بیگمات کے آنسو

مصنف : خواجہ حسن نظامی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : مارچ 2013

ہندستان میں مسلمانوں کے زوال کی خونچکاں داستان، مغلیہ خاندان پر کیا بیتی اس کا آنکھوں دیکھا حال او رانگریزوں کی بربریت کی مستند تاریخ

دُکھیا شہزادی کی کہانی

(ننھی شہزادی کے دو ہاتھ لیڈی ہارڈنگ کی تصویر پر)اماں! یہ مورت انھی وایسرانی کی ہے جنھوں نے ہم کو ایک ہزار روپے دیئے ہیں؟ہاں بیٹی! یہ بڑے لاٹ صاحب کی بیوی کا فوٹو ہے، بڑی رحم دل ہیں، ہمیشہ غریبوں پر ترس کھایا کرتی ہیں۔ اب کے ہم بے سہاروں کا بھی خیال آگیا۔ذرا اس تصویر کو مجھے دینا۔ میں ان بیگم کی بلائیں لوں، واری جاؤں اور دو باتیں کرکے جی کی بھڑاس نکالوں۔میں صدقے تم بڑی اچھی آدمی ہو۔ میں قربان کیا نورانی صورت ہے، مگر ہم غریبوں کے جھونپڑے ہیں کیوں کر آئیں۔ ہمارے ہاں تو ٹوٹے بوریہ کا فرش بھی پورا نہیں ہے۔ میں تم کو کہاں بٹھاؤں۔ ہم کو چارپائی بھی میسر نہیں۔ ہم سب زمین پر سوتے ہیں۔ یہ بہت ٹھنڈی ہے۔ تم کو نزلہ نہ ہوجائے۔ ہمارے مکان کی کڑیاں بھی جھکی ہوئی ہیں، ایسا نہ ہو گرپڑیں۔ میں تمھاری کیا خاطر کروں۔ کیا چیز دسترخوان پر چنوں۔ پرسوں سے ہم نے کچھ نہیں کھایا۔ ابامیاں کو بنئے نے آٹا قرض نہیں دیا۔ اس وقت بھوک کے مارے عجب حالت ہے۔ اگر گھر میں کچھ ہوتا تو میں سب تمھارے سامنے رکھ دیتی۔ میں بھوکی رہتی اور تم کو کھلاتی کیوں کہ تم نے ہم پر احسان کیا ہے اور اس وقت ہم کو یاد کیا ہے جب کہ سارا جہاں ہم کو بھول گیا تھا۔کیوں بیگم ! تمھارا جی اس اندھیرے گھر میں گھبراتا تو نہیں۔ تم بجلی کی روشنیوں میں رہتی ہو۔ کیا کروں، آج ہم کو مٹی کا چراغ بھی نصیب نہیں، ورنہ اس کو روشن کردیتی۔تم کو کہاں سلاؤں۔ رات کیوں کر گزرے گی۔ ہمارے پاس فقط دو پھٹے ہوئے کمبل ہیں: ایک ابا میاں اوڑھتے ہیں اور ایک میں اماں مجھ کو ساتھ لے کر سوتی ہیں۔

