الفت کے راستے پر؍ قسط 24

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : دسمبر 2021

  ایّام تشریق                              
  11‘12‘13ذوالحج)
وفات حسرت آیات: 
یہاں سعودیہ میں،۱۱۔ذوالحجہ کا سورج، جب طلوع ہوا تووہاں وطن عزیز میں، یہ عیدالاضحی کا مبارک دِن تھا۔صبح ہی سے بچوں کے اور اعزہ اقارب اور احباب کرام کے پیغامات تہنیت وصول ہو رہے تھے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ہم عید الاضحی کے موقع پر اہل خانہ کے درمیان میں موجود نہیں تھے لیکن ،الحمدللہ یہ غیرحاضری ،خاکسار کے لیے ایک نعمت عظمیٰ یعنی حج کے حصول کا ذریعہ بن چکی تھی۔آج صبح جب اپنے خیمے میں ہی ہم نماز فجرادا کر رہے تھے توبچوں کا پیغام آگیا کہ وہ حسب معمول قربانی ذبح کر کے گوشت کھا بھی رہے ہیں،الحمد للہ ، لیکن اِدھر ہمارا یہ حال تھا کہ ہم ایک ایسے مقام پر تھے جہاں پرکل سے لاکھوں کے حساب سے جانورذبح ہو رہی تھے،جس میں ہماری اپنی قربانی بھی شامل تھی لیکن ہم کل سے ایک ایک بوٹی کو ترس رہے تھے۔ہے نا عجیب بات!
مناسک حج کے سلسلے کی ،ہماری آج کی ڈیوٹی ،زوال کے بعد،تینوں شیطانوں کو باری باری کنکریاں مارناتھا۔اِس کے لیے ہم سب نے یہ طے کیا تھا کہ ساڑھے بارہ بجے نماز ظہر پڑھ کر،اِس مقصد کے لیے کیمپ سے نکل چلیں گے لہٰذا،بارہ بجے تک ہم فری تھے ،لیکن کل کے پیدل مارچ کی تھکاوٹ اتنی زیادہ تھی کہ سوائے لیٹنے کے اور کوئی کام ممکن نہیں تھا سو، ناشتے کے بعد،۱۲بجے تک سوئے ہی رہے،جب اچانک موبائل کی ٹرن ٹرن پر میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ موبائل ایک پیغام کی آمد پر، حسب معمول ،آنکھیں مار رہا تھا۔پہلے تو اِسے نظر انداز کیا اور سائیڈ بدل کر پھر سے ندیاپور جانے ہی لگا تھا کہ وقت کی نزاکت کا احساس ہوا اور فوراًاُٹھ کر موبائل پکڑا اور وضو کی غرض سے خیمے سے باہر نکل آیا ۔ راستے میں جب موبائل کھولا تو یہ پیغام ایک پیغام موت تھا،جو اِس عاجز کو غمزدہ کر گیا۔ یہ اُستاد ِمحترم حضرت مولانا عبد اللطیف کی وفات حسرت آیات کا پیغام تھا۔  پھر حضرت کی یادیں تھیں،آنسو تھے اوردعائیں تھیں۔منیٰ کی ایک گلی کے کنارے،ایک گوشے میں جی بھر کر رویا اور پھر وضو کر کے خیمے میں واپس آیا تو نماز ظہر کی جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔نماز کے دوران میں اپنے آپ کو سنبھال لیا ،پھر نماز کے بعد، ہم چاروں دوست رمی جمرات کے لیے خیمے سے باہر نکل آئے۔ 
حضرت مولانا عبداللطیف صاحب ؒ میرے بچپن کے دینی اُستاذ ،مربی،رہنما ،محسن اور معاون و مددگار تھے۔اِس خاکسار کے پاس جتنا کچھ دینی علم و فہم ہے اِس کی بنیادوں میں حضرت مولانا رحمہ اللہ کی شفقت ،تعلیم وتربیت اور پیار ومحبت شامل ہے۔توحید کا تصور ،دین کی اجتماعیت کا تصور،دین و دنیا کی یکجائی کا تصور،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری قلبی محبت والفت کے تعلق کاتصور،آخرت کو ترجیح دینے اور اللہ کی رضا کی خاطر ہر عمل کوسرانجام دینے کا تصور،ایسے کئی بنیادی تصورات ہیں کہ جو اِس خاکسار کو ،اپنی ابتدائی زندگی میںہی ،حضرت مولانا رحمہ اللہ کی نیک صحبت سے نصیب ہوگئے تھے اور اُن کی تربیت سے ہی پختہ ترہوئے۔
حضرت مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ، ایسی نابغہ روز گار ہستی سے تعارف اور تعلق اور اُن کی قائم کردہ جماعت ، جماعت اسلامی سے، اِس خاکسار کا تعارف و تعلق، حضرت مولاناعبد اللطیف  ؒہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے  ۔ وہ میرے لیے صرف ایک معلم ومربی ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ایک روحانی باپ کا درجہ رکھتے ہیں۔میں آج جو کچھ بھی ہوں انھی کی تربیت ،رہنمائی اور دعاؤں کے نتیجہ سے ہوں۔ اُن کی وفات میرے لیے ایک ذاتی صدمہ ہے جو مجھے منیٰ کے زمانہ قیام میں پہنچا ۔ اللہ تعالیٰ ،اُنھیں اپنے بہترین جوار رحمت میں جگہ دے اور اُن کی نیکیوں کو بڑھا چڑھا کر اجر عطا فرمائے ۔آمین۔
تقریباً دوپہر کے ایک بجے ہم اپنے کیمپ سے نکلے۔شٹل کوسٹر کے ذریعے پہاڑی سے نیچے اُترے اوراسٹاپ سے دائیں طرف والی سڑک کو ہولیے جو ایک بڑی شاہراہ میں شامل ہورہی تھی جو جمرات بلڈنگ کی طرف جا رہی تھی۔کل جب ہم  جمرۃ الاخریٰ کی رمی کے لیے گئے تھے تو ہمیںجمرات بلڈنگ کے قریب جا کر رش ملا تھا لیکن آج تو، ہمارے شٹل اسٹاپ ، سے ہی ہجوم سے ،ہماراواسطہ پڑ گیاتھا اور جب ذیلی سڑک سے بڑی شاہراہ پر چڑھے توہمارے سامنے انسانوں کا ایک وسیع سمندر موجزن تھا۔ شکیل بھائی کہنے لگے،’’بھائی ،آج تو شیطانوں کی خیر نہیں ، مسلمانوں کا ایک جم غفیر اُن پر حملہ آور ہونے جارہا ہے۔‘‘ میں ہنسا اور عرض کی ،’’بھائی ،ہمیں دیکھ کر تو شیطان بھی ہنستا ہوگا اور کہتا ہوگا،مارو کنکریاں اور روڑے ،مارو ،اور مارو،ریت سیمنٹ کی دیوار ہی ہے نایہ،جتنا مرضی مار لو اِس کو وٹے ،اِس کا کیا بگڑنا ہے ،باقی رہا میں ،تومیری تمھاری توپکی دوستی ہے ناپکی ،ایک بار پاکستان چلوتو سہی، سب وٹ نکال دوں گا۔‘‘
شکیل بھائی کہنے لگے،’’پاکستان کیا جانا ہے یہ تو اِدھر ہی بدلے اُتار رہا ہے۔‘‘
جمرات بلڈنگ کی طرف ،غصے سے بھراہجوم چل رہا تھااور ہم بھی اِس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔شدید گرمی تھی۔روزانہ کی طرح آج بھی سورج سوا نیزے پر چڑھا آنکھیں دِکھا رہا تھا۔کولتار کی سڑکیںآگ اُگلتی تھیں۔کسی قسم کے سائے کا نام و نشان تک نہ تھا۔خاکسار نے ،گو،سر پر چھتری تانی ہوئی تھی لیکن سورج کی شعائیں چھتری کے اندر سے ،سروں میں چھید کر رہی تھیں۔حالانکہ میں نے سر پر رومال بھی باندھا ہوا تھا پھر بھی میرا دماغ اُبلتا تھا۔موسم کی اِس شدت کے باوجودہمارے اندر اطمینان بہت تھا۔ہم ذکر کر رہے تھے۔استغفار اور معافیاں طلب کر رہے تھے۔شیطان لعین کے ساتھ ہماری جو جنگ جاری تھی ،اُس میں اپنے اللہ پاک سے عہد وپیمان کر رہے تھے کہ ’’ہم صرف تیری رضا کی خاطر جیتے ہیںاور مرتے ہیں۔ہم نفس کے نہیں ،اےمالک ! تیرے نوکر ہیں،تیرے بندے ہیں۔‘‘ہم سب دعائیں کر رہے تھے۔التجائیں کر رہے تھے۔
اُستاد محترم ،جن کی جدائی کی خبر آج ہی موصول ہوئی تھی، بہت یاد آرہے تھے اور اُن کے لیے بھی بادل برساتی آنکھوں میںدعائیں جاری تھیں ۔اُن کی مغفرت کی التجائیں جاری تھیں۔ہر طرف اللہ کریم کا ذکر جاری تھا۔تسبیح و تہلیل جاری تھی۔اللہ اکبر کے ترانے تھے۔یہ سب رحمان و رحیم کے دیوانے تھے۔میں سوچ رہا تھا کہ اس ہجوم میں کتنوں کو خبر ہوگی کہ جمرات پرکنکریاں برسانا ایک تمثیل ہے ،ایک علامت ہے،ایک تاریخ ہے،ایک عہد ہے ایک وعدہ ہے اپنے اللہ پاک سے،یہ عبادت کا عمل ہے۔یہ اللہ کی اطاعت اور غلامی میں پختہ تر ہونے کا عہد ہے۔یہ رمی دراصل ابلیس پر لعنت اوراُس کے خلاف جنگ کی علامت ہے۔اور یہ کہ یہ سنگباری تو صرف دو تین دِن ہی ہے لیکن دراصل یہ تیاری ہے ساری زندگی کے لیے شیطان لعین کے ساتھ ہر لمحے کی کشاکش اور لڑائی کے لیے۔یہ سنگباری ،اس عزم کا اظہار ہے کہ بندہ مومن ایک اللہ کریم کی بڑائی اور عظمت کا قائل ہے اور رہے گا اور اِس کے خلاف شیطان کی ہر اُکساہٹ کا مقابلہ کرے گا۔ 
جمرات بلڈنگ کی طرف ،غصے سے بھراہجوم چل رہا تھااور ہم بھی اِس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔گرمی کی شدت تھی۔کڑی دھوپ تھی۔ایسے میں وہ چند پھوارے ،جو حکومت وقت نے لگائے تھے اپنا کام بخوبی انجام دے رہے تھے ۔ چند لمحوں کی پھوار،کافی دیرتک اپنااثر چھوڑتی تھی۔ہجوم تقسیم ہونے لگا،کوئی اُوپر کی منزل کو جانے لگا،کوئی نیچے کی منزل کو اور ہمارے حاجی صاحب،مرغی کی طرح اپنے چوزےسنبھالے، زمینی سطح والے حصے کی طرف بڑھنے لگے۔پر لطف سفر تھا۔
جمرات ہال میں داخل ہوگئے۔سایہ دار اور ٹھنڈا ہال،ہوادار اور کشادہ اور روشن روشن ہال،اللہ اکبر کے ترانے،انسانی ہجوم کا ایک مخصوص شور،کولنگ سسٹم کے بڑے بڑے پنکھوں کا شور،جوتوں کے کھسکار کاشور،لیکن اِس ہما ہمی اور شور ہی شور میں اطمینان اور سکون کا زور ہی زور۔
پہلا شیطان،اللہ اکبر کی صدا ،ایک ایک کرکے سات کنکریاں،پھردوسرا شیطان اوراللہ اکبر کی صدا ،ایک ایک کرکے سات کنکریاں،اور پھرآخری اور بڑا شیطان اوراللہ اکبر کی صدا ،ایک ایک کرکے سات کنکریاں،اور واپسی ،بس یہ ہے رمی جمرات ،اِسی عمل کے لیے پاکستان سے چلے تھے ،۱۴۔جولائی کو،ہاں جی یہی عمل تھا،یہی کام کرنا تھا،وہاں کہیں ،پاکستان میںہی یہ کام کر لیتے ،یہاں بھاگے آنے کی کیا ضرورت تھی؟جی ضرورت تھی۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام یہاں تشریف لائے تھے۔اماں ہاجرہ بھی اُن کے ساتھ تھیں اور میرے پیارے آقا سیدنا اسماعیل بھی تھے سلام اللہ علیہما،یہیں انھی وادیوں میں ،اِسی سنگلاخ زمین میں اور اِنھی فضاؤں میں ،وہ اللہ کی حمد کے ترانے گنگناتے تھے۔وہ اللہ کے لیے اپنے آپ کو نذر کرتے تھے وہ اللہ کے لیے اپنی جان کی قربانیوں کے لیے عہد کرتے تھے،یہیں پر شیطان انھیں روکتا تھا ،اِس راہ پر چلنے سے روکتا تھا اورسیدنا ابراہیم اور آپ کے گھر والے ،یہیں اُس پر کنکریاں برساتے تھے،ہاں یہی وہ جگہ تھی۔یہاں آنا ضروری تھا،اب واپس جاؤ،یہاں جو عہدکیا اُس کو وہاں پورا کرو۔سنت ابراہیمی،شیطان کو سنگباری وہاں بھی کرنی ہے۔یہاں کا یاد کیا ہواسبق وہاں واپس جاکر پڑھنا ہے۔میں آنکھیں بند کیئے سوچ رہا تھا کہ حاجی صاحب کی آواز گونجی،’’آیئے بھائیو!اب منیٰ میں اپنے خیمے کی طرف واپس چلیں۔‘‘ اور ہم سب واپس ہونے کو اپنے لیڈر کے پیچھے چل پڑے۔
رمی جمرات کی نوتعمیر شدہ عمارت کی یہ خوبی ہے کہ اِس کی طرف آنے اوریہاں سے واپس جانے والے راستے الگ الگ کر دئیے گئے ہیںاوریہ راستے نہایت کشادہ اور وسیع ہیں۔لیکن اُن راستوں کی بر وقت پہچان یقیناً ایک مشکل مسئلہ ہے ۔ہمارے حاجی صاحب ،ماشاءاللہ اِس معاملے میں تیز تھے اور وہ ہمیں بڑے آرام سے جمرات بلڈنگ سے نکال کر منیٰ والی اُس سڑک پر لے آئے جو اُس پہاڑی کی طرف جا رہی تھی جہاں ہمارا خیمہ تھا۔موسم ابھی اُسی طرح گرم ہی تھا جیسے جاتے ہوئے تھا۔مکہ شریف کی دھوپ اور تپش کے بارے میں جو سنا کرتے تھے اب اُس کا بخوبی تجربہ ہو رہاتھا۔سورج کی شعائیں جِلد جھلسائے دیتی تھیں۔منرل واٹر کی چھوٹی چھوٹی بوتلیں تقسیم کرنے والے اور پانی کی پھوار پھینکنے والے کھمبے جگہ جگہ ملتے تھے جو سب زائرین کے لیے ،گرمی کی اِس شدت میں بڑا سہارا توبنتے تھے لیکن لاکھوں کے اِس مجمعے کی پیاس اور جلد کو  جھلسا دینے والی گرمی سے نجات تونہیں دے سکتے تھے۔اِس قیامت کی گرمی کو تو کوئی باران رحمت ہی ختم کر سکتی تھی اور پھر،اللہ کریم کو اپنے اِن عاجز بندوں پر ترس آہی گیا اور منیٰ کی اِس گرم دوپہر میں بادل برسنے شروع ہوگئے۔یہ بادل کب آئے ،کب گرجے ،ہمیں کوئی خبر نہ ہوئی،ہمیں تو تب پتہ چلا جب رحمت کی دھاریں ہم پر پڑنا شروع ہوئیں۔ بادل برسے اور خوب برسے۔پل بھر میں جل تھل ہو گیا۔ہم تو راستے میں چل رہے تھے۔کہیں اوٹ میں رک کر بارش کے تھمنے کا انتظار کرنے کا تو کوئی موقع ہی نہ تھا۔برستی بارش میں ہم آگے بڑھتے رہے۔جاتے ہوئے جو چھتریاں دھوپ روکنے کے لیے استعمال ہورہی تھیں،وہ اب بارش سے بچنے کے لیے استعمال ہورہی تھیں۔یہ الگ بات ،یہ کمزور سہارا ، نہ اُس وقت دھوپ سے مکمل طور پرہمیں بچا پایا تھا اور نہ اب ،یہ ہمیں بارش سے محفوظ رکھ سکی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہم سب مکمل طور پر بھیگ چکے تھے۔
تقریباٍ دو کلو میٹر کا فاصلہ ،ہم نے برستی بارش میں طے کیا۔سڑکیں اور گلیاں ندی نالے بن چکے تھے۔ہم جب شٹل اسٹاپ پر پہنچے تو اُوپر پہاڑ سے ،بڑی تیزی کے ساتھ پانی نیچے بہہ رہا تھا جس کے اندربے تحاشا گندگی اور کوڑا بھی بہتا آرہا تھا۔اِس’’ گندے نالے ‘‘ سے طبیعت میں بہت انقباض پیدا ہوا۔اِس بہتے کوڑا کرکٹ میں سے گزر کر ہمیں شٹل پر سوار ہونا پڑا۔برستی بارش میںہم اپنے خیمے میں پہنچے۔مجھے یہ توقع تھی کہ جتنی طوفانی بارش کا مشاہدہ ہم کرتے آرہے تھے تواِس سے تو ہمارے خیموں کا کچھ نہیں بچا ہوگا۔لیکن ،الحمدللہ، یہ دیکھ کر انتہائی حیرانی ہوئی اور بے پناہ خوشی بھی، کہ اِن خیموں کابالکل کچھ نہیں بگڑا تھا۔ہمارا خیمہ تو بالکل سلامت تھا ،نہ چھت ٹپکی اور نہ اطراف سے کوئی پانی آیا ،البتہ بعض خیمے جو نشیب میں تھے ،اُن کے اندر گلیوں میںبہتا ہوا پانی ضرور داخل ہوا اور کافی خرابی اور پریشانی کا باعث بھی بنا ۔ قریباً دو اڑھائی گھنٹے تک یہ بارش لگی رہی ۔ اُس کے بعد مطلع صاف اور موسم نہایت شانداربن گیا۔
ہم منیٰ میں تھے اور کمپنی کی طرف سے بار بار کی ہدایات کے مطابق ،یہاںبہت کم سامان ساتھ لائے تھے ،اُس کا فائدہ بھی ہواتھالیکن ،اب پہننے کے لیے کپڑوں کی کمی پیدا ہوگئی۔ بارش کے بعد ، گیلے کپڑوں کو خشک کرنے اور اِن گیلے کپڑوں کی جگہ صاف کپڑوں کی موجودگی ایک مسئلہ بن گیا۔ منیٰ کے قیام کا ابھی ہمارا ایک دِن باقی رہتا تھا،بہر حال ،کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیا۔ 
منیٰ میں آخری دِن:۱۲۔ذوالحجہ:
ہمیں جو پروگرام دیا گیا تھا اُس کے مطابق آج منیٰ میں ہمارا آخری دِن تھا۔ شریعت کے مطابق تو یہ تھا کہ ۱۳۔ذوالج کو بھی رمی کرنا سنت ہے لیکن ۱۲۔ذوالحج کو بھی یہ سلسلہ ختم کر دینے کی اجازت عام ہے۔ اِس لیے مسلمانوں کی اکثریت ۱۲۔ ذوالحج کو مکہ واپس آجاتی ہے۔کوئی زائر اگر ۱۲۔ذوالحج کو مغرب سے پہلے پہلے منیٰ سے مکہ کے لیے روانہ نہ ہوسکے تو پھر اُس کے لیے ۱۳۔ذوالحج کی رمی بھی واجب ہو جاتی ہے۔ہماری خواہش توتھی کہ ہم تیرہ کی رمی بھی کر کے واپس جائیں لیکن ہم ایک نظم کے پابند تھے جس نے ۱۲ کو ہی ہمیں واپس لے جانے کا اعلان کر دیا تھا،لہٰذا آج ہمیں یہاں سے کوچ کرجانا تھا،پھر قسمت یا نصیب !کب منیٰ کی حاضری نصیب ہوتی ہے،کب مقدر یاوری کرے اورکب دوبارہ یہاں کا قیام نصیب ہو!اللہ جانے! 
نماز فجر کی ادائیگی کے بعد ،حسب معمول سونے کی کوشش کی لیکن کچھ دیر کوشش کے باوجود نیند نہ آئی تو اُٹھ بیٹھا اور خیمے سے باہر نکل آیا۔منیٰ کی سہانی صبح ہویدا تھی۔پہاڑی کے کنارے کھڑا ہوکر، دُوراُفق پار سے ،مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو دیکھنے لگا۔ناقابل بیان منظر تھا۔
جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ ہمارا کیمپ ایک پہاڑی پر تھا،اُس پہاڑی کے ایک طرف نہایت اُونچا پہاڑ ایستادہ تھا،مکہ شریف کے پہاڑوں کی مانند،خشک،بے آب و گیاہ،کالاسیاہ۔
قریب ہی ایک جگہ پر بیٹھ جاتا ہوں۔کچھ دیر موبائل پر قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں۔مجھے رہ رہ کر خیال آتا کہ آج منیٰ میں ہمارا آخری دِن ہے ۔تومیں جی بھر کر منیٰ کے اِن پرلطف نظاروں کو،اِن من ٹھار کوہساروں کو اور اِن روح پرور بہاروں کو،اپنے ذہن کے کمپیوٹر میں فیڈ اور محفوظ کرلینا چاہتا تھا۔میں جس جگہ بیٹھا تھا وہ پہاڑ پر چڑھتی سڑک تھی جس کے ایک طرف کویہ اُونچا پہاڑ تھا جس پر بچے بھاگ رہے تھے اور دوسری طرف ڈھلوان تھی اور وہاں دور دور تک منیٰ کی خیمہ بستی آ باد نظر آتی تھی۔ 
میں کبھی اُوپر دیکھتا اور کبھی نیچے۔ سب سے عمدہ اورپرکشش نظارہ تو ملک ملک سے آئے ہوئے ’’ حجاج کرام‘‘ کی زیارت تھی۔مختلف رنگوں والے،مختلف قومیتوں اور نسلوں والے،مختلف بولیاں بولنے والے اور گوناگوں خصائل و عادات کے مالک،لیکن سب ایک ہی قسم کے حالات سے گزرنے والے اور اپنی اپنی زندگیوں کا اعلیٰ ترین پرسعادت مقصد حاصل کر چکنے والے،اپنے اپنے وطن سے تشنہ لب آئے تھے،پیاسے آئے تھے اب سیراب ہوچکے ہوئے،شاد کام چہروں کے ساتھ پھرتے ہوئے ،سب کے چہروں سے خوشی پھوٹتی ہوئی ،بھرپور جذبات تشکر کے ساتھ۔
چند دِن قبل ،حرم کے صحنوں میں ،مسجد کے برآمدوں میں ،بازاروں اور گلیوں ،یہ خاکسار جن چہروں پر انتظار دیکھا کرتا تھا،پیاس دیکھا کرتا تھا،آرزو اور طلب دیکھا کرتا تھا،آج منیٰ کی اِس صبح میں ،اُن چہروں پر سیرابی دیکھ رہاتھا،تروتازگی دیکھ رہا تھا،شادکامی اور شادابی دیکھ رہا تھا۔
الوداع الوداع، اے پیارے منیٰ الوداع:
یہاں بیٹھے میری آنکھیں بھیگنے لگیں۔جہاں پریہ تکمیل حج کی خوشی میں چھلک رہی تھیں وہاں پر منیٰ شریف سے جدائی کا بھی غم تھا۔اب مجھ سے زیادہ دیر یہاں بیٹھا نہیں گیا اورمیں یہاں سے اُٹھ آیا اور اپنے کیمپ میں آگیا۔یہاں پر بھی الوداعی مناظر تھے۔کیمپ میں آخری ناشتہ پیش کیا جارہا تھا،کچھ لوگ سامان پیک کر رہے تھے اور کچھ فارغ بیٹھے گپیں لگا رہے تھے۔
میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر ناشتہ کیا۔سامان پیک کیااور اپنے ا ندر منیٰ چھوڑنے کا حوصلہ پیدا کرتا رہا۔ دوست احباب سے گپ شپ،میل ملاقات اور سامان سمیٹنے میں ایک دوسرے کی امداد میںہی ،نماز ظہر کا وقت ہوگیا۔درمیان میں تھوڑی دیر کے لیے ،حاجی امتیاز صاحب ڈائریکٹرطواف گروپ کا مختصر پروگرام بھی ہوا جس میں انھوں نے منیٰ سے واپسی کا طریقہ کار بتایاکہ نماز ظہر ادا کر چکنے کے بعد،تقریباً دوبجے ہم سب یہاں سے روانہ ہوں گے۔جمرات سے ہوتے ہوئے ،مکہ کی طرف جانے والے راستوں میں سے دائیں طرف والے راستے کواختیار کریں گے،شاہراہ حج پر جاکر،آگے کبری کے پاس ہماری کوسٹرز موجود ہوں گی جو آپ کو کدائی بلڈنگ پر پہنچائیں گی۔ساڑھے بارہ بجے نمازظہر ادا کرتے ہی،ہمارے گروپ کے قائد،حاجی محمد یونس صاحب کہنے لگے ،’’بھائیو!دوتین گھنٹے یہاں خیمے میں ،وہلم وہلے بیٹھ کرہم نے کیا کرنا ہے۔ کیوں نہ ہم کدی جانے کے لیے روانہ ہو جائیں۔‘‘ اِس انگیخت پر ہم اُٹھ کھڑے ہوئے۔ہم تین دوست،حاجی محمد صاحب ، شکیل صاحب اور یہ خاکسار،اپنا اپنا سامان لے کر،خیمے پر الوداعی نظرڈالتے ہوئے باہر نکل آئے۔ہمارے چوتھے ساتھی ،محمد اکرم صاحب ،حسب معمول لیٹ تھے اور انھوں نے بعدمیںگروپ کے دیگر لوگوں کے ساتھ آنے کو ترجیح دی۔
ہماری منزل جمرات یعنی ’’شیطانوں کے محلات‘‘ تھے ۔وہاں جاکر،آج شیطانوں کو آخری بار کنکریاں مارناتھا اور وہیں سے ہی واپس کدائی بلڈنگ پہنچنے کے لیے کوسٹرز کے مذکورہ وموعودہ اسٹاپ پر پہنچنا تھا۔
اپنے کیمپ سے تو ہم تین ہی ساتھی نکلے تھے،لیکن جمرات شاہراہ پر جب پہنچے تو وہاں کا کیاخوب نظارہ تھا۔جمرات کی طرف انسانوں کا ایک سیلاب اُمڈ آیا تھا ۔ ایک سیل رواں تھا کہ جو شیطانوں کی طرف بڑھ رہاتھا۔اِس جم غفیر کو دیکھ کر حاجی یونس صاحب کہنے لگے ،’’آج شیطانوں کی خیر نہیں،مومنین کا ایک لشکر گراں اِن پر پل پڑا ہے۔‘‘ہم دونوں ہنس پڑے۔شکیل بھائی نے کہا’’یار!یہ رمی جمرات بھی رسم ہی رہ گئی ہے۔شیطان بھی ہنستا ہوگا کہ اِدھرتو یہ کھینچ کھینچ کرمجھے پتھر مارتے ہیں لیکن اُدھر اپنے اپنے وطنوں میں جاکر اِن کی میری تابعداری داد دینے کے لائق ہوتی ہے۔شکیل بھائی نے مزید کہا کہ اعمال کے اندر سے جب روح جاتی رہے تویہی حال ہوتا ہے جو یہاں رمی جمرات میں دیکھنے کو ملتاہے ،رہ گئی رسم اذان ،روح بلالی نہ رہی۔‘‘یوں تبصرے کرتے،ہنستے ہنساتے ، بڑے اطمینان سے ہمارا یہ پیدل سفر کٹ رہا تھا۔تیز دھوپ تھی۔شدید گرمی تھی۔سورج سوا نیزے پر تھا،گو ہم نے چھتریاں تان رکھی تھیںلیکن سورج کی تمازت چھتریوں کو چیر کر سرپر انگارے برسا رہی تھی۔گرمی بھی تھی،پیدل بھی تھے،سامان بھی کندھوں پر لٹکا رکھاتھا،لیکن جذبات جوان تھے۔تھکاوٹ یا کسی قسم کی اُکتاہٹ ہرگز نہ تھی۔چہروں پرپژمژدگی نہیں بلکہ تازگی تھی۔کیا عورت کیا مرد ،کیا گورا کیا کالا،کیا بوڑھا کیا جوان،سبھی ایک ہی دھن میںآگے بڑھ رہے تھے۔ زبانوں پر ذکر الٰہی اور قلوب میں اطمینان و سکون لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ 
آج تیسرا دِن تھا کہ متواتر ہم جمرات محل کو جارہے تھے اور یہ مناظر دیکھ رہے تھے ۔ عجیب پر لطف نظارے تھے جو پہلے کہیں نہ دیکھے تھے ۔یہ مناظرحاصل زندگی تھے۔ آج کے مناظرکی بات اور تھی کیونکہ آج ہم منیٰ شریف کو الوداع کہہ رہے تھے۔اب ہمارا قدم منیٰ سے دوری کا قدم تھا۔اِس جدائی کے تصور سے آنکھیں بھیگتی تھیں۔
گاہے سوچتا یہ رمی جمرات کیا ہے؟کبھی تاریخ کے اوراق کھلتے،چودہ صدیوں سے ، اِس سے بھی پہلے،نہ جانے کب سے یہ عمل جاری ہے۔یہ سنگ باری دراصل ایک عہد ہے بندے کا اپنے رب کے ساتھ،یہ ایک عہد ہے بندے کا اپنے نفس کے ساتھ،
یہ دوڑدھوپ،یہ شدید گرمی میں پیدل مارچ،یہ جمرات،یہ پتھریاں،یہ مشقت، یہ سب کچھ،ایک وعدہ ہے ،ایک عہدوپیمان ہے اپنے رب کے ساتھ کہ،’’اے میرے مالک!ہم اپنے نفس کے نہیں،اپنی خواہشات کے نہیں۔۔۔شیطان کے نہیںبلکہ تیرے بندے ہیں ،۔ ۔ ۔ صرف تیرے بندے ہیں۔۔۔ہم سنگ برسانے والے ہیں اپنے نفس پر،اپنے اندر کے شیطان پر،اپنے باہر کے شیطان پر ۔ ۔ ۔ اور یہ کہ ،توہی سب سے بڑا ہے،۔۔۔اور یہ کہ تیرے علاوہ ہمارا کوئی معبود نہیں،اور ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ تیرا نہ کوئی شریک ہے اور نہ کوئی ساجھی ہے۔۔۔تو اکیلا ہے ، اور یہ کہ تیرے سوا نہ کوئی ہمارا کارساز ہے اور نہ حاجت روا۔۔‘‘
انھی خیالوں میں ،ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔
جمرات کی طرف بڑھتے ہوئے جم غفیر کو ،مختلف راستے،کئی عارضی رکاوٹیں ،سائن بورڈ اور پولیس کے رضا کارتقسیم کر رہے ہیں یہ بڑی اہم ٹکنیک ہے ،جمرات میں اژدہام کو روکنے کی۔کوئی اُوپر کی منزل کی طرف جارہا ہے اور کوئی نیچے کی منزل کی طرف (direct) کر دیا گیا ہے اور کسی کو زمینی منزل کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔اِسی طرح چلتے چلتے، ہم ایک ایسی شاہراہ پر آگئے جو ہمیں زمینی منزل (ground floor)پر لے آئی۔  کل کی طرح ،آج بھی ہم نے تینوں جمرات کی رمی کرنی تھی،اور پھر پورے آداب اور رمی کی سنتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے،اِ س شرعی فریضے کو مکمل کیااور جمرات بلڈنگ سے باہر نکل آئے۔آج آخری دِن تھا،بے پناہ رش تھالیکن دھکم پیل اور تصادم کی کیفیت بالکل پیدا نہیں ہوئی۔یہ سب ماضی قریب میں کیئے گئے حکومتی اقدامات کا نتیجہ ہے۔ ایسے موقع پر انتظامیہ کی تعریف کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔
جمرات بلڈنگ سے نکل کر بدقت تمام ہم اُس اڈے پر پہنچے جس کی نشان دہی ڈائریکٹر صاحب نے کی تھی لیکن وہاں کوسٹر ندارد۔بہر حال ،وہاں ،کافی دیر خجل خراب ہونے کے بعد،آخرکارٹیکسی کرکے ہی ،بخیر و خوبی کدائی بلڈنگ میں،پانچویں دِن ، واپس آگئے۔اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جس نے ہمیںیہ پانچ سنہری دِن عطا کیے تھے۔ آج ۱۳۔اگست کا دِن تھا،جس کی عصر کی نماز ،کدائی بلڈنگ میںاپنے کمرے میں ،واپس آکر ادا کی اور پھر قیلولہ کی غرض سے بستر پر دراز ہوگئے اور بڑی اطمینان بخش نیند کے مزے لیے ۔ہمارے جسموں میں خوب تھکاوٹ تھی جس کے برے اثرات سے ہم باقی لوگ تو محفوظ رہے البتہ ہمارے محترم حاجی محمد یونس صاحب کے لیے یہ مسلسل دوڑ بھاگ ،شدید بخارکا باعث بن گئی۔(جاری ہے )