امریکی معاشرے کا ایک رخ اور اخوت

مصنف : ڈاکٹر امجد ثاقب

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : جون 2014

وال سٹریٹ اور ہالی وڈ کے مکینوں سے بہت مختلف ۔ایک کمزور سیاہ فام عورت جس کی کہانی امریکی معاشرے کا ایک اور رخ پیش کرتی ہے۔ اس کہانی کا حاصل یہ ہے کہ امریکہ صرف وال سٹریٹ نہیں کچھ اور بھی ہے۔ اوسیولا سادگی’ کفایت شعاری اور ایثار کا پیکر تھی ۔وہ چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی کہ اسکی خالہ بیمار رہنے لگی۔ خالہ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ تیمارداری کی ذمہ داری اوسیولا کو سونپ دی گئی۔ وہ خالہ کی خدمت میں اس قدر محو ہوئی کہ سکول جانا ہی بھول گئی۔ نیویارک کے گلی کوچوں میں کئی سال یونہی گذرگئے۔ جب تک خالہ اس دنیا سے رخصت ہوتی اس کے سارے خواب مرجھا چکے تھے۔ اس نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے محلے میں لوگوں کے برتن دھونے اور کپڑے استری کرنے لگی۔ اس مزدوری کے نتیجہ میں اسے جو کچھ ملتا اس کے معمولی اخراجات اور کھانے پینے کیلئے کافی تھا۔ کچھ نہ کچھ باقی بچ جاتا ۔ جس سے وہ لوگوں کی مدد کردیتی یا اسے بنک میں جمع کروا دیتی۔ محنت اور بچت کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ نجانے کتنی بہاریں خزاں میں تبدیل ہوئیں۔جب اس کی عمر ستاسی سال ہوئی تو وہ ایک روز اپنے بنک گئی۔بنک آفیسر نے بتایا کہ اس کے اکاؤنٹ میں کئی لاکھ ڈالر جمع ہیں۔ پچھتر سال کی محنت کا ثمر۔ اس نے کچھ دن سوچنے میں گذارے اور پھر اس دولت کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ڈیڑھ لاکھ ڈالر سے ایفریقن امیریکن طالب علموں کیلئے ایک انڈومنٹ فنڈ بنایا اور بقیہ رقم قریبی چرچ اور اپنے غریب رشتہ داروں میں تقسیم کردی۔ وہ ایثار کا پیکر جو تھی۔

امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے اوسیولا میکارٹی کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی تواس نے جہاز پہ بیٹھنے سے انکار کردیا۔ اسے یہ مشین غیر محفوظ دکھائی دیتی تھی۔ وہ نیویارک سے ٹرین پر بیٹھ کرواشنگٹن پہنچی اسے امریکہ کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ کلنٹن کا کہنا تھا کہ اوسیولا سے ملاقات اس کی زندگی کا ناقابلِ فراموش واقعہ تھا۔

1995 میں جب ایک اٹھارہ سالہ لڑکی سٹیفنی کو پہلا اوسیولا میکارٹی سکالر شپ ملا تو اوسیولا کی نگاہوں کی چمک دیدنی تھی۔ بچپن سے لے کر آج تک اس کے دل میں یہ کسک رہی کہ وہ تعلیم حاصل نہ کرسکی لیکن آج وہ کسک جاتی رہی ۔سٹیفنی کو سکول جاتے ہوئے دیکھ کر اسے یوں لگا جیسے وہ خود سکول جارہی ہو۔سٹیفنی کی مسکراہٹ میں ستاسی سال کی تھکن نے دم توڑ دیا…… نیویارک صرف الیگزینڈر ہملٹن کا نہیں اوسیولا میکارٹی کا بھی ہے۔ امریکہ صرف وال سٹریٹ نہیں بل گیٹس اور وارن بفٹ بھی ہے۔

وجودِ زن سے ہے تصویر ِ کائنات میں رنگ

اوسیولا سے کسی نے پوچھا تم نے اپنی جمع پونجی لڑکیوں کیلئے ہی کیوں وقف کی۔ اس کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیلنے لگی۔ ‘‘مردوں کی اس دنیا پہ عورتوں کابھی حق ہے میں جانتی ہوں کہ ایک عورت کی حیثیت سے مجھے کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گھر سے نکلتے ہی یہ احساس ہوجاتا کہ یہ دنیا صرف مردوں کیلئے بنی ہے۔ ابھی عورت کو سراٹھا کے چلنے کی اجازت نہیں۔ ابھی راستے پُر خار ہیں میں چاہتی ہوں بچیاں بھی جی بھر کے جئیں۔ ان کے بھی تو خواب ہیں’’۔

یہ باتیں نیویارک میں رہنے والی اوسیولا کی تھیں جو ایک ترقی یافتہ معاشرے کا حصہ ہے۔ وہ معاشرہ جہاں عورتیں بہت سی مشکلات اور رکاوٹیں عبور کرچکی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تو عورت اور غربت کا تعلق اور بھی گہرا ہے۔غربت اگر اختیار سے محرومی کا نام ہے تو عورت سے بڑھ کر اور کوئی غریب نہیں۔ جب تک وہ والدین کے گھر میں رہتی ہے تو اس کی قسمت کا فیصلہ باپ اور بھائیوں کے پاس ہوتا ہے۔ جب وہ خاوند کے گھر آتی ہے تو یہ اختیار بھی اس کے خاوند کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ بھوک اور محرومی کا سب سے زیادہ شکار وہی بنتی ہے۔ دکھ کا آتشکدہ اسے ہر روز جلا کے راکھ کرتا ہے ۔ اگر گھر میں کسی ایک شخص کو بھوکا رہنا پڑے’ کسی ایک کو جہالت کی چتا میں جلنا پڑے’ کسی ایک کو دوا سے محروم ہونا پڑے تو وہ عورت ہی ہوتی ہے۔ غریب ہونا بہت بڑا دکھ ہے لیکن غریب عورت ہونا ایک ناقابل بیان دکھ ہے۔

اخوت نے خواتین کو کامیابی کی نئی راہوں سے آشنا کیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے قرضوں نے انہیں بڑی بڑی خوشیوں کی راہ دکھائی ہے۔ ان قرضوں کی بدولت ان کی خود اعتمادی بڑھی’ عزت نفس میں اضافہ ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کا سماجی مقام بلند ہونے لگا۔ ‘‘جب سے میں نے اپنا کاروبار شروع کیا ہے میں خود کو بہت معتبر پانے لگی ہوں۔میں اب پانچ ہزار روپے ماہانہ کماتی ہوں۔ میرے بچے پیٹ بھر کے کھانا کھاتے ہیں۔ میری اپنی چھوٹی موٹی ضروریات بھی پوری ہو جاتی ہیں۔ اب میرے خاوند کی نگاہوں میں تشکر کی جھلک نظر آتی ہے۔ مجھے اور میری بیٹی کو اب گھر پر بوجھ نہیں سمجھا جاتا۔ اس سے پہلے میں خاوند کے سامنے ہاتھ بڑھاتی تو مجھے یوں لگتا جیسے خیرات کے لیے ہاتھ بڑھا رہی ہوں۔ اب روزمرہ کے اخراجات میں خود اپنی جیب سے بھی پورے کر سکتی ہوں۔ ’’ یہ کسی ایک عورت کی گواہی نہیں ایسی ہزاروں عورتیں ہیں جو ہر روز یہی کہانی دہراتی ہیں۔ اگر پچاس فیصد آبادی اس احساس کے بوجھ تلے دبی رہے کہ زندگی مردوں سے ملنے والی بھیک یا خیرات کا نام ہے تو کیا ہم غربت کا خاتمہ کر سکیں گے؟ اوسیولا کی ترجیح اتنی بھی غلط نہیں۔

ڈاکٹر ہارون رشید کے پاس ایک بار ایک شخص آیا اور عطیہ دے کر خاموشی سے پلٹ گیا۔ کئی روز بعد وہی شخص ہارون کو کسی اور تقریب میں نظر آیا تو وہ اس کے پاس گئے اور کہنے لگے جناب آپ نے عطیہ تو دے دیا لیکن ایڈریس نہیں دیا کہ ہم آپ کو رسید بھیج سکتے۔ اس کا جواب تھا کہ پروفیسر صاحب رسید تو مجھے مل چکی ہے۔ جب میں یہ عطیہ دے کر واپس گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میری ماں جو قوتِ گویائی سے محروم ہو کر کئی ماہ سے بستر پر لیٹی تھی ٗ اپنے پوتے’ پوتیوں کے درمیان بیٹھی باتیں کررہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب، اس شخص نے شدتِ جذبات سے کہا ‘‘اس سے بڑی رسید اور کیا ہوگی کہ میں نے اپنی بیمار ماں کے نام پر عطیہ دیا اور گھر پہنچنے سے پہلے ماں صحت یاب ہوچکی تھی’’۔