الفت کے راستے پر ؍ قسط 8

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : اگست 2020

دو ایرانی علما دوست بنتے ہیں: 
صبح کے نو دس بجے عموماً مسجد میں رش کم ہوتا تھا،اُس وقت میں کئی لوگوں سے ملاقات ہو جاتی۔کئی لوگوں کو اکیلے بیٹھا دیکھ کر میں چلا جاتا ،یا مجھے اکیلا دیکھ کر کوئی صاحب میری طرف آجاتے اور اگر زبان مشترک نکلتی تو بات آگے چل نکلتی وگرنہ سلام دعا اور مصافحے اور مسکراہٹوں کے باہمی تبادلے پر بات ختم ہوجاتی۔اِ ن میں بعض ملاقاتیں بڑی یادگار ملاقاتیں ہیں۔
ایک دِن،ظہر کے بعد،میں اپنی مخصوص کردہ جگہ(بنگالی چائے والاکا ستون) پر لیٹا ہوا تھاکہ ایک صاحب کو گزرتے دیکھا۔شلوار قمیص میں ملبوس،خوب صورت چہرہ، نہایت عمدہ طورپرتراشیدہ داڑھی جو نصف سے زیادہ سفید ہو چکی تھی،درمیانہ قد ، صاف گندمی رنگت، نہایت وقار سے چلتا ہوا میرے قریب سے گزرا،تو میں نے اشارے سے انھیں اپنی طرف بلایا ۔ وہ بھی گویا میرے اشارے کے منتظر تھے ،کھنچے چلے آئے،میں اُن کے استقبال کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا،ہم نے مصافحہ و معانقہ کیا اور بیٹھ گئے۔دوران مصافحہ ہم دونوں نے ایک دوسرے کواپنے اپنے نام بتا دیئے۔ بیٹھتے ہی میں نے عرض کی،‘‘بھائی امین صاحب آپ پاکستان سے ،کہاں سے تشریف لائے ہیں۔’’وہ بولے ،‘‘ خالد بھائی ، میں ایران سے ہوں،ایرانی بلوچستان سے۔’’میں حیرت سے بولا، ‘‘آپ کا چہرہ مہرا اور تراش خراش تو بالکل پاکستانی لگتی ہے،ما شا اللہ ،بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر،تو کیا آپ اردو بول لیتے ہیں ؟’’کہنے لگے کہ ،‘‘جی ، بالکل ، الحمدللہ ، کچھ نہ کچھ اردو بول لیتا ہوں،آپ کے ہاں،کراچی میں پڑھتا رہا ہوں،دارالعلوم کراچی میں ،اور انڈیا سے پی ایچ ڈی کی ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے۔’’مجھے بہت خوشی ہو رہی تھی ،اِن جیسے صاحب علم سے مل کر،اور اُن کی بدن بولی بھی کچھ یہی ظاہر کر رہی تھی۔ہم دونوں ،کافی دیر وہیں بیٹھے ، دوستانہ ماحول میں گپ شپ کرتے رہے بعد اُن کے ایک اور ساتھی ،مولانا شمس الحق دامانی صاحب سے ملاقات ہوئی ،وہ بھی کراچی بنوری ٹاؤن مدرسے سے فارغ التحصیل تھے اور ایران میں ایک دینی مدرسہ چلا رہے تھے۔اگرچہ وہ اپنے ملک کے سیاسی اور مذہبی حالات کے بیان میں خاصے محتاط تھے پھربھی اُن کے ذریعے ہمیں ایران کے سنی بھائیوں کے حالات سے خاصی آگاہی حاصل ہوئی۔ہماری طرح وہ بھی ایران عرب تنازعہ پر کافی پریشان تھے۔ ہماری اچھی دوستی پیدا ہوگئی ، ایک دوسرے کی ہم نے دعوتیں بھی کیں اورحرم میں ہم،گھنٹوں اکٹھے رہتے رہے۔کئی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی ۔ دونوں دوست بار بار کہتے کہ ہمیں پاکستان سے بڑی محبت ہے اور یہ کہ پاکستان ہمارا روحانی مرکز ہے،پاکستان کی اچھی خبر سے خوشی اور بُری خبر سے سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ یہ دونوں ایرانی بھائی ،معلم بن کر تشریف لائے تھے اور اِن کے اخراجات گروپ کے حجاج کرام کی فیس میں شامل تھے یعنی حکومت نے ہر حاجی صاحب سے جو پیسے وصول کیے ،اُن میں دیگر اخراجات کی مدات کے علاوہ معلم صاحب کے اخراجات بھی شامل تھے اور یوں معلم صاحب کا کوئی خرچ نہیں ہورہا تھا۔یہ معلم صاحبان اپنے گروپ کے مختلف امور سر انجام دیتے تھے جس میں سر فہرست ،مناسک حج کی شرعی ادائیگی کی تربیت شامل تھی۔اُن کی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ یہ سہولت بلاشبہ اپنے مقاصد اور نتائج کے اعتبار سے نہایت شاندار اور قابل تعریف تھی۔ اِن دوستوں کے بقول ایرانی بلوچستان ،ہمارے بلوچستان کی نسبت کافی زیادہ ترقی یافتہ علاقہ ہے لیکن ایران کے اپنے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں ذرا پسماندہ صوبہ ہے۔وہ مشہور چاہ بہار بندر گاہ ، جو ہماری گوادربندر گاہ کے مقابلے میں تیار کی جا رہی ہے وہ یہیں اِسی صوبہ میں ہے اور اسے انڈیا تیار کر رہا ہے۔اِس صوبے میں اکثریت بلوچ قبائل کی آباد ہے اور اُن کے قبیلے اور خاندان تقریباً وہی ہیں جو یہاں ہمارے بلوچستان میں ہیں۔ زبان بھی زیادہ تر بلوچی بولی جاتی ہے ، فارسی تو اُن کی قومی زبان ہے ہی۔صوبہ بلوچستان کی آبادی کی اکثریت اہل سنت حنفی مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔زاہدان ،ایرانی بلوچستان کادارالحکومت ہے۔ ہمارے یہ دوست جس شہر سے تعلق رکھتے تھے اُس کا نام ایران شہر تھا،گویا ملک بھی ایران اور شہر بھی ایران۔ 
 ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔یہ ہمارا ہمسایہ ہے۔ایران سے ہمارے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔ہم بچپن سے ایران کو ایک دوست اور اچھے ہمسائے کے طور سے پہچانتے ہیں۔اِس ملک کی تاریخ ،جغرافیہ ، زبان اورثقافت ہمیشہ سے ہماری دِلچسپی کا موضوع رہی ہے۔ایران کی اورہماری تاریخ اور معاشرت و ثقافت میں بہت سی مشترکات ہیں۔فارسی زبان ،ایران کی سرکاری اور قومی زبان ہے۔یہ زبان ہمارے لیے ایک محترم اورپیاری زبان کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ ہماری قومی زبان اُردو کا خمیر بھی فارسی سے اُٹھایا گیا ہے۔بچپن سے ہی ،فارسی شعراشیخ سعدی،حافظ شیرازی اور مولانا رومی ایسے عظیم لوگوں کو ہم اپنے ہی شاعر اور ادیب سمجھتے آرہے ہیں ۔ہمارے ہاں کے بڑے بڑے عظیم شعرا،مرزا غالب ، علامہ اقبا ل اور فیض احمدفیض وغیرہم نے بھی فارسی زبان کو اپنا ذریعہ اظہاربنایا ہے اور اِن شعرا کا فارسی کلام ایران و پاکستان میں یکساں مقبول و معروف ہے۔ ایران سے ہمارا قریبی تہذیبی رشتہ ہے۔ 
آبادی کے اعتبار سے ،ایران پاکستان سے کم ،لیکن رقبے کے اعتبار سے بڑا ملک ہے۔پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ جبکہ ایران کی آبادی صرف سوا تین کروڑ ہے جبکہ ایران کارقبہ ساڑھے سولہ لاکھ مربع کلومیٹر اور پاکستان کا صرف آٹھ لاکھ اکیاسی ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ایران تیل اور گیس کے وسیع ذخائر کا مالک ہے اور اب حالیہ سالوں میں ایٹمی قوت بننے کی بھی جدوجہد کر رہا ہے۔
ہمارے سکول کے زمانے میں(ساٹھ کی دہائی )جب پہلی بارہم ایران سے واقف ہوئے تو اُس وقت یہاں پہلوی خاندان حکومت کررہا تھااور رضا شاہ پہلوی کایہاں طوطی بولتا تھا اور ہمارے ملک میں جنرل ایوب خان کی حکومت کاعروج تھا۔اُس وقت بھی ایران ہر لحاظ سے ایک جدید ترقی یافتہ ملک تھا۔جس طرح ہمارے ملک میں جنرل ایوب کی فوجی آمریت تھی اور اظہار رائے پر پابندی اور دیگر بنیادی وجمہوری حقوق کی پامالی کا دور دورہ تھا لیکن حکومتی سطح پر ترقی و خوشحالی کے جشن منائے جارہے تھے،اِسی طرح ایران میں بھی عوام شہنشاہیت کے بوجھ تلے دبی کراہ رہی تھی لیکن اُوپری سطح پر ،وہاں بھی راوی چین لکھتا تھا۔اُس دور کے ایران میں انتہا درجے کی بے حیائی،عریانی اور فحاشی ہوتی تھی۔ایک طرف اگرمادی ترقی عروج پر تھی تو دوسری طرف اسلامی اخلاقی اقدار کا دیوالیہ نکالا جا چکا تھا۔سیکولر ازم کے نام پر ،شہنشاہیت اور آمریت کی چھتری تلے اخلاق سوز اقدار کو پروان چڑھایا گیا تھا۔علما کی طرف سے اِن چیزوں کی مزاحمت کی جاتی تھی تو ایسے علما کرام کو سخت مصائب کا سامنا تھا۔اُس زمانے میں اِس طرح کی خبریں ہم پاکستانی اخبارات میں پڑھا کرتے اور ایک ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک کے اِس اخلاقی زوال پر کڑھا کرتے تھے۔پھر یکایک وہاں سے مزاحمت کی خبریں آنے لگیں۔ یکایک ورلڈ میڈیا (بی بی سی ریڈیو)پرہم نے سناکہ ایران میں،شاہ ایران کے خلاف ،علماء کی قیادت میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔یہ ستر کی دہائی کا نصف آخر تھا اور یہ ہماری جوانی کا زمانہ تھا جب ہم میڈیکل کالج میں تھے اور اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ ہو کر اسلامی انقلاب کے خواب دیکھا کرتے اور اِس کو برپا کرنے کے لیے سرگرم عمل تھے۔اُس زمانے میں اسلامی انقلاب کی صدا ہمیں کہیں سے بھی سنائی دیتی ،اُسے ہم اپنی آواز سمجھتے اور اُس پر لبیک کہنا اپنا فرض منصبی جانتے۔اور اسلامی انقلاب کی یہ صدا ایران کے اِن شاہ مخالف مظاہروں سے باآواز بلند آرہی تھی۔‘‘مرگ بر امریکہ’’ یہاں کا مقبول نعرہ تھا اور ہم بھی اپنے اجتماعات میں یہی نعرہ بڑے ذوق شوق سے لگایا کرتے۔اسلامی انقلاب کی یہ صدا ہمارے دِلوں کی دھڑکن بن چکی تھی۔ ہم اور تو کچھ کر نہیں سکتے تھے ، اِس صدا کو بلند کرنے والوں کی سلامتی اور کامیابی کے لیے دعائیں ضرور کیا کرتے۔ اگرچہ ہمارے ہی چند بہی خواہ ،ہمیں بتایا کرتے کہ یہ اسلامی نہیں شیعہ انقلاب کے نعرے ہیں،لیکن ہم شیعہ سنی اتحاد کے داعی اور اس متوقع انقلاب کے وکیل تھے اور پھر ۱۹۷۹ء میں خمینی کی قیادت میں یہ انقلاب برپا ہوگیا۔وہ تاریخی دِن ہمیں نہیں بھولتا ،جس دِن خمینی صاحب نے اپنی جبری جلا وطنی ترک کر کے ،تہران کے ایئر پورٹ پر فاتحانہ قدم رکھا۔اُن کا اُس دِن جو فقید المثال استقبال ہوا،اُس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ہم نے اپنی زندگی میں،بے شمارلانگ مارچ ، دھرنے ، احتجاجی مظاہرے اور استقبالی جلوس دیکھے ہیں اور وطن عزیز میں تو بعض دھرنوں اور احتجاجی تحریکوں کا ،ہم حصہ بھی رہے ہیں،لیکن ایرانی انقلاب کا یہ لانگ مارچ اپنی مثال آپ تھا کیونکہ اِس کے نتیجے میں ایران میں واقعی انقلاب آیا ،رضا شاہ پہلوی کو ملک سے بھاگنا پڑا اور احتجاج کرنے والی عوام کے قائدین کے ہاتھوں میں ایران کا اقتدار آگیا اورآج چالیس سال ہوچکے ہیں ،ابھی تک ،ایران میں ،کامیابی سے علما حکومت کر رہے ہی اور انقلاب کے مقاصد پورے کررہے ہیں۔ 
بعد میں اگرچہ یہ ثابت ہو گیا کہ یہ خالص شیعہ انقلاب تھا،لیکن یہ شیعہ انقلاب کیوں نہ ہوتا کہ ملک کی اکثریت آبادی اِسی مسلک سے تعلق رکھتی ہے، لیکن اِس انقلاب برپا کرنے والوں کے طرِ زعمل اور اپنے ملک میں جمہوری قدروں پر مشتمل طرزِحکومت نے ہمیں متائثرکیا اور ہماری محبتوں اور چاہتوں میں کمی نہ آسکی۔وطن عزیز میں شیعہ اور سنی کے درمیان جو وسیع خلیج حائل ہے اور ہمارے ہی قریبی لوگوں کا من پسندنعرہ‘‘ کافر کافر شیعہ کافر’’ ہے ،لیکن الحمدللہ ،یہ خاکسار اُن لوگوں میں پلا بڑھا ہے اور تربیت پائی ہے جولوگ اِس خلیج کو پاٹنے کے حامی اور شیعہ سنی کے درمیان مفاہمت کو فرغ دینے والے ہیں۔شیعہ اور سنی میں ،اگرچہ عقائد کے باب میں خاصا بُعد پایا جاتا ہے لیکن مذہبی اقدار وروایات میں اور سماجی اور معاشرتی ڈھانچے میں بے پناہ مشترکات ہیں۔ جب ایران کے علما کرام ، وہاں پر حکمران بنے تو انھوں نے جن اصولوں اور اقدارپراپنے معاشرے کی تعمیر کی وہ کم و بیش وہی تھیں جو سنی مذہب والے چاہتے تھے ،اِس لیے ہم اِس وسیع تناظرمیں ،چند پہلو میں اختلاف کے باوجود، ایرانی اسلامی انقلاب کے حامی ہی رہے ۔انھوں نے وہاں مسلسل انتخابات کروائے ہیں اور منتخب نمائندوں کو اقتدار سپرد کیا ہے۔اسلامی اقدار کو فروغ دیا بے حیائی اور عریانی کے راستوں کو بند کیا۔مذہبی رسومات کو ادا کرنے میں سہولیات پیدا کیں،یہ سب لائق تحسین اقدامات تھے۔
یہ بھی جمہوری اقدار سے وابستگی رکھنے والوں کا ہی نظریہ ہے کہ جس ملک میں عوام جس مسلک اور دین پر عامل ہوں ،وہاں پر ظاہر ہے ،اُسی فقہ اور قانون کو لاگو ہو نا چاہیے اِس لیے ایران کا ایک شیعی اسٹیٹ ہونا ،کوئی اتنا بڑا عیب نہیں کہ ہم اس کی محبت سے اپنا ہاتھ کھینچتے اِس لیے ہمارے دِل میں ایران اور اہل ایران سے پیار و محبت کا جو رشتہ قائم ہوا تھا وہ ابھی تک قائم ہے۔ اُن کا نظام کم از کم اُن کی اپنی عوام کی اکثریت کے مذہب اور عقیدے کے مطابق توہے اور یہ بات خوش آئند ہے بشرطیکہ مخالف فقہ والے لوگوں کو بھی اپنے عقیدہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی حاصل ہولیکن افسوس ہے کہ ہمارے یہ فاضل ایرانی دوست اِس پہلو سے شاکی تھے ،ہاں البتہ اپنی شکایا ت کو بیان کرنے میں وہ ازحد محتاط تھے اور ہم نے بھی اُن کی احتیاط کو مد نظر رکھتے ہوئے اِس پہلو کو کریدنے سے گریز کیا۔
فلپائنی وکیل سے ملاقات:
 دنیا کی سات ارب کی آبادی میں قریباً دو ارب مسلمان ہیں ۔اِن میں ایک عظیم اکثریت تو اپنے اپنے آزاد ملک رکھتی ہے لیکن اُمت کا ایک کثیر حصہ اقلیتوں کی شکل میں مختلف دیگر مذاہب کے اکثریتی ممالک میں رہتی ہیں۔اقلیت میں رہنے والے بعض مسلمان تو اپنے اپنے ملکوں میں بڑی شان سے رہتے ہیں لیکن بیشتر ممالک میں اِن بھائیوں کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا رہتا ہے جن کے واقعات ،ہم آئے روز اخبارات اور دیگر اطلاعاتی ذرائع سے پاتے رہتے ہیں۔چونکہ حج تمام مسلمانوں کا ایک عظیم الشان اجتماع ہے ،اور اِس میں دنیا بھر کے ممالک سے زائرین تشریف لائے ہوئے ہوتے ہیں ،اِس لیے یہ خواہش لے کر گیا تھا کہ اقلیت کے طور پر رہنے والے مسلمان بھائیوں سے کوئی ملاقات ہو اور اُن کے حالات کو براہ راست جاننے کا موقع ملے لیکن افسوس کہ اِس کا کوئی خاطر خواہ موقع نہ مل سکا۔
ہم خود ایک عام امتی ہیں اور ہماری رسائی بھی ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عام ہی اُمتی تک تھی۔خواص سے نہ ہمارا اپنا کوئی تعلق ہے اور نہ ہی خواص ِ اُمت تک ہماری کوئی رسائی تھی، لہٰذا یہاں پرجو کچھ عرض کیا جا رہا ہے وہ محض ایک دردِدِل رکھنے والے اُمتی کی باتیں ہیں۔ 
جنوب مسرقی ایشیا میں،فلپائن ایک بڑاملک ہے جس میں نوے فیصد آبادی عیسائیوں کی ہے اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی یہاں پر پالیسی ساز اور حکمران ہیں اور مسلمان یہاں پر اقلیت میں ہیں۔تقریباً گیارہ کروڑ آبادی کا یہ ملک ہے جو دنیا کے سب سے بڑے سمندر بحرالکاہل کے اندر ہزاروں جزائر پر مشتمل ہے۔ اِس غیر مسلم ملک کے ایک طرف ،یعنی جنوب میں، آبادی کے اعتبار سے ،سب سے بڑا مسلم ملک ،انڈونیشیا واقع ہے تو دوسری طرف جاپان ،ویت نام اور تائیوان جیسے ملک بھی اِس کے ہمسائے ہیں۔گیارہ ملین مسلمان ،یہاں آباد ہیں،جو زیادہ تر سنی شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ایک دور میں مورو مسلمان یہاں پر سخت تکلیف میں مبتلا تھے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد پر مجبور کر دیئے گئے تھے لیکن اب وہ ایک نیم خود مختارعلاقہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور زیادہ بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔یہاں پر مسلمان تاجروں کے ذریعے ،تقریباً چھ سات سو سال پہلے اسلام آیا۔دُنیاوی اعتبار سے ،مسلمان ،اگرچہ بہتر حالات میں ہیں لیکن مسلمانوں میں دینی تعلیم وتربیت کی ابھی خاصی کمی ہے۔
یہ سب باتیں مجھے ایک دوفلپائنی زائرین سے حاصل ہوئیں ،جو ایک دِن مجھے ،حرم کے تہہ خانے میں مل گئے اور ہم کافی دیر تبادلہ خیالات کرتے رہے تھے۔افسوس کہ میں اُن سے دوبارہ ملاقات نہ کر سکا۔یہ دونوں پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے، دارالحکومت منیلا کے رہائشی تھے۔بڑی محبت اور چاہت سے ملے۔زیادہ تر تو وہ خاکسار سے حج و عمرہ کے مسائل ہی پو چھتے رہے ۔ ایک اچھے اور دوستانہ ماحول میں باتیں ہوتی رہیں لیکن ان بھائیوں نے ایک ایسا موضوع چھیڑ دیاجو میرے لیے پریشان کن تھا،جس پر میں نے اُن سے بات چیت کو طریقے سے منقطع کر دیا۔وہ دونوں مجھے کہنے لگے کہ سنا ہے پاکستانی خواتین ،باہر(foriegn countries) کے مردوں سے شادی کرنا پسند کرتی ہیں۔وہ لوگ اپنی دوسری شادی ،اور وہ بھی پاکستان سے ،کرنے کے چکروں میں تھے۔پشاور کے ایک دو آدمیوں کے نام لے کر بتا رہے تھے کہ وہ اس سلسلے میں ،اِن آدمیوں سے کچھ گفت و شنید بھی کر چکے ہیں۔مجھے تو یہ دونوں زائر دو نمبر بندے لگے تو میں نے اُن سے تعلقات کو آگے بڑھانا مناسب نہ سمجھاکیونکہ وطن عزیز میں آئے روز ہم اِس نوعیت کی خبریں سنتے رہتے ہیں کہ بڑے پیمانے پرکوئی ایسا گروہ اور مافیا ہے جو غیر ملکیوں کو شادی کے نام پر پاکستانی لڑکیاں مہیا کرتا ہے۔ 
کالے اللہ والے:
کالے جسم اور منور قلب والے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ،مجھے اُس وقت یاد آتے تھے جب میں حرم کی وسعتوں اورحجاز کی گلیوں میں ،سیاہ فام بھائیوں کو دیکھتا تھا۔کبھی اپنے آگے پیچھے نماز کی صفوں میں دیکھتا،کبھی طواف کے چکروں میں دیکھتا،کبھی مسعیٰ میں اور کبھی حرم سے نکلتے سیلاب آدم میں دیکھتا۔ہر جگہ اور ہر مقام پر یہ سیاہ فام اپنے مخصوص رنگ ،اپنے قد و قامت اور مضبوط وتوانا جسم کی بدولت پورے مجمع میں الگ ہی پہچان رکھتے تھے۔ رد ہوں یا خواتین،لمبے تڑنگے اور مضبوط جسم،چمکتے سیاہ چہرے اور زرق برق لباس۔میں تواِتنی بڑی تعداد میں ،سیاہ فام لوگوں کو پہلی بار دیکھ رہا تھا ،تو مطالعے کی غرض سے کچھ زیا دہ گہرائی سے اور پوری دلچسپی سے دیکھتا رہتا کچھ بھائیوں سے بات چیت کرنے کی کوشش کی ،لیکن ،اُن کی طرف سے محبت بھرے رویے کے باوجود،زبان کی اجنبیت کے باعث، ہماری بات چیت صرف باہمی مسکراہٹوں کے تبادلے تک ہی محدود رہتی۔سلام دعا ہوتی،اپنے اپنے ملکوں کے نام بتا پاتے اور بس!اِن بھائیوں کے ظاہر میں تین چیزیں مجھے زیادہ (attract) کرتی تھیں،ایک اُن کے لمبے قد،دوسرے اُن کے سیاہ چمکدار shining چہرے اور تیسرے عورت و مرد کا یکساں لباس ، بھڑکیلا،زرق برق پہناوے،عورت اور مرد کا ایک جیسا (printed and clourfull)لباس۔اکثر خواتین نے تو مکمل زیور بھی پہنا ہوتا جس سے اُن کی امارت کا بخوبی اندازہ ہوتاتھا۔یہ بات حیران کن تھی کہ ایک طرف ہم کالے لوگوں کوسڑکوں پر بھیک مانگتے دیکھتے تھے اور دوسری طرف یہ ہمارے سیاہ فام زائرین تھے کہ جن کے زرق برق پہناووں سے امارت چھلکی پڑتی تھی۔بڑے بڑے شاپنگ پلازوں اور خاص طور پرسنار کی دکانوں میں اِن سیاہ فام زائرین کا رش لگا ہوتا تھا۔ بھیک کا ذکرآ گیا ہے تو اس سلسلے میں بھی اپنا مشاہدہ ،آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا،جو کہ میرے لیے خاصا تکلیف دہ امر رہا ہے۔جب بھی ہم صبح کی نماز ادا کرنے کے لیے ہوٹل سے نکلتے اور شاہراہ ابراہیم خلیل سے گزرتے اور پھر کبوتر چوک کراس کرتے اور حرم کے احاطہ کے قریب پہنچتے تو روزانہ یہ دیکھتے تھے کہ سیاہ فام مرد،عورتیں،بچے اور بچیاں،لائن میں ایک ترتیب سے بیٹھی ہوتیں اور بھیک مانگ رہی ہوتیں۔یہ پیشہ ور گدا گر معلوم ہوتے تھے۔ اِس گروہ میں چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں بھی تھیں،کسی کا بازو کٹا ہوا اور کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی۔اِن سب کی بڑی شاطر اور چالاک آنکھیں تھیں،بڑے چست اور پھرتیلے ۔اِن کے بیٹھنے کے انداز اور بدن بولی سے یہ اندازہ بھی ہوتا تھا کہ یہ لوگ اندر ہی اندر سے،بلدیہ کے عملے سے ڈربھی رہے ہیں۔ کئی بار اُن کو اپنی جگہ چھوڑ کر ، تیزی اور چالاکی سے بھاگتے بھی دیکھا لیکن تھوڑی دیر بعد پھر لائنیں لگ جاتی ۔ میں سوچتا رہتا کہ یہ سب کیا ہے۔حکومت کیوں اِن گداگروں پر کنٹرول نہیں کر پائی اُن کے فوری طور پر بھاگنے سے اندازہ ہوتاتھا کہ یہاں قوانین اپنا کام کر رہے ہیں لیکن اگلی صبح پھریہ لوگ وہاں صف آرا پائے جاتے تو خیال گزرتا کہ ‘‘قانون’’ کی آنکھوں میں یہ گدا گر ‘‘دھول جھونکنے’’ میں کامیاب رہے ہیں۔جوں جوں حج قریب آتا جا رہا تھا اور اُدھر زائرین کی تعدا د بڑھتی جا رہی تھی اوراِدھریہ بھیک مانگنے والے بھی بڑھ رہے تھے۔یہ کالے لوگ، کون تھے ،کہاں سے آتے تھے ، مجھے نہیں معلوم۔یہ اگر مقامی تھے تو بھیک مانگنے پر کیوں مجبور تھے اور اگر غیر ملکی ہیں تو انھیں اِس پیشہ وری کی اجازت کیسے ملتی ہے۔
اب توہمارے پاکستانی بھائی بھی ،یہاں حرم کے آس پاس بھیک مانگتے نظر آرہے تھے ۔ عورتیں ،بچے پہلو میں اُٹھائے ،بھیک مانگ رہی ہوتیں۔اُن کے لباس ،چال اور ڈھال اور زبان ،سے بخوبی اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ جنوبی پنجاب،اندرون سندھ یا پھر بلوچستان سے آئی ہوئی ہیں۔مجھے تکلیف اِس امر کی تھی ، کہ سعودی عرب ایک نہایت امیر ،با وسائل ملک ہے،یہ بھیک یہاں پر کیوں مانگی جارہی ہے۔یہ ملک بھی، اگراپنے ہاں، گداگری کا خاتمہ نہیں کر سکا تو ہمارے جیسے غریب ملکوں کا کیا قصور ۔ سوشل ویلفیئر کا تصور ،دنیا میں سب سے پہلے ، اِسی عرب میں ،سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں دیا گیا تھااورکامیابی سے روبہ بھی عمل لایا گیا تھا ،اور آج کے یورپ نے ،سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اُسی ماڈل کو لے کر اپنے اپنے ملکوں میں اِس ناسور کو ختم کر لیا ہے جب کہ اُسی عرب میں ابھی بھی یہ عالم ہے۔
 دوسرے ملکوں کے زائرین کی طرح ہمارے یہ حبشی بھائی لوگ بھی عموماً گروپ کی شکل میں رہتے تھے لیکن اپنی ایک بڑی منفرد شناخت رکھتے تھے۔اکٹھے قدم سے قدم ملا کر ،جب طواف کے پھیروں میں ،حبشی بھائی آ جاتے ،تو دوسروں کے لیے،اِن کو راستہ دیئے بنا چارا نہ رہتا۔اپنے گروپ کے ساتھ رہنے کی دھن میں ،یہ اپنے آگے آنے والے ہر زائر کودھکیل کے آگے نکل جاتے۔ بنگلہ دیش،انڈونیشیا ،ملائیشیا اور چین وغیرہ سے آئے ہوئے ہمارے صغیر قد زائرین بھائی تو،اپنی بدن بولی(body language) میں،اِن بھائیوں سے پناہ مانگتے نظر آتے۔
بر اعظم افریقہ میں سیاہ فام بکثرت ہیں۔بڑے بڑے ملک اِن کے ہیں۔بعض ممالک مسلمان ہیں ،بعض غیر مسلم اور بعض مکس۔ویسے تو سعودی عرب میں بھی سیاہ فام کافی تعداد میں آباد ہیں۔مصر ، سوڈان، موریطانیہ، مراکش، الجیریا، جیبوتی، ایتھوپیا، مالی ،نائجیریا ، صومالیہ،تیو نس اوریوگنڈا وغیرہ افریقی ممالک ہیں جہاں پر سیاہ فام آباد ہیں۔اِن میں سے بعض تو عرب ممالک ہیں،یعنی اُن کی زبان عربی ہے۔ممکن نہیں کہ یہاں پر ہر ملک کا تعارف کرواؤں،اور تو اور جن بھائیوں سے ملاقات رہی اور کچھ تعارفی گپ شپ بھی ہوئی اُس کی تفصیل لکھنا بھی کوئی زیادہ سود مند نہیں۔جن دوستوں سے ملاقات ہوئی اور کچھ بات چیت بھی ہوئی ، ہمارے درمیان عموماً ایک دوسرے کے ملک کے سیاسی،سماجی ،تاریخی اور مذہبی حالات ہی زیربحث رہتے۔
کعبہ کے آئمہ کرام :
کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ،جو خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں نمازوں کی امامت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔آج کل کے دور میں،اِ ن میں سب سے زیادہ مشہور و مقبول امام، عبدالرحمان السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ ہیں جن کو اللہ پاک نے لحن داؤدی عطا فرمایا ہے اور اللہ کا قرآن ایسے پڑھتے ہیں جیسے الفاظ و معانی کا ایک دریا رواں ہو۔ جب بھی حرم میں حاضری کا پروگرام بنتا ہے ،جہاں اور چیزوں کو دیکھنے سننے کے دِل مچل رہا ہوتا ہے وہاں یہ بھی چاہت ہوتی ہے کہ قاری السدیس صاحب کے پیچھے نمازیں پڑھنے کی لذت بھی حاصل ہوگی ۔ سن دو ہزار میں ،جب پہلی بار،خاکسار کو حرمین شریفین میں حاضری نصیب ہوئی ، اُس وقت قاری السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ کا یہاں طوطی بولتا تھا۔کیسٹس اور ٹیپ ریکارڈر کا زمانہ تھا۔قاری سدیس کی تلاوت کی کیسٹس کا گفٹ ،حرم کا سب سے بڑا گفٹ سمجھا جاتا تھا۔اُن کی تلاوت کی ایک آدھ کیسٹ ہی مل جاتی ،تو غنیمت ہوتی اگر کوئی پورا سیٹ لاتا تواُسے بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ۔واپس آکر ،بڑے مزے سے سنایا کرتے کہ ہم نے اتنی نمازیں ،جناب شیخ السدیس کے پیچھے پڑھیں یا جمعہ کا خطبہ آپ نے دیا اور ہم نے سماعت کیا۔آپ کی شہرت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا رہا۔نماز تراویح میں آپ کی تلاوت کا بڑا شہرہ تھا اور آج تک قائم ہے۔آپ کی اِس شہرت میں،آپ کے ساتھ الشیخ السعود الشریم بھی برابر کے شریک ہیں۔ بعض کیسٹوں کے سیٹ میں اِن دونوں حضرات کی تلاوت جمع ہے اوریہ بڑی ہی پر لطف سماعت ہوتی ہے۔یہ جوڑی آسمانِ تلاوت میں بہت ہی مشہور و مقبول جوڑی ہے۔ 
الشیخ السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ،ریاض سعودی عرب میں ۱۹۶۰ ء میں پیدا ہوئے آپ مروجہ تعلیمی نظام میں،کالجز اور جامعات کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے پی ایچ ڈی تک پہنچے اورپھراپنی عملی زندگی کا آغازجامعات میں تعلیم و تدریس کا پیشہ اختیارکرکے کیا،پھرامامت و خطابت ِحرم پر فائز ہوئے اور آج کل امامت و خطابت حرم کے ساتھ ساتھ ، الحرمین الشریفین کے انتظامی ادارے کے صدر کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جو کہ وزارت کے برابر کا عہدہ ہے اور آپ براہ راست بادشاہ وقت کو جواب دہ ہیں۔
۱۶۔جولائی،میرے اِس سفر حج کی پہلی نماز فجر،بیت اللہ میں حاضری،میری خوش قسمتی،اور امنگوں کی معراج تھی،کہ جب اِس نماز کی امامت الشیخ السدیس نے فرمائی اِس نماز میں آپ نے سور القمر کی تلاوت فرمائی اوراپنی پرسوز تلاوت اور وجد آفریں آوازسے ایک سماں باندھ دیا۔سلام پھیرتے ہی میں نے اپنے آپ سے کہا ، ‘‘لے بھائی خالد !آج ہی،پہلے ہی دِن، پیسے پورے ہو گئے۔’’
 السعودالشریم بھی اسلامی قانون میں پی ایچ ڈی ہیں۔وہ بھی امام کعبہ کے منصب پر فائز ہیں ،اِس کے علاوہ وہ مکