سوال ، جواب (بشکریہ ،ماہنامہ محدث، نومبر ۲۰۱۲ء)

مصنف : شیخ محمد صالح المنجد

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جون 2013

جواب: بیوہ عورت کے لیے اپنے اسی گھر میں عدت گزارنا واجب ہے جس گھر میں رہائش رکھے ہوئے اسے خاوند کی وفات کی اطلاع ملی تھی، کیونکہ رسول کریمؐ نے یہی حکم دیا ہے۔ کتب ِ سنن میں نبی کریمؐ کی درج ذیل حدیث مروی ہے کہ آپؐ نے فریعۃ بنت مالکؓ کو فرمایا تھا:

‘‘تم اسی گھر میں رہو جس گھر میں تمہیں خاوند فوت ہونے کی اطلاع ملی تھی، حتیٰ کہ عدت ختم ہوجائے۔ فریعۃؓ کہتی ہیں: چنانچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت بسر کی تھی’’۔

اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اکثر اہلِ علم کا بھی یہی مسلک ہے، لیکن اُنھوں نے یہ اجازت دی ہے کہ اگر کسی عورت کو اپنی جان کا خطرہ ہو یا پھر اس کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی دوسرا شخص نہ ہو اور وہ خود بھی اپنی ضروریات پوری نہ کرسکتی ہو تو کہیں اور عدت گزار سکتی ہے۔

علامہ ابن قدامہؒ کہتے ہیں:

‘‘بیوہ کے لیے اپنے گھر میں ہی عدت گزارنے کو ضروری قرار دینے والوں میں عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم شامل ہیں، اور ابن عمر اور ابن مسعود اور اُم سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے، اور امام مالک، امام ثوری، امام اوزاعی، امام ابوحنیفہ،امام شافعی اور امام اسحاقؒ کا بھی یہی قول ہے’’۔

ابن عبدالبرؒ کہتے ہیں:

‘‘حجاز، شام اور عراق کے فقہائے کرام کی جماعت کا بھی یہی قول ہے’’۔

اس کے بعد لکھتے ہیں:

‘‘چنانچہ اگر بیوہ کو گھر منہدم ہونے یا غرق ہونے یا دشمن وغیرہ کا خطرہ ہو تو اس کے لیے وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہونا جائز ہے، کیونکہ یہ عذر کی حالت ہے اور اسے وہاں سے منتقل ہوکر کہیں بھی رہنے کا حق حاصل ہے’’۔ (مختصراً)

سعودی عرب کی مستقل فتویٰ کونسل کے علمائے کرام سے درج ذیل سوال کیا گیا کہ ایک عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہے اور جس علاقے میں اس کا خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس عورت کی ضرورت پوری کرنے والا کوئی نہیں، کیا وہ دوسرے شہرجاکر عدت گزار سکتی ہے؟

کونسل کے علمائے کرام کا جواب تھا:

‘‘اگر واقعتا ایسا ہے کہ جس شہر اور علاقے میں خاوند فوت ہوا ہے، وہاں اس بیوہ کی ضروریات پوری کرنے والا کوئی نہیں، اور وہ خود بھی اپنی ضروریات پوری نہیں کرسکتی تو اس کے لیے وہاں سے کسی دوسرے علاقے میں جہاں وہ محفوظ ہو اور اس کی ضروریات پوری کرنے والا ہو، منتقل ہونا شرعاً جائز ہے’’۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، ۴۷۳/۲۰)

اور اُن فتاویٰ جات میں ساتھ ہی یہ بھی درج ہے:

‘‘اگر آپ کی بیوہ بہن کو دورانِ عدت اپنے خاوند کے گھر سے کسی دوسرے گھر میں ضرورت کی بنا پر منتقل ہونا پڑے، مثلاً وہاں اسے اکیلے رہنے میں جان کا خطرہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، وہ دوسرے گھر میں منتقل ہوکر عدت پوری کرلے’’۔

اس بنا پر اگر یہ عورت اکیلے رہنے سے ڈرتی ہے، یا پھر گھر کا کرایہ نہیں اداکرسکتی تو اپنے میکے جاکر اُسے عدت گزارنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم!

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب: بیوی کے اخراجات معروف طریقہ سے خاوند کے ذمہ واجب ہیں، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُھُنَّ وَ کِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ

‘‘اور وہ مرد جس کا بچہ ہے اس کے ذمے معروف طریقہ کے مطابق ان عورتوں کا کھانا اور ان کا کپڑا ہے’’۔ (البقرہ:۲۳۳)

اور دوسرے مقام پر اللہ رب العزت کا فرمان ہے: وَاِِنْ کُنَّ اُولاَتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ

‘‘اور اگر وہ عورتیں حاملہ ہوں تو تم ان کے وضع حمل تک ان پر خرچ کرو’’۔ (الطلاق:۶)

اور اس لیے بھی کہ نبی کریمؐ سے ثابت ہے: ‘‘ان عورتوں کا تم پر نان و نفقہ اور ان کا لباس معروف طریقے کے مطابق واجب ہے’’۔ (مسلم: ۱۲۱۸)

اور اس لیے بھی کہ نبی کریمؐ نے سیدہ ہند سے فرمایا تھا:‘‘تم اتنا مال لے لیا کرو جو تمھیں اور تمھاری اولاد کو معروف طریقے سے کافی ہو’’۔ (بخاری: ۵۳۶۴)

اس کے علاوہ اس اُصول یعنی خاوند کا اپنی بیوی پر خرچ کرنے کے واجب ہونے کے بہت سارے شرعی دلائل ہیں ، جو بیوی کے کھانے پینے اور لباس و رہائش وغیرہ کو شامل ہیں، اور اس کے ساتھ بیوی کا علاج معالجہ اور بدن کی قوت بحال کرنے کے اخراجات بھی خاوند کے ذمہ ہیں۔ لیکن یہ نان و نفقہ ‘معروف’ یعنی بہتر طریقہ کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے، اور یہ خاوند کی حالت کے مطابق ہوگا، اگر وہ تنگ دست ہے تو اس کے مطابق اور اگر مالدار ہے تو اس کے مطابق خرچ کرے گا۔

البتہ بیوی کی ملازمت پر جانے کے اخراجات اس کے خاوند پر واجب نہیں، تاہم دو صورتوں میں واجب ہوگا:

پہلی صورت: اگر خاوند نے بیوی کو یہ ملازمت کرنے کا حکم دیا ہو تو اس صورت میں اس کے آنے جانے وغیرہ کے اخراجات خاوند برداشت کرے گا۔

دوسری صورت: عقدِ نکاح میں بیوی نے یہ شرط رکھی ہو کہ ملازمت کے اخراجات خاوند برداشت کرے گا، تواس شرط کو پورا کرنا ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ

‘‘اے ایمان والو! اپنے معاہدے پورا کیا کرو’’۔

اور اس لیے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:‘‘جن شروط کو سب سے زیادہ پورا کرنے کا تمھیں حق ہے، وہ شرطیں ہیں جن کے ساتھ تم نے شرم گاہیں حلال کی ہیں’’۔(بخاری:۲۵۷۲، مسلم: ۱۴۱۸)

اور ایک حدیث میں رسول کریمؐ کا فرمان ہے: ‘‘مسلمان اپنی شرطوں پر قائم رہتے ہیں’’۔ (سنن ابوداؤد:۳۵۹۴)

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب: اوّل: اگر خاوند تباہی والے کام مثلاً شراب نوشی یا نشہ کرنے پر اصرار کرے تو بیوی کے لیے خاوند سے طلاق طلب کرنا جائز ہے، اور اگر خاوند طلاق دینے سے انکار کردے تو پھر شرعی عدالت میں قاضی کے سامنے معاملہ پیش کیا جائے تاکہ وہ خاوندپر طلاق لازم کرے، یا پھر خاوند کے طلاق دینے سے انکار کرنے کی صورت میں شرعی قاضی نکاح فسخ کردے۔

اور اگر شرعی عدالت اور شرعی قاضی نہ ہو تو پھر اس معاملہ کو اپنے علاقے میں موجود اسلامی مرکز یا اسلامک سینٹر میں اُٹھانا چاہیے تاکہ وہ خاوند کو طلاق دینے پر راضی کریں، یا پھر اُسے خلع کی دعوت دیں، اور اس شرعی طلاق کے بعد ضرورت کی بنا پر اسے غیرشرعی عدالت سے تصدیق کرانا جائز ہے۔

دوم: جب آپ نے غیرشرعی عدالت کا سہارا لیا اور عدالت نے خاوند کو طلاق دینے کا کہا تو خاوند نے طلاق کے الفاظ بولے یا پھر طلاق کی نیت سے طلاق کے الفاظ لکھ دیے تو طلاق واقع ہوگئی ہے۔

اور اگر خاوند نے نہ تو طلاق کے الفاظ بولے اور نہ ہی طلاق کی نیت سے طلاق کے الفاظ لکھ کر دیے، بلکہ عدالت نے طلاق کا فیصلہ کردیا تو کافر جج کی طلاق واقع نہیں ہوتی، کیونکہ فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ قاضی کو مسلمان ہونا چاہیے جومسلمانوں کے فیصلے کرے۔ بایں وجہ کہ قضا ایک قسم کی ولایت ہے اور کافر شخص کسی مسلمان شخص کا ولی نہیں بن سکتا۔

فقہائے شریعت کونسل امریکہ کی دوسری کانفرنس جو کوپن ہیگن، ڈنمارک میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت ۴ تا ۷ جمادی الاولیٰ ۱۴۲۵ھ بمطابق ۲۲ تا ۲۵ جون ۲۰۰۴ء میں منعقد ہوئی، اس کا اختتامی بیان یہ تھا:

‘‘جب کسی ایسے ملک میں جہاں اسلامی قوانین اور شرعی عدالتیں نہ ہوں اور کسی حق کو حاصل کرنا متعین ہوجائے یا پھر اپنے سے ظلم روکنا مقصود ہو تو غیرشرعی عدالت سے رجوع کرنے کی اجازت ہے’’۔

لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ شرعی علمائے کرام سے اس سلسلہ میں رجوع ضرور کیا جائے تاکہ اس موضوع کے بارے میں واجب کردہ شرعی حکم کو نافذ کیا جاسکے، اور دوسری عدالتوں سے صرف تنقیذ کی سعی کی جائے’’۔

اور اسی اختتامی بیان کے ساتویں بند میں اسلامی ممالک سے باہر دوسرے ممالک کی سول کورٹس میں جاری ہونے والی طلاق کے متعلق درج ہے:

‘‘جب مرد اپنی بیوی کو شرعی طلاق دے دے تو اس کے لیے ان غیرشرعی عدالتوں سے طلاق توثیق کرانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جب خاوند اور بیوی کا طلاق کے متعلق آپس میں جھگڑا اور تنازع ہو تو پھر شرعی عدالت نہ ہونے کی صورت میں قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد اسلامی مراکز شرعی عدالت کے قائم مقام ہوں گے’’۔

اور شادی کو ختم کرنے کے لیے صرف یہ قانونی کارروائی مکمل کرنے سے ہی شرعی طور پر شادی ختم نہیں ہوگی۔ اس لیے جب عورت سول کورٹ سے طلاق حاصل کرلے تو وہ اسلامی مراکز جاکر اس طرح کے معاملات کا فیصلہ کرنے والے اہلِ علم سے رجوع کرے تاکہ شرعی طور پر اس معاملہ کو پورا کیا جاسکے۔ مختلف جگہوں پر اسلامی مراکز ہونے کی وجہ سے اور ان سے رجوع کرنے میں سہولت ہونے کی بنا پر اس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔

اس بنا پر آپ کو اپنے علاقے کے اسلامی مرکز یعنی اسلامک سنٹر سے رابطہ کرنا چاہیے، وہ آپ کے اس معاملہ کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔

سوم: جب عورت کو اپنے خاوند سے پہلی یا دوسری طلاق ہوجائے اور اس کی عدت گزر جائے تو اس کے لیے اسی خاوند سے نئے مہر کے ساتھ ولی اور گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرنا جائز ہے۔ لیکن اگر اسے تیسری طلاق ہوچکی ہو تو خاوند کے لیے اپنی مطلقہ عورت کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں حتیٰ کہ وہ عورت کسی دوسرے شخص سے بہ رغبت نکاح کرے اور یہ نکاحِ حلالہ نہ ہو، پھر وہ شخص اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے تو پہلے خاوند کے لیے اس سے نکاح کرنا جائز ہوجائے گا۔ واللہ اعلم!

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب: جنبی شخص کے لیے نماز ادا کرنے سے قبل غسل کرنا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا

‘‘اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو پاکیزگی اور طہارت اختیار کرو’’۔ (المائدہ:۶)

اور اگر پانی کی غیرموجودگی، یا پھر کسی عذر یعنی پانی استعمال کرنے میں بیماری کو ضرر ہو، یا پھر شدید سردی میں پانی استعمال کرنے سے بیماری میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہو، یا پانی گرم کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو وغیرہ کی بناپر انسان پانی استعمال کرنے سے عاجزہو تو غسل کی جگہ تیمم کرسکتا ہے، کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے: وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا (المائدہ:۶)

‘‘اور اگر تم مریض ہو یا مسافر یا تم میں سے کوئی ایک قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو، پھر تم نے بیوی سے جماع کیا ہو اور تمھیں پانی نہ ملے تو پاکیزہ اور طاہرمٹی سے تیمم کرلو’’۔

اس آیت میں دلیل ہے کہ جو مریض شخص پانی استعمال نہ کرسکتا ہو یا پھر اسے غسل کرنے سے موت کا خدشہ ہو، یا مرض زیادہ ہونے کا، یا پھر مرض سے شفایابی میں تاخیر ہونے کا تو وہ تیمم کرلے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تیمم کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ (المائدہ:۶)

‘‘تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس مٹی سے مسح کرو’’۔

شریعت ِ اسلامیہ کے اس حکم کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (المائدہ:۶)

‘‘اللہ تعالیٰ تم پر کوئی تنگی نہیں کرنا چاہتا، لیکن تمھیں پاک کرنا چاہتا ہے، اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کرنا چاہتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو’’۔ (دیکھیں تبصرۃ الاحکام:۲۶/۱، اور الموسوعۃ الفقھیۃ: ۲۹۵/۳۳)

اور سیدنا عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں: ‘‘غزوہ ذاتِ سلاسل کی شدید سرد رات میں مجھے احتلام ہوگیا۔ اس لیے مجھے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو ہلاک ہوجاؤں گا اس لیے میں نے تیمم کرکے اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھا دی۔ چنانچہ اُنھوں نے اس واقعہ کا نبی کریمؐ کے سامنے ذکر کیا تو رسول کریمؐ فرمانے لگے: اے عمرو! کیا تم نے جنابت کی حالت میں ہی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی تھی؟ میں نے رسول کریمؐ کو غسل میں مانع امر کا بتایا اور کہنے لگا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا فرمان سنا ہے: وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا (النساء:۲۹) ‘‘اور تم اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والاہے’’۔

چنانچہ رسول کریمؐ مسکرانے لگے اور کچھ بھی نہ فرمایا۔ (سنن ابوداؤد:۳۳۴)

حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں: ‘‘اس حدیث میں اس کا جواز پایا جاتا ہے کہ سردی وغیرہ کی بنا پر اگر پانی استعمال کرنے سے ہلاکت کا خدشہ ہو تو تیمم کیا جاسکتا ہے، اور اسی طرح تیمم کرنے والا شخص وضو کرنے والوں کی امامت بھی کروا سکتا ہے’’۔

اور شیخ عبدالعزیز بن بازؒ کہتے ہیں: ‘‘اگر تو آپ گرم پانی حاصل کرسکیں، یا پھر پانی گرم کرسکتے ہوں یا پھر اپنے پڑوسیوں وغیرہ سے گرم پانی خرید سکتے ہوں تو آپ کے لیے ایسا کرنا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ یعنی ‘‘اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو’’۔ اس لیے آپ اپنی استطاعت کے مطابق عمل کریں، یا تو پانی گرم کرلیں یا پھر کسی سے خرید لیں، یا پھر اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ جس سے آپ پانی کے ساتھ شرعی وضو کرسکیں۔ لیکن اگر آپ ایسا کرنے سے عاجز ہوں، اور شدید سردی کا موسم ہو اور اس میں آپ کو خطرہ ہو، اور نہ ہی پانی گرم کرنے کی کوئی سبیل ہو اور نہ ہی اپنے اردگرد سے گرم پانی خرید سکتے ہوں تو آپ معذور ہوں، بلکہ آپ کے لیے تیمم کرنا ہی کافی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا مذکورہ فرمان ہمیں یہی بتاتا ہے اور ایک مقام پر فرمانِ باری ہے: فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ

‘‘چنانچہ اگر تمھیں پانی نہ ملے تو تم پاکیزہ مٹی سے تیمم کرو اور اپنے چہروں اور ہاتھ پر مٹی سے مسح کرو’’۔

 ‘‘اور پانی استعمال کرنے سے عاجز شخص کا حکم بھی پانی نہ ملنے والے شخص کا ہی ہے’’۔(مجموع الفتاویٰ ابن باز: ۱۹۹/۱۰، ۲۰۰)

جہاں تک آپ کے خاص سوال کا تعلق ہے تو آپ کو چاہیے کہ جتنے جسم کا آپ غسل کرسکتے ہیں، اس کاغسل کرلیں، مثلاً اگر آپ کے لیے کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہو تو بازو اور ٹانگیں وغیرہ جو کچھ دھو سکتے ہیں وہ دھو لیں، اور پھر تیمم کرلیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد از جلد شفایاب کرے، اور آپ کی بیماری کو آپ کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب بنائے۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب: اللہ تعالیٰ نے مساجد کے بارے میں فرمایا: فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۔ (النور:۳۶)

‘‘ان گھروں میں جن کے بلند کرنے ، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہا ں صبح و شام اللہ تعالٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں’’۔

سیدنا ابن عباسؓ، مجاہدؒ، حسن بصری ؒ وغیرہ کے نزدیک اس آیت کریمہ میں بیوت سے مراد مساجد ہیں۔ اہلِ علم کا موقف یہ ہے کہ مساجد دراصل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اقامت ِ صلوٰۃ کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ مساجد کی تعظیم کی جانی چاہیے اور ان کو نجس و گندگی جیسی چیزوں سے پاک رکھنا چاہیے جیساکہ امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں بھی بیان کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ‘‘مساجد کو لہوولعب، بے کار اور ایسے اُمور سے پاک رکھنا چاہیے جو اُن کے لائق نہیں ہیں’’۔ علامہ جلال الدین سیوطی کے مطابق: ‘‘یہ آیت کریمہ مساجد کی عظمت اور اُنھیں ہلکی نوعیت کے کاموں سے دُور رکھنے کو بیان کرتی ہے’’۔ غرض ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ مساجد کے مخصوص احکام و آداب ہیں جن کا اہتمام کیا جانا ضروری ہے تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں مساجد کی ہیبت و احترام اور وقار برقرار رہے۔ جیساکہ سیدنا بریدہؓ سے مروی حدیث میں آتا ہے کہ ایک موقع پر ایک صحابی مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کر رہا تھا تو آپؐ نے فرمایا: لا وجدت انما بنیت المساجد لما بینت لہ۔

‘‘اللہ کرے تو اپنی گم شدہ چیز نہ پائے۔ مساجد ان مقاصد کے لیے ہی ہیں جن کے لیے اُنھیں تعمیر کیا گیا ہے’’۔

امام نوویؒ فرماتے ہیں: ‘‘اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ مساجد میں گم شدہ چیزیں ڈھونڈنا ممنوع ہیں۔ ایسے ہی مساجد میں خریدوفروخت کرنا بھی ناجائز ہے۔ مساجد میں آوازیں بلند کرنا بھی درست نہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے شخص کے لیے یہ کہنا کہ تمھیں وہ اعلان کرنا چیز نہ ملے ، اس سے تہدید و توبیخ کا بھی پتا چلتا ہے’’۔ (شرح النووی علی مسلم:۲۱۵/۲)

ایک بار سیدنا عمر بن خطاب نے ایک شخص کو مسجد میں بلندآواز سے باتیں کرنا سنا تو اس سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ: ‘‘یہ بلند آواز مسجد میں کیسی؟ تمھیں معلوم نہیں کہ تم کہاں کھڑے ہو’’۔ (تفسیر قرطبی: ۲۶۹/۱۲)

ایسے ہی سیدنا ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھے تو آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ بلندآواز سے تلاوتِ قرآن کر رہے ہیں تو آپ نے پردہ ہٹا کر اُنھیں فرمایا: الا ان کلکم مناجٍ ربہ فلا یؤذین بعضکم بعضًا ولا یرفع بعضکم علٰی بعض فی القراء ۃ أو قال فی الصلاۃ (سنن ابی داؤد:۱۳۳۲)

‘‘تم میں سے ہرشخص رب کریم سے مناجات کرتا ہے۔ کوئی شخص دوسرے کے لیے باعث ِ اذیت بنے اور نہ ہی تلاوتِ قرآن یا نماز میں اپنی آواز بلند کرے’’۔

حتیٰ کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے مساجد میں بلند آواز اختیار کرنے والوں کو تعزیر یعنی سزا دینے کا بھی ارادہ فرمایا۔

مذکورہ بالا آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد کے احکام دیگر عمارتوں سے مختلف ہیں۔ اور ایک دین دار مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ شعائر اللہ کا احترام کرے اور بلاشبہہ مساجد شعائراللہ ہی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ذٰلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ (الحج:۳۲)

‘‘جو شعائر اللہ کا احترام کرے تو ایسا دلوں میں اللہ سے تقویٰ کی بنا پر ہے’’۔

مذکورہ بالا اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے واضح رہنا چاہیے کہ مساجد میں نکاح کرنا اچھا عمل ہے جیساکہ فقہائے حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور بعض حنابلہ کے ہاں مساجد میں نکاح کا انعقاد بہتر عمل ہے۔ تاہم نکاح سے مراد یہاں عقدِ نکاح ہی ہے اور عقد ایجاب و قبول کا نام ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم و دیگر اہلِ علم کا بھی موقف یہی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی اس حدیث سے ہے جس میں نبی کریمؐ کا فرمانِ گرامی روایت کیا گیا ہے: أعلنوا ہذا النکاح واجعلوہ فی المساجد (جامع ترمذی:۱۰۸۹)

‘‘نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس کو مساجد میں منعقد کرو’’۔

واضح رہے کہ اس حدیث کا آخری جملہ مستند طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ نہیں، حافظ ابن حجر نے تلخیص الحبیر (۲۰۱/۴) میں اس جملہ کو ضعیف قرار دیا ہے اور اکثر محدثین کرام کا یہی موقف ہے کہ حتیٰ کہ علامہ محمد ناصرالدین البانی نے اپنی کتاب میں اس جملہ کو‘منکر’ قرار دیا ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ:۹۸۲)

 اس حدیث کے بعض راویوں کو حافظ ذہبی نے تلخیص العلل المتناہیہ میں اور حافظ ابن جوزی اور امام ابوحاتم نے بھی ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔

سعودی عرب کے مشہور مفتی و عالم شیخ محمد عثیمین فرماتے ہیں:

‘‘ائمہ فقہا اورسلف کا مساجد میں نکاح کو مستحب قرار دینے کی وجہ دراصل اس مبارک جگہ کی برکت سے فائدہ اُٹھانے کا نظریہ ہے۔ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی مل جائے تو بہتر ہے، تاہم میں اس بارے میں کسی صحیح حدیث کو نہیں جانتا’’۔ (الشرح الممتع: ۱۳۲/۵)

تاہم جمہور فقہائے کرام کا مساجد میں نکاح کا موقف صرف مذکورہ بالا حدیث کی بنا پر نہیں بلکہ اس سلسلے میں صحیح بخاری میں ایک اور مشہور حدیث بھی آتی ہے جو سہل بن سعد ساعدیؓ سے مروی ہے:‘‘ایک خاتون نے کہا کہ میں اپنی ذات آپؐ کو ہبہ کرنے کے لیے آئی ہوں۔ نبی کریمؐ نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔ اسی اثنا میں ایک صحابی رسولؐ کھڑے ہوئے اور نبی کریمؐ سے مخاطب ہوئے کہ اگر آپؐ کو اس میں کوئی حاجت نہیں تو آپؐ اس خاتون کا نکاح مجھ سے فرما دیجیے۔ تو نبی مکرمؐ نے اس صحابی کی طرف سے اس عورت کا حق مہر قرآنِ کریم کی تعلیم کو قرار دے کر، ان دونوں کا نکاح کرا دیا’’۔ (بخاری:۵۱۴۹)

اس حدیث مبارکہ کے بارے میں حافظ ابن حجر صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ خاتون کی آمد کا یہ واقعہ مسجد میں پیش آیا تھا جیساکہ امام سفیان ثوری کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے۔ (فتح الباری: ۲۰۶/۹)

اس حدیث نبویؐ سے معلوم ہوا کہ مساجد میں نکاح منعقد کیا جاسکتا ہے اوراس کا شریعت اسلامیہ میں جواز موجود ہے تاہم واضح رہنا چاہیے کہ دورِ نبوی میں آپؐ کے صحابہ کے بہت سے نکاح ہوئے، خلفائے راشدینؓ کے اَدوار میں بھی بہت سے نکاح منعقد ہوتے رہے لیکن مساجد میں نکاح کی مستند روایت ان اَدوار میں شاذونادر ہی ملتی ہے۔ چنانچہ مساجد میں نکاح کے لیے درج ذیل ضوابط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:

۱- مساجد میں یہ نکاح روزمرہ معمول نہیں بننے چاہییں، اور نہ ہی اس کو مسجد میں کوئی خاص باعث ِفضیلت سمجھنا چاہیے۔

۲- مساجد کے احکام، اوراس کے شرعی آداب بہرطور ملحوظ رکھنے جانے چاہییں۔ چنانچہ مساجد میں آوازیں بلند کرنا، اور مساجد کو کھانے پینے اور حلویات سے آلودہ کردینا بالکل درست نہیں ہے۔

۳- مساجد میں آنے والے دولہا کو سادگی اور وقار اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ مساجد تفریح کے مراکز نہیں اور ان میں وقار قائم رہنا چاہیے جیساکہ نبی کریمؐ کا فرمان اُوپر گزرا کہ ‘‘مساجد اسی کے لیے ہیں، جس لیے انھیں بنایا گیا ہے’’۔

۴- مساجد میں مرد وزن کا اختلاط بالکل منع ہے۔ اسی طرح مساجد میں فیشن زدہ خواتین کا اپنے زرق برق یا شرم و حیا سے عاری ملبوسات میں آنا، مساجد میں یادگاری تصاویر وغیرہ لینا، یہ چیزیں بالکل غیر شرعی ہیں، ان سے کُلی اجتناب ہونا چاہیے۔

۵- مساجد میں موسیقی، طبلے، گانے بجانے، گانوں اور عروسی نظموں سے بھی پرہیز ہونا چاہیے۔

الغرض یاد رہنا چاہیے کہ نکاح کی تقریبات کے ذریعے کسی طرح بھی مسجد کا وقارو احترام متاثر نہ ہونے پائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مساجد اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں، اللہ کی عبادت کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان کا احترام شعائر اللہ ہونے کے ناتے ہرمسلم پر فرض ہے۔ جہاں تک مساجد میں شادی کی تقریبات کا تعلق ہے تو اس کا مقصد، مساجد کے مقام و مرتبہ کو لوگوں کو ذہنوں میں راسخ کرنا اور لوگوں کا مساجد سے تعلق کو پختہ کرناوغیرہ ہے۔ یہ مقاصد نیک ہیں، اور ان مقاصد کو دیگر اچھے ذرائع سے حاصل کرنے کی بھی جدوجہد کرنا چاہیے۔

شیخ محمد صالح العثیمین سے پوچھا گیا کہ کیا مساجد میں نکاح کرنا عیسائیوں سے مشابہت رکھتا ہے کہ وہ بھی اپنے گرجاؤں میں نکاح کی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔

جواب: نہیں، ایسی بات نہیں ہے حتیٰ کہ علمائے شریعت نے مساجد میں نکاح کو مستحب قرار دیا ہے اور ان کی یہ دلیل ہے: ان أحب البقاع الی اللّٰہ مساجدہا،‘‘روئے ارض پر سب سے مبارک قطعہ ارضی اللہ کی مساجد ہیں’’۔ سو اللہ کے گھر ہونے کے ناتے مساجد میں نکاح کرنا ایک بابرکت فعل ہونا چاہیے۔ تاہم یہ ایک منطقی توجیہ ہی ہے، ہمیں نبی کریمؐ کی سنت ِ مبارک میں ایسے نہیں ملتا کہ آپ بطور ِ خاص مسجد میں تشریف لے جاتے ہوں اور وہاں نکاح منعقد کرنے کی جستجو کرتے ہوں۔ جب سنت ِ مطہرہ میں ایسا منقول نہیں ہے تو اس کو روز مرہ عادت بنا لینا بھی مناسب نہیں۔

شیخ عبدالعزیز بن بازؒ سے سوال کیا گیا کہ مساجد میں نکاح کے بارے میں آپ کا فتویٰ کیا ہے، ہم یہ کام اس مقصد سے کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے نئے جوڑے اور دونوں خاندانوں کو اللہ کی رحمت اور برکت حاصل ہوگی۔

جواب: کسی مخصوص مقام پر نکاح کے انعقاد کے بارے میں ، میرے علم میں کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ مساجد یا دیگر مقامات پر نکاح میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم میرے علم میں مساجد میں نکاح کا التزام کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔

شرعی طور پر یہ امر واضح ہے کہ کتاب و سنت میں مساجد میں نکاح منعقد کرنے کی پختہ روایت نہیں ملتی۔ تاہم فی زمانہ برصغیر پاک و ہند میں نکاح کے ساتھ شان و شوکت، نمائش و اِسراف ، بینڈ باجے اور بے جا رسومات کی جو متعدد عادات و رواجات منسلک ہوچکے ہیں تو مساجد میں نکاح منعقد کر کے ان غیرشرعی رسومات کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے، کیونکہ مساجد کا ماحول ایسی بہت سی باتوں کا اپنی پاکیزگی کی بنا پر متحمل نہیں ہوسکتا۔ عقدِ نکاح سے قبل جو خطبہ ارشاد فرمایا جاتا ہے، اس کی تاثیر کے لیے بھی مبارک اور باوقار ماحول درکار ہے، تب ہی اس کے اثرات اوراس موقع پر کی جانے والی دعا کی تاثیر پیدا ہوسکتی ہے۔ ان مقاصد کے پیش نظر ، جن میں سادگی، رسوم و رواج کا خاتمہ اور ہندوانہ عادات کی بیخ کنی وغیرہ شامل ہیں، مساجد میں نکاح کو اختیار کیا جاسکتا ہے، تاہم یہ بعض نیک مقاصد کی بنا پر ہی ہے۔ اور اگر لوگ یہ طریقہ اختیار کرلیں کہ نکاح تو مسجد میں کریں اور غیراسلامی عادات اور شان و شوکت کے لیے شادی کی مستقل تقریبات منعقد کریں تو اس سے یہ اصل مقصد ختم ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ چونکہ ان کی پرشکوہ مجالسِ شادی بیاہ کے لیے خطبہ نکاح یا کسی عالم دین کا آکر وہاں وعظ و تلقین کرنا اجنبی محسوس ہوتا ہے۔ اس بنا پر وہ شادی کی تقریب میں اپنے دنیادارانہ شوق پورے کرتے ہیں اور اس کے دینی پہلو کے لیے مسجد میں ایک رسمی مجلس کرکے، جس میں چند ایک رشتہ دار حاضر ہوجاتے ہیں، نکاح کے شرعی پہلو سے عہدہ برآ ہوجاتے ہیں۔ جن مقاصد کے لیے مساجد میں نکاح کو فروغ دیا جا رہا ہے ، اگر وہ مقاصد پورے نہیں ہو رہے بلکہ اس سے اسلام اور اہلِ اسلام کی بے توقیری سامنے آرہی ہو تو پھر مساجد میں نکاح کے انعقاد کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ شریعت ِ اسلامیہ کی رُو سے مساجد میں نکاح منعقد ہوسکتا ہے اور نیک مقاصد کے لیے اس کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ جہاں تک صرف اِس کے مبارک ہونے اور اس سے برکت لینے کا تعلق ہے تو دورِ نبویؐ اور ادوارِ صحابہؓ و تابعینؒ میں مساجد سے اس تبرک کی کوئی مستند روایت موجود نہیں ہے۔

(شیخ محمد صالح المنجد)