارے کرنا ، سپرے کا استعمال ان میں بھی حلق میں جانے والی چیز کو نگلا نہیں جائے۔

٭ جلدی علاج کے انجیکشن ، عضلاتی ، اور وریدی انجیکشن ، لیکن اس میں غذائی انجیکشن اورڈرپ شامل نہیں کیونکہ اس سے روزہ ختم ہوجاتا ہے۔

٭ آکسیجن گیس کا استعمال۔

 سن کرنے والی گیسیں ، جب تک مریض کوغذائی محلول نہ دیے جائیں۔

٭ جلد میں جذب ہوکر داخل ہونے والی اشیاء مثلا تیل،اورمرہم اوراسی طرح جلدی علاج کی پٹیاں جن پر کیمائی اوردوائی مواد لگا ہوتا ہے۔

٭ علاج یا تصویر کیلیے دل اوردوسرے اعضاء کی شریانوں میں باریک نالی داخل کرنا۔

٭ پیٹ کے چمڑے کے ذریعہ انتڑیوں وغیرہ کے چیک اپ کیلیے کوئی آلہ داخل کرنا یا پھر کوئی جراحی عمل کروانا۔

٭ جگر یا دوسرے اعضاء کے ٹیسٹ کے لیے نمونہ لینا ، لیکن جب اس میں کوئی محلول نہ دیا جائے۔

٭ معدہ میں کوئی آلہ داخل کرنا جب کہ اس میں کوئی محلول نہ دیا گیا ہو۔

٭ دماغ میں کوئی آلہ یا پھر علاج کے لیے مواد داخل کرنا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب کوئی کسی کوروزہ کی حالت میں بھول کرکھاتا پیتا دیکھے تواسے اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان کے عموم پر عمل کرتے ہوئے یاد دہانی کروانی چاہیے : ‘‘ تم نیکی اوربھلائی اورتقوی میں ایک دوسرے کاتعاون کیا کرو ۔’’

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ جب میں بھول جایا کروں تو مجھے یاد دلا دیا کرو ’’۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگرکوئی شخص کسی معصوم کو بچانے کے لیے روزہ توڑنے کا محتاج ہو تووہ روزہ توڑ دے جیسا کہ غرق ہونے والوں یا پھر آگ میں پھنسے ہوئے اشخاص کو بچانا مقصود ہو۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اپنے آپ پر کنٹرول رکھنے والے شخص کے لیے اپنی بیوی سے معانقہ ، اس کا بوسہ لینا ، چھونا ، اوربار بار اسے دیکھنا جائز ہے ، اس کی دلیل صحیحین کی مندرجہ ذیل حدیث میں پائی جاتی ہے : ‘‘عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں میرا بوسہ لیتے اورمجھ سے مباشرت کرتے ، لیکن انہیں تم سے زیادہ اپنے آپ پر کنٹرول تھا۔’’ (یہاں مباشرت سے مراد بوسہ اور جسم کا ملانا مراد ہے)

لیکن جب کوئی شخص شہوت پر کنٹرول نہ کرسکتا ہو اس کے لیے بوس وکنار جائز نہیں اس لیے کہ ایسا کرنا روزے کو فاسد کردے گا ، اورانزال اورجماع جیسے کام سے رک نہیں سکے گا۔

اورشرعی قاعدہ ہے کہ جوچیز بھی کسی حرام کا وسیلہ بنے وہ چیز بھی حرام ہوتی ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگر جنبی حالت میں ہی صبح ہوجائے تو روزہ صحیح ہے ۔ غسل جنابت اورحیض اورنفاس کے غسل میں طلوع فجر کے بعد تک تاخیر کرنا جائز ہے ، لیکن غسل کرنے میں جلدی کرنی چاہیے تاکہ نماز ادا کرسکے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

