سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : جنوری 2013

قسط۹۷
نورالقرآن 
 سات تراجم ، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

سورۃ نسا
آیات ۱۳۴۔۔۱۲۷

وَیَسْتَفْتُوْنَکَ فِی النِّسَآءِ ط قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْھِنَّ لا وَمَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ فِیْ یَتٰمَی النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا کُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ لا وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ ط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِہٖ عَلِیْمًا ہ۱۲۷ وَاِنِ امْرَاَۃ‘’ خَافَتْ مِنْ م بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَھُمَا صُلْحًا ط وَالصُّلْحُ خَیْر‘’ ط وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ط وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ہ۱۲۸ وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْھَا کَالْمُعَلَّقَۃِ ط وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمَا ہ۱۲۹ وَاِنْ یَّتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلًّا مِّنْ سَعَتِہٖ ط وَکَانَ اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیْمًا ہ۱۳۰ وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَ لَقَدْ وَ صَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ اِیَّاکُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ ط وَاِنْ تَکْفُرُوْافَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِط وَکَانَ اللّٰہُ غَنِیًّا حَمِیْدًا ہ۱۳۱ وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً ہ۱۳۲ اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ اَیُّھَا النَّاسُ وَیَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی ذٰلِکَ قَدِیْرًا ہ۱۳۳ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ ثَوَابُ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط وَکَانَ اللّٰہُ سَمِیْعًا م بَصِیْرًاہع ۱۳۴

تراجم
    ۱۔ اور تجھ سے رخصت مانگتے ہیں عورتوں کی۔ تو کہہ اللہ تم کو رخصت دیتا ہے ان کی، اور وہ جو تم کو سناتے ہیں کتاب میں، سو حکم ہے یتیم عورتوں کا، جن کو تم نہیں دیتے، جو ان کا مقرر ہے، اور چاہتے ہو کہ ان کو نکاح میں لو، اور مغلوب لڑکوں کا، اور یہ ہے کہ قائم رہو یتیموں کے حق میں انصاف پر۔ اور جو کرو گے بھلائی، سو وہ اللہ کو معلوم ہے(۱۲۷) اور اگر ایک عورت ڈرے، اپنے خاوند کے لڑنے سے، یا جی پھر جانے سے، تو گناہ نہیں دونوں پر، کہ کر لیں آپس میں کچھ صلح۔ اور صلح خوب چیز ہے۔ اور جیوں کے سامنے دھر ی ہے حرص۔ اور اگر تم نیکی کرو، اور پرہیزگاری، تو اللہ کو تمھارے سب کام کی خبر ہے(۱۲۸) اور تم ہر گز برابر نہ رکھ سکو گے عورتوں کو، اگرچہ اس کا شوق کرو، سو نرے پھر بھی نہ جاؤ، کہ ڈال رکھو ایک کو جیسے اَدھر میں لٹکتی۔ اور اگر سنوارتے رہو اور پرہیزگاری کرو، تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے(۱۲۹) اور اگر دونوں جدا ہو جاویں تو اللہ ہر ایک کو محظوظ کرے گا اپنی کشایش سے۔ اور اللہ کشایش والا ہے، تدبیر جانتا(۱۳۰) اور اللہ کا ہے جو کچھ ہے آسمان و زمین میں۔ اور ہم نے کہہ رکھا ہے، پہلی کتاب والوں کو، اور تم کو کہ ڈرتے رہو اللہ سے، اور اگر منکر ہو گے تو اللہ کا ہے جو کچھ آسمان و زمین میں۔ اور اللہ بے پروا ہے سب خوبیوں سراہا(۱۳۱) اور اللہ کا ہے جو کچھ آسمان و زمین میں۔ اور اللہ بس ہے، کام بنانے والا(۱۳۲) اگر چاہے تم کو دور کرے، لوگو! اور لے آوے اور لوگ۔ اور اللہ کو یہ قدرت ہے(۱۳۳) جو کوئی چاہتا ہو، انعام دنیا کا، سو اللہ کے ہاں ہے انعام دنیا کا، اور آخرت کا۔ اور اللہ ہے سنتا دیکھتا(۱۳۴) (شاہ عبدالقادرؒ)
    ۲۔ اور لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں۔ آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارہ میں حکم دیتے ہیں اور وہ آیات بھی جو کہ قرآن کے اندر تم کو پڑھ کر سنائی جایا کرتی ہیں جو کہ ان یتیم عورتوں کے باب میں ہیں جن کو جو ان کا حق مقرر ہے نہیں دیتے اور ان کے ساتھ نکاح کی خواہش رکھتے ہو اور کمزور بچوں کے باب میں اور اس باب میں کہ یتیموں کی کارگزاری انصاف کے ساتھ کرو اور جو نیک کام کرو گے سو بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتے ہیں(۱۲۷) اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے غالب احتمال بددماغی یا بے پرواہی کا ہو سو دونوں کو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلح کر لیں اور یہ صلح بہتر ہے اور نفوس کو حرص کے ساتھ اقتران ہوتا ہے اور اگر تم اچھا برتاؤ رکھو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ حق تعالیٰ تمھارے اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں(۱۲۸) اور تم سے یہ تو کبھی نہ ہو سکے گا کہ سب بیبیوں میں برابری رکھو گو تمھارا کتنا ہی جی چاہے تو تم بالکل تو ایک ہی طرف نہ ڈھل جاؤ جس سے اس کو ایسا کر دو جیسے کوئی اَدھر میں لٹکی ہو اور اگر اصلاح کر لو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے بڑے رحمت والے ہیں(۱۲۹) اور اگر دونوں میاں بیوی جدا ہو جاویں تو اللہ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے احتیاج کر دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے اور بڑی حکمت والے ہیں(۱۳۰) اور اللہ تعالیٰ کی مِلک ہیں جو چیزیں کہ آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں کہ زمین میں ہیں اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو بھی حکم دیا تھا جن کو تم سے پہلے کتاب ملی تھی اور تم کو بھی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اگر تم ناسپاسی کرو گے تو اللہ ذآقتم سب کو فنا کر دیں اور دوسروں کو موجود کر دیں اور اللہ تعالیٰ اس پر پوری قدرت رکھتے ہیں(۱۳۳) جو شخص دنیا کا معاوضہ چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس تو دنیا اور آخرت دونوں کا معاوضہ ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے سننے والے بڑے دیکھنے والے ہیں(۱۳۴) (مولانا تھانویؒ)
    ۳۔ اور تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ تم فرما دو کہ اللہ تمھیں ان کا فتویٰ دیتا ہے اور وہ جو تم پر قرآن پڑھا جاتا ہے ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں کہ تم انھیں نہیں دیتے جو ان کا مقرر ہے اور انھیں نکاح میں بھی لانے سے منہ پھیرتے ہو اور کمزور بچوں کے بارے میں اور یہ کہ یتیموں کے حق میں انصاف پر قائم رہو اور تم جو بھلائی کرو تو اللہ کو اس کی خبر ہے(۱۲۷) اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی زیادتی بے رغبتی کا اندیشہ کرے تو ان پر گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کر لیں اور صلح خوب ہے اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں اور اگر تم نیکی اور پرہیزگاری کرو تو اللہ کو تمھارے کاموں کی خبر ہے(۱۲۸) اور تم سے ہر گز نہ ہو سکے گا کہ عورتوں کو برابر رکھو اور چاہے کتنی ہی حرص کرو تو یہ تو نہ ہو کہ ایک طرف پورا جھک جاؤ کہ دوسری کو ادھر میں لٹکتی چھوڑ دو اور اگر تم نیکی اور پرہیزگاری کرو تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے(۱۲۹) اور اگر وہ دونوں جدا ہو جائیں تو اللہ اپنی کشائش سے تم میں ہر ایک کو دوسرے سے بے نیاز کر دے گا اور اللہ کشائش والا حکمت والا ہے(۱۳۰) اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور بے شک تاکید فرما دی ہے ہم نے ان سے جو تم سے پہلے کتاب دئیے گئے اور تم کو کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر کفر کرو تو بے شک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور اللہ بے نیاز ہے سب خوبیوں سراہا(۱۳۱) اور اللہ کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور اللہ کافی ہے کارساز(۱۳۲) اے لوگو وہ چاہے تو تمھیں لے جائے اور اوروں کو لے آئے اور اللہ کو اس کی قدرت ہے(۱۳۳) جو دنیا کا انعام چاہے تو اللہ ہی کے پاس دنیا و آخرت دونوں کا انعام ہے اور اللہ ہی سنتا دیکھتا ہے(۱۳۴)(مولانا احمد رضا خانؒ)
    ۴۔ آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ خود اللہ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے، اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنھیں ان کا مقرر حق تم نہیں دیتے اور انھیں اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو اور کمزور بچوں کے بارے میں اور اس بارے میں کہ یتیموں کی کارگزاری انصاف کے ساتھ کرو۔ تم جو نیک کام کرو، بے شبہ اللہ اسے پوری طرح جاننے والا ہے(۱۲۷) اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بددماغی اور بے پرواہی کا خوف ہو تو دونوں آپس میں جو صلح کر لیں اس میں کسی پر کوئی گناہ نہیں، صلح بہت بہتر چیز ہے، طمع ہر ہر نفس میں شامل کر دی گئی ہے، اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیزگاری کرو تو تم جو کر رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ پوری طرح خبردار ہے(۱۲۸) تم سے یہ تو کبھی نہ ہو سکے گا کہ اپنی تمام بیویوں میں ہر طرح عدل کرو گو تم اس کی کتنی ہی خواہش و کوشش کر لو، اس لیے بالکل ہی ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو اَدّھڑ لٹکتی ہوئی نہ چھوڑو، اور اگر تم اصلاح کرو اور احتیاط کرو تو بے شک اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے(۱۲۹) اور اگر میاں بیوی جدا ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا، اللہ تعالیٰ وسعت والا حکمت والا ہے(۱۳۰) زمین اور آسمانوں کی ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت میں ہے اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دئیے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور اگر تم کفر کرو تو یاد رکھو کہ اللہ کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور اللہ بہت بے حاجت اور تعریف کیا گیا ہے(۱۳۱) اللہ کے اختیار میں ہیں آسمانوں کی سب چیزیں اور زمین کی بھی اور اللہ کافی کارساز ہے(۱۳۲) اگر اسے منظور ہو تو اے لوگو! وہ تم سب کو فنا کر دے اور دوسروں کو لے آئے، اللہ تعالیٰ اس پر پوری قدرت رکھنے والا ہے(۱۳۳) جو شخص دنیا کا ثواب چاہتا ہو تو (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ کے پاس تو دنیا اور آخرت (دونوں) کا ثواب موجود ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے(۱۳۴) (مولاناجوناگڑھیؒ)