میرے پیارے لاٹ صاحب کی بیگم! اچھی ذرا میرے ہاتھوں اور مُنہ کو دیکھو، سردی سے پھٹ گئے ہیں۔ سردی کی راتیں پہاڑ ہوجاتی ہیں۔ سکھ کی نیند ہمارے خواب میں بھی نہیں آتی۔ تم نے ہم کو ہزار روپے دیے ہیں۔ میں ہزارہا اپنے ہاتھوں سے تمھاری چٹ چٹ بلائیں لوں۔ اماں کہتی ہیں کہ ایک زمانہ ہمارا بھی تھا۔ ہم بھی ہزاروں روپے غریبوں محتاجوں کو بانٹا کرتے تھے۔ ہمارے گھر وں میں بھی قالین اور مخملی فرش تھے، ریشمی زریں پردے تھے۔ سونے چاندی کی جڑاؤ چھتیں تھیں، شال دو شالے تھے، لونڈی غلام تھے، محل تھے، ہندوستان کی شہنشاہی میں داخل تھے۔ہمارے سامنے بھی گردنیں جھکتی تھی۔ راجہ مہاراجہ اشارہ کے منتظر رہتے تھے۔ ہمارے گھروں میں بھی کافوری شمعیں روشن ہوتی تھیں۔ ہم بھی لاچار اور بے سہاروں پر ترس کھاتے تھے، دوسروں کی خاطر اپنا گھر لُٹاتے تھے۔ ہمارے جلوس میں بھی نقارے بجتے تھے، نقیب کڑکتے تھے، ہاتھی جھوم جھوم کر چلتے تھے۔ ہمارے سر پر بھی تاج تھا۔ تلواریں ہمارے قدموں پر سر ٹیک کر چلتی تھیں۔ توپیں ہماری ہوں پر گرج گرج کر برستی تھیں۔ لیکن بیگم اب وقت کہاں ہے۔ دنیا ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے:

اُونچے مکان تھے جن کے بڑے
آج وہ تنگ گور میں ہیں پڑے


عطر مٹی کا جو نہ ملتے تھے
نہ کبھی دھوپ میں نکلتے تھے


گردش چرخ سے ہلاک ہوئے
استخواں تک بھی ان کے خاک ہوئے


ذاتِ معبود جاودانی ہے
باقی جو کچھ کہ ہے وہ فانی ہے

خدا نے ہم کو نعمت دی۔ جب تک اس کے قابل رہے نعمت پاس رہی اور جب ہمارے عمل خراب ہوئے، عیش و عشرت میں پڑ گئے، ملک سے بے خبر ہوگئے، مظلوموں کو بھول گئے، ظالموں کی چرب زبانیوں پر پھول گئے، خدا نے وہ دولت چھین لی اور دوسروں کو دے دی۔ ہم کو اس میں کسی سے شکوہ نہیں۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔

ہاں تم میری ماں کے برابر بلکہ ان سے بھی بڑی ہو۔ تم سے نہ کہوں تو کس سے کہوں۔ یہاں بھی نہ بولوں کہاں زبان کھولوں۔ خدا نے تم کو ہم سب کا رکھوالابنایا ہے۔ دیکھو تو بھوک پیاس ہم کو ستاتی ہے۔ ہمارے البیلے دن خاک میں ملاتی ہے۔ میری عمر ایسی تھی کہ چہرہ لال ہوتا مگر فاقوں نے زرد کردیا ہے۔ ہمارے گھر میں عید بقرعید کی خوشی بھی نہیں آتی۔ ہم کو ان دنوں میں بھی پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملتی۔ ہم اس دن بھی ٹوٹی ہوئی جوتیاں اور پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں، جس دن ساری دنیا اپنی اپنی حیثیت کے بموجب نئی جوتیاں اور نئے کپڑے پہنتی ہے ہم کو برسات کے ٹپکے کے کھٹکے رات دن رُلاتے ہیں۔ ہم کو سردیاں جلانے آتی ہیں۔ ہم پر گرمیاں قیامت ڈھاتی ہیں۔

دلّی شہر کے کتے پیٹ بھر کر سوتے ہیں۔ کوے شکم سیر ہوکر گھونسلوں میں جاتے ہیں۔ چڑیوں تک کے واسطے پکی چھتوں کے گھر ہیں۔ گلہریاں بھی شاندار مکانوں میں رہتی ہیں مگر تیمور بادشاہ کی اولاد، شاہجہاں بادشاہ کے بچے، جنھوں نے اس شہر کو فتح کیا اور بنایا آدھی روٹی کے ٹکڑے کو ترستے ہوئے بھوکے سوتے ہیں۔ ان کو کوئی رات بے فکری کی نصیب نہیں ہوتی۔ جن کے باپ دادا نے لال قلعہ بنایا تھا ان کو ٹوٹا جھونپرا بھی میسر نہیں آتا۔