 جواب : اگر سوتے ہوئے روزے دار کو احتلام ہوجائے تو اس سے بالاجماع روزہ فاسد نہیں ہوگا ، بلکہ روزہ مکمل کرنا چاہیے ، اوراسی طرح غسل میں تاخیر بھی روزہ کو کوئی ضرر نہیں دے گی لیکن غسل جلدی کرنا چاہیے تا کہ نماز کی ادائیگی وقت پر ہوسکے اور فرشتے بھی اس کے قریب آسکیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جسے خود ہی قے آئے اس پرقضا نہیں ، لیکن جوعمداً قے کرے اس پر قضا ہوگی۔ دیکھیں صحیح سنن ترمذی ( 3 /89 )۔جس شخص نے حلق میں انگلی ڈال کریا پھر پیٹ دبا کر قے کی یا جان بوجھ کرکوئی کراہت والی چیز سونگھی یا قے لانے والی چیز کومسلسل دیکھتا رہے جس کی بنا پر قے آجائے تواسے قضا ادا کرنا ہوگی ، اوراگر اس پر قے غالب آگئی اورخود بخود ہی رکنے پر قضاء واجب نہیں کیونکہ اس میں اس کا ارادہ شامل نہیں ، اوراگر اس نے اسے واپس کردیا تو قضا ہوگی۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگر دانتوں میں پھنسی ہوئی چیز بغیرقصد کے نگلی جائے ، یا بالکل قلیل ہونے کے باعث اس میں تمیز کرنا اورچبانا مشکل تھا اسے تھوک کے تابع سمجھا جائے گا اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔اوراگر زیادہ ہو اوراس کا پھینکنا ممکن ہوتو پھینک دے اس کے پھینکنے پر کچھ نہیں لیکن اگرجان بوجھ کر نگل جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔اوراگرچبا لی یعنی جبڑے کی ورزش کے لیے حرکت دینے کے لیے کوئی چیز چبانے میں ذائقہ یا مٹھاس ہو تواس کا چبانا حرام ہے ، اوراگر حلق تک جا پہنچے تواس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب کلی کرنے کے بعد پانی نکال دیا جائے اورباقی بچنے والی نمی اور رطوبت کوئی نقصان دہ نہیں ، کیونکہ اس سے احتراز ممکن نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جسے نکسیر پھوٹ پڑے اس کا روزہ صحیح ہے ، کیونکہ یہ اس کے اختیار میں نہیں۔

اوراگر مسوڑھوں میں پیپ ہو یا مسواک کرنے سے خون نکلنا شروع ہوجائے تواسے نگلنا جائز نہیں بلکہ اسے خون تھوکنا ہوگا لیکن اگر اس کے اختیار کے بغیر حلق میں چلا جائے تواس پرکچھ لازم نہیں آتا۔

پانی صاف کرنے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کا پانی کی بھاپ سونگھنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : بغیر کسی ضرورت کے کھانا چکھنامکروہ ہے کیونکہ ایسا کرنے میں روزہ کے فاسد ہونے کا خدشہ ہے ۔ ماں کا اپنے بچے کے لیے کسی چیز کو چبا کردینے جب اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو اوراسی طرح کھانے کی پکائی چکھنے میں اوراسی طرح جب کسی چیز کی خریداری کے وقت چکھنے کی ضرورت ہو توبغیر کسی چیز کے نگلنے سے روزہ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ دارکے لیے سارا دن مسواک کرنا سنت ہے چاہے مسواک تازہ بھی ہو، روزہ کی حالت میں مسواک کرنے پر اگر مسواک کا ذائقہ وغیرہ ہو تو اس کے نگلنے یا اسے تھوک کر باقیماندہ نگلنے پرروزہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔لیکن ایسی چیز جس کا مادہ تحلیل ہونے والا ہو مثلا تازہ مسواک یا اس میں لیمون اورپودینہ کا ذائقہ ہو اسے نکال دینا چاہیے اورعمدا ًاسے نگلنا جائز نہیں ، لیکن اگر بغیر کسی قصد کے نگل لے تو اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ دار کے حلق میں اس کے اختیار کے بغیر نکسیر یا زخم کی وجہ سے خون یا پانی اورپٹرول جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اوراسی طرح اگر اس کے پیٹ میں گردوغبار یا دھواں اوردھند بغیر کسی ارادہ وقصد کے چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اوراسی طرح ایسی چیز جس سے بچنا محال ہوجیسے تھوک نگلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اوراسی طرح راستے کا گردوغبار اورآٹا چھانتے وقت دھوڑ وغیرہ سے نہیں ، اورعمداً تھوک جمع کرنے سے بھی صحیح قول کے مطابق روزہ نہیں ٹوٹتا۔

