سوال ، جواب

مصنف : مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مارچ 2013

ج-85 رشوت لینے والا تو ہر حال میں ‘‘فی النار’’ کا مصداق ہے، اور رشوت دینے والے کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ دفعِ ظلم کے لئے رشوت دی جائے تو اْمید ہے کہ اللہ تعالیٰ مواخذہ نہیں فرمائیں گے۔ رشوت دے کر جو نوکری حاصل کی گئی ہو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ شخص اس ملازمت کا اہل ہے اور جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے اسے ٹھیک ٹھیک انجام دیتا ہے تو اس کی تنخواہ حلال ہے، (گو رشوت کا وبال ہوگا)، اور اگر وہ اس کام کا اہل ہی نہیں تو تنخواہ بھی حلال نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- رشوت کے بارے میں جناب نے مجھ پر جو اعتراض کیا تھا، میں نے اعترافِ شکست کے ساتھ اس بحث کو ختم کردینا چاہا تھا، لیکن آنجناب نے اس کو بھی محسوس فرمایا، اس لئے مختصراً پھر عرض کرتا ہوں کہ اگر اس سے شفا نہ ہو تو سمجھ لیا جائے کہ میں اس سے زیادہ عرض کرنے سے معذور ہوں۔

 جناب کا یہ ارشاد بجا ہے کہ رشوت قطعی حرام ہے، خدا اور رسول نے راشی اور مرتشی دونوں پر لعنت کی ہے، اور اس پر دوزخ کی وعید سنائی ہے۔ لیکن جناب کو معلوم ہے کہ اضطرار کی حالت میں مردار کی بھی اجازت دے دی جاتی ہے، کچھ یہی نوعیت رشوت دینے کی ہے۔ ایک شخص کسی ظالم خونخوار کے حوالے ہے، وہ ظلم دفع کرنے کے لئے رشوت دیتا ہے، فقہائے اْمت اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ‘‘اْمید ہے کہ اس پر مواخذہ نہ ہوگا’’ اور یہی میں نے لکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس پر عام حالات کا قانون نافذ نہیں ہوسکتا، اس لئے رشوت لینا تو ہر حال میں حرام ہے اور گناہِ کبیرہ ہے، اور رشوت دینے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ جلبِ منفعت کے لئے رشوت دے، یہ حرام ہے، اور یہی مصداق ہے ان احادیث کا جن میں رشوت دینے پر وعید آئی ہے۔ اور دْوسری صورت یہ کہ دفعِ ظلم کے لئے رشوت دینے پر مجبور ہو، اس کے بارے میں فقہاء فرماتے ہیں کہ: ‘‘اْمید ہے کہ مواخذہ نہ ہوگا’’۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- شوہر اگر حرام کا روپیہ کماکر لاتا ہے تو عورت کو چاہئے کہ پیار محبت سے اور معاملہ فہمی کے ساتھ شوہر کو اس زہر کے کھانے سے بچائے، اگر وہ نہیں بچتا تو اس کو صاف صاف کہہ دے کہ: ‘‘میں بھوکی رہ کر دن کاٹ لوں گی، مگر حرام کا روپیہ میرے گھر نہ لایا جائے، حلال خواہ کم ہو میرے لئے وہی کافی ہے۔’’ اگر عورت نے اس دستور العمل پر عمل کیا تو وہ گناہگار نہیں ہوگی، بلکہ رشوت اور حرام خوری کی سزا میں صرف مرد پکڑا جائے گا، اور اگر عورت ایسا نہیں کرتی بلکہ اس کا حرام کا لایا ہوا روپیہ خرچ کرتی ہے تو دونوں اکٹھے جہنم میں جائیں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- رشوت لینا حرام ہے، اور اس حرام روپے سے کسی کی خدمت کرنا اور اس پر ثواب کی توقع رکھنا بہت ہی سنگین گناہ ہے۔ بعض اکابر نے لکھا ہے کہ حرام مال پر ثواب کی نیت کرنے سے ایمان سلب ہوجاتا ہے۔ آپ کے حاتم طائی کو چاہئے کہ رشوت کا روپیہ اس کے مالک کو واپس کرکے اپنی جان پر رحم کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج-  رشوت کا پیسہ حرام ہے، اور حدیث میں ارشاد ہے کہ: ‘‘آدمی حرام کماکر اس میں سے صدقہ کرے، وہ قبول نہیں ہوتا’’ حضراتِ فقہاء نے لکھا ہے کہ مالِ حرام میں صدقے کی نیت کرنا بڑا ہی سخت گناہ ہے، اس کی مثال ایسی ہے کوئی شخص گندگی جمع کرکے کسی بڑے آدمی کو ہدیہ پیش کرے، تو یہ ہدیہ نہیں گا بلکہ اس کو گستاخی تصوّر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی میں گندگی جمع کرکے پیش کرنا بھی گستاخی ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- جو لوگ ذاتی تعلق و محبت اور بزرگ داشت کے طور پر ہدیہ پیش کرتے ہیں وہ تو ہدیہ ہے، اور اس کا استعمال جائز اور صحیح ہے۔ اور جو لوگ آپ سے آپ کے عہدے کی وجہ سے منفعت کی توقع پر مٹھائی پیش کرتے ہیں، یعنی آپ نے ان کو اپنے عہدے کی وجہ سے نفع پہنچایا ہے یا آئندہ اس کی توقع ہے، یہ رشوت ہے، اس کو قبول نہ کیجئے، نہ خود کھائیے، نہ گھر والوں کو کھلائیے۔ اور اس کا معیار یہ ہے کہ اگر آپ اس عہدے پر نہ ہوتے، یا اس عہدے سے سبکدوش ہوجائیں تو کیا پھر بھی یہ لوگ آپ کو ہدیہ دیا کریں گے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو یہ ہدیے بھی رشوت ہیں، اور اگر ان ہدیوں کا آپ کے منصب اور عہدے سے کوئی تعلق نہیں تو یہ ہدیے آپ کے لئے جائز ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- میں سرکاری ٹھیکے دار ہوں، مختلف محکموں میں پانی کی ترسیل کی لائنیں بچھانے کے ٹھیکے ہم لیتے ہیں، ہم جو ٹھیکے لیتے ہیں وہ باقاعدہ ٹینڈر فارم جمع کراکے مقابلے میں حاصل کرتے ہیں، مقابلہ یوں کہ بہت سے ٹھیکے دار اس ٹھیکے کے لئے اپنی اپنی رقم لکھتے ہیں اور بعد میں ٹینڈر سب کے سامنے کھولے جاتے ہیں، جس کی قیمت کم ہوتی ہے، سرکار اسے ٹھیکہ دے دیتی ہے۔ اس کام میں ہم اپنا ذاتی حلال کا پیسہ لگاتے ہیں اور سرکار نے پانی کے پائپوں کا جو معیار مقرّر کیا ہے وہی پائپ لیتے ہیں جو کہ محکمے سے منظور شدہ کمپنی سے خریدا جاتا ہے، اور جو قسم محکمے والے مقرّر کرتے ہیں، وہی خریدتے ہیں۔ ہم اپنے طور پر کام ایمان داری سے کرتے ہیں، مگر چند ایک چھوٹی چیزیں مثلاً پائپ جوڑنے والا آلہ جس کی موٹائی محکمے والے ۱۰، اِنچ مقرّر کرتے ہیں، وہ ہم پانچ اِنچ موٹائی کا لگادیتے ہیں۔ اس سے لائن کی مضبوطی میں فرق نہیں پڑتا لیکن ہمارے ساتھ مجبوری یہ ہے کہ محکمے کے افسران جو کہ اس کام پر مامور ہوتے ہیں ان کو ہمیں لازماً افسران کے عہدوں کے مطابق ٹینڈر کی قیمت کے ۲ فیصد سے ۵ فیصد تک پیسے دینے پڑتے ہیں، جبکہ وہ سرکاری ملازم ہیں اور محکمے سے تنخواہ لیتے ہیں، اور جو پیسے وہ ہم سے لیتے ہیں وہ سرکار کے خزانے میں نہیں بلکہ ان کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ اگر ہم انہیں یہ پیسے نہ دیں تو وہ کام میں رْکاوٹ ڈالتے ہیں، اور اگر ہم سو فیصد کام صحیح کریں جب بھی اس میں نقص نکال کر ہمارے پیسے رْکوادیتے ہیں اور آئندہ کے لئے کاموں میں رْکاوٹ ڈال دیتے ہیں۔ آپ سے گزارش یہ ہے کہ آپ یہ بتائیے کہ ہماری یہ آمدنی حلال ہے کہ نہیں؟ کیونکہ اگر ہم افسران کو پیسہ نہ دیں تو وہ ہماری سو فیصد ایمان داری کے باوجود ہمارے کام بند کرادیتے ہیں اور ہمارے بل رْکوادیتے ہیں۔ کام شروع سے ہم اپنے ذاتی پیسوں سے کرتے ہیں، اور تکمیل کے دوران سرکار ہمیں کچھ ادائیگی کرتی رہتی ہے، جبکہ رقم کا بڑا حصہ ہمارا ذاتی پیسہ ہوتا ہے۔

ج- رشوت ایک ایسا ناسور ہے جس نے پورے ملک کا نظام تلپٹ کر رکھا ہے، جن افسروں کے منہ کو یہ حرام خون لگ جاتا ہے وہ ان کی زندگی کو بھی تباہ کردیتا ہے اور ملکی انتظام کو بھی متزلزل کردیتا ہے، جب تک سرکاری افسروں اور کارندوں کے دِل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور قیامت کے دن کے حساب و کتاب اور قبر کی وحشت و تنہائی میں ان چیزوں کی جواب دہی کا احساس پیدا نہ ہو، تب تک اس سرطان کا کوئی علاج نہیں کیا جاسکتا۔ آپ سے یہی کہہ سکتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو ان کتوں کو ہڈی ڈالنے سے پرہیز کریں، اور جہاں بے بس ہوجائیں وہاں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- میں بلڈنگ ڈپارٹمنٹ میں سب انجینئر ہوں، ملازمت کی مدّت تین سال ہوگئی ہے، ہمارے یہاں جب کوئی سرکاری عمارت تعمیر ہوتی ہے تو ٹھیکے دار کو ٹھیکے پر کام دے دیا جاتا ہے، اور ہم ٹھیکے دار سے ایک لاکھ۰ ۲ ہزار روپے کمیشن لیتے ہیں، جس میں سب کا حصہ ہوجاتا ہے (یعنی چپراسی سے لے کر چیف انجینئر تک)، اس میں ۲ فیصد حصہ میرا بھی ہوتا ہے، ایک لاکھ پر دو ہزار، یہ ماہانہ تنخواہ کے علاوہ ہوتا ہے۔ اس وقت میرے زیر نگرانی ۲۰ لاکھ کا کام ہے اور ہر ماہ ۴ لاکھ کے بل بن جاتے ہیں، اس طرح ۸ہزار روپے تنخواہ کے علاوہ مجھ کو مل جاتے ہیں، جبکہ تنخواہ صرف ۱۷۰۰ روپے ہے۔ ٹھیکے دار حضرات کام کو دئیے ہوئے شیڈول کے مطابق نہیں کرتے، اور ناقص مٹیریل استعمال کرتے ہیں۔ سیمنٹ، لوہا وغیرہ گورنمنٹ کے دئیے ہوئے معیار کے مطابق نہیں لگاتے، حتیٰ کہ بہت سی اشیا ایسی ہوتی ہیں جن کا صرف کاغذات پر اندراج ہوتا ہے اور درحقیقت جائے وقوع پر اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ لیکن ہم لوگوں کو غلط اندراج کرنا پڑتا ہے اور غلط تصدیق کرنا پڑتی ہے۔ جب ہم کسی منصوبے کا اسٹیٹمنٹ بناتے ہیں تو اس کو پہلے سپرنٹنڈنگ انجینئر کے پاس لے جانا پڑتا ہے، جہاں پر سائٹ انچارج سے اس کو پاس کرانے کے لئے آفیسر اور اسٹاف کو کام کی نسبت سے کمیشن دینا پڑتا ہے۔ اس کے بعد وہ فائل چیف انجینئر کے آفس میں جاتی ہے، وہاں اس کو بھی کام کی نسبت سے کمیشن دینا پڑتا ہے۔ اور اس کا ایک اْصول بنایا ہوا ہے، اس کے بغیر اسٹیٹمنٹ پاس نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے ہم لوگوں کو بھی ٹھیکے داروں سے مجبوراً کمیشن لینا پڑتا ہے، ورنہ ہم اگلے مراحل میں ادائیگی کہاں سے کریں۔ ٹھیکے دار اس کمی کو پورا کرتا ہے خراب مال لگاکر اور کام میں چوری کرکے، جس کا ہم سب کو علم ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح ہم جھوٹ، بددیانتی، رشوت، سرکاری رقم (جو کہ درحقیقت عوام کی ہے) میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس کو بْرا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ میرا دِل اس عمل سے مطمئن نہیں ہے۔ براہِ کرم میری سرپرستی فرماویں کہ آیا میں کیا کروں؟ کیا دْوسروں کو ادا کرنے کے لئے کمیشن لے لوں اور اس میں سے اپنے پاس بالکل نہ رکھوں؟ یا کچھ اپنے پاس بھی رکھوں؟ یا ملازمت چھوڑ دْوں؟ کیونکہ مذکورہ بالا حالات میں سارے غلط اْمور کرنا پڑتے ہیں۔

ج- جن قباحتوں کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان کی اجازت تو نہ عقل دیتی ہے نہ شرع، نہ قانون نہ اخلاق، اگر آپ ان لعنتوں سے نہیں بچ سکتے تو اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ نوکری چھوڑ دیجئے، اور کوئی حلال ذریعہ معاش اپنائیے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ آپ نوکری چھوڑ دیں گے تو بچوں کو کیا کھلائیں گے؟ اس کے دو جواب ہیں۔ ایک یہ کہ دْوسری جگہ حلال ذریعہ معاش تلاش کرنے کے بعد ملازمت چھوڑئیے، پہلے نہ چھوڑئیے۔ دْوسرا جواب یہ ہے کہ آپ ہمت سے کام لے کر اس بْرائی کے خلاف جہاد کیجئے اور رشوت کے لینے اور دینے سے انکار کردیجئے۔ جب آپ ایسا کریں گے تو آپ کے محکمے کے تمام شریکِ کار افسرانِ بالا سے لے کر ماتحتوں تک آپ کے خلاف ہوجائیں گے، اور آپ کے افسر آپ کے خلاف جھوٹے سچے الزامات عائد کرکے آپ کو برخاست کرانے کی سعی کریں گے۔ اس کے جواب میں آپ اپنے مندرجہ بالا خط کو سنوار کر مع ثبوتوں کے صفائی نامہ پیش کردیجئے، اور اس کی نقول صدرِ مملکت، وزیراعظم، صوبائی حکومت کے اَربابِ اقتدار اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی وغیرہ کو بھیج دیجئے۔ زیادہ سے زیادہ آپ کا محکمہ آپ کو نوکری سے الگ کردے گا، لیکن پھر اِن شاء اللہ آپ پر زیادہ خیر و برکت کے دروازے کھلیں گے۔ اگر آپ محکمے کی ان زیادتیوں سے کسی بڑے اَربابِ حل و عقد کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہوگئے تو آپ کی نوکری بھی نہیں جائے گی، البتہ آپ کو کسی غیراہم کام پر لگادیا جائے گا اور آپ کو ۱۷۰۰ روپے میں گزر اوقات کرنی پڑے گی، جس میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے، بشرطیکہ آپ خالی وقت میں کوئی کام کرسکیں۔ تو میرے عزیز! جس طرح آپ ہزاروں میں سے ایک ہیں جو مجھ کو ایسا تقوے والا خط لکھ سکتے ہیں، اسی طرح کسی نہ کسی کو اس اندھیرنگری میں حق کی آواز اْٹھانی ہے، اللہ کی مدد آپ کے شاملِ حال ہو اور ہم خیال بندے آپ کی نصرت کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- میں جس فرم میں ملازم ہوں، وہاں اشیاء کی نقل و حرکت کے لئے ٹرانسپورٹرز سے معاہدہ ہے، جن کا کرایہ حکومت سے منظور شدہ ہوتا ہے اور انہیں ماہانہ ادائیگی کی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان کے کرایوں کے نرخ میں اضافہ کردیا گیا، لیکن منظوری میں تاخیر کی وجہ سے اس دوران کا حساب کرکے ان کو بقایا جات ادا کئے گئے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جس وقت ادائیگی کے بل ادا کئے گئے، لوگوں نے ان سے مٹھائی کا مطالبہ شروع کردیا، جس پر انہوں نے رضامندی ظاہر کی، لیکن ان سے کہا گیا کہ ہمیں کچھ رقم دے دی جائے جس سے ہم پانچ چھ افراد پارٹی (لنچ یا ڈنر) کرسکیں۔ ان سے یہ رقم وصول کی گئی اور اس وقت یہ صاف طور پر کہہ دیا گیا کہ یہ پیسے کسی اور ضمن میں نہیں بلکہ آپ کی خوشی سے مٹھائی کے طور پر لئے جارہے ہیں۔ جس پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ نہیں ہم اپنی خوشی سے دے رہے ہیں۔ ایک ٹرانسپورٹر نے اچھی خاصی رقم دی جسے تین افراد نے آپس میں تقسیم کرلیا اور باقی وصول ہونے والی رقم سے چار پانچ مرتبہ لنچ کیا گیا۔ برائے مہربانی آپ یہ وضاحت کردیں کہ یہ رقم کھانا جائز ہے جبکہ کھانے والے حضرات یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ آفس میں افسرانِ بالا کو یا اور لوگوں کو اس بات کا علم نہ ہو، جبکہ اس میں کسی اور منفعت کو دخل نہیں، ہمارا ادارہ ایک نجی ادارہ ہے۔

ج- اس قسم کی شیرینی جو سرکاری اہل کاروں کو دی جاتی ہے، رشوت کی مد میں آتی ہے، اس سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ یہ شیرینی نہیں بلکہ زہر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- کام کے عوض جو روپیہ اس کو دیا جاتا ہے وہ رشوت ہے، اس کا لینا اس کے لئے جائز نہیں، اگر بعینہ اسی رقم سے کوئی چیز خرید کر وہ کسی کو تحفہ دیتا ہے تو اس کا لینا بھی جائز نہیں، اور اگر اپنی تنخواہ کی رقم سے یا کسی اور جائز آمدنی سے تحفہ دیتا ہے تو اس کا لینا دْرست ہے۔ اور اگر یہ معلوم نہ ہو کہ یہ تحفہ جائز آمدنی کا ہے یا ناجائز کا؟ تو اگر اس کی غالب آمدنی صحیح ہے تو تحفہ لے لینا دْرست ہے، ورنہ احتیاط لازم ہے، اور اگر اس کی دِل شکنی کا اندیشہ ہو تو اس سے تو لے لیا جائے مگر اس کو استعمال نہ کیا جائے، بلکہ بغیر نیتِ صدقہ کے کسی محتاج کو دے دیا جائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں دوزخی ہیں۔ اگرچہ اس بارے میں بہت سی اور احادیث بھی ہوں گی۔ پاکستان میں ٹریفک پولیس اور ڈرائیور حضرات کے درمیان یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ گاڑیوں سے ماہوار رشوت لیتے ہیں، بعض جگہ جب بھی کسی چوک میں گاڑی مل جائے تو روک کر روپے لیتے ہیں۔ اگر ان کو گاڑی کے کاغذات بتادئیے جائیں، کاغذ مکمل ہونے کی صورت میں پھر بھی وہ کوئی نہ کوئی الزام لگادیتے ہیں۔ مثلاً: ‘‘گاڑی کا رنگ دْرست نہیں ہے، تم تیزرفتاری سے گاڑی چلاتے ہو۔’’ اگر ان کو رشوت نہ دی جائے اور کہہ دیا جائے کہ چالان کرو اور ہم گورنمنٹ کو فیس دیں گے تو وہ چالان سلپ پر اتنی دفعات لگادیتے ہیں کہ جب ہم مجسٹریٹ کے سامنے جاتے ہیں تو وہ کئی کئی ہزار روپے تک جرمانہ کرتا ہے۔ پھر ہوسکتا ہے کہ ایک ماہ تک لائسنس کا بھی یا گاڑی کے کاغذات کا بھی پتا نہ چلے، یہ کام وہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کو آئندہ روپے آرام سے دئیے جائیں۔ پھر ایک ڈرائیور مجبوری سے ۵۰،۱۰۰ روپے دے دیتا ہے اور اس کے عوض وہ اوور لوڈ کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ گاڑی کے کاغذ نہیں رکھتے کہ کاغذ ہوتے ہوئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ میرا اس بیان سے مقصد یہ نہیں کہ ہم جرم کرتے رہیں اور روپے دیتے رہیں، بلکہ اگر کسی کا کوئی جرم ہے اور وہ روپے بھی دیتا ہے تو اسلام میں اس کا کیا مقام ہے؟ اگر سب کچھ دْرست ہونے کے باوجود صرف رشوت اس لئے دی جائے کہ وہ ناجائز تنگ کریں گے اور زیادہ روپے دینے پڑیں گے، کیا اس حدیث کی روشنی میں ڈرائیور اور پولیس والا دونوں کے لئے بس وہ حدیث ہوگی، یعنی دونوں کا جرم برابر کا ہوگا؟

ج- کوئی کام غیرقانونی تو حتی الوسع نہ کیا جائے، اس کے باوجود اگر رشوت دینی پڑے تو لینے والے اپنے لئے جہنم کا سامان کرتے ہیں، دینے والا بہرحال مجبور ہے، اْمید ہے کہ اس سے مواخذہ نہ ہوگا۔ اور اگر غیرقانونی کام کے لئے رشوت دی جائے تو دونوں فریق لعنت کے مستحق ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں دوزخی ہیں۔ اگرچہ اس بارے میں بہت سی اور احادیث بھی ہوں گی۔ پاکستان میں ٹریفک پولیس اور ڈرائیور حضرات کے درمیان یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ گاڑیوں سے ماہوار رشوت لیتے ہیں، بعض جگہ جب بھی کسی چوک میں گاڑی مل جائے تو روک کر روپے لیتے ہیں۔ اگر ان کو گاڑی کے کاغذات بتادئیے جائیں، کاغذ مکمل ہونے کی صورت میں پھر بھی وہ کوئی نہ کوئی الزام لگادیتے ہیں۔ مثلاً: ‘‘گاڑی کا رنگ دْرست نہیں ہے، تم تیزرفتاری سے گاڑی چلاتے ہو۔’’ اگر ان کو رشوت نہ دی جائے اور کہہ دیا جائے کہ چالان کرو اور ہم گورنمنٹ کو فیس دیں گے تو وہ چالان سلپ پر اتنی دفعات لگادیتے ہیں کہ جب ہم مجسٹریٹ کے سامنے جاتے ہیں تو وہ کئی کئی ہزار روپے تک جرمانہ کرتا ہے۔ پھر ہوسکتا ہے کہ ایک ماہ تک لائسنس کا بھی یا گاڑی کے کاغذات کا بھی پتا نہ چلے، یہ کام وہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کو آئندہ روپے آرام سے دئیے جائیں۔ پھر ایک ڈرائیور مجبوری سے ۵۰،۱۰۰ روپے دے دیتا ہے اور اس کے عوض وہ اوور لوڈ کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ گاڑی کے کاغذ نہیں رکھتے کہ کاغذ ہوتے ہوئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ میرا اس بیان سے مقصد یہ نہیں کہ ہم جرم کرتے رہیں اور روپے دیتے رہیں، بلکہ اگر کسی کا کوئی جرم ہے اور وہ روپے بھی دیتا ہے تو اسلام میں اس کا کیا مقام ہے؟ اگر سب کچھ دْرست ہونے کے باوجود صرف رشوت اس لئے دی جائے کہ وہ ناجائز تنگ کریں گے اور زیادہ روپے دینے پڑیں گے، کیا اس حدیث کی روشنی میں ڈرائیور اور پولیس والا دونوں کے لئے بس وہ حدیث ہوگی، یعنی دونوں کا جرم برابر کا ہوگا؟

ج- کوئی کام غیرقانونی تو حتی الوسع نہ کیا جائے، اس کے باوجود اگر رشوت دینی پڑے تو لینے والے اپنے لئے جہنم کا سامان کرتے ہیں، دینے والا بہرحال مجبور ہے، اْمید ہے کہ اس سے مواخذہ نہ ہوگا۔ اور اگر غیرقانونی کام کے لئے رشوت دی جائے تو دونوں فریق لعنت کے مستحق ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- ‘‘جنگ’’ اخبار میں ‘‘آپ کے مسائل اور ان کا حل’’ کے کالم میں آپ نے جو جواب ‘‘تحفہ یا رشوت’’ کے سلسلے میں شائع کیا ہے، اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ادارے میں ملازم ہے اور اپنے کام میں وہ بھرپور محنت کرتا ہے تو ادارہ اس کی خدمات سے خوش ہوکر اگر اسے اضافی تنخواہ یا کوئی تحفہ دیتا ہے تو یہ رشوت میں شامل نہیں ہوگا، حالانکہ اگر یہ اسی عہدے پر قائم نہیں ہوتا تو یقینا نہیں ملتا، کیونکہ اسے اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ لیکن اب چونکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ محنت اور خلوص سے کام کر رہا ہے اور انتظامیہ اس کی حوصلہ افزائی کے لئے انعام دیتی ہے تو یہ رشوت میں شامل نہیں ہوگا، کیونکہ اسلام ہمیشہ محنت کشوں کی حوصلہ افزائی کی تاکید کرتا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ کام کرنے کا جذبہ بڑھتا ہے بلکہ انسان مزید بْرائیوں سے بھی بچتا ہے، لہٰذا مجھ گنہگار کی ناقص رائے ہے کہ آپ مزید اپنے اعلیٰ علمی تجربوں کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

ج- حکومت کی طرف سے جو کچھ دیا جائے، اس کے جائز ہونے میں کیا شبہ ہے؟ مگر سرکاری ملازم لوگوں کا کام کرکے ان سے جو ‘‘تحفہ’’ وصول کرے وہ رشوت ہی کی ایک صورت ہے۔ ہاں! اس کے دوست احباب یا عزیز و اقارب تحفہ دیں تو وہ واقعی تحفہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ گورنمنٹ یا انتظامیہ اپنے ملازمین کو جو کچھ دیتی ہے، خواہ تنخواہ ہو، بونس ہو، یا انعام ہو، وہ سب جائز ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج-85 کسی شخص کا نمبر نکل آنا ایسی چیز نہیں کہ اس کی خرید و فروخت ہوسکے، اس لئے پیسے دے کر نمبر خریدنا جائز نہیں، اور جس شخص نے پیسے لے کر اپنا نمبر دے دیا اس کے لئے وہ پیسے حلال نہیں ہوں گے، بلکہ ان کا حکم رشوت کی رقم کا ہوگا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)