رمضان کا پیغام

مصنف : حامد کمال الدین

سلسلہ : گوشہ رمضان

شمارہ : جولائی 2014

لینے والے کو اپنی اوقات اور دینے والے کی فضیلت و برتری کا پاس رہے، اپنی کم مائیگی او ر اسکی مہربانی کا احساس رہے تو بندگی خوب نبھتی ہے۔ بندے اور مالک کا رشتہ اپنی بہترین حالت میں جڑا رہتا ہے۔ بندہ اپنے مالک سے لے کر ہی تو کھاتا ہے۔ اس لینے میں آخر عیب ہی کیا ہے، بشرطیکہ یہ احساس رہے کہ یہ رشتہ لینے اور ہاتھ پھیلانے کا رشتہ ہے۔ یہ مانگ کر لینے کا رشتہ ہے۔ لے کراقرار کرنے کا رشتہ ہے۔ کھا کر شکر کرنے کا رشتہ ہے۔ اس رشتے کی اصل قیمت بس یہی تو ہے کہ اسے یاد رکھا جائے اور قلب وذہن سے ایک پل بھی محو نہ ہونے دیا جائے۔ کیونکہ اس کے محو ہو جانے کا مطلب پھر یہی تو ہوگا کہ یہ سب نعمتیں ، یہ صحت و شادمانی، یہ تندرستی ، یہ زندگی ، یہ جوانی ، یہ راحت اور تن آسانی، یہ بیوی بچوں کی محبت اور چاہت، یہ مسرت کے لمحات میں دوستوں کے قہقہے اور عزیزوں کی چہک ، یہ خوشیاں یہ سب نعمتیں یہاں آپ سے آپ ہیں!! یہ کسی مہربان کی دین نہیں! یہ سب کچھ روزانہ ایسے ہی یہا ں گلیوں ، بازاروں میں بے تحاشا پڑا ہوتا ہے! یہ خود بخود کہیں سے آتا ہے اور پھر کبھی کبھار خو د بخود ہی کہیں کو سدھار جاتا ہے!!

شہر کے ایک نادان بچے کی طرح جس نے کھیت اور باغات کبھی نہ دیکھے ہوں، کسانوں اور باغبانوں کا پسینہ کبھی بہتا نہ دیکھا ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ سیب ریڑھیوں کولگتے ہیں اور آم دکانوں میں اگتے ہیں۔ بندگی کا یہ رشتہ ،خدا کی ممنونیت اور احسان مندی کا یہ احساس جس لمحہ دل سے محو ہوتا ہے تو پوری زندگی ہمارے لیے ویسے ہی بے معنی اور لغو ہوکر رہ جاتی ہے۔ سب خوشیاں اور راحتیں ویسی ہی بے مقصد اور بے قیمت ہوجاتی ہیں۔ یہ خوبصورت دنیا پھر کسی کاریگر کی صناعی معلوم نہیں ہوتی، پھر سورج کے روزانہ اپنے وقت پر نکل آنے پر ہمارے لئے کوئی پیغام نہیں ہوتا۔پھر چاند کے گھٹتے بڑھتے اجالے میں کوئی عبرت اور کوئی سبق نہیں ہوتا۔ یہاں کے خوش نما پھل، پر لطف ذائقے ، یہ سب رعنائیاں اور لطافتیں ہم کو ریڑھی کا کمال نظر آتا ہے!!

مالک کی پہچان سے محروم ہوکر آدمی واقعی اتنا نیچ ہوجاتا ہے۔ جب یہ کسی کی دین نہیں تو پھر یہ لوٹ ہے!! دوستو لوٹ مچی ہو تو پھر اتنی کسی کو فرصت کہاں کہ ریڑھی سے آگے کی سوچے! کوئی رازق کو پہچانے! خالق کا پوچھے ! مالک کا پتہ کرے! منعم کا احسان مند ہو! جس کا مال کوئی لوٹ نہیں محض اس کی دین ہے! اس کا فضل اور احسان ہے! اس کو کوئی اٹھائے تو اس سے پوچھ کر، کھائے تو اس کا نام پہلے لے کر، پھر کھالے تو دل اور زبان سے اسکی مہربانی تسلیم کرے، اس کی کاریگری کی داد دے اوراس کی عظمت کے گیت گائے! پھر اپنی ذات پر اپنا یا کسی اور کا نہیں سب سے بڑھ کراسی کاحق تسلیم کرے اور نمک حلالی کا یہ حق بھی جانے کہ مالک کے سوا دنیا میں کسی اور کی بڑائی اس سے برداشت نہ ہوگی!! اس کے جیتے جی زمین میں اب کسی اور کی خدائی اور فرمانروائی نہ چل پائے گی!اتنا سوچنے کی کسی کو یہاں فرصت کہاں!!

صاحبو! مالک کی بجائے اناج کی بندگی، رازق سے بے اعتنائی پر رزق کی طمع ، نعمت کا پاس اور منعم کی بے وقعتی۔۔۔ یہ دنیا میں ہمیشہ پست ہمتوں اور کم ظرفوں کاشیوہ رہاہے۔ یہاں گھٹیا انسانوں کا یہ پرانا مذہب چلا آرہاہے۔

روزہ جو اصل معبود کیلئے اختیار ی بھوک رکھ کر ہوتا ہے ، مالک کی خاطر پیاس سہ کر رکھاجاتاہے، دراصل اسی کم ظرفی کے مذہب کا انکار ہے۔

 یہ روزہ کیا ہے؟اس بات کا اعلان ہے کہ دنیا میں خدائی روٹی کی نہیں، روٹی دینے والے اور پیدا کرنے والے کی ہے۔ جو کبھی نہ بھی دے تب بھی خدائی اسی کی شان ہے۔ ہر حال میں اپنا اس سے ایک ہی رشتہ ہے۔ یہ بندگی اور سپاس کا رشتہ ہے۔ یہ منعم شناسی ہی دراصل خود شناسی ہے۔ بھائیو اس رشتے کو جانے بغیر منعم کو پہچانے بغیر کھاتے چلے جانا ویسے کہاں کی انسانیت ہے!! اعلی ظرفی تو یہ ہے کہ کھانے سے زیادہ انسان کو کھلانے والے کی قدر ہو اور کمینگی یہ ہے کہ آدمی کو بس صرف کھانے سے غرض ہو!

پیٹ بھرے تو اس کو روٹی کا کمال جاننا کس قدر گھٹیا پن ہے! اپنا سارا مبلغ علم روٹی پکانے اور اگانے کا فن سیکھنے تک محدود کرلینا روٹی کے مالک سے بے اعتنائی تو ہے ہی، مگر بھائیو! یہ انسان کی اپنی بھی توہین ہے۔ ایسی کم ظرفی کی زندگی جوسب نعمتوں کی قدرکھو دے!! ایسی بد بختی ہر اس انسان کے حصے میں آتی ہے جو دنیا میں اللہ کے تعارف سے محروم رہے۔ جو بندگی کے پر لطف معنوں سے آشنا نہ ہو پائے۔ جسے محمد کی لائی ہوئی روشنی میں دنیا کی حقیقت دیکھ لینا نصیب نہ ہو۔ لوگ پہلے بھی یقینا ہنستے بستے اور کھاتے پیتے رہے ہونگے مگر بندگی کا مطلب سمجھا کر انسانوں کی طرح کھانا اور بندوں کی طرح نعمت کا حظ اٹھانا ان کو محمد ﷺ ہی نے آکر سکھایا ہے۔ یہ بندگی کا احساس، یا یوں کہہ لیں کہ محمد کی لائی ہوئی ہدایت ، ایک لمحہ کیلئے بھی آپ کی نظر سے اوجھل ہوئی تو سمجھئے یہ ہنستی بستی دنیا بس اندھیر ہوگئی۔ انسان کے کھانے اور چارے کا فرق بس اسی ہدایت کے دم قدم سے تو ہے!! دنیا کے طبیب اور ڈاکٹر تو آپ کو کھانے اور چار ے کا فرق صرف غذائیت کے اعتبارسے ہی بتا سکیں گے۔ وہ تو آپ کو کیلوریوں اور ویٹامینوں کی گنتی کرنا ہی سکھا سکیں گے، مگر انسانوں کی طرح کھانا، کسی سوچے سمجھے مقصد کیلئے کھانا بلکہ کسی اعلی مقصد کیلئے کبھی نہ بھی کھانا۔۔۔۔ پھر کھانے اور نہ کھانے، ہر دوصورت میں بندگی کا اقرار اور اعتراف کرنا، بلکہ نہ کھانے کی صورت میں شکم سیروں سے کہیں بڑھ کر اس کی حمد وتسبیح کرنا، بھوکا اور پیاسا رہ کر اپنی بندگی اوراس کی کبریائی کا اور بھی شدت سے اعتراف کرنا کوئی صرف محمد سے ہی سیکھ سکتا ہے، انسان اور حیوان کا یہ فرق آپ کو سورہ محمد ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔وَالَّذِین کَفَرْوا یَتَمَتَّعْونَ وَیاکْلْونَ کمَا تَاکْلْ الانعَامْ وَالنَّارْ مَثوًی لَّھْم (سورہ محمد:12)

خالق سے کفر کرنے والے بس کھاتے ہیں، چند روزہ زندگی کی موج کرنے میں لگے ہیں، یوں کھاتے ہیں جیسے جانور ،اور آگ ان کا گھر بننے کیلئے ان کے(انتظار میں )ہے۔

بھائیواور بہنو! سچ تو یہ ہے کہ محمد ﷺ مبعوث نہ ہوئے ہوتے تو ہمیں اللہ کی تو کیا اپنی پہچان بھی نہ ہو پاتی۔ ہم بھی چوپایوں کی طرح رہتے ،کھانے کیلئے جیتے، روٹی کیلئے مرتے اور حیوانوں کی طرح دفن ہوتے۔ اللہ کی رحمت ہو محمد پر جوہمیں زندگی کی اعلی قدریں سکھا گئے۔ جو ہمیں اعلٰی ظرفی کا مطلب بتا گئے۔ جوہمیں جینے کا مقصد سمجھا گئے۔بلکہ یو ں کہیئے جو ہمیں انسان بنا گئے۔سورہ بینہ پڑھ لیجئے محمد ﷺ قرآن کا صحیفہ لے کرنہ آئے ہوتے تو دنیا مان کر دینے والی نہیں تھی۔ انسان بن جانے پر تیار نہ تھی۔ پر یہ اللہ کی رحمت تھی کہ اس نے پاکیزہ صحیفے دے کر اپنا آخری رسول مبعوث فرمایا۔ ان صحیفوں میں روشنی بھر دی اورر سول کے ہاتھ یہ مشعل تھمادی جس سے زمین روشن ہوئی اور انسانیت کی کایا پلٹ گئی! جس رات یہ صحیفے نازل ہوئے ، جس ماہ میں انسانوں کو یہ روشنی اور ہدایت ملی اس رات کواور اس ماہ کو یادگار ہونا ہی چاہیے تھا! سو یہ ہدایت ملنے کاجشن ہے جو ہدایت پا کر ہی منایا جاسکتا ہے۔ یہ آدمی کے انسان بن جانے کی تقریب ہے جس میں ہم اپنی انسانیت نکھار کر اور بندگی کو جلا دے کر شریک ہونگے اور عبادت کا خاص سلیقہ اختیار کریں گے۔ بھائیو!! انسانیت میسر آجانے کا یہ شکر انہ کوئی زیادہ تونہیں! ہدایت کا یہ مول ہی کیا ہے!؟ مگر اللہ زیادہ طلب کرتا ہی کب ہے!

یرِیدْ اللّہْ بِکْمْ الیْسرَ وَلاَ یْرِیدْ بِکْمْ العْسرَ وَلِتْکمِلْوا العِدَّۃَ وَلِتْکَبِّرْوا اللّہَ عَلیَ مَا ھَدَاکْم وَلَعَلَّکْم تَشکْرْونَ (البقرہ 185)

اللہ کو تمہارے ساتھ نرمی ہی مطلوب ہے سختی نہیں۔(بندگی کی یہ ادائیں تم کو سکھا دی گئیں تاکہ تم خوشی خوشی) روزوں کی تعداد پوری کرلو اور اللہ نے تمہیں بندگی کی جو راہ دکھائی اس پر تم اللہ کی کبریائی کااظہار اور اعتراف کرو اور شکر انہ ادا کرو۔

٭٭٭

 رمضان ہدایت کا مہینہ ہے اور قرآن ہدایت کی کتاب ، دن کے روزے اور رات کے قیام میں بہت گہر ا تعلق ہے۔ کھانا اور سو لینا دنیا کا بیکارمشغلہ ہے۔ یہ دنیا اگر کھانااور سونا کبھی چھوڑ بھی دیتی ہے تو اس کے پیچھے کوئی اعلی مقصد نہیں ہوتا۔ یہاں کھانے کی قربانی تقریباً کھانے کیلئے ہی ہوتی ہے جو کہ حیوانیت کا بدتر درجہ ہے۔ ہدایت دراصل یہ ہے کہ آدمی جینے کی غرض جانے اور اعلی زندگی کا راز پائے۔‘‘ تقویٰ’’ اس اعلی اور ارفع زندگی کا ہی دوسرا نام ہے۔ یو ں سمجھو کہ روزے اور قیام کی ایک ماہ کی محنت بس اس مقصد کے لئے ہے۔ اس عمل سے اگر ہدایت کا یہ احساس برآمد نہ ہوا ، بلند مقصد کیلئے جینے اور مرنے کاحوصلہ پیدا نہ ہوا، اس ایک ماہ میں اگر بندگی کاعہد پختہ نہ ہوا، اپنے روزوں کی شکل میں اللہ کو ہم اگر اپنا آپ پیش نہ کرسکے تو بھائیو! اللہ کو غلے اوراناج کی کمی تو درپیش نہیں! اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ عبادت جو ہے ہی ایک مقصد کا نام، وہ ہمارے ہاتھوں بے مقصد ہو کررہ جائے ! تب اسے عبادت کہا ہی نہیں جاسکتا۔ اسی لیے اما م ابن تیمیہؒ ایسے عمل کیلئے عادت کا لفظ بہتر قرار دیتے ہیں! عبادت تو وہ ہے جو آپ کو بندگی کے احساس کے ساتھ اللہ کے سامنے بے حس وحرکت کھڑا کردے اور اس(عبادت) کے باربار کرنے پر بندگی کے اصل رشتے کی خود بخود تجدید ہوتی رہے بندگی کے اس رشتے کی تجدید، جوکہ اصل ایمان ہے۔

یہ ‘‘بندگی کااصل رشتہ’’ اور ‘‘ایمان کی اصل’’ کیا ہے جس کی تجدید آدمی کے روزے سے مطلوب ہے؟ یہ لاالہ الا اللہ کا فہم اور ادراک ہے۔ اس فہم و ادراک کے ساتھ پھر لا الہ الااللہ کااقرار واعلان ہے۔ یہ بندگی کا اصل رشتہ توحید کی شہادت ہے۔ یہ اللہ کی بڑائی کااعتراف ہے اور اس کے سوا ہرایک کی خدائی کا انکار۔ صاحبو! اعمال میں جان بس اسی توحید کے دم سے آتی ہے۔ روزہ ہو یا نماز، صدقہ ہو یا قیام، ذکر ہو یا جہاد جو بھی عمل ہو بس اسی توحید کی شہادت ہے۔ نیکی کا ہر عمل اس لاالہ الااللہ کا عملی اظہار ہو تو ثمر بار ہوتا ہے،دنیا میں بھی اس کا نتیجہ تبھی نکلتا ہے اور آخر ت میں بھی۔ کامیاب ہے وہ شخص جس کا روزہ اورقیام، جس کی نماز اورقربانی ، جس کا مرنااور جینا اس لاالہ الااللہ کاعملی اور شعوری اعلان ہو۔حقیقت تو یہ ہے کہ لا الہ الااللہ ہدایت کاوہ سرا ہے جسے پانے کے بعد ہی انسان کسی عمل میں ‘‘عبادت’’ اور‘‘ ہدایت’’ کا مزا پاتا ہے بلکہ یو ں کہئے پھر ‘‘عبادت’’ کے سب افعال اس لاالہ الاا للہ کا مزہ دینے لگتے ہیں۔ سورہ محمد ہمیں بار بار اسی حقیقت پر لا کھڑ ا کرتی ہے۔

وَالَّذِینَ اھتَدَوا زَادَھْم ھْدی وَآتَاھْم تَقواھْم۔ فَھَل یَنظْرْونَ اِلَّا السَّاعَۃَ ان تَاتِیھم بَغتَۃً فَقَدجَاء اَشرَاطْھَا فَاَنَّی لَھْم اِذَا جَائتھْم ذِکرَاھْم۔فَاعلَم أَنَّْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہْ وَاستَغفِر لِذَنبِکَ وَلِلمْؤمنیِنَِ وَالمْؤمِنَاتِ وَاللَّہْ یعلَمْ مْتَقَلَّبَکْم وَمَثوَاکْم(محمد: 19-17)

وہ جو ہدایت پا جاتے ہیں اللہ انہیں پھر اور سے اور بھی ہدایت سے نوازتا ہے اور ان کو بچ نکلنے (تقویٰ) کا سلیقہ عطا فرماتا ہے۔ اب کیا یہ لوگ بس قیامت کے ہی منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آجائے؟ اس کی علامات تو رونما ہو چکیں! جب وہ خود آجائے گی تو نصیحت پھر وہ کہاں پائیں گے؟

قارئین! آپ نے غور فرمایا! یعنی آدمی اصل ہدایت پالے تو پھر زندگی بھر اسے اور سے اور ہدایت ملتی رہتی ہے اور اسی ہدایت کے بقدر اسے تقوی نصیب ہوتا رہتا ہے۔ اصل ہدایت اور دین کااصل فہم ملا ہو تو نماز،روزہ، زکوۃ، حج غرض ہر عمل میں اس کیلئے اور سے اورہدایت اور تقوی کا پھر سامان ہوتا ہے۔ بھائیو! یہ ‘‘پہلی ہدایت’’ یا ‘‘اصل ہدایت’’ کیا ہے جوپھر اور سے اور ہدایت کاسبب بنتی ہے؟ جو ہرعبادت ، ہر عمل میں ہدایت کا لطف اور تقوی کی تاثیر پیدا کرتی ہے؟ یہ اصل ہدایت یہ ہے کہ آدمی اپنی اوقات اورخالق کا مرتبہ پہچان لے ،اس کی روشنی میں آدمی اپنی زندگی کا ایک واضح رخ متعین کرلے اور دنیا کے حقائق کو قرآن کی نظر سے دیکھنا سیکھ لے۔ آیت کے آخری حصے نے خود ہی یہ بات کھول دی کہ یہ اصل اور پہلی ہدایت اور علم کایہ سرچشمہ لاالہ الااللہ کی سمجھ ہے۔ سو بھائیو اور بہنو! صیام اور قیام کالطف اٹھانا ہو، رمضان اور قرآن کے مقصد کو پانا ہو۔۔۔۔ تو کچھ محنت اس لاالہ الااللہ کا مطلب سیکھنے اور دہرانے پرضرور کیجئے گا!! لا الہ الااللہ کی مراد پا لینے کی دعائیں اس پرمستزاد اپنے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی!

٭٭٭

رسول اللہ ﷺ کی ایک مشہور حدیث(متفق علیہ عن ابی ھریرہ، اس کا ایک حصہ قد سی ہے) کا مفہوم ہے:

اللہ تعالی فرماتا ہے : ابن آدم کاہر عمل اس کے اپنے لئے ہے سوائے روزے کے۔ روزہ تو بس میرے ہی لیے ہے اور اس کااجر بھی میں ہی دوں گا۔ یہ روزہ تو ڈھال ہے۔ اور جس روز تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو وہ ہائے دہائی اور شور شرابے سے پرہیز کرے۔ کوئی اس سے لڑائی دنگا کرنے پہ آئے بھی تو وہ اسے کہہ دے بھائی میں روزے سے ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے روزے دار کے منہ سے آنے والی بو اللہ کے ہاں مشک کی خوشبو سے بھی مہک میں اچھی جانی جاتی ہے۔ روزے دار کے نصیب میں دو خوشیاں ہیں ایک خوشی جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور ایک اسکی وہ خوشی جب وہ روزے لیکر اپنے رب کے پاس پہنچے گا اور اس سے ملاقات کریگا۔۔۔ الصوم لی و انا اجزی بہ ‘‘روزہ تو بس میرے لئے ہے اور اسکا اجر بھی بس میں ہی دوں گا’’ کس قدرپیار کے الفاظ ہیں! دنیا میں کتنے بھوکے پھرتے ہیں! کوئی کسی سے اتنی اپنائیت کب کرتا ہے! کسی سے اسطرح محبت کب جتاتا ہے پھر جہانوں کے مالک کو تو کسی کی پڑی ہی کیا ہے! مگر وہ شکور اورقدر دان ہے، شاکر اور علیم ہے، ایک ایک پل کی خبر رکھتا ہے اور بندگی کی ایک ایک اد ا کو پذیرائی بخشتا ہے! لوگوں نے اس حدیث کے بہت سے مطلب بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو اپنی جگہ ضرور صحیح ہونگے۔ پر یہ تو ایک ادا کے پسند آجانے کا ذکر ہے۔ مسلم کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں: یدع شھوتہ و طعامہ من اجلی ‘‘وہ میری خاطر اپنی خواہش اور کھانے سے دست کش رہتا ہے’’ من اجلی ‘‘میری خاطر!’’ اس کا سارا لطف تو بس اس لفظ میں ہے ‘‘میری خاطر’’ اورجب ایسا ہے تو بھائیو پھر یہ چند گھنٹے کا عمل واقعتا بس اسی کی خاطر ہونا چاہیے۔پھر اسکو نری عادت اور سالانہ معمول نہیں واقعی عبادت ہونا چاہیے۔ اس کی ساری قیمت تو ہے ہی اس میں کہ یہ اْس کی خاطر ہو یعنی عبادت ہو ورنہ سردیوں کے روزوں میں تو تکلیف ہی کیا ہے! اس کا سارا ثواب ا س پر مستزاد ! یہ اجرو ثواب بھی ہمارے عمل کے حساب سے نہیں اس کی خوشی کے حساب سے ہوگا! اس کی خوشی کا حساب تو ہمارے کرنے کانہیں۔یہ تو وہی جانے کہ وہ خوش ہو تو پھر کیا کچھ دیتا ہے! ہم تو بس یہ جانیں کہ اسکی محبت میں تھوڑی سے بھوک اور پیاس سہنے نے اتنا بڑا کام کردکھایا کہ اس نے اسے اپنی خاطر جانا۔ بندگی کایہ معمولی سا عمل اس نے اپنی ذات کے ساتھ خاص کرلیا۔ اپنے لئے یہی اعزاز کیا کم ہے کہ وہ شان بے نیاز ی کا مالک ایک ناچیز مخلوق کی چند گھڑیوں کی محنت کو، اس معمولی ہدیہ عقیدت کو، اپنی خاطر کہہ کر قبول کرے اور پھر سنبھال کرپاس رکھ لے!

روزے دار کے نصیب میں دو خوشیاں ہیں ایک اس کی وہ خوشی جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور ایک اسکی وہ خوشی جب وہ روزہ لے کر اپنے رب کے پاس پہنچے گا اور اس سے ملاقات کرے گا۔ کتنا گہرا تعلق ہے اور کتنی خوبصورت مماثلت ہے ان دو خوشیوں میں! دنیا میں کسی کی چاہت اور طلب کوبھوک و پیاس سے ہی تو تشبیہ دی جاتی ہے! یہ روزہ دار اپنے مالک کیلئے اپنی خوشی سے بھوکا رہتا ہے۔ اپنی مرضی سے پیاس سہتا ہے۔ کس نے اِسے روکا ہے کہ پانی پی کر اپنی پیاس نہ بجھائے؟ مگر اِسکی پیاس تو اصل میں پانی کی نہیں۔ اِس کو بھوک کھانے کی نہیں۔ اِس وفادار اور اعلی ظرف انسان کو بھوک تواپنے مالک کی خوشی کی ہے۔ پیاس تو اْس سے ملنے کی ہے۔ سارا دن یہ اِس پیاس کو اْس پیاس کے اظہار میں دل سے لگائے رکھتا ہے۔ اِس کو تشنگی تو خالق کو پانے کی ہے۔ اِس کوچاہت تو رزق سے بڑھ کررازق کی ہے۔ پیاسا تو یہ اْس کاہے۔ ایسی پیاس تو بس پھر اْسی کاجام بجھا سکتا ہے!

وَسَقَاھْم رَبّْھْم شَرَابًا طَھْورًا (سورہ دھر: 21)

‘‘اور اس روز ان کا رب ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا’’

وْجْوہ یومَئِذٍ نَّاضِرَۃاِلَی رَبِّھَا نَاظِرَۃ (سورہ القیامۃ: 23۔22)

‘‘کچھ چہرے تو اس روز کیا ہی تروتازہ ہونگے یہ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے’’

اِس کی تو نگاہ پیاسی ہے کہ کسی دن یہ اْسے دیکھ لے! اِس کے کان پیاسے ہیں کہ اْسے سنے اور وہ اِس سے کہے: میں تم سے خوش ہوا میرا تم سے ناراض ہونے کا امکان ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم۔ اب میں تم سے بس خوش ہی رہونگا! اِس کی روح پیاسی ہے کہ یہ اْس کی قربت میں جاکر رہے اور اْس کے پاس جاکربسے۔

انَّ المْتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَنَھرٍ فِی مَقعَدِ صِدقٍ عِندَ مَلِیک مّْقتَدِرٍ (القمر: 55-54)

‘‘نافرمانی سے بچ بچ کر رہنے والے تو یقینا پھر باغوں اورنہروں میں رہنے کے لائق ہیں، سچی عزت کی جگہ بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب ’’

سو یہ تشنگی تو اظہار ہے کسی اندرکی تشنگی کا۔ اس اصل تشنگی کا تو بس کہنا ہی کیا! یہ تو رشک خلائق ہے! یہ تشنگی معبود کی چاہت ہے! جب یہ پیاس دل کی پیاس ہے تو پھر کوئی اور اس سے واقف کیونکرہوسکتا ہے ! لوگ تو بھوک سے اترا ہوا چہرہ اور پیاس سے سوکھے ہوئے ہونٹ ہی دیکھ سکتے ہیں مگر یہ اندر کی پیاس کسے نظر آسکتی ہے! اسے تو وہی دیکھ سکتا ہے جس کیلئے یہ ہے! اسے تو وہی جانے جس کی یہ چیز ہے! اور دیکھو وہ کیا خوب پہچانتا ہے۔الصوم لی وانا اجزی بہ یہ روزہ تو بس میرے ہی لئے ہے اور اس کااجر بھی اب میں ہی دونگا!!

وََکانَ اللّہْ شَاکِرًا عَلِیمًا (النساء 147)

‘‘اللہ بڑا قدر دان ہے ایک ایک کے حال سے واقف ہے ’’

یہ قدر افزائی اور ذرہ نوازی ہی تو ہے کہ اس کے منہ کی ناخوشگوار بو اْسے مشک کی مہک سے بھی اچھی لگے! دوستو! اس منہ سے کی جانے والی دعائیں پھر اس کوکیونکر پسند نہ ہونگی! ایسے منہ سے جب اس کا نام نکلے گا ، ایسے منہ سے جب اس کاذکر ہوگا ، اسکی پاکیزگی کا ورد ہوگا اور اسکی عظمت کے تذکرے ہونگے تو اسے پسند کیوں نہ آئیں گے! صاحبو، بس یہی موقع ہے۔ کون جانے پھر یہ آئے یا نہ آئے۔ بس یہ لمحے نہ جانے پائیں! سوکھے ہونٹوں پر اس کا نام، خشک ہوچکی زبان پر اسکا کلام! مٹی سے بنی مخلوق کی یہ قسمت!!!

بھائیو اور بہنو! دیکھنا جب دعائیں سنی جاتی ہوں تو خوش بختی کاسنہری موقع ہاتھ سے ہر گز جانے نہ پائے۔ یہ قسمت سنور جانے کاموقعہ کہیں افطاریوں کے شور اور باو رچی خانوں کی مصروفیت کی نذر نہ ہوجائے ،اللہ اپنے بندے کی پکار ہرجگہ سنتا ہے!

بھائیو اور بہنو! یہ معبود جس آدمی کا مقصود ٹھہرا اس کو کسی چیز کی پھر کیا فکر ! سو انسان کو فکرہو توبس اسی کی اور چاہت ہوتو بس اسی کی! اس کے مل جانے میں صاحبو سب کچھ ملتا ہے اوراگر وہ نہ ملے تو پھر سب کچھ فضول ہے۔ اس کونہ پایا تو سمجھو کچھ بھی نہ پایا۔ اس مختصر سی زندگی میں صرف بد بختی اکٹھی کی۔ کچھ کھو کر بھی اگرا س کو پالیا تو سمجھو کچھ بھی نہیں کھویا اور اگر سب کچھ پایا مگر اس کو کھو دیا تو سب کچھ ہی کھو دیا۔ حضرات یہ حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کا وقت بس آیا ہی چاہتا ہے۔ یقین رکھئے پردہ اٹھنے ہی والاہے۔ جس دن روزہ دار اپنا روزہ لے کر اپنے مالک کے پاس پہنچے گا اور اس سے ملاقات کا شرف حاصل کرے گا !!!

اے اللہ ہمارے روزے قبول کرلے!!!

دوستو! انسان کا مقصود لامحدود ہے مگر اس کی ہمت بہت ہی محدود، جو جلدہی جواب دے جاتی ہے۔سو قبل اس کے کہ اس کی ہمت جواب دے جائے اسے امتحان سے نکال لیا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی امتحان دینا بھی چاہے تو قبول نہیں(اس کی اجازت صرف اللہ کے رسول کو تھی آپ سے بعض صحابہ نے غروب آفتاب کے بعد بھی روزہ جاری رکھنے کی اجازت چاہی تو آپ نے اجازت نہ دی)۔۔۔۔ روزہ دار کو بتا دیا جاتا ہے کہ سورج جب مغربی افق پر روپوش ہوجانے کا حکم پائے تو دنیا میں یہ اس کی بازیابی کا وقت ہے۔ اب وہ ایک لمحہ بھی تاخیر نہ کرے اور اپنے مالک کا رزق کھائے۔ بھوک اور فاقے سے جو بات وہ اپنے مالک کو بتاناچاہتا تھا اس کے مالک نے بس وہ بات سن لی۔اور اسے وہ بہت پسند آئی۔ اب یہ خاطر جمع رکھے اور مالک کی اجازت سے بلکہ اس کی فرمائش پر کچھ نہ کچھ ضرور کھائے! ویسے تو اپنی مرضی سے انسان کیا کچھ نہیں کھاتا۔ پر یہ انسان ہے جسے مالک نے خو د کہا ہے کہ کچھ اٹھا کرکھالو، اپنی خوشی سے کہا ہے، زور دے کرکہا ہے، بھئی نہ کھانے کی اجازت ہی نہیں! ہاں اب اس کھانے کی تو بات ہی اورہے! افطار کی یہ شان نرالی ہے! کھانا بھی اور ثواب بھی! دنیا بھی اور آخرت بھی!! یہ افطار کی خوشی دراصل روٹی پر ٹوٹ پڑنے کی خوشی نہیں۔ یہ تو منزل پر جا لگنے کی خوشی ہے۔ یہ مقصود کوپالینے کی خوشی ہے! یہ پار لگنے کی امید ہے! یہ خوشی کی آس لگ جانے کی خوشی ہے!!!

ذہب الظماء وابتلت العروق وثبت الاجر ان شا ء اللہ ‘‘پیاس تھی سو گئی، رگوں میں جان آئی اور اللہ نے چاہا تو اجر پکا’’!! زہے نصیب رزق بھی ملا اور معبود بھی!!! فسبحان اللہ رب العالمین!!

قارئین وقاریات!

آپ جب بندگی کی راہ پالیتے ہیں تو آپ کے قلب و ذہن میں اس سے ایک کیفیت جنم لیتی ہے اور آپ کے رویہ اور سلوک میں ایک تبدیلی رو پذیر ہوتی ہے۔ ایک اعلی اور پاکیزہ زندگی کاایک تصور ابھرتا ہے۔ اس تبدیلی اور اس کیفیت کا نام تقویٰ ہے۔ اس اعلٰی اور پاکیزہ زندگی کا نام پرہیز گاری ہے۔ تقوی بندگی بھی ہے اور بندگی کا ثمر بھی۔

اسلام میں عبادت کے بنیادی طور پر پانچ ارکان ہیں۔ یہ گویا پانچ لفظوں یاپانچ جملوں میں اسلام کاتعارف کرادینا ہے۔ اس تعارف کا جمال اجمال میں ہے۔ پھر یہ تو عملی اسلام کا ایک جامع تعارف بھی ہے۔ مگر ہم نے چونکہ صدیوں سے دین کواجزا میں تقسیم کررکھا ہے، دین کے حصے بخرے کرنے کا عمل اب بھی شدت سے جاری ہے، ہر گر وہ د ین کاایک ایک یا دو دو یا چارچار جز لے کر اپنی اپنی راہ چل رہا ہے اس لئے ارکان اسلام یا عبادت کے افعال کے ضمن میں جوچیز ہم بیچ سے عموماً نظرانداز کرجاتے ہیں وہ یہ کہ عبادت ایک انتہائی شعوری کیفیت کانام ہے جولازماً تقوی پرجاکر ختم ہوجاتی ہے۔ عبادت اگر عبادت ہے توضرورا س کی ڈالیاں نیکی کے پھلوں سے لدجانی چاہئیں۔

عبادت سے نیکی کے یہ سب کام برآمد کرانا تربیت کایہی نبوی منہج ہے ان دونوں کی یہ ترتیب بہت ہی عمدہ اور خوبصورت ہے۔ ارکان اسلام پر اصل محنت کرائے بغیر امت کونیکی کی راہوں پردوڑانے کاکام بے ثمر ہے۔ اس سے اسلام کی اصلی روح کی عکاسی نہ ہوسکے گی۔ مسلمان سے قرآنی شخصیت برآمد نہ ہوسکے گی۔ اس ترتیب اور تلازم کوسمجھ لینا بس دین کی سمجھ پانا ہے۔ مختصراً یہ کہ عبادت بذات خود ایک بے انتہا پرکیف عمل اور دل گیر حقیقت ہے اوراصل میں تو یہ بذات خود ہی مقصود اور مطلوب ہے مگراس سے انسان کے انفرادی اور معاشرتی کردار میں آپ سے آپ ایک تبدیلی کاآجانا بھی لازمی ہے۔

شادی کالغوی مطلب اگرچہ گھر بار اور اولاد نہیں مگر یہ سب کچھ اس کے ساتھ خود بخود آتا ہے۔ زوجین میں سے کوئی بانجھ نہ ہو تو اولاد لازماً شادی کاایک مقصد ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ کہ شادی بذات خود بھی ایک غیر معمولی لطف اور کشش رکھتی ہے اور ایسا بھی نہیں کہ اولاد کے سوا انسان شادی سے کوئی مقصد یا غرض نہ رکھتا ہو،یقینا مرد اور عورت کا ایک دوسرے سے راحت اور سکون پانا بجائے خود بھی مطلوب ہے۔ بس تقریبا یہی مثال ارکان اسلام کے ساتھ نیکی کے مظاہر کی ہے۔ اسلام جس عبادت کاحکم دیتا ہے وہ رہبانیت کی طرح بانجھ نہیں جوانسان کی ذات میں اور اس کے گرد پھیلے معاشرے میں کوئی تبدیلی نہ لے آئے۔ عبادت تو ہے ہی شعور اور کردار میں تبدیلی لانے کے لئے۔ گو اس عبادت کا اپنالطف اور اس کا بجائے خود مطلوب ہونا اپنی جگہ برقرار ہے۔یایہاََا النَّاسْ اعبْدْوا رَبَّکْمْ الَّذِی خَلَقَکْم وَالَّذِینَ مِن قَبلِکْم لَعَلَّکْم تَتَّقْونَ (البقرۃ 21)

لوگو بندگی اختیار کرلو اپنے رب کی جو تمہارا بھی خالق ہے اورتم سے پہلوں کا بھی خالق ہے۔ کیا بعید کہ تمہیں تقویٰ نصیب ہوجائے۔

چنانچہ ہدایت سے انسان میں بندگی آتی ہے اور بندگی سے تقویٰ۔بھائیو رمضان کا بھی بس یہی پیغام سمجھو!

یایہاالَّذینَ آمَنْواکْتِبَ عَلَیکْمْ الصِّیَامْ کَمَا کْتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبلِکْم لَعَلَّکْم تَتَّقْونَ (البقرہ182)

ایما ن والو ! تم پر روزہ فرض کیا جاتا ہے جس طرح کہ تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پربھی فرض کیا گیا تھا تمہارے پرہیز گار بننے کی یہی صورت ہے۔

سورہ البقرہ میں جہاں روزے کے متعلق آیات ہیں اس سے کچھ پہلے ایک لمبی آیت بھی آتی ہے جو آیت البر کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں نیکی اور تقویٰ کی بہت خوبصورت وضاحت ہے۔ اللہ کومنظور ہو ا تو کبھی اس پربھی ہم بات کریں گے۔ بہرحال یہ آیت بار بار پڑھنے اور سمجھنے کی ہے احادیث میں بھی تقوی کی بہت وضاحت آئی ہے۔تقوی کے ضمن میں آپ کو کچھ چیزوں کے نام گنوا دیئے جائیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ نیکی چند چیزوں میں محدود ہے۔ یہ آیت تو(بلکہ اس سلسلے کی احادیث بھی) دراصل ایک ایسے انسان کی تصویر کھینچتی ہیں جو اپنے مالک کو پہچان چکا ہے۔ اپنی اخروی ضرورت سے آگاہ ہوچکا ہے۔ اپنے دنیاوی وجود کامقصد جان چکا ہے۔ مالک کی بندگی کاسلیقہ سیکھ چکا ہے۔ اس سے اس کی ملاقات کا وقت طے ہے۔ یہ اس کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ بس یہ انہی سوچوں میں مگن ہے اور صبح و شام اسی کی دوڑ دھوپ میں لگا رہتاہے۔

بھائیو اور بہنو ! تقوی کے اعمال جتنی بھی وضاحت سے بیان کردیئے جائیں پھر بھی یہ تقویٰ کے بس مظاہر ہیں،مظاہر میں حقیقت کا رنگ بھرنا اور ظاہرمیں باطن کا شعور پیدا کرنا پھر بھی باقی ہے اور مو ت تک موقوف نہیں ہوتا۔

گناہوں سے بچنا ،اللہ کے ناراض ہوجانے سے ڈرنا ، جہنم سے خوف کھانا، گھٹیا حرکت سے پرہیز کرنا، برائی سے اجتناب کرنا، بلکہ برائی کو مٹانے کے درپے ہونا، دنیامیں فساد کو ختم کرنا، بے حیائی سے گھن کھانا، شرک سے نفرت کرنا، کفر کی راہ روکنا، طاغوت سے لڑنا، باطل سے دشمنی کرنا، پھر دوسری جانب نیکیوں کی حرص، جنت کی طلب ، اچھائیوں کی تلاش ، حق کی دریافت، علم کا حصول، اعلی ظرفی اور بلند خیالی ، حیا کاپاس، اللہ کی محبت کے راستوں کی تلاش ، اللہ کے دین کا تحفظ اور اشاعت ، اس کی راہ میں جہاد، شہادت کی آرزو، حق کاقیام، ایفائے عہد ،دیانت داری، خدا ترسی ، انسانوں سے بھلائی، مخلوق کی خیر خواہی ،پڑوسی سے احسان، مومنوں سے پیار، صلہ رحمی، بھوکوں کوکھلانا، پیاسوں کو پلانا، یتیموں اور بیواؤں کاسہارا بننا، مظلوم کی داد رسی اور ظالم کا ہاتھ توڑنا ،لڑنے والوں میں صلح کرانا، بیماروں کی خبر گیری ، راہگیروں سے نیکی، مسلمانوں کوسلام کرنا، مسکرا کرملنا، گرمجوشی سے مصافحہ کرنا، امت محمد کیلئے سوچنا اورپریشان ہونا، امت کی خدمت و اصلاح، اس کی بہتری اور بہبود کیلئے دوڑ دھوپ اور اس کو گمراہی سے بچانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ یہ سب نیکی اور تقویٰ کے مظاہر ہیں۔ تقوی ہوگا تو دل میں__جیسا کہ اللہ کے رسول نے فرمایاہے __ کیونکہ یہ بنیادی طور پر قلب و شعور کی ایک کیفیت کا نام ہے، پر اس کا اظہار یونہی عمل اور کردار سے ہوگا،جہاد سے ہوگا اوراللہ کے راستے میں اپنا مال، اپنا وقت اور اپناآپ لٹانے سے ہوگا۔

روزہ اگر عادت نہیں بلکہ عبادت ہے تو اس سے اور نیکیاں ضروری پھوٹنی چاہئیں۔ برائی ختم ہونی چاہیے۔ انسان کی اپنی ذات میں بھی اور معاشرے میں بھی۔ روزہ اگر روزہ ہے تو اس سے تقویٰ برآمد ہونا چاہیے ورنہ یہ روزہ بانجھ ہے۔ اس روزے کی اولاد نہیں ہوتی!

قارئین وقاریات!

بندگی اس تقویٰ کا سبب تب بنتی ہے جب وہ ہدایت کا نتیجہ ہو۔ دین داری کا آغاز اعمال پر محنت سے نہیں ایمان اور توحید کی حقیقت سمجھنے سے کیجئے! کائنات کے بڑے اور اہم حقائق کو قرآن کی نظر سے دیکھنا سیکھئے۔ دنیا میں انبیاء کی بعثت کا مقصد سمجھئے۔ ہدایت اور ضلالت کی جنگ کی حقیقت جانئے اور قوموں کی تاریخ اور واقعات سے واقفیت حاصل کیجئے۔ انسان کی اپنی حقیقت اور اسکے عمل کے حدود سے آگہی حاصل کیجئے۔ زمین میں انسان کا کار منصبی جانئے۔ مگر اتنی بڑی بڑی باتیں بھلا آپ کیسے معلوم کریں گے؟ پھر کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ علم اور دانائی کے ان سبھی سوتوں کا اصل منبع اور سرچشمہ تلاش کرلیا جائے؟ بھائیو قران پڑھیے اس میں ہماری ضرورت کی ہر چیز جلی حروف میں اور بڑی آسان کرکے لکھ دی گئی ہے!

قرآن کی سمجھ پانے کیلئے اللہ کے رسول کی سنت اور سیرت سے رجوع کریں۔ ان دونوں کو سمجھنے کیلئے ائمہ تفسیر اور اساتذہ سے استفادہ کیجئے۔ ایسے لٹریچر سے مدد لیجئے جو قرآن کا پیغام سمجھانے کیلئے لکھا گیا ہے۔ مدد جس سے بھی لیجئے کسی طرح کوشش کریئے گا آپ ایمان کو خود قرآن ہی سے برآمد کرسکیں ورنہ بندگی نہ لطف پورا دے گی اور نہ ثمر۔

عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ پہلے ہم اللہ کے رسول سے ایمان سیکھتے پھر قرآن سیکھتے۔ تب ہمارا ایمان اور بھی بڑھ جاتا۔ یعنی ایمان اور بندگی کاایسا شعور ملتا کہ اس کا کوئی حد وحساب ہی نہ رہتا۔ بھائیو ایمان کے د و ہی اصل استاد ہیں پہلے رسول اللہ پھر قرآن۔ رمضان کے دوران اس مدرسہ میں ضرور پڑھیے گا۔

عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ہر رمضان جبرائیل کے ساتھ قرآن کو تازہ کرتے، اپنی عمر کے آخری سال میں آپ نے یہ عمل دوبار فرمایا۔ راتوں کے لمبے قیام میں بھی ظاہر ہے آپ قرآن ہی پڑھتے۔ دن کاپڑھنا اس کے علاوہ تھا۔ گویاآپ بس قرآن ہی پڑھتے!

سلف جو ویسے بھی قرآن بہت پڑھتے تھے مگر رمضان میں توان کامعمول ہوتا کہ بس وہ قرآن ہی پڑھتے۔ امام زہری جب رمضان شروع ہوتا تو فرماتے: بس یہ مہینہ تو قرآن پڑھنے کا ہے یا تنگ دستوں کو کھلا کھلا کرخوش کرنے کا۔ امام مالک جب رمضان آجاتاتو حدیث کی تعلیم تک چھوڑ دیتے، فقہ کی مجالس ترک کردیتے، قرآن لے کربیٹھ جاتے اور بس وہی پڑھتے۔ قتادہ کا معمول تھاکہ عام دنوں میں وہ سات دنوں اور سات راتوں کے اندر قرآن ختم کرتے مگر رمضان میں وہ ہرتین راتوں کے اندر ختم کرلیتے۔ بھائیو اور بہنو! قرآن پڑھنا بھی ضروری ہے اور سمجھنا بھی۔ اس کے مفہومات کو دہرانا بھی اچھا ہے اوران مفہومات کاباہم مذاکرہ بھی۔ سورہ محمد میں نفاق اور دل کی بیماریوں کے رہ جانے کہ وجہ قرآن پرتدبر نہ کرنا بتائی گئی ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَہُمُ اللہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمٰٓى اَبْصَارَہُمْ۔ اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا(محمد24۔23)

یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اوران کواندھا اور بہرا بنا دیا۔کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟

ویسے تو رمضان میں قرآن ہر وقت اور زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہیے۔ مگر قرآن کو عقیدت کے ساتھ سمجھ اور ترتیل سے پڑھنے کی بہترین حالت نماز ہے۔ اگرقرآن آپکوزبانی یاد نہیں تب بھی آپ کونوافل میں لمبی قرآت کے لطف اور ثواب سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔ا م المومنین عائشہ کے فتویٰ کی رو سے جو انہوں نے اپنے غلام ذکوان کودیا تھا، آپ نفلی نمازیں مصحف سے دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں۔یہ تاثر بھی درست نہیں کہ قرآن کی لمبی قرات آپ صرف تراویح میں کریں۔ ممنوعہ اوقات کو چھوڑکر(جوکہ فجرسے طلوع آفتاب تک، پھر زوال کی چند گھڑیاں اور پھر عصر تا مغرب کے اوقات ہیں) آ پ دن یا رات میں ہر وقت یہ عبادت کرسکتے ہیں۔ آپ کے پاس قرآن پڑھنے کیلئے جتنا وقت ہے اسی میں کچھ وقت نوافل میں کھڑے ہوکر پڑھ لیجئے! اگر قرآن کا یہ حصہ جوآپ نماز میں پڑھنے جارہے ہیں آپ نے پہلے سمجھ بھی لیا ہے پھر تو کیا ہی بات ہے! کیسٹ وغیرہ کے ذریعے قرآن سنتے رہنا بھی آپ کے روزے کااجر اور وزن بڑھا سکتاہے!

قرآن پڑھنے سے کچھ وقت بچے تو سنت اور سیرت کا مطالعہ کیجئے،یہ ایک طرح سے نبی کی صحبت میں بیٹھنا ہے۔ ریاض الصالحین ایمانی موضوعات پراحادیث کا ایک اچھامجموعہ ہے۔ اردوسیرت میں رحیق المختوم ازصفی الرحمن مبارک پوری اور محسن انسانیت از نعیم صدیقی آسان اور عام فہم ہیں۔ زیادہ علمی اور تاریخی تفاصیل درکار نہ ہوں تویہ دو کتابیں اچھی ہیں۔ کسی صاحب کواعتکاف بیٹھنے کی سعادت حاصل ہو تووہ اورچیزوں کے ساتھ ساتھ یہ کوشش کرے کہ سیرت کی ایک کتاب تو بس ختم کرکے ہی اٹھے۔ سیرت کی کتب ایسی چیز ہیں جو پڑھ رکھی ہونا کافی نہیں۔سیرت بار بار پڑھنے کی چیز ہے۔حقیقتِ اسلام کے ضمن میں کتاب التوحید از شیخ محمد بن عبدالوہاب، دینیات از سید مودودی ،خطبات از سید مودودی مطالعے کے لائق ہیں۔ نصیحت اور تذکرہ کے باب میں دوائے شافی از امام ابن قیم(ترجمہ ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد)، تلبیس ابلیس از علامہ ابن جوزی اور‘ کیا ہم مسلمان ہیں؟’ از شمس نوید عثمانی۔ علاوہ ازیں اذکار اور دعائیں بھی اہم موضوع ہے اس کے علاوہ دوائے شافی اور ریاض الصالحین کی کتاب الاذکار اور کتاب الدعوات میں آپ کواچھا خاصا مواد مل سکتا ہے۔ اذکار اوردعاؤں پر مشتمل ایک جیبی کتابچہ حصن المسلم (ترجمہ حافظ عبدالسلام بن محمد) بھی آپ ہر وقت اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔

یہ سب کچھ ازراہ مشورہ و تجویز ہے آپ اپنی پسند اور ضرورت کاتعین یقینا ہم سے بہتر کرسکتے ہیں۔ بہرحال اس طرح کی کتب نے آپ اگرپہلے پڑھ رکھی ہیں تب بھی ان کو بار بار پڑھنا نہایت مفیدہے۔

قارئین !

روزہ رکھ کر بھوکے اور نادار مسلمانوں کااحساس ہوجانا بھی روزے کاایک مقصد ہے۔صدقہ دراصل اسی احساس کانتیجہ ہوتا ہے۔ مسکینوں کو کھلانا اس مہینے کاایک بہترین عمل ہے۔ مساکین میں رشتہ داروں ، پڑوسیوں اور محلہ داروں کا سب سے بڑھ کرحق ہے۔ پھر ان میں سے جو زیادہ نیک اور اللہ سے زیادہ ڈرنے والے ہوں انکااور بھی بڑا حق ہے۔ اگر کوئی نیکی میں کم ہے تب بھی آپ کے صدقہ و انفاق کے پیچھے اسے مسجد میں لے آنے کا مقصد ، کوشش اور دعا ہونی چاہیے۔ کچھ بھی پکائیں اس کاکچھ حصہ غریب پڑوسی یا پڑوسن کونکال کربھیج دیا کریں۔ کسی کو کچھ دیں تو عزت اور احترام سب سے پہلے دیں۔ جو غریب کو کچھ بھی نہ دے سکتا ہو وہ محبت اور پیارتو دے سکتا ہے۔ یہ نیکی بھی چھوٹی تو نہیں! مسلمان کا مسلمان کومسکرا کر ملنا بھی اللہ کے رسول نے کہا ہے کہ صدقہ ہے۔

بڑی بڑ ی افطاریاں عموما پیسے کی نمائش ہوتی ہیں۔دینی مواقع کو سیاسی اہمیت دے دینے کے اس دور میں لوگ افرادی قوت دکھانے کابھی یہی موقع سمجھتے ہیں۔ ایک مالدار روزہ کھلوانے کی نیکی کرنے پر آئے تو بھی مالداروں کونہیں بھولتا، یاد توبس غریب نہیں رہتے۔ کھاتے پیتے آدمی کوافطار پربلانا کبھی بھول بھی جائے تو دس دس بار معذرت ہوتی ہے،اس گناہ کاکفارہ تک دیا جاتا ہے۔جواب میں دوسرے مالدار صاحب بھی ان کے ساتھ خوب نیکی کرتے، ہیں وہ بھی جب دعوت کریں گے

 تو انہی کو بلائیں گے۔ یوں مالدار لوگ اپنا حساب عموماً برابر کرلیتے ہیں۔ خسار ے میں کوئی بھی نہیں رہتا۔ ویسے کوئی غریب اگر قسمت کا مارا ایسی دعوت پر آبھی جائے تو شاید وہاں سے بھوکااٹھ جانا زیادہ پسند کرے۔ الا ماشا اللہ۔

بھائیو رمضان بھی اگر امیر اور غریب مسلمانوں میں قربت اور اپنائیت پیدا نہ کرسکا تو پھر اس کاکب موقع ہے؟ ہمارا مطلب یہ نہیں کہ کھاتے پیتے عزیزوں اور دوستوں کوروزہ افطار کروانے میں کوئی حرج ہے۔ مگرہماری بات کایہ مقصد ضرور ہے کہ اصل نیکی تو بس غریب کاپیٹ بھرنا ہے۔اگر آپ یہ اصل کام کررہے ہوں توپھر کسی کو بھی کھلانے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر کیا آپ نے یہاں کسی امیر کوکھانا اٹھاکر کسی غریب کے گھر کا رخ کرتے بھی دیکھا ہے؟ مالداروں کو رمضان میں یتیموں اور بیواؤں کا پتہ پوچھتے اور ان کے گھر تلاش کرتے پایا گیا ہے؟ ایک مالدار کو غریب مسلمان کیساتھ ایک تھالی میں کھاتے ہوئے آپ نے زندگی میں کتنی باردیکھا ہے؟ ہاں البتہ اپنی کلاس کے لوگوں کیساتھ پرتکلف افطاری نوش فرمائی جاتی اکثر ملاحظہ کی ہوگی۔ سنا ہے اب اچھے اچھے ہوٹلوں میں بھی لوگ یہ عبادت کرنے جاتے ہیں!

دوستو! انسان کی موج پسند طبیعت عبادت کو عادت اوررسم بنا لینے پر تیار رہتی ہے۔ نیکی کودیکھتے ہی دیکھتے مشغلے میں تبدیل کرلیتی ہے۔ سنجیدگی میں شغل اور دل لگی کاپہلو جلد ہی نکال لیتی ہے۔ خواہ وہ افطار کامعاملہ ہو یا آخری راتیں جاگنے کا۔ بھائیو اور بہنو! عادت اور عبادت میں شعورواحساس کاایک لطیف فرق ہی تو ہوتا ہے۔ بس اس فر ق کو پورا مہینہ یاد رکھیئے گا۔ عبادت کے مہینے میں بس عبادت ہی ہونی چاہیے۔عبادت نام ہے ایک بڑی ہستی کی محبت اور اس سے خوف رکھنے کا،نہ اس محبت کی کوئی حد ہے اورنہ اس خوف کی۔ بھائیو رمضان بھر بلکہ زندگی بھر ہرعمل کے پیچھے اس جذبے اور اس کیفیت کو ٹٹولتے رہیے گا!

الھم انک عفو تحب العفو فاعف عنا۔

اللہ اَکبرااللہ اَکبر، لاالہ الا اللہ، واللہ اَکبر اللہ اکبر، وللہ الحمد۔