سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : جولائی 2013

 

قسط۱۰۳
نورالقرآن 
 سات تراجم ، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری
نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔
سورۃ المائدہ 
آیات ۱۱۔۶
یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ط وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا ط وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآءَ اَحَد‘’ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ ط مَایُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ہ۶ وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ لا اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ز وَاتَّقُوااللَّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْم‘’ م بِذَاتِ الصُّدُوْرِہ۷ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ ز وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْر‘’ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ ہ۸ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لا لَھُمْ مَّغْفِرَۃ‘’ وَّاَجْر‘’ عَظِیْم‘’ ہ۹ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ ہ۱۰ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْھَمَّ قَوْم‘’ اَنْ یَّبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَھُمْ فَکَفَّ اَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۱۱ع

تراجم

            ۱۔ ۶۔ اے ایمان والو! جب تم اٹھو نماز کو ، تو دھو لو اپنے منہ ، اور ہاتھ کہنیوں تک ، اور مل لو اپنے سر کو ، اور پاؤں (دھولو) ٹخنوں تک۔ اور اگر تم کو جنابت ہو ، تو خوب طرح پاک ہو ۔ اور اگر تم بیمار ہو ، یا سفر میں ، یا ایک شخص تم میں آیا ہے جائے ضرور سے ، یا لگے ہو عورتوں سے ، پھر نہ پاؤ پانی ، تو قصد کرو زمین پاک کا ، اور مل لو اپنے منہ اور ہاتھ اس سے ، اللہ نہیں چاہتا ، کہ تم پر کوئی مشکل رکھے ، اور لیکن چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے ، اور اپنا احسان پورا کیا چاہے تم پر ، کہ شاید تم احسان مانو۔۷۔اور یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر ، اور عہد اس کا جو تم سے ٹھیرایا، جب تم نے کہا ، کہ ہم نے سنا اور مانا ۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے ، اللہ جانتا ہے جیوں کی بات۔۸۔اے ایمان والو! کھڑے ہو جایا کرو ، اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی ، اور ایک قوم کی دشمنی کے باعث عدل نہ چھوڑو ۔ عدل کرو ۔ یہی بات لتی ہے تقویٰ سے ۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے ۔ اللہ کو خبر ہے جو کرتے ہو۔ ۹۔ وعدہ دیا اللہ نے ایمان والوں کو ، جو نیک عمل کرتے ہیں، کہ ان کو بخشتا ہے اور بڑا ثواب ہے ۔ ۱۰۔ اور جو لوگ منکر ہوئے ، اور جھٹلائیں ہماری آیتیں ، وہ ہیں دوزخ والے ۔ ۱۱۔ اے ایمان والو! یاد رکھو احسان اللہ کا اپنے اوپر ، جب قصد کیا ایک لوگوں نے ، کہ تم پر ہاتھ چلا ویں، پھر روک لیے تم سے ان کے ہاتھ ، اور ڈرتے رہو اللہ سے ۔ اور اللہ پر چاہئے بھروسا، ایمان والوں کو۔ (شاہ عبدالقادرؒ)

            ۲۔ ۶۔ اے ایمان والو! جب تم نماز کو اٹھنے لگو تو اپنے چہروں کو دھوؤ اور اپنے ہاتھوں کو بھی کہنیوں سمیت اور اپنے سروں پر ہاتھ پھیرو اور دھوؤ اپنے پیروں کو بھی ٹخنوں سمیت اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو سارا بدن پاک کرو اور اگر تم بیمار ہو یا حالت سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص استنجے سے آیا ہو یا تم نے بیبیوں سے قربت کی ہو پھر تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ پھیر لیا کرو اس زمین پر سے ، اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں کہ تم پر کوئی تنگی ڈالیں ، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ تم کو پاک صاف رکھے ، اور یہ کہ تم پر اپنا انعام نام فرما دے تا کہ تم شکر ادا کرو۔ ۷۔اور تم لوگ اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو اور اس کے اس عہد کو بھی جس کا تم سے معاہدہ کیا ہے جب کہ تم نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور مان لیا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو بلا شبہ اللہ تعالیٰ دلوں تک کی باتوں کی پوری خبر رکھتے ہیں۔ ۸۔اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے لیے پوری پابندی کرنے والے انصاف کے ساتھ شہادت ادا کرنے والے رہو ، اورخاص لوگوں کی عداوت تمہارے لیے اس کا باعث نہ ہو جائے کہ تم عدل نہ کرو عدل کیا کرو کہ وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب اعمال کی پوری اطلاع ہے۔ ۹۔اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے جو ایمان لے آئے اور انہوں نیا چھے کام کیے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لیے مغفرت اور ثواب عظیم ہے ۔ ۱۰۔اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہمارے احکام کو جھوٹا بتلایا اسے لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں۔ ۱۱۔اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے انعام کو یاد کرو جو تم پر ہوا ہے جب کہ ایک قوم اس فکر میں تھی کہ تم پر دست درازی کریں سو اللہ تعالیٰ نے ان کا قابو تم پر نہ چلنے دیا، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو ، اور اہل ایمان کو حق تعالیٰ ہی پر اعتماد رکھنا چاہیے ۔ (مولانا تھانویؒ)