اسی طرح حلق تک آنسو کا جانا ، یا سروغیرہ میں تیل لگانا ، اورمہندی لگانے سے حلق میں ذائقہ محسوس ہونے پر بھی روزہ کو کچھ نہیں ہوگا ، اوراسی طرح سرمہ ڈالنے اورتیل اورمہندی لگانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اوراسی طرح جلد کو ملائم کرنے والی مرہم وغیرہ سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا ، خوشبوسونگھنے اور استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں اور روزے دار کے لیے عود کی دھونی لینے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن ناک کے ذریعہ پیٹ میں نہیں لیجانی چاہیے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : بہتر یہ ہے کہ ٹوتھ پیسٹ روزے کی حالت میں استعمال نہ کی جائے ، بلکہ رات کو استعمال کرنی چاہیے کیونکہ یہ قوی نفوذ رکھتی ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب کوئی شخص غروب شمس کے گمان میں سورج غروب ہونے سے قبل ہی افطاری کرلے ، توجمہور علماء کرام کے ہاں اسے اس دن کی قضاکرنا ہوگی کیونکہ اصل یہی ہے کہ دن باقی ہے اورشک سے یقین زائل نہیں ہوتا ، لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس پر قضانہیں ہوگی۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب طلوع فجر ہواور کسی کے منہ میں کھانا یا پانی ہو تو علماء کرام اس پر متفق ہیں کہ اسے نکال پھینکنا چاہیے ، اوراس کاروزہ صحیح ہے ، اوراسی طرح جس نے بھول کرکھا پی لیا اوریاد آنے کے وقت جوکچھ مونہہ میں ہواسے جلدی سے نکال دینے پرروزہ صحیح رہے گا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : پورے رمضان میں میاں بیوی کے اختلاط پر پابندی کا حکم تو کبھی نہیں ہوا، البتہ یہ حکم تھا کہ سونے سے پہلے پہلے کھانا پینا اور صحبت کرنا جائز ہے۔ سوجانے سے روزہ شروع ہوجائے گا، اور اگلے دن اِفطار تک روزے کی پابندی لازم ہوگی، آپ کا اشارہ غالباً اسی کی طرف ہے۔آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جس واقعے کا حوالہ دیا ہے وہ صحیح ہے، اور صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اس نوعیت کا واقعہ متعدّد حضرات کو پیش آیا تھا، لیکن اس واقعے سے سیّدنا عمر یا دْوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا، بلکہ ان حضرات کی ایک فضیلت اور بزرگی ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ان حضرات کو اللہ تعالیٰ نے قوّتِ قدسیہ عطا فرمائی تھی، اور وہ بتوفیقِ الٰہی ضبطِ نفس سے کام بھی لے سکتے تھے، لیکن آپ ذرا سوچئے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا کوئی واقعہ نہ پیش آتا اور قانون یہی رہتا کہ عشاء کی نماز کے بعد سے کھانا پینا اور بیوی کے پاس جانا ممنوع ہے، تو بعد کی اْمت کو کس قدر تنگی لاحق ہوتی؟ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں ایسے واقعات پیش آئے کہ ان کی وجہ سے پوری اْمت کے لئے آسانی پیدا ہوگئی، اس لئے یہ حضرات لائقِ ملامت نہیں، بلکہ پوری اْمت کے محسن ہیں۔جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ سورہ بقرہ کی آیت۱۸۷ہے، اس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:‘‘تم لوگوں کے لئے روزہ کی رات میں اپنی بیبیوں سے ملنا حلال کردیا گیا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، اللہ کو علم ہے کہ تم اپنی ذات سے خیانت کرتے تھے سو اللہ نے تم پر عنایت فرمادی، اور تم کو تمہاری غلطی معاف کردی ۔۔۔۔’’

قرآنِ کریم کے اصل الفاظ آپ قرآن مجید میں پڑھ لیں، آپ کو صرف اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی اس غلطی کو ‘‘اپنی ذات سے خیانت’’ کے ساتھ تعبیر کرکے فوراً ان کی توبہ قبول کرنے، ان کی غلطی معاف کرنے اور ان پر نظرِ عنایت فرمانے کا اعلان بھی ساتھ ہی فرما دیا ہے، کیا اس کے بعد ان کی یہ غلطی لائقِ ملامت ہے؟ نہیں! بلکہ یہ ان کی مقبولیت اور بزرگی کا قطعی پروانہ ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : آپ کا یہ نظریہ تو صحیح نہیں کہ: ‘‘روزہ رکھ کر گناہ کرنے سے بہتر کیا یہ نہ ہوگا کہ روزہ رکھا ہی نہ جائے’’ یہ بات حکمتِ شرعیہ کے خلاف ہے۔ شریعت، روزہ رکھنے والوں سے یہ مطالبہ ضرور کرتی ہے کہ وہ اپنے روزے کی حفاظت کریں، اور جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنا کھانا پینا تک چھوڑ دیا ہے تو بے لذّت گناہوں سے بھی احتراز کریں، اور اپنے روزے کے ثواب کو ضائع نہ کریں، مگر شریعت یہ نہیں کہے گی کہ جو لوگ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں وہ روزہ ہی نہ رکھا کریں۔ آپ نے جن اْمور کا تذکرہ کیا ہے یہ روزے کی رْوح کے منافی ہیں، روزہ دار کو قطعی ان سے پرہیز کرنا چاہئے۔ البتہ واقعہ یہ ہے کہ رمضان مبارک کے معمولات اور روزے کے آداب کی پابندی کے ساتھ اگر ماہِ مبارک گزار دیا جائے تو آدمی کی زندگی میں انقلاب آسکتا ہے، جس کی طرف قرآنِ کریم نے لعلکم تتقون کے چھوٹے سے الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دار کو پرہیز کی بہت ہی تاکید فرمائی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ: ‘‘بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کو رتجگے کے سوا کچھ نہیں ملتا، اور بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔’’ایک اور حدیث میں ہے کہ:‘‘جو شخص جھوٹ بولنے اور غلط کام کرنے سے باز نہیں آتا، اللہ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھڑانے کی کوئی ضرورت نہیں۔’’

