عمرہ ۲۰۱۴

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : اگست 2014

            عمرہ اصل میں سعادت’ استطاعت اور شوق کا سفر ہے۔ہر نماز سے گھنٹہ ڈیڑھ پہلے ہر سمت سے زائر کشاں کشاں سوئے حرم رواں نظر آتے ہیں جیسے مضطرب لہریں ساحل کی طرف’جیسے شہد کی مکھیاں چھتے کی جانب۔ سرمستی اور خود فراموشی کا عالم’ ہر نگاہ خدا کے گھر کی متلاشی۔بلندی سے دیکھیں تو نیچے انسانی سروں کا سمندر’ ہچکولے کھاتی لہروں کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک مسحور کن صوتی بھنبھناہٹ۔

            اسلام کی کشادگی اور وسعت رواداری اور تنوع کا اندازہ صرف حرم کعبہ میں ہوتا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیں تو ملک ملک کا زائر اپنے اپنے طریقے پر اور اپنے اپنے انداز میں نماز ادا کررہا ہے۔گویا سب کی نماز صحیح ہے اور قبول ہورہی ہے۔ کوئی دوسرے پر اعتراض نہیں کرتا۔ یہ برداشت سعودی پولیس کے خوف سے نہیں ہے ’بلکہ حرم کی عظمت’ دین کی وسعت اور مسلمان کی حرمت کا تقاضا ہے۔ عبادت کے سارے طریقے ’ خدا کو پکارنے کے کل سلیقے’ قیام و رکوع اور سجودو تحیہ کے تمام انداز----اسلام ہیں۔ گویا نماز اور عبادت کے یہ تمام اسالیب نبی اکرمﷺ کے مقتدر صحابہ کرام سے منسوب ہیں اور سنت کی شکل میں یہاں تک پہنچے ہیں۔ یہاں کوئی دوسرے کی تکفیر نہیں کرتا۔ کوئی دوسرے کے طریقے کو مردود نہیں کہتا۔ ہر کلمہ گو اپنے انداز میں اپنے خالق سے ہم کلام ہے اور یہ تمام طریقے بالکل اسلام ہیں۔ وہ منظر کتنا پر کیف ہوتا ہے جب ملائی یا انڈونیشیائی مسلمان عورتوں کا گروپ یک زباں دعائیں مانگ رہا ہوتاہے۔ جب ایک نوجوان ترک بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنے لہجے میں ایک دعا کی تکرار کرتا ہے اور اس کے مرد وعورت ساتھی اس کے ساتھ ہم آواز خدا کی تحمید و تقدیس کرتے ہیں ’کوئی رنگ نہیں ’ کوئی نسل نہیں’ کوئی زبا ن نہیں ۔ آج سب کا خدا ایک’ کعبہ ایک اور کلمہ ایک ہے۔

            عمرہ اور حج کی عباد ت میں حرم ایک کلیدی شعیرہ ہے۔ سعودی حکومت کے کاروباری بلکہ تجارتی انداز نے حرم کو چاروں طرف سے چار سٹار’ پنج سٹار اونچے اونچے ہوٹلوں میں گھیر دیا ہے’ جن کے نفیس ٹوائلٹ اب حرم سے اونچے ہیں۔ ابراہیم خلیل اللہ کا تعمیر کردہ حرم کاروباری خلیجوں (Towers) میں دب کر رہ گیا ہے۔ عیسائیوں کے Vaticanکو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا اور مادہ پرست مغرب نے کیسے اپنے خداؤں کو دنیا کے سائے سے بچا کر رکھا ہے۔ اس بستی میں خدا کا گھر اور پوپ کاروباری مراکز سے محفوظ ہیں۔ البتہ ہم نے شان و شوکت ’ کر و فر اور سج دھج میں ضرور کلیسا کی تقلید کی ہے۔ہماری ظاہر داری اور ظاہر پرستی کو دیکھ کر اقبال بھی پکار اٹھا: ؂

میں نا خوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

            حرم کی صفائی و سقائی کے کیا کہنے! دن کے چوبیس گھنٹے’ ہفتے کے سات دن مسلسل صفائی’ ستھرائی و چمکائی کا کام جاری رہتا ہے۔ اس کی ضرورت بھی ہے اور اہمیت بھی۔ اس میں سرکار کا نام بھی ہے اور عالمی شاباش بھی۔ زائرین کی تمام تر کوششوں کے باوجود حرم کسی بھی وقت گندا نہیں ہوتا۔

            مسلمان خصوصاً پاکستانی بہت دلچسپ اور سادہ زائر ہیں۔ جب کچھ سادہ دل حرم سے حضرت علی ہجویری ؒکے نام کی دیگ بک کرسکتے ہیں تو یہ امر باعث تعجب نہ ہوگا کہ وہ اپنے مسائل ’ مشکلات اور حاجتوں کی تفصیل اللہ تعالیٰ کے نام اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں’ پھر بڑی تگ و دو کے بعد یہ درخواست خانہ کعبہ کی دہلیز پر حطیم کے اندر یا مقامِ ابراہیم کے نزدیک پیش کرتے ہیں۔ دورانِ طواف غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حرم کے خدام تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد انہی درخواستوں سے کچرے کے ڈرم بھر بھر کر باہر کوڑے میں پھینکتے ہیں۔ شاید سادہ لوحوں کے نزدیک اللہ میاں ان کے پیر و مرشد کی طرح کالے کوٹھے کے اندر مصروف عبادت ہیں’ انہیں ان کی نگاہ اور توجہ درکار ہے۔

            طواف مکمل کرنے کے بعد زائر حرم میں دو نفل ادا کرتا ہے ۔اس کے بعد وہ زم زم کے لیے آتا ہے۔ یہاں پلاسٹک کے بڑے بڑے کولروں میں ٹھنڈا اور سادہ آب زم زم تھرما پور گلاسوں میں پیا جاتا ہے۔ پینے کے بعد زائر اپنا چہرہ ’ سر ’ داڑھی اور جسم تر کرتے ہیں اور اتنا تر کرتے ہیں کہ وہاں عام آدمی پھسلنے سے بمشکل بچ پاتا ہے۔ نیچے نہ پانی جذب کرنے والا قالین ہے اور نہ پھسلن سے بچنے کا کوئی طریقہ۔بوڑھوں اور ضعیفوں کی ہڈیاں تو پہلے ہی کمزور ہوتی ہیں۔

            سعودی فقہاء کے فتاویٰ کی روشنی میں اب سعی کی جگہ دو منزلوں پر محیط ہے’ ایک فرشی اور دو بالائی منزلیں۔ فرش کے دونوں جانب صفا اور مروہ کی چوٹیوں کے پتھر باقی رہنے دیے گئے ہیں یہ پتھر پہلی اور دوسری منزل سے نیچے دکھائی دیتے ہیں۔ زائرین کی ایک تھوڑی سی تعداد ان ٹیڑھے میڑھے اور کھردرے پتھروں پر بلا جواز نفل پڑھتی نظر آتی ہے۔ حیرانی اس بات پر ہوئی کہ ان نمازیوں میں کوئی پاکستانی نہیں تھا۔ سعودیوں نے ان پتھروں پر ایک سخت قسم کا پینٹ بچھا رکھا ہے جس کی وجہ سے پتھروں کے ٹکڑے اکھیڑنا ممکن نہیں رہا ہے ’ورنہ بچی کھچی پہاڑیاں اب تک بطور تبرک تقسیم ہو چکی ہوتیں۔

            خانہ کعبہ کے چاروں طرف کئی کئی سو میٹر تک سیاہ پتھر سے آڑھی ترچھی لکیریں لگائی گئی ہیں۔ یہ لکیریں حرم کے اندر’ حر م کے باہر ’برآمدوں میں ’ سعی کے مقام پر فرض نماز کے وقت کعبہ کی طرف منہ کرنے اور صفیں صحیح باندھنے کے لیے وسیع پیمانے پر لگائی گئی ہیں۔ حرم کے اندر توسیع و تعمیر کا کام بھی قابل توجہ ہے۔ کیا ضروری ہے کہ پچاس لاکھ زائرین کے لیے توسیع کی جائے’ جبکہ عملاً ایسا ممکن نہیں ہے۔ جب حرم کے اندر کئی منزلہ مطاف بن رہے ہیں تو لازمی ہے کہ ان کے ساتھ حرم کے باہر عبادات سے منسلک ضروریات اور شہر کے اندر اتنی سہولیات مطلوب ہوں گی جو آج بھی ناکافی ہیں۔سعودی فقہاء کو سوچنا چاہیے کہ رفث’ فسوق اور جدال کا ماحول اور احتمال تو ہجوم کی وجہ سے بڑھتا جائے گا اور عبادت ادا کرنا مشکل تر ہوتی جائے گی۔ چنانچہ زائرین کی تعداد کو ایک معقول حد تک محدود رکھنا چاہیے۔ توسیع کے کام میں قدیم محلے اور پرانی بستیاں غائب ہورہی ہیں۔ مکہ کے قدیم آثار اب کتابوں اور یادوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ آثار کو باقی رکھنے اور دیکھنے میں کوئی شرک نظر نہیں آتا۔ ہاں عمرہ اور حج کو محض کاروبار بنا دینا ضرور معیوب ہے۔

            سعودی حکومت کے بھلے کاموں میں ایک قرآن حکیم کی طباعت اور تقسیم بھی ہے۔ ایک مصحف ایک ہی انداز میں مختلف سائزوں میں چھاپا جا رہا ہے۔ عمرہ کرنے والوں کو واپسی پر کوئی نسخہ مفت نہیں ملتا۔ چند نسخے ایسے بھی ہیں جو خصوصاً برصغیر کے زائرین کی سہولت کے لیے الگ سے چھاپے گئے ہیں جن میں رکوع کے نشان بھی دیے گئے ہیں ۔ہر سپارہ علیحدہ اور بائیں صفحے سے شروع ہوتا ہے۔ زیادہ تر نسخے پارہ اور رکوع کی تخصیص کے بغیر ہیں۔ اس خدمت سے ایک قرآن ’ایک رسول اور ایک امت کا تصور پختہ ہوتا ہے۔عالم اسلام میں ایک قراء ت کو ترویج مل رہی ہے۔ نابینا ؤں کے لیے بریل کے نسخے’ کہیں کہیں انگریزی ’ اردو ترجمہ بھی ہے۔ مولانا محمود حسن دیوبندی ؒکا ترجمہ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒکا حاشیہ اب سعودی حکومت نے چھاپنا بند کردیا ہے۔ اس ترجمے میں سورۃ الفاتحہ کی آیت استعانت کا حاشیہ قابل اعترا ض تھا۔ اس غلطی کے ازالے کے ساتھ بریلوی ترجمہ پر بندش سے معاملہ برابر ہوگیا۔کبھی کبھی اردو لٹریچر بھی حرم کے ایک سٹینڈ پر رکھا جاتا ہے مگر زور جادوٹونے اورقبرپرستی کی مخالفت پر ہوتا ہے ؟شاید پاکستانی اہلحدیث عالم خواتین کے ضعف کو ملحوظ رکھتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کے سیاسی’ تعلیمی’ اقتصادی ’اخلاقی اور معاشرتی مسائل قابل توجہ نہیں جن پر متوازن انداز میں بات کی جائے؟ کیا محض عبادات سے تزکیہ نفس اور اقامت دین کا فریضہ سر انجام دیا جاسکتا ہے؟       

            بظاہر سعودیہ ایک امیر اور خوشحال ملک ہے مگر ترقی اور خوشحالی کے مناظر تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ نقد کمانے والی ٹیکسیاں اندر باہر سے اچھی حالت میں ہیں تاہم ہر جگہ ان کا کرایہ ڈرائیور کی مرضی اور موڈ کے مطابق ہوتا ہے ۔میٹر کا استعمال شاید حرام ہے۔ ڈیڑھ کلومیٹر کے لیے ٹیکسی دس سے بیس ریال تک چارج کرتی ہے جبکہ پٹرول آدھا ریال فی لیٹر ہے۔ کسی جگہ سرکار نے زائرین کا تحفظ نہیں کیا’ ورنہ میٹر پر سختی کی جاتی یا مختلف فاصلوں کے مطابق فکسڈ کرایے ہوتے۔ ٹریفک پولیس پوچھتی ہے اور نہ کوئی ادارہ چیک کرتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور زیادہ تر پاکستانی نظر آتے ہیں جو ٹریفک پولیس سے ڈرتے توہیں مگر بے خوفی سے من مانی کرتے ہیں۔ ممکن ہے انہوں نے سعودی ٹریفک پولیس کو پاکستانی رنگ میں رنگ لیا ہو۔ شہر کے اندر زائرین کی رہنمائی کے لیے بڑی زبانوں میں لکھی ہوئی ہدایات نظر نہیں آتیں۔چنانچہ کوشش کرتے ہیں کہ ہمیشہ ایک لگا بندھا راستہ ہی استعمال کریں۔

            طواف کے دوران تمام اقوام اور ممالک کی زائر مستورات کے چہرے’ ہاتھ’ پاؤں اَن ڈھکے تھے ’بجز چند ایک کے جو غالباً سعودیہ کے کسی متشدد طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی فقہ میں نقاب ضروری ہے ’بشرطیکہ چہرے سے مس نہ کرے۔

            حرم کے ارد گرد طہارت اور وضو کے لیے زیر زمین جگہیں بنائی گئی ہیں۔ ایک تو یہاں رش بہت ہوتا ہے ’دوسرا لوٹے کا رواج نہیں ۔ اس کی بجائے ٹونٹی کے ساتھ ربڑ کا لمبا سا پائپ لگا ہوا ہے۔ تمام کموڈ فرشی ہیں ’ کہیں کہیں بزرگوں یا سینئر شہریوں(کبرالسن) کے لیے نشستی کموڈ بھی موجود ہیں مگربہت کم۔ لیکن وہاں بھی ربڑ کا مُش یا سعودی شاور ہے جس کی تیز دھار پر کنٹرول مہارت طلب ہے۔پانی سے کپڑے بچانا اور مشکل۔

            حرم کے اندرتعمیر کا کام جاری ہے۔ اس تعمیر کا شور اتنا مخل نہیں ہوتا جتنا بلند وبالا ہوٹلوں کی عمارتیں زائر کی نگاہیں متوجہ کرلیتی ہیں۔ حرم میں اس تعمیر کا ایک ہی مقصد ہے کہ زیادہ سے زیادہ زائر حرم میں سما سکیں ’بلا سے وہ صحیح مناجات کرسکیں یا مناسب طور پر نماز ادا کرسکیں یا سکون سے تلاوت یا نوافل پڑھ سکیں۔ وسعت اور کثرت کے لیے زائر کو ہی قیمت چکانا ہوگی۔ تمام تعمیراتی کارکن باوردی اور غیرملکی مسلمان ہیں۔ کھانا سرکاری ’مگرتنخواہ واجبی۔ کوئی سعودی تعمیراتی کام میں کام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔

            مکہ شہر اور اس کی پہاڑیوں اور گھاٹیوں کی اپنی تاریخ’ اپنا جمالیاتی حسن اور منفرد ماحولیاتی توازن ہے۔ سعودیوں نے شہری سہولتوں کے لیے جگہ جگہ پہاڑیوں کو کھود ڈالا ہے’ قدیم آثار مٹادیئے اور شہر کا صدیوں پرانا جلال و جمال تہ و بالا کردیا ہے۔ غالباً کسی کو اعتراض کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہوٹلنگ حرم سے دور بھی ہو سکتی تھی اور آنے جانے کے لیے چینیوں کی طرح کئی منزلہ راہیں بنائی جاسکتی تھیں مگر ستیاناس ہو امریکی کلچر کا جس کو ماضی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا’ اسے صرف آج کی ضرورت اور فوری فائدے سے غرض ہوتی ہے۔

            حرم کے اندر تمام تر تحمید و تقدیس’ تلاوت واذکار کے باوجود آواز اذیت ناک نہیں ہوتی’ مدھم سی بھنبھناہٹ طاری رہتی ہے جیسے چھتے کے پاس شہد کی مکھیاں۔ حرم کے باہر یا شہر کے اندر صرف بلیاں دکھائی دیتی ہیں وہ بھی کمزور سی۔ کتا’ کوا’ چڑیا کی جگہ صرف صحت مند کبوتر۔ یہ کبوتر پہلے صرف نعتوں میں اڑتے تھے ’اب تقدس سے آراستہ اور موٹاپے کا شکار ہیں۔ کبوتروں سے viralانفیکشن کا خطرہ ہوتا ہے لہٰذا کبوتروں کے بے تحاشا اضافے کو روکنے کے لیے ان کی کاروباری فروخت یا نسلی منصوبہ بندی پر غور کیا جاسکتا ہے۔

            طواف کرنے والے زائر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جنہیں عمرہ کے اہم رکن کے طور پر طواف کرنا ہوتا ہے اور دوسرے وہ جو مسجد حرام میں داخل ہونے پر طواف کرتے ہیں۔ طواف خود ایک اہم عبادت ہے۔ طواف کے دوران مرد عورتیں مل کر چکر کاٹتے ہیں ۔ جس طرح ایک زائر دورانِ طواف دوسرے زائرین کا خیال رکھتا ہے اسی طرح مرد عورتیں خانہ خدا کی حاضری میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ شیطانی خیالات ان پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ طواف کی یہ منفرد خوبی بلکہ سعادت ہے جو شہوانی آلائش کو دور رکھتی ہے۔عورتوں مردوں کے لیے الگ الگ راستوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

            مکہ اور مدینہ دونوں شہروں کے عام ہوٹلوں میں کھانا نہیں ملتا’ زائرین کو بازار کے کھانوں یعنی ریستورانوں سے کھانا پڑتا ہے۔ عام طور پر دونوں شہروں میں جس طرح نرخ یکساں ہیں اسی طرح ہر جگہ کھانے کا ذائقہ اور رنگ روپ بھی یکساں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک بڑی دیگ سے فارمولہ سالن ہر ہوٹل پر فراہم کیا جاتا ہے۔ بریانی کا ذائقہ اور چکن بوٹی کا سائز البتہ جدا جدا ہے مگر اس کے ساتھ نرخ بھی بدل جاتا ہے۔ کھانے والے ہوٹل زیادہ صاف نہیں ہوتے۔ پہلے ادائیگی کی جاتی ہے پھر چٹ پر کھانا ملتا ہے۔ مختلف قوموں کے الگ الگ اپنے کھانے والے ہوٹل بھی ہیں۔تاہم ہر طرف پاکستانی کھانوں کی بہار نظر آتی ہے۔

شاہراہِ ہجرت

            پاکستانی ایجنٹ سے زائرین بک کرتے وقت سعودی بیوپاری مکہ اور مدینہ میں قیام کے ایام مقرر کردیتا ہے۔ زائرین کے قیام اور ان کی نقل و حرکت سعودی اعداد و شمار کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ حرمین میں آنے جانے والوں کی تعداد حد سے تجاوز نہ کرے۔ خلاف پروگرام ایک دن کے اضافی قیام کے بعد اگلے روز مدینہ کے لیے مکہ کے ہوٹل کو خیرباد کیا۔جو بس نصیب میں آئی اس کا ڈرائیور ایک خود مست انڈونیشین نوجوان تھا۔ بس مقررہ وقت سے گھنٹہ بعد چلی اور پھر چلتی گئی۔ ہلتی ہوئی چھوٹی اور تنگ سیٹیں’ بس پرانی اور کھٹارہ’ مسلسل شور’ اے سی قریباً ناکارہ’ صحت مند زائر پھنس کر رہ گئے۔ ضعفاء کی کمر اور ٹانگیں جواب دے گئیں۔ طریق الہجرہ(شاہراہِ ہجرت) پر سفر ڈراؤنا خواب بن گیا۔

            مکہ اور مدینہ کے درمیان ۴۵۰کلومیٹر کی مسافت ہے۔ اس اہم اور تاریخی شاہراہ کے مقابلے میں پاکستان کی کورین موٹر وے بدرجہا بہتر’ آرام دہ اور محفوظ ہے۔ اس تاریخی شاہراہ کے جنگلے ٹوٹے ہوئے’ کئی جگہ سڑک ناہموار’ رنگ و روغن سے عاری۔ کئی گھنٹے کی مسافت کے بعد بس نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا۔ یہاں مسجد اور ریسٹورنٹ موجود تھا’ مگر ظاہراً ناگفتہ بہ اور گئے گزرے ۔ جو مسافر بیت الخلا گئے ان کے لیے نماز نا ممکن ہوگئی۔ کئی دنوں کی غلاظت سے اٹے ہوئے بدبودار کموڈ’ گٹر بند’ یوں جیسے صفائی کا رواج نہیں اور کوئی اس ظلم کو پوچھنے والا نہیں۔ جن کا وضو محفوظ تھا انہوں نے ظہر اور عصر ملا کر پڑھیں۔ کھانا وہی روٹین ذائقے اور شکل والا۔ حیرت ہے کہ دنیا کی یکے از اہم ترین سڑک کی یہ حالت’ کھانے کا یہ معیار، صفائی کا یہ عالم۔ تاحد نظر کوئی آبادی نہیں’ سارا راستہ پولیس یا سرکار کا کوئی اہلکار نظر نہیں آیا۔ اوپر اللہ نیچے ڈرائیور’ اب اجنبی مسافر کس پر سہارا کرے’ کس سے گلہ کرے۔

            راستے میں کہیں کہیں محدود آبادی کے نشان ورنہ تاحد نگاہ بیابان۔ خشک ویران۔ حدت سے پھٹی ہوئی سیاہ چٹانیں۔ نہ چرند نہ پرند۔ کافی فاصلے کے بعد کوئی راستہ موٹر وے سے نکل کر دور پہاڑیوں میں گم ہوجاتا۔ اکا دکا اونٹوں کے طویلے۔ راستے میں کئی بسوں نے اوور ٹیک کیا۔ بس میں آڈیو سماعت ’پینے کے پانی’ فرسٹ ایڈ نام کی کوئی عیاشی موجود نہ تھی۔ حسب معمول ڈرائیور زبان سے اجنبی اور بیان میں پاکستانی سرکاری ملازم تھا۔ وہ گانے سننے اور تھرموس سے چائے پینے میں محو تھا۔ کسی کو اس سے کچھ کہنے کا یارا نہ تھا۔ مدینہ شہر اب خاصا پھیل چکا ہے۔ مختلف نئی پرانی آبادیوں کو پھلانگتی بس کئی ہوٹلوں پر رکی جہاں وہ دوسرے مسافروں کو اتارتی رہی۔ آخر کار ایک جگہ بس ٹھہری اور مسافروں کو اترنے اور بس کے تہہ خانے سے اپنا اپنا سامان خود نکالنے کا حکم ملا۔ بس کے نیچے تہہ خانے سے سامان نکالنا بھی ایک مشکل مشق ہے ’جو اکیلے سر انجام دینا پڑتی ہے۔اس کا اجر الگ سے مقدر ہے۔

مدینہ میں

            مدینہ کے جس ہوٹل میں بکنگ تھی وہاں جانے والے مسافروں سے ابھی کمرے خالی نہ ہو سکے تھے ۔کافی دیر لابی میں انتظار کیا۔ کچھ لمبے سفر کی تھکاوٹ’ کچھ مسجد نبوی جانے کی عجلت’ ادھر کمرے مصروف۔ ایک قریبی ہوٹل میں متبادل انتظام ہوا۔ گناہوں کی طرح اپنا اپنا سامان لاد کر کچھ گھسیٹ کر نئی جگہ گئے اور ایک اچھے ہوٹل میں ٹھکانہ ملا۔ پانی’ بجلی ’ لفٹ مناسب مگر کھانا گرم کرنے اور پکانے کے لیے چولہا ٹھنڈا۔ جیسے تیسے رات گزری۔ اگلے روز حکم ملا کہ سامان اٹھاؤ اور رات والے ہوٹل کو واپس سدھارو ۔چنانچہ پھر ہجرت کی۔ اس پندرہ منزلہ عمارت میں جو بمشکل دس مرلہ پر ایستادہ تھی’ جس کمرے میں ٹھکانہ ملا وہاں تین افراد کے لیے سات بستر لگے ہوئے تھے۔ گویا کمرہ ایک بسترستان تھا’ لیکن سات افراد کے لیے ایک غسل خانہ بغیر صابن’ تولیہ’ چپل’ ٹوتھ پیسٹ’ وافر پانی یا لوٹے کے۔اور ساری عمارت کے لیے ایک لفٹ جو پانچ سے زائد مسافروں کے آنے پر روٹھ جاتی تھی۔ صفائی پاکستانی سطح کی۔ عملہ اور گیس ندارد۔ کمروں کا باہمی اور فرنٹ ڈیسک سے رابطے کے لیے ٹیلی فون غائب۔یوں لگتا تھا جیسے ایک سرائے میں آ گئے ہیں۔

            مدینہ کے کوچہ وبازار بھی مکہ کی طرح مناسب صفائی اور حسن سلیقہ کے منتظر تھے۔ گندگی ’ کچرے کی فراوانی’ نہ نظر آنے والے فٹ پاتھ’ سیاہ فام ورکرسڑک کے کنارے گاڑیاں دھوتے تھے۔ مسجد نبوی کے اندر البتہ مکہ جیسی صفائی اور نظافت’ مصنوعی آرائش و زیبائش ’ منقش در و دیوار’ رنگ برنگے ستون’ اے سی’ بلب اور قمقمے’ فانوس اور قالین موجود تھے ۔ بہت سارے اصحاب خصوصاً پاکستانی فجر سے عشاء تک کا سارا وقت آرام سے مسجد میں گزارتے ہیں۔ سونے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔سعودی تو اپنی ٹانگیں بلا تردد قبلہ کی طرف پسار لیتے ہیں۔ شیلف دور ہو تو مصحف بلا تکلف فرش پر رکھ دیتے ہیں۔ وہ جگہیں جن کے بارے میں بعض احادیث اور روایات کے مطابق ہزاروں لاکھوں گنا ثواب کی نوید ہے زائرین سے اٹی ہوتی ہیں۔ بندے پہ بندہ۔ اگلے پچھلے تمام حساب چکانے کی لگن۔ ہجوم کے دوران سکون سے نفل ادا کرنا کارے دارد ہوتا ہے گویا سکون سے زیادہ نیکیوں کے کیلکولیٹر پر توجہ ہوتی ہے۔اسی طرح مزار مبارک کے سامنے سے گذرنے کا راستہ جو جنوب سے شمال کو جاتا ہے’ زائرین سے پٹا ہوتا ہے۔ پولیس جالیوں کے سامنے رکنے یا جھکنے نہیں دیتی۔ اہل دل جالیوں کے نظارے سے دل کو شاداب اور ایمان کو تازہ کرلیتے ہیں۔ان کی نم ناک آنکھیں ہی سب کچھ کہہ دیتی ہیں۔ ع

’’تیری خیر ہووے پہرے دارا ’روضے دی جالی چم لین دے!‘‘

            مسجد نبوی کا اندرونی پہلا صحن خود کار چھتریوں سے مزین ہے۔ اس سے آگے ریاض الجَنّۃ ہے۔ اس صحن میں چاروں طرف دیواروں پر سنہری حروف میں نام لکھے ہوئے ہیں۔ ناموں کے اندراج میں وہ ترتیب ملحوظ نہیں رکھی گئی جو عام طور پر سنی مساجد میں دیکھی جاتی ہے ’یعنی پہلے اللہ’ محمدﷺ اور پھر خلفائے راشدین۔ اس تفرد کے ساتھ سب سے زیادہ حیران کن تو وہ نام تھے جن کا معروف اور واضح تعلق شیعہ اثنا عشری مذہب سے ہے ’یعنی دوازدہ ائمہ شیعہ۔ ان ناموں میں حضرات علی’ حسن اور حسین کے علاوہ جناب زین العابدین’ جناب جعفر’ جناب نقی’ جناب تقی’ جناب باقر’ جناب حسن عسکری’ جناب موسیٰ کاظم (رحمہااللہ تعالیٰ) وغیرہ شامل ہیں۔جس سے بھی اس انکشاف کا ذکر ہوا اُس نے حیرت کا اظہار کیا ’کیونکہ یہ حضرات صحابی تو کجا اکثر تبع تابعین میں سے بھی نہ تھے۔ ان کے تقدس کی وجہ ان کی وہ امامت ہے جس کی معصومیت’ ولایت اور تصرف کے شیعہ اصحاب قائل ہیں۔ اگر یہ نام آسکتے ہیں تو عالم اسلام کے تمام ملکوں سے درجنوں اہل علم اور اہل دل کے اسماء بھی اس اعزاز کے مستحق ٹھہرتے ہیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی بے لوث اور بے پناہ خدمات سر انجام دی ہیں۔

            مسجد نبوی کے باہر چاروں طرف وسیع صحن ہیں۔ ان پر دھوپ اور بارش سے بچاؤ کے لیے چھتریاں لگائی ہیں جو مرکزی کنٹرول سے پھول کی طرح کھلتی اور کلی کی طرح بند ہوتی ہیں۔ بہت سے زائرین ان کے نیچے بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ یہیں خور و نوش کرتے اور یہیں باجماعت نماز یں ادا کرتے ہیں۔نماز کے بعد خاص طور پر ظہر عصر کے بعد جگہ جگہ طلبہ کے گروپ مسجد نبوی میں نظر آتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد حفظ کرنے والے بچوں کی ہوتی ہے۔ کوئی زائر اپنے شوق سے قرآن سنانا چاہے تو معلم کو اس خدمت سے خوشی ہوتی ہے۔

            سوموار اور جمعرات والے دن ایسے ہیں جب مدینہ کے لوگ ایک روایت کے تحت روزہ رکھتے ہیں۔ مسجد نبوی میں ان دنوں میں افطاری کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ مغرب کی اذان سے پہلے جگہ جگہ پلاسٹک کے دستر خوان بچھ جاتے ہیں۔ اہل ثروت اور ان کے ملازم ڈسپوزل پلیٹوں میں کھجوریں’ قہوہ’ خبز(خمیری روٹی)مع مسالہ اور زم زم کے تھرموپور جام رکھ دیتے ہیں۔ ہر کس و ناکس کو شامل ہونے کی دعوت ہوتی ہے ’کسی کو الگ سے کہنے یا بلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں کی طرح کھجور کے تین چار دانے نہیں ہوتے بلکہ آٹھ دس کھجوریں ہوتی ہیں۔ افطاری کے بعد ملازم جھٹ پٹ سامان سمیٹتے ہیں۔ میزبان کے بچے جانے سے پہلے چھوٹے سے vaccumکے ساتھ ذرے بھی چن لیتے ہیں ۔یوں طعام ریزی کے باوجود حرم صاف رہتا ہے۔

            مسجد نبوی کی مغربی جانب امام کے آگے کمرے میں جہاں جنازے کے لیے لائی گئی میتوں کو رکھا جاتا ہے’ گاڑی پر عملہ بڑی مستعدی سے کفن پوش میتیں لاتا ہے۔ جنازے کے بعد لواحقین میتوں کو اپنے کندھے پر بقیع لے جاتے ہیں۔ امام کے برابر عمارت کے باہر دونوں جانب سیاہ پتھر سے دہری لکیریں لگی ہوئی ہیں جن سے آگے کھڑا ہونے کی ممانعت لکھی ہوئی ہے۔مدینہ کے قدیمی قبرستان کو سعودی حکومت اور شہری بقیع کہتے ہیں ’جبکہ برصغیر کے ’زائر اسے جنۃ البقیع کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جنت ارضی کا فیصلہ تو قیامت کے بعد نظر آئے گا۔ عصر کے بعد اس قبرستان میں مردو ں کو جانے کی اجازت ہوتی ہے ۔کچے قبرستان کے چاروں طرف جالیوں کی اونچی باڑھ ہے’ اندر ٹیڑھے میڑھے راستے ہیں’ پلاٹوں کے اندر جو قبریں نظر آتی ہیں وہ حالیہ دور کی ہیں۔ درمیان میں بعض قبروں کی ڈھیریاں ہیں جن کے سرہانے کالے پتھر ڈالے گئے ہیں۔غالباً یہ پرانی قبریں ہیں۔ کسی بھی پرانی قبر کے بارے میں کوئی وثوق سے نہیں جانتا کہ کس مرد یا عورت کی ہے۔ حالیہ قبریں مسلسل روز بنتی ہیں کیونکہ یہ مدینہ کے رہائشی لوگوں کا قبرستان ہے۔ قبرستان میں ایک سطح پوری ہوجانے کے بعد نئے سرے سے تدفین کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یوں ایک تہہ دار یا کئی منزلہ تازہ قبرستان ہے۔ تازہ قبریں کچی بنائی جاتی ہیں۔ گڑھے کے نیچے دیوار سے مٹی نکال کر میت کو اس کے اندر رکھا جاتا ہے۔ تدفین کے بعد کچھ لوگ ایک قبر پر دعا مانگ رہے تھے ۔پرانی قبروں پر کسی کو پھول پھینکتے یا دعا کرتے نہیں دیکھا۔ ایک دو احاطوں میں زائر دانہ ڈالتے رہے ہیں جنہیں چگنے کبوتر آجاتے ہیں۔ شیعہ حضرات سیدہ فاطمہکی مزعومہ قبر پر دبے دبے آہ وزاری کی عبادت کرتے ہیں۔ بقیع کے باہر اردو ’ انگریزی اور فارسی میں شجرہ نسب کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ صحابہؓ خصوصاًاصحاب اربعہؓ میں کتنی قریبی رشتہ داریاں تھیں۔ مختلف زبانوں میں پمفلٹ دیے جاتے ہیں تاکہ لوگ بقیع کے آداب زیارت سے واقف ہوں’ قبر کو قبر ہی جانیں اوراس سے عبرت کے سوا کچھ اور توقع نہ رکھیں۔

            باب فہد کے بالمقابل بیرونی صحن کے ساتھ ایک Roadshow Exhibition بنائی گئی ہے۔ اس میں روشنی اور خاکوں کی مدد سے نبی ﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف مدارج دکھائے گئے ہیں۔ہر تصویر کے ساتھ عربی اور انگریزی میں معلومات مندرج ہیں جن کا مآخذ بخاری اور مسلم کی کتابیں ہیں۔ قدیم مدینہ کی عمارات کی حد تک تصوراتی تجسیم بھی ہے۔ غزوۂ بدر میں انسانی سائے دکھائے گئے ہیں۔ عہد نبویؐ کے علاوہ خلفائے خمسہ اور دیگر ادوار کی عکاسی نامکمل ہے۔ شاید اس لیے کہ صحیحین میں ان کے بارے میں روایات موجود نہیں ہیں۔

            باب فہد کے ساتھ ہی کافی بلندی پر جامعہ مدینہ سے منسلک مکتبہ مسجد نبوی واقع ہے۔ accelator کے ذریعے اوپر جایا جاتا ہے۔ ایک خوبصورت’ آرام دہ اور جدید سہولتوں سے آراستہ مگر صرف عربی کتابوں کی محدود لائبریری۔ یہاں پر تو دنیا کی تمام زبانوں میں سیرت پر چھپنے والی کتابوں اور تحریروں اور سی ڈیز وغیرہ کا مجموعہ ہونا چاہیے اور زائرین کو سیرت کی کتابوں اور رسالوں سے استفادہ کرنے کی بلامعاوضہ سہولت حاصل ہونی چاہیے۔ نعت اسلامی ادب کی اعلیٰ ترین صنف ہے جس کے ظہور و اظہار کے لیے یہاں سے بہتر جگہ کیا ہو سکتی ہے؟

            مدینہ شہر میں بھی زائرین کے پینے کے پانی کی مفت فراہمی کے لیے کہیں فلٹر واٹر پلانٹ نہیں ہے۔ یہاں بھی ‘‘ریال دو اور پیاس بجھاؤ’’ کا فارمولا رائج ہے ۔ مختلف زبانوں میں عام ہدایات اور Direction Guidesکی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

            حرم کعبہ اور حرم نبوی ﷺ دونوں مساجد میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ زائر بلا روک مسلسل نوافل ادا اور طواف کرتے رہتے ہیں۔ جگہ جگہ آویزاں برقی گھڑیوں پر مختلف نماز کے اوقات تو نظر آتے ہیں مگر کسی جگہ وقت زوال کا اندراج نہیں ہے۔ اس بے خبری کے نتیجے میں بعض لوگ ہمہ وقت نوافل پڑھتے پائے جاتے ہیں۔طلوع’ نصف النہار’ غروب’ اشراق کا ذکر تو ہے مگر کہیں اوابین کا نام دکھائی نہیں دیتا۔

            بازار میں جو سامان دستیاب ہے وہ بڑی وافر مقدار میں ہے اور چائنا کا ہے یا سعودی اور عرب ممالک کا۔ مصنوعات میں پاکستان کسی جگہ نظر نہیں آتا۔ سعودی پروڈکٹس میں ہر قسم کی ڈیری’ پولٹری’ پلاسٹک’ خبزیات’ مشروبات’ لحمیات’ کاسمیٹک’سبزیات وغیرہ شامل ہیں۔ حرمین میں آب زم زم کے پلاسٹک کے ڈرم اور پانی پینے والے تھرموپور گلاس بھی سعودیہ کے ساختہ ہیں۔ غلاف کعبہ بھی مقامی طور پر تیار ہوتا ہے ۔ سعودی ساختہ مصنوعات کا معیار اچھا ہے اگر وہ واقعی مقامی طور پر تیار کی گئی ہیں۔ خوردنی اشیاء پر اس کے اجزاء’ تاریخ تیاری اور تاریخ اختتام درج ہوتی ہیں۔ دکانوں اور بازاروں میں سعودی باشندے نظر نہیں آتے ’وہ حرم میں پائے جاتے ہیں یا اپنے گھروں میں۔ ان کو دکانوں کا معقول کرایہ مل جاتا ہے ۔ نئے قوانین کے تحت غیر ملکیوں کو اپنے ہر کاروبار میں سعودی باشندے کو شریک بنانا ضروری ہے۔ چونکہ مزاجاً سعودی آرام طلب اور سہل کوش ہیں’ وہ محنت سے جی چراتے ہیں اور دن بھر قہوہ ’ کھجوروں اور سمعی و بصری تفریحات سے اپنا جی بہلاتے ہیں’ اس لیے غیر ملکی شراکت دار انہیں آنے کی زحمت سے بچانے کے لیے ان کا ماہانہ بھتہ ان کو پہنچادیتے ہیں۔ دکانوں پر ہر جگہ ایسے سعودی حلیہ لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے جو اصل میں پاکستان کے کسی حصہ سے تعلق رکھتے ہیں اور روز مرہ کی عربی روانی سے بولتے ہیں۔

            مسجد حرام اور مسجد نبوی دونوں میں دیواروں ’ ستونوں اور چھتوں پر رنگ دار گل کاری کی گئی ہے۔ غور سے دیکھیں تو ان بیل بوٹوں میں کوئی پیغام یا آفاقی صداقت نقش نہیں کی گئی ہے’ جیسے نیم خواندہ نقاش کے ذہن میں جو خیال آیا اور اس نے ایک خیالی پھول گھڑ دیا۔ زائرین ان نقش و نگار کو بار بار دیکھتے ہیں۔ جگہ کی اہمیت کے اعتبار سے ممکن ہوتا تو موئے قلم کے ذریعے توحید’ رسالت اور معاد کے فکر کو اُجاگر کیا جاتا۔ عیسائیت تثلیث کو اپنے تمدن کے مظاہر میں سموئے رکھتی ہے ’برش سے بھی اور ہتھوڑے سے بھی۔ ہمارے دین کے مظاہر تو آفا ق و انفس میں عیاں ہیں۔

            سعودیہ میں شرعی پولیس کا محکمہ موجود ہے مگر بجز ایک جگہ کے کہیں بھی اسے متحرک نہیں پایا۔ حرم کے اندر سیاہ پوش زنانہ پولیس زائر مستورات کی آمدروفت کو کنٹرول کرتی ہے۔ شہروں کے اندر زائر بے رحم غیر ملکی ملازموں اور سخت دل سعودیوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اگر سعودی پولیس کی کوئی سپیشل فورس بنائی جائے جو زائرین کی تکالیف اور مشکلات کو سن لے اور موقع پر ازالہ کردے تو حالات بہتر ہوجائیں۔ اب کسی عام ہوٹل ’ دکان ’بس’ اڈے’ ٹیکسی’ سڑک غرض کہیں بھی کوئی مشکل پیش آئے تو کوئی آپ کی سننے والا نہیں ہے۔ کسی طرح عام پولیس سے رابطہ ہوجائے تو ان کو اردو اور انگریزی میں سمجھانا ممکن نہیں ہوتا۔ خصوصاً نیم خواندہ پاکستانی اور دیگر ممالک کے زائرین کی مدد اور رہنمائی کے لیے خصوصی help lineاور خصوصی پولیس مدد ضروری ہے۔ یہ پولیس سائل مسؤل ’ طالب مطلوب اور مسافر و مقیم کے معاملات کو سپر وائز کرے۔ ممکن ہو تو جگہ جگہ ایسے بوتھ یا کوسک بنانے چاہئیں جہاں سے زائرین کو رہنمائی اور مد دمل سکے۔

            مدینہ میں باب جبرائیل کے سامنے ڈسپنسری ہے جو نماز کے اوقات کے بعد کھلتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اردو سے نا بلد تھے ۔وہاں موجود دوائیں کسی ملک کا عطیہ تھیں اور معیاری لگتی تھیں۔ تیس سیکنڈ میں مریض فارغ ہو رہا تھا’ جن کی باہر لمبی قطار تھی’ مرد الگ اور عورتیں الگ۔ ایک چھپا ہوا فارم تھا جس میں شکایات اور ممکنہ دوائیں لکھی ہوئی تھیں۔ مریض کا نام اور عمر وغیرہ کا خانہ خالی رہتا صرف تکلیف کی سطر پر اور اس کی لکھی ہوئی دوا پر ڈاکٹر صاحب ٹک کرتے تھے۔ ساتھ ڈسپنسری سے دوا مل جاتی تھی۔ مکہ میں ایسی کوئی سہولت نظر نہیں آئی۔ ایسی ڈسپنسریاں جگہ جگہ ہونی چاہئیں’ خصوصاً بڑے دروازوں کے آس پاس۔ سعودیہ میں دوائیں خاصی مہنگی ہیں مگر پاکستان کی طرح ڈرگ سٹور سے بلا روک مل جاتی ہیں ۔

            مکہ مسلمانوں کے لیے توحید’ وحدت اور اتحاد کا مظہر ہے۔ یہاں ایک میوزیم یا مرکز کی ضرورت ہے جس میں ایک طرف مختلف زبانوں میں اسلامی کتابوں اور کیلی گرافی کا ذخیرہ ہو اور دوسری طرف عالم اسلام کے تمدنی ’ تہذیبی اور علمی سرمائے کے نمونے اکٹھے ہوں’مثلاً تعمیرات ’ ملبوسات’ سکے’ ظروف’ آلاتِ حرب’ جن سے قربت کے علاوہ باہمی تعارف میں بھی مدد ملے گی۔

            مکہ میں ایک منبر کے خطیب نے راقم کو احرام کی چادر پر ہمیانی نما بیلٹ باندھے دیکھا تو اسے دور سے حرام حرام قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ کہ لفظ حرام سعودی غالباً ناجائز یا ممنوع کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ لفظ شدت بلکہ کلی ممانعت کا اظہار کرتا ہے ۔ پاکستانی اور غیر ملکی زائرین غالباً تمام کے تمام بیلٹ احرام کے اوپر ہی باندھے ہوئے تھے۔ زیادہ تر اس لیے کہ ان کی دھوتیاں کمر پر ٹکی رہیں۔ اس امر سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی علماء بھی تنگ نظری اور تعصب کا شکار ہیں جو اپنے مذہب کے فکر پر اصرار کرتے ہیں ’کسی اور فکر یا اختلاف کو روا نہیں سمجھتے ۔ حرم میں تو ہر فکر کا اظہار ہوتا ہے اور ہر فکر اسلام کا اور اسوہ صحابہ کا آئینہ دار ہے ۔

            زائرین خصوصاً پاکستان سے آنے والے مستعمرین کی ایک معقول تعداد ایسی بھی ہوتی ہے جو بار بار عمرہ کرنے آتی ہے یہ تکرار غیر ضروری سہی لیکن اس کے باوجود عمرہ ان کے اندر دین کے تقاضے اور داعیے بیدار نہیں کرتا۔ وطن سے روانگی’ دورانِ سفر’ حرم کے اندر ’ حرم کے باہر’ کوچہ و بازار’ ہوٹل اور دکان غرض کسی بھی جگہ زائرین کی معلومات اور تربیت کے لیے کوئی اہتمام نظر نہیں آتا’ نہ معلموں کا اور نہ ان کے ایجنٹس کا’ حکومتوں کی طرف سے اور نہ علماء کی جانب سے۔ حرم کے اندر اور مسجد نبوی کے باہر کبھی کبھی اردو کے چند پمفلٹ ملتے ہیں جو ناکافی ہیں ۔ مسجد کے اندر کوئی منبر یا مصلّٰی ایسا نہیں ہے جہاں زائر اپنی زبان میں عمرہ کا مقصد جان سکے اور اپنی زندگیوں میں کوئی نظر آنے والی تبدیلی پیدا کرسکے۔

            عمرے کا سفر’ مشقت’ محنت اور تھکاوٹ میں حج سے چند ہی درجے کم ہوتا ہے’ خصوصاً جب مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت فوراًطواف کی کوشش کی جائے اور حرم میں قیام دن رات کی کئی نمازوں پر محیط ہو۔ اس صورت میں تھکاوٹ’ بھوک’ کمزوری اور بچوں کی یاد خصوصاً جب وہ چھوٹے یا dependentہوں’ بہت صبر آزما اور ہمت والا کام بن جاتا ہے۔ اس عزیمت سے ظاہر ہے اجر بھی کئی گنا اور صلہ بھی بے انتہا ہوگا۔ حرم کا کیف ایک سحر ہے ۔گویا ایک آسمانی طاقت ہے جو ہر جذباتی پست و بالا کو ہموار بنا دیتی ہے۔ سفر کے دوران صبر’ حوصلہ’ برداشت’ ہمدردی’ ایثار ضروری ہیں۔ گروپ میں مزاج اور موڈ پر کنٹرول کرنا ہوتا ہے اور دوسرے ساتھیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

            مکہ مدینہ میں مغربی تہذیب کا ایک اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ کھانے کی ایک بہت بڑی مقدار فالتو بچ جاتی ہے ۔اسے فراخدلی سے کوڑے دان کی نذر کردیا جاتا ہے۔ روٹیاں سالم کی سالم کچرے کی نذر ہوتی ہیں۔ اوّل تو خریدار سے پوچھ کر کم سائز یا کم مقدار میں روٹی بیچنی چاہیے۔ دوم جو بچ جائے اس کے لیے مختلف رنگ کے ڈسپوزل پلاسٹک بیگ ہوں تاکہ ان کو بہتر مصرف میں لایا جاسکے۔ اس طرح جنگلی کبوتروں کی خدمت کے لیے گندم’ جو’ باجرہ’ چاول اور دالوں کی کثیر مقدار ضائع ہوتی ہے۔ شہر کے کبوتر اناج کھا کھا کر پاکستان کی تاجر اشرافیہ کی طرح نظر آتے ہیں۔

            سعودیہ میں صدقہ و خیرات کو جمع کرنے اور مستحقین میں بانٹنے کا کوئی انتظام نظر نہیں آیا۔ بھیک کا یہ عالم ہے کہ طواف کے دوران ایک کالا معذورہجوم کے درمیان فرش پر گھسٹ رہا تھا۔ طواف کرنے والے بجائے اذکار کے اس پر ریالوں کی بارش کررہے تھے۔ حالت یہ تھی کہ بھکاری کی جیبیں بھر بھر جاتی تھیں۔ قریب میں موجود اس کا کوئی ملازم انہیں خالی کرلیتا تاکہ داد و دہش کو جگہ کی قلت نہ پیش آئے۔ پاکستانی زائر بوجہ غربت حرم کے اندر اور باہر خوردنی اشیاء ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ ایسے تمام مستحقین کے طعام و قیام’ واپسی ٹکٹ’ نقد امداد اور دیگر ضروریات کے لیے صرف انتظام کی ضرورت ہے ’دینے والے ہاتھ لاتعداد۔

            خانہ کعبہ میں لاؤڈ سپیکر کا نہایت اعلیٰ انتظام ہے۔ کسی بھی نماز کے بعد سعودی دعا نہیں مانگتے۔ یہ کام وہ نماز پر چھوڑ دیتے ہیں جو خود سراپا دعا ہے۔ ہمارے ہاں اتنی لمبی دعا مانگی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو اتنی بار پکار پکار کر یاد دلایا جاتا ہے کہ ہاتھ تھک جاتے ہیں اور دماغ اخباری خبروں اور ذاتی ضروریات کی طرف بھٹک جاتا ہے۔

            ہر نماز کے بعد دونوں مساجد میں فوت شدگان کے اکٹھے جنازے پڑھے جاتے ہیں ۔ کسی بھی جگہ مسجد یا دورانِ جنازہ یا قبرستان میں کلمہ شہادت کا ورد نہیں سنا ۔شاید اس لیے کہ مر جانے والا تو اب دہرانے کی سعادت سے محروم ہوچکا۔ عرب خاص طور پر صلوٰۃ جنازہ اہتمام سے ادا کرتے ہیں۔ جنازہ کے بعد تین سورتیں اور الحمد کے ساتھ فاتحہ پڑھنے کا رواج نہیں ہے ’بلکہ نماز جنازہ کے بعد الگ سے دعا نہیں مانگتے۔وجہ یہ ہے کہ نماز جنازہ ہے ہی ساری کی ساری دعائے مغفرت۔

            مسجد نبوی میں اللہ ’ اللہ اکبر’ کلمہ طیبہ اور آیات نہایت کثرت سے تحریر ہیں۔ بعض جگہوں پر صحابہ کرام ؓکے نام ہیں ’لیکن تمام عمارات پر آل سعود کے ناموں کا قبضہ ہے ’حالانکہ تیل دھرتی کا ہے ’ ملک عوام کا ہے اور گھر تو ہے ہی اللہ کا۔ مصحف کے تمام نسخوں پر لازماً آلِ سعود ہی کا نام درج ہوتا ہے۔ سرکاری مکتبے میں پاکستان کے اہل حدیث علماء کی اردو کتابیں ہیں’ باقی مسالک کے علماء اس اعزاز سے محروم ہیں۔ یہ بھی ایک نوع کی فرقہ بندی اور تنگ نظری ہے’ کیونکہ ۹۷ فیصد پاکستانی زائرین حنفی مسلک ہیں۔

            پاکستانی ایک سادہ دل مگر رنگ باز قوم ہے۔ نیکی کے ہر کام میں اس کی نیت اچھی ہوتی ہے مگر اس کام کے طریقے اور کرنے کے انداز راستے سے ہٹتے چلے جاتے ہیں۔ عمرہ اور حج پر جانے کے لیے وہ جھوٹ’ فریب اور چکر سب کچھ روا رکھتے ہیں۔ نامحرم خواتین کے فرضی محرم بھی بن جاتے ہیں۔ انہیں حجاز کے سفر پر جانے سے پہلے تعلیم و تربیت اور ہدایت و رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ کام تو علماء کا ہے مگر وہ خود فقہی اسالیب کے پابند اور اپنے مقتدیوں کی خوشنودی کو مقدم رکھتے ہیں۔ پاکستانی اسلام یا پاکستانی مسلمان کے چند مناظر ملاحظہ ہوں:

٭ خانہ کعبہ میں ایک صاحب نماز پڑھ رہے تھے اور انہوں نے اپنا رخ مغرب کی طرف کر رکھا تھا۔ یوں ان کا چہرہ بطرف خانہ کعبہ نہیں تھا بلکہ اس سے نوے(۹۰)درجے ہٹ کر تھا۔ ایک خادم کے بتانے پر راقم نے انہیں توجہ دلائی۔

٭ ایک صاحب حرم کے اندر پوچھ رہے تھے کہ خانہ کعبہ کتھے وے؟

٭ بقیع سے تدفین دیکھ کر لوٹ رہا تھا۔ آگے ایک معزز نما ٹوپی پوش جا رہے تھے۔ وہ صاحب اچانک یوں نیچے جھکے جیسے اپنے جوتے کو درست کرنے لگے ہوں۔ انہوں نے جلدی سے قبرستان سے چند پتھر اٹھائے اور جھٹ سے واسکٹ کی جیب میں ڈال لیے اور چل دیے۔

٭ مسجد نبوی میں افطاری کے لیے مخیر لوگ دستر خوان بچھاتے ہیں ۔کھانے کے بعد کھجوریں’ قہوہ اور خبز بچ جاتے ہیں۔ کارکن بعد میں افطاری کرتے ہیں۔ ایک ہم وطن جس کے پاس پہلے ہی کھجوریں اور خبز وافر مقدار میں جمع تھیں کارکن کے گرد ہوگیا۔ کارکن نے قدرے توقف کے بعد دونوں اشیاء کے توبڑے سامنے کردیے۔ حیرت کہ ہمارے مسافر نے سیر ہوکر چیزیں نکالیں اور بطور احسان تھوڑی مقدار ان کے حوالے کی۔ گھر اللہ کا’ ہمسائیگی روضہ رسولﷺ کی’ میزبان کوئی اور ۔ بے تکلفی کے کیا کہنے!

٭ زم زم پینے کا انتظام تو حرمین کے اندر بہت اعلیٰ اور وسیع پیمانے پر ہے۔ بڑے دروازوں کے باہر بھی زم زم کی ٹونٹیاں لگی ہوئی ہیں’لیکن وہاں سے بڑے کین اور بڑی بوتلوں کو تنگ دھار ٹونٹی سے بھرنا صرف ہمارے ہم وطن ہی کرسکتے ہیں۔

٭ اگرچہ مکہ و مدینہ کی مساجد میں بہت سارے واجبات اور مستحبات ایسے ہوتے ہیں جن سے پاکستان کے حنفی خصوصاً دیوبندی’ بریلوی مانوس نہیں ہیں۔ بعض عمل ہمارے ہاں اضافی کیے جاتے ہیں’ لیکن کسی پاکستانی کو جماعت سے الگ نماز پڑھتے’ مرضی کے اعمال بجا لاتے یا اپنامجرب وظیفہ یا آوردہ مصحف پڑھتے نہیں دیکھا۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ کہیں تو ہم قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ اللہ کا نہیں تو سعودی شرطے کا لحاظ کرتے ہیں۔

٭ چار بزرگ دیہاتی زائرین کا گروپ نظر آیا جن کے بستروں کے ساتھ پلاسٹک کے لوٹے مضبوطی سے بندھے ہوئے تھے اور کاغذات ان کی دھوتیوں کی ڈابوں میں۔

٭ دھوتی ایک باعزت پہناوا ہے۔ بہت سی قومیں تہبند باندھتی ہیں۔ پاکستانیوں کو صرف اتنی ہدایت درکار ہے کہ اسے باپردہ باندھیں۔

٭ کئی دیواروں پر ہاتھ کی فوٹو نقل اور بعض جگہوں پر اردومیں اشتہار چسپاں دیکھے۔ بعض پر کسی بزرگ کی تصویر بھی ہوتی تھی۔ منہ کھلا ہوا’ آنکھیں بند یا موٹا شیشہ’ ہڈیوں کا ڈھانچہ’ چادر گھٹنوں تک۔ یہ تلاش گمشدہ ہے اور سب کے سب ارض پاک کے مہمان ہیں۔ ایسے ضعیفوں کی حفاظت کا بہتر انتظام بھی کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ کام وزارت حج کا ہے اور بکنگ کرنے والے پاکستانی اور سعودی سفری ایجنٹوں کا کہ مہمان کو گم نہ ہونے دیں ورنہ گمشدگی سے بچنے کے لیے مکمل شناخت کا انتظام کریں۔

            ہوٹل کی دیوار پر کسی ٹریول ایجنٹ نے اپنانمبر چسپاں کر رکھا تھا کہ مکہ مکرمہ کی زیارات کریں۔ چنانچہ اس سے رابطہ ہوا اور دس ریال فی زائر کے حساب سے ٹور طے ہوا۔ اس طرح تھوڑے وقت کے لیے احد’ قبلتین’ قبا’ ثور’ حرا اور مقاماتِ حج(عرفات’ مزدلفہ’ منیٰ’جبل رحمت وغیرہ) دیکھنے کا موقع ملا۔ ٹور گائیڈ کو ئی سرائیکی نوجوان تھا جو حالات و واقعات میں اپنی روایات اور اپنے جذبات بھی شامل کررہا تھا۔ اسے ٹوکنا پڑا کہ خود ساختہ باتوں کو عبادت اور زیارت کا حصہ نہ بنائے۔ جگہ جگہ زائرین کے جھنڈ نظر آتے ہیں جو ہر چیز کو عقیدت اور محبت سے دیکھتے ہیں اور اپنے آئینہ دل میں بسا لیتے ہیں۔جبل رحمت کے دامن میں ترک زائرین کا گائیڈ کوئی واعظ تھا جو پوری طرح اپنے سامعین کو مسحور کیے ہوئے تھا۔ گو تمام مقامات ان ایام میں ویران اور بے آباد نظر آتے ہیں تاہم زائرین کے لیے بیٹھنے کی کوئی جگہ’ پینے کا پانی یا واش روم موجود نہیں ہیں۔ احد کے پاس غسل خانہ ڈھونڈنا پڑا۔ ایک مسجد کو تاڑا کہ وہاں سہولت مل جائے گی مگر وہ مقفل تھی اور کوئی ملازم پاس موجود نہ تھا۔ جب ایک سرکاری غسل خانہ ملا تو اس کی غلاظت ’ بدبو اور ناکاری نے پسپائی پر مجبور کردیا۔ صفائی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ گٹر ابل رہے تھے۔ نزدیک کوئی سپروائزر یا عملہ موجود نہ تھا۔ راستے میں گائیڈ نے بتایا کہ آج کل ایک نئی جگہ دریافت ہوئی ہے جسے وادی ٔجن کہتے ہیں۔وہاں گاڑی انجن چلائے اور گیئر لگائے بغیر خود ہی رواں ہوجاتی ہے۔ اسی کے مطابق سعودی خوش تھے کہ انہیں کمائی کے لیے ایک اور SITE مل گیا ہے۔ اس عجیب مظاہرے کی حقیقت کیا ہے ’اس کی تحقیق کے لیے اگلے عمرے کا انتظار کرنا پڑے گا۔

            حرم کے اندر حکومت نے ایک ‘‘شعبہ ارشاد’’ بنایا ہے۔ فون پر یا ذاتی رابطے کے ذریعے مذہبی مسائل کا حل پوچھا جاسکتا ہے۔ باب عبد العزیز کے اندر دونوں طرف متعدد فون لٹکے ہوئے ہیں۔ میں نے بار ہا ٹرائی کی ’صرف ایک بار عربی میں جواب ملا۔ جب دونوں طرف ناسمجھی ہی زبان ٹھہری تو مزید کیا ستم ڈھاتے۔ ایک روز حرم میں غلطی سے کسی اور راستے سے نکلتے ہوئے اتفاقًا شعبہ کا دفتر مل گیا۔ وہاں عقال پوش سیاہ ریش نوجوان سے بات ہوئی تو وہ اردو انگریزی سے نابلد تھے۔ تاہم میری درخواست پر ایک صاحب سے ملوایا جو انگریزی بول سکتے تھے۔ راقم نے ان سے دوسرے تیسرے عمرے میں حلق کا مسئلہ پوچھا۔ پانچوں نمازوں میں فرضوں کے علاوہ کتنی رکعات مزید پڑھنی درکار ہے؟ اثنائے گفتگو میں نے حنفی معمول کا بتانا چاہا تو کہنے لگے ‘‘ میں آپ کو حدیث کے مطابق نوافل بتا رہا ہوں’ آپ فقہ حنفی کی بات کررہے ہیں۔’’ انہیں بتا نہ سکا کہ فقہ حنفی کی اساس بھی تو احادیث پر مبنی ہے۔ آئمہ فقہاء اپنے پاس سے تو نہیں کہہ رہے۔ یہ اندازِ فکر حرمین کے علماء میں عام ہے ’جیسے ان کے پاس جو معلومات ہیں وہی صحیح منابع سے ہیں۔ حالانکہ حرم میں ہر مسلمان اپنے علم اور فہم کے مطابق تو اسلامی ہدایات اور احکامات پر ہی عمل کرتا ہے۔ عبادات اور اعمال و اذکار کے یہ طریقے زائر اپنے وطن میں اپنے علماء سے ہی سیکھ کر آتا ہے۔

            سعودیہ کے سفر سعادت کی کیفیات اور واردات ناقابل بیان ہوتی ہیں ۔ یہ ایک روحانی سفر ہے ۔ ایک فرد کا اپنے رب اور رسولﷺاور ان کے ساتھ محبت و عقیدت کا معاملہ ہے’ اسے شئیر نہیں کیاجاسکتا۔سفر میں قیام و طعام کی مشکلات کو کسی حد تک برداشت کیا جاسکتا ہے حالانکہ اب یہ ایک کاروباری معاملہ ہے ۔ہم ادا کرتے ہیں اور تاجر ایجنٹوں سے اپنی حلال کی کمائی کے بدلے طے شدہ سہولیات چاہتے ہیں۔مگر جو ذلت اور رسوائی سعودی عرب سے لوٹتے وقت جدہ ائیر پورٹ پر ہوئی وہ سعودی حاکموں کے حضور سجدہ ریز پاکستانی حکمرانوں اور ہمارے ملازم سفارت کاروں کی بے حسی اور بد عملی سے شدید ہوجاتی ہے۔ جیسے پاکستانی کسی آزاد مسلم ملک کے باشندے نہیں ہیں ۔جیسے وہ سفر پر اپنا خرچ نہیں کرتے’ سعودیہ کی خیرات پر پلتے ہیں۔ جیسے پاکستانیوں کا کوئی والی وارث یا غیرت مند لیڈر نہیں ہے۔

            پی آئی اے کی واپسی کی فلائٹ رات دس بجے کی تھی۔زائرین زم زم اور کھجوروں کے سامان سے لدے پھندے بروقت ائیر پورٹ پہنچے اور تھوڑے وقت میں امیگریشن سے فارغ ہوگئے۔ اگلا مرحلہ کسٹم کلیرنس اور سامان کی سکریننگ کا تھا۔ زائر سعودی عرب کے دو مقتدر شہروں کی زیارات اور وہاں عبادات کے بعد لوٹ رہے تھے۔ ان کے سامان میں زم زم اور کھجوروں کے علاوہ پلاسٹک کے کھلونے’ تسبیحیں اور پرفیوم ہی ہوسکتے تھے’ منشیات یا اسلحہ تو نہیں ہوسکتاتھا۔ مگر وہاں ایک لمبی لائن تھی چیک ہونے والے کی۔ ایک مردوں کی دوسری عورتوں کی۔ دونوں قطاروں میں عورتیں اور بزرگ زیادہ تھے۔ یہ سب کئی گھنٹے مسلسل کھڑے رہے۔ لائن دھیرے دھیرے آگے کھسکتی رہی۔ ہال کے اندر سامان کی سکریننگ مشینیں تھیں جنہیں بنگلہ دیشی ملازم چلا رہے تھے۔ ان کے اوپر دو باوردی سعودی نوجوان تھے جو افسرانہ طمطراق کے ساتھ کرسیوں پر براجمان تھے اور بے بسی اور بے عزتی کے پاکستانی مناظر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ بنگلہ دیشی ملازموں کا رویہ حد درجہ ہتک آمیز ’ گستاخانہ اور بیہودہ تھا۔ ان پڑھ دھوتی پوش بزرگوں کو دھکے دے رہے تھے ۔ عملاً ان کا دستی سامان چھین رہے تھے۔ جو بوڑھی عورت گلے میں حمائل تھیلے اتارنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کرتی بنگلہ دیشی اس عورت کو گھسیٹ کر اس کا تھیلا مشین میں پھینکتے۔ ایک باریش بزرگ کی جیب سے سارا سامان نکلوایا ’پھر ان کی ٹوپی اتروائی’ جوتے اتروائے’ آنکھوں سے عینکیں اتروا کر مشین میں ڈالیں پھر بزرگ سکینرسے گزرے۔ اس ڈرامے میں بے عزتی اور بے بسی کی انتہا تھی۔ سعودی افسران ان نظاروں سے محظوظ ہورہے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ اس سیکشن میں پاسپورٹ یا ٹکٹ کسی چیز پر کوئی دستخط نہیں کیے جاتے تھے۔ صرف مسافروں اور ان کے سامان کی فزیکل سکریننگ ہورہی تھی۔ لائن آہستہ آہستہ سرکتی رہی اور زائرین سعودی اور شریف حکمرانوں کو دعائیں دیتے رہے۔ ایک سینئر زائر نے بنگلہ دیشی ملازمین کے غلط برتاؤ پر ٹوکا تو سعودی افسران اپنے ملازمین کے تحفظ پر اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے احتجاج کرنے والے زائر کو ہال سے باہر بھیج دیا اور حکم دیا کہ وہ کلیرنس کے لیے سب سے آخر میں آئے۔ خدا خدا کرکے جہاز میں سوار ہوئے تو ہوائی جہاز چلنے سے انکاری۔ دروازے بند’ اے سی بند’ شدید گھٹن ۔ کافی انتظار کے بعد پائلٹ نے اعلان کیا کہ وہ تو تیار ہے ’سعودی ٹاور سے روانگی کے لیے اجازت کا انتظار ہے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کے جاں گسل انتظار کے بعد فلائٹ روانہ ہوسکی۔ روانگی میں بلا جواز تاخیر ہماری اذیتوں میں آخری اضافہ تھی۔ اس حبس انتظار کے دوران بہت سارے زائرین پر گلے کی بیماریوں نے حملہ کیا جو لوٹ کر کئی ہفتے طاری رہا۔