            ۳۔ ۶۔ اے ایمان والو جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو ، تو اپنا منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ ، اور سروں کا مسح کرو ، اور گٹوں تک پاؤں دھوؤ ، اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو خوب ستھرے ہو لو ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا یا تم نے عورتوں سے صحبت کی اور ان صورتوں میں پانی نہ پایا تو پاک مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے ہاں یہ چاہتا ہے کہ تمہیں خوب ستھرا کر دے اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دے کہ کہیں تم احسان مانو۔ ۷۔اور یاد کر و اللہ کا احسان اپنے اوپر ، اور وہ عہد جو اس نے تم سے لیا ، جب کہ تم نے کہا ہم نے سنا اور مانا ، اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ دلوں کی بات جانتا ہے ۔ ۸۔اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہو جاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ، اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ ابھارے کہ انصاف نہ کرو ، انصاف کرو وہ پرہیز گاری سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔ ۹۔ایمان والے نیکو کاروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے ۔ ۱۰۔اور وہ جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتیں جھٹلائیں وہی دوزخ والے ہیں۔ ۱۱۔اے ایمان والو اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب ایک قوم نے چاہا کہ تم پر دست درازی کریں تو اس نے ان کے ہاتھ تم پر روک دیئے اور اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے ۔ (مولانا احمد رضا خانؒ)

            ۴۔ ۶۔ اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ کو ،اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو ، اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کر لو ، ہاں اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی حاجت ضروری سے فارغ ہو کر آیا ہو ، یا تم عورتوں سے ملے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو، اسے اپنے چہروں پر اور ہاتھوں پر مل لو، اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چہاتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے کا اور تمہیں اپنی بھر پور نعمت دینے کا ہے ، تا کہ تم شکر ادا کرتے رہو۔ ۷۔تم پر اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں نازل ہوئی ہیں انہیں یاد رکھو اور اس کے اس عہد کو بھی جس کا تم سے معاہدہ ہوا ہے جب کہ تم نے کہا ہم نے سنا اور مانا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یقینا اللہ تعالیٰ دلوں کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ ۸۔اے ایمان والو! تم للہیت کے ساتھ حق پر قائم ہو جاؤ ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ ، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے ، عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔ ۹۔اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو ایمان لائیں اور نیک کام کریں ان کے لیے وسیع مغفرت اور بہت بڑا اجر و ثواب ہے ۔ ۱۰۔اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہمارے احکام کو جھٹلایا وہ دوزخی ہیں۔ ۱۱۔اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا ہے اسے یاد کرو جب کہ ایک قوم نے تم پر دست درازی کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ (مولانا جونا گڑھیؒ)

            ۵۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو ، سروں پر ہاتھ پھیر لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو۔ اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہوجاؤ۔ اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یاتم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو ، اور پانی نہ ملے، تو پاک مٹی سے کام لو، بس اُس پر ہاتھ مارکر اپنے منہ اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو۔ اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا ، مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے ، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔ (۶) اللہ نے تم کو جو نعمت عطا کی ہے اس کا خیال رکھو اور اس پختہ عہد و پیمان کو نہ بھولو جو اس نے تم سے لیا ہے ، یعنی تمہارا قول یہ کہ ‘‘ ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی۔’’ اللہ سے ڈرو ، اللہ دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ (۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتال ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (۸) جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور انہیں بڑا اجر ملے گا ۔ (۹) رہے وہ لوگ جو کفر کریں اور اللہ کی آیات کو جھٹلائیں ، تو وہ دوزخ میں جانے والے ہیں۔ (۱۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے اس احسان کو یادکرو جو اس نے (ابھی حال میں ) تم پر کیا ہے ، جبکہ ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کر لیاتھا مگر اللہ نے ان کے ہاتھ تم پر اٹھنے سے روک دیے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، ایمان رکھنے والوں کو اللہ ہی پر بھرو سہ کرنا چاہیے۔ (۱۱) (مولانا مودویؒ)

            ۶۔ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤ ں ٹخنوں تک دھوؤ اور اگر حالت جنابت میں ہو تو غسل کر لو ،اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی جائے ضرور سے آیا ہو یا عورتوں سے ملاقات کی ہو ،پھر پانی نہ پاؤ تو پاک جگہ دیکھ کر اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر اس سے مسح کر لو ،اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے تاکہ تم اس کے شکر گزار ہو ۔(۶)اور اپنے اوپر اللہ کے فضل کو اور کے اس میثاق کو یاد رکھو جو اس نے تم سے لیا ،جب کہ تم نے اقرار کیا کہ ہم نے مانا اور اطاعت کی اور اللہ سے ڈرتے رہو ،بے شک اللہ سینوں کے بھید وں سے بھی باخبر ہے ۔(۷)اے ایمان والو ! عدل کے علم بردار بنو ،اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے ،اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو ۔عدل کرو ۔یہی تقویٰ سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے باخبر ہے ۔(۸)جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ا ن سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔(۹)اور جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخ والے ہیں ۔(۱۰)اے ایمان والو ! اپنے اوپر اللہ کے فضل کو یاد کرو جب کہ ایک قوم نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی کرے تو اللہ نے تم سے ان کے ہاتھ کو روک دیا اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ ہی پر چاہیے کہ اہم ایمان بھروسہ کریں ۔(۱۱)(مولانا امین احسن اصلاحیؒ)

            ۷۔ ایمان والو، (یہی پاکیزگی خدا کے حضور میں آنے کے لیے بھی چاہیے، لہٰذا) جب نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤں بھی دھو لو، اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ ۔ اور اگر (کبھی ایسا ہو کہ) تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آئے یا عورتوں سے مباشرت کی ہو اور پانی نہ ملے تو کوئی پاک جگہ دیکھو اور اُس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کر نا چاہتا، لیکن یہ ضرور چاہتا ہے کہ تمھیں پاکیزہ بنائے (چنانچہ وضو اور غسل کا پابند بناتا ہے) اور (چاہتا ہے کہ) اپنی نعمت تم پر تمام کرے ،(اِس لیے مجبوری کی حالت میں تیمم کی اجازت دیتا ہے) تاکہ تم اُس کے شکرگزار ہو۔ (۶) (اِس رعایت سے فائدہ اٹھاؤ) اور اپنے اوپر اللہ کی اِس نعمت کو یاد رکھو اور اُس کے اُس عہد و میثاق کو بھی جو اُس نے اُس وقت تم سے ٹھیرایا جب تم نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم فرماں بردار ہیں، (اِسے یاد رکھو) اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک، اللہ دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔ (۷) ایمان والو،(اِس عہد و میثاق کا تقاضا ہے کہ ) اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ، انصاف کی گواہی دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی بھی تمھیں اِس پر نہ ابھارے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک، اللہ تمھارے ہر عمل سے با خبر ہے۔(۸) اللہ نے اُن لوگوں سے وعدہ کر رکھا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں کہ اُن کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔(۹) (اِس کے برخلاف) جو منکر ہیں اور اُنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے، وہی دوزخ میں جانے والے ہیں۔ (۱۰) ایمان والو، (اور) اپنے اوپر اللہ کی یہ عنایت بھی یاد رکھو کہ جب ایک قوم نے تم پردست درازی کا ارادہ کیا تو اللہ نے اُن کے ہاتھ تم سے روک دیے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور (یاد رکھو کہ) ایمان والوں کو تو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔(۱۱) (محترم جاوید احمد غامدی)

تفاسیر

نظم کلام

‘‘سابقہ آیات میں طعام و نکاح کے باب کے طیبات و خبائث کا ذکر فرما کر ان کی تطہیر فرمائی۔ اب نماز کی طہارت کا بیان آرہا ہے۔ نماز کی طہارت وضو ہے اور بصورتِ جنابت غسل۔ اسی ذیل میں پانی نہ ملنے یا کسی عذر کی صورت میں تیمم کی اجازت مرحمت فرمائی جو اس اُمت پر اتمامِ نعمت ہے اور یہ اس باب کا تکمیل حکم ہے۔اس کے بعد قیام بالقسط اور شہادت علی الناس کے جس منصب پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مامور فرمایا ہے، اس کی یاد دہانی فرما دی تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ اب اس دنیا میں حق و عدل کی میزان وہی ہیں۔ اگر انھوں نے انحراف اختیار کیا تو ہرچیز ٹیڑھی ہوجائے گی۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح فرما دیا کہ اگر تم موافق و مخالف سب کے لیے حق و عدل پر قائم رہنے والے ثابت ہوئے توآخرت کا اجر عظیم بھی تمہارے لیے ہے اور دنیا میں بھی تمہی کا میاب و بامراد ہوگے، تمہارے دشمن تمہارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۴۶۶ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

