الفت کے راستے پر ، قسط - 23

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : نومبر 2021

یوم النحر،۱۰۔ ذوالحج

 شیطانوں کے محلات کی طرف

رمی جمرات:

ہت تیرے کی!

دس ذوالحج کا سورج تو،مزدلفہ سے منیٰ آتے ہوئے طلوع ہو چکاتھا۔ہمارے سفر حج کے ایک اور اہم دِن کاآغاز ہوچکا تھا۔اِس دِن کے اُمور میں،جمرہ عقبہ کی رمی،قربانی اور حلق اورطواف زیارت شامل تھے۔مزدلفہ شریف سے کیمپ واپس آنے کے بعد، تھوڑا سا آرام کیا،ناشتہ کیااور وضو بنایا اور بالکل تازہ دَم ہوگئے۔

ہم اصحاب اربعہ نے آپس میں اگلے مراحل حج کے بارے میں مشورہ کیااوریہ فیصلہ کیا کہ آج ہی،اِن شاء اللہ،جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد ،اُدھر سے ہی،جیسے بھی ممکن ہوا ،طواف زیارت کر آئیں گے۔خیمہ میں موجود ہر زائر ، اپنی اپنی سہولت سے ،اِن اُمور کی انجام دہی کے لیے،اپنا اپنا پروگرام بنا رہا تھا۔سیاحتی کمپنی کی انتظامیہ سے ، جہاں جہاں کسی کومدد کی ضرورت پڑتی تھی،لوگ فائدہ اُٹھا رہے تھے۔

اللہ کا نام لے کر،قریباً نو بجے صبح،محترم حاجی یونس صاحب کی قیادت میں ہمارا ’’قافلہ چہاردرویش‘‘،تسبیح وتہلیل کرتا،خیمے سے باہر نکل آیا۔شٹل سروس کے ذریعے ہم پہاڑی سے نیچے اُترے اور جمرات کی طرف پیدل روانہ ہوگئے۔سورج سوا نیزے پر آچکا تھالیکن اِس کی حدت ہمارے اندر جذبہ ایمان کی شدت کو کم نہ کر سکی۔لبیک اللھم لبیک کی پکار کرتے ہم آگے بڑھ رہے تھے۔بتایا گیاتھا کہ منیٰ خیمے سے جمرات تک تقریباًتین کلو میٹر کا فاصلہ ہوگا۔جذبہ ایمانی کے آگے ،اب یہ پیدل فاصلے ،ہمارے لیے کوئی معانی نہیں رکھتے تھے۔راستوں سے حاجی صاحب کو بخوبی واقفیت تھی،ویسے بھی ہزاروں انسانوں کا رُخ اِس وقت جمرات کی طرف تھا اِس لیے ایسا کوئی خطرہ نہ تھا کہ ہم کہیں غلط راستے پر نہ جارہے ہوں۔ہم ایک بڑے سیلاب کا حصہ تھے،لیکن منیٰ کی شاہراہیں اِس سیلاب سے دُگنے سیلاب کو بھی بہ آسانی سنبھال سکتی تھیں۔ سڑکوں کی کشادگی اور وسعت قلبی کے باعث،اتنے بڑے ہجوم اور اژدہام کے باوجود ہم ، بڑے اطمینان اور سکون سے آگے بڑھ رہے تھے۔

یہ خاکسار،رمی جمرات کا عمل بندگی،زندگی میں پہلی بارانجام دینے جارہاتھا۔نہ توجمرات کو پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ ہی شیطان کو کنکریاں مارنے کا پہلے، کوئی تجربہ تھااِس لیے اندرونی طور پر قدرے پریشانی ضرورتھی۔قبل ازیں ،شیطان کو کنکریاں مارنے کی بے شمار کہانیاں سن رکھی تھیں اور کئی ایک واقعات پڑھ رکھے تھے ،لیکن اِن سے اِس عمل کے بارے میں خوف اور دہشت میں اضافہ ہی ہوا تھا۔عجیب اتفاق ہے کہ حج پر آنے سے قبل اور یہاں حجاز میں قیام کے دنوں میں بھی ،وکی پیڈیا ،یوٹیوب یا کسی اور ذریعہ سے،حج کے بارے میں جہاں اور سب کچھ دیکھا ،پڑھا اور سنا تھا،رمی جمرات ایک ایساشعبہ تھا جو رہ ہی گیا تھا۔ یعنی یہ تو پتہ تھا کہ کنکریاں مارنی ہوتی ہیں ،کب کب اور کتنی کتنی،سب معلوم تھا،لیکن جمرات کیا ہیں،کیسے ہیں،وغیرہ وغیرہ کا کچھ پتہ نہیں تھا۔گویارمی جمرات کی طرف جاتے ہوئے ’’علمی وعملی لحاظ‘‘ سے بالکل کورا تھا۔ہم ،جمرات،عرف شیطانوں کے محلات کی طرف، تنکوں کی مانند بہے جارہے تھے۔ تلبیہ اور دعائیں مسلسل زیر لب تھیں۔شدت کی گرمی تھی لیکن گرمی سے بچاؤ کا کوئی سامان نہ تھا۔میری بے وقوفی کا آپ اندازہ کریں،کہ خاص اِس موقع کے لیے ،لاہور سے ہی جو چھتری ساتھ لایا تھا ، وہ اب آتے ہوئے منیٰ کیمپ میںہی چھوڑ آیا تھا۔ننگے سر پر،جس کا چند دِن پہلے حلق بھی ہوا تھا،سورج کی شعائیں آگ کے گولے کی طرح لگ رہی تھیں ۔ ہمارے گروپ میں ایک چھتری تھی جس کا ہم چاروں سہارا لیے ہوئے تھے۔ایک دو جگہ پر رضا کار زائرین پر پانی کی بوتلوں کے ذریعے پھوار چھوڑ رہے تھے،وہ قطرہ قطرہ پانی،جب ہمارے جسم پر پڑتا تھا ، بہت فرحت پہنچاتا تھا اور اُن رضا کاروں کے لیے دِل سے دُعا نکلتی تھی۔جمرات کی عمارت کے قریب جاکر تو سڑک پر بلدیہ کی طرف سے لگے ہوئے پھوارے بھی پانی چھڑک رہے تھے جوماحول کو خوشگوار بنانے میں اپنا کرداربخوبی ادا کر رہے تھے لیکن سورج کی تپش اور شدت کی گرمی سے آدم زاد گھبرائے ہوئے تھے لیکن جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں دیکھ رہا تھا۔ہم لمحہ با لمحہ جمرات کے قریب ہورہے تھے۔

 ہمارے سامنے شیطانوں کے محلات کی وسیع وعریض عمارت تھی جس کو دیکھ دیکھ کر ہم آگے بڑھ رہے تھے لیکن وہ سراب کی مانند ،آگے ہی آگے ہٹتی نظر آتی تھی۔چلتے چلتے ہم قدرے اُونچی جگہ پر آئے تو دیکھا کہ دُور دُور تک ہمارے سامنے انسانوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔چاروں طرف انسانی سر ہی سر اور چھتریاں ہی چھتریاں تھیں۔عجیب خوش رنگ منظر تھا۔سفید احرام میں ملبوس،جوش و جذبے سے بھرا ہوزائرین کا جلوس،نعرہ تلبیہ بلند  کرتے ہوئے شیطان پر حملہ آور ہونے کے لیے بے تابی سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ مختلف سڑکوں سے ،ایک بڑی خوبصورت ترتیب سے یہ مجمع جمرات کی طرف بڑھ رہا تھا۔جس رش اور اژدہام سے میں ڈرتا آرہا تھا وہ تو بلاشبہ موجود تھا لیکن دھکم پیل ،کھینچا تانی اور لوگوں کے جسموں کا آپس میں ٹکراؤ اور گتھم گتھا ہونے ایسی خطرناک صورت حال ہرگز نہ تھی بلکہ ہم بڑے اطمینان سے آگے بڑھ رہے تھے۔بندے سے بندے کا فاصلہ بڑا قابل لحاظ تھا۔کسی قسم کے ٹکراؤ کا امکان ہی نہ تھا۔ایسا راستوں کی کشادگی اور وسعت کے باعث تھا۔

جمرات کی طرف جانے والے راستے خود بخود مجمعے کو تقسیم کر رہے تھے اور لوگ جمرات کی عمارت کی مختلف منازل کی طرف تقسیم ہوتے جارہے تھے۔ حاجی یونس صاحب نے ،بڑی کوشش سے ہم سب کو اکٹھے رکھا ہواتھا اور وہ ہمیں ایک خاص حکمت عملی کے تحت زمینی منزل کی طرف جانے والے راستے پر لے آئے اور ہم’’ شیطان محل ‘‘میں داخل ہو گئے۔بتایا گیا کہ تینوں شیطان یہاں’’ مقید ‘‘ہیں۔ یہ تو نہایت وسیع عریض عمارت ہے،’’جیل خانہ‘‘ تو بالکل نہیں لگتا بلکہ یہ توایک شاندار محل تیارکیا گیاہے شیطانوں کے لیے۔ہم جس منزل پر تھے ،بتایا گیا کہ رمی کے لیے،اِس طرح کی تین منازل تیار کی گئی ہیں۔یہاںروشنی اور ہوا کا بہترین انتظام تھا۔ہال کو ٹھنڈاکرنے کے لیے کسی قسم کا کولنگ سسٹم بھی موجود تھاجس کے باعث ہال کا ٹمپریچر نہایت عمدہ تھالیکن یہ سسٹم کیسا تھا،مجھے معلوم نہیں البتہ بڑے بڑے ہوا دھکیل(air blowers) چل رہے تھے جن کا خاصاشورسنائی دے رہا تھا۔ سنتِ پیغمبر ﷺکے مطابق آج کے دِن ہم نے صرف جمرہ عقبہ،جسے عام طور پر بڑا شیطان کہا جاتا ہے کو کنکریاں مارنی تھی۔

ہال کے جس طرف سے ہم داخل ہوئے تھے،اُدھر کو پہلے چھوٹا شیطان آتا تھا،پھر کچھ فاصلے پر درمیانہ اور سب سے آخر میں بڑا شیطان آتا ہے جو مکہ کی طرف ہے۔سب لوگوں نے آج چونکہ صرف بڑے شیطان کی طرف بڑھنا تھا ، اِس لیے باقی دونوں شیطان پولیس کے’’ پہرے اور گھیرے ‘‘میں تھے،ہم اُن پر غصیلی نظریں ڈالتے آگے بڑھتے چلے گئے۔ چلتے چلتے ہم جمرہ الاخریٰ،یا جمرہ عقبہ یا بڑے شیطان کے پاس پہنچ گئے۔کافی سارے لوگ اُس پر سنگ باری کر رہے تھے۔ حاجی صاحب کی ہدایت تھی کہ شیطان کے نام سے موسوم اِس بڑی دیوارکے آغاز کی بجائے درمیان سے آگے کو ہونا ہے ،وہاں پر جگہ آسانی سے مل جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔لوگوں کا رش دیوار کے پہلے سرے پر تھا،ہم تھوڑاسا آگے بڑھے تو ہمیں نہایت آسانی سے کنکریاں برسانے کے لیے جگہ مل گئی۔

سنت یہ ہے کہ ،جمرہ پر کنکریاں مارنے سے پہلے تلبیہ کا پڑھنا بند کر دیں۔کنکریاں ایک چنے کے دانے کے برابر ہونی چاہیے ، بڑے بڑے پتھر ،روڑے یا جوتے یا کوئی اور چیز ہرگز نہیں پھینکنی۔یہ عبادت کا عمل ہے کوئی مذاق نہیں لہٰذااِسے وقار اور سنجیدگی سے مارنا اور اِس عمل کی روح کو مد نظر رکھ کر کرنا چاہیے۔ایک ایک کرکے کنکری مارنی چا ہیے نہ کہ مٹھی بھر کر ایک ہی دفعہ اور ہر بار کنکری پھینکتے وقت اللہ اکبر پڑھنا چاہیے۔

اِن تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر ہم نے اپنی باری پر ،بڑے وقار کے ساتھ سنگ باری کی۔ میرے ساتھ ہی ،اتفاقی طور پر ایک محترم زائربڑے جوش اور جذبے سے شیطان پر کنکریاں برسا رہا تھا اور ہر بار وہ پنجابی زبان میں کہتا ،’’ہت تیرے کی‘‘ اور بڑے جوش سے جمپ لگا کر کنکری پھینکتا اور ہر بار داد طلب نگاہوں سے مجمعے کی طرف دیکھتا۔کئی لوگ اُس کے اِس جذبہ جنوں کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔وہ’’ہت تیرے کی‘‘ کے اِس جملے کے علاوہ بھی اپنی زبان میں اور بھی کئی دلچسپ الفاظ اوربعض نازیبا جملے بھی بول رہا تھا جن کو یہاں نقل کرنا مناسب نہیں لگتا۔شیطان کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار’’ شیطانی طریقے ‘‘ سے کر رہاتھا۔   

قربانی:

جتنے اطمینان اور سکون سے ،اللہ پاک نے یہ سنت ادا کروائی،ہمارے حاشیہ و خیال میں بھی نہ تھا۔اِس پر ہم اُس کے سراپا سپاس گزار تھے۔اور جس سہولت کے ساتھ سب زائرین اپنا یہ منسک پورا کر رہے تھے،حقیقت ہے اِس کے شاندار اہتمام پر ہم حکومت سعودیہ کی بھی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔کچھ دیر حیرتوں کے سمندر میں ڈوبا،میںسنگباری کے اِس منظر کو، دیکھ رہا تھا کہ حاجی صاحب پکارے ،’’ او بھائی ڈاکٹر صاحب ! اِدھر ہی رہنا ہے یا آگے بھی جانا ہے،آؤ طواف زیارت کے لیے چلیں۔‘‘

مناسک حج کی ترتیب کے اعتبار سے تو ،آج کے دِن،یعنی دس ذوالحجہ کو،جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد ہمارا اگلا کام قربانی کرنا بنتا تھا،لیکن حاجی صاحب کہہ رہے تھے کہ آیئے طواف زیارت کو طرف۔

قربانی کا یہ معاملہ ،ایک الگ قصہ ہے۔بھلے زمانوں میںزائرین کرام ،یہیں منیٰ میں ہی قریب واقع قربان گاہ میں ،یہ سنت ابراہیمی بھی اپنے ہاتھوں سے ہی انجام دیا کرتے تھے۔یہاں جانوروں کی منڈیاں ہوتی تھیں،اپنی پسند کاجانور خریدا جاتا اور پھر اپنے ہاتھوں سے ذبح کیا جاتا اور گوشت خود بھی کھایا جاتا اور غریبوں فقیروں میںبھی تقسیم کیا جاتا ۔دور حاضر میں بھی یہ سلسلہ ہوتا ہوگا ،ہمیں اِس بارے میں کوئی خاص علم نہ تھا۔یہ آئیڈیل صورت تھی اور یہی آئیڈیل ہے بھی لیکن چونکہ ہر آدمی ہر طرح کا کام خود نہیں کر سکتا یا خود کرنے کا موقع نہیں پاسکتا،تو لو گ اپنے کام دوسرے لوگوں سے بھی کرواتے رہتے ہیں اور قربانی کا یہ معاملہ بھی بسا اوقات یہ شکل اختیار کر جاتا رہا کہ کوئی زائر کسی وجہ سے قربان گاہ نہ جا پاتا تو وہ کسی اور کے ذریعے سے کروالیتا۔یہ طریقہ بھی قد یم سے جاری ہے۔اِ س کے بھی فقہی اُصول و ضوابط قدیم سے مرتب کیے ملتے ہیں۔

وقت گزرتا گیا ،حالات بھی بد لتے گئے ۔ جوں جوں رش بڑھتا گیا،خود ،قربان گاہ جا کر ،جانور خریدنا اور قربانی کرنا بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔زمانہ ترقی کرتا گیا تو ہر شعبے میں تخصص بڑھتا گیامختلف کاموں کے لیے مہارت رکھنے والے پیشہ ور لوگ ، ادارے اورکمپنیاں بنتی چلی گئیں۔ جہاں جہاں گنجائش نکلتی تھی ،حج وعمرہ کے معاملات میں بھی تخصص کا یہ نظام زور پکڑتا گیا۔ خاص ،حج کی اِس قربانی کے معاملے کو لیں ، تو وہ آئیڈئیل صورت جس کا پہلے تذکرہ کیا ہے ، اگرچہ اب بھی موجود ہے،لیکن رش اور چند دیگر ناگزیر مجبوریوں کے باعث اب اُس مثالی شکل میں قربانی کی سنت ادا کرنا، ہمارے ایسے عام زائر کے لیے ناممکنات میں سے بن گیاہے۔اِ س کی ایک متبادل شکل یہ قائم ہو گئی ہے کہ سعودیہ کے چند بنک اورکچھ دیگر ادارے وجود میں آگئے ہیں جو حجاج کرام کو یہ سہولت  دیتے ہیں کہ آپ اُن کے پاس قربانی کی رقم جمع کرا دیتے ہیں اور وہ آپ کی طرف سے قربانی کر دیتے اور گوشت بھی تقسیم کر دیتے ہیں۔اِس میں ضرورت اِس امر کی ہوتی ہے کہ آپ کو اُس وقت کا پتہ ہونا چاہیے جب وہ ادارہ آپ کے نام کی قربانی ذبح کرے تاکہ اُ س کے بعد ،آپ اپنا حلق  کروائیں اور احرام اُتاریں۔یہ اشد ضروری امرہے۔تو اِس کی یہ شکل نکالی گئی ہے کہ ادارے والے ایک ترتیب سے قربانیاں ذبح کرتے جاتے ہیں اور مالک کو فون پر بتاتے جاتے ہیں۔لوجی یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔خاکسار پھر بھی اُس آئیڈیل طریقے کو ہی اپناناچا ہتا تھا۔ہماری کمپنی والوں نے اپنے پیکج میں قربانی کو شامل نہیں کیا تھا۔میں بڑا خوش تھا کہ یہ کام میںخود ہی سنت کیا کے مطابق ا نجام دوں گا۔

یہ ارادہ لیے مکہ شریف پہنچ گیا۔یہاں آکرجب اِس کے لیے معلومات لینی شروع کیں تو کوئی بھی اِس کام کا حامی نہ نکلا کہ یہ کام خودکیا جائے۔پرانے تجربہ کاروں نے ایسی ایسی ہوشربا تفصیلات بیان کیں کہ بندہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اِس کام سے توبہ ہی بھلی۔آخریہی فیصلہ کیا چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی۔میں نے اپنے سارے اختیارات حاجی محمدیونس صاحب کے سپردکر دیئے۔حاجی صاحب نے بڑی مشقت اورذمہ داری سے اِس کام کو نبھایااور بدِقت تمام الراجحی بنک سے ہمارے لیے قربانی کا واؤچر لینے میں کامیاب ہو گئے۔بنک والوں سے بات کر کے ،کدائی بلڈنگ میں ہی ،حاجی صاحب نے بتادیاتھا کہ ہم چاروں دوستوں کی قربانیاں ،بینک والے ،دس ذوالحج کو یعنی آج کے دِن،۹ بجے صبح تک یقینی ذبح کر ڈالیں گے اور ہم احتیاطاً دس بجے دِن کے بعد اپنے بال منڈوا لیں گے۔لہٰذا آج صبح ہی منیٰ کیمپ سے چلتے ہوئے ہم چاروںدوست یہ طے کرکے چلے تھے کہ ہم رمی جمرہ عقبہ کے بعد،مکہ چلے جائیں گے اور گیارہ بجے وہیں حلق کروا کر ،طواف زیارہ کرکے ہی،منیٰ واپس آئیں گے۔ اب ہم بڑے شیطان کو کنکریاں مار چکے تھے اور مکہ جانے کے لیے جمرات کی عمارت سے باہر نکل آئے۔

قصہ ہمارے حلق کا:

جمرات بلڈنگ کے منیٰ والے سِرے سے داخل ہوئے تھے اور آخری جمرہ کو کنکریاں مارنے کے بعد، بلڈنگ کے مکہ شریف والے سِرے سے باہر نکلے۔بلڈنگ کے اندر کا پیدل سفر ،اُس سے پہلے کیمپ سے بلڈنگ تک کا پیدل سفر اوراب بلڈنگ سے نکل کر ٹیکسی اسٹینڈ تک کا سفر بھی اندازاً چار پانچ کلو میٹر بن چکا ہوگا۔ٹانگیں اشاروں اشاروں میں ،کہہ رہی تھی ’’ساڈی بس جے‘‘ لیکن جوش و جذبہ ابھی جوان تھا۔ ٹانگوں کے اشارے سمجھ کر اور آئندہ طواف و سعی کی پیدل مارچ کے پیش نظر،یہی فیصلہ کیا کہ حرم تک ٹیکسی پر جایا جائے۔اِ س کے لیے ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف مارچ جاری تھا۔راستے کے مختلف دِل کش اور منٹھار مناظر کا لطف اُٹھاتے،ٹیکسی اسٹینڈ تک پہنچے۔ایک دو مقامات پر پولیس کے سپاہیوں نے ہمیں اور جواباًہم نے اُن کو عید مبارک دی۔اِس سے ہمیں یاد آیا کہ آج سعودی عرب سمیت ،عرب ممالک میں، عید الاضحی کا دِن ہے۔عید کے دِن ، ہمارے ہاں جو، ایک میلے کا سا سماں ہوتا ہے ،وہ تو کہیں نظر نہیں آیا اور نہ ہی ہمارے ہاں کی طرح ،گلیوں اور پارکوں اور سڑک کناروں پر قربانی کے جانور ذبح ہوتے دیکھے اور نہ ہی ایک دوسرے کو جپھیاں ڈالتے اور ملتے ملاتے دیکھا۔سوچا کہ ایسا ، شاید اِس لیے بھی ہو کہ، بہر حال یہ منیٰ کے قریب کا علاقہ تھا جو حجاج کرام سے بھرا ہوا تھا جن کے لیے آج کے دِن کی دیگراہم مصروفیات تھیںجن میں عید نماز ،خطبہ عید اور عید کی میل ملاقات شامل نہیں ہے اور یہاں اِس علاقہ میں مقامی لوگوں کی موجودگی کا امکان نہیں تھا۔ہمیں نظر بھی یہی آرہا تھا کہ جہاں تک نظر جاتی تھی کفن میں ملبوس زائرین ہی زائرین تھے۔اِس لیے یہاں عید کی سرگرمیاں مفقود تھیں۔

ٹیکسی اسٹینڈ تک پہنچے تو وہاں بھی رش ہی رش تھا۔ٹیکسیاں اور ویگنیں کم تھیں اور اُن کے چاہنے والے لاتعداد۔لہٰذا توقع تھی کہ آج اِن کے کرایے بھی زیادہ ہوں گے۔ایک حد تک ہم تیار بھی تھے۔ہمارا خیال تھا،اور یہ خیال ہمارے تجربہ کار امیر حاجی محمد یونس صاحب کا تھا،کہ دس ریال کی بجائے ،آج بیس دینے پڑیں گے لیکن جب ٹیکسی والوں سے بات کی تو وہ دس کی بجائے سو ریال فی بندہ طلب کر رہے تھے اور اِس سے کم کرنے کے مطالبے کو پائے حقارت سے ٹھکرا رہے تھے۔مرتا کیا نہ کرتا،چار پانچ ٹیکسی ڈرائیور صاحبان سے بات کرنے کے بعد،ہم بھی اِس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ یہ جیتے ،ہم ہارے،جتنے ریالوں میں بھی، آج ٹیکسی حاصل ہوجائے غنیمت ہے ،سو، دوڑ دھوپ کر کے ،آخرکار ،ہم ایک ایسی کوسٹرمیں زبردستی گھسنے میں کامیاب ہوگئے، جس کا ڈرائیور سو ،سوریال فی بندہ ، کرایہ طلب کر رہا تھا۔گاڑی اچھی حالت میںتھی،سخت گرمی اور دھوپ کے بعد،یہ ایئر کنڈیشنڈ گاڑی ،ہمارے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔کم و بیش ایک گھنٹہ مکہ شریف کی مختلف سڑکوں پر ،یہ دوڑتی بھاگتی رہی اورٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر، ہم اپنے حواس بحال کرتے رہے اور اگلی مشقت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتے رہے۔اِس سارے سفر میں بھی ،مذکورہ بالا عید الاضحی کی مصروفیت و مشغولیت،ہمیں کہیں نظر نہ آئی۔بھلا ہو وین ڈرائیور کا،کہ اُس نے ہمیں حرم کے قریب ترین علاقے میں لا اُتارا۔ مکہ ٹاور کے قریب کوسٹر رک گئی اور ہم سب خوشی خوشی نیچے اُتر آئے۔دس بج چکے تھے۔ ہم ابھی احرام میں تھے۔بنک کے دیئے ہوئے شیڈول کے مطابق،ہماری قربانیاں ذبح ہو چکی ہونگی سو اب ہم ،شرعاً، اپنے بال منڈوا سکتے تھے،اِس لیے پہلے ہم نے حجام کی دُکان پر جاکر حلق کروانے کا فیصلہ کیا۔مکہ ٹاور قریب تھا،وہاں پر باربر شاپس تھیں ،پہلے بھی، عمرہ کے وقت،ہم، وہاں سے حلق کروا چکے تھے، لہٰذا اُسی دکان پر جانے کا فیصلہ کیا۔ہم چونکہ ایک اور سمت سے مکہ ٹاور میں داخل ہوئے تھے ،لہٰذا باربر شاپس تک کافی چلنا پڑا،وہاں پہنچے تودیکھا کہ ہر دکان کے آگے لمبی لمبی لائینں اور وہ بھی بے ترتیب،لگی ہوئی ہیں اور دکاندار، جہاں پہلے پانچ ریال فی حجامت ،دام لیا کرتے تھے ،آج چالیس چالیس ریال فی ٹنڈ طلب کر رہے تھے۔ کسی قسم کی بحث کی تو گنجائش ہی نہ تھی۔یہ دیکھ کر ہمارے توہوش ہی اُڑ گئے ، آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا،والی بات تھی،پہلے کوسٹر ڈرائیور کے ڈنگے آئے تھے اب حجام سے ڈسے جانے کی باری تھی۔رش بھی بہت تھا ، مہنگائی بھی بہت تھی ،سوچا کہ یہاں سے چلیں،کہیں اور ٹرائی کرتے ہیں۔

 وہاں سے نکل آئے اورکبوتر چوک کی طرف چل پڑے ۔راستے میں ہمارے اکرم صاحب نے تجویز دی کہ اُسترا اور دیگر چیزیں ،خود سے خرید لیتے ہیں اور خود ہی ایک دوسرے کے بال مونڈ دیتے ہیں ۔ اچھی تجویز تھی،سستی بھی اور قدرے تھرل بھی ۔جونہی مکہ ٹاور سے ،کبوتر چوک کی طرف کو نکلے تو ایک کونے میں کچھ لوگ خود ہی اِس کام میں لگے تھے۔اُن کو دیکھ کر ہمارا بھی حوصلہ بڑھا اور اکرم صاحب کی تجویز پر عمل کرنے کا سوچالیکن اگلے ہی لمحے یہ حوصلے ٹوٹ گئے جب پولیس والوں نے اُن پریکدم حملہ کر دیا اوراُن بے چاروں کو’’آدھ منڈے سروں ‘‘سمیت وہاں سے بھگا دیا۔اِس صورتحال کا لطف لیتے ، ہم کبوتر چوک کی طرف چلتے رہے اور شاہراہ ابراہیم خلیل کی ایک گلی میں گھس گئے۔وہاں پر موجود حجام کی ایک دکان کے آگے بھی ایک طویل لائن لگی تھی اور وہ تیس تیس ریال طلب کر رہا تھا۔ہم ابھی سوچ بچار میں تھے کہ لائن میں لگیں یا نہ لگیں ،کہ ہمارے ساتھی اکرم صاحب ،کسی قریبی بقالے سے اُسترا اور بلیڈلے آئے اور کہا کہ تشریف لائیے،اپنی خدمت آپ کرتے ہیں۔اُن کے اِس نادراور دلچسپ خیال پر ہم سب نے صاد کیا اور قریب والی ایک اور گلی میں گھس گئے۔ ایک موڑلینے کے بعد،دیکھا کہ وہاں پہلے ہی دوتین زائرین اپنی’’ حجامت ‘‘بنانے میں مصروف ہیں۔ہم بھی گلی کے ایک کونے میں’’ پوزیشن ‘‘لینے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اُن میں ایک عربی چوغے میں ملبوس نوجوان ،ہاتھ کے اشارے سے ،اور زبان سے لا ،لا کرتا ہماری طرف بڑھا،اور ہم ڈر سے گئے کہ یہ اب ہمیں کہیں،یہاں سے بھگاہی نہ دے،لیکن اُس بھلے مانس نے اپنی زبان سے اور اشاروں سے ہمیں یہ سمجھایا کہ آپ احرام میں ہیں اور آپ اپنے بال نہیں کاٹ سکتے ،یہ حرام ہے۔اُس نے آفر کی کہ میں آپ میں سے کسی ایک کی حجامت کر دیتا ہوں ،بعدمیں وہ ساتھی آپ لوگوں کی حجامت کر دے تو یہ شرعاً ٹھیک ہوگا ۔ ہماری رائے میں اگرچہ گنجائش تھی لیکن اُس کا مشورہ صائب بھی تھا اور مخلصانہ بھی لہٰذا ہم نے مسکرا کر اُس کی اِس آفر کو قبول کر لیا۔پہلے والے بندوں سے فارغ ہوکر،وہ عرب نوجوان ہماری طرف بڑھا اور ہمارے حاجی صاحب کو اُس نے منٹوں میں’’ حلال ‘‘ کر دیااور ہاتھ ہلاتے ہوئے چلتا بنا،جب کہ ہم سوچ رہے تھے کہ یہ ابھی ہم سے کچھ ریال طلب کرے گا اورذہناًہم تیار بھی تھے دس بیس ریال کے لیے لیکن بھلا ہواُس کاکہ ایساکچھ نہ ہوا ۔ پھر باری باری حاجی صاحب نے ہم سب کی’’ حجامت ‘‘بنائی اور خوب بنائی۔اب ہم احرام سے نکل چکے تھے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے حرم کی طرف ،طواف زیارت کے لیے چل پڑے۔ اب دِن کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔    

طواف زیارت:

ہمارے حج کا پراسیس ،آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔اِس وقت ہم حج کے دوسرے اہم رکن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔یہ رکن طواف زیارت ہے اور اُس کے بعد سعی بھی کرنی ہوتی ہے ۔یہی وہ طواف ہے جس کی مشکلات کا تصور کرکے ،یہ خاکسار خوف زدہ ہو جایا کرتا تھا۔یہی وہ طواف ہے جس میں بے پناہ ہجوم اور اژدہام کی کہانیاں سن رکھی تھیں۔یہی وہ طواف ہے جس میں سب سے زیادہ رش کی توقع کی جاتی تھی اور آج ،اللہ کریم کے فضل و کرم سے ،مختلف مراحل طے کرتے ہوئے ،یہ خاکسار اِس تک آ پہنچا تھا۔’’کیوں نہ تازہ وضو کر لیا جائے ؟ جاکرطواف بھی کرنا ہے اور اِس درمیان نماز ظہر بھی آجائے گی۔‘‘شکیل بھائی نے مشورہ دیا۔ بات ٹھیک تھی۔ہمیں فریش اپ ہونے کی ضرورت بھی تھی لہٰذا ہم سب نے اِس مشورے پر صاد کیا اور حرم کے بیرونی صحن کے زیر زمین واقع،۸۔نمبر کے غسلخانے کی طرف رُخ کر لیا۔یہاں پراتنا رش تو نہیں تھا لیکن ہمارا ایک ساتھی ہم سے جدا ہو ہی گیا۔اکرم صاحب کا کافی دیر انتظار کیا لیکن وہ نہ آئے تو ہم باقی تینوں مسجد کی طرف چل پڑے اور باب عبد العزیز سے مسجدکے اندر داخل ہوئے۔

اتنے میں مسجد الحرام میںظہر کی اذان بلند ہوئی۔آذان کے ساتھ ہی ،بغیر کوئی وقفہ کیے ،جماعت کے لیے اقامت بھی شروع ہوگئی اور اُس کے ساتھ ہی امام صاحب نے نماز بھی پڑھا دی۔

پیارے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حجۃ الوداع کا مبارک سفر میری آنکھوں کے سامنے رہتا تھا۔جب سے کوسٹر میں بیٹھ کر حرم کی طرف آ رہے تھے تو میں مسلسل اِس مقدس سفر کو سوچتا رہتا۔روایات میں آتا ہے کہ دس ذوالحج کو حضور  ﷺ نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں،قربان گاہ تشریف لے گئے اور ۶۰ اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح فرمائے ،پھر آپ ؐنے،منیٰ میں ہی، حجام کے پاس جاکر اپنا سر مبارک منڈوایا اور اپنے بال صحابہ میں تقسیم فرمائے۔اِس کے بعد پیارے آقا  ﷺ حرم تشریف لے آئے۔یہاں آپ ؐ نے طوا ف زیارت فرمایا ،سعی فرمائی اور ظہر کی نماز واپس منیٰ جاکر ادا فرمائی۔   ہماری ظہر کی نماز حرم میں ہو رہی تھی۔میں اِس نظام الاوقات پر غور کر تا آرہا تھا۔ہم بھی انھی راہوں پر تھے۔مقامات حج اب بھی وہی تھے، فاصلےبھی وہی تھے۔ ہمارے پاس جدید ذرائع سفربھی ہیں اور آپ ﷺ گو اونٹنی پر تھے لیکن رفتار تو پیدل برابر ہی تھی۔آپ ؐ نے تو قربان گاہ میں بھی کافی زیادہ وقت خرچ کیا ہوگا،ساٹھ اونٹ ذبح کرنا ،ایک معانی رکھتا ہے،ہم توساٹھ مرغیاں نہیں ذبح کر سکتے،پھر بھی آپ ؐ طواف و سعی سے فارغ ہوکر نماز ظہر ،واپس منیٰ جا کر ادا فرمائی اوراتنے تیز رفتار دور میں ،ہم نماز ظہر حرم میں اداکر رہے تھے۔اُس دور کی مشکلات اور تھیں آج کے دور کی مشکلات اور ہیں۔چشم تصور میں ،یہ عاجز اِس پورے سفر میںاپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ ہی رہا تھا۔

نماز ظہر کے بعد ،طواف کے لیے ہم ،پہلی منزل کے برآمدوں والے مطاف میں آ گئے۔ہم تین ساتھی تھے،حاجی صاحب ،شکیل بھائی اور خاکسار،چوتھے ساتھی اکرم صاحب ہم سے جدا ہو گئے تھے،ویسے بھی اُن کو نیچے مطاف میں طواف کرنے کا مزا آتا تھا۔نیچے، صحن والا مطاف زائرین سے (packed)تھا۔دوپہر کا ایک بج چکا تھا۔ سورج سوا نیزے پر تھا۔ہم تو سایہ دار ،ہوادار اور ٹھنڈے برآمدوں تھے۔قابل رشک تھے وہ لوگ ،جو اِس کڑی دھوپ میں ،انگارے برساتے سورج میں،دیوانہ وار طواف کے پھیرے لے رہے تھے۔

شکیل بھائی نے اِس منظر کے ایک دو شاٹس اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیے۔ اور پھر ہم نے اپنا طواف شروع کر دیا۔

برآمدوں میں بھی رش تھا اور اچھا خاصا رش تھا لیکن پھر بھی ایسا نہیں کہ دم گھٹے یا کندھے سے کندھا چھلے۔ایک بے خودی کا عالم تھا،سب اپنی اپنی دعاؤں اور التجاؤں میںمصروف تھے۔کسی کو کسی کی خبرنہ تھی۔اِس عالم بے خودی میں بھی ، حاجی صاحب ہم دونوںکا خیال رکھ رہے تھے ۔ ہم تقریباً اکٹھے ہی چل رہے تھے۔

یہ طواف خصوصی طواف تھا۔حج کا طواف تھا۔ہر پھیرے کے ساتھ، ہم حج ایسی عظیم عبادت کو مکمل کر رہے تھے۔ میرے مالک کی ،اِس عاجز پرایک عطا تھی کہ جو نازل ہورہی تھی، میں کہاں تھا اِس جودوکرم کے قابل،کہ کعبے کے گرد میں،یوں پھیرے لگاتا۔وہ طواف زیارت جس کا خوف ہفتوں مجھ پر سوار رہا،آج کس نرمی،سکون اور پیارسے مکمل ہورہا تھا۔جوں جوں یہ طواف مکمل ہو رہا تھامیں خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔حمد وشکرانوں میں اضافہ ہورہا تھا۔آنکھوں کے ذریعے دریا بہہ رہے تھے۔اتنے میںحاجی صاحب نے تنبیہ جاری فرمائی،آہستگی سے کہا کہ ، ’’ ڈاکٹر!آخری چکر شروع ہو چکا ہے۔‘‘ ہماری مناجات میں بھی آخری التجا کا عنصرشامل ہو جاتا ہے۔ طواف میں رش ، پہلے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ آہوں اور سسکیوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔طواف کی رفتار قدرے آہستہ ہوچکی ہے ۔طواف کے شروع میں،سبز بتی کے پاس،طواف آہستہ ہو جاتا تھا۔ہمارا،طواف سے نکلنے کا وقت آگیا تھا، دِل نے چاہا کہ ایک زوردار نعرہ تشکر بلند کروںکہ آج میرے مالک نے کتنا بڑا کرم فرمایا تھاکہ میں’’ حاجی‘‘ بن چکاتھا۔حج کے دو ارکان اعظم پورے ہو چکے تھے۔الحمد للہ علیٰ ذالک

’’حاجی صاحب ،مبارک ہو ،طواف زیارت مکمل ہوگیا،آیئے اب سعی کے لیے چلیں۔‘‘میں نے عرض کی ۔حاجی صاحب نے کہا،’’ جی ، خیر مبارک،منڈے نوں وی بلاؤ، او ویکھو ،فوٹواں لینڑ لگیاجے ،سعی ول چلنے آں۔‘‘حاجی صاحب کا شکیل بھائی کی طرف اشارہ تھا۔

 سعی اور منیٰ واپسی:

حرم میں اب بے پناہ رش ہو چکا تھا۔ایسا رش ،جس کی ہولناکیوں کے قصے سنا کرتے تھے۔لوگ دھڑا دھڑ منیٰ سے طواف زیارت کے لیے آرہے تھے۔مطاف اور مسعیٰ میں تو،رش تھا ہی تھا،مسجد الحرام میں راستے بند ہو رہے تھے یعنی جو لوگ طواف اور سعی میں نہیں تھے ،اُن کا بھی مسجد میں چلنا پھرنا مشکل ہو رہا تھا۔بڑی مشکل سے ہم مسعیٰ کی طر ف راستہ بنا پائے اور بالآخر بدقت تمام ،ہم صفاتک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور وہاں پہنچ کر،سنت کے مطابق سعی شروع کی۔طواف کی طرح ،اگرچہ یہاں بھی رش تھا لیکن ،الحمدللہ ،سعی کے چکر بڑے اطمینان سے پورے ہوئے اور اِن چکروں میں جو مقدر تھا ،اللہ کریم سے عاجزانہ، اپنے لیے اور اپنے تمام اعزا اور احباب کے لیے خوب خوب دعائیں اور التجائیں کیں۔سعی کے پھیروں کے دوران میں ہی ،ہمیں اپنے چوتھے ساتھی ،برادرم اکرم صاحب بھی مل گئے۔مرویٰ پر ،حسب معمول ،ہمارا آخری چکر مکمل ہوا۔اب ہم نے مسجد پاک سے باہر نکلنا تھااورٹیکسی اسٹینڈ پر جانا تھاجوکہ مکہ ٹاور کے ساتھ زیر زمین تھا۔یہ کافی طویل فاصلہ بنتا ہے۔مسجد کے اندر کے راستوں پر ہجوم ،ہم پہلے ہی دیکھ آئے تھے۔اکرم صاحب نے تجویز دی اور باقیوں نے اِس پر صاد کیا کہ باب السلام سے نکل کر ،دائیں ہاتھ پر چلتے ہوئے باب عبدالعزیز کے باہری صحن میں جانا چاہیے۔عام حالات میں ،یہ راستہ ٹیکسی اسٹینڈ تک جانے کے لیے مختصر ترین راستہ تھا،سو ہم باہر نکلے اور جب آگے بڑھے تو ہماری شومئی قسمت کہ پولیس نے وہ مذکورہ دائیں طرف والا راستہ، بند کیا ہوا تھااور مذکورہ ٹیکسی اسٹیند تک پہنچنے کے لیے، اب ہمیں،متبادل کے طور پرایک انتہائی طویل راستہ اختیارکرنا پڑے گا۔اُوپرسے سورج بھی کہتا تھا کہ آج کے دِن میں نے بھی اپنی حرارت کی آخری حد تک جانا ہے۔شدید دھوپ اور انتہا کی گرمی،پسینہ ہی پسینہ، پیاس ہی پیاس جو زم زم پینے پر بھی نہ بجھے۔شدید تنگی کا عالم۔صبح چاربجے کے ہم،مزدلفہ سے مسلسل پیدل چل رہے تھے اِس پورے سفر میں اب جا کر ہمیں شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہاتھا۔بہر حال صبر کر رہے تھے اور آسانیوں کی دعائیں مانگ رہے تھے۔اللہ کریم نے یہ آسانی مہیا کردی۔حاجی صاحب نے اب ،مذکورہ ٹیکسی اسٹینڈپر جانے کا آئیڈیا تبدیل کر دیا۔ہم اب مسجد الحرام کے مشرقی اور شمال مشرقی باہری صحن میں خاصی دُور آچکے تھے۔یہاں پر ایک بس اسٹینڈ تھا جو ہم قبل ازیں،جنت المعلیٰ کی سیر کرتے ہوئے دیکھ چکے تھے اور یہاں ایک ٹیکسی اسٹینڈ بھی تھا،لہٰذا،اب ہم اُدھر کو مڑ گئے۔اتنے میں مسجد الحرام میں عصر کی آذان کی صدا بلند ہوئی۔بس اسٹینڈ پر کافی رش تھا،بس پر سوار ہونے کی کوشش کی لیکن دھکم پیل اور بد نظمی اتنی شدید تھی کہ اِس خیال کو بھی ترک کرنا پڑا۔ راستے میں مختلف لوگوں سے، بس اسٹینڈ پر اور ایک دو ٹیکسی والوں سے پوچھ گچھ کے بعد یہ اندازہ ہوگیا کہ منیٰ کے اندر تو کسی قسم کی کوئی سواری نہیں جا سکتی۔جو بھی بس یا ٹیکسی ہوگی وہ منیٰ کے باہر ہی اُتارے گی اور آگے پیدل مارچ،جس کا تجربہ صبح ہم کر چکے تھے۔اُس پیدل مارچ کا سوچ سوچ کرہول اُٹھتے تھے،لیکن جانا تو تھا ،اور کوئی متبادل تو تھا نہیں ،اِس لیے حوصلے ابھی ٹوٹے نہیں تھے۔حاجی صاحب ہمیں لیڈ کر رہے تھے۔وہ ہم میں سے سب سے زیادہ بوڑھے تھے اور قدرے رنجیدہ بھی تھے کہ اُن کی رائے کے بغیر باب السلام سے باہر کیوں نکلے ،لیکن بہرحال وہ ہمیں رہنمائی دے رہے تھے اور ہر مقام پر مناسب بات چیت بھی کر رہےتھے۔اچانک ہی انھوں نے ہمیں آواز دی ،جلدی پہنچو ،میں نے ٹیکسی سے بات طے کر لی ہے۔وہ ایک ٹیکسی والے کا دروازہ کھولے ،ہمیں جلدی جلدی کہہ کر بلا رہے تھے ،ہم بھی بھاگ کر ،چھلانگ مار کر ٹیکسی میں سوار ہوگئے۔یہ جلدی اِس لیے تھی کہ ٹیکسی والا روڈ پر تھا اورپولیس کے ڈر سے ، وہ وہاں رک نہیں سکتا تھا۔ٹیکسی میں بیٹھتے ہی ہماری جان میں بھی جان آئی۔ گاڑی کا موسم معقول طور پر سردتھا،گرمی اور دھوپ کے مارے ،گویا جنت میں آگئے۔

ذرا حواس بحال ہوئے تو حاجی صاحب نے بتایاکہ یہ ہمیںمنیٰ سے باہر ہی ،فلاں جگہ پر اُتارے گا،اُس سے آگے یہ نہیں جا سکتا،وہاں سے ہم پیدل اپنی کیمپ تک جائیں گے۔بہر حال،اِن حالات میں جو کچھ مل رہا تھا وہی غنیمت تھا۔شکر، الحمدللہ،ہم پرسکون ہوگئے۔اُس نے ہمیں کہاں اُتارا،افسوس کہ اُس اسٹاپ ،یا اُس علاقے کا پتہ نہ لگا سکا۔ہمارے سامنے ایک سرنگ تھی،جس کا نا م کنگ عبداللہ سرنگ تھا۔اُس کے بقول ،اِس سرنگ کے دوسرے کنارے پر منیٰ شروع ہو جاتا ہے ،آگے ،ہمارا کیمپ کہاں اور کتنی دُور ہوگا ،اِس کی کسی کو خبر نہیں تھی۔ 

ٹیکسی سے باہر نکلے۔اچھا پررونق علاقہ لگ رہا تھا۔حجاج کرام کا رش بھی موجود تھا اور دیگر لوگ بھی نظر آرہے تھے۔سڑک کے دوسرے کنارے ہمیں ایک مسجد نظر آئی ،اُس کی طرف دوڑ کر گئے،جیسے ہم مدتوں سے ،اِس سے بچھڑے ہوئے ہوں۔سب سے پہلے توواش روم استعمال کیے،وضو بنایا اور نماز عصر ادا کی۔مسجد کے اندر ٹھندے پانی کی بوتلیں رکھی تھیں اور اچھی ،مزے دار کھجور بھی موجود تھی۔ مسافران حرم کے لیے یہ دونوں چیزیں جنت کے تحائف ثابت ہوئے،خوب جی بھر کراستفادہ کیا۔نماز کے بعدکچھ دیر کے لیے مسجد میں لیٹ گئے۔مسجد کے اندرلمحہ بھر کی اِس استراحت نے ،ہم سب کوتازہ دَم کردیا گویاہمارے اندر زندگی لوٹ آئی۔ابھی دَم نہ لینے پائے تھے ،کہ ہمارے لیڈر نے ہمیں کھڑا کر دیا۔حاجی صاحب نے ہمیں منیٰ کی طرف ہانک دیا۔ یہاں پر بھی ایک بس اسٹیند تھا جہاں سے لال بسیں منیٰ کے اندر جا رہی تھیں،اُن کے علاوہ کسی اورکار، گاڑی ،بس یا ٹیکسی کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ہم بس کی طرف بڑھے لیکن وہی دھکم پیل اورہلڑ بازی جو وہاں حرم کے قریب  والے بس اسٹینڈ پر دیکھی تھی،یہاں بھی بدرجہ اتم موجود تھی،اِس لیے ہمت نہ پڑی اورہم پیدل ہی روانہ ہوگئے۔ سرنگ کی طرف کچھ چڑھائی تھی بلکہ اچھی خاصی چڑھائی تھی لیکن ،یہ خاکسار،چربی کا پہاڑ،بڑی آسانی سے ،بغیر سانس پھولے چڑھ رہا تھا اور پھر ہم سرنگ میں داخل ہوگئے۔زندگی میں پہلی بار کسی سرنگ میں پیدل چل رہا تھا۔عجیب فرحت انگیز سفرتھا۔نہایت شاندار،وسیع وعریض،ہوداراورروشن سرنگ تھی۔نہ جانے کس پہاڑ کے اندر سے بنائی گئی تھی۔مکہ شریف اور منیٰ کو ملا رہی تھی۔اندر کا ٹمپریچر بھی آرام دہ تھا۔دورویہ سڑکیں چل رہی تھیں جن میں سے ایک کو ،پیدل چلنے والوں کی سہولت کے لیے ،ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔کم وبیش دو کلو میٹر کا یہ سفر توضرورہوگا۔سرنگ کی اونچائی بہت زیادہ تھی۔ہم بڑے اطمینان سے چل رہے تھے۔زائرین کی ایک بہت بڑی تعداد ہمارے ساتھ تھی۔جب سرنگ کے دوسرے سرے پر پہنچے تو سامنے منیٰ شریف کے شاندار مناظر ہماری نگاہوں کے سامنے تھے۔ہمارا ٹھکانہ کہاں تھا ،ابھی نہیں معلوم تھا لیکن یہ تو تسلی ہوگئی تھی کہ ہم منیٰ واپس آگئے تھے۔حج کے مناسک اور لوازمات میں سے ایک یہ بھی تھا زائر نے یہ راتیںمنیٰ میں گزارنی ہوتی ہیں،مکہ یا کہیں اور نہیں گزار سکتے۔منیٰ میں واپس پہنچ آنے کی ہمیں بے حد خوشی ہورہی تھی۔منیٰ میں ہمیں کہاں جانا تھا ،اِس کی خبر ہمارے لیڈر کو بخوبی تھی،اِس لیے ہم بالکل مطمئن تھے۔لیڈر صاحب پولیس والوں کے پاس پہنچ کر ،عربی زبان میں ہی،اتا پتا معلوم کر رہے تھے۔حاجی صاحب واپس آئے تو ہمیں ،ایک بار پھر مارچ کا حکم جاری فرمایا۔حاجی صاحب ،ایک پہاڑ کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے، کہ،’’ ہمارا خیمہ تو وہ سامنے والی پہاڑی پر ہے لیکن ،اُس طرف کو جمرات کو جانے والوں کے راستے ہیں، اِس لیے پولیس نے اُدھر کو جانا منع کیا ہوا ہے۔اب ہمیں ایک لمبا چکر کاٹ کر اپنے خیمہ میں پہنچنا ہو گا،جس کا راستہ ،پولیس سے میں سمجھ آیا ہوں ،آیئے چلیں۔‘‘ہم آمنا و صدقنا کہتے ہوئے،اُن کے پیچھے  ہو لیے ،ہم اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ہم نے ایک لمبا یو ٹرن لینا تھا۔سورج ڈھل رہا تھا لیکن اُس کی تمازت میں کمی نہیں آئی تھی۔ہم پسینے سے شرابورپیدل چل رہے تھے۔اگرچہ ہم احرام سے نکل چکے تھے لیکن ابھی احرام کی دو چادروں میں ہی تھے۔گرمی کی شدت کو کم کرنے اورپسنیہ پونچھنے ، چادر کو گیلا کر کے جسم پر پھیلانے کی اور سر کو ڈھانپنے کی سہولت موجود تھی۔

ہم منیٰ کے اندر تھے ۔ہم اِس پیدل مارچ کو انجوائے کر رہے تھے۔ہر طرف خیمے ہی خیمے اور اُن کے اندر دمکتے چہروں والے زائرین کرام اور منیٰ شریف کے طرح طرح کے دیگرپرلطف مناظر ہمار ا دِل لبھا رہے تھے بلکہ ہمارے دِل و دماغ کو مصروف رکھے ہوئے تھے جس سے ہمارا سفر آسانی سے کٹ رہا تھا ۔سینکڑوں لوگ جمرات کی طرف نعرے لگاتے جا رہے تھے۔کئی لوگ اپنے اپنے خیموں کے باہر کھڑے گپ شپ لگا رہے تھے۔جس شاہراہ پر ہم چل رہے تھے اُس کے ایک طرف کو منیٰ کی تاریخی مسجد،مسجد خیف بھی نظر آرہی تھی لیکن خواہش کے باوجود ،ہم اُدھرکو نہ جا سکے۔اور پھر ،آخر کار ہم اپنے اُس اسٹاپ پر پہنچ ہی گئے، جہاں سے ہم نے شٹل سروس لینی ہوتی تھی۔دو چار منٹ شٹل کا انتظار کیا ،کوسٹر آگئی اور ہم اُس کے ذریعے اپنے خیمے میں بخیریت پہنچ گئے۔الحمد للہ کہ ہم اصحاب اربعہ ، اپنے خیمہ گروپ ،میں وہ پہلے بندے تھے جو آج ہی آج میں ،اب تک کے اپنے سارے مناسک حج مکمل کر چکے تھے۔ فوری طور پر کپڑے تبدیل کیئے اور اتنے میں ،خیموں میں اذان مغرب کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔

الحمد للہ علیٰ ذالک،

آج نہایت عمدہ اور شاندار دِن گزرا۔سحری سے لے کر مغرب تک ،مسلسل پیدل چلتے رہے ،اور یہ چلنا بھی ایسا چلناتھاکہ جس کا ہر قدم ، اللہ کریم کی عبادت کی طرف اُٹھتا تھا اور ہر قدم ہمیں زندگی میں،پہلی بار ملنے والی، ایک نعمت عظمیٰ کی طرف اُٹھتا تھایعنی فریضہ یعنی حج کی تکمیل طرف اُٹھتا تھا۔ ہرلمحہ اللہ پاک کے ذکر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کی تصوراتی ورق گردانی میں گزراکیونکہ ہم پیارے آقا  ﷺ  کے دیس میں تھے۔

یہ محض عطائے رب جلیل تھی ،ہمارا اِس میں کوئی کمال نہ تھا۔ (جاری ہے)