۵۔ لوگ تم سے عورتوں کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ کہو اللہ تمھیں اُن کے معاملہ میں فتویٰ دیتا ہے، اور ساتھ ہی وہ احکام بھی یاد دلاتا ہے جو پہلے سے تم کو اس کتاب میں سنائے جا رہے ہیں۔ یعنی وہ احکام جو ان یتیم لڑکیوں کے متعلق ہیں جن کے حق تم ادا نہیں کرتے اور جن کے نکاح کرنے سے تم باز رہتے ہو (یا لالچ کی بنا پر تم خود ان سے نکاح کر لینا چاہتے ہو)، اور وہ احکام جو اُن بچوں کے متعلق ہیں جو بے چارے کوئی زور نہیں رکھتے۔ اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو، اور جو بھلائی تم کرو گے وہ اللہ کے علم سے چھپی نہ رہ جائے گی(۱۲۷)جب کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا خطرہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کر لیں۔ صلح بہرحال بہتر ہے۔ نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آؤ اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمھارے اس طرز عمل سے بے خبر نہ ہو گا(۱۲۸) بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل کرنا تمھارے بس میں نہیں ہے۔ تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا (قانون ِ الٰہی کا منشا پورا کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ) ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو ادھر لٹکتا چھوڑ دو۔ اگر تم اپنا طرز عمل درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ چشم پوشی کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے(۱۲۹) لیکن اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہی ہو جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بے نیاز کر دے گا۔ اللہ کا دامن بہت کشادہ ہے اور وہ دانا و بینا ہے(۱۳۰) آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انھیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو۔ لیکن اگر تم نہیں مانتے تو نہ مانو، آسمان و زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے اور وہ بے نیاز ہے، ہر تعریف کا مستحق(۱۳۱) ہاں اللہ ہی مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، اور کار سازی کے لیے بس وہی کافی ہے(۱۳۲) اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو ہٹا کر تمھاری جگہ دوسروں کو لے آئے، اوروہ اس کی پوری قدرت رکھتا ہے(۱۳۳) جو شخص محض ثواب دنیا کا طالب ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے پاس ثواب دنیا بھی ہے اور ثواب ِ آخرت بھی، اور اللہ سمیع و بصیر ہے(۱۳۴)(مولانامودودیؒ)
۶۔ اور لوگ تم سے عورتوں کے باب میں فتویٰ پوچھتے ہیں ، کہہ دو کہ اللہ اُن کے باب میں بھی اور اس حکم کے باب میں بھی جو تمھیں کتاب میں ان عورتوں کے یتیموں کے بارے میں دیا جا رہا ہے جن کو تم وہ نہیں دیتے جو ان کے لیے لکھا گیا ہے لیکن ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو اور بے سہارا بچوں کے باب میں یہ فتویٰ دیتا ہے کہ ان کے مہر دو اور یتیموں کے ساتھ انصاف کرو اور جو مزید بھلائی تم کرو گے تو اللہ اس سے با خبر ہے(۱۲۷) اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بیزاری یا بے پروائی کا اندیشہ ہو تو اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ دونوں آپس میں کوئی سمجھوتا کر لیں اور سمجھوتا ہی بہتر ہے۔ طبیعتوں میں حرص رچی بسی ہوئی ہے۔ اور اگر تم حسن سلوک کرو گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو جو کچھ کرو گے اللہ اس سے باخبر ہے(۱۲۸)اور تم پورا پورا عدل تو بیویوں کے درمیان کر ہی نہیں سکتے اگرچہ تم اس کو چاہو بھی تو یہ تو نہ ہو کہ بالکل ایک ہی کی طرف جھک پڑو کہ دوسری کو بالکل معلقہ بنا کر رکھ دو اور اگر تم اصلاح کرتے رہو گے اور خدا سے ڈرتے رہو گے تو خدا بخشنے والا اور مہربان ہے(۱۲۹) اور اگر وہ دونوں جدا ہو جائیں گے تو اللہ ان میں سے ہر ایک کو اپنی وسعت سے بے نیاز کر دے گا۔ اللہ بڑی سمائی رکھنے والا اور حکیم ہے(۱۳۰) اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور تم سے پہلے جن کو کتاب دی گئی ہم نے انھیں بھی ہدایت کی اور تم کو بھی کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کرو گے تو یاد رکھو کہ اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بے نیاز، ستودہ صفات ہے(۱۳۱)اور بھروسے کے لیے اللہ کافی ہے(۱۳۲) اگر وہ چاہے تو تم سب کو فنا کر دے، اے لوگو، اور دوسروں کو لائے، اللہ اس چیز پر قادر ہے(۱۳۳) جو دنیا کے صلے کا طلبگار ہے تو اللہ کے پاس دنیا اور آخرت دونوں کاصلہ موجود ہے اور اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے(۱۳۴)(اصلاحیؒ)
    ۷۔ وہ تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ اُن سے کہہ دو کہ اللہ تمھیں اُن کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے اور جن عورتوں کے حقوق تم ادا نہیں کرنا چاہتے، مگر اُن سے نکاح کرنا چاہتے ہو، اُن کے یتیموں سے متعلق جو ہدایات اِس کتاب میں دی جارہی ہیں، اُن کے بارے میں اور (دوسرے) بے سہارا بچوں کے بارے میں بھی فتویٰ دیتا ہے (کہ عورتوں کے حقوق ہر حال میں ادا کرو) اور یتیموں کے ساتھ (ہر حال میں) انصاف پر قائم رہو اور (یاد رکھو کہ اِس کے علاوہ بھی) جو بھلائی تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں رہے گی(۱۲۷) ہاں، اگر کسی عورت کواپنے شوہر سے بے زاری یا بے پروائی کا اندیشہ ہو تو اِس میں حرج نہیں کہ دونوں آپس میں کوئی سمجھوتا کر لیں۔ (اِس لیے کہ) سمجھوتا بہتر ہے۔ اور (یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ) حرص لوگوں کی سرشت میں ہے، لیکن حسنِ سلوک سے پیش آؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو جو کچھ تم کرو گے، اللہ اُسے جانتا ہے(۱۲۸)بیویوں کے درمیان پورا انصاف تو اگر تم چاہو بھی تو نہیں کر سکتے، اِس لیے اتنا کافی ہے کہ ایک کی طرف اِس طرح نہ جھک جاؤ کہ دوسری اَدھر میں لٹکتی رہ جائے۔ ہاں، اگر اپنے آپ کو درست کرتے رہو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے(۱۲۹) اور اگر میاں بیوی، دونوں الگ ہی ہو جائیں گے تو اللہ اُن میں سے ہر ایک کواپنی وسعت سے بے نیاز کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت رکھنے والا اور بڑی حکمت والا ہے(۱۳۰)(یہ خدا کے احکام ہیں۔ نہیں مانو گے تو اپنا ہی بُرا کرو گے، اِس لیے کہ) زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے۔ تم سے پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی، اُنھیں بھی ہم نے یہی ہدایت کی تھی اور تمھیں بھی یہی ہدایت کر رہے ہیں کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور (یاد رکھو کہ) نہیں مانو گے تو (اللہ کا کچھ نہیں بگاڑو گے)، اِس لیے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے اور اللہ بے نیاز ہے، ستودہ صفات ہے(۱۳۱)۔(ایک مرتبہ پھر سنو کہ) زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے اور بھروسے کے لیے اللہ کافی ہے(۱۳۲)۔ (اِس لیے وہی سزاوار ہے کہ زندگی کے معاملات اُس کے حوالے کیے جائیں۔ تمھاری نافرمانی کی صورت میں) وہ اگر چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور دوسروں کو (تمھاری جگہ) لے آئے۔ اللہ اِس چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے(۱۳۳) (اپنے مفادات کی خاطر تم اللہ کی شریعت سے فرار اختیار کرتے ہو۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جو دنیا کا صلہ چاہتا ہے ( تودنیا کا صلہ بھی اللہ کے پاس ہے۔ اور جو دنیا اور آخرت، دونوں کا صلہ چاہتا ہے) تو اللہ کے پاس دنیا کا صلہ بھی ہے اور آخرت کا صلہ بھی، اور اللہ سمیع و بصیر ہے(۱۳۴)(غامدی)
تفاسیر
نظم کلام
‘‘اسلامی معاشرہ کی تاسیس، تنظیم اور تطہیر سے متعلق جو باتیں اصولی تھیں وہ اُوپر کی آیات پر تمام ہوئیں۔ اب آگے کا حصہ، سورہ کے آخر تک، خاتمہ سورۂ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں پہلے بعض سوالات کے جواب دیے ہیں جو اسی سورہ کی آیات ۲-۴ میں بیان کردہ احکام سے متعلق بعد میں پیدا ہوئے، اس کے بعد آخر سورہ تک مسلمانوں کو، منافقین کو اور اہلِ کتاب کو خطاب کر کے آخری تنبیہ کی نوعیت کی نصیحتیں فرمائی ہیں۔ یہ سوالات بعد میں پیدا ہوئے اس وجہ سے ان کے جواب سورہ کے آخری باب کے ساتھ رکھے گئے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ یہ بعد میں نازل ہوئے ہیں۔ اس سے احکام کی حکمت سمجھنے میں رہنمائی ملتی ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۹۳، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
ویستفتونک فی النساء…… بہ علیماً 
سوال کے نقل کرنے میں اجمال ہی بلاغت ہے
‘‘ویستفتونا فی النساء (وہ تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں) میں اسی طرح کا اجمال ہے جس طرح کا اجمال ویسئلونک عن الاھلۃ (اور وہ تم سے اشہر حُرم کے بارے میں سوال کرتے ہیں) میں ہے۔ وہاں ہم بیان کر آئے ہیں کہ قرآن میں لوگوں کے سوال بالعموم نہایت اجمال کے ساتھ بیان ہوتے ہیں اور یہی طریقہ قرین بلاغت ہے۔ جب جواب سے سوال کی نوعیت خود واضح ہوجاتی ہے تو سوال کے نقل کرنے میں طولِ کلام کی کیا ضرورت باقی رہی۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۹۷، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘اپنے مضمون کے لحاظ سے سورہ یہاں ختم ہوئی۔ اِ س سے آگے اب ایک ضمیمہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اُن سوالوں کا جواب دیا ہے جو اِس سورہ کے احکام سے متعلق لوگوں نے اِس کی تلاوت کے دوران میں کیے ہیں۔ آیت ۱۳۴ تک پہلے سوال کا جواب ہے۔ یہ اُن مسلمانوں نے کیا ہے جو ایمان و اخلاق کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ابھی کچھ کمزور ہیں۔ دوسرا سوال منافقین کا ہے۔ اِس کا جواب آیت ۱۵۲ پر ختم ہوا ہے۔ تیسرا سوال ایک مطالبے کی صورت میں ہے اور یہ اہل کتاب نے کیا ہے۔ آیت ۱۷۵ تک قرآن نے اِس کا جواب دیا ہے۔ آیت ۱۷۶ میں چوتھے اور آخری سوال کا جواب ہے۔ اِس کا تعلق میراث کے اُن احکام سے ہے جو اِس سورہ کی ابتدا میں بیان ہوئے ہیں۔’’ (البیان ، از غامدی)
الکتب سے یہاں مراد اسی سورہ کی آیات ۲-۴ ہیں
‘‘وما یتلٰی علیکم فی الکتب کا عطف فیہن کی ضمیر مجرور پر ہے اور الکتب سے مراد قرآن ہے اور یہاں اشارہ ہے اسی سورۃ کی آیات ۲-۴ کی طرف جن میں بیان کردہ حکم سے متعلق ہی سوالوں کے یہاں جواب دیے گئے ہیں، یعنی اللہ عورتوں سے متعلق سوال کا جواب بھی دے رہا ہے اور حکم سے متعلق بھی جو تمہیں اسی سورہ کی ابتدائی آیات میں سنایا گیا ہے۔ یتلٰی حال کا صیغہ تصویرحال کے لیے ہے اس لیے کہ اس وقت یہ آیتیں زیرتعلیم بھی تھیں اور ہرحلقے میں زیربحث بھی۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۹۷، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
نکاح میں ادائے مَہر اور عدل کی شرائط کی وضاحت
‘‘فی یتمی………… من الوالدان، یہ ان آیات میں بیان کردہ حکم کی طرف اجمالی اشارہ ہے۔ یعنی یہ فتویٰ اس حکم کے بارے میں بھی ہے جو تمہیں ان عورتوں کے یتیم بچوں کے بارے میں دیا گیا ہے۔ جن عورتوں کو تم ان کا حق تو دینے کے لیے تیار نہیں ہو لیکن ان سے نکاح کرنے کے خواہش مند ہو۔ اس سے ضمناً یہ بات بھی نکل آئی کہ وان خفتم…… واتوا النساء صدقتہن میں ‘نساء’ سے مراد یتیموں کی مائیں ہیں ، جیساکہ ہم نے اختیارکیا ہے، اور یہ اشارہ بھی نکلا کہ لوگ یتیموں کی مصلحت سے ان سے نکاح تو کرنا چاہتے تھے لیکن مہر اور عدل کی شرط ان پرشاق تھی۔ ما کتب لہن کے معنی ہیں جو ان کے لیے خدا کی طرف سے ٹھہرائی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس طرح ان کے معاملے میں مَہر کی شرط ضروری قرار دی گئی ہے اسی طرح عدل کی شرط بھی ہے۔ اس وجہ سے یہ دونوں چیزیں اس کے مفہوم میں داخل ہوں گی۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۹۷، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
سوال کا جواب اور عربی زبان کا ایک اسلوب
‘‘وان تقوموا للیتمٰی بالقسط، یہ وہ فتویٰ ہے جو استفتا کے جواب میں ارشاد ہوا ہے لیکن یہاں عربی زبان کا یہ اسلوب یاد رکھنا چاہیے کہ جب معطوف اس طرح آئے کہ کلام میں اس کا معطوف علیہ موجود نہ ہو تو وہاں وہ باتیں معطوف علیہ کی حیثیت سے محذوف مان لینے کی گنجائش ہوتی ہے جن پر قرینہ دلیل ہو۔ اس کی ایک سے زیادہ مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں اور آگے بھی اس کتاب میں اس کی نہایت واضح مثالیں آئیں گی۔ یہاں کلام میں کوئی ایسا لفظ موجود نہیں ہے جووان تقوموا کا معطوف علیہ بن سکے۔ اس وجہ سے لازماً یہاں محذوف ماننا پڑے گا اور یہ محذوف سیاقِ کلام کی روشنی میں معین کیا جائے گا۔ چنانچہ یہاں وان تقومواسے پہلے یہ مضمون محذوف ہوگا کہ ان عورتوں کو ان کے مَہر دو، ان کے ساتھ عدل کا معاملہ کرو، پھر اس کے اُوپر وان تقوموا للیتمی بالقسط کا عطف موزوں ہوگا، یعنی اور یتیموں کے لیے عدل کی حفاظت کرنے والے بنو۔ گویا فتوے میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ مَہر اور عدل کی شرط جس طرح عام عورتوں کے معاملے میں ہے اسی طرح یتیموں کی ماؤں کے بارے میں بھی ہے اور آیات وان خفتم الا تقسطوا۔۔۔ میں عورتوں کے ساتھ عدل کا اور آیت واتوا النساء صدقتہن۔۔۔ میں ادائے مہرکا جو حکم ہے تو وہ یتیموں کی ماؤں سے متعلق ہی ہے، جن سے تم نکاح تو کرنا چاہتے ہو لیکن مہر اور عدل کی ککھیڑ میں پڑنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ اس طرح گویا قرآن نے آیات ۳-۴ کے اجمال کو کھول دیا اور اس فتوے کے ذریعے سے ان میں دیے ہوئے احکام کو مزید مؤکد کر دیا۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۹۸، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
آیت ۱۲۷ کا مطلب تالیفِ کلام کی روشنی میں
‘‘اس آیت کی تاویل میں چونکہ بڑا اختلاف ہے اور یہ اختلاف زیادہ تر نتیجہ ہے کلام کی تالیف نہ سمجھنے کا، اس وجہ سے ہماری توضیح کی روشنی میں کلام کی تالیف پر غور کر کے اس کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے۔ اس روشنی میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگ عورتوں کے مہر اور مختلف بیویوں کے درمیان عدل کے بارے میں تم سے سوالات کر رہے ہیں، خاص طور پر یتیموں کی ماؤں کے مہر اور ان کے درمیان عدل کے بارے میں کہ جب ان کے ساتھ نکاح میں اصل مصلحت انھی کے بچوں کی ہے تو کیا مہر اور عدل کی شرط ان کے معاملے میں بھی اسی طرح لازمی ہوگی جس طرح دوسری عورتوں کے بارے میں ہے؟ فرمایا کہ ان کو بتا دو کہ اللہ عام عورتوں کے بارے میں بھی اور یتامٰی کی ان ماؤں کے بارے میں بھی جن کا حکم آیات ۳-۴ میں بیان ہوا ہے، جن سے تم نکاح تو کرنا چاہتے ہو لیکن ان کے لیے عدل و مَہر کے حق کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے، نیز بے بس یتیموں کے باب میں یہ فتویٰ دیتا ہے کہ ان کے مہر دو، ان کے ساتھ عدل کا معاملہ کرو اور یتیموں کے لیے حق و انصاف کے قائم کرنے والے بنو۔ مزیدبرآں جو نیکی اور حُسنِ سلوک تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہوگا اور خدا کے ہاں اس کا صلہ پاؤ گے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۹۸، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
وان امراۃ خافت ………… بما تعملون خبیراً 
‘ ‘نشُوز’ عورت کی طرف سے ہو تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ وہ شوہر کی قوامیت کو تسلیم نہ کرے۔ مرد کی طرف سے ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بیوی کے حقوق تسلیم کرنے سے انکار کرے اور اس سے پیچھا چھڑانے پر آمادہ ہوجائے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۹۸، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
واحضرت الانفس الشح
‘‘ شُح کے معنی بخل کے بھی ہیں اور حرص کے بھی۔ بخل تو یہ ہے کہ آدمی ادائے حقوق میں تنگ دلی برتے۔ یہ چیز ہرحال میں مذموم ہے لیکن حرص اچھی چیز کی بھی ہوسکتی ہے، بُری چیز کی بھی، حد کے اندر بھی ہوسکتی ہے اور حد سے باہر بھی۔ اس وجہ سے اس کا اچھا اور بُرا ہونا ایک امر اضافی ہے۔ اپنے اچھے پہلو کے اعتبار سے یہ انسانی فطرت کے اندر اپنا ایک مقام رکھتی ہے لیکن اکثر طبائع پر اس کا ایسا غلبہ ہوجاتا ہے کہ یہ ایک بیماری بن کے رہ جاتی ہے۔ احضرت الانفسُ الشح میں اس کے اسی پہلو کی تعبیر ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۹۹، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
زوجین کے جھگڑے میں دوسروں کا دخل بلا ضرورت مناسب نہیں 
‘‘تفسیر مظہری میں ہے کہ اس جگہ حق تعالیٰ نے ان یصلحا بینھما صلحا ، فرمایا : یعنی میاں بیوی دونوں آپس میں کسی صورت پر مصالحت کر لیں، اس میں لفظ بینھما سے اس طرف اشارہ نکلتا ہے کہ میاں بیوی کے معاملات میں بہتر یہ ہے کہ کوئی تیسرا دخیل نہ ہو ، یہ دونوں خود ہی آپس میں کوئی بات طے کر لیں، کیونکہ تیسرے کے دخل سے بعض اوقات تو مصالحت ہی نا ممکن ہ وجاتی ہے اور ہو بھی جائے تو طرفین کے عیوب تیسرے آدمی کے سامنے بلا وجہ آ تے ہیں جس سے بچنا دونوں کے لیے مصلحت ہے ۔ ’’ (معارف القرآن،ج۲ ،ص ۵۶۲، ادارۃ المعارف کراچی)
رشتۂ نکاح کو برقرار رکھنے کے لیے عورت اور مرد دونوں کو ایثار کی ترغیب
‘‘یعنی مہر اور عدل تو ہر عورت کا ایک حق شرعی ہے لیکن کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے اگر یہ اندیشہ ہو کہ ان پابندیوں کا بوجھ اگر اس پر اس نے لادے رکھا تو وہ اس کو چھوڑ دے گا یا اس سے بے پروائی برتے گا تو اس امر میں کوئی حرج نہیں کہ دونوں مل کر آپس میں کوئی سمجھوتہ کرلیں۔ یعنی عورت اپنے حق مہر، عدل اور نان نفقے کے معاملے میں ایسی رعایتیں شوہر کو دے دے کہ قطع تعلق کا اندیشہ رفع ہوجائے۔ حرص، طبائع کی عام بیماری ہے جو باہمی تعلقات پر اثرانداز ہوتی ہے اور اس کا علاج یہی ہے کہ یا تو دونوں فریق ایثار پر آمادہ ہوں اور اگر ایک فریق کا مرض لاعلاج ہے تو دوسرا قربانی پر آمادہ ہو۔ غرض رشتۂ نکاح کو برقرار رکھنے کے لیے اگر عورت کو قربانی بھی دینی پڑی تو بہتری اس کے برقرار رہنے ہی میں ہے۔ اس کے بعد وان تحسنوا وتتقوا۔۔۔ کے الفاظ سے مرد کو اُبھارا ہے کہ ایثار و قربانی اور احسان و تقویٰ کا میدان اصلاً اسی کے شایانِ شان ہے، وہ اپنی فتوت اور مردانگی کی لاج رکھے اور عورت سے لینے والا بننے کی بجائے اس کو دینے والا بنے۔ اللہ ہر ایک کے ہر عمل سے باخبر ہے اور ہر نیکی کا وہ بھرپور صلہ دے گا۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۹۹، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘ ایک طرف اپنی تکلیف کو دور کرنے اور اپنا حق وصول کرنے کا فریقین کو قانونی حق قرآن کریم نے دے دیا ، دوسری طرف دونوں کو بلند اخلاقی اور اپنے حقوق کے ترک کرنے پر صبر کی تلقین فرما کر یہ ہدایت فرما دی کہ جہاں تک ممکن ہو اس تعلق کو قطع کرنے سے بچنا چاہیے ، اور چاہیے کہ جانبین سے کچھ کچھ حقوق ترک کر کے کسی خاص صورت پر صلح کر لیں۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۵۶۳، ادارۃ المعارف کراچی)
‘‘فقہاء نے لکھا ہے کہ بیوی کے حق شوہر پر دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک ثابت و مستقل مثلاً رقم مہر، دوسرے وہ جو وقتاً فوقتاً پیدا ہوتے رہتے ہیں مثلاً نفقہ، یا ہمبستری، صلح کے لیے عورت دست برداری دونوں قسم کے حقوق سے کرسکتی ہے، البتہ یہ فرق ہے کہ قسم اول کے حقوق میں نقض صلح کا اختیار نہ رہے گا، یعنی جو چھوڑا بس وہ ساقط ہوگیا اور الساقط لا یعود لیکن دوسرے قسم کے حقوق میں بیوی کو یہ اختیار باقی رہے گا کہ وہ جب چاہے کسی چھوڑے ہوئے حق کا مطالبہ ازسرِنو کردے۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ، ص۸۰۳، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)
ولن تستطیعوا…… واسعاً حکیماً 
بیویوں کے معاملے میں عدل کا معیار
‘‘دل کا میلان آدمی کے اپنے اختیار کی چیز نہیں ہے۔ مطلوب جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جاؤ کہ دوسری بالکل اُدھر میں لٹکتی رہ جائے بلکہ سلوک اور حقوق میں توازن قائم رکھنے اور اگر کوئی حق تلفی اور کوتاہی ہوجائے تو اس کی اصلاح اور تلافی کرنے کی کوشش کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ اصلاح اور تقویٰ کی اس کوشش کے باوجود اگر کوئی فروگزاشت ہوگئی تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۹۹، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
ایثار کی حد
‘‘ اس رشتے کو قائم رکھنے کے لیے میاں اور بیوی دونوں سے ایثار اور کوشش تو مطلوب ہے لیکن یہ غیرت اور خودداری کی حفاظت کے ساتھ مطلوب ہے۔ میاں اور بیوی میں سے کسی کے لیے جس طرح اکڑنا جائز نہیں ہے اسی طرح ایک حد خاص سے زیادہ دبنا بھی جائز نہیں ہے۔ اگرچہ الفاظ میں عمومیت ہے لیکن سیاقِ کلام دلیل ہے کہ اس میں عورتوں کی خاص طور پر حوصلہ افزائی ہے کہ وہ حتی الامکان نباہنے کی کوشش تو کریں اور مصالحت کے لیے ایثار بھی کریں لیکن یہ حوصلہ رکھیں کہ اگر کوشش کے باوجود نباہ کی صورت پیدا نہ ہوئی تو رزاق اللہ تعالیٰ ہے وہ اپنے خزانۂ جُود سے ان کو مستغنی کر دے گا۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۰۰، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
اس آیت سے تعدد ازدواج کے خلاف استدلال قطعاً غلط ہے 
‘‘مذکورہ تفصیل سے ان لوگوں کو غلط فہمی بھی واضح ہو گئی ، جو ان دونوں آیتوں کو ملا کر یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ شروع سورۂ نسا ء کی آیت نے یہ حکم دیا کہ اگر چند بیویوں میں مساوات نہ کر سکو ، تو پھر ایک ہی نکاح پر قناعت کرو ، دوسرا نکاح نہ کرو، اور اس دوسری آیت نے یہ بتلا دیا کہ دو بیویوں میں مساوات ممکن ہی نہیں، اس لیے نتیجہ یہ نکل آیا کہ دو بیویوں کو نکاح میں رکھنا ہی جائز نہیں، اور عجب بات یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے خود ان دونوں آیتوں کے اندر اس غلط فہمی کے ازالہ کا سامان رکھ دیا ہے ، دوسری آیت کا قرینہ ابھی گزر چکا ہے ، کہ فلا تمیلوا کل المیل ، کے الفاظ ہیں ، اور پہلی آیت میں یہ فرمایا فان خفتم ان لا تعدلوا فواحدۃ ، اس میں بطور شرط کے یہ فرمانا کہ ‘‘اگر تمہیں خطرہ ہو۔’’ یہ لفظ کھلا ہوا قرینہ اس کا ہے کہ دو بیویوں میں عدل و برابری نا ممکن یا اختیار سے خارج نہیں، ورنہ اس طویل عبارت کی اور پھر وہ بھی دو آیتوں میں کوئی ضرورت ہی نہ تھی جیسے حرمت علیکم امھا تکم و بنتکم والی آیت میں ان عورتوں کی تفصیل دی جن سے نکاح حرام ہے ، اورو ان تجمعو ا بین الاختین فرما کر دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے کی حرمت بتلائی گئی ہے ، اسی طرح یہ بھی فرما دیا جاتا کہ ایک وقت میں ایک سے زائد بیویاں رکھنا حرام ہے ، اور پھر ان تجمعوا کے ساتھ بین الاختین کی قید فضول ہو جاتی ، اسی ایک ہی جملہ میں یوں فرما دیا جاتا و ان تجمعوا بین امرأ تین یعنی مطلقاً دو عورتوں کو نکاح میں جمع رکھنا حرام ہے ، مگر قرآن کریم نے اس مختصر کلام کو چھوڑ کر نہ صرف ایک طویل عبارت اختیار کی ، بلکہ دو آیتوں میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آیت و ان تجمعو ا بین الاختین بھی ایک حیثیت سے اس کا جواز بتلا رہی ہے ، کہ ایک سے زائد عورتوں کو نکاح میں جمع رکھنا تو جائز ہے ، مگر شرط یہ ہے کہ وہ دونوں آپس میں بہنیں نہ ہوں۔’’(معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۵۶۷، ادارۃ المعارف کراچی)
وللہ ما فی السموات…… سمیعًا بصیراً 
للہ ما فی السموات وما فی الارض ۔۔۔ کی تکرار کی بلاغت
