سوال ، جواب

مصنف : مفتی منیب الرحمان

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جولائی 2014

جواب: اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ بیرون مسجد، پارکس، مکانات وغیرہ میں جو جماعت کا اہتمام ہوتا ہے، اس میں نماز باجماعت تو یقینا ادا ہوگی لیکن مسجد کا ثواب نہیں ملے گا۔ اگر پانچ روزہ یا دس روزہ تراویح و ختم قرآن سے لوگ یہ سمجھ لیں کہ بس ایک قرآن ختم ہوگیا، اب تراویح سے بھی فارغ، تو یہ طرز عمل اور سوچ بالکل غلط ہے، تراویح پورے ماہ رمضان کی سنت ہے، لہذا جن لوگوں کا ختم قرآن ستائیسویں کو ہوتا ہے، ان کو بھی چاہئے کہ بقیہ دنوں کی تراویح باقاعدگی سے پڑھیں۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ کھول لیتے تو فرماتے: پیاس چلی گئی، رگیں تر ہوگئیں، اور انشاء اللہ اجر ثابت ہوگیا ہے، (مشکوٰۃبحوالہ ابوداؤد)’’۔ دوسری حدیث میں ہے: معاذبن زہرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار فرمالیتے تو یہ دعا پڑھتے: اللٰھم لک صمت وعلیٰ رزقک افطرت۔‘‘اے اللہ! میں نے تیری رضا کے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی عطا کردہ پر افطار کیا’’۔

حدیث مبارک کے الفاظ بالکل واضح ہیں کہ افطار سے فراغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اظہار بندگی اور تشکر نعمت باری تعالیٰ کے لئے یہ دعا فرماتے۔ امام احمد رضا خان قادری فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں کہ ملا علی القاری شارح مشکوٰۃ نے بھی یہی لکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد یہ دعا مانگتے تھے، اور ابن المبارک نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ ‘‘ای قرا بعد الافطار’’ یعنی آپ افطار کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔ اور اگر کوئی شخص اس دعاء کو ‘‘قبل افطار’’ پر محمول کرتا ہے تو وہ بلا ضرورت حدیث میں تاویل کرتا ہے، یعنی اس صورت میں کلمات حدیث ‘‘اذا افطر’’ کے معنی یہ کرنا پڑیں گے کہ ‘‘ای اذا اراد الافطار’’ یعنی جب آپ افطار کا ارادہ فرماتے، اور بلاضرورت حدیث پاک میں اپنی من پسند تاویل کرنا درست نہیں ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: جی نہیں، دس سالہ بچی پر روزہ فرض نہیں ہے، البتہ وہ شوق سے نفلی روزہ رکھ سکتی ہے۔ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر علامات بلوغ ظاہر ہوجائیں تو اس پر بلوغت کا حکم لگایا جائے گا اور اس پر احکام شرعیہ فرض ہوجائیں گے، اور کم از کم نو سال کی عمر میں بلوغت ممکن ہے، اگر علامات ظاہر نہ ہوں تو پندرہ سال پورے ہونے پر بالغ تصور کیا جائے گا۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: یہ اطمینان کی بات ہے کہ خواتین کے علاج اور آپریشن کے لئے خواتین ڈاکٹر موجود ہیں۔ شہوت کے لئے ستر کو دیکھنا اور چھونا حرام ہے، علاج کے لئے جائز ہے اور اس سے ڈاکٹر کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بلکہ یہ انسانیت کی خدمت ہے۔ اگر کوئی خدا ترس مسلمان ڈاکٹر یہ کہے کہ مزید بچے پیدا ہونے سے عورت کی صحت یا زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو مصنوعی طریقے سے عمل تولید کی بندش جائز ہے اور شوہر کی رضا مندی ہو تو بہر صورت جائز ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: ڈاکٹر صاحبان سے ہم نے اس سلسلے میں جو معلومات حاصل کی ہیں، ان کے مطابق سانس کے مریض کے پھیپھڑے سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں تکلیف اور دشواری محسوس ہوتی ہے۔ ان ہیلر کے ذریعے ایسے کمیکلز گیس یا مائع بوندوں کی شکل میں ان کے پھیپھڑوں میں پہنچتے ہیں جن کی بناء-04 پر ان کے پھیپھڑے (LUNGS) کھل جاتے ہیں اور وہ دوبارہ آسانی سے سانس لینے لگتا ہے، تو چونکہ مریض کے بدن کے اندر ایک مادی چیز جاتی ہے لہذا ا س کا استعمال مناسب نہیں۔لیکن اگر مرض اس درجے کا ہے کہ پورے روزے کا وقت ان ھیلر کے استعمال کے بغیر مریض کے لئے گزار نا مشکل ہے تو پھر وہ معذور ہے، بربنائے عذر و بیماری روزہ نہ رکھے اور فدیہ ادا کرے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: روزے کی حالت میں سرمہ لگانے کی اجازت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ البتہ دوا کے قطرے ڈالنے کے بارے میں علماء کی آرا مختلف ہیں اور یہ اختلاف آراء اس بات پر مبنی ہے کہ آنکھ سے حلق کی طرف کوئی نالی یا سوراخ ہے یا نہیں۔ جدید طبی تحقیق یہ ہے کہ آنکھ سے حلق کی طرف نالی (ROUTE) ہے، لہذا ہم اس رائے سے متفق ہیں کہ آنکھ میں دوا کے قطرے ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: جی ہاں روزہ بدستور قائم رہے گا، جتنی جلد ہوسکے غسل واجب ادا کر کے پاک ہوجائیں تا کہ کسی وقت کی نماز قضا نہ ہو جائے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: ویسے تو لپ اسٹک مفسد صوم نہیں ہے، لیکن اگر ہونٹوں پر زبان پھرنے کی عادت ہے اور اس سے لپ اسٹک کے ذرات پیٹ میں چلے جاتے ہیں تو روزہ ٹوٹ جائے گا، لہذا احتیاط بہتر ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: جائز ہے، لیکن اگر بتی سلگا کر اسے دانستہ ناک کے قریب لے جا کر اس کا دھواں ناک کے اندر کھینچے تو دھواں اندر جانے کی صورت میں روزہ فاسد ہو جائے گا اور قضا لازم آئے گی۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب : جی ہاں پڑھی جاسکتی ہے، لیکن کھڑے ہوکر پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے، البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھی جائے تو ثواب میں کمی نہیں ہوگی۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب : آپ اس طرح اعتکاف پر بیٹھ سکتی ہیں، اپنے گھر پر ایک جگہ متعین کرکے، صرف کھانا پکانے کے لئے ضرورتاً کچن میں جائیں اور کھانا اٹھاکر اپنی جائے اعتکاف پر لاکر کھائیں اور باقی معمولات میں احکامِ اعتکاف کی پابندی کریں۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: اگر بیوی کا ‘‘بائی پاس’’ آپریشن ہوا ہے اور کوئی خدا ترس دین دار ڈاکٹر یہ مشورہ دیتا ہے کہ روزہ رکھنے سے مریض کا مرض بڑھنے کا اندیشہ ہے تو روزہ چھوڑ دیں اور فدیہ دیں، ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو دو وقت کھانا کھلانا ہے، یا اس کے مساوی نقد رقم دینا ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: روزہ، ایک محدود وقت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے عبادت کی نیت سے، کھانے، پینے اور جنسی عمل سے رک جانے کا نام ہے۔ لہٰذا جوں ہی صبح صادق شروع ہوئی، جس کا وقت انتہائے سحر کے عنوان سے آج کل ریڈیو، ٹیلی وژن، مختلف اداروں کے مطبوعہ نقشہ جات، اخبارات اور مساجد سے مشتہر ہوجاتا ہے ،اور اذانِ فجر سحری کا وقت ختم ہونے پر ہی شروع ہوتی ہے۔ لہٰذا اس وقت کھانا پینا منع ہے اور اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا اور اس کی قضا لازم ہوگی۔ آپ سحری ختم ہونے کے چند منٹ بعد کھائیں یا چند گھنٹے بعد، آپ نے شریعت کی بندش کو توڑ دیا تو روزہ نہ رہا۔ ایسی صورت میں بغیر کچھ کھائے پیے روزے کی نیت کرلیا کریں۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: اس سلسلے میں ہمارے سامنے دو نصوص حدیث ہیں، ایک یہ کہ ‘‘الصَّومْ یَومَ یَصْومْونَ وَالفِطرْ یَومَ یْفطِرْونَ’’ یعنی تم جس مقام پر ہو اس کے مطابق روزہ رکھو یا عید مناؤ، یعنی ان کی پیروی کرو، لہٰذا اگر تمہارے تیس روزے پورے بھی ہوگئے ہیں، تب بھی اس مقام والوں کا ساتھ دو، اس مقام کی اتباع میں آپ کے لئے ابھی رمضان جاری ہے۔

دوسرا یہ کہ ماہ رمضان زیادہ سے زیادہ تیس دن کا ہوتا ہے، اگر آپ کے تیس روزے پورے ہوگئے ہیں تو آپ یہاں اب31 واں دن کا روزہ نہ رکھیں۔

جبکہ ‘‘فَمَن شَھِدَ مِنکْم الشَّھرَ فَلیَصْمہْ’،’‘‘پس تم میں سے جو اس ماہ رمضان کو پائے تو اس پر لازم ہے کہ اس کے روزے رکھے’’ والی آیت قرآنی کی رو سے آپ اس مقام پر رمضان کو پارہے تھے، لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ روزہ رکھیں، زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ آپ کے لئے یہ رمضان 31 دن کا متحقق ہوگا، آپ کے مخصوص حالات کی بناء پر۔

اور اگر آپ یہاں سے روزہ رمضان کا آغاز کرکے سعودی عرب جائیں اور وہاں بالفرض 29 ویں رمضان کو چاند نظر آئے گا، جبکہ آپ کے ابھی اٹھائیس روزے ہوئے کیونکہ پاکستان میں رمضان ایک دن پیچھے شروع ہوا تھا، تو اب کے پاس دو راستے ہیں ‘‘الصَّومْ یَومَ یَصْومْونَ وَالفِطرْیَومَ یْفطِرْونَ’’پر عمل کرتے ہوئے روزہ نہ رکھیں اور بعد میں ایک دن کی قضا رکھیں، کیونکہ رمضان المبارک 29دن سے کم کا نہیں ہوتا۔ یا ‘‘اَکمِلْواالعِدَّۃَ’’ پر عمل کرتے ہوئے ان کے ساتھ عید نہ منائیں اور اپنے روزے مکمل کرلیں۔

()

جواب: کسی عملِ خیر کو کسی خاص وقت، دن اور تاریخ کے ساتھ اس نظریے کے ساتھ متعین کرکے ادا کرنا کہ اس کا اجر و ثواب اس تعین کے ساتھ مشروط ہے یا یہ تعین اجرِ زائد کا سبب ہے اسے تعینِ شرعی کہتے ہیں، اور دلیل ِشرعی کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں۔ یوں تو قرآن مجید کی ہر سورت مقدس اور مبارک ہے اور کسی بھی دن اور کسی بھی تاریخ کو اس کا پڑھنا باعث ِبرکت ہے (بشرطیکہ کوئی اور شرعی مانع نہ ہو) اور رمضان المبارک میں تو نفل عبادت کا ثواب دیگر ایام کے فرائض کے برابر ہوتا ہے، لہٰذا اگر کچھ لوگ ستائیسویں شب کو ‘‘سورۃ الروم’’ اور ‘‘سورۃ العنکبوت’’ پڑھتے ہیں یا حسب ِتوفیق اور بھی سورتیں پڑھیں تو بلاشبہ یہ اجر و ثواب اور سعادت کی بات ہے لیکن تعینِ شرعی کی نیت سے پڑھنا درست نہیں ہے۔

تعین ِشرعی سے مراد ہے کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ خاص اس رات کو یہ سورتیں پڑھنے کا حکم دیا گیاہے یا یہ کہ اس دن دوسری سورتوں کے مقابلے میں ان کا زیادہ ثواب ہے یا یہ کہ یہ شارع علیہ الصلوٰۃوالسلام کا خاص معمول تھا درست نہیں ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب : روزے کی حالت میں ٹیسٹ کے لئے خون نکالنا مفسدِ صوم نہیں ہے، روزہ صحیح رہتا ہے، کیونکہ حدیث پاک میں ہے: ‘‘الفطر ممادخل لیس مماخرج’’، بدن میں کوئی چیز جانے سے روزہ ٹوٹتا ہے نہ کہ خارج ہونے سے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: اْلٹی آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ البتہ اگر حاملہ عورت کی صحت کمزور ہو اور روزہ رکھنے سے زچہ و بچہ کی صحت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو اور کوئی خدا ترس دین دار ڈاکٹر یہ مشورہ دے کہ روزہ نہ رکھو تو اس صورت میں وہ روزہ چھوڑ سکتی ہیں لیکن بعد میں اتنے دنوں کی قضا کرنی پڑے گی۔ اگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے صحت اچھی ہے تو روزہ رکھتی رہیں۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: اس مسئلے میں ہمارے فقہاء-04 کرام کی دو آراء ہیں، ایک یہ کہ ماہ ِرمضان المبارک میں فرض نماز جماعت کے ساتھ نہ بھی پڑھی ہو تو اس کا وتر جماعت کے ساتھ پڑھنا بلا کراہت جائز ہے، اور دلائل کے اعتبار سے یہی نظریہ راجح ہے، جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ ‘‘فرضِ عشاء’’ جماعت کے ساتھ نہ پڑھے ہوں، تو وتر بھی جماعت کے ساتھ نہ پڑھے بلکہ تنہا پڑھے، دلائل کے اعتبار سے یہ نظریہ مرجوح ہے۔

فقہاء ِکرام میں یہ اختلاف آراء ایک اور اختلاف پر مبنی ہے، وہ یہ کہ آیا رمضان المبارک میں وتر کی جماعت، ‘‘فرضِ عشاء ’’ کی جماعت کے تابع ہے یا تراویح کی جماعت کے۔ قول صحیح یہ ہے کہ فی نفسہ نماز وتر تو فرض عشاء کے تابع ہے، لیکن وتر کی جماعت کا مسنون ہونا تراویح کی جماعت کے مسنون ہونے کے تابع ہے، کیونکہ اگر وتر کی جماعت عشاء کی جماعت کے تابع ہوتی تو وتر سارا سال جماعت کے ساتھ مسنون ہوتے، اس لئے کہ عشاء کی نماز میں جماعت سارا سال واجب ہے، جبکہ وتر تو صرف رمضان المبارک میں جماعت کے ساتھ مسنون ہیں، پس ثابت ہوا کہ وتر کی جماعت کا مسنون ہونا تراویح کی جماعت کے مسنون ہونے کے تابع ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)