سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : اپریل 2013

 

قسط۱۰۰
نورالقرآن 
 سات تراجم ، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری
نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔
سورۃ نسا
آیات ۱۷۵۔۔۱۶۳

اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنْ م بَعْدِہٖ ج وَاَوْحَیْنَآاِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَاَیُّوْبَ وَیُوْنُسَ وَھٰرُوْنَ وَسُلَیْمٰنَ ج وَاٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ہج ۱۶۳ وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰھُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْھُمْ عَلَیْکَ ط وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا ہج ۱۶۴ رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃ‘’ م بَعْدَ الرُّسُلِ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ہ۱۶۵ لٰکِنِ اللّٰہُ یَشْھَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَیْکَ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ ج وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یَشْھَدُوْنَ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًاہط ۱۶۶ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلاًم بَعِیْدًا ہ۱۶۷ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَظَلَمُوْا لَمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَلَھُمْ وَلَا لِیَھْدِیَھُمْ طَرِیْقًا ہلا ۱۶۸ اِلَّاطَرِیْقَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ط وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا ہ۱۶۹ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّکُمْ ط وَاِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ہ۱۷۰ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَاتَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ ط اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَکَلِمَتُہٗ ج اَلْقٰئھَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَ رُوْح‘’ مِّنْہُ ز فَاٰمِنُوْابِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ قف ج وَلَاتَقُوْلُوْاثَلٰثَۃ‘’ ط اِنْتَھُوْاخَیْرًا لَّکُمْ ط اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہ‘’ وَّاحِد‘’ ط سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَد‘’ م لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً ہع ۱۷۱ لَّنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدً الِّلّٰہِ وَلَا الْمَلٰٓئِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ ط وَمَنْ یَّسْتَنْکِفْ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُھُمْ اِلَیْہِ جَمِیْعًا ہ۱۷۲ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْھِمْ اُجُوْرَھُمْ وَیَزِیْدُھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ ج وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اسْتَنْکَفُوْا وَاسْتَکْبَرُوْا فَیُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ۵لا وَّلَا یَجِدُوْنَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا ہ۱۷۳ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ کُمْ بُرْھَان‘’ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا ہ۱۷۴ فَاَمَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَاعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُھُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ لا وَّیَھْدِیْھِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ہط ۱۷۵

تراجم

    ۱۔ ہم نے وحی بھیجی تیری طرف، جیسے وحی بھیجی نوح کو اور نبیوں کو اس کے بعد، اور وحی بھیجی ابراہیم کو، اور اسماعیل کو، اور اسحاق کو، اور یعقوب کو، اور اس کی اولاد کو، اور عیسیٰ کو، اور ایوب کو، اور یونس کو، اور ہارون کو، اور سلیمان کو۔ اور ہم نے دی داؤد کو زبور(۱۶۳) اور کِتّے رسول جن کا احوال سنایا ہم نے تجھ کو آگے، اور کِتّے رسول جن کا احوال نہیں سنایا تجھ کو۔ اور باتیں کیں اللہ نے موسیٰ سے بول کر(۱۶۴) کِتّے رسول، خوشی اور ڈر سنانے والے، تا نہ رہے لوگوں کو اللہ پر الزام کی جگہ رسولوں کے بعد۔ اور اللہ زبردست ہے حکمت والا(۱۶۵) لیکن اللہ شاہد ہے اس پر، جو تجھ کو نازل کیا کہ یہ نازل کیا ہے اپنے علم کے ساتھ۔ اور فرشتے گواہ ہیں۔ اور اللہ بس ہے حق ظاہر کرنے والا(۱۶۶) جو لوگ منکر ہوئے اور اٹکے اللہ کی راہ سے، وہ دور پڑے ہیں بھول کر(۱۶۷) جو لوگ منکر ہوئے اور حق دبا رکھا، ہر گز اللہ بخشنے والا نہیں ان کو، اور نہ ان کو ملا دے راہ(۱۶۸) مگر راہ دوزخ کی، پڑے رہیں اس میں ہمیشہ۔ اور یہ اللہ پر آسان ہے(۱۶۹) لوگو! تم پاس رسول آ چکا، ٹھیک بات لے کر تمھارے رب کی، سو مانو کہ بھلا ہو تمھارا، اور اگر نہ مانو گے تو اللہ کا ہے جو کچھ ہے آسمان اور زمین میں۔ اور اللہ سب خبر رکھتا ہے حکمت والا(۱۷۰) اے کتاب والو! مت مبالغہ کرو، اپنے دین کی بات میں، اور مت بولو اللہ کے حق میں، مگر بات تحقیق۔ مسیح جو ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا، رسول ہے اللہ کا، اور اس کا کلام، جو ڈال دیا مریم کی طرف، اور روح اُس کے ہاں کی۔ سو مانو اللہ کو، اور اس کے رسولوں کو۔ اور مت بتاؤ اس کو تین۔ یہ بات چھوڑو کہ بھلا ہو تمھارا۔ اللہ ہے جو ہے، سو ایک معبود ہے۔ اس لائق نہیں کہ اس کے اولاد ہو۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمان و زمین میں ہے۔ اور اللہ بس ہے کام بنانے والا(۱۷۱) مسیح ہر گز برا نہ مانے اس سے کہ بندہ ہو اللہ کا اور نہ فرشتے نزدیک والے۔ اور جو کوئی کنیاوے (کنارہ کرے) اللہ کی بندگی سے، اور تکبر کرے، سو وہ جمع کرے ان سب کو اپنے پاس اکٹھا(۱۷۲) پھر جو ایمان لائے ہیں، اور علم کیے نیک، ان کو پورا کر دے گا ان کا ثواب، اور بڑھتی دے گا اپنے فضل سے۔ اور جو کنیائے اور تکبر کیا، سو ان کو مارے گا دکھ کی مار اور نہ پاویں گے اپنے واسطے اللہ کے سوا کوئی حمایتی نہ مددگار(۱۷۳) لوگو! تم پاس پہنچ چکی تمھارے رب کی طرف سے سند، اور اتاری ہم نے تم پر روشنی واضح(۱۷۴) سو جو یقین لائے اللہ پر، اور اس کو مضبوط پکڑا، تو ان کو داخل کرے گا اپنی مہر میں، اور فضل میں، اور پہنچا دے گا اپنی طرف سے سیدھی راہ(۱۷۵)(شاہ عبدالقادرؒ)
    ۲۔ ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی ہے جیسے نوح کے پاس بھیجی تھی اور ان کے بعد اور پیغمبروں کے پاس اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحق اور یعقوب اور اولاد یعقوب اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کے پاس وحی بھیجی تھی اور ہم نے داؤد کو زبور دی تھی(۱۶۳) اور ایسے پیغمبروں کو صاحب وحی بنایا جن کا حال اس کے قبل ہم آپ سے بیان کر چکے ہیں اور ایسے پیغمبروں کو جن کا حال ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا اور موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر کلام فرمایا(۱۶۴) ان سب کو خوش خبری دینے والے اور خوف سنانے والے پیغمبر بنا کر اس لیے بھیجا تاکہ لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے سامنے ان پیغمبروں کے بعد کوئی عذر باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ پورے زور والے بڑی حکمت والے ہیں(۱۶۵)لیکن اللہ تعالیٰ بذریعہ اس کتاب کے جس کو آپ کے پاس بھیجا ہے اور بھیجا بھی اپنے علمی کمال کے ساتھ شہادت ،دے رہے ہیں اور فرشتے تصدیق کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شہادت کافی ہے(۱۶۶) جو لوگ منکر ہیں اور خدائی دین سے مانع ہوتے ہیں بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑے ہیں(۱۶۷) بلاشبہ جو لوگ منکر ہیں اور دوسروں کا بھی نقصان کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی نہ بخشیں گے اور نہ ان کو سوائے جہنم کی راہ کے(۱۶۸) اور کوئی راہ دکھلاویں گے اس طرح پر کہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہا کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سزا معمولی بات ہے(۱۶۹) اے تمام لوگو، تمھارے پاس یہ رسول سچی بات لے کر تمھارے پروردگار کی طرف سے تشریف لائے ہیں سو تم یقین رکھو یہ تمھارے لیے بہتر ہو گا اور اگر تم منکر رہے تو خدا تعالیٰ کی ملک ہے یہ سب جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اور اللہ تعالیٰ پوری اطلاع رکھتے ہیں کامل حکمت والے ہیں(۱۷۰) اے اہل کتاب، تم اپنے دین میں حد سے مت نکلو اور خدا تعالیٰ کی شان میں غلط بات مت کہو۔ مسیح عیسیٰ بن مریم تو اور کچھ بھی نہیں البتہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ایک کلمہ ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے مریم تک پہنچایا تھا اور اللہ کی طرف سے ایک جان ہیں۔ سو اللہ پر اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لاؤ اور یوں مت کہو کہ تین ہیں۔ باز آ جاؤ تمھارے لیے بہتر ہو گا۔ معبود حقیقی تو ایک ہی معبود ہے وہ صاحب اولاد ہونے سے منزہ ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجودات ہیں سب اس کی ملک ہیں اور اللہ تعالیٰ کارساز ہونے میں کافی ہیں(۱۷۱) مسیح ہر گز خدا کے بندے بننے سے عار نہیں کریں گے اور نہ مقرب فرشتے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی بندگی سے عار کرے گا اور تکبر کرے گا تو خدا تعالیٰ ضرور سب لوگوں کو اپنے پاس جمع کریں گے(۱۷۲) پھر جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور انھوں نے اچھے کام کیے ہوں گے تو ان کو ان کا پورا ثواب دیں گے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دیں گے اور جن لوگوں نے عار کیا ہو گا اور تکبرکیا ہو گا تو ان کو سخت درد ناک سزا دیں گے اور وہ لوگ کسی غیر اللہ کو اپنا یار اور مددگار نہ پاویں گے(۱۷۳) اے لوگو، یقینا تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آ چکی ہے اور ہم نے تمھارے پاس ایک صاف نور بھیجا ہے(۱۷۴) سو جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور انھوں نے اللہ کو مضبوط پکڑا سو ایسوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں داخل کریں گے اور اپنے فضل میں اور اپنے تک ان کو سیدھا رستہ بتلا دیں گے(۱۷۵) (مولانا تھانویؒ)
    ۳۔ بے شک اے محبوب ہم نے تمھاری طرف وحی بھیجی جیسے وحی نوح اور اسحق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی(۱۶۳) اور رسولوں کو جن کا ذکر آگے ہم تم سے فرما چکے اور ان رسولوں کو جن کا ذکر تم سے نہ فرمایا اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا(۱۶۴) رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے بعد اللہ کے یہاں کوئی عذر نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے(۱۶۵) لیکن اے محبوب اللہ اس کا گواہ ہے جو اس نے تمھاری طرف اتارا وہ اس نے اپنے علم سے اتارا ہے اور فرشتے گواہ ہیں اور اللہ کی گواہی کافی (۱۶۶) وہ جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا بے شک وہ دور کی گمراہی میں پڑے(۱۶۷) بے شک جنھوں نے کفر کیا اور حد سے بڑھے اللہ ہر گز انھیں نہ بخشے گا اور نہ انھیں کوئی راہ دکھائے(۱۶۸) مگر جہنم کا راستہ کہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ اللہ کو آسان ہے(۱۶۹) اے لوگو تمھارے پاس یہ رسول حق کے ساتھ تمھارے رب کی طرف سے تشریف لائے تو ایمان لاؤ اپنے بھلے کو اور اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے(۱۷۰) اے کتاب والو، اپنے دین میں زیادتی نہ کرو اور اللہ پر نہ کہو مگر سچ۔ مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا اللہ کا رسول ہی ہے اور اس کا ایک کلمہ کہ مریم کی طرف بھیجا اور اس کے یہاں کی ایک روح تو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور تین نہ کہو باز رہو اپنے بھلے کو اللہ تو ایک ہی خدا ہے ۔ پاکی اسے اس سے کہ اس کے کوئی بچہ ہو اسی کا مال ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور اللہ کافی کارساز(۱۷۱) مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ نفرت نہیں کرتا اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے تو کوئی دم جاتا ہے کہ وہ ان سب کو اپنی طرف ہانکے گا (۱۷۲) تو وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کی مزدوری انھیں بھرپور دے کر اپنے فضل سے انھیں اور زیادہ دے گا اور وہ جنھوں نے نفرت اور تکبر کیا تھا انھیں درد ناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا نہ اپنا کوئی حمایتی پائیں گے نہ مددگار(۱۷۳) اے لوگو بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمھاری طرف روشن نور اتارا(۱۷۴) تو وہ جو اللہ پر ایمان لائے اور اس کی رسی مضبوط تھامی تو عنقریب اللہ انھیں اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا اور انھیں اپنی طرف سیدھی راہ دکھائے گا(۱۷۵)( مولانا احمد رضا خانؒ)
    ۴۔ یقینا ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولادوں پر اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور ایوب (علیہ السلام) اور یونس (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کی طرف اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی(۱۶۳) اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کیے ہیں اور بہت سے رسولوں کے نہیں بھی کیے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا(۱۶۴) ہم نے انھیں رسول بنایا ہے، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے۔ اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا باحکمت ہے(۱۶۵) جو کچھ آپ کی طرف اتارا ہے اس کی بابت خود اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ اسے اپنے علم سے اتارا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے(۱۶۶) جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے اوروں کو روکا وہ یقینا گمراہی میں دور نکل گئے(۱۶۷) جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم کیا انھیں اللہ تعالیٰ ہر گز ہر گز نہ بخشے گا اور نہ انھیں کوئی راہ دکھائے گا(۱۶۸) بجز جہنم کی راہ کے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گے، اور یہ اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہے(۱۶۹) اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے حق لے کر رسول آ گیا ہے۔ پس تم ایمان لاؤ تاکہ تمھارے لیے بہتری ہو اور اگر تم کافر ہو گئے تو اللہ ہی کی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اور اللہ دانا ہے حکمت والا ہے(۱۷۰) اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ، اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو، مسیح عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) تو صرف اللہ تعالیٰ کے رسول اور اس کے حکم ہیں جسے مریم (علیہا السلام) کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی روح ہیں، اس لیے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اس سے باز آجاؤ کہ تمھارے لیے بہتری ہے، اللہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور اللہ کافی ہے کام بنانے والا(۱۷۱) مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی ننگ و عار یا تکبر و انکار ہر گز ہو ہی نہیں سکتا اور نہ مقرب فرشتوں کو، اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے، اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا(۱۷۲) پس جو لوگ ایمان لائے ہیں اور شائستہ اعمال کیے ہیں ان کو ان کا پورا پورا ثواب عنایت فرمائے گا اور اپنے فضل سے انھیں اور زیادہ دے گا اور جن لوگوں نے ننگ و عار اور سرکشی اور انکار کیا، انھیں المناک عذاب دے گا اور وہ اپنے لیے سوائے اللہ کے کوئی حمایتی دوست اور امداد کرنے والا نہ پائیں گے(۱۷۳) اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آ پہنچی، اور ہم نے تمھاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے(۱۷۴) پس جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اسے مضبوط پکڑ لیا، انھیں تو وہ عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں لے لے گا اور انھیں اپنی طرف کی راہ راست دکھا دے گا(۱۷۵) (مولاناجوناگڑھیؒ)
    ۵۔ اے محمدؐ! ہم نے تمھاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون، اور سلیمان کی طرف وحی بھیجی۔ ہم نے داؤد کو زبور دی(۱۶۳) ہم نے اُن رسولوں پر بھی وحی نازل کی جن کا ذکر ہم اس سے پہلے تم سے کر چکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا۔ ہم نے موسیٰ سے اس طرح گفتگو کی جس طرح گفتگو کی جاتی ہے(۱۶۴) یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے(۱۶۵)۔ (لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں) مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ اس نے تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے، اور اس پر ملائکہ بھی گواہ ہیں اگرچہ اللہ کا گواہ ہونا بالکل کفایت کرتا ہے(۱۶۶) جو لوگ اس کو ماننے سے خود انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں، وہ یقینا گمراہی میں حق سے بہت دور نکل گئے ہیں(۱۶۷) اس طرح جن لوگوں نے کفر و بغاوت کا طریقہ اختیار کیا او رظلم و ستم پر اتر آئے اللہ ان کو ہر گز معاف نہ کرے گا اور انھیں کوئی راستہ بجز جہنم کے راستہ کے نہ دکھائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے(۱۶۸۔۱۶۹)لوگو! یہ رسول تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے حق لے کر آ گیا ہے، ایمان لے آؤ، تمھارے ہی لیے بہتر ہے، اور اگر انکار کرتے ہو تو جان لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے اور اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی(۱۷۰)اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کی) پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ ‘‘تین’’ ہیں۔ باز آجاؤ، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے۔ وہ بالاتر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو۔ زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں اس کی مِلک ہیں، اور ان کی کفالت و خبر گیری کے لیے بس وہی کافی ہے(۱۷۱)مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ ہو، اور نہ مقرب ترین فرشتے اس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا(۱۷۲) اس وقت وہ لوگ جنھوں نے ایمان لا کر نیک طرز عمل اختیار کیا ہے اپنے اجر پورے پورے پائیں گے اور اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید اجر عطا فرمائے گا، اور جن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے ان کو اللہ دردناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی و مددگاری پر وہ بھروسا رکھتے ہیں ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے(۱۷۳)لوگو! تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس دلیل ِ روشن آ گئی ہے۔ اور ہم نے تمھاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمھیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے(۱۷۴) اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا(۱۷۵)(مولانامودودیؒ)
    ۶۔ ہم نے تمھاری طرف اسی طرح وحی کی ہے جس طرح نوح اور اس کے بعد آنے والے نبیوں کی طرف وحی کی اور ہم نے ابراہیم، اسمٰعیل، اسحق، یعقوب ، اولاد یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان پر وحی بھیجی۔ اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی(۱۶۳) اور دوسرے بھی بہت سے رسولوں پر وحی بھیجی جن کا حال ہم تم کو پہلے سنا چکے ہیں اور بہت سے رسولوں کا حال نہیں سنایا اور موسیٰ سے تو اللہ نے کلام کیا(۱۶۴) اللہ نے رسولوں کو خوشخبری دینے والے اور ہوشیار کرنے والے بنا کر بھیجا تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ اللہ غالب اور حکیم ہے(۱۶۵)پر اللہ گواہی دیتا ہے اس چیزکی جو اس نے تم پر نازل کی ہے۔ اس نے اس کو اپنے علم کے ساتھ نازل کیا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور گواہی کو تو اللہ ہی کافی ہے(۱۶۶) بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑے(۱۶۷) جن لوگوں نے کفر کیا اور اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے ان کو تو خدا نہ بخشنے کا ہے اور نہ جہنم کے سوا جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، ان کو کوئی اور رستہ دکھانے کا ہے۔ اور اللہ کے لیے یہ بات آسان ہے۔ (۱۶۸۔ ۱۶۹)اے لوگو، رسول تمھارے پاس تمھارے رب کے پاس سے حق لے کر آ گیا ہے۔ پس ایمان لاؤ، اسی میں تمھاری بہتری ہے اور اگر کفر پر جمے رہو گے تو یاد رکھو کہ اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے(۱۷۰) اے اہل کتاب، اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کوئی اور بات نہ ڈالو۔ مسیح ابن مریم تو بس اللہ کے ایک رسول اور اس کا ایک کلمہ ہیں جس کو ا س نے مریم کی طرف القا فرمایا اور اس کی جانب سے ایک روح ہیں۔ پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور تثلیث کا دعویٰ نہ کرو۔ باز آ جاؤ۔ یہی تمھارے حق میں بہتر ہے۔ معبود تو بس تنہا اللہ ہی ہے۔ وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ کارساز بس ہے(۱۷۱) اور مسیح کو ہر گز اللہ کا بندہ بننے سے عار نہ ہو گا اور نہ مقرب فرشتوں کو عار ہوگا او رجو اللہ کی بندگی سے عار کرے گا اور تکبر کرے گا تو اللہ ان سب کو اپنے پاس اکٹھا کرے گا(۱۷۲) پس جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہوں گے تو ان کو تو ان کا پورا پورا اجر بھی دے گا اور اپنے فضل میں سے بھی ان کو مزید بخشے گا اور جنھوں نے عار اور تکبر کیا ہو گا ان کو درد ناک عذاب دے گا اور وہ اللہ کے بالمقابل نہ کسی کو اپنا دوست پائیں گے نہ مددگار(۱۷۳)اے لوگو، تمھارے پاس تمھارے رب کی جانب سے ایک حجت آ چکی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایک نور مبین اتار دیا(۱۷۴) تو جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس کو انھوں نے مضبوطی سے پکڑ لیا ان کو وہ اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا اور انھیں اپنی طرف سیدھی راہ کی ہدایت بخشے گا(۱۷۵)(مولانااصلاحیؒ)
    ۷۔ (اِن کی پروانہ کرو، اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف اُسی طرح وحی کی ہے، جس طرح نوح پر اور اُس کے بعد آنے والے پیغمبروں پر کی تھی۔ ہم نے ابراہیم، اسمٰعیل، اسحق، یعقوب، اولاد یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف بھی وحی کی اور داؤد کو ہم نے زبور عطافرمائی تھی(۱۶۳) ہم نے اُن رسولوں کی طرف بھی وحی بھیجی جن کا ذکر تم سے پہلے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں کی طرف بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا اور موسیٰ سے تو اللہ نے کلام کیا تھا، جس طرح کلام کیا جاتا ہے(۱۶۴) یہ رسول جو بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ لوگوں کے لیے اِن رسولوں کے بعد اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے۔اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے(۱۶۵)(یہ جھٹلاتے ہیں تو جھٹلائیں)، مگر اللہ اُس چیز کی گواہی دیتا ہے جو اُس نے تم پر نازل کی ہے۔ ـــــاُس نے اپنے علم کے ساتھ اُسے نازل کیا ہے اور اُس کے فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے(۱۶۶) جن لوگوں نے ماننے سے انکار کیا ہے اور اللہ کی راہ سے روکا ہے، وہ بڑی دور کی گمراہی میں جاپڑے ہیں(۱۶۷) جن لوگوں نے ماننے سے انکار کیا اور (اِس طرح اپنی جانوں پر) ظلم کیا ہے، اللہ اُنھیں بخشنے والا نہیں ہے اور نہ اُنھیں جہنم کے سوا کسی راستے کی ہدایت دینے والا ہے۔ یہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے اور اللہ کے لیے یہ بہت آسان ہے(۱۶۸-۱۶۹)لوگو، تمھارے پاس یہ رسول تمھارے پروردگار کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے۔ سو (اِس پر) ایمان لاؤ، اِسی میں تمھاری بہتری ہے۔ اور اگر انکار پر جمے رہو گے تو (یاد رکھو کہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑو گے، اِس لیے کہ) زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کا ہے۔ (وہ ہر ایک کو اُس کے اعمال کی جزا دے گا، اِس لیے کہ) اللہ علیم و حکیم ہے(۱۷۰) اے اہل کتاب، اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کے حق میں حق کے سوا کوئی بات نہ کہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کے ایک رسول اور اُس کا ایک قول ہی تھے جو اُس نے مریم کی طرف القا فرمایا تھا اور اُس کی جانب سے ایک روح تھے (جو اللہ نے اُس میں پھونک دی تھی)۔ سو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور (اللہ کو) تین نہ بناؤ۔ باز آجاؤ، یہی تمھارے حق میں بہتر ہے۔ اللہ ہی تنہا معبود ہے، وہ اِس سے پاک ہے کہ اُس کے اولاد ہو، زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے اور اُن کے معاملات کو دیکھنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے(۱۷۱) مسیح کو ہرگز اِس بات سے کوئی عار نہ ہوگی کہ وہ اللہ کا ایک بندہ ہو اور نہ اللہ کے مقرب فرشتے اِسے کبھی عار سمجھیں گے۔ اگرکوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا اور تکبر کرتا ہے تو عنقریب وہ سب کو گھیر کر اپنے حضور میں اکٹھا کر لے گا(۱۷۲) پھر جو ایمان لائے اور جنھوں نے اچھے عمل کیے ہیں، اُنھیں وہ پورا پورا اجر دے گا اور اپنے فضل سے زیادہ بھی عطا فرمائے گا۔ اور جن لوگوں نے اُس کی بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے، اُنھیں وہ دردناک سزا دے گا اور اللہ کے مقابل میں وہ اپنے لیے کوئی حمایتی اور کوئی مددگار نہ پائیں گے(۱۷۳)لوگو، تمھارے پاس اللہ کی حجت آگئی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایک ایسی روشنی نازل کر دی ہے جو (ہر چیز کو) واضح کر دینے والی ہے(۱۷۴) اِس لیے جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اُنھوں نے اُسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا ہے، اُنھیں وہ اپنی رحمت اور اپنی عنایتوں (کے سایے) میں داخل کرے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ دکھا دے گا(۱۷۵)(محترم جاوید احمدغامدی)

تفاسیر
نظم کلام

‘‘ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے پہلے تسلی دی ہے کہ تم ان مخالفوں کی کوئی پروا نہ کرو جو آج تم پر نازل شدہ وحی کو نہیں مانتے بلکہ آسمان سے اُتری ہوئی کھلی کتاب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نہ وحی دنیا میں ایسی انجانی چیز ہے جس کا تجربہ دنیا میں تمھی کو ہُوا ہو اور نہ نبوت و رسالت ایسی اجنبی چیز ہے جس کا اظہار تمھی نے کیا ہو۔ وحی بھی دنیا میں تم سے پہلے آچکی ہے اور رسول بھی بے شمار آچکے ہیں، اگر ایک ایسی جانی پہچانی ہوئی چیز سے لوگ بھڑکتے ہیں اور جس کے جانچنے اور پرکھنے کے لیے اتنے معیارات اور اتنی کسوٹیاں موجود ہیں لوگ اس کو پہچاننے سے انکار کر رہے ہیں تو قصور تمھارا نہیں بلکہ خود انھی کا ہے۔اس کے بعد لوگوں کو عام طور پر اور نصاریٰ کو خاص طور پر خطاب کر کے تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ نے قرآن کی شکل میں جو نورمبین خلق کی رہنمائی کے لیے اُتارا ہے اس کی قدر کرو اور ضلالت کی راہ چھوڑ کر ہدایت کی راہ پر آجاؤ ورنہ یاد رکھو کہ جو لوگ اس سے اعراض و انکار کریں گے وہ بڑے ہی دردناک عذاب سے دوچار ہوں گے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص۴۲۶ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

انا اوحینآ…… وکلم اللہ موسٰی تکلیماً

‘‘زبور’ کے نام سے ایک صحیفہ حضرت داؤد کی دعاؤں اور مناجاتوں پر مشتمل تورات کے مجموعہ میں شامل ہے۔ قرآن میں اس کا نام معرفہ کی شکل میں بھی آیا ہے۔ یہاں نکرہ کی صورت میں میرے نزدیک تفخیم شان کے لیے ہے جس سے زبور کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اگرچہ موجودہ زبور کو تورات کے دوسرے صحیفوں ہی کے درجے میں رکھنا صحیح ہے۔ اس میں ترجمہ کے نقائص بھی ہیں اور کمی بیشی کا بھی خاصا امکان ہے تاہم اس کو پڑھیے تو سینہ ایمان و توکل کے نور سے لبریز ہوجاتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص۴۳۰ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

حضرت موسٰی ؑسے مکالمۂ الٰہی کی نوعیت

‘‘وکلم اللّٰہ موسٰی تکلیماً تورات اور قرآن دونوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے خاص خطاب و کلام سے نوازا ہے اور اس خطاب و کلام کی شان اس وحی سے مختلف تھی جس سے دوسرے انبیا مشرف ہوئے ہیں۔ اگرچہ قرآن اور تورات دونوں سے ثابت ہے کہ یہ خطاب و کلام بھی خدا سے رُو در رُو نہیں بلکہ من وراء حجاب، یعنی پردے کی اُوٹ ہی سے تھا۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص۴۳۰ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

انبیاءؑ کے ناموں میں ترتیب کی نوعیت

‘‘یہاں حضرات انبیا کے جو نام گنائے گئے ہیں ان کی ترتیب حضرت نوحؑ سے لے کر حضرت یعقوب ؑ اور ان کی اولاد کے ذکر تک تو تاریخی ہے لیکن اس کے بعد ترتیب صفاتی ہوگئی ہے۔ حضرت عیسٰی ؑ، حضرت ایوب ؑ، حضرت یونسؑ، حضرت ہارونؑ اپنے خاص نوع کے ابتلا اور خاص نوع کی تائید الٰہی میں فی الجملہ اشتراک رکھتے ہیں۔ حضرت سلیمان ؑ اور حضرت داؤد ؑدونوں نبی بھی ہیں اور دونوں بادشاہ بھی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد لانے کی وجہ خاص اہتمام کے ساتھ زبور کی طرف توجہ دلانا ہے۔ سب سے آخر میں حضرت موسٰی ؑ کا ذکر ہے اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسٰی ؑمماثل نبی ہیں۔ اس بات کا ذکر قرآن اور احادیث دونوں میں ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص۴۳۱ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

انبیاءؑ کے ذکر سے مقصود

‘‘یہاں اگرچہ تمام انبیاء کا ذکر نہیں ہوا ہے لیکن ان کے اندر اشتراک کے ساتھ ساتھ باعتبارِ صفات جو تنوع ہے وہ بھی نمایاں ہوگیا ہے اور باعتبار وحی و خطاب اور کلام ان میں سے اگر کسی کو کوئی اختصاص و امتیاز حاصل ہوا ہے تو وہ بھی سامنے آگیا ہے۔ اس تمام حوالے سے قرآن کا مقصود یہ ہے کہ یہ انبیاء ہیں جن کے نام اور کام تورات کے صحیفوں میں بھی بیان ہوئے ہیں اور یہ طریقہ رہا ہے جس طریقہ پر اللہ نے ان نبیوں کو اپنی وحی اور اپنے خطاب و کلام سے نوازا ہے۔ ان سب سے اہلِ کتاب واقف ہیں۔بھلا ہے اس میں کہیں ذکر اس بات کا کہ اللہ نے کسی نبی پر اس طرح کتاب اُتاری ہو کہ اس کو اُترتے سب نے دیکھا ہو؟ موسٰی ؑ سے بے شک اللہ تعالیٰ نے کلام کیا، جس طرح کلام کیا جاتا ہے ،لیکن ان یہود کا اطمینان اس سے بھی نہ ہوا۔ اُنھوں نے اس پر بھی یہ شبہ وارد کر دیا کہ جب تک خدا ہم سے رُو در رُو ہوکر کلام نہ کرے ہم کس طرح باور کریں کہ وہ تم سے کلام کرتا ہے۔ شک کے ایسے مریضوں کا کیا علاج؟’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص۴۳۱ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد جو انبیاء ہوئے ہیں انہیں با لاجمال ذکر کر کے ان میں سے جو اولوالعزم اور جلیل القدر انبیاء ہیں ان کا بطور خاص بھی ذکر کر دیا گیا ، جس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ یہ سب انبیاء ہیں، اور انبیاء کے پاس مختلف طریقوں سے وحی آتی ہے ، کبھی فرشتہ پیغام لے کر آتا ہے کبھی لکھی ہوئی کتاب مل جاتی ہے ، کبھی اللہ تعالیٰ براہ راست اپنے رسول سے بات کرتے ہیں، غرض جس طریقہ سے بھی وحی آجائے اس پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے ، لہذا یہود کا یہ کہنا کہ توراۃ کی طرح لکھی ہوئی کتاب نازل ہو تب مانیں گے ورنہ نہیں خالص حماقت اور کفر ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۶۱۲، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘اس سے یہ بتانا مقصُود ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی انوکھی چیز لے کر نہیں آئے ہیں جو پہلے نہ آئی ہو۔ ان کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں دنیا میں پہلی مرتبہ ایک نئی چیز پیش کر رہا ہوں۔ بلکہ دراصل اُن کو بھی اسی ایک منبعِ علم سے ہدایت ملی ہے جس سے تمام پچھلے انبیاء کو ہدایت ملتی رہی ہے ۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص۴۲۴ ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

ان آیات میں استدلال کا پہلو

‘‘ان آیات میں استدلال کا پہلو، جیساکہ ہم نے اشارہ کیا، یہ ہے کہ اگر وحی کوئی ایسی چیز ہوتی جس کا تجربہ تنہا تمہی نے پیش کیا ہوتا اور نبوت و رسالت کوئی ایسی چیز ہوتی جس کا دعویٰ دنیا میں اکیلے تمہی نے کیا ہوتا تب تو ایک حد تک گنجائش تھی کہ ان لوگوں کو معذور خیال کیا جائے جو تمہارے دعوے پر اضطراب کا اظہار کریں اور اس انوکھے دعوے کو اس وقت تک تسلیم نہ کریں جب تک ہر پہلو سے اپنا اطمینان نہ کرلیں لیکن جب انبیاء کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے اور ان پر جن شکلوں میں اور جن باتوں کی وحی آئی ان کے بھی دفاتر موجود ہیں تو ان لوگوں کی طرف سے تمہاری صداقت کے ثبوت کے لیے ایسے بے سروپا مطالبات کے کیا معنی جو ان تمام رسولوں اور نبیوں کے نام لیوا بھی ہیں اور ان تمام کتابوں کے حامل ہونے کے مدعی بھی جو ان انبیاء پر نازل ہوئیں۔ جس طرح ہر گروہ کی کچھ مشترک خصوصیات و صفات ہوتی ہیں اسی طرح انبیاء کے گروہ کی بھی مشترک خصوصیات و صفات میں اور یہ ایسی نمایاں ہیں کہ ان کے حامل تمام دنیا سے الگ نظر آتے ہیں۔ نہ تو یہ ممکن ہے کہ کوئی جھوٹا مدعی ان کے اندر داخل ہوسکے اور نہ اس کا مکان ہے کہ جو ان کے اندر شامل ہو اس کو ان کے زمرے سے الگ کیا جاسکے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص۴۳۱ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ بائیبل میں انبیاء بنی اسرائیل کے صحائف اور بھی درج ہیں جن کا بیشتر حصّہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ خصُوصاً یسعیاہ، یرمیاہ، حزقی ایل، عاموس اور بعض دُوسرے صحیفوں میں تو بکثرت مقامات ایسے آتے ہیں جنہیں پڑھ کر آدمی کی رُوح وجد کرنے لگتی ہے۔ ان میں الہامی کلام کی شان صریح طور پر محسُوس ہوتی ہے۔ ان کی اخلاقی تعلیم، ان کا شرک کے خلاف جہاد، ان کو توحید کے حق میں پر زور استدلال ، اور ان کی بنی اسرائیل کے اخلاقی زوال پر سخت تنقیدیں پڑھتے وقت آدمی یہ محسُوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اناجیل میں حضرت مسیح کی تقریریں اور قرآن مجید اور یہ صحیفے ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی سوتیں ہیں۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص۴۲۵ ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی )

رسلاً مبشرین…… عزیزا حکیماً

انبیاء کا مشترک مشن

‘‘اس آیت میں رسولوں کا مشترک مشن بھی بتا دیا اور وہ ضرورت بھی جو ان کے بھیجنے کی داعی ہوئی۔ ان کا مشترک مشن لوگوں کو بشارت دینا اور خطرے سے آگاہ کرنا ہے۔ بشارت اس بات کی کہ جو لوگ ایمان و عملِ صالح کی زندگی اختیار کریں گے ان کے لیے ابدی زندگی کی خوشیاں اور کامرانیاں ہیں۔ آگاہی اس بات کی کہ جو لوگ کفر اور بدعملی کی راہ اختیار کریں گے ان کے لیے دائمی عذابِ نار ہے۔’ ’(تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۲، فاران فاونڈیشن لاہور)

لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل

‘‘ اور یہ کہنے کا موقع نہ ہو کہ اگر ہمارے پاس رسول آتے تو ہم ضرور ان کا حکم مانتے اور اللہ کے مطیع و فرماں بردار ہوتے اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کی بعثت سے قبل خَلق پر عذاب نہیں فرماتا جیسا دوسری جگہ ارشاد فرمایا (وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا ۔ الاسرا 15 ) اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ معرفت الٰہی بیان شرع و زبان اَنبیاء ہی سے حاصل ہوتی ہے عقلِ محض سے اس منزل تک پہنچنا میسر نہیں ہوتا۔’’(خزائن العرفان ،ص ۱۸۷، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

انبیاء کی بعثت کی ضرورت

‘‘اس کی ضرورت یہ بتائی کہ لوگوں پر اللہ کی حجت تمام ہوجائے۔ یہ کہنے کا موقع کسی کے لیے باقی نہ رہے کہ ان کے پاس اس خطرے سے آگاہ کرنے والا کوئی نہیں آیا۔ ورنہ وہ ہرگز کفروبدعملی کی راہ نہ اختیار کرتے۔ اگرچہ خدا عزیز ہے، وہ انبیاء کے بھیجے بغیر بھی لوگوں کو ان کی نافرمانیوں پر سزا دیتا تو کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں تھا لیکن وہ حکیم بھی ہے، اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ وہ کسی کو سزا دے تو اتمامِ حجت کے بعد ہی دے۔ یہ حجت رسولوں کے آنے کے بعد پوری ہوگئی۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۲، فاران فاونڈیشن لاہور)

 ‘‘یہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی بعثت کا مقصد بھی بتا دیا ہے اور وہ ضرورت بھی جو اِن کے بھیجنے کی داعی ہوئی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے کہ وہ انذار و بشارت کے لیے آتے ہیں تاکہ لوگوں کو غفلت سے بیدار کیا جائے اور اُن کو بھیجنے کی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ علم و عقل کی شہادت کے بعد ایک دوسری شہادت بھی پیش کر دی جائے جو حق کو اِس درجہ واضح کر دے کہ کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے’’ (البیان ، از غامدی)

لکن اللّٰہ ………… علی اللہ یسیرًا

استدراک کا پہلو

‘‘حرف ‘لکن’ استدراک کے لیے آتا ہے۔ یہ استدراک اس بات پر ہے جو اُوپر والے ٹکڑے سے نکلتی ہے۔ فرمایا کہ اگر یہ جھٹلاتے ہیں تو جھٹلائیں اللہ تو اس چیز کی گواہی دیتا ہے جو اس نے تمہاری طرف اتاری ہے، یعنی اس بات کی گواہی کہ یہ من جانب اللہ ہے، اس میں نفس اور شیطان کو کوئی دخل نہیں ہے۔مزید فرمایا کہ اس کے حق میں گواہی تو اللہ ہی کی کافی ہے لیکن اللہ کے ساتھ فرشتے بھی اس کے گواہ ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۳، فاران فاونڈیشن لاہور)

یہ کلامِ پیغمبرؐ کی تسلی کے لیے ہے

‘‘یہ ارشاد، جیساکہ واضح ہے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے ہے کہ یہ مخالفین تمہاری وحی کو وحی نہیں مانتے تو نہ مانیں، اس کی صحت و صداقت ان کے ماننے نہ ماننے پر منحصر نہیں ہے۔ تمہارے اطمینان کے لیے یہ بس ہے کہ خدا اور فرشتے اس کے گواہ ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۳، فاران فاونڈیشن لاہور)

نبی کی صداقت کی ایک باطنی دلیل

‘‘یہ کلام اگرچہ، جیساکہ ہم نے اشارہ کیا، تسلی کے محل میں ہے لیکن یہ وحی کی صداقت کی ایک دلیل بھی ہے جس کا تعلق پیغمبرؐ کی ذات سے ہے۔ اُوپر وحی کی صداقت کی جو دلیل بیان ہوئی ہے اس کی نوعیت تاریخی شہادت کی ہے۔ یعنی انبیاء کی تاریخ اور ان کی وحی کی کسوٹی پر جانچ کو قرآن اور پیغمبر کا درجہ متعین کیا گیا ہے۔ اب یہ ایک دوسری دلیل بیان ہوئی ہے جس کی نوعیت ایک باطنی دلیل کی ہے۔ اس کا مدعا یہ ہے کہ پیغمبر اپنے باطن میں خدا اور فرشتوں کی شہادت اس طرح سنتا، سمجھتا اور پرکھتا ہے کہ اس کے لیے اپنی وحی کی صداقت پر کسی شبہے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس طرح کی شہادت کسی غیرنبی کو حاصل نہیں ہوتی۔ وحی کی صداقت کا یہی پہلو ہے جس کی وجہ سے ساری خدائی بھی نبی کی تکذیب کرے، تب بھی اس کے اعتماد میں کوئی فرق نہیں پیدا ہوتا۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۳، فاران فاونڈیشن لاہور)

یایہا الناس قد جآء کم………… علیماً حکیماً

ایک عام تنبیہ جس میں روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہے

‘‘خطاب اگرچہ عام ہے لیکن آگے والی آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ روئے سخن اہلِ کتاب بالخصوص نصاریٰ کی طرف ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۴، فاران فاونڈیشن لاہور)

یاہل الکتب لا تغلوا………… وکفٰی باللہ وکیلًا

‘غلو’ کا مفہوم

‘‘لا تغلوا فی دینکم، غلا یغلو’ کے معنی بڑھنے، زیادہ ہونے، متجاوز ہونے کے ہیں۔ جب یہ لفظ دین کے تعلق سے آئے تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ دین میں جس چیز کا جو درجہ و مرتبہ یا جو وزن و مقام ہے اس کو بڑھا کر کچھ سے کچھ کر دیا جائے۔ جو چیز پاؤ سیر ہے وہ من بھر کر دی جائے، جو حکم صرف استحباب و استحسان کا درجہ رکھتا ہے اس کو فرض اور واجب کا درجہ دے دیا جائے، جو شخص ایک فقیہہ یا مجتہد یا صحابی ہے اس کو امام معصوم بنا دیا جائے، جس کو اللہ نے نبی اور رسولؐ بنایا اس کو شریک خدا یا خدا بنا ڈالا جائے، جس کی صرف تعظیم مطلوب ہے۔ اس کی عبادت شروع کر دی جائے۔ یہ اور اس قبیل کی ساری باتیں غلو میں داخل ہیں اور جس طرح مذہب کے معاملات میں تفریط بہت بڑا جرم ہے، اسی طرح یہ افراد بھی بہت بڑا فتنہ ہے۔ اس سے مذہب کا وہ مزاج، جو سرتاسر اعتدال ہے، بالکل درہم برہم ہوجاتا ہے ۔یوں تو اس غلو میں تمام اہلِ مذاہب مبتلا ہوئے ہیں، یہاں تک کہ ہم مسلمان بھی، جن کو عدل و قسط پر قائم رہنے کی سب سے زیادہ تاکید ہوئی ہے، اس فتنے میں مبتلا ہوگئے لیکن نصاریٰ کو تو یوں سمجھئے کہ اس فساد میں امامت کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی اصلی بیماری یہی ہے کہ انھوں نے اپنے اس غلو کے سبب سے پورے دن کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام خدا کے بندے اور اس کے رسول تھے۔ ان کو اُنھوں نے خدا کا بیٹا بنایا اور پھر ان کو لے جاکر خدائی کے عرش پر بٹھا دیا، حضرت مریم، حضرت عیسٰی ؑکی والدہ تھیں، ان کو نعوذ باللہ خدا کی ماں بنایا، حضرت جبرئیل ؑخدا کے بندے اور فرشتے ہیں ان کو بھی ایک اقنوم کی حیثیت دے کر خدائی کی تثلیث میں شریک کر دیا۔ سیدنا مسیحؑ نے دنیا اور دنیوی زندگی کے زخارف سے بچتے رہنے کی تاکید فرمائی تو انھوں نے رہبانیت کا ایک پورا نظام کھڑا کر دیا۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

غلو کے فتنہ کا راستہ

‘‘لا تقولوا علی اللہ الا الحق، دین میں غلو کا فتنہ جس راہ سے پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کی تائید و تقویت کا سازوسامان جہاں سے فراہم ہوتا ہے، یہ اس کا سدباب ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی طرف وہی بات منسوب کی جائے جو اس نے فرمائی ہے تو اس سے کسی فتنے کا دروازہ نہیں کھل سکتا۔ فتنے کا دروازہ اس وقت کھلتا ہے جب اس کی طرف وہ بات منسوب کی جائے جو اس نے نہیں فرمائی ہے۔ نصاریٰ جہاں سے ہلاک ہوئے ہیں وہ یہی دروازہ ہے۔ انھوں نے پال کی تمام خرافات کو اپنے دین کا جزو بنادیا اور پھر اس پر اپنے سارے علمِ کلام کی عمارت کھڑی کرلی۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

مسیحؑ کی اصل حقیقت

‘‘انما المسیح عیسی ابن مریم ۔۔۔، اب یہ مسیحؑ کے بارے میں وہ صحیح بات بتائی گئی ہے جو اللہ نے ان کے باب میں فرمائی ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، ان کی ولادت اللہ کے کلمہ ‘کن’ سے ہوئی جس کو اللہ تعالیٰ نے مریمؑ کی طرف القا فرمایا، اور ان کو روح بھی خدا ہی کی جانب سے عطا ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی خارق عادت ولادت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر ان کو خدائی کا درجہ دے دیا جائے۔ ان کی ولادت اسی طرح خدا کے کلمہ ‘کن’ سے ہوئی ہے۔ جس طرح آدمؑ کی ولادت کلمہ ‘کن’ سے ہوئی ہے اور ان کے اندر بھی خدا نے اسی طرح روح پھونکی ہے جس طرح آدم کے اندر روح پھونکی۔ اسباب تو محض ظاہر کا پردہ ہیں، وجود اور زندگی تو جس کو بھی ملتی ہے، خدا ہی کے حکم اور اسی کی عطا کردہ روح سے ملتی ہے۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘فامنوا باللّٰہ ورسلہٖ ولا تقولوا ثلثۃ،یعنی اپنے چند توہمات کو بنیاد بناکر یہ تثلیث کا گورکھ دھندا جو تم نے کھڑا کیا ہے اس سے تائب ہوکر اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔’’ رسولوں پر ایمان لاؤکے الفاظ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب خدا کے تمام رسولوں کی تعلیم تورات و انجیل میں موجود ہے اور اس تعلیم میں مسیح سے لے کر آدم ؑ تک کہیں تثلیث کا سراغ نہیں ملتا تو آخر یہ فتنہ تم نے کہاں سے گھڑ لیا۔ پس صحیح راستہ تو یہ ہے کہ یہ الگ پگڈنڈی نکالنے کے بجائے تم بھی اس صراطِ مستقیم پر چلو جس پر تمام نبی اور رسول چلے۔ آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ مسیحؑ کی تعلیم اللہ اور اس کے رسولوں کی متفقہ تعلیم سے بالکل الگ ہو۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘و کلمتہ ، اس لفظ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا کلمہ ہیں ، مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کیے ہیں۔

۱۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ کسی بچے کی پیدائش میں دو عامل کار فرما ہوتے ہیں، ایک عامل نطفہ ہے اور دوسرا اللہ تعالیٰ کا کلمہ ‘‘کن’’ فرمانا جس کے بعد وہ بچہ وجود میں آ جاتا ہے ۔۔۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں چونکہ پہلا عامل منتفی ہے، اس لیے دوسرے عامل کی طرف نسبت کر کے آپ کو کلمۃ اللہ کہا گیا ،جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مادی اسباب کے واسطہ کے بغیر صرف کلمہ ‘‘کن’’ سے پیدا ہوئے ہیں۔۔۔ اس صورت میں القاھا الی مریم کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کلمہ حضرت مریم علیہا السلام تک پہنچا دیا جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش عمل میں آ گئی ۔

۲۔ بعض نے فرمایاکہ کلمۃ اللہ ، بشارۃ اللہ کے معنی میں ہے ، اور مراد اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں، اللہ جل شانہ نے فرشتوں کے ذریعہ حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت عیسیٰ ؑ کی جو بشارت دی تھی اس میں ‘‘ کلمہ’’ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اذقالت الملئکۃ یمریم ان اللہ یبشرک بکلمۃ ۔

۳۔ بعض نے فرمایا کلمۃ آیت اور نشانی کے معنی میں ہے ، جیسا کہ دوسری جگہ یہ لفظ آیۃ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ، وصدقت بکلمت ربھا و روح منہ : اس لفظ میں دو باتیں قابل غور ہیں، ایک یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح کہنے کے کیا معنی ہیں؟ ۔۔۔ اور دوسرے یہ کہ اللہ جل شانہ کی طرف جو اس کی نسبت کی گئی ہے اس نسبت کا کیا مطلب ہے ؟

اس سلسلہ میں مفسرین کے متعدد اقوال منقول ہیں:

۱۔ بعض نے فرمایا : عرف کا قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی شے کی طہارت اور پاکیزگی کو بیان کرنا ہوتا ہے تو مبالغہ کے لیے اس پر روح کا اطلاق کر دیا جاتا ہے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش میں چو نکہ کسی باپ کے نطفہ کا دخل نہیں تھا ، اور وہ صرف اللہ جل شانہ کے ارادہ اور کلمہ ‘‘کن’’ کا نتیجہ تھے ، اس لیے اپنی طہارت و نظافت میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے ، اسی وجہ سے عرف کے محاورہ کے مطابق ان کو روح کہا گیا ، اور اللہ کی طرف نسبت اللہ کی طرف کر دی جاتی ہے ، ‘‘مساجد اللہ’’، یا کعبہ کی نسبت اللہ کی طرف کر کے ‘‘بیت اللہ’’ کہا جاتا ہے ، یا کسی اطاعت شعار بندہ کی نسبت اللہ کی طرف کر کے ‘‘عبد اللہ ’’ کہا جاتا ہے ، چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ صیغہ استعمال کیا گیاہے اسری بعبدہٖ ۔

۲۔ بعض حضرات نے فرمایا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے مردہ دلوں میں روحانی حیات ڈال کر پھر زندہ کریں ، چونکہ وہ روحانی حیات کا سبب تھے جس طرح روح جسمانی حیات کا سبب ہوا کرتی ہے ، اس لیے اس اعتبار سے ان کو روح کہا گیا، جیسا کہ خود قرآن کریم کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے : و کذلک اوحینا الیک روحا من امرنا ، کیونکہ قرآن کریم بھی روحانی حیات بخشتا ہے ۔

۳۔ بعض نے فرمایا کہ روح کا استعمال راز کے معنی میں ہوتا ہے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی عجیب وغریب پیدائش کی وجہ سے چونکہ اللہ جل شانہ کی ایک نشانی اور راز تھے ، اس لیے انہیں روح اللہ کہا گیا۔

۴۔ بعض نے کہا کہ یہاں مضاف محذوف ہے ، اور اصل عبارت یوں تھی ، ذوروح منہ اور چونکہ ذی روح ہونے میں سب حیوان برابر ہیں، اس لیے عیسیٰ علیہ السلام کا امتیاز اس طرح ظاہر کیا گیا کہ ان کی نسبت اللہ جل شانہ نے اپنی طرف کر دی۔

۵۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ روح ، نفخ (پھونک) کے معنی میں ہے ، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت مریم ؑ کے گریبان میں اللہ کے حکم سے پھونک دیا تھا ، اور اسی سے حمل قرار پا گیا، چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بطور معجزہ کے صرف نفخ سے پیدا ہوگئے تھے اس لیے آپ کو روح اللہ کہا گیا ، قرآن کریم کی دوسری آیت فنفخنا فیھا من روحنا سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

اس کے علاوہ بھی متعدد احتمالات بیان کیے گئے ہیں، بہر حال اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا ایک جز ہیں ، اور یہی روح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انسانی شکل میں ظاہر ہو گئی ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۱۱۶، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘یعنی خدا کا کلمۂ ‘کن’ اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے جو اُسی طرح پھونکی گئی، جس طرح آدم و حوا میں پھونکی گئی تھی۔ اِس کی بنا پر اُنھیں خدائی کا درجہ آخر کس طرح دیا جا سکتا ہے؟ ’’ (البیان ، از غامدی)

‘‘اصل میں لفظ کلمہ استعمال ہوا ہے۔ مریم کی طرف کلمہ بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے حضرت مریم علیہا السّلام کے رحم پر یہ فرمان نازل کیا کہ کسی مرد کے نطفہ سے سیراب ہوئے بغیر حمل کا استقرار قبول کر لے۔ عیسائیوں کو ابتداء ً مسیح علیہ السّلام کی پیدائش بے پدر کا یہی راز بتایا گیا تھا۔ مگر انہوں نے یُونانی فلسفہ سے گمراہ ہو کر پہلے لفظ کلمہ کو کلام یا نطق (LOCOS) کا ہم معنی سمجھ لیا۔ پھر اس کلام و نطق سے اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفتِ کلام مراد لے لی۔ پھر یہ قیاس قائم کیا کہ اللہ کی اس ذاتی صفت نے مریم علیہا السّلام کے بطن میں داخل ہو کر وہ جسمانی صُورت اختیار کی جو مسیح کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ اس طرح عیسائیوں میں مسیح علیہ السّلام کی الوہیّت کا فاسد عقیدہ پیدا ہوا اور اس غلط تصوّر نے جڑ پکڑ لی کہ خدا نے خود اپنے آپ کو یا اپنی ازلی صفات میں سے نطق و کلام کی صفت کو مسیح کی شکل میں ظاہر کیا ہے۔یہاں خود مسیح کو رُوْحٌ مِّنْہُ ( خدا کی طرف سے ایک رُوح) کہا گیا ہے، اور سُورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ اَیَّدْ نٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ( ہم نے پاک رُوح سے مسیح کی مدد کی)۔ دونوں عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مسیح علیہ السّلام کو وہ پاکیزہ رُوح عطا کی تھی جو بدی سے نا آشنا تھی۔ سراسر حقانیت اور راست بازی تھی، اور از سر تا پا فضیلتِ اخلاق تھی۔ یہی تعریف آنجناب کی عیسائیوں کو بتائی گئی تھی۔ مگر انہوں نے اس میں غلو کیا، رُوْحٌ مِّنَ اللہِ کو عین رُوح اللہ قرار دے لیا، اور رُوح القدس(Holy Ghost) کا مطلب یہ لیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اپنی رُوح مقدس تھی جو مسیح کے اندر حلول کر گئی تھی۔ اس طرح اللہ اور مسیح کے ساتھ ایک تیسرا خدا رُوح القدس کو بنا ڈالا گیا۔ یہ عیسائیوں کا دُوسرا زبر دست غلو تھا جس کی وجہ سے وہ گمراہی میں مبتلا ہوئے۔ لُطف یہ ہے کہ آج بھی انجیل متی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ فرشتے نے اسے (یعنی یوسف نجار کو) خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اے یوسف ابن داود، اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر، کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ رُوح القدس کی قدرت سے ہے۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۴۲۸، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی )

‘‘ امام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کلمہ کے اطلاق کی وجہ یہ ہے کہ ہر مولود کے دو سبب ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس کی تخلیق سے متعلق ہو اور وہ اپنی زبانِ قدرت سے ‘‘کُن’’ فرما رک اسے اذنِ ظہور دے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ مادۂ منویہ شکمِ مادر میں قرار پکڑے اور وقت معین گزرنے کے بعد اس کی ولادت ہو۔ پہلا سبب اگرچہ حقیقی ہے لیکن نگاہوں سے پوشیدہ ہے اس لیے اسے سبب بعید کہہ لییے اور دوسرا سبب کیونکہ عادی اور عام ہے اور اسے ہر ایک جانتا ہے مومن ہو یا غیرمومن۔ اس لیے اسے سببِ قریب کہہ لیجیے۔ اب یہاں دلائلِ قطعیہ سے ثابت ہے کہ سببِ قریب یعنی مادۂ منویہ موجود نہیں اس لیے ان پر سببِ بعید یعنی کلمۂ کُن کا اطلاق کر دیا اور آپ کو کلمۃ اللہ یا کلمۃ منہ کہہ دیا۔ اور عربی لغت میں سبب کا اطلاق مسبب پر عام ہوتا رہتا ہے۔ جیسے حضور کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے متعلق فرمایا: انا دعوۃ ابی ابراھیم،یعنی میں اپنے پدرِ بزرگوار ابراہیم ؑ کی دعا ہوں حالانکہ آپ دعا نہ تھے بلکہ دعا کا جواب تھے۔ دعا ابراہیمی کیونکہ آپ کی تشریف آوری کا سبب بنی تھی اس لیے آپ پر دعا کا اطلاق کر دیا۔ نیز کلمہ کا لفظ بشارت اور آیت کے معنی میں بھی مستعمل ہوتا رہتا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ آپ وہ بشارت ہیں جو حضرت مریمؑ کو دی گئی یا آپ اللہ کی قدرت کی آیت (نشانیوں میں سے ایک روشن نشانی) ہیں۔

رُوح کا معنی ہے: مابہ الحیاۃ، جس کے ساتھ زندگی قائم ہو اور زندگی دو قسم کی ہوتی ہے: حسّی اور معنوی۔ حسّی زندگی وہ ہے جس کے ذریعے چلنا پھرنا، بولنا، سننا اور سمجھنا اور یاد کرنا وغیرہ قسم کے افعال صادر ہوتے ہیں اور معنوی وہ ہے جس سے مکارم اخلاق رحم، سخاوت، محبت وغیرہ کا ظہور ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم کو بھی کئی بار رُوح کہا گیا ہے کیونکہ وہ حیاتِ معنوی کا سبب ہے۔ وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا۔ اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے آپ پر روح یعنی قرآن نازل فرمایا اور حضرت مسیح کیونکہ حیاتِ حسّی اور معنوی دونوں کے مظہراتم تھے اس لیے آپ کو بطورِ مبالغہ روح یعنی سراپا رُوح کہہ دیا جیسے ہم کسی بہت خوب صورت انسان کو ‘‘حُسنِ مجسم’’ کہہ دیتے ہیں۔

منہ۔ رُوح کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف جزئیت کی نہیں بلکہ تشریف و تفضیل کی ہے اور یہ اضافت قرآن اور کلامِ عرب میں عام ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ شیطان کو فرماتے ہیں: ان عبادی لیس لک علیھم سلطان،یعنی میرے بندوں پر تو قابو نہیں پاسکتا۔ بندے تو سب اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ مومن ہوں یا کافر، نیک ہوں یا بد۔ لیکن اطاعت شعار بندوں کی اضافت اپنی طرف کی اور اُن کو اپنا مخصوص اور مخلص بندہ ہونے کا شرف و عزت بخشی۔ یہاں بھی روح منہ یا روح اللہ کہہ کر اس خصوصی شرف و مقبولیت کا اِظہار مقصود ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بارگاہِ الٰہی میں حاصل ہے۔ منہ کے لفظ سے یہ کہنا کہ قرآن سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح اللہ کی جُزء ہیں بالکل ناحق ہے۔ کیونکہ آپ اس طرح جُزئیت ثابت کرنے پر بضد ہوں تو پھر اس میں حضرت عیسٰی ؑکی خصوصیت باقی نہیں رہتی کیونکہ قرآن میں حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق صاف موجود ہے کہ نفخت فیہ من روحی کہ میں نے اپنی روح آدم میں پھونک دی۔ صرف آدم نہیں بلکہ تمام اولادِ آدم کے متعلق ارشاد ہے: ثم جعل نسلہ من سلالۃ من ماء مھین ثم سواہ ونفخ فیہ من روحہ، یعنی اللہ تعالیٰ نے ہربچۂ آدم کو مادۂ منویہ سے تخلیق کرکے اور اس کے اعضاء کو درست کرکے اس میں اپنی روح پھونکی۔ صرف آدم و بنی آدم ہی نہیں بلکہ کائنات کی ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کا جزو ماننا پڑے گا۔ وسخرلکم ما فی السموات وما فی الارض جمیعا منہ۔اگر من روحی اور من روحہ اور منہ کے الفاظ سے کسی چیز کی جزئیت ثابت نہیں ہوتی۔تو پھر اگر وہی لفظ حضرت مسیح کے لیے استعمال ہوں تو ان سے جزئیت کیسے ثابت ہوسکتی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ انجیل میں اب بھی ایسی آیات موجود ہیں جن سے قرآن کے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ روح الامین کے پھونک مارنے سے آپ کی ولادت ہوئی۔ ملاحظہ ہو۔ اما ولادۃ یسوع المسیح فکانت ھٰکذا: لما کانت مریم امہ مخطوبۃ لیوسف قبل ان یجتمعا وجدت حبلی من الروح القدس۔ اس عربی عبارت کا ترجمہ اُردو میں ملاحظہ ہو: ‘‘اب یسوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگئی تو ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی’’۔ (انجیل متی ۱:۱۸)(ضیا القرآن ،ج۱ ،ص۴۲۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

تثلیث کا عقیدہ

‘‘ثلثۃٌٌ سے مراد نصاریٰ کا عقیدہ تثلیث ہے جو پال کی اختراعات میں سے ہے۔ اس عقیدے کی رُو سے الوہیت میں باپ، بیٹا اور روح القدس تینوں شریک ہیں۔ یہ عقیدہ یوں تو بالکل مشرکین کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ انجیلوں میں توحید کی تعلیم جو نہایت واضح الفاظ میں دی گئی ہے، کچھ اس کی بھی لاج رکھی جائے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘انتہوا خیرًا لکم میں خیراً اسی طرح فعل محذوف سے منسوب ہے جس طرح اُوپر والی آیت میں ہے۔ یہ بات یہاں دھمکی کے اسلوب میں ہے، یعنی یہ تین میں ایک اور ایک میں تین کے چکر سے باہر نکلو ورنہ شامت آجائے گی۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۷، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ یعنی تین الہٰوں کے عقیدے کو چھوڑ دو خواہ وہ کسی شکل میں تمہارے اندر پایا جاتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائی بیک وقت توحید کو بھی مانتے ہیں اور تثلیث کو بھی۔ مسیح علیہ السلام کے صریح اقوال جو اناجیل میں ملتے ہیں ان کی بنا پر کوئی عیسائی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا بس ایک ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔ ان کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ توحید اصل دین ہے ۔ مگر وہ جو ایک غلط فہمی ابتداء میں ان کو پیش آگئی تھی کہ کلام اللہ نے مسیح کی شکل میں ظہُور کیا اور رُوح اللہ نے اس میں حلول کیا ، اس کی وجہ سے انہوں نے مسیح اور رُوح القدس کی الوہیّت کو بھی خداوندِ عالم کی اُلوہیّت کے ساتھ ماننا خواہ مخواہ اپنے اُوپر لازم کر لیا۔ اس زبر دستی کے التزام سے ان کے لیے یہ مسئلہ ایک ناقابلِ حل چیستان بن گیا کہ عقیدہ توحید کے باوجود عقیدہ تثلیث کو، اور عقیدہ تثلیث کے باوجود عقیدہ توحید کو کس طرح نباہیں۔ تقریباً سو برس سے مسیح علماء اِسی خود پیدا کردہ مشکل کو حل کرنے میں سر کھپا رہیہیں۔ بیسیوں فرقے اسی کی مختلف تعبیرات پر بنے ہیں۔ اِسی پر ایک گروہ نے دوسرے کی تکفیر کی ہے۔ اسی کے جھگڑوں میں کلیسا پر کلیسا الگ ہوتے چلے گئے۔ اسی پر ان کے سارے علمِ کلام کا زور صرف ہوا ہے۔ حالانکہ یہ مشکل نہ خدا نے پیدا کی تھی ، نہ اس کے بھیجے ہوئے مسیح نے ، اور نہ اس مشکل کا کوئی حل ممکن ہے کہ خدا تین بھی مانے جائیں اور پھر وحدانیت بھی برقرار رہے۔ اس مشکل کو صرف ان کے غلو نے پیدا کیا ہے اور اس کا بس یہی ایک حل ہے کہ وہ غلو سے باز آجائیں ، مسیح اور رُوح القدس کی اُلوہیّت کا تخیل چھوڑ دیں، صرف اللہ کو الٰہِ واحد تسلیم کر لیں، اور مسیح کو صرف اس کا پیغمبر قرار دیں نہ کہ کسی طور پر شریک فی الالُوہیّت۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۴۲۹، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

‘‘اِس بات پر تو تقریباً سب عیسائی فرقے متفق الرائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بحیثیت جوہر ہونے کے واحد ہے اور بحیثیت اقانیم تین ہے: وجود، علم اور حیات کو اقانیم کہتے ہیں (اقانیم کا واحد اقنوم ہے) جس کا معنی شخص اور اصل ہے۔ الاقنوم، الشخص الاصل ج اقانیم والکلمۃ من الدخیل (المنجد)وجود کو باپ، علم کو بیٹا، اور حیات کو روح القدس کہتے ہیں۔ ان کا اختلاف اس میں ہے کہ ان تین اقانیم کا تعلق جوہر (یعنی اللہ) سے کیسا ہے۔۱- ایک فرقہ کا یہ مذہب ہے کہ یہ تین اقانیم اور جوہرقدیم الگ الگ ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا ہے اوراقنوم ثانی (یعنی علم) حضرت مسیح کے جسم سے متحد ہوگیا جیسے شراب اور پانی ملنے کے بعد یک جان ہوجاتے ہیں اور مسیح بھی ازلی قدیم ہے اور مریم نے ازلی قدیم کو جنا ہے۔۲- ایک اور فرقہ یہ کہتا ہے کہ بیٹا یعنی مسیح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک لاہُوتی اور ایک ناسُوتی۔ اس حیثیت سے کہ وہ خدا کا بیٹا ہے، وہ خدائے کامل ہے اور اس حیثیت سے کہ اس کا ظہور اس جسدِ عنصری میں ہوا انسان کامل ہے۔ اس لیے یہ قدیم بھی ہے اور حادث بھی۔ اور قدیم و حادث کا یہ اتحاد نہ قدیم کی قدامت کو متاثر کرتا ہے اور نہ حادث کے حدوث کو۔۳- ایک نظریہ یہ ہے کہ کلمہ یعنی اقنوم ثانی گوشت اور خون میں بدل گیا اور خدا مسیح کی شکل میں رونما ہوا۔۴- بعض کی رائے یہ ہے کہ الٰہ قدیم کے جوہر اور انسان حادث کے جوہر میں یوں امتزاج ہوا جیسے نفسِ ناطقہ کا جسم کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ دونوں ایک چیز بن جاتے ہیں۔ اِسی طرح جوہرِ قدیم اور جوہرِ حادث کے مجموعہ کا نام مسیح ہے اور وہی خدا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ اگرچہ خدا انسان نہ بن سکا لیکن انسان بن گیا جیسے اگر آگ کوئلہ نہیں بن سکتی تو کوئلہ تو آگ بن جاتا ہے۔(ضیاء القرآن، جلد ۱، ص ۴۲۶، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

انما اللہ الہ واحد سبحنہ ان یکون لہ ولد۔۔۔

‘‘یہ عیسائیوں کے چوتھے غلو کی تردید ہے ۔ بائیبل کے عہدِ جدید کی روایات اگر صحیح بھی ہوں تو ان سے (خصُوصاً پہلی تین انجیلوں سے) زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے خدا اور بندوں کے تعلق کو باپ اور اولاد کے تعلق سے تشبیہ دی تھی اور باپ کا لفظ خدا کے لیے وہ محض مجاز اور استعارہ کے طورپر استعمال کرتے تھے۔ یہ تنہا مسیح ہی کی کوئی خصُوصیّت نہیں ہے۔ قدیم ترین زمانہ سے بنی اسرائیل خدا کے لیے باپ کا لفظ بولتے چلے آرہے تھے اور اس کی بکثرت مثالیں بائیبل کے پُرانے عہد نامہ میں موجود ہیں۔ مسیح نے یہ لفظ اپنی قوم کے محاورے کے مطابق ہی استعمال کیا تھا اور وہ خدا کو صرف اپنا باپ ہی نہیں بلکہ سب انسانوں کا باپ کہتے تھے ۔ لیکن عیسائیوں نے یہاں پھر غلو سے کام لیا اور مسیح کو خدا کا اکلوتا بیٹا قرار دیا۔ ان کا عجیب و غریب نظریّہ اس باب میں یہ ہے کہ چونکہ مسیح خدا کا مظہر ہے، اور اس کے کلمے اور اس کی رُوح کا جسدی ظہُور ہے، اس لیے وہ خدا کا اکلوتا بیٹا ہے، اور خدا نے اپنے اکلوتے کو زمین پر اس لیے بھیجا کہ انسانوں کے گناہ اپنے سر لے کر صلیب پر چڑھ جائے اور اپنے خون سے انسان کے گناہ کا کفارہ اداکرے۔ حالانکہ اس کا کوئی ثبوت خود مسیح علیہ السلام کے کسی قول سے وہ نہیں دے سکتے۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۴۲۹، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی )

کفارہ

‘‘یہ عقیدہ ان کے اپنے تخیلات کا آفریدہ ہے اور اس غلو کا نتیجہ ہے جس میں وہ اپنے پیغمبر کی عظیم الشان شخصیّت سے متاثر ہو کر مبتلا ہوگئے۔اللہ تعالیٰ نے یہاں کفارہ کے عقیدے کی تردید نہیں کی ہے، کیونکہ عیسائیوں کے ہاں یہ کوئی مستقل عقیدہ نہیں ہے بلکہ مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دینے کا شاخسانہ اور اس سوال کی ایک صوفیانہ و فلسفیانہ توجیہ ہے کہ جب مسیح خدا کا اکلوتا تھا تو وہ صلیب پر چڑھ کر لعنت کی موت کیوں مرا۔ لہٰذا اس عقیدے کی تردید آپ سے آپ ہو جاتی ہے کہ اگر مسیح کے ابن اللہ ہونے کی تردید کر دی جائے اور اس غلط فہمی کو دُور کر دیا جائے کہ مسیح علیہ السّلام صلیب پر چڑھائے گئے تھے۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۴۳۰، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی )

لن یستنکف المسیح………… ولا نصیراً

غلو کا بڑا سبب استکبار ہے

‘‘استنکاف’ کے معنی ہیں کسی چیز سے غیرت، حمیت ، خودداری یا استکبار کے سبب سے اعراض کرنا۔ اس آیت کا صحیح زور سمجھنے کے لیے لا تغلوا فی دینکم والی آیت نگاہ میں رکھیے۔ غلو کے فتنے میں مبتلا ہونے کا بڑا سبب درحقیقت استکبار ہے۔ جو لوگ کسی چیز یا کسی شخص کو مان لیتے ہیں، وہ اگر حدود سے واقف یا ان کو ملحوظ رکھنے والے نہ ہوں تو ان کی خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس چیز یا شخص کو سب چیزوں اور تمام اشخاص سے بڑھ کر ثابت کر دکھائیں۔ پھر وہ اپنے استکبار کے اعتبار سے اس کو بڑھانا شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ اس کو بڑھاتے بڑھاتے اس حد تک پہنچا دیتے ہیں جہاں پہنچ کر ان کے استکبار کو تسلی ہوجاتی ہے کہ اب برتری کے میدان میں کوئی ان کاحریف نہیں رہا اور یہاں کوئی ان کو چیلنج نہیں کرسکتا۔ عیسائیوں کو یہی فتنہ پیش آیا۔ انھوں نے جب حضرت عیسٰی ؑکو مانا تو صرف اتنے ہی پر قانع نہ رہ سکے کہ ان کو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول مانیں۔ انھوں نے خیال کیا کہ اللہ کے بندے اور رسول تو بہت سے ہیں۔ اگر مسیحؑ بھی اللہ کے بندے اور رسول ہی ہیں تو پھر ان کا اور ان کے ماننے والوں کا امتیاز کیا ہو؟ اس محرک نے، جو کھلا ہوا استکبار ہے، انھیں آمادہ کیا کہ وہ کھینچ تان کر ان کو شریکِ خدا ثابت کریں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۷، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘برہان’ اور ‘نورِ مبین’ سے مراد

‘‘برہان’ اور ‘نورِ مبین’ سے مراد قرآنِ مجید ہے۔ ‘برہان’ کے لفظ سے اس کے عقلی و استدلالی پہلو کو واضح فرمایا ہے کہ وہ ایک حجت قاطع ہے۔‘نورِمبین’ سے اس کے عملی پہلو کو واضح فرمایا ہے کہ وہ زندگی کے تمام نشیب و فراز میں حق و باطل کو واضح کرکے صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی فرماتا ہے اور تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ اِس سے مراد قرآن مجید ہے جس کے لیے اصل میں ‘بُرْہَانٌ’ اور ‘نُوْرًا مُّبِیْنًا’ کے الفاظ آئے ہیں۔ پہلے لفظ سے قرآن کے عقلی اور استدلالی پہلو کو واضح فرمایا ہے کہ وہ ایک برہان قاطع ہے اور دوسرے سے اُس کے عملی پہلو کو کہ زندگی کے تمام معاملات میں وہ انسان کو ایسی رہنمائی عطا فرماتا ہے جو اُسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتی ہے۔’’ (البیان ، از غامدی)

برہان سے مراد رسول ﷺ اور نو رسے مراد قرآن

‘‘(قولہ تعالیٰ) قد جآ ء کم برھان من ربکم ، برہان کے لفظی معنی دلیل کے ہیں، اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے ۔حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو لفظ برہان سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ آپؐ کی ذات مبارک اور آپؐ کے اخلاق کریمانہ ، آپؐ کے معجزات اور آپؐ پر کتاب کا نزول ، یہ سب چیزیں آپؐ کی نبوت اور آپؐ کی رسالت کے کھلے کھلے دلائل ہیں، جن کو دیکھنے کے بعد کسی اور دلیل کی احتیاج باقی نہیں رہتی ، تو یوں سمجھنا چاہیے کہ آپ کی ذات خود ہی ایک مجسم دلیل ہے ۔اور نور سے مراد قرآن مجید ہے (روح) جیسا کہ سورۂ مائدہ کی اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے قد جآء کم من اللہ نور و کتب مبین ، یعنی تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے ، اور وہ ایک کتاب واضح یعنی قرآن ہے (بیان القرآن) اس آیت میں جس کو نور کہا گیا ہے آگے اسی کو کتاب مبین کہا گیا ، یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ عطف تو تغائر کو چاہتا ہے لہذا نور اور کتاب ایک چیز نہیں ہو سکتے ، اس لیے کہ تغائر عنوان کا کافی ہے ، اگرچہ مصداق اور معنون ایک ہی ہے ۔ اور اگر نور سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہو اور کتاب سے مراد قرآن مجید ہو تو یہ بھی صحیح ہے (روح) لیکن اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا نور محض ہونا ثابت نہیں ہوتا جو بشریت اور جسمانیت کے منافی ہو۔’’ (معارف القرآ ن ،ج۲ ، ص ۶۲۵، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘برہان سے مرادایسی دلیل قاطع ، جس کے بعد کسی کو عذر کی گنجائش نہ رہے اور ایسی حجت ، جس سے ان کے شبہات زائل ہو جائیں ، اسی لیے آگے اسے نور سے تعبیر فرمایا۔نور سے مراد قرآن کریم ہے جو کفر و شرک کی تاریکیوں میں ہدایت کا نور ہے ۔ ضلالت کی پگڈنڈیوں میں صراط مستقیم اور جل اللہ المتین ہے ’’(احسن البیان،ص۱۳۵ دارالسلام لاہور)

‘‘دلیل واضح سے سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی مراد ہے جن کے صدق پر ان کے معجزے شاہد ہیں اور منکرین کی عقلوں کو حیران کر دیتے ہیں اور نور سے مراد قرآن پاک۔’’ (خزائن العرفان ،ص ۱۹۰، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

برہان اورنور سے مراد قرآن مجید

‘‘ اے لوگو تمہارے پاس رب العالمین کی طرف سے حجت کامل اور نور روشن پہنچ چکا جو ہدایت کے لئے کافی اور وافی ہے یعنی قرآن مجید، اب کسی تامل اور تردد کی گنجائش نہیں۔’’ (تفسیر عثمانی ،ص۱۳۸، پاک کمپنی لاہور)

ہدایت’ سے مراد مطلوب و مقصود کی ہدایت

‘‘ویھدیھم الیہ صراطاً مستقیماً، میں ہدایت کا لفظ میرے نزدیک اس ہدایت کے لیے ہے جو اہلِ ایمان کو آخرت میں حاصل ہوگی۔ جو لوگ اللہ پر ایمان اور اس حبل اللہ کو، جو قرآن کی شکل میں ان کی طرف نازل ہوئی ہے، مضبوطی سے پکڑ لیں گے، خدا ان کو اپنی رحمت اور فضل بے پایاں سے بھی نوازے گا اور براہِ مستقیم اور براہِ راست ان کی رہنمائی اپنے قرب کی طرف بھی فرمائے گا اور یہ آخرت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہوگی اس لیے کہ تمام ہدایت و شریعت کی اصل غایت اور اہلِ ایمان کی تمام مساعی کا اصل مقصود و مطلوب یہی قربِ الٰہی ہے۔ اس آیت کا خطاب عام ہے جس میں مسلمان، اہلِ کتاب اور اہلِ عرب سب آگئے ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

مترجمین: ۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ،۵۔ سیدّابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاویداحمد غامدی

تفاسیرومفسرین: ۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی، ۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیع ؒ ، ۳۔خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ، ۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ، ۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ، ۶۔ ضیا ء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہری ؒ ، ۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی، ۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی