شادی  ايك ذمہ داری

مصنف : جويريہ ساجد

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : نومبر 2023

سماجيات

شادی  ايك ذمہ داری

جويريہ ساجد

حصہ اول:لڑكے والے

شادی ایک بندھن تو ہے مگر صرف دو افراد کا نہیں بلکہ دو خاندانوں کا ملاپ ہے.دو خاندانوں کی سوشل بائنڈنگ ہے۔ہمارے معاشرے میں عموماً شادی کی ابتداء لڑکے والوں کی جانب سے لڑکی ڈھونڈنے سے ہوتی ہے۔اس لیے آج میرا مخاطب لڑکے والے ہیں۔ہمارے یہاں جتنی بے نیازی رشتہ کرتے ہوئے دکھائی جاتی ہے وہ بے نیازی شادی کے قریب آتے آتے رکھائی میں بدل جاتی ہے اور شادی کے بعد باقاعدہ مخالفت میں۔وجہ یہی ہے کہ رشتہ جوڑتے ہوئے ساری توجہ ظاہری چیزوں پہ ہوتی ہے اور انتہائی غیر حقیقت پسندی سے لڑکی ڈھونڈی جاتی ہے۔ چونكہ آج لڑکے والے مخاطب  ہیں اس لیے انہیں کے لیے بات کی جائے گی شادی سے پہلے کیا ڈیمانڈ ہوتی ہے۔لڑکی خوبصورت ہو-پڑھی لکھی ہو-

نوکری کرتی ہو-ماڈرن اور سٹائلش ہو-کھاتے پیتے لوگ ہوں-امیر باپ کی بیٹی ہو-لڑکی والوں کا سٹینڈرڈ آف ليونگ اچھا ہو۔بعض گھرانے یہ کہتے سنے ہیں کہ بھئی ہم نے کون سا لڑکی سے کام کروانا ہے۔بھئی ہم کون سا دقیانوسی ہیں جو پابندیاں لگائیں گے۔بھئی ہم تو الگ رکھیں گے بہو کو جیسے چاہے رہے وغیرہ وغیرہ -اور بعد میں انہی باتوں پہ سب سے زیادہ شور مچایا جاتا ہے۔یہ بہت غیر حقیقی باتیں ہیں جو رشتہ ڈھونڈتے ہوئے کی جاتی ہیں جہاں لڑکی پسند آجائے وہاں ترلے کر کے رشتہ دیا جاتا ہے اور من پسند رشتہ ہوتے ہی آنکھیں کھلنا اور عقل واپس آنا شرع ہو جاتی ہے اور شادی ہوتے ہی وہ کچھ بھی نظر آنا شروع ہو جاتا ہے جس کا وجود بھی نہ ہو۔کیونکہ ہمارے معاشرے میں عام طور پہ رشتے کا پیغام لڑکے والے دیتے ہیں لڑکی ڈھونڈنے کا عمل بھی لڑکے والوں سے شروع ہوتا ہے اس لیے آغاز بھی لڑکے والوں سے کرتے ہیں۔

تو جناب سب سے پہلی بات لڑکے کا رشتہ تب ڈھونڈیں جب آپ کو لگے کہ آپ کا بیٹا ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہو گیا ہے۔اس کے بعد خود سمجھ لیں کہ آپ کا بیٹا ایک گھر کا سربراہ بننے جا رہا ہے آپ کے فیملی سرکل کے ساتھ ایک اور سرکل آپ کے بیٹے کی فیملی کا ہوگا جو بالكل آپ ہی کی طرح خود مختار سرکل ہو گا۔ جب یہ بات خود کو سمجھا لیں تو ایک بار پوری فیملی مل کے بیٹھے خاص طور پہ وہ لڑکا جس کی شادی ہونے جا رہی ہے سب مل کے حقیقت پسندی سے یہ ڈسکس کریں کہ آپ کے گھرانے اور خاص طور پہ لڑکے کو کیسی لڑکی سوٹ کرے گی۔ کون سی باتیں دو ٹوک ہیں جو لازمی دیکھنی ہیں کن پہ کمپرومائز کیا جا سکتا ہے جن پہ کمپرومائز کریں ان پہ بعد میں کبھی طعنہ نہ دیں۔اگر آپ کلاس چینج کرنے کے لیے شادی کر رہے ہیں تو خود کو اس کلاس تک لے کے جائیں نہ کہ بعد میں لڑکی کو اپنی کلاس کے مطابق پرکھنا شروع کر دیں۔اگر گھر میں ملازم نہ رکھنے کا رواج ہے تو پہلے سے کام کاج کرنے والی لڑکی ڈھونڈیں۔اب یہ باتیں پرانی ہو گئیں ماں دیکھ کے شادی کريں  كہ وہ تربیت کرتی ہیں۔جی نہیں لڑکی کو دیکھ کے ہی شادی کرو بعض مرتبہ لڑکیاں اپنی ماؤں کے انجام دیکھ کے ان سے 90 ڈگری پہ الٹ ہوتی ہیں اس کے علاوہ ضروری نہیں سگھڑ ماں نے بیٹیوں کی تربیت بھی انہی خطوط پہ کی ہو اس لیے بہت سگھڑ اچار چٹنیاں بنانے والی کپڑے خود سلائی کر لینے والی ماں سے زیادہ سمجھدار ماں کا انتخاب کریں۔نوکری کرنے والی لڑکی ڈھونڈنی ہے تو اس سے آتے ہی گھر سر پہ اٹھانے کی امید مت رکھیں۔اسی طرح چھوٹی عمر کی لڑکی اٹھارہ انیس سال کی پڑھتی ہوئی بچی اصرار کر کے شادی کر کے گھر لے آتے ہیں کہ ہم پڑھا لیں گے ہم سنبھال لیں گے۔ یہ بات سمجھ لیں کہ پڑھانے کے لیے پڑھنے کا ماحول دینا ہوتا ہے صرف یہ کہہ دینا یا سوچ لینا کہ ہم پابندی نہیں لگائیں گے یہ کافی نہیں ہے۔ حقیقت پسند بنیں جب تک تعلیم مکمل نہ کروا دیں اس پہ گھر کی ذمہ داریاں مت ڈالیں۔ اسی طرح اگر آپ کے گھر کو ضرورت ہے ایسی لڑکی كی جو گھر سنبھالے تو کم عمر اور خوبصورت ترین لڑکی کے بجائے سمجھدار میچور لڑکی ڈھونڈیں۔یاد رکھیں خوبصورتی، خوبصورت پرسکون ماحول کی عطا کردہ ہے۔ سٹائل بھی امپروو کیا جا سکتا ہے۔ لڑکیوں کو اپنا کے گروم کیا جا سکتا ہے نکھارا جا سکتا ہے رشتہ ڈھونڈتے ہوئے یہ باتیں ثانوی ہونی چاہیں جن کو ہم نے پرائمری سمجھا ہوا ہے۔ خوبصورتی اور سٹائل سے گھر نہیں چلتے۔

ہم کیا غلطیاں کرتے ہیں۔آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی حسین و جمیل نازک پری ڈھونڈیں گے اور پھر چاہیں گے وہ کچن سنبھالے جھاڑو پوچا کرئے ارے اس کو تو بس سجا کے ڈرائنگ روم میں بٹھائیں بلکہ اس کی سیوا کرئیں۔نوکروں چاکروں والے اونچے گھر میں شادی کریں گے شادی کر کے لا کے کہیں گے ہمارے گھر میں ملازم رکھنے کا رواج نہیں ہے۔پڑھتی کوئی بچی اٹھا کے اصرار کر کے شادی کریں گے پھر کہیں گے یہ تو گھر سنبھالتی نہیں ہے اور عین امتحانوں میں گلہ کریں گے یہ تو کسی کو ٹائم نہیں دیتی۔اسی طرح اگر پڑھی لکھی بہو لا رہے ہیں یہ سوچ کے کہ وہ آپ کی نسلوں کو سنوارے گی تو اس کے ساتھ تعاون کریں اسے بچوں پہ مکمل توجہ دینے کے لیے گھر کے کاموں میں ہیلپر کی مدد سے ریلیکس رکھیں۔

