بحر ہند کے ایک جزیرے میں

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : دسمبر 2014

قسط ۔اول

            سری لنکا ایک کثیر المذہبی معاشرہ ہے جہاں بدھ، مسلمان، ہندو اورعیسائی مل جل کر رہتے اور خوش دلی سے ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ ایک ایسی سر زمین ہے جو کئی روایات کے مطابق ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کا مہبط یا جائے نزول ہے جب وہ جنت میں اپنے قیام سے محروم کیے گئے تھے۔

            لفظ لنکا کے معنی جزیرہ کے ہیں۔ سری غالباً شری ہے جس میں عزت اور توقیر کا مفہوم ہے۔ سری لنکا 1948 ع میں انگریزوں سے آزاد ہوا تھا۔ 1972 ع میں ڈیموکریٹک سوشل ریپبلک قرار پانے پر سیلون کانیا قومی نام سری لنکا قرار پایا۔ چونکہ یہ نام اصل باشندوں کی خواہشات کا آئینہ دار تھا اس لیے بہت جلد مقبول ہوگیا۔

سراندیپ

             ہندوستان کی طرح سری لنکا ایک برٹش مقبوضہ علاقہ تھا جس کو انگریز اپنی آسانی کے لیے سیلون کہتے تھے۔ اصل میں یہ نام سری لنکا کے عربی نام سر اندیپ (جزیرہ ملک) کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ سنہا (SINHA) کا مطلب ہے شیر (LION) اور SINHAL کا مطلب ہے BLOOD OF LION مراد یہ ہے LION LIKE MAN-HERO۔ پالی زبان میں سہالم۔ چوتھی صدی کا رومن مؤرخ ‘مارسی لینس سیر اندیوس’’ غالباً گزرنے والا پہلا سیاح تھا۔ چھٹی صدی کے یونانی ملاح ‘کاس مس’ نے اسےSIELEN DIVA کہا۔ یہی لفظ مختلف زبانوں کے مترادفات میں ڈھلتا رہا۔ عربوں نے بالآخر اسے عربی میں ڈھال کر سراندیپ قرار دیا۔ یہ تمام نام سیلون کے ہم معنی یعنی مترادفات میں سے تھے ۔ 10 ویں صدی کے مورخ سیاح محمد بن احمد البیرونی نے اسے منگل دیپ کے نام سے پکارا اور فارسی میں سرندیپ۔ سنہالی یہاں کی مقامی اور بڑی آبادی ہے۔ تامل آبادی تعداد میں کم اور زیادہ ہندو ہے اور ہندوستان سے آکر آباد ہوئی ہے۔

            سری لنکا کی مغربی جانب جزائر مالدیپ او ربحیرۂ عرب۔ مشرقی جانب خلیج بنگا ل او رجنوبی سمت میں دنیا کا سب سے بڑا سمندر بحر ہند۔ جب دنیا تشکیل پارہی ہوگی سری لنکا ہندوستان کا حصہ رہا ہوگا جو جغرافیائی تبدیلیوں کے زیر اثر کٹ کر علاحدہ حیثیت اختیار کر گیا۔ سری لنکا کا انتہائی شمالی علاقہ جنوبی ہندوستان کے نزدیک واقع ہے۔ اس علاقے میں ہندو مت، تلنگم زبان اور ہندی تہذیب کے اثرات نمایاں ہیں۔ یہی علاقہ علیحدگی پسند تامل کا گڑھ رہا ہے۔

            ہندو مائیتھالوجی (دیو مالا) کے حوالے سے لنکا ،رامائن کی حکایتوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ لنکا پہنچنے ، اسے فتح کرنے اور وہاں سے سیتاجی کو بازیاب کرنے کے لیے راما صاحب کو بہت محنت کرنا پڑی۔ راما جی نے ہنو مان کی مدد سے ایک پل تعمیر کیا اور بڑی جدوجہدکے بعد پھر اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکے۔

            اردو میں لنکا کے حوالے سے متعدد محاورے رائج ہیں مثلاً گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ لنکا میں ہر شخص باون گزا ہے وغیرہ۔

            سری لنکا کی ایک بڑی وجہ شہرت چائے کے باغات ہیں جہاں دنیا کی بہترین چائے کاشت اور تیارکی جاتی ہے۔

آغاز سفر

             سری لنکا ایئر لائن کا بوئنگ طیارہ اپنے مقررہ وقت سے چند منٹ پہلے ہی رن وے کی طرف روانہ ہوگیا۔ اڑان بھرنے کے ساتھ ہی جہاز بحیرہ عرب سے بحر ہند کی جانب ہندوستان کے مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ اڑنے لگا۔ نیچے ساحل سمندر، کہیں کہیں شہر اور بستیاں دکھائی دیں مگر جلد ہی رات کا اندھیرا چھانے لگا۔ پھر زمین پر ساحل کا اندازہ صرف شہروں کی روشنیوں سے ہوتا رہا۔ کبھی کبھی نیچے سمندر کی گہری تاریکی طاری رہی جیسے جہاز تاریکی کے گہرے اور اتھاہ سمندر میں تیر رہا ہے۔ ابھی شام کے بمشکل چھ بجے ہوں گے کہ عملے نے رات کے کھانے کے لیے چمچ اور ٹرالیاں بجا دیں۔ ساتھ ہی گرم کھانے کی مہک ہر طرف پھیل گئی۔ کراچی میں دوپہر کا کھانا کھائے ابھی زیادہ دیر نہ ہوپائی تھی۔ ایک راہ چلتی ہوائی میزبان سے کہا کہ ہمیں کھانا کچھ دیر کے بعد فراہم کریں مگر ایئر لائن کی لگی بندھی پالیسی کے مطابق یہ تبدیلی ممکن نہ تھی چنانچہ پُر شکم کو امتحان میں ڈالنا پڑا۔

            ہوائی میزبان عملے کی خواتین صحت مند، سانولی اور ساڑھی پوش تھیں۔ ساڑھی اپنے رنگوں اور ڈیزائن سے جاذب نظر تھی مگر میزبانوں کا پیٹ ہندوستانی رواج کی طرح آگے پیچھے سے ان ڈھکا تھا لیکن یہ لباس خواتین کی مستعدی اور کارکردگی میں چنداں رکاوٹ نہ تھا۔ عملے کے مرد بھی صحت مند، وجیہہ اور اچھے قد والے تھے۔ انگریزی لباس میں اور انگریزی زبان میں رواں مگر ان کے رویوں او رلہجے میں گوروں کی سی ملائمت مقصود تھی۔

            جہاز میں مختلف جگہوں پر انگریزی اور سنہالی زبانوں میں معلومات درج تھیں۔ پائلٹ کی طرف اعلان بھی انگریزی اور سنہالی زبان میں تھے۔ مینو بھی دونوں زبانوں میں تھا۔ اردو برصغیر کی بین الاقوامی اور دنیا کی بولی جانے والی تیسری بڑی زبان ہے جو تمام بر اعظموں میں بولی سمجھی جاتی ہے۔ اس زبان میں کوئی ہدایت نہ تھی۔ مگر اردو زبان جو اپنے وطن میں اجنبی اور غیر ہے تو غیروں میں کیسے پہچانی جاتی۔

            کھانے سے پہلے پوچھا کہ کھانا حلال ہے تو میزبان کا جواب تھا کہ یہ کھانا کراچی کے مطبخ سے تیار کروایا ہے۔ کھانے میں یہ ندرت دیکھی کہ مسافروں کے لیے چوائس تھا یعنی دو قسم کے کھانوں میں سے کسی ایک ٹرے کو پسند کرلیں۔ ذائقہ اور مقدار کے لحاظ سے کھانا مناسب تھا۔ کھانے پینے کے بعد میزبانوں نے بھاگم بھاگ برتن سمیٹے اور مسافروں میں جلد جلد کمبل بانٹ دیئے ۔ مقصد یہ تھا کہ مسافر میزبانوں کو بار بار بلانے کی بجائے اب سونے کی کوشش کریں۔ یہ سونا حقیقت میں بالکل بے وقت تھا۔ اس کو قیلولہ کہا جاسکتا تھا اور نہ رات کا سونا ۔ ظاہر ہے چند متوالوں کے سوا زیادہ تر مسافر نشتی ویڈیو فلم دیکھ رہے تھے یا آنکھیں بند کیے وقت گزار رہے تھے۔ مجتبیٰ کو پسند کی ویڈیو گیم مل گئی تھی۔ عملے نے کمبل تقسیم کرنے کے ساتھ ہی جہاز کے اندر کی تمام بتیاں بھی گل کر دی تھیں۔ ویڈیو فلم انگریزی میں ہالی وڈ کی تھیں یا سری لنکا کی سنہالی زبان میں۔ مقامی فلموں کے موضوع سوشل ایشوز تھے۔ رات نو بجے کے قریب جہاز کولمبو کے بندرا نائیکے انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر اتر گیا۔

            کولمبو میں اس سمے رات کے ساڑھے نو بجے کا وقت تھا۔ موسم معتدل تھا اور لاہور کی سردی غائب تھی۔ کولمبو ایئر پورٹ نیا تعمیر شدہ ہے۔ یہاں بھی عالم غربت کے باوجود روشنیوں، شیشوں، راہداریوں او ر شوشا کی فراوانی ہے۔ اس شہر میں حال ہی میں سارک کی انٹر نیشنل کانفرنس ختم ہوئی تھی۔ اس کے حوالے سے بینرز، بورڈ اور نیوآن سائن جگہ جگہ ایئر پورٹ پر آویزاں تھے ۔ ہر چند قدم کے بعد سری لنکا کے صدر کی تصویر نظر آتی تھی۔ چنانچہ اترنے والے غیرملکی مسافر چند ہی لمحوں میں سری لنکا میں کم از کم ایک شکل سے بخوبی واقف ہوچکے تھے ۔ذاتی شہرت اور نمائش دنیا کے ہر سیاست کار کی بنیادی کمزوری ہے ۔ پاکستان ، پنجاب اور سندھ میں یہی وطیرہ کارفرما ہے۔ ٹرمینل پر غیر ملکی مسافروں کے الگ کاؤنٹرتھا۔ چنانچہ نوشتہ اشاروں کے تعاقب میں چلتے چلتے وہاں جا پہنچے۔ سری لنکا کے شعبہ امی گریشن نے غیر ملکی مسافروں کے لیے ایک خاص اہتمام کر رکھا ہے۔ ا س کے تحت ای میل کے ذریعے ویزا درخواست مع فیس اپنے ملک سے ہی جمع کروائی جاسکتی ہے۔ بڑے مسافروں کے لیے 15 ڈالر اور سولہ سال سے کم عمر بچوں کے لیے کوئی فیس نہیں ہے۔ چنانچہ ہم دو بڑوں اور ایک بچے کا ویزا پہلے سے اسلام آباد میں لگ چکا تھا۔ یہ ویزا پرواز سے آنے والوں کو امی گریشن کاؤنٹر سے بھی مل جاتا ہے۔ ویزے پر مدت قیام یہاں درج کی جاتی ہے چنانچہ امی گریشن ڈیسک سے ایک ماہ کا ویزا ملا اور ساتھ ہی Wel com back کا کتابچہ بھی۔ جی آیاں نوں، خوش آمدید کے لیے سنہالی زبان میں AYUBOWAN (آیو بوان) کہا جاتا ہے۔ اس کتابچے میں مختلف تجارتی اور سیاحتی اداروں کی طرف سے مسافروں کے لیے رعایتوں کے اعلان سے ہوتے ہیں ۔ یعنی آپ خریداری کریں، کسی خاص ہوٹل میں اقامت پذیر ہوں یا کسی مخصوص کمپنی کی ٹیکسی سروس استعمال کریں تو قیمت میں اتنے فیصد رعایت ملے گی۔ اس کے ساتھ سری لنکا کا نقشہ اور وہاں کی معروف موبائل فون کمپنی Dialog کی طرف سے ایک سم بھی مفت دی جاتی ہے جسے موبائل میں ڈالتے ہی مسافر کو سری لنکا میں 50 روپے تک مفت Connectivity (رابطے کی رسائی) حاصل ہوجاتی ہے۔

پڑاؤ

             امی گریشن پر کیمرے کے ذریعے پہچان ہوئی ورنہ سامان چیک ہوا اور نہ ہی کوئی جرح کی گئی۔ کمپیوٹر ریکارڈ کے مطابق ویزا پہلے ہی سے منظور ہو چکا تھا ۔ سو یہ پوچھ کر کہ تینوں مسافر پہلی بار سیاحت کے لیے سری لنکا آرہے ہیں ۔ نوجوان بابو نے فوراً ہی داخلہ اجازت ثبت کر دی۔ ایئر پورٹ کی عمارت کے اندر تو روشنیوں کی کثرت سے دن کا سماں تھا۔ وہاں سے باہر نکل کر دیکھا تو پارکنگ ایریا میں کم ر وشنی نظر آئی۔ اترنے والے مسافر بھی تھوڑے تھے۔ ایک پیلے کارڈ پر ہوٹل کی جانب سے اپنا نام لکھا تو رابطہ ہوا۔ چونکہ اس ہوٹل کے صرف ہم ہی تین مہمان تھے اس لیے جلد وین میں سوار ہوگئے ۔ وین نئی بھی تھی اور ایئر کنڈیشنڈ بھی۔ باہر کا موسم گرم اور پسینہ مائل تھا۔ ایئر پورٹ سے شہر جانے والی سڑک دو رویہ، ہموار اور نئی تھی۔ غالباً یہ بھی حالیہ کانفرنس کا تحفہ تھی۔ سڑک پر ٹریفک اکا دکا تھا ۔ آنے والی کراسنگ سے روانی میں خلل نہ پڑتا تھا ۔ چنانچہ وین تیز رفتاری سے رواں تھی۔ ایئر پورٹ سے شہر خاصی مسافت پر ہے۔ ابھی رات کے 11 نہیں بجے تھے مگر بازاروں میں رونق اور ہنگامہ نہ تھا۔ زیادہ تر دکانیں بند تھیں، روشنیاں کم اور پیدل چلنے والے بہت تھوڑے۔ یہ بات کسی مہذب مگر کم وسیلہ ملک کے لیے بہت مفید اور ضروری ہے۔ یعنی کاروبار اور بازار کا جلد آغاز ہوا اور شام ڈھلے دکانیں بند ہوجائیں۔ ایک تو صحیح وقت پر کام اور آرام دوسرا وقت، بجلی اور پیٹرول کی بچت۔ پارکنگ کا مسئلہ بھی درپیش نہیں آتا۔ کوچہ و بازار کی صفائی بھی ٹھیک طرح سے کی جاتی ہے۔

            RENUKA نامی ہوٹل، کولمبو کی ایک بڑی اور مشہور شاہراہ گالے روڈ پر واقع ہے ۔ یہ ہوٹل ایک نہیں دو تین باہم مربوط عمارتوں کا مجموعہ ہے۔ پہنچنے پر کسی نے خیر مقدمی پانی کا پوچھا اور نہ معروف طریقے سے سواگت کیا۔ فرنٹ ڈیسک کی Formalities اور ای میل معاہدے کی یاددہانی کے ساتھ چیک ان ہوئے۔چوتھی منزل پرچھوٹا سا کمرہ ، محدود سامان، غسل خانے میں ٹوتھ پیسٹ، کنگھی اور سلیپر ندارو۔ ٹی وی کے سگنل ناقص چنانچہ کوئی سری لنکن پروگرام نہ دیکھ پائے۔ البتہ چائے کافی اور بجلی کیتلی کا مناسب انتظام موجود تھا۔ کمرے میں سیاحت کے لیے کوئی امدادی لٹریچر، نقشہ یا رابطے کی ہدایت موجود نہ تھی۔ یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ کہیں آنے جانے کے لیے بکنگ کہاں سے ہوگی۔ کمرے میں نہ تو سمت قبلہ یا مغرب کا تعین ممکن تھا اور نہ ہی وارڈ روب میں کوئی جائے نماز تھی۔ البتہ بدھا کی تعلیمات کے حوالے سے کسی سکالر کے مضامین پر مبنی کتاب موجود تھی۔ جس طرح کولمبو گنجان شہر ہے شاید اسی کے پیش نظر ہوٹل میں جگہ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ ہوٹل کی چھٹی یا ساتویں منزل پر ایک چھوٹا سا سوئمنگ پول بھی تھا جہاں غیر ملکی سیاح شوق تیراکی پورا کرتے تھے۔ ایک روز مجتبیٰ بھی تیرنے کے لیے گیا ۔ چھت پر سے سب سے خوبصورت نظارہ سامنے دکھائی دینے والا نیلا سمندر تھا اور سمندر کے کنارے دونوں طرف سے آتی جاتی ریلوے ٹرینیں۔ سمندر سے آنے والی ہوا بہت خوشگوار اور فرحت بخش تھی۔

سری لنکا

            سری لنکا اگرچہ ہندوستان کے انتہائی جنوب میں بحر ہند کے آغاز پر ایک آنسو یا مخروطی موتی کی طرح اٹکا ہوا ہے مگر اس کی آباد کاری اور راہ گزر بحر میں موجودگی ہندوستانی کی تاریخ میں زیادہ نمایاں نظر نہیں آتی۔ شاید اس لیے کہ ہندوؤں کے لیے اپنی دھرتی ماتا سے باہر نکلنا یا سمندر کا سفر کرنا پاپ تھا۔ چنانچہ یہ کفر توڑنے کا ارتکاب مسلمان ملاحوں اور عرب تاجروں سے سر زد ہوا ۔ ایک روایت کے مطابق جزیرہ سری لنکا 30 ہزار سالوں سے آباد ہے۔ 16 ویں صدی میں یورپی قذاق لوٹ مار کرنے میں ایک دوسرے کا پیچھا کرتے کرتے ادھر نکل آئے۔ سنہالی بادشاہت 1815 ع تک قائم رہی۔پھر یورپ کی ‘‘ترقی یافتہ’’اقوام پرتگالی، پرتگیزی (ڈچ) اور انگریز بحری گزر گاہوں کی چند ساحلی پیٹوں پر قابض ہوئے۔ یورپی تاجروں کی ریشہ دوانیوں اور ہتھکنڈوں سے سارا ملک تاج برطانیہ کے زیر نگین آگیا۔ اس دوران مقامی حریت پسندوں اور آزاد طبع لوگوں نے 1818 ع اور 1845 ع میں بغاوتیں کیں جو ناکام رہیں ۔ آخر 1948 ع میں انگریز کی غلامی سے نجات ملی اور سری لنکا آزاد ہوگیا۔         

            1972 ع میں سیلون نے جمہوریہ اور سری لنکا کا نام اختیار کیا اور 1978 ع میں ملک کو ایک دستور ملا۔ بعض داخلی اور کئی خارجی عوامل کی بنا پر شمالی سری لنکا خصوصاً شمالی تامل جافنا میں خانہ جنگی چھڑ گئی جو 25 سال کی بے شمار قتل و غارت کے بعد 2009ع میں اختتام پذیر ہوئی۔ باغی عناصر کو تامل ٹائیگر کہا جاتا تھا ۔ مہندرا راجا پاکسا، سری لنکا کے آجکل چھٹے صدر ہیں۔ ملک کا سرکاری نام Democratic Social Republic of Sari Lanka ہے ۔

(بحوالہ منسٹری آف نیشنل لینگویجز اینڈ سوشل انٹیگریشن 2010 ع )

            ملک کی آبادی 20.3 ملین ہے جس میں 74 فیصد آبادی سنہالی ہے اور باقی میں تامل اور دیگر اقوام۔ مذہبی اعتبار سے 70 فیصد آبادی بدھ مت، 8 فیصد اسلام ، 7 فیصد ہندو مت ، 6 فیصد عیسائیت اور دیگر مذاہب کے پیرو کار ہیں۔ 2012 ع تک 57227 نو مسلم ملک کی مردم شماری میں مسلمان شمار نہیں ہوسکے تھے۔ سری لنکن مسلمانوں میں مُور ، ہندی مسلمان اور ملائی مسلمان شامل ہیں۔ یہاں اسلام آٹھویں صدی کے لگ بھگ آیا اور زیادہ تر جانب بحر ہند، جزیرے کی پٹی کے ساتھ ساتھ مقبول ہوا۔ مسلمان گالے (Galle) نامی شہر سے اوپر شمال کی جانب کولمبو تک آباد ہیں۔ 15 ویں صدی تک مسلمان ملاح (Sailors) ہی بحرہند کے حکمران تھے۔ سُنی اسلام کے تحت زیادہ تر مسلمان شافعی اور حنفی الفکر کے ہیں۔ تھوڑی تعداد میں شیعہ بھی ہیں جن میں بوہرہ اور میمن شامل ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد اور ان کے اثرات کے پیش نظر 1980ع میں Muslim Religious Cultural Herritage قائم کیا گیا ۔ کولمبو شہر کا موجودہ میئر ایک مسلمان ہے اور عوام کی بھلائی کے لیے انتھک کام کرتا نظر آتا ہے۔ چوگم کی کامیابی میں اس کا بھی حصہ ہے۔

بدھ مذہب

             اللہ تعالیٰ نے دنیا کی مختلف اقوام میں اپنے برگذیدہ پیغام بر بھیجے تاکہ وہ اپنی اپنی قوم کو اس کی زبان میں اللہ کی باتیں بتائیں۔ توحید کی دعوت دیں، شرک سے گریز سمجھائیں۔ لوگوں کو خیر کی تلقین کریں اور برائی سے بچنے کی ہدایت دیں۔ بعض انبیا کا ذکر قرآن میں موجود ہے جن کے ناموں اور جگہوں سے مشرکین مکہ اور دیگر مخاطبین شناسا تھے تاہم بہت سارے نبیوں کا ذکر موجود نہیں ہے جو دور دراز کے ملکوں میں مبعوث ہوئے اور جن کے ناموں سے اہل عرب شناسا نہ تھے۔ رام چندر جی کی طرح گو تم بدھ بھی ایسے برگزیدہ نیکو کاروں میں شامل ہیں۔ آج ان کی تعلیمات کیا ہے اور پیروکار کیسے ہیں؟ اس کا جواب تحریف و تصوف، کتمان و نسیان اور بدعت و ضلالت کی تاریخ میں مضمر ہے جو اسلام کے موجودہ پیروکاروں کی تاریخ سے مختلف نہیں ہے۔ کپل وستو کے سدھارتھ گوتم بدھ (پ: 563 ق م - م : 453 ق م) کی بنیادی تعلیمات یہ ہیں ۔

چار اعلیٰ اچھائیاں

اوّل       انسان اپنی جبلت میں دکھوں اور مصیبتوں کا مسکن ہے۔

دوم      ان دکھوں اور محرومیوں کا سبب انسان کی خود غرضی اور اس کے نفس کی خواہشات ہیں۔

سوم       اس انفرادی خود غرضی اور خواہش کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

چہارم     خود غرضی اور خواہش سے بچنے کے آٹھ راستے ہیں ۔راست فکر راست سوچ ،راست گوئی ،راست بازی راست بودو باش،راست جدوجہد راست ذہن ،راست نکتہ ٔ نظر

            گوتم بدھ صاحب کی تعلیمات کے مطابق ہر بدھ پانچ وعدے کرتا اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے :

1. Not to hurt or kill any living thting.

2. Not to steal or take any thing that is not freely given.

3. To control sexual desires.

4. Not to tell lies.

5. Not to drink alcohol or use norcotics.

 CHOGM

            چوگم سربراہان مملکت کی حالیہ ختم ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس COMMON WEALTH HEAD OF GOVERNMENTS MEETING کے اثرات ہر طرف نظر آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے قومی قیادت اور عوام نے اس تقریب کو اپنے وطن کو ابھارنے اور منوانے کے لیے اسے خوب استعمال کیا ہے۔ اخبارات میں حزب اختلاف کی جانب سے مخالفت بھی سنائی دیتی ہے۔ خصوصاً تقریب پر بے پایاں اخراجات اور صدر کی ذاتی تشہیر کے حوالے سے مگر تقریب سے عمومی بہتری دکھائی دی۔ خاص طور پرشہر کی صفائی۔ ہر قسم کے عملے کی نئی یونی فارم، چمکتے بل بورڈ، شوخ رنگ صاف رکشے، جدید نئی ٹیکسیاں اور سڑکوں کے نام اور تازہ پینٹ، قدیم عمارتوں کا رنگ و روغن۔ ایسی تقریبات سے خدمت گزار عملے (Service Provider) کے اخلاق اور رویے میں بھی بہتری آتی ہے۔ قومی تفاخر کو جلا ملتی ہے ۔ اس کے علاوہ سیاحوں اور مسافروں کے ساتھ شہریوں کا اچھا برتاؤ اور ان کا میٹھا بول واقعی جادو اثر رکھتا ہے۔

            بازار، مارکیٹ اور دکانیں عام طور پر جلد کھل جاتی ہیں۔ صبح کے وقت چنانچہ عوام کا انبوہ فٹ پاتھوں پر دفتروں کی جانب اور اپنے کاروبار کی طرف رواں ہوتا ہے ۔ یونی فارم میں ملبوس بستے اٹھائے بچے بھی بڑی تعداد میں سکول جارہے ہوتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ یعنی سرکاری بسیں گو خاصی پرانی ہیں لیکن منہ اندھیرے دھل کر سڑکوں پر آجاتی ہیں اور بہت بڑی تعداد میں۔ مسافر قطار (Q) تو نہیں بناتے لیکن دھکم پیل بھی نہیں ہوتی۔ مردوں عورتوں کے لیے الگ حصے یا علاحدہ دروازے نہیں ہوتے گویا دونوں پہیے برابر گھومتے ہیں۔ سڑکیں بڑی بھی ہیں اور چھوٹی بھی، سنگل بھی اور ڈبل بھی۔ ون وے بھی اور دو طرفہ بھی۔ کہیں کہیں ٹریفک جام ہوتا ہے خصوصاً باہر سے آنے والے ٹریفک اور وہ بھی شام کے بعد ۔ شہر میں دن کو ٹریفک بے روک ٹوک رواں دواں نظر آیا۔ ٹریفک پولیس بہت مستعد اور چست ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور رکشا دونوں مقبول ذرائع ہیں۔ ٹیکسی کا زیادہ استعمال غیر ملکی ٹورسٹ کرتے ہیں۔ حیران کن حد تک کسی ٹرانسپورٹ کو دھواں چھوڑتے، پٹاخے مارتے یا دھکا کھاتے نہیں دیکھا۔ رکشا کی سواری بہت آرام دہ اور استطاعت میں (Affordable) ہے۔ حادثہ سے بچنے کے لیے رکشا کی سیٹ صرف بائیں طرف کھلتی ہے دائیں جانب لوہے کی شیٹ یعنی جس طرف سڑک ہے ادھر سے راستہ بند کردیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ سواری سڑک کی جانب سے سوار ہو اور نہ اترسکے۔ تمام رکشے ایک ڈیزائن کے ہیں مگر ان کے رنگ جدا جدا ہیں۔ سرخ، سبز ، نیلا، پیلا وغیرہ۔ اکثر کے میٹر چل رہے ہیں اور جس کا میٹر ڈاؤن نہ ہوسکے اس رکشے کا کاروبار اور برتاؤ پاکستانی رکشا کی طرح ہوتا ہے۔ سب سے دلچسپ امر یہ ہے کہ سری لنکا کے رکشا میں بیک وقت تین مسافر باآسانی بیٹھ سکتے ہیں کوئی اضافی کرایہ نہیں لیا جاتا۔ ایک خبر دیکھنے میں آئی کہ ‘‘چوگم’’ کے موقع پر آوارہ کتے شہر بدر کر دیئے گئے تھے۔ تقریبات ختم ہوجانے کے بعد سرکاری خرچ پر 200 Community dogs واپس شہر میں لا بسائے گئے۔(جاری ہے)