بیگم! تم نے دیکھا ہوگا، دلّی شہر میں ایک جامع مسجد ہے، جس کو ہمارے دادا شاہجہاں نے بنایا تھا۔ دُور دُور کی خلقت اس کو دیکھنے آتی ہے مگر اس کو کوئی نہیں دیکھتا کہ مسجد کی سیڑھیوں کے سامنے، پھٹے ہوئے برقعہ کے اندر، ناتواں بچہ کو گود میں لیے، پیوند لگا پاجامہ اور گٹھی ہوئی کنے لگی جوتی پہنے، کون عورت بھیک مانگتی ہے۔ بیگم! یہ غریب دُکھیا بیوہ شہزادی ہے، جس کا کوئی وارث نہیں رہا۔ تم یقین کرنا میری رحم دل وایسرانی! اسی کے باپ شاہجہاں نے یہ مسجد بنوائی تھی۔ آج پیٹ کے لیے بھیک کے ٹکڑے ٹکڑے جمع کر رہی ہے تاکہ زندگی کی مسجد آباد کرے۔ مجھے شرم آتی ہے میں تم سے کیوں کر کہوں کہ یہ ہزار روپے بہت تھوڑے ہیں۔ مرہم کے ایک چھوٹے سے پھایہ سے کیا ہوگا۔ ہمارے تو سارے بدن پر زخم ہیں۔

تمھاری نئی دلّی کی خیر جس کی سڑکوں میں لاکھوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے۔ تمھاری نئی عمارتوں کی خیر جن کے واسطے کروڑوں روپے کی منظوری ہے۔ تمھارے اس نیک خیال کی خیر جس کی بدولت دلّی کی پرانی عمارتوں کی مرمت ہورہی ہے اور بے شمار روپیہ اس میں خرچ کیا جا رہا ہے۔ ہمارے پیٹ کی نامراد سڑکوں کی بھی مرمت کرا دو اور ہمارے ٹوٹ ہوئے دلوں پربھی عمارتیں چنواؤ، ہم بھی پرانے زمانے کی نشانیاں ہیں۔ ہم کو بھی زندہ آثار قدیم میں لوگ سمجھتے ہیں، ہم کو بھی سہارا دو، مٹنے سے بچاؤ۔ خدا تم کو سہارا دے گا اور بچائے گا۔

یہ کہتے کہتے دُکھیا شہزادی چونکی، آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کو دونوں ہاتھ سے ملا اور کہا: میں بھی کیا دیوانی ہوں، تصویر سے باتیں کرتی ہوں، کاغذی بت کے آگے مرادیں مانتی ہوں مگر شاید کسی خدا کے بندے کے کان تک یہ دیوانہ پن کی باتیں پہنچ جائیں اور وہ انگریزی میں ترجمہ کرکے خدا ترس ہارڈنگ بیگم کو سنا دے اور وہ اپنے خاوند لاٹ صاحب سے کہیں، کونسل کے ممبروں سے کہیں، بادشاہ سلامت اور ان کی ملکہ سے کہیں کہ آلِ شاہجہاں کی حفاظت کے لیے بھی نئی دلّی کی دیگر منظوریوں کے ساتھ کوئی شاندار اور مصیبت شکن منظوری ہونی چاہیے۔