جو سوسائٹی میں موو کرے گی وہ اپنا خیال رکھے گی جم جائے گی پارلر جائے گی اسے اس کے حساب سے پیسے اور سہولیات دیں۔اگر آپ کو خاندان جوڑنے کے لیے شادی کرنی ہے یا کسی بزرگ کا خیال رکھنے کے لیے یا اپنے بیٹے کے ساتھ چلنے والی لڑکی تو تلاش بھی اسی حساب سے کریں۔ اس کے ساتھ بیٹے کا مزاج ضرور دیکھ لیں بیٹے کی ڈیمانڈ پسند ناپسند کو فوقیت دیں بیٹے کے ساتھ ہی ایڈجسٹ نہ ہوئی تو کوئی فائدہ نہیں۔بعض کھاتے پیتے گھرانوں میں جان بوجھ کے اپنے سے کم حیثیت گھرانوں میں شادی کی جاتی ہے تاکہ احسان رہے اور لڑکی دب کے رہے- اچھے بھلے لڑکے کے لیے ایسی لڑکی ڈھونڈی جاتی ہے جو بیٹے کو زیادہ پسند نہ آئے اور بیٹا صرف ہمارا رہے یہ نہ صرف کسی کی لڑکی بلکہ اپنے لڑکے پہ بھی ظلم ہے۔ چالیں چلنے سے زندگی میں کچھ اچھا نہیں ملتا۔ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کو زندگی سمجھیں شطرنج کی بساط نہیں زندگی کو سہل اور خوشگوار بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں کم از کم ماں باپ کا تو یہی رول ہونا چاہیے۔يہ ہو گئی وہ باتیں جو ماں باپ کو بیٹوں کے رشتے ڈھونڈتے ہوئے مد نظر رکھنی چاہئیں-

حصہ دوم: لڑکی والے

ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی شادی کرتے ہوئے سب سے پہلے لڑکے کا سٹیٹس، پیسہ اور عہدہ دیکھا جاتا ہے لڑکے والے کھاتے پیتے ہوں، اپنا گھر ہو، پھر خاندان دیکھا جاتا ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہ خاندان چھوٹا ہو۔ افراد کم ہوں وغیرہ-مطابقت یا Compatibility کس چڑیا کا نام ہے لڑکی والے جانتے ہیں نہ لڑکے والے۔یہ تحریر لڑکی والوں کے لیے ہے اس لیے بات بھی انہی کے حوالے سے ہو گی۔ تو محترم لڑکی والو، رشتہ ڈھونڈنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ شادی ایک ذمہ داری کا نام ہے ایک گھر کی ذمہ داری، پھر بچوں کی ذمہ داری۔ کیا آپ کی بیٹی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل ہو گئی ہے یا ذمہ داریاں اٹھانے پہ تیار ہے۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ابھی آپ کی بیٹی چھوٹی ہے، بچی ہے، ناسمجھ ہے تو ہرگز ہرگز لڑکی کی شادی مت کریں۔پہلے اسے بڑا اور سمجھ دار ہونے دیں اور اپنی بچی کو بڑا کر کے سسرال بھیجیں بچی کو بڑا کرنے کی ذمہ داری سسرال اور اس کے میاں پہ مت ڈالیں۔ حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھیں سسرال والے کہیں تب بھی نہ مانیں۔سمجھانے کی بات آئی تو جتنی ضرورت ہو اتنا ہی سمجھائیں غیر ضروری اور ایکسٹرا سمجھداری سے بہت مسائل جنم لیتے ہیں۔مثلاً آج کل ہر ماں ہر لڑکی نے گردان کرنی شروع کر دی ہے کہ ساس سسر کی ذمہ داری ہماری نہیں ساس سسر کی خدمت ہمارا فرض نہیں۔ یاد رکھیں میاں بھی صرف نان نفقے کا ذمہ دار ہے عیش و آرام پہنچانے کا نہیں۔ اپنے ماں باپ کی ذمہ داری بھی اس کی ہے ان کی خدمت بھی آپ نے نہیں، اسی نے کرنی ہے تو اس کو چاہیے آپ کو نان نفقہ دے کے باقی پیسوں سے اپنے ماں باپ کو ملازمین رکھ کے دے۔ اور اس پہ آپ کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔پیاری ماؤبیٹیوں کو خدمت گزار بنائیں۔ خدمت کرنے والا با نصیب ہوتا ہے بچپن سے ہی بچوں میں خدمت کا جذبہ پیدا کریں، لوگوں کا احساس پیدا کریں۔ ان میں نرم دلی ڈالیں۔ اگر آپ نے ان سے کبھی پانی کا گلاس بھی نہیں مانگا تو یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے آپ نے اپنی اولاد کو نیکی اور دعاؤں سے محروم کیا اب شادی کے موقع پہ سسرال جاتے ہوئے سکھا کے بھیجیں کہ خدمت میں عظمت ہے۔

اسی طرح کچھ مائیں بہت فخر سے ہر ایک کو کہتی ہیں اور خاص طور پہ سسرال کو سناتی ہیں کہ ہماری بیٹی کو کوئی کام نہیں آتا۔ تو پیاری ماؤیہ ہرگز بھی کوئی قابل فخر کارنامہ نہیں ہے بیٹیوں کو شادی سے پہلے گھر کے بنیادی کام سکھا کے بھیجیں بھلے سسرالوں میں ملازموں کی فوج ہی کیوں نہ ہو۔ بچیوں کو بتائیں کہ شادی کرنے کا مطلب ہے ذمہ داریاں قبول کرنا آپ کے گھر میں ملازم ہیں یا نہیں آپ سسرال کے ساتھ رہیں یا الگ آپ کو بنیادی کام سیکھنے ہوں گے۔ ملازمین سے کام لینے کے لیے بھی کام آنا شرط ہے۔

گھر چلانے کے کچھ لوازمات ہیں ان میں بیٹیوں کو طاق کر کے بھیجیں مثلاً یہ کہ سب سے پہلے وہ سسرال کے گھر کو اپنا گھر سمجھیں مگر یہ بھی سمجھیں کہ کنواری اور شادی شدہ لڑکی کے طرز زندگی میں فرق ہوتا ہے لڑکیوں کو بتائیں کہ وہ شادی کے بعد اپنا شیڈیول سیٹ کریں سونے جاگنے کے اوقات صحیح رکھیں بچیوں کو سمجھائیں ماں باپ کے گھر میں رزق، ماں باپ کی عبادت اور ریاضت کی وجہ سے تھا بیٹیوں کے گھر ان کی اپنی عبادتوں اور ریاضتوں کا رزق آئے گا۔ یہ بات بیٹیوں کو سمجھا دیں کہ دو بجے تک پڑے سوتے رہنا نحوست ہے۔ کوشش کریں بچپن سے عادت ڈالیں فجر کے وقت بچے نماز کے لیے اٹھیں تو سورج نکلنے تک ضرور جاگیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں ہمارا ماننا ہے کہ فجر کے بعد سونا رزق تنگ کرتا ہے ہاں سورج نکلنے کے بعد ایک دو گھنٹے سو جائیں لیکن دن چڑھے تک سوتے رہنا بہت بڑی نحوست ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کو صرف یہ مت سمجھائیں کہ میاں کی کمائی کیسے قابو کرنی ہے بلکہ یہ بھی بتائیں کہ کمائی کا بہترین مصرف کیسے ممکن ہے۔ برینڈڈ کپڑوں، جوتوں، بیگز، جیولری سے آگے بھی زندگی ہے انفرادیت سے نکل کے اجتماعیت کی طرف آئیں۔لڑکیاں الگ گھر میں رہتی ہوں اور میاں خوب کماتا ہو تب بھی لڑکیوں کو گھر میں پکے سادے کھانوں کی افادیت بتائیں- ہونا تو یہی چاہیے کہ پہلے سے بچوں کو روٹین میں سادا اور گھر کے کھانے کا عادی کریں باہر کا کھانا خاص موقعوں پہ ضرور کھائیں۔مگر یوں بھی ہوتا ہے کہ اکثر گھر کے کھانوں کی عادی لڑکیاں بھی بعد میں تن آسانی کے لیے روز باہر کے کھانے کو فوقیت دینے لگتی ہیں۔ کھانا پکانا آنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ غذائیت کے ساتھ بہترین مصروفیت اور اینٹی ڈپریسنٹ ہے۔سوچا جائے تو گھر کے تمام کام ہی اینٹی ڈپریسنٹ ہیں ہاں خود پہ ضرورت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے اگر افورڈ کر سکتے ہیں تو ملازم ضرور رکھیں مگر انکی نگرانی بھی عورت کا ہی کام ہے۔اگر بچیاں سسرال میں رہتی ہوں تو ان کو غلط باتوں پہ ہٹ دھرمی سکھانے اور ہلہ شیری دینے کے بجائے انکو سمجھائیں کہ وہ نئے خاندان کو سمجھیں ان کے مختلف ہونے کو قبول کریں۔لڑکیوں کو سمجھائیں کہ سسرال والوں سے الگ تھلگ کمرہ بند کر کے پڑے رہنا اور میاں کے آنے کے ٹائم پہ اٹھ کے بادل ناخواستہ اس کے گھر والوں میں آکے بیٹھ جانے سے آپ کا مقام نہیں بننے والا۔ لڑکیوں کو گھل مل کے رہنا سکھائیں۔اختلافات کو برداشت کرنا سکھائیں- ہر بات میں، میری امی کے گھر یہ ہوتا تھا میرے ابو ایسے کرتے تھے ہم تو اس بات کے عادی نہیں، مت کہیں۔اپنی شخصیت کو ختم کیے بغیر سسرال میں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کریں۔جب لڑکیوں کا رشتہ کریں تو یہ ضرور دیکھیں کہ لڑکے اور اس کے خاندان میں خوف خدا کتنا ہے دنیا داری صرف یہ نہیں کہ سٹیٹس کیا ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ عزیزوں، رشتے داروں اور احباب میں تعلق کیسا ہے اور دین داری صرف داڑھی اور نمازیں نہیں بلکہ معاملات میں کھرا ہونا بھی ہے۔اس کے ساتھ اپنی دینداری کی ڈھاک بٹھانے کے لیے شرعی پردے کی آڑ میں پہلے ہی دن گھر الگ کرنے کا مطالبہ کر دینا بھی جائز نہیں۔ یہ سب شادی سے پہلے دیکھیں اور طے کریں۔ اس کے علاوہ صرف پیسے کو فوقیت دینا اور شادی سے پہلے لڑکے کی اچھی بری عادت سے صرف نظر کر کے یہ کہہ دینا کہ ہماری بیٹی کے نصیب سے دین کی طرف آجائے گا بالكل غلط طریقہ کار ہے اگر شادی کے بعد سسرال والوں میں دین آپکی بیٹی کے نصیب سے آسکتا ہے تو یقین رکھیں دیندار گھرانوں میں دولت بھی آپکی بیٹی کے نصیب سے آجائے گی۔اسی طرح کچھ والدین لڑکیوں کی شادیاں اپنے سے کم حیثیت والے لوگوں میں جان بوجھ کے اس لیے کرتے ہیں کہ لڑکے کو کاروبار یا ملازمت کروا کے ہاتھوں میں لے لیں گے اور سسرالوں کو دبا لیں گے یہ بڑی ہلکی سوچ ہے لڑکیوں کی شادیاں وہاں کریں جن کی آپ عزت کرتے ہوں ورنہ بعد میں لڑکیوں کو بیٹھ کے کہنا انکو پوچھتا کون تھا ہم نے لڑکی دے دی اس طرح کی باتوں کا کوئی حاصل نہیں۔ لڑکے کو جتنا مرضی اس کے خاندان سے اٹھا کے ہائی لیول پہ سیٹ کر دیں اس کے بچوں کی پہچان آپ سے نہیں اس کے اپنے خاندان سے ہو گی- آپکی بیٹی کی اولاد کی پہچان ان کے والد کا خاندان ہے انکا مزاج عادات بھی ددھیال جیسی ہوں گی۔ کیونکہ وہی انکا اصل ہیں۔ اس لیے اچھے خاندانوں میں اچھی نیت سے شادی کریں۔

لڑکیوں کے گھر بسانے والے مشورے لڑکیوں کی زندگی میں سکون بھرتے ہیں۔اپنے بچوں کو اپنی استطاعت کے مطابق جو معیار زندگی دے سکتے ہیں دیں یہ کبھی نہ کہیں فلاں کام شادی کے بعد اپنے گھر جا کے کرنا شوہر کے ساتھ گھومنا پھرنا سیرسپاٹے کرنا، شوہر کے ساتھ سینما جانا، شوہر کے ساتھ شاپنگ کرنا وغیرہ-اس سے بچیوں میں شادی کے بعد شوہر سے توقعات بہت زیادہ ہو جاتی ہیں اور وہ سمجھنے لگتی ہیں شادی کوئی جادو ہے جو سب بدل دے گا ساری خواہشات پوری ہوں گی اور جب توقعات پوری نہ ہوں تو لڑکیاں شوہر سے بے حد بد دل ہوتی ہیں- شادی کے شروع میں ہی بدگمانیاں اور جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اس ليے بچیوں کی توقعات کی آنچ دھیمی رکھیں اور خود اپنے بچوں کو جو بہترین معیار زندگی دے سکتے ہیں دیں۔

حصہ سوم: نندیں

دولہا کی بہنیں ،جو شادی میں بلائیں لے لے کے گاتی ہیں-دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا.........امڑی دےدل دا سہارا ---نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا۔........آپ کے بھائی کی شادی ھو رھی ھے آپ بہت خوش ھیں۔آپ نے رشتہ کروایا ہے۔آپ نے بری پسند کی ھے۔آپ نے گھر میں خوب ہلا گلہ کیا ھے ڈھول بجائے گانے گائے رقص کیا۔وہ جو کل آرھی ہے آپ کی بھاوج بن کے، آرہی ہے- اس کے لیے کچھ ذہن سازی بھی کر لیں۔کچھ باتیں سوچ لیں طے کر لیں-

پہلی بات آپ کے گھر میں نئے فرد کا اضافہ ھو رھا ھے بالكل آپ ہی طرح کا فرد۔ نہ آپ سے ایک انچ نیچے نہ ایک انچ اوپر۔کھلے دل سے اس کو خوش آمدید کہیں شادی تک گیت گانے والی بہنیں، بھائیوں کے کمروں میں جا جا کے قرآن پاک پڑھ کے پھونکنے والی بہنیں، شادی کے اگلے دن ناشتے کی میز پہ اپنے سر کی بیک کانبنگ کھولے بغیر بھاوج کو سناتی ہیں رات ہال میں ہیٹر کم تھے، کھانا ٹھنڈا تھا۔ انتظام اچھا نہیں تھا۔تو چند گھنٹے کی دلہن کی نظروں سے آپ دھڑام کر کے نیچے گرتی ہیں کوئی آپ سے مرعوب نہیں ہوتا۔دوسری بات اگر آپ شادی شدہ نندیں ہیں اور ابھی تک ماں باپ کے گھر سے ذہنی طور پہ رخصت نہیں ہوئی ہیں تو برائے مہربانی پہلے بھائی کی شادی ہوتے ہی رخصت ہو جائیں۔ اپنا گھر بسائیں اپنے میاں اور بچوں پہ دھیان دیں۔اپنے حالات کا موازنہ اپنی بھاوج کے حالات سے کبھی نہ کریں آپ کے حالات میں آپکی بھاوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہے- اپنے بوڑھے ماں باپ پہ ترس کھائیں انہیں بھاوج کے ساتھ رہنے کے طور طریقے سکھا سکھا کے ، اور ہر وقت گھر میں نازل رہ رہ کے اپنے بوڑھے ماں باپ کو بڑھاپے میں امتحان میں نہ ڈالیں۔ پیاری نندو، اپنے ماں باپ کے لیے اپنی ذات کو ایک قدم پیچھے ہٹا کے آنے والی کو جگہ دیں۔آپ جو ماں باپ کو ہر وقت بھاوجوں سے متنفر کرتی ہیں، بیٹوں کے خلاف اکساتی ہیں پوتے پوتیوں کی شکایتیں کرتی ہیں اس سے آپ کے ماں باپ خوش ہوں گے؟ اپنے ماں باپ کو امتحان میں نہ ڈالیں۔آپ کے ماں باپ کی جان آپ میں ہے آپ انہیں بہت پیاری ہیں لیکن آپ کے ماں باپ کا اصل ان کے بیٹے ہیں- آپ دل کا سکون ہیں تو بیٹے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ جو بھائی بھاوج ماں باپ کے ساتھ رہ رہے ہیں انکی احسان مند رہیں۔ باپ کو کھا رہا ہے، باپ کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے، مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں ، جیسے نيچ الفاظ اور ذہنیت کو ترک کر دیں ۔ جو ماں باپ کے ساتھ رہ رہے ہیں وہ ماں باپ کا خیال بھی رکھتے ہیں ماں باپ کا ہاتھ بھی تھام کے چلتے ہیں ماں باپ کو وقت بھی دیتے ہیں ان کے بچوں سے آپکے ماں باپ کا دل بہلا رہتا ہے دل لگا رھتا ہے ان کی سلامتی کی دعائیں کریں۔ یہ تو یہاں راج کر رہی ہے ہم سارا دن کام کرتے ہیں۔یہ تو مہارانی ہے ہم نوکرانی ہیں -یہ بہت فضول سوچ ہے۔اپنے ماں باپ کو بڑھاپے میں ذلیل نہ کرئیں آپکا بھائی اپنے ماں باپ کو سنبھال رہا ہے اپنے بیوی بچوں کی ذمہ داریاں اٹھا رہا ہے کافی ہے۔اگر پہلے کی طرح آپ کی ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتا تو کوئی بات نہیں اسے بخش دیں۔بھاوج کو دھتکار کے رکھنا کہ ماں باپ کے گھر سے ہمارا ھولڈ ختم ہو جائے گا یہ صریحاً اپنے ماں باپ کے لیے مصیبت کھڑی کرنا ہے اچھا یہ ہے کہ بھاوج کو ڈویلپ کریں اپنائیں، عزت دیں، اور راج کریں۔

ماں باپ کو ان کے اصل، ان کے بیٹوں سے کاٹنے سے پہلے یہ تو سوچ لیں کہ کیا آپ کے میاں ان کے لیے انکے بیٹوں سے زیادہ اچھے ہو سکتے ہیں؟ ہاں اچھے ہوں گے اگر سسرال جائیداد والی ہو ورنہ آزمائشی طور پر ماں باپ کو کہیں كہ سب کچھ بھائیوں کو دے کے آپ ہمارے پاس آجائیں۔ پھر اگر آپ کے میاں سیدھے منہ بات بھی کر جائیں بالكل ویسا منہ بنائیں گے جیسا آپ اپنے ساس سسر کو دیکھ کے بناتی ہیں۔اپنے سسر کے بنائے ہوئے گھر میں بیٹھ کے آپ کو یہ غم کھائے جا رھا ہوتا ہے کہ ہمارے باپ کی لاکھ روپے کی پینشن پہ بھائی عیش کر رہا ہے ، ویسے حد نہیں ہے؟ آپ بہنیں ہیں ناں ؟ بھائی تو آپکا ہی ہے ناں؟ اور بھائی تو آرام سے الگ ہو جائے گا ماں باپ کا سوچا ہے وہ کدھر جائیں گے- انکا خیال کون رکھے گا انکو اکھیڑ کے آپکو کیا ملے گا۔ افسوس جن کے ماں باپ صاحب حیثیت ہیں صاحب جائیداد ہیں جن کے باپوں کی لاکھوں میں پینشن آتی ہے انہی کا دکھ آپکو زیادہ ہوتا ہے ورنہ تو ماں باپ بھائی کی ذمہ داری ہیں تب بھی ماں باپ کو سکھایا جاتا ہے بھابی کو کارنر کیسے کرنا ہے -اپنی انسیکیورٹیز کا علاج کروائیں میکے میں مداخلت مت کریں۔ آپ کے ماں باپ کا گھر آپ کے بھائی بھاوج کا ہے وہ جو ساتھ رہتے ہیں جو ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ یاد رکھیں بھاوج تب پیاری ہوتی ہے جب بھائی پیارا ہوتا ہے اپنے بھائی کا گھر خراب مت کریں وہ بھائی جس نے شادی سے پہلے آپ کی بھی ذمہ داری اٹھائی ماں باپ کی اب بھی اٹھا رہا ہے۔ آپ کے جیسے کیسے ٹيڑھے ميڑھے میاں کو آپ کی وجہ سے جیسے پروٹوکول ملتا ہے اسی طرح بھائی کی وجہ سے بھاوج کو پروٹوکول دیں۔آپ نندوں کا معاشرے میں کردار مثبت ہو جائے تو آدھے سے زیادہ مسئلے پیدا ہی نہ ہوں۔ شادیوں کو جہنم بنانے کے بجائے مثبت رول ادا کرئیں۔

حصہ چہارم : ہماری بچیاں

ہمارے یہاں بچیوں کی پرورش دو انتہاؤں پہ کی جاتی ہے-پہلی انتہا وہ جو بچیوں کو بہت سختی اور روک ٹوک سے پالتے ہیں کہیں جانے گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں دیتے ان کے ہر شوق کو شادی سے مشروط کر کے شوہروں کے سر ساری ذمہ داریاں تھوپ دیتے ہیں۔جو گھومنا پھرنا ہے شادی کے بعد میاں کے ساتھ گھومنا۔یہ مالز میں شاپنگ کے چونچلے میاں سے پورے کروانا۔سینما جانا ہے تو شوہر کے ساتھ جانا۔ اچھے کپڑے جوتے جیولری کا شوق ہے تو شادی کے بعد پورے کرنا۔اکثر مائیں تو بچیوں کو ہائی ہیل تک پہننے نہیں دیتں کہ شادی کے بعد پہننا۔بچیاں سمجھتی ہیں شادی کا مقصد ہے گھومنا پھرنا، سیر سپاٹے ، مہنگی شاپنگ، پارٹیز، موویز سینما، آزادی اور انجوائے منٹ۔دوسری انتہائی تربیت کا وہ بے نیازانہ انداز ہے کہ ابھی بچی ہے شادی کے بعد سیکھ لے گی۔کوئی کام نہیں سکھانا- دو دو بجے تک بچے بستروں پہ اوندھے پڑے سوتے رہیں کوئی نہیں بچی ہے شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گی پھر تو کام ہی کرنے ہیں ابھی آرام کر لے۔ساری رات بلاوجہ جاگ رہی ہیں تو جاگ رہی ہیں۔ بھئی یہی تو عمر ہے اپنی مرضی کی-مائیں کام کر کر کے ہلکان ہو رہی ہیں بیٹیاں موبائل اٹھا کے سیلفیاں کھینچنے میں مصروف ہیں بھئی ہم تو اپنی بیٹیوں سے کام نہیں کرواتے شادی کے بعد ساری عمر کام ہی کرنا ہے۔بچیاں پڑھ رہی ہیں مائیں کبھی دودھ کا گلاس سامنے رکھ رہی ہیں کبھی منہ میں نوالے ڈال رہی ہیں بچیاں پڑھ رہی ہیں پورے خاندان میں کرفیو لگا ہے گھر کے بزرگ کراہ نہیں سکتے قریبی رشتے دار گھر کے بزرگوں سے ملنے گھروں میں آ نہیں سکتے ماں باپ خود کسی عیادت، کسی پرسے،کسی شادی فنکشن کسی کے دکھ سکھ میں شامل ہو نہیں سکتے کہ جی بچیاں پڑھ رہی ہیں۔مائیں کام کر کر کے گھس رہی ہیں بچیاں سارا سارا دن ٹانگیں موڑ کے بستروں پہ لیپ ٹاپ کھول کے بیٹھی ہیں گھر کی بیل بج رہی ہے تو بجے- بستروں کی چادریں تک نہیں بدلتیں، کمبل تہ کر کے نہیں رکھتیں- میلے کپڑے باتھ روموں میں پڑے ہیں تو ماں اٹھا رہی ہے کہ جی یہ تو پڑھ رہی ہیں۔اس کے بعد یہ پڑھتی ہوئی قوم فل تفریح کرتی ہے یا پڑھتی ہے یا دوستوں کے ساتھ گھومتی ہے آج دوستوں کے ساتھ ڈنر پہ گئی ہے آج ہائی ٹی پہ، آج شاپنگ کرنے، آج فلاں دوست کی برتھ ڈے سیلبریٹ کرنے، آج فلاں کی ڈھولکی ، برائیڈل شاور۔یا یہ کمروں میں بند ملیں گی یا گھر سے باہر مالز، ہوٹلز میں۔اب کوئی بتائے کہ یہ لڑکیاں جا کے سسرالیں سنبھالیں گی۔۔۔؟ گھر سنبھالیں گی....؟رشتے نبھائیں گی۔۔۔۔؟اپنے  بچوں کی اچھی پرورش کریں گی۔۔۔۔؟کیا اس طرح ان کو رشتے نبھانا سکھایا جا رہا ہے۔۔۔؟کیا ان کو کسی کے دکھ سکھ کا احساس سکھایا جا رہا ہے...؟ جن کو اپنے ماں باپ کے دکھ سکھ کا احساس نہیں۔جن کو صرف یہ فکر ہے کہ انہوں نے دن چڑھے تک سونا ہے تو کوئی انہیں ڈسٹرب نہ کرئے انہوں نے جب دل کرے جاگنا ہے- آدھی آدھی رات کو آرڈر پہ ڈیلز منگانی ہیں ایک ایک بالشت ٹراوزر ٹخنوں سے اوپر اٹھا کے سٹائلش سکارف صرف منہ پہ لپیٹنا ہے جسم نظر آتا ہے تو آتا رہے اور جب دل چاہے منہ اٹھا کے کہیں بھی چلے جانا ہے- کسی کی جرأت ہے انہیں ٹوک دے یا گھنٹوں فون پہ باتیں کرنی ہیں اور سوشل میڈیا استعمال کرنا ہے بس یہ سب اچھی طرح سے پتا ہے۔اب مجھے کوئی سمجھائے یہ والی قوم کو کسی مائی کے لال شوہر کی جرأت ہے کہ اپنے لیے گھر میں کھانا پکانے کا کہہ دے یا ساس پوچھ لے کہاں جا رہی ہو۔ اس کے بعد یہ ازبر ہے کہ ساس سسر کی خدمت بہو پہ فرض نہیں ہے یہ نہیں پتا کہ بیوی کی مہنگی شاپنگ، خرچے، اللے تللے بھی شوہر پہ فرض نہیں ہیں صرف نان نفقہ کی ذمہ داری ہے۔بچیوں کو رشتے نبھانے نہیں سکھائے جاتے شوہر قابو کرنے سکھائے جاتے ہیں۔شوہر کی کمائی پہ قبضہ جمانا حق جتلانا سکھایا جاتا ہے اس کمائی کو سمجھداری سے خرچ کرنا نہیں سکھایا جاتا۔ نہ بجٹنگ کا پتا نہ گھر داری کا نہ مہمان داری کا ،نہ شوہر کے رشتے تعلق داروں میں لین دین کا۔اس کے بعد شادی کے اگلے دن یہ گھر میرا ہے یا ایک ہفتے میں فیصلہ ہو جاتا ہے کہ یہ گھر میرا نہیں ہے مجھے میرا الگ گھر چاہیے۔

اس کے درمیان کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔

حصہ پنجم ،بھابیاں

میں نے سنا تھا عورت کا خمیر اس خاندان سے اٹھایا جاتا ہے جس میں وہ بیاہ کے آتی ہے-دراصل وہ انہی کی ہوتی ہے- پیدا کہیں اور ہوتی ہے تربیت کوئی اور کرتا ہے اس کے بعد اپنے اصل کی طرف آجاتی ہے یعنی کہ سسرال۔لیکن ہمارے یہاں اکثر بیٹیاں میکے سے کبھی رخصت نہیں ہوتیں سسرالوں کو کبھی نہیں اپناتیں۔ذہن میں بٹھا کے آتی ہیں یہ میرے لوگ نہیں یہ میرا گھر نہیں۔پہلے ہی دن سے ہر وقت ہر بات میں تقابل میرے ابو یوں تو میری امی یوںہمارے گھر میں یہ ہوتا تھا-ہمارے خاندان میں وہ ہوتا تھا-شادی کے اگلے ہی دن یہ میرا گھر ہے -یا ایک ماہ میں فیصلہ کہ یہ میرا گھر نہیں ہے اور مطالبہ کہ مجھے میرا اپنا الگ گھر چاہیے۔کچھ خواتین کو سسراليوں میں بھلے  کوئی مسئلہ نہ ہو مگر وہ صرف اس لیے الگ گھر چاہتی ہیں کہ انہیں شکایات ہیں کہ یہاں آزادی نہیں ہے اب کوئی پوچھے الگ گھر میں کرنا کیا ہے کیسی آزادی چاہیے - سارا دن سوتے  رہنے اور ساری رات جاگنے کی آزادی، شوہر کو ناشتہ بنا کے دیا نہ دیا وہ خود کچھ کھا لے گا لیکن کمائی پوری لا کے ہاتھ پہ رکھے گا تو کوئی پوچھنے والا نہ ہو اس بات کی آزادی۔

ہم گھر صاف رکھیں نہ رکھیں - گھر بکھرا پڑا رہے  کوئی دیکھنے والا نہ ہو۔کھانا پکانے کی کیا ضرورت کون چولہے میں گرمی میں خوار ہو کھانا آرڈر کرو گھر پہنچ جائے گا اس کے بعد چاہے شوہر اور خود کو بی پی ہائی کا مرض ہو جائے معدے میں السر ہو جائے یورک ایسڈ کولسٹرول بڑھ جائے دل کے وال بند ہو جائیں یا کچھ بھی ہو جائے۔بعض جگہ سسرال والے بھرپور تعاون کرتے ہیں بہوؤں کے منہ ہی سیدھے نہیں ہوتے۔ یہ کہہ دیا وہ کر دیا - شکوے نہ بھی ہوں تو تب بھی شوہر کے کانوں میں صور پھونکتی رہتیں ہیں آپ کی بہنیں تو عیش کر رہی ہیں میں گل سڑ رہی ہوں آپ کی بھاوجیں سیرو تفریح کرتی پھرتی ہیں ہم کہیں گھومنے نہیں جاتے آپ کی بہنوں بھاوجوں کے پاس بہت پیسہ ہے ہمارے لیے اتنے مہنگے تحائف لاتی ہیں ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے۔اب نندیں، دیورانیاں جٹھانیاں بھلے کچھ نہ کہیں لیکن بری لگتی ہیں۔یہ بھاوجیں اپنے مزاج کی وجہ سے نندوں کے لیے ان کے میکے کو نو گو ایریا بنا دیں گی۔ نندوں کے آنے پہ منہ بنا ہوگا ساس اور نندوں کی باتیں چھپ کے سنی جائیں گی، ساس نندوں کو کچھ دے نہ دے اس پہ کڑی نظر رکھی جائے گی، بھائی بہنوں کو اکھٹے بیٹھنے ہنسنے بولنے نہیں دیا جائے گا کوشش ہو گی شوہر کو کسی کام سے اٹھا کے لے جاؤں۔اپنے میکے میں ایک ایک لمحے کی رپورٹ دیں گی اور وہاں سے ہدایات لیں گی اس کے بعد یہ سبق ان کو ازبر ہوگا کہ ساس سسر کی خدمت بہو کا فرض نہیں ہے۔ایسی بہوؤں کو بتا دینا چاہیے کہ بیوی کے اللے تللے بھی شوہر کا فرض نہیں ہیں صرف نان نفقے کی ذمہ داری ہے اس لیے شوہر بیوی کو ضروری رقم دے کے باقی رقم سے والدین کو ملازم رکھ دے۔یہی نہیں پھر ان کا تقابل ان کی اپنی بہنوں اور بھاوجوں سے بھی ہوتا ہے میری بہن فلاں جگہ سے گروسری لیتی ہے مجھے بھی وہاں سے لینی ہے۔ میرے بھائی کے بچے فلاں سکول میں پڑھتے ہیں مجھے بھی وہیں داخل کروانے ہیں۔

میری بہن الگ رہتی ہے اس لیے مجھے بھی الگ گھر چاہیے میری بھابی جاب کرتی ہے اس لیے میں بھی جاب کروں گی۔اس کے بعد انہوں نے وہ سب بھی کرنا ہے جو ان کی دوست کرتی ہیں۔بہنیں اور دوست پیچھے سے بیٹھ کے فیولنگ کر رہی ہوتی ہیں یہ کہو یہ کرو کسی کو گھاس نہ ڈالو منہ نہ لگاؤ میاں کو سر پہ نہ چڑھاؤ ساس کو اپنی جگہ پہ رکھو۔گھر الگ نہ ہو سکے تو پہلے دن ان کی نظر ہوتی ہے کہ سسرالی گھر کے اختیارات مل جائیں اور میاں کی کمائی سیدھی ان کے ہاتھ میں آئے۔ گھر کا خرچہ یہ ساس کے ہاتھ سے لے لیں۔بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ماں جی آپ ملازموں پہ سختی کرتی ہیں آپ کی وجہ سے کوئی ملازم گھر میں نہیں ٹھہرتااس کے بعد ماں جی آپ کہاں جائیں گی بازار آپ آہستہ چلتی ہیں میں خود ہی چلی جاتی ہوں گروسری کے لیے۔ماں جی آپ کی نظر کمزور ہے چیزوں کے ریٹ نہیں پڑھ سکتیں مہنگی اور ایکسپائر چیزیں لے آتی ہیں میں سب کچھ دیکھ پڑھ کے لاتی ہوں۔ماں جی آپ تو بہت سستی اور غیر معیاری چیز لے آئیں۔ماں جی آپ تو بھول جاتی ہیں ایک چیز دو بار لے آتی ہیں یہاں تک کہ ایک دن یہ سب بھی بتانے لگتی ہیں کہ ماں جی آپ کو ابھی تو کھانا دیا تھا آپ کھا کے بھول جاتی ہیں۔اس کے بعد ساس کی نا اہلی ڈکلئیر ہو جاتی ہے اور گھر کے اختیارات ان کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔ یہی حال یہ سسر کا کرتی ہیں۔حالانکہ یہ سب سٹیٹس ان کو مل ہی جانا ہے لیکن جلد بازی، تھڑدلا پن، حسد، غیریت برتنا ان کو عجیب مخلوق بنا دیتا ہے۔

شوہروں سے سب سے پہلے ان کے دوست چھڑواتی ہیں اور خود اپنی دوستوں کے واٹس ایپ گروپ بنا کے ان پہ خوب ایکٹیو رہتی ہیں مہینے میں ایک بار ہوٹلز میں میٹ اپس بھی رکھے جاتے ہیں۔ان کی الگ رہنے والی دوستیں اور بہنیں ان کو ہر وقت کمپلیکس میں مبتلا رکھتی ہیں کیا دقیانوسیوں کی طرح رہتی ہو خود کو ماڈرن کرو سٹائلش بناؤ لائف سٹائل بناؤ وغیرہ-ان کے گھروں میں ملازمین سب سے زیادہ آرام محسوس کرتے اور مزے کرتے ہیں یہ گھر ملازمین کے حوالے کر کے سوئی رہتی ہیں یا بازاروں اور اپنے میکوں کے چکر لگاتی رہتی ہیں چوریوں کے لیے کھلا میدان مہیا کرتی ہیں۔گھر الگ کر کے یہ گھر سے بے نیاز ہو جاتی ہیں۔شوہر کی کمائی قابو کرتی ہیں اور ایک ایک چیز پہ نظر رکھتی ہیں کہ شوہر نے اپنی بہنوں کو کچھ دے تو نہیں دیا۔کچھ خواتین کو صفائی کا اسقدر وہم ہوتا ہے کہ انہیں گھر میں کوئی دوسرا برداشت نہیں ہوتا کوئی گھر میں آئے نہ کھانسے نہ چھینکے ۔ان کے لیے ان کا خاندان ان کی ماں بہن اور دوست اہم ہیں شوہر صرف اے ٹی ایم ہے بچے خوامخواہ کی ذمہ داری ہیں جن کو جيسے تيسے نبھانا ہے بس پاؤں کی بیڑی بننے نہیں دینا۔سسرالوں سے یہ سب سلوک کرنے کے بعد اپنی بیٹیوں کے رشتوں کے لیے غلطی سے بھی اپنی بہنوں کا انتخاب کرنے کے بجائے سسرال کی تگڑی آسامیاں شروع سے تاڑ کے رکھتی ہیں اور وقت آنے پہ ان کے آگے بچھ جاتی ہیں یا بیٹیوں کو آگے کر دیتی ہیں اور بیوقوف سسرالی ان کی چالوں کو سمجھنے کے بجائے اپنی بھائی کی شکلیں دیکھ دیکھ کے رشتے کرتے اور پھر سے جوتے کھاتے ہیں۔ایسی خواتین کا علاج صرف ان کے شوہروں کے پاس ہے اس پہ آئندہ بات کی جائے گی۔

حصہ ششم 6 : ملازمت پیشہ خواتین اور شادی

اس وقت معاشرے میں دو طرح کے سسٹم چل رہے ہیں اور ان دو سسٹمز کی مکسنگ نے پورے معاشرے کو شدید کنفیوز کیا ہوا ہے۔ایک سسٹم اسلامی سسٹم ہے جس میں مرد کو خاندان کا کفیل بنایا گیا ہے اور عورت پہ گرہستی اور اولاد کی تربیت کی زمہ داری ڈالی گئی ہے۔ یہ ایک متوازن سسٹم ہے بات سمجھ میں آتی ہے باپ باہر جائے گا کمائے گا ماں گھر میں رہے گی گھر سنبھالے گی بچوں کی تربیت کرئے گی خاندان پنپیں گے۔اس سسٹم میں مرد و عورت کے مابین زمہ داریاں بانٹ دی گئیں عورت کو اچھا ماحول دینا جس میں وہ اولاد کی بہترین تربیت کر سکے مناسب معاش مہیا کرنا جس سے وہ گھر کو خوش اسلوبی سے چلا سکے مرد کی زمہ داری ہے جبکہ عورت کے زمے مرد کو ذہنی سکون مہیا کرنا اس کے گھر کو جنت بنانا تاکہ وہ یک سو ہو کے تلاش معاش کر سکے پھر اولاد کی دیکھ بھال کرنا اور مرد کے تعاون سے اولاد کی تربیت کرنا شامل ہے۔دوسرا سسٹم مغرب کا سسٹم ہے جس میں مرد و عورت دونوں کماتے ہیں دونوں برابر گھر پہ خرچ کرتے ہیں مکان کا کرایہ بھی شئیر کرتے ہیں یوٹیلٹی بل بھی، گھر کی گروسری بھی ہوٹل میں کھانے کی پیمنٹ بھی اور اپنی ذات پہ خرچ اپنے بجٹ کے حساب سے۔ اس سسٹم میں بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کے نظام کو چلانے کی زمہ داری کس فریق پہ ہے اس پہ بہت بڑے بڑے سوالیہ نشان ہیں۔گھر کے کام کاج دونوں مل کے کرتے ہیں ہاوس ہیلپ لیں گے وہ بھی شئیر کر کے پے کریں گے ہر کوئی اپنے اپنے برتن خود دھوئے گا اپنا ناشتہ خود بنائے گا اپنی لانڈری خود کرئے گا۔ رہ گئے بچے اور ان کی دیکھ بھال تو وہ ایک مستقل سوالیہ نشان ہے۔ اس کے لیے ان کے پاس کوئی خاطر خواہ، مربوط ، مضبوط، قابل بھروسہ و اطمینان حل نہیں ہے۔

اب معاملہ یہ ہے دوستو کہ یہ دو الگ نظام ہیں بالکل الگ۔ ہم جس نظام کو بھی اپنانا چاہتے ہیں اس کو مکمل اپنائیں گے مسائل تب ہوتے ہیں جب مرد و خواتین دونوں نظام کو آپس میں مکس کر کے کنفیوز کریں گے۔آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کے رہیں گے تو کچھ بھی نہیں بن سکیں گے -مثلاً مرد ملازمت پیشہ خواتین سے شادی کریں گے تاکہ دونوں مل کے اچھا معیار زندگی حاصل کرسکیں اور ساتھ میں چاہیں گے کہ روٹی گرم ملے گھر صاف ملے کپڑے دھلے ہوئے ملیں کیونکہ یہ بیوی کی ذمہ داری ہے۔یہی نہیں بلکہ بیوی خاندان کے ہر خوشی غم میں بھی جائے والدین کا خیال بھی رکھے بچے بھی تیر کی طرح سیدھے ہوں۔دوسری طرف خواتین جو جاب کریں گی اپنا پیسہ صرف اپنے اوپر لگائیں گی یا بچت کریں گی پراپرٹی بنائیں گی اور چاہیں گی کہ گھر کا خرچہ بچوں کا خرچہ ہوٹلنگ کے پیسے شاپنگ کے پیسے خاندان میں لین دین کی رقم سب کا سب مرد دے کیونکہ یہ شوہر کی ذمہ داری ہے۔دوستو آپ نے جس بھی نظام کو اپنانا ہے مکمل اپنانا ہے اور اس کا فیصلہ شادی سے پہلے کرنا ہے پہلے سے باہم طے کرنا ہے کہ آپ کس نظام کے تحت شادی اور گھر کو چلائیں گے۔یہ نہیں کہ ڈاکٹر سے شادی کرنی ہے اور شادی کے بعد اسے نوکری نہیں کرنے دینی کیونکہ آپ کے خاندان میں عورت کے نوکری کرنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

ڈاکٹر لائیں تو ذہن میں رکھیں کہ یہ جاب کرئے گی اب اس کو سپورٹ کیسے کرنا ہے یہ طے کریں بچوں کی دیکھ بھال کون کرئے گا یہ طے کریں۔ اگر آپ ایسی خاتون کو افورڈ کر سکتے ہیں اس کا ساتھ دے سکتے ہیں تو اس سے شادی کریں۔ڈھونڈنی آپ نے پروفیشنل ایجوکیشن والی ہے اور لا کے پابندیاں لگا کے گھر میں بٹھا دینا ہے-لڑکا اور لڑکی رشتہ طے ہو جانے پہ فون کالز پہ لمبے لمبے رومانس کرنے کے بجائے اگر حقیقت پسندی سے یہ سب طے کر لیں اور رومانس شادی کے بعد پہ اٹھا رکھیں اور جو طے کیا اس پہ عمل بھی کریں تو معاشرے کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

حصہ ہفتم 7 : شادی ، کیرئیر + مجبوری

ہم نے پہلے ان ملازمت پیشہ خواتین کا ذکر کیا جنہوں نے پروفیشنل ایجوکیشن حاصل کی جیسے ڈاکٹر، انجینیئر ، وکیل، جج، استاد، جن کی پکی سرکاری نوکریاں ہیں اور وہ خدمات کے شعبے سے منسلک ہیں ان کے لیے شادی کے بعد ایک دم سے اپنا کیرئیر ختم کر دینا بے حد مشکل بھی ہے اور زیادتی بھی لیکن ان پہ جاب کے ساتھ گھر کی مکمل ذمہ داریاں ڈالے رکھنا بھی ظلم ہے۔ہاں کچھ وقت کے لیے باہمی رضا مندی جس میں خواتین کی رائے مقدم ہے یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ یہ خواتین کچھ وقت کے لیے جاب نہیں کریں گی شادی کے ابتدائی دنوں میں یا اولاد کی پیدائش اور پرورش کے دوران وغیرہ لیکن ان کا کیرئیر ختم کروا دینا ان پہ ہی نہیں پورے معاشرے پہ ظلم ہے کیونکہ ان خواتین کی خدمات معاشرے کے لیے بے حد ضروری ہیں۔دوسرے نمبر پہ آتی ہیں کیرئیر اورینٹڈ خواتین جن کے لیے ان کا کیرئیر ان کی شادی، اولاد، گھر بار، والدین سب کی ذمہ داریوں سے بڑھ کے ہے ان پہ خود کو ثابت کرنے کا بھوت ہر وقت سوار رہتا ہے یہ ملازمت کسی مجبوری میں نہیں بلکہ مرد کی برابری حاصل کرنے کے لیے کرتی ہیں۔گھر میں ان کا دم گھٹتا ہے۔ برابری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں لیکن ایسی خواتین نہ گھر چلانے میں دلچسپی لیتی ہیں نہ بچوں کو توجہ دینے میں ان کے لیے شوہر کی ذات صرف شادی شدہ ہونے کا ٹیگ ہے بچے ایک سٹیس اور بس۔

میرا مشورہ ہے اس طرح کی خواتین سے دوسری یا تيسری ہی شادی کی جائے کیونکہ ان کے نزدیک شادی پارٹ ٹائم مشغلہ ہے ان سے ضرورت سے زیادہ امیدیں لگانے اور ہر وقت چخ چخ کر کے گھر خراب کرنے کے بجائے ان کو بھی بس پارٹ ٹائم شادی کے طور پہ رکھیں۔ اور وہی حضرات شادی کریں جو ایسا افورڈ کر سکتے ہیں۔ ان سے اولاد بھی سوچ سمجھ کے پیدا کریں نہ کہ بعد میں اولاد بروکن فیملی کا ممبر بن کے چھینا جھپٹی کا شکار رہے یا ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کا ذریعہ۔

اب آتی ہیں وہ خواتین ہیں جو جز وقتی طور پہ صرف اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے جاب کرتی ہیں۔ ان خواتین کی قدر کریں ان کو سہولت دیں یہ آپ کا بوجھ بانٹ رہی ہیں یہ نہیں کہ ان پہ سارا بوجھ لاد کے خود آزاد گھوما جائے بیوی کما رہی ہے تو مرد بے فکرا ہو کے نوکریوں میں لاپروا ہو جائے بات بات پہ نوکری چھوڑ آئے یا نوکری کرئے تو گھر پہ خرچہ نہ دے کہ بیوی کما تو رہی ہے یاد رکھیں وہ مدد کرنے کے لیے کما رہی ہے بوجھ بانٹنے کے لیے نہ کہ سارا بوجھ اٹھانے کے لیے۔ اس سے تعاون کریں ان کے لیے مشورہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ خرچے بانٹے جائیں کہ فلاں خرچہ تم کرو فلاں میں، بلکہ میاں بیوی اپنی مکمل کمائی ایک جگہ اکھٹی کریں اور تیری میری کرنے کے بجائے اس میں سے خرچ کریں باقی ہر کوئی اپنی آمدنی کے حوالے سے لائحہ عمل بنا سکتا ہے۔ان خواتین سے تعاون کریں ان پہ گھر کی ذمہ داریوں میں رعایت کریں ان کو ہاؤس ہیلپ رکھ کے دیں یہ نہیں کہ جی ہمارے ہاں تو رواج ہی نہیں ملازم رکھنے کا۔ ان کو خاندان کی ہر شادی اور دیگر تقریبات میں لازمی شرکت کرنے پہ بھی رعایات دیں اور گھریلو معاملات میں بھی ساتھ دے دیا کریں جیسے بچوں کو پڑھائی میں مدد کر دی بیوی کے کام کے ٹائم بچوں کی دیکھ بھال کر لی دوست آئے تو چائے خود بنا لی وغیرہ وغیرہ۔اس صورت حال میں خواتین کو مشورہ یہ ہے کہ اپنے اوپر اضافی بوجھ مت ڈالیں گھر اور بچے فل ٹائم جاب ہیں اگر تعاون نہیں ہے تو خود کو ہلکان مت کریں بچے چھوٹے ہیں یا گھر میں بزرگ ہیں تو ان کو فل ٹائم دیں فرصت کے لمحات کو ضرور کار آمد بنائیں لیکن ایسے کہ نہ گھر ڈسٹرب ہو نہ آپ خود ہلکان ہوں کچھ کم میں گزارا کر لیں مگر گھر بزرگ اور بچے مکمل طور پہ دیکھیں یہ آپ کی دنیا بھی ہیں آخرت بھی۔ جب آپ محسوس کریں کہ اب آپ آسانی سے مینیج کر سکتی ہیں تو خود کو لازمی مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھیں جاب کریں یا کاروبار یا خدمات کا کوئی سا شعبہ بھی چنیں ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے ایشویریا رائے اور کرینہ کپور جیسی خواتین بھی شادی کے بعد اپنے گھر اور بچوں کے لیے کیرئیر ختم کردیتی ہیں کیرئیر ختم کر دینے کا مطلب جینا چھوڑ دینا نہیں ہوتا۔

رہ گیا خود کو منوانا ثابت کرنا فرصت کے لمحات کو کارگر بنانا تو گھر میں رہ کے ہزاروں کام کیے جا سکتے ہیں کمایا بھی جا سکتا ہے اور اپنی صلاحیتوں سے تسکین بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

آخر میں آتی ہیں وہ خواتین جو مجبوری میں جاب کرتی ہیں جن کے لیے کوئی کمانے والا موجود نہیں یہ گھر کی ذمہ داریاں بھی اٹھاتی ہیں باہر کی بھی۔ ان کو اپنے لیے سب کچھ خود مینیج کرنا ہوتا ہے اللہ ان کا مددگار خود ہوتا ہے۔ اللہ ان کے بچوں کی تربیت بھی خود کرتا ہے ان کے ساتھ غیبی مدد ہمیشہ رہتی ہے۔ ان خواتین کو میرا سیلیوٹ ہے۔

حصہ ہشتم 8: دلہا میاں

انگریزی کا ایک مقولہ ہےFirst deserve, Then desire.

بہترین لڑکی سے شادی کر لینا اسے حاصل کر لینا ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ اصلی بات یہ ہے کہ آپ اس بہترین لڑکی کو شادی کے بعد بہترین رکھتے ہیں اسے شاندار کیسے بناتے ہیں-بہت کچھ آپ کے ہاتھ میں ہیں لیکن آپ کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔سب سے پہلے تو بہتر یہ ہے کہ شادی کے لیے لڑکی خود پسند کریں والدین لڑکیاں دیکھائیں بھی تو فیصلہ خود کریں اپنے فیصلے کو اپنائیں اور نبھائیں۔لڑکے یہ کہتے بہت چیپ لگتے ہیں کہ امی نہیں مانتیں۔ یا میں مجبور ہوں۔ شادی کرنے کے لیے سب سے پہلے حقیقت پسندی سے سوچیں آپ کو کیسی لڑکی سوٹ کرتی ہے ظاہری چمک دمک دیکھ کے شادی مت کریں اور اگر کریں تو یاد رکھیں ہر چمک دمک کی ایک قیمت ہوتی ہے۔شادی کو سٹیٹس بدلنے کا موقع یا بزنس ڈیل مت سمجھیں اپنے قوت بازو پہ بھروسہ کر کے اپنا سٹیٹس بھی بدلیں معیار زندگی بھی شادی کا شارٹ کٹ مت لگائیں۔آپ کو لڑکی کو شادی کے بعد جیسا رکھنا ہے ویسی لڑکی سے شادی کی حامی بھریں میں نے ہزاروں جگہ دیکھا حافظہ عبایا پہننے والی پردہ کرنے والی دین دار لڑکی سے شادی کریں گے اور پھر اسے مجبور کریں گے وہ عبایا نہ پہنے مخلوط محفلوں میں دوپٹہ سر پہ نہ اوڑھے دوستوں کے سامنے آئے وغیرہ یہ بہت زیادتی اور ظلم ہے۔وہ بھی ہیں جو مخلوط اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والی جاب کرنے والی یا اٹھنے بیٹھنے والی لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں اور پھر شادی کے بعد کزن سے بات کرنے پہ بھی پابندی لگا دیتے ہیں ٹھیک ہے حدود قیود لازمی ہیں لیکن ہر وقت ٹوہ لگانا، نگاہ رکھنا کہ کہیں کسی غیر مرد سے بات تو نہیں کر رہیں بھئی اعتماد نہیں تو شادی مت کریں۔وہ بھی ہیں جو ماڈرن گھرانوں کی ٹراوزر شرٹ پہننے والیوں سے شادی کریں گے بعد میں انہیں مجبور کریں گے عبایا پہنو گھر سے باہر مت جاو۔

دیکھیں شادی کریں جیسی چاہیے اسی سے شادی کریں لڑکیاں لا کے انہیں مجبور کر کے بدلنے کی کوشش مت کریں۔ ہاں کوئی اپنی خوشی سے آپ کے دیے ہوئے اعتماد کی بدولت آپ کے گھرانے کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کے خود سے بدلنا چاہے تو یہ اصل کامیابی کی بات ہے۔جہاں شادی کے بعد لڑکیوں کی زندگی بہت بدل جاتی ہے وہ پہلے جیسی لاابالی نہیں رہتی اسی طرح یاد رکھیں شادی کے بعد لڑکوں کی زندگی بھی' بدل جانی چاہیے'۔انہیں بھی لاپروائی لاابالی پن چھوڑ دینا چاہیے۔ اب آپ بھی کھلنڈرے لڑکے نہیں رہے ایک گھر کی بنیاد ڈالنے جا رہے ہیں جس کے آپ سربراہ ہیں۔جی ہاں آپ اپنے گھر کے سربراہ ہیں۔صرف آپ۔اپنے گھر کے سر براہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ نافرمان بیٹے ہیں یا من مانی کرنے میں آزاد ہیں اس کے ساتھ آپ کے تابعدار اور احساس کرنے والے ذمہ دار بیٹے بھی ہیں اور پیار کرنے والے بھائی بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔لیکن اپنی بیوی بچوں کے ذمہ دار آپ ہیں۔ ان کے متعلق فیصلے آپ ہی کو لینے ہیں۔ آپ کے وہ تمام معاملات جو بیوی سےمتعلق ہیں اس میں کسی کو مداخلت مت کرنے دیں۔آپ کے وہ تمام معاملات جو گھر سے متعلق ہیں اس میں سب گھر والوں کی رائے ہو گی سب کو الگ الگ حدود میں باہم جوڑے رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے۔

پیارے لڑکو سب سے پہلے خود کومالي طور پہ مستحکم کریں سخت محنت کریں یقین کریں ابتدائی دس پندرہ سال کی سخت محنت ہے اس کے بعد ساری عمر اس محنت کا پھل ہے۔ اپنی زندگی کے فیصلے لینے کے لیے سربراہ بننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کسی پہ انحصار نہ کرتے ہوں نہ باپ پہ نہ بھائی پہ اس میں آپ کی بھی عزت ہے آپ کی بیوی کی بھی۔یہاں تک کہ جتنی اپنی حیثیت ہے شادی پہ اتنا خرچہ کریں اپنے باپ بھائی کے پیسے کو فضول رسم و رواج میں نہ اجاڑیں۔دوسری بات شادی کھیل تماشہ نہیں ہے ذمہ داری ہے ابتدائی دنوں میں اس پہ آپ بھی محنت کریں بیوی کو ٹائم دیں اس کو ایڈجسٹ ہونے میں مدد دیں اس کو رشتوں کو سمجھائیں مزاجوں کے متعلق گائیڈ کریں اس کو اپنے گھر کا فرد بنانے میں ساتھ دیں۔ یہ نہیں کہ سب ذمہ داریاں اس پہ چھوڑ کے خود دوستیاں نبھائی جا رہی ہیں وہ الجھے گی تو زندگی الجھے گی۔

بیوی کو احساس دلائیں کہ اس کا سٹیٹس بڑھا ہے اسے آئے گئے کو ڈیل کرنا ہے گھر والوں کے ساتھ گھلنا ملنا ہے گھر میں دلچسپی لینی ہے کمرے میں بند ہو کے نہیں بیٹھنا آپ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کے چلنا ہے اسی طرح آپ بھی اس کے خاندان میں جائیں اس کی فیملی کو اپنائیں ان کو عزت دیں ان کے گھر کا فرد بنیں۔ یہ دو طرفہ تعلق ہے۔اچھے لڑکو شادی جنگ بھی نہیں ہے کہ جس میں دو پارٹیاں ہیں ایک کو خوش کرو تو دوسری ناراض لازمی ہو گی گھروں کو پارٹیز بننے سے روکیں گھروں میں جب بھی کوئی مسائل سامنے آئیں انہیں سمجھداری سے حل کریں چھوٹے سے چھوٹی بات کو بھی اگنور نہ کریں ٹالیں نہیں بلکہ اس کا حل نکالیں چھوٹی چھوٹی باتیں بعد میں بڑھ کے عفریت بن جاتی ہیں منافقت مت کریں کہ ماں کے منہ پہ ماں کے بیوی کے منہ پہ بیوی کے۔ماں شکایت کرئے تو بیوی کو بلا لیں سامنے بیٹھا کے آرام سے سمجھا دیں بیوی ماں بہن کی شکایت کرئے تو بیوی کے ساتھ ماں بہن کو بیٹھا لیں اور مسئلہ حل کریں بار بار کہہ رہی ہوں مسائل حل کریں غیر حل شدہ مت چھوڑیں تصفیہ کریں اس سے یہ جو دونوں اطراف میں الگ بیٹھا کے کان بھرنے والی بیماریاں ہیں وہ ختم ہوں گی۔ خود بھی کانوں کے کچے مت بنیں جس طرف کی جو بات سنی اس پہ چل پڑے یا جس نے پہلے بات کر دی اس کی طرف ہو گئے دوسرے کی سنی ہی نہیں۔لڑکو یہ محنت آپ کو شروع میں کرنی پڑے گی اس کے بعد دونوں اطراف سکون ہو جائے گا جب کوئی پارٹی دوسرے کے خلاف بولنے لگے آمنے سامنے لے آئیں۔

میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں اپنی بیوی کی عزت کریں محفل میں اس کا مذاق مت اڑائیں اس کی شکایات ادھر ادھر مت کریں اپنی ماں بہنوں بھاوجوں کے سامنے اس کی برائی مت کریں اس کو ڈانٹ ڈپٹ بے عزت مت کریں آپ خود عزت کریں گے تو سب عزت کریں گے۔ بیوی کی جو بات بری لگے اسے خود سمجھائیں اپنے آپس کے جھگڑے بھی کسی سے ڈسکس مت کریں کوشش کریں کہ جھگڑے کبھی کمروں سے باہر مت آئیں۔ سب کے سامنے اس کی حوصلہ افزائی کریں عزت بڑھائیں۔

اسی طرح ماں بہنوں کی شکایات بھی بیوی سے مت کریں جس سے جو شکایت ہے اسی کو بتائیں یہ آپ کے قریبی سگے رشتے ہیں ان کو سمجھائیں کہ وہ اگر آپ کی عزت کرتے ہیں تو آپ کی بیوی کو بھی اپنائیں اور یہ کہ آپ کو برا لگتا ہے جب آپ کی بیوی کو کوئی برا کہے آپ ہرٹ ہوتے ہیں۔

بہنیں جیسا پروٹوکول اپنے میاں کا اپنے گھر میں چاہتی ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے میاں کو پروٹوکول دیا جائے ویسا ہی پروٹوکول بھائی کی وجہ سے بھاوج کو دیں۔ لڑکو بیوی آپ کا نصف ایمان ہے اس کی حفاظت کریں۔ ایک شاندار مرد وہ ہوتا ہے جو اپنے ساتھ اپنی بیوی کو بھی ڈویلپ کرتا ہے بیوی کی شخصیت بھی نکھرتی ہے وہ آپ کے ساتھ خود کو اور بھی زیادہ پر اعتماد محسوس کرتی ہے۔یہ جو رن مریدی کے طعنے دیتے ہیں یقین کریں یہ سب خود بھی رن مرید ہیں۔ان کے مذاق اڑانے کا خیال مت کریں ان کو کہیں ہاں میں رن مرید ہوں ایک بار ہمت کر کے کہہ دیں۔عورت کی ہتک کرنا اسے دبا کے رکھنا اس کی شخصیت مسخ کر کے کچل کے اس پہ حکمرانی کرنا اس کو سونے کے پنجرے میں قید کر دینا مرد کی شان نہیں ہے مرد کی شان یہ ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کی عورت خوش ہے اور آپ بھی خوش ہیں۔