 آپ نے لغویات کے ضمن میں سو رہنے کا بھی ذکر فرمایا ہے، لیکن روزے کی حالت میں سوتے رہنا مکروہ نہیں، اس لئے آپ کے سوال میں یہ الفاظ لائقِ اصلاح ہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اِفطار کرانے کا ثواب تو یکساں ہے، غریب کی خدمت اور عزیز کے ساتھ حسنِ سلوک کا ثواب الگ ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : غیرمعتکف کا مسجد میں سونا مکروہ ہے، جو حضرات مسجد میں جائیں وہ اِعتکاف کی نیت کرلیا کریں، اس کے بعد ان کے سونے کی گنجائش ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : حالتِ جنابت میں سحری کی تو روزہ ہوجائے گا، اور اس میں کوئی تردّد نہیں، لیکن آدمی جتنی جلدی ہوسکے پاکی حاصل کرلے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : یہ مسئلہ جو عوام میں مشہور ہے کہ ‘‘شش عید کے لئے عید کے دْوسرے دن روزہ رکھنا ضروری ہے’’ بالکل غلط ہے، عید کے دْوسرے دن روزہ رکھنا کوئی ضروری نہیں، بلکہ عید کے مہینے میں، جب بھی چھ روزے رکھ لئے جائیں، خواہ لگاتار رکھے جائیں یا متفرق طور پر، پورا ثواب مل جائے گا، بلکہ بعض اہلِ علم نے تو عید کے دْوسرے دن روزہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ مکروہ نہیں، دْوسرے دن سے بھی شروع کرسکتے ہیں۔ شوال کے چھ روزے رکھنے سے رمضان کے قضا روزے ادا نہیں ہوں گے، بلکہ وہ الگ رکھنے ہوں گے، کیونکہ یہ نفلی روزے ہیں، اور رمضان کے فرض روزے، جب تک رمضان کے قضا روزوں کی نیت نہیں کرے گا، وہ ادا نہیں ہوں گے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : سحری آخری وقت میں کھانا مستحب ہے، اور سحری کے بعد سوجانے میں اگر فجر کی جماعت فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو مکروہ ہے، ورنہ نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : یہ صورت ان بے شمار لوگوں کو پیش آتی ہے جو پاکستان یا سعودی عرب وغیرہ ممالک میں رمضان شروع کرکے عید سے پہلے پاکستان یا ہندوستان میں آجاتے ہیں، ان کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ پاکستان یا ہندوستان پہنچ کر یہاں کے رمضان کی گنتی پوری کریں اور اکتیسواں روزہ بھی رکھیں، یہ زائد روزہ ان کے حق میں نفل ہوگا، لیکن پاکستان اور ہندوستان کے تیسویں روزے کے دن ان کے لئے عید منانا جائز نہیں۔