‘‘ للہ ما فی السموات وما فی الارض (اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے) بار بار دہرایا گیا ہے۔ دو مرتبہ تو آیت ۱۳۱ ہی میں اور پھر آیت ۱۳۲ میں۔ علاوہ ازیں جہاں سے یہ مضمون چلتا ہے یعنی آیت ۱۲۶، وہاں بھی بعینہٖ یہی ٹکڑا ہے۔ اس مضمون کا بار بار اعادہ بلاسبب نہیں ہے بلکہ خاتمہ سورہ کا مزاج اس کا مقتضی ہوا۔ ہم اُوپر اشارہ کرچکے ہیں کہ اس خاتمے میں مسلمانوں کو، منافقین کو اور اہلِ کتاب کو آخری تنبیہ کی گئی ہے کہ جو ہدایات تمہاری رہنمائی کے لیے ضروری تھیں، وہ دلائل کی وضاحت کے ساتھ، دے دی گئیں۔ اب ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے، مانو گے تو تمہارا نفع ہے، نہ مانو گے تو خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑو گے۔ اس نے تم سے پہلے اہلِ کتاب کو بھی اپنے احکام و حدود سے آگاہ کیا اور اب تمہیں بھی اس سے آگاہ کر دیا۔ اہلِ کتاب نے نافرمانی کی تو انھوں نے خود اپنی شامت بلائی۔ خداکا کچھ نہیں بگاڑا۔ اسی طرح اگر تم بھی کفر کرو گے تو یاد رکھو کہ خدا تمہارا محتاج نہیں بلکہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔ وہ تمہارے لیے کسی چیز کو پسند کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ اس کو اس کی احتیاج ہے بلکہ اس لیے کہ وہ حمید ہے۔ اس کی اس صفت کا تقاضا ہے کہ بے نیاز ہونے کے باوجود ساری خلق کو اپنے جودوکرم سے نوازے۔ ساری کائنات کا مالک ہونے کی وجہ سے وہی سزاوار ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جائے اور زندگی کی باگ اس کے حوالہ کی جائے۔ نافرمانی کی صورت میں اگر وہ چاہے تو سب کو فنا کر دے اور اس دنیا میں دوسری مخلوق لابسائے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کا ہاتھ کون پکڑ سکتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۰۰، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
للہ ما فی السموت و ما فی الارض،‘‘ یعنی اللہ کے لیے ہے آسمانوں اورزمین کی تمام مخلوقات ۔’’ اس جگہ ان الفاظ کو تین مرتبہ دہرایا گیا ، اول سے کشائش اور وسعت مقصود ہے کہ اس کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں، دوسرے سے بے نیازی اور بے پروائی کا بیان مقصود ہے کہ اس کو کسی کی پروا نہیں اگر تم منکر ہو ، تیسری دفعہ میں رحمت اور کارسازی کا اظہار ہے کہ اگر تقویٰ اور اطاعت اختیار کرو تو وہ تمہارے سب کام بنا دے گا۔ تیسری آیت میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ تم سب کو فنا کر دے اور دنیا سے اٹھالے ، اور دوسرے لوگ مطیع و فرمانبردار پیدا کر دے ، اس سے بھی حق تعالیٰ کا استغناء اور بے نیازی خوب ظاہر ہو گئی اور نا فرمانوں کو پوری طرح تہدید اور تخویف بھی ہو گئی۔’’( معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۵۷۰، ادارۃ المعارف کراچی)
حذف کا ایک اسلوب
‘‘آیت من کان یرید ثواب الدنیا۔۔۔۔ میں حذف کا اسلوب بھی قابل غور ہے۔ عربی میں کلام کے دو متقابل اجزا میں سے بعض اجزا کو اس طرح حذف کردیتے ہیں کہ مذکور جزو، محذوف کی طرف خود اشارہ کردیتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس آیت کے محذوفات کھول دیے جائیں تو تالیفِ کلام یہ ہوگی: من کان یرید…… ثواب الدنیا والاخرۃ، پہلے میں سے فعنداللّٰہ ثواب الدنیاکو حذف کر دیا اور دوسرے میں سے ومَن کان یرید ثواب الاخرۃ کو۔ اس حذف کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا کہ مذکور ٹکڑے محذوف ٹکڑوں کی نشان دہی خود کر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو دنیا ہی کے صلے کا طالب ہوتا ہے تو دنیا کا مالک بھی خدا ہی ہے، وہ اس میں سے اس کو جتنا چاہتا ہے دیتا ہے اور جو آخرت کا طالب ہوتا ہے تو اللہ اس کو دنیا میں بھی جو چاہتا ہے دیتاہی ہے اور آخرت کا صلہ بھی بھرپور عطا فرمائے گا۔ یہ ان لوگوں کو تنبیہ و موعظت ہے جو اپنے دنیوی مفادات کی خاطر خدا کی شریعت سے فرار اختیار کر رہے ہوں۔ فرمایا: جو صرف دنیا کا طالب بنتا ہے تو بہرحال اس میں سے وہ پاتا اتنا ہی ہے جتنا خدا کو منظور ہوتا ہے اور آخرت سے وہ بالکل محروم ہی رہتا ہے تو آخرت کا طالب کیوں نہ بنے کہ آخرت کا بھرپور صلہ بھی ملے اور دنیا میں سے جو مقدر ہو وہ بھی ملے۔ یہی مضمون بعینہٖ آل عمران کی آیات ۱۴۵ اور ۱۴۸ میں بھی گزر چکا ہے۔ اس کے ساتھ سمیع و بصیر کی صفات کے حوالے سے مقصود اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ خدا نہ کسی کی دعا و فریاد سے بے خبر ہے نہ کسی کی احتیاج اور حالت اس سے مخفی ہے تو آخر انسان اسی سے کیوں نہ چاہے اور مانگے، دوسروں سے کیوں آرزو مند اور داد خواہ ہو۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۰۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
 
مترجمین :۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ،۵۔ سیدّابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاویداحمد غامدی
 
تفاسیرومفسرین :۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی،۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیع ؒ ،۳۔خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ،۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ، ۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ، ۶۔ ضیاء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہری ؒ ، ۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی، ۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی