روزہ

مصنف : مولانا خرم مراد

سلسلہ : گوشہ رمضان

شمارہ : جولائی 2014

تلاوتِ قرآن کے آداب

(خرم مراد (

قرآن مجید بظاہر ایک کتاب ہے۔ کسی اور کتاب سے بظاہر کوئی فرق بھی محسوس نہیں ہوتا لیکن اپنے طرز کی منفرد کتاب ہے۔ اس کی نہ کوئی مثال ہے نہ نظیر۔ ہمیں اسے کیسے پڑھنا چاہیے؟ اس کے لیے قرآن مجید ہی نے ایک لفظ استعمال کیا ہے، وہ ہے تلاوت۔

تلاوت کے حقیقی مفہوم تک پہنچنے کے لیے کچھ شرائط اور آداب ہیں۔ یوں سمجھیں کہ یہ زادِ سفر ہے:

٭ یہ ایمان ہو کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔

٭یہ نیت ہو، اخلاص سے، کہ اللہ ہی سے راہنمائی لینا ہے۔

٭ جو عظیم الشان خزانہ اور رحمت ہمیں ملی ہے، اس پر ہمارے دل میں شکر کے جذبات ہوں۔

٭ یہ اعتماد ہو کہ جو چیز بھی اس کتاب میں ہے صحیح ہے، وہی میرے لیے نافع ہے، اس میں میرے لیے بھلائی ہے، اسی میں خیر ہے۔

٭تیار ہو کہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق اپنے اندر تبدیلی اور تغیر لائے۔

٭قرآن سے فائدہ اٹھانے میں جو خطرات اور اندیشے ہیں ان سے بچنے کے لیے شیطان سے پناہ مانگی جائے۔

ان چھے ظاہری آداب کے ساتھ کچھ باطنی آداب بھی ہیں: انسان کا قلب اس کی اندرونی شخصیت ہے۔ اس قلب کو تلاوت کے عمل میں شریک کیا جائے۔ کس طرح ؟

٭قرآن کے مطابق: قرآن پڑھا جائے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے، دل کانپ اٹھتے، رونگٹے کھڑے ہوجاتے ،ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا اور خشوع میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان کیفیات کا استحضار ہو۔

٭ یہ بھی مستحضر ہو کہ میں اللہ کے سامنے ہوں، اس کے سامنے بیٹھ کر پڑھ رہا ہوں۔

٭ یہ سوچیں کہ ہم اس کلام کو اللہ سے سن رہے ہیں۔

٭ یہ احساس ہو کہ جو بھی کہا جا رہا ہے اس کا ہر لفظ میرے لیے ہے۔ جب کوئی قرآن پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے گفتگو اور مکالمہ کرتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ رات کو نماز میں تلاوت کرتے تو صفات کے ذکر پر سبحان اللہ کہتے۔ انعامات کا ذکر آتا تو الحمدللہ فرماتے، نعمتوں کا ذکر آتا تو رْک کر اْن کو مانگتے۔ عذاب کا ذکر آتا تو اس سے پناہ طلب کرتے۔

قرآن کا ادب اور تعظیم ضروری ہے۔ اس میں قبلہ رخ بیٹھنا، باوضو ہونا، سرجھکا کر پڑھنا، یہ سب باتیں شامل ہیں لیکن اس ادب کو اتنا نہ بڑھایا جائے کہ تلاوت کو ہی ترک کردے مثلاً یہ کہ وضو نہیں ہے اور بغیر وضو کے تلاوت نہیں ہوسکتی۔