یایھا الذین امنوا………… لعلکم تشکرون

وضو سے طہارت حاصل کرنے کا طریقہﷺ ‘‘اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم وایدیکم الی المرافق، قام کے بعد جب الیٰ آتا ہے تو اس کے معنی قصد کرنے کے ہوتے ہیں۔ یعنی جب تم نماز کا قصد کرو تو اس کے لیے طہارت حاصل کرلو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھی ثابت ہے اور عقل و فطرت بھی گواہی دیتی ہے کہ ایک مرتبہ کی حاصل کردہ طہارت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک کوئی ناقض حالت پیش نہ آجائے۔رہے یہ سوالات کہ دھونے کا طریقہ کیا ہے۔ مذکورہ اعضا ایک ایک بار دھوئے جائیں یا دو دو تین تین بار، مَل مَل کے دھوئے جائیں یا صرف پانی بہا لیا جائے۔ کنپٹی، داڑھی اور کہنیوں کے معاملے میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے تو ان کا تعلق احکام سے نہیں بلکہ آداب سے ہے اور آداب سیکھنے کا بہترین ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ کی نسبت سے جو باتیں ثابت ہوں خواہ اس کی شکلیں مختلف ہوں، سب میں خیروبرکت ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۴۶۹ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس حکم کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منہ دھونے میں کلّی کرنا اور ناک صاف کرنا بھی شامل ہے ، بغیر اس کے منہ کے غسل کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اور کان چونکہ سر کا ایک حصہ ہیں اس لیے سرکے مسح میں کانوں کے اندرونی و بیرونی حصوں کا مسح بھی شامل ہے۔ نیز وضو شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھو لینے چاہییں تاکہ جن ہاتھوں سے آدمی وضو کر رہا ہو وہ خود پہلے پاک ہو جائیں۔’’ (تفہیم القرآن،ج۱ ، ص۴۴۸، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)

وامسحوا بِرُوسکم

‘‘ مسح کے معنی ہاتھ پھیرنے کے ہیں اور حرف ‘ب’ اس طرح کے مواقع میں احاطہ کے مفہوم پر دلیل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے مجھے ان لوگوں کا مسلک قوی معلوم ہوتا ہے جو پورے سر کے مسح کے قائل ہیں۔ اگرچہ عمامہ وغیرہ کی صورت میں رفع زحمت کے پہلو سے سر کے جزوی حصے کا مسح بھی کافی ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۴۶۹ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

وارجلکم الی الکعبین

‘‘اس کا عطف ایدیکم پر ہے۔ اس وجہ سے یہ ان اعضا کے تحت داخل ہے جن کے لیے دھونے کا حکم ہے۔ وضو میں اعضا کی ترتیب واضح کرنے کے لیے اس کو مؤخر کر دیا گیا ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ ترتیب فطری بھی ہے اور شرعی بھی۔ بعض لوگوں نے اس کو مسح کے تحت داخل کیا ہے لیکن یہ قول متواتر قراء ت اور متواتر سنت کے بھی خلاف ہے اور عربیت کے بھی۔ اگر پاؤں کا مسح ہوتا تو اس کے ساتھ الی الکعبین کی قید بالکل غیرضروری تھی۔ چنانچہ دیکھ لیجیے، وضو میں ہاتھ دھونے کے لیے الی المرافق کی قید لگائی ہے لیکن تیمم میں جہاں مسح کا حکم ہے الی المرافق کی پابندی اڑادی اس لیے کہ مسح میں اس قسم کی پابندی ایک بالکل غیر مفید بات تھی’’۔ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۴۶۹ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج

وضو اور تیمم کے احکام کی علت و حکمت

ٍ‘‘یہ اس حکم کی علت و حکمت بیان ہو رہی ہے کہ اگر کچھ لوگوں نے ان پابندیوں کو سخت محسوس کیا ہو تو ان پر ان کی افادیت واضح ہوجائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ غیرعادی طبائع پر غسل اور وضو کی یہ پابندی ہے بڑی شاق اور بڑی آزمائش کی چیز لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی بندوں کو مشقت میں ڈالنے کے لیے نہیں عائد کی ہے۔ اگر مشقت مقصود ہوتی تو بیماری اور سفروغیرہ کی حالت میں تیمم کی اجازت کیوں مرحمت ہوتی؟ بلکہ یہ بندوں کو پاکیزہ بنانے کے لیے عائد کی گئی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ خدا اور اس کے قدوسیوں کا قرب حاصل کرنے کے اہل ہوسکیں۔ اصلاً تو پاکیزگی باطن کی مطلوب ہے اور نمازِ باطن ہی کی پاکیزگی کے لیے فرض کی گئی ہے لیکن ظاہر اور باطن میں بڑا گہرا رشتہ ہے۔ ظاہر کا اثر باطن پر اور باطن کا اثر ظاہر پر پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اسلام نے نماز کے لیے وضو کا حکم دیا ہے اور ناپاکی کی حالت ہو تو غسل کا۔ یہ چیز اس باطنی طہارت کے حصول میں معین ہے جو نماز کا اصل مقصود ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۷۰، فاران فاونڈیشن لاہور)

تیمم

‘‘ صحیح بخاری میں اس کی شانِ نزول کی بابت آتا ہے کہ ایک سفر میں بیداء مقام پر حضرت عائشہ کا ہار گم ہوگیا جس کی وجہ سے وہاں رُکنا یا رُکے رہنا پڑا۔ صبح کی نماز کے لیے لوگوں کے پاس پانی نہ تھا اور تلاش ہوئی تو پانی دستیاب بھی نہیں ہوا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت اُسید بن حضیر نے آیت سن کر کہا: اے آلِ ابی بکر! تمہاری وجہ سے اللہ نے لوگوں کے لیے برکتیں نازل فرمائی ہیں اوریہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے (تم لوگوں کے لیے سراپا برکت ہو)’’ (احسن البیان، ص ۱۳۹ ، دارالسلام لاہور)

‘‘اِس میں شبہ نہیں کہ تیمم سے بظاہر کوئی پاکیزگی تو حاصل نہیں ہوتی، لیکن اصل طریقۂ طہارت کی یادداشت ذہن میں قائم رکھنے کے پہلو سے اِس کی بڑی اہمیت ہے۔ شریعت میں یہ چیز بالعموم ملحوظ رکھی گئی ہے کہ جب اصلی صورت میں کسی حکم پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو شبہی صورت میں اُس کی یادگار باقی رکھی جائے۔ اِس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حالات معمول پر آتے ہی طبیعت اصلی صورت کی طرف پلٹنے کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے۔’’ (البیان)

‘‘ مترجم محقق نے پاؤں کے بعد لفظ ‘‘کو’’ نہ لکھ کر نہایت لطیف اشارہ فرما دیا کہ ارجلکم کا عطف مغسولات پر ہے یعنی جس طرح منہ ہاتھ دھونے کا حکم ہے، پاؤں بھی ٹخنوں تک دھونے چاہییں سر کی طرح مسح کافی نہیں۔ چنانچہ اہلِ سنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے اور احادیث کثیرہ سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے’’ (تفسیر عثمانی ، ص ۱۴۳ ، پاک کمپنی لاہور)

ولیتم نعمتہ علیکم

‘‘ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نماز کے باب میں وضو اور تیمم کے ان احکام کے بعد اللہ کی نعمت تم پر تمام کی گئی۔ سورۂ نساء میں تیمم پر بحث کرتے ہوئے ہم اشارہ کر آئے ہیں کہ یہود کے ہاں طہارت کے معاملے میں بڑی سخت قیدیں اور پابندیاں تھیں۔ اول تو ان کی شریعت کے احکام تھے ہی سخت، پھر ان پر مزید اضافہ ان کے فقہا کے تشددات نے کر دیا تھا۔ تیمم کا ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں تھا اور یہ بات تو ان کے ہاں انتہائی بددینی کی تھی کہ کوئی شخص حدث و جنابت کی حالت میں خواہ کیسی ہی معذوری و مجبوری ہو، مجرد تیمم پر اکتفا کرکے نماز پڑھ لے۔ چنانچہ قرآن میں جب تیمم کی اجازت نازل ہوئی تو اس کاا نھوں نے نہ صرف مذاق اڑایا بلکہ اس کو دلیل بنا کر یہاں تک کہنے لگے کہ ان مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ تو مکہ کے مشرکین ہیں۔ یہود کے یہ تشددات بھی من جملہ ان اصرار و اغلال کے تھے جو خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دُور ہونے والے تھے۔ چنانچہ تیمم کی اجازت نے طہارت کے باب میں اللہ کی نعمت کا اتمام فرمایا اور اس اتمامِ نعمت سے اس اُمت کو جو سہولتیں اور برکتیں حاصل ہوئیں ان پر ہر آن شکر واجب ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۰ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘احکامِ اسلامیہ کی اصلی روح تو عبادت ہے یعنی ہم ان کو اس لیے بجا لاتے ہیں کہ یہ احکام خداوندی ہیں اور خداوند عالم کے ہر حکم کی اطاعت ہم پر فرض ہے لیکن قرآن کریم جابجا ان کے ظاہری فوائد اور رُوحانی منافع کو بیان فرما کر اس طرف بھی ہماری توجہ مبذول کرا دیتا ہے کہ ان احکام میں سراسر تمھاری بہبودی اور بہتری کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ یہاں بھی اشارہ فرما دیا کہ وضو اور غسل وتیمم سے مقصود تمھاری پاکیزگی اور طہارت ہے۔ اسلام نے روحانی طہارت کے لیے جسمانی پاکیزگی کو جتنا ضروری قرار دیا ہے وہ ظاہر ہے ، یہ الگ بات ہے کہ آج ہمارے صوفی اور امام گندگی میں اپنی مثال آپ ہوں۔’’( ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۴۴۶ ، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

واذکروا نعمۃ اللّٰہ…… بذات الصدور

‘‘اب یہ اس اتمامِ نعمت کا حق بتایا ہے کہ اللہ نے اپنی آخری اور کامل شریعت تم پر نازل کرکے جو فضل و انعام فرمایا ہے یہود کی طرح اس کو بھول نہ جانا بلکہ اس کو ہمیشہ یاد رکھنا۔ یاد رکھنا، اپنے حقیقی مفہوم میں ہے۔ یعنی ظاہراً و باطناً ہر پہلو سے اس کا حق ادا کرنا۔ اس کے بعد اس ذمہ داری کی نوعیت واضح فرما دی کہ یہ تمھارے اور تمھارے رب کے درمیان ایک مضبوط میثاق کی حیثیت رکھتی ہے، جو خدا نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے تم سے لیا ہے اور تم نے پیغمبر کے سامنے سمعنا واطعنا کہہ کر اس میثاق کی ذمہ داری اُٹھائی ہے۔خدا نے تمھارے لیے دنیا و آخرت کی کامرانیوں کے جو وعدے فرمائے ہیں وہ اسی میثاق پر منحصر ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۰، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

یایھا الذین امنوا…… خبیر بما تعملون

میثاقِ شریعت کی ذمہ داری اُمت مسلمہ پر

کونوا قومین للّٰہ شھدآء بالقسط

‘‘ تھوڑے سے تغیر الفاظ کے ساتھ یہ ٹکڑا سورۂ نساء کی آیت ۳۵ میں بھی گزر چکا ہے۔ وہاں اس کی وضاحت ہوچکی ہے۔ یہ اسی میثاق کی اجتماعی ذمہ داری واضح کی گئی ہے کہ مسلمانوں پر بحیثیت اُمت مسلمہ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس حق و عدل کے علَم بردار بنیں جو اس آخری شریعت کی شکل میں ان کو عطا ہوا ہے۔ خود اپنے اندر اس کو قائم کریں اور اسی کی شہادت دنیا کے سامنے دیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘قوامین للّٰہ میں ‘‘حقوق اللہ’’ کی اور شھدآء بالقسط میں ‘‘حقوق العباد’’ کی طرف اشارہ ہے۔ اسی قسم کی آیت والمحصنت کے آخر میں گزر چکی ہے۔ صرف اس قدر فرق ہے وہاں ‘‘بالقسط’’کی اور یہاں ‘‘للہ’’ کی تقدیم مناسب ہوئی۔نیز یہاں لحاق میں مبغوض دشمن سے معاملہ کرنے کا ذکر ہے جس کے ساتھ ‘‘قسط’’ کو یاد دلانے کی ضرورت ہے، اور ‘‘سورۂ نساء’’ کے لحاق میں محبوب چیزوں کا ذکر ہے اس لیے وہاں سب سے بڑے محبوب (اللہ) کو یاد دلایا گیا۔’’ (تفسیر عثمانی ، ص ۱۴۳، پاک کمپنی لاہور)

ولا یجرمنکم شنان قومٍ

حق و عدل کی راہ کا سب سے بڑا فتنہ

‘‘ یہ ٹکڑا اسی سورۂ کی آیت ۲ میں گزر چکا ہے۔ یہ حق و عدل کی راہ کے سب سے بڑے فتنے سے آگاہ کیا گیا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی اور اس کا غلط سے غلط رویہ بھی ہمیں اس حق و عدل سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ شیطان نے راہِ حق سے گمران کرنے میں سب سے زیادہ جس حربے سے کام لیا وہ یہی ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کا حربہ ہے۔ یہود نے محض بنی اسماعیل اور مسلمانوں کی دشمنی میں اس تمام عہدوپیمان کو خاک میں ملا دیا جس کے وہ گواہ اور ذمہ دار بنے گئے تھے۔ اس وجہ سے مسلمانوں سے یہ عہد لیا گیا کہ وہ شیطان کے اس فتنے سے بچ کے رہیں۔ دوستوں اور دشمنوں دونوں کے لیے ان کے پاس بس ایک ہی باٹ اور ایک ہی ترازو ہو۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

اعدلوا واقرب للتقوی

‘‘یہی عدل، تقویٰ سے اقرب ہے۔ یعنی تقویٰ جو تمام دین و شریعت کی روح اور اہلِ ایمان کے ہر قول و فعل کے لیے کسوٹی ہے اس سے موافقت رکھنے والا طرزِعمل یہی ہے کہ دشمن کی دشمنی کے باوجود اس کے ساتھ کوئی معاملہ عدل و حق سے ہٹ کر نہ کیا جائے۔ اس سے دین میں تقویٰ کا مقام واضح ہوا کہ تمام نیکیاں درحقیقت اسی کی جڑ سے ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘‘عدل’’ کا مطلب ہے کسی شخص کے ساتھ بدون افراط و تفریط کے وہ معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہے۔ عدل و انصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہیے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عداوت بھی اس کے دونوں پلّوں میں سے کسی پلہ کو جھکا نہ سکے۔’’(تفسیر عثمانی ،ص ۱۴۴، پاک کمپنی لاہور)

‘‘جو چیزیں شرعاً مہلک یا کسی درجہ میں مضر ہیں ان سے بچاؤ کرتے رہنے سے جو ایک خاص نورانی کیفیت آدمی کے دل میں راسخ ہوجاتی ہے اس کا نام ‘‘تقویٰ’’ہے ۔ تحصیلِ تقویٰ کے اسباب قریبہ و بعیدہ بہت سے ہیں۔ تمام اعمال حسنہ اور خصالِ خیر کو اس کے اسباب و معدات میں شمار کیا جاسکتا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ‘‘عدل و قسط’’یعنی دوست و دشمن کے ساتھ یکساں انصاف کرنا اور حق کے معاملہ میں جذباتِ محبت و عداوت سے قطعاً مغلوب نہ ہونا، یہ خصلت حصولِ تقویٰ کے مؤثر ترین اور قریب ترین اسباب میں سے ہے۔ اسی لیے ھو اقرب للتقویٰ فرمایا (یعنی یہ عدل جس کا حکم دیا گیا تقویٰ سے نزدیک تر ہے) کہ اس کی مزاولت کے بعد تقویٰ کی کیفیت بہت جلد حاصل ہوجاتی ہے۔’’ (تفسیر عثمانی ، ص ۱۴۴، پاک کمپنی لاہور)

‘‘مذکورہ تین آیتوں میں سے پہلی آیت کا مضمون تقریباً ان ہی الفاظ کے ساتھ سورۂ نساء میں بھی گزر چکا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ وہاں کونوا قوامین بالقسط شہدآء للّٰہ ،ارشاد ہوا تھا اور یہاں کونوا قوامین اللّٰہ شہداء بالقسط فرمایا گیاہے۔ ان دونوں آیتوں میں الفاظ کے تقدم اور تاخر کی ایک لطیف وجہ ابوحبان نے تفسیر بحرِمحیط میں ذکر کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے انسان کو عدل و انصاف سے روکنے اور ظلم و جور میں مبتلا کرنے کے عادتاً دو سبب ہوا کرتے ہیں: ایک اپنے نفس یا اپنے دوستوں، عزیزوں کی طرفداری۔ دوسرے کسی شخص کی دشمنی و عداوت۔ سورۂ نساء کی آیت کا روئے سخن پہلے مضمون کی طرف ہے اور سورۂ مائدہ کی اس آیت کا روئے سخن دوسرے مضمون کی طرف۔اسی لیے سورۂ نساء میں اس کے بعد ارشاد ہے: ولا علٰی انفسکم والوالدین والاقربین،یعنی عدل و انصاف پر قائم رہو۔ چاہے وہ عدل و انصاف کا حکم خود تمہارے نفوس یا تمہارے والدین اور عزیزوں اور دوستوں کے خلاف پڑے۔ اور سورۂ مائدہ کی اس آیت میں جملۂ مذکور کے بعد یہ ارشاد ہے: ولایجرمنکم شنان قومٍ علٰی ان لا تعدلوا۔یعنی کسی قوم کی عداوت و دشمنی تھیں اس پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف کے خلاف کرنے لگو۔اس لیے سورۂ نساء کی آیت کا حاصل یہ ہوا کہ عدل و انصاف کے معاملہ میں اپنے نفس اور والدین اور عزیزوں کی بھی پروا نہ کرو۔ اگر انصاف کا حکم …… ان کے خلاف ہے تو خلاف ہی قائم رہو اور سورۂ مائدہ کی آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ عدل و انصاف کے معاملہ میں کسی دشمن کی دشمنی کی وجہ سے لغزش نہ ہونی چاہیے کہ اس کو نقصان پہنچانے کے لیے خلافِ انصاف کام کرنے لگو۔’’( معارف القرآن، ج۳، ص ۶۹، ادارۃ المعارف کراچی)

وعد اللہ الذین…… اصحاب الجحیم

‘‘یہ مذکورہ بالا میثاق پر عمل کرنے اور نہ کرنے دونوں کا نتیجہ بیان ہوا ہے کہ جو لوگ اس میثاق پر قائم رہیں گے، ان کے لیے مغفرت اور اجرِعظیم ہے اور جو اس کو توڑیں گے ان کے لیے جہنم ہے۔ اس سے ایک تو یہ بات نکلی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم پر اس میثاق کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ اسی طرح اپنے اُوپر بھی اس کے جواب میں ایک عہد کی ذمہ داری لی ہے۔ اس کا اظہار وعداللّٰہ کے الفاظ سے ہو رہا ہے۔ یہ رب کریم کی کتنی بڑی بندہ نوازی ہے کہ وہ اپنی ہی پیدا کی ہوئی اور اپنی ہی پروردہ مخلوق کے ساتھ ایک معاہدے میں شریک ہو اور جواب میں اپنی ذات پر بھی ایک عہد کی ذمہ داری اُٹھائے۔ انسان کو یہ وہ شرف بخشا گیا ہے جس میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں۔ دوسری بات یہ نکلی کہ ایمان و عملِ صالح کی تعبیر ایک جامع تعبیر ہے جس میں وہ سب کچھ شامل ہے جو پروردگار نے اپنی شریعت کی شکل میں ہمیں عطا فرمایا ہے اور جس کی پابندی کا ہم سے اقرار لیا ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

یایھا الذین امنوا…… فلیتوکل المومنون

‘‘اس آیت میں ‘‘قوم’’ سے اشارہ میرے نزدیک قریش کی طرف ہے۔ آیت ۳ اور آیت ۸ میں بھی اشارہ انھی کی طرف ہے۔ لفظ کی تنکیر تحقیر شان کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے اور اس سے یہ ظاہر کرنا بھی مقصود ہے کہ متکلم کے پیش نظر ایک حقیقت کا بیان و اظہار ہے نہ کہ کسی خاص قوم کا، تاہم اشارے کی حد تک، جیساکہ میں نے عرض کیا، اس سے مراد قریش ہی ہیں۔ اس سورہ کے مطابق سے، جیساکہ ہم نے اُوپر اشارہ کیا، یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس دور کی سورت ہے جب مسلمان ایک سیاسی قوت بن چکے ہیں۔ ہجرت کے چھٹے، ساتویں سال تک ایسے حالات پیدا ہوچکے تھے کہ قریش متعدد زور آزمائیاں کرکے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور یہود بھی اپنی درپردہ سازشوں کی ناکامیوں کے نہایت تلخ تجربات کرکے ہمت ہارچکے تھے۔ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۷۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘آیت ِ مذکورہ کو پھر اسی جملہ اذکروا نعمۃ اللّٰہ علیکم سے شروع کرکے یہ بتلانا منظور ہے کہ مسلمانوں نے اپنے اس عہد و میثاق کی پابندی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا و آخرت میں قوت و بلندی اور درجاتِ عالیہ عطا فرمائے اور دشمنوں کے ہرمقابلہ میں اُن کی امداد فرمائی ، دشمنوں کا قابو ان پر نہ چلنے دیا۔’’ (معارف القرآن ،ج۳، ص۷۴، ادارۃ المعارف کراچی)

اذ ھم قوم ان یبسطوا الیکم ایدھم فکف۔۔۔

‘‘اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جسے حضرت عبداللہ بن عباس نے روایت کیا ہے کہ یہودیوں میں سے ایک گروہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاص خاص صحابہ کو کھانے کی دعوت پر بلایا تھا اور خفیہ طور پر یہ سازش کی تھی کہ اچانک ان پر ٹوٹ پڑیں گے اور اس طرح اسلام کی جان نکال دیں گے۔ لیکن عین وقت پر اللہ کے فضل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سازش کا حال معلوم ہو گیا اور آپؐ دعوت پر تشریف نہ لے گئے۔ چونکہ یہاں سے خطاب کا رُخ بنی اسرائیل کی طرف پھر رہا ہے اس لیے تمہید کے طور پر اس واقعہ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

یہاں سے جو تقریر شروع ہو رہی ہے اس کے دو مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس روش پر چلنے سے روکا جائے جس پر ان کے پیش رو اہل ِکتاب چل رہے تھے۔ چنانچہ انھیں بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح آج تم سے عہد لیا گیا ہے اسی طرح کل یہی عہد بنی اسرائیل سے اور مسیح علیہ السلام کی اُمّت سے بھی لیا جا چکا ہے۔ پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح وہ اپنے عہد کو توڑ کر گمراہیوں میں مبتلا ہوئے اُسی طرح تم بھی اُسے توڑ دو اور گمراہ ہو جاؤ۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ یہود اور نصاریٰ دونوں کو اُن کی غلطیوں پر متنبہ کیا جائے اور انھیں دین ِ حق کی طرف دعوت دی جائے۔(تفہیم القرآن، جلد۱، ص ۴۵۰ ،مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)

‘‘اس کی شانِ نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان کیے ہیں مثلاً اس اعرابی کا واقعہ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سر واپسی پر ایک درخت کے سائے میں آرام فرما تھے۔ تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی۔ اُس اعرابی نے وہ تلوار پکڑ کر آپؐ پر سونت لی اور کہنے لگا: اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپؐ نے بلاتامل فرمایا: ‘‘اللہ’ ’ (یعنی اللہ بچائے گا) یہ کہنا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے خلاف، جب کہ آپ وہاں تشریف فرما تھے، دھوکہ اور فریب سے نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی تھی، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچایا۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی سے جود و عامری شخص قتل ہوگئے تھے، ان کی دیت کی ادائیگی میں یہودیوں کے قبیلے بنونضیرسے حسب معاہدہ جوتعاون لینا تھا، اس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقاء سمیت وہاں تشریف لے گئے اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے یہ سازش تیار کی کہ اُوپر سے چکی کا پتھر آپ پر گرا دیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ممکن ہے کہ ان سارے ہی واقعات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی، کیوں کہ ایک آیت کے نزول کے کئی اسباب و عوامل ہوسکتے ہیں۔ ’’ (احسن البیان، ص ۱۴۰ ، دارالسلام لاہور)

مترجمین: ۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ،۵۔ سیدّابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاویداحمد غامدی

تفاسیرومفسرین:۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی،۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیع ؒ ،۳۔خزائن العرفان ،مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ،۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ،۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ،۶۔ ضیا ء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہری ؒ ،۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی، ۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی

٭٭٭