دُکھیا شہزادی کی کہانی

جس ننھی شہزادی کا یہ خیالی قصہ لکھا گیا ہے اس کی ماں پر غدر کے زمانہ میں بڑی بپتا پڑی تھی۔ اس لیے وہ سچا اور اصلی قصہ بھی یہاں درج کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں: غدر میں میری عمر سات برس کی تھی۔ اماں مجھ کو تین برس کا چھوڑ کر مرگئی تھیں۔ ابا کے پاس رہتی تھی۔ چودہ برس کا ایک میرا بھائی جمشید شاہ نامی تھا، مگر ہاتھ پاؤں کی اُٹھان سے بیس برس کا معلوم ہوتا تھا۔ اباجان نابینا ہوگئے تھے اور ہمیشہ گھر میں بیٹھے رہتے تھے۔ ڈیوڑھی پر چار نوکر اور ایک داروغہ، گھر میں تین باندیاں اور ایک مغلانی کام کرتی تھیں۔ حضرت بہادر شاہ ہمارے رشتے کے دادا ہوتے تھے اور ہمارا سب خرچ شاہی خزانہ سے ملتا تھا ۔ ہمارے گھر میں ایک بکری پلی ہوئی تھی۔ ایک دن میں نے اس کے بچہ کو ستانا شروع کیا۔ بکری نے بگڑ کر میرے ٹکر مار دی۔ میں نے غصہ میں دست پناہ گرم کرکے بکری کے بچہ کی آنکھیں پھوڑ ڈالیں، وہ بچہ تڑپ تڑپ کر مرگیا۔

کچھ دن کے بعد غدر پڑا۔ بادشاہ کے نکلنے کے بعد ہم بھی ابا کے ساتھ شہر سے نکلے، پالکی میں سوار تھے اور جمشید بھائی گھوڑے پر سات ساتھ تھے۔ دلّی دروازہ سے نکلتے ہی فوج والوں نے پالکی پکڑی۔ بھائی کو بھی گرفتار کرنا چاہا۔ انھوں نے تلوار چلائی، ایک افسر کو زخمی کیا، آخر زخموں سے چُور ہوکر گرے۔ سامنے دو نوکدار پتھر پڑے تھے۔ وہ آنکھوں میں کھب گئے اور بھائی نے چیخیں مار مار کر تھوڑی دیر میں جان دے دی۔ بھائی کی بے قرار آواز سن کر ابامیاں بھی پالکی سے نیچے اُتر آئے اور ٹٹول ٹٹول کر لاش کے پاس گئے اور پتھر سے سر ٹکرا کر لہولہان کرلیا، یہاں تک کہ ان کا وہیں خاتمہ ہوگیا۔اس کے بعد فوج والوں نے ہمارا سب سامان لے لیا اور مجھ کو بھی پکڑ لیا۔ چلتے وقت باپ اور بھائی کی لاش سے چمٹ کر خوب روئی اور ان کو بے گوروکفن چھوڑ کر مجبوراً فوج کے ساتھ چلی گئی۔ ایک دیسی سپاہی نے افسر سے مجھے مانگ لیا اور اپنے گھر مجھ کو لے گیا جو پٹیالہ ریاست میں تھا۔ اس سپاہی کی بیوی بڑی بدمزاج تھی۔ وہ مجھ سے برتن منجھواتی، مصالحہ پسواتی، جھاڑو دلواتی اور رات کو پاؤں دبواتی۔شروع شروع میں ایک رات دن بھر کی محنت سے تھک گئی تھی۔ پاؤں دبانے میں اونگھ آئی تو اس جلاد نے دست پناہ گرم کرکے میری بھنوؤں پر رکھ دیا جس سے پلکیں تک جھلس گئیں اور بھنوؤں کی چربی نکل آئی۔ میں نے ابا کو پکارنا شروع کیا کیوں کہ مجھے اتنی سمجھ نہ تھی کہ مرنے کے بعد پھر کوئی نہیں آیا کرتا۔ جب ابا نے جواب نہ دیا تو میں اس عورت کے ڈر کے مارے سہم کر چپ ہوگئی۔ لیکن اس پر بھی اس کو ترس نہ آیا اور بولی کہ پاؤں دبا۔ زخموں کی تکلیف میں مجھ کو نیند نہیں آتی تھی اور پیر بھی نہ دَب سکتے تھے۔ مگر قہردرویش برجان درویش۔ میں نے اسی حالت میں پاؤں دبائے۔ سویرے مصالحے پیسنے میں مرچوں کا ہاتھ زخموں کو لگ گیا۔ اس وقت مجھ کو تاب نہ رہی اور زمین پر مچھلی کی طرح تڑپنے لگی۔ مگر بے رحم عورت کو تب بھی کچھ خیال نہ آیا اور بولی چل مکار کام سے دام چراتی ہے۔ یہ کہہ کر پسی ہوئی مرچیں زخموں پر مل دیں۔اس وقت مجھ کو مارے تکلیف کے غش آگیا اور رات تک ہوش نہ آیا۔ صبح کو آنکھ کھلی تو بے چارا سپاہی میرے زخموں کو صاف کر کے دوا لگا رہا تھا۔تھوڑے دن کے بعد سپاہی کی یہ بیوی مرگئی اور اس نے نئی شادی کی جو مجھ پر بہت مہربان تھی۔ اسی کے گھر میں جوان ہوئی اور اس نے میری شادی ایک غریب آدمی سے کردی۔ دو برس تک میرا خاوند زندہ رہا۔ اس کے بعد مرگیا۔ بیوہ ہوکر میں دلّی چلی آئی کیوں کہ وہ سپاہی بھی مر گیا تھا اور اس کی بیوہ نے دوسری شادی کرلی تھی۔ دہلی میں آکر میں نے بھی اپنی قوم میں دوسری شادی کرلی جس سے فقط ایک لڑکی پیدا ہوئی۔

اس خاوند کے پانچ روپے ماہوار انگریزی سرکار سے پنشن تھی مگر تنخواہ قرضہ میں چلی گئی اور اب ہم نہایت عسرت اور تنگ دستی سے زندگی بسر کرتے ہیں۔

٭٭٭

بے چاری شہزادی کا خاکی چھپرکھٹ

گل بانو خدا رکھے پندرہ برس کی ہوئیں۔ جوانی کی راتوں نے گود میں لینا شروع کیا۔ مرادوں کے دن پہلو میں گدگدیاں کرنے لگے۔ میرزا دارا بخت بہادر ولی عہد سابق بہادر شاہ کی نورچشم ہیں۔ باپ نے بڑے چاؤں چوچلے سے پالا ہے اور جس دن سے وہ دنیا کو چھوڑ کر قبر میں گئے، محل میں گل بانو کی نازبرداریاں پہلے سے بھی زیادہ ہونے لگیں۔ اماں کہتی ہیں: نگوڑی کے ننھے سے دل کو بہت صدمہ پہنچا ہے، باپ کا ہڑکانہ کرے۔ اس کی ایسی دلداری کرو کہ ان کی محبتوں کو بھول جائے۔اِدھر دادا یعنی بہادر شاہ بادشاہ کا یہ عالم ہے کہ پوتی کے لاڈ میں کسی بات سے دریغ نہیں کرتے۔ نواب زینت محل ان کی لاڈلی اور منظورِ نظر بیوی ہیں۔ جاں بخت انھی کے پیٹ کا شہزادہ ہے۔ اگرچہ میرزا دارابخت کے قبل از وقت مرجانے سے ولی عہد کا منصب میرزا فخرو کو ملا ہے مگر جواں بخت کی محبتوں کے سامنے ولی عہد کی بھی کچھ پرسش نہیں ہے اور زینت محل انگریزی حکام سے اندر ہی اندر جواں بخت کی تخت نشینی کے معاملات طے کر رہی ہیں۔ جواں بخت کی اس دھوم سے شادی ہوتی ہے کہ مغلوں کی آخری تاریخ میں اس کروفر کی نظیر نہیں ملتی۔ غالب و ذوق سہرے لکھتے ہیں اور ان میں وہ مشہور شعر بازی کی چشمک ہوجاتی ہے جس کا ذکر شمس العلماء آزاد دہلوی نے ‘‘آبِ حیات’’ میں کیا ہے اور غالب کو لکھنا پڑتا ہے کہ: ‘‘مقطع میں آپڑی تھی سخن گسترانہ بات’’ ورنہ مجھے خدانخواستہ استاد شاہ یعنی جنابِ ذوق سے کچھ عداوت نہیں ہے۔

یہ سب کچھ تھا اور جواں بخت اور زینت محل کے آگے کسی کا چراغ نہ جلتا تھا مگر گل بانو کی بات سب سے نرالی تھی۔ بہادر شاہ کو اس لڑکی سے جو تعلق تھا اور جیسی سچی محبت اس یتیم لڑکی سے رکھتے تھے ایسی کیفیت زینت محل اور جواں بخت کو بھی میسر نہ تھی۔

پس اندازہ ہوسکتا ہے کہ گل بانو کس شان و شوکت و ناز و نعمت سے زندگی بسر کرتی ہوں گی۔ ہونے کو میرزا دارا بخت کے اور بھی بال بچے تھے مگر گل بانو اور اس کی والدہ سے ان کو عشق تھا۔ گل بانو کی ماں ایک ڈومنی تھی اور میرزا اس کو تمام بیگمات سے زیادہ چاہتے تھے۔ جب وہ مرے ہیں تو گل بانو بارہ سال کی تھی۔ میرزا درگاہ حضرت مخدوم نصیرالدین چراغ دہلی میں دفن ہوئے تھے، جو دہلی سے چھے میل کے فاصلہ پر پرانی دہلی کے کھنڈروں میں واقع ہے۔ گل بانو، مہینہ کے مہینہ ماں کو لے کر باپ کی قبر دیکھنے جایا کرتی تھی۔ جب جاتیں قبر کو لپٹ کر روتیں اور کہتیں: ‘‘ابا! ہم کو بھی اپنے پاس لٹا کر سلا لو، ہمارا جی تم بن گھبراتا ہے’’۔جب گل بانو نے پندرہویں سال میں قدم رکھا تو شباب نے بچپن کی ضد اور شرارتیں تو رخصت کردیں مگر دلربائی کی شوخیاں اس ستم کی ڈھائیں کہ محل کا بچہ بچہ پناہ مانگتا تھا۔ سونے کے چھپرکھٹ میں دوشالہ تانے سویا کرتی تھیں۔ شام کے چراغ جلے اور بانو چھپرکھٹ پر پہنچیں۔ ماں کہتیں: چراغ میں بتی پڑی لاڈو پلنگ چڑھی تو وہ مسکرا کر انگڑائی اور جمائی لے کر سر کے بکھرے ہوئے بالوں کو ماتھے سے سمٹ کر کہتیں: اچھا بی تم کو کیا۔ سوتے ہیں وقت کھوت ہیں تمھارا کیا لیتے ہیں۔ تم ناحق کوئلوں پر لوٹی جاتی ہو۔ ماں کہتی: نا بنو میں جلتی نہیں شوق سے آرام کرو۔ خدا تم کو ہمیشہ سکھ نیند سلاتا رکھے۔ میرا مطلب تو یہ ہے کہ زیادہ سونا آدمی کو بیمار کردیتا ہے۔ تم شام کو سوتی ہو تو سویرے ذرا جلدی اُٹھا کرو مگر تمھارا تو یہ حال ہے کہ دس بج جاتے ہیں گھر میں دھوپ پھیل جاتی ہے۔ لونڈیاں ڈر کے مارے بات تک نہیں کرسکتیں کہ بانو کی آنکھ کھل جائے گی۔ ایسا بھی کیا سونا۔ آدمی کو کچھ گھر کا کام بھی دیکھنا چاہیے۔ اب ماشاء اللہ تم جواں ہوئیں، پرائے گھر جانا ہے۔ اگر یہی عادت رہی تو وہاں کیوں کر گزارا ہوگا۔

گل بانو ماں کی یہ تقریر سن کر بگڑتی اور کہتی: تم کو ان باتوں کے سوا کچھ اور بھی کہنا آتا ہے۔ ہم سے نہ بولا کرو۔ تمھیں ہم دوبھر ہوگئے ہیں تو صاف صاف کہہ دو۔ دادا حضرت (بہادر شاہ) کے پاس جارہیں گے۔

محبت کا مکتب

اسی زمانہ کا ذکر ہے میرزاد اور شکوہ شہزادہ خضر سلطان کا بیٹا گل بانو کے پاس آنے جانے لگا۔ قلعہ میں باہمی پردہ کا دستور نہ تھا۔ یعنی شاہی خاندان کے آپس میں پردہ نہ کرتے تھے۔ اس واسطے میرزا داور کی آمدورفت بے روک ٹوک ہوتی تھی۔پہلے تو گل بانوان کی بہن اوروہ ان کے بھائی تھے۔ چچا تایا کے دو بچے سمجھے جاتے تھے لیکن بعد میں عشق نے ایک اور رشتہ پیدا کیا۔ میرزا گل بانو کو کچھ اور سمجھتے تھے اور گل بانو داور کو ظاہری قرابت کے سوا کسی اور رشتہ کی نظر سے دیکھتی تھی۔ایک دن صبح کے وقت میرزا گل بانو کے پاس آئے تو دیکھا کہ بانو سیاہ دوشالہ اوڑھے سنہری چھپرکھٹ میں سفید پھولوں کی سیج پر پاؤں پھیلائے بے خبر پڑی سوتی ہیں۔ منہ کھلا ہوا ہے، اپنے ہی بازو پر سر رکھا ہے، تکیہ الگ پڑا ہے، دونوں لونڈیاں مکھیاں اُڑا رہی ہیں۔

داور شکوہ چچی کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا مگر کن انکھیوں سے گل بانو کا یہ عالم مخموری دیکھتا جاتا تھا۔ آخر نہ رہا گیا اور بولا: کیوں چچی (حضرت) بانو اتنے دن چڑھے تک سوتی رہتی ہیں۔ دھوپ قریب آگئی۔ اب تو ان کو جگا دینا چاہیے۔ چچی نے کہا: بیٹا بانو کے مزاج کو جانتے ہو، کس کی شامت آئی ہے جو ان کو جگائے، آفت برپا ہوجائے گی۔داور نے کہا: دیکھیے میں جگاتا ہوں، دیکھوں کیا کرتی ہیں۔ چچی ہنس کر بولیں: جگادو، تم سے کیا کہیں گی، تمہارا تو بہت لحاظ کرتی ہیں۔ داور نے جاکر تلوے میں گدگدیاں کیں۔ بانو نے انگڑائی لے کر پاؤں سمیٹ لیا اور بے اختیار آنکھیں کھول کر نگاہِ طیش سے پائنتی کی طرف دیکھا۔ اس کو خیال تھا کہ کسی لونڈی کی شرارت ہے اس کو گستاخی کی سزا دینی چاہیے مگر جب اس نے ایسے شخص کو سامنے کھڑا دیکھا جس سے خودبخود اس کا دل محبت کرتا تھا، تو شرم سے اس نے دوشالہ کا آنچل منہ پر ڈا لیا اور گھبرا کر اُٹھ بیٹھی۔ داور نے ہوش پاش منظر کو دل تھام کر دیکھا اور بے اختیار چیخ کر بولا: لو چچی حضرت میں نے بانو کو اُٹھا بٹھایا۔محبت نے بہت ترقی کی۔ مکتب ِ عشق کی ابجد ختم ہوگئی اور درس ہجر و وصل کے شکوے پڑھے جانے لگے تو گل بانو کی ماں کو شبہہ ہوا اور اس نے داور شکوہ کا اپنے گھر میں آنا بند کر دیا۔

غدر کے نو مہینے بعد

درگاہ حضرت چراغ دہلی کے ایک گوشہ میں ایک قبول صورت عورت پھٹا ہوا کمبل اوڑھے رات کے وقت ہائے ہائے کر رہی تھی۔ سردی کا مینہ دھواں دھار برس رہا تھا۔ تیز ہوا کے جھونکوں سے بوچھاڑ اس جگہ کو ترکر رہی تھی جہاں اس عورت کا بستر تھا۔یہ عورت سخت بیمار تھی۔ پسلی کے درد، بخار اور بے کسی میں اکیلی پڑی تڑپتی تھی۔ بخار کی بیہوشی میں اس نے آواز دی: گلبدن، اری او گلبدن! مردار مرگئی جلدی آ اور مجھ کو دوشالہ اُڑھا دے۔ دیکھ بوچھاڑ اندر آتی ہے، پردہ چھوڑ دے۔ روشنک تو ہی آ، گلبدن تو کہیں غارت ہوگئی۔ میرے پاس کوئلوں کی انگیٹھی لا۔ پسلی پر تیل مَل۔ ارے درد سے میرا سانس رُکا جاتا ہے۔

جب کوئی اس آواز پر بھی اس کے پاس نہ آیا تو اس نے کمبل چہرہ سے ہٹا دیا اور چاروں طرف دیکھا۔ اندھیرے دالان میں خاک کے بچھونے پر تنہا پڑی تھی۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ مینہ سناٹے سے برس رہا تھا۔ بجلی چمکتی تھی تو ایک سفید قبر کی جھلک دکھائی دیتی تھی (جو اس کے باپ کی تھی)

یہ حالت دیکھ کر اس عوت نے ایک آہ کا نعرہ مارا اور کہا: بابا، بابا! میں تمھاری گل بانو ہوں، دیکھو اکیلی ہوں، اُٹھو مجھے بخار چڑھ رہا ہے۔ آہ میری پسلی میں شدت کا درد ہو رہا ہے، مجھے سردی لگ رہی ہے، میرے پاس اس بوسیدہ کمبل کے سوا اوڑھنے کو کچھ نہیں ہے۔ میری اماں مجھ سے بچھڑ گئیں۔ میں محلوں سے جلاوطن ہوگئی۔ بابا! اپنی قبر میں مجھ کو بلا لو۔ اچھی مجھے ڈر لگتا ہے، کفن سے منہ نکالو اور مجھ کو دیکھو۔ میں نے پرسوں سے کچھ نہیں کھایا۔ میرے بدن میں اس گیلی زمین کے کنکر چبھتے ہیں۔ میں اینٹ پر سر رکھے لیٹی ہوں۔میرا چھپر کھٹ کیا ہوا۔ میرا دوشالہ کہاں گیا۔ میری سیج کدھر گئی۔ ابّا ابّا اُٹھو جی کب تک سوؤ گے۔ ہائے درد، افوہ سانس کیوں کر لوں۔یہ کہتے کہتے اُس کو غفلت سی ہوگئی اور اس نے دیکھا کہ میں مر گئی ہوں اور میرے والد میرزا دارابخت مجھ کو قبر میں اُتار رہے ہیں اور رو رو کر کہتے ہیں:

یہ اس بیچاری کا خاکی چھپرکھٹ ہے ۔آنکھ کھل گئی اور بے چاری بانو ایڑیاں رگڑنے لگی۔ سکرات کا وقت شروع ہوگیا اور وہ کہتی تھی لو صاحب میں مرتی ہوں کون میرے حلق میں شربت ٹپکائے گا۔ کون مجھ کو یٰسین سنائے گا۔ کس کے زانو پر میرا سر رکھا جائے گا۔ الٰہی تیرے سوا میرا کوئی نہیں۔ تو ایک ہے۔ تیرا حبیبؐ میرا مونس و رفیق ہے اور یہ چراغ اولیاء میرے پڑوسی: لا الٰہ الا اللّٰہ محمدرسول اللّٰہ شہزادی مرگئی اور دوسرے دن گورِ غریباں میں گڑ گئی اور وہی اس کا ابدی چھپرکھٹ تھا، جس میں قیامت تک سوتی رہے گی۔

٭٭٭