ایک صورت اس کے برعکس یہ پیش آتی ہے کہ بعض لوگ پاکستان یا ہندوستان میں رمضان شروع ہونے کے بعد سعودی عرب یا دْوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں، ان کا اٹھائیسواں روزہ ہوتا ہے کہ وہاں عید ہوجاتی ہے، ان کو چاہئے کہ سعودی عرب کے مطلع کے مطابق عید کریں اور ان کا جو روزہ رہ گیا ہے اس کی قضا کریں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : تراویح پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے تراویح ضرور پڑھنی چاہئے، تراویح مستقل عبادت ہے، یہ نہیں کہ جو روزہ رکھے وہی تراویح پڑھے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جمعۃ الوداع کے لئے کوئی خصوصی عبادت شریعت نے مقرّر نہیں کی، رمضان المبارک کی ہر رات اور ہر دن ایک سے ایک اعلیٰ ہے، خصوصاً جمعہ کا دن اور جمعہ کی راتیں، اور علی الخصوص رمضان کے آخری عشرے کی راتیں، اور ان میں بھی طاق راتیں۔ ان میں تلاوت، ذکر، نوافل، اِستغفار، دْرود شریف کی جس قدر ممکن ہو کثرت کرنی چاہئے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : کان میں پانی خودبخود داخل ہوجانے سے صحیح روایت کے مطابق روزہ فاسد نہیں ہوتا۔ البتہ قصداً پانی ڈالنے کی صورت میں احتیاطاً ایک روزہ قضاء کرلینا بہتر ہے۔ روزے کی حالت میں کان میں تیل ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : دمے کے مریض کے لیے روزے کے دوران انہیلر یا وینٹولین لینے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے کیونکہ اس میں لیکویڈ دوائی ہوتی ہے جو پمپ کرنے کی صورت میں اندر جاتی ہے اور دوائی اندر جانے سے روزہ فاسدہوجاتا ہے لہٰذا سائل پر اس روزے کی قضا ہے کفارہ نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگر کوئی شخص بیماری کی بنا پر روزہ نہیں رکھتا تو اس نے جتنے روزے نہیں رکھے صرف اس کی قضاہے اور اسی طرح اگر روزہ رکھ کر بیماری کی بنا پر توڑ دیا تو ایسے شخص پر بھی صرف قضا ہے کفارہ نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : صورت مسؤلہ میں بیک وقت ایک روزہ میں، نفل اورفرض کی نیت نہیں کرسکتے ہیں لہٰذا شوال کے چھ روزوں یا ذی الحجہ،عاشورہ کے روزوں کے ساتھ،قضا روزوں کی ادائیگی کی نیت کرناصحیح نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے قضا روزوں کو ادا کیا جائے کیونکہ ان کی ادائیگی لازم ہے،اس کے باوجود اگر کوئی ان نفلی روزوں کو رکھ لیتا ہے توثواب ملے گا۔

 نمازکاوقت داخل ہوجانے پرمرداورعورت دونوں کے لیے،داخل شدہ وقت کی نمازپڑھناجائزہے،اذان ہو جانے کا انتظارکرناضروری نہیں ہے۔البتہ مردکیلیے شرعاًیہ حکم ہے کہ مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرلیا کریں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگر بیماری ظاہری طور پر دائمی ہے تو ایسی صورت میں فدیہ دینے کا حکم ہے،ہر روزے کے بدلے پونے دوکلو گندم یا اس کی قیمت مستحقِ زکوٰۃ فرد کو دی جائے۔ گذشتہ سالوں کے روزوں کا فدیہ گندم کی موجودہ قیمت (پونے دو کلو گندم) کے حساب سے ادا کریں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : کسی بھی کام کے عبادت ہونے کے لیے یہ ضابطہ ذہن میں رکھا جائے کہ وہ احکام اسی وقت، اسی کیفیت اورانہی شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے جن کے ساتھ اس کا ثبوت شریعت مطہرہ میں ہو، اپنی طرف سے کسی خاص وقت میں، کسی خاص کیفیت یا خاص شرائط کے ساتھ کسی کام کی انجام دہی عبادت نہیں بلکہ بدعت ہوگی۔اسی ضابطہ کے پیش نظرشرعاً جن مواقع پر روزہ رکھنے کی ترغیب یا اجازت ہے ان مواقع پر توروزہ رکھنا عبادت ہوگا، لیکن جن مواقع یا ایام میں قرون اولیٰ سے روزہ رکھنے کا ثبوت نہیں ہے، ان ایام میں اس دن کی اہمیت کے پیش اگرہم اپنی طرف سے روزہ کااہتمام شروع کردیں تو شرعاً یہ روزہ بجائے عبادت کے بدعت کے زمرہ میں آئیگا۔چنانچہ خلفائے راشدین یا کسی اورصحابی کی شہادت یا وفات کے دن روزہ رکھنے کا ثبوت قرون اولیٰ میں ہمیں نہیں ملتااس لیے اس دن مخصوص نسبت کے ساتھ روزہ رکھنے کی اجازت بھی نہیں، البتہ اگرکسی کا عام معمول ہو روزہ رکھنے کا اور اس دوران کوئی ایسا دن آجاتاہے تو وہ حسبِ معمول روزہ رکھ سکتا ہے، جس کا تعلق اس دن کے ساتھ نہیں ہوگا بلکہ اس کے معمول کا حصہ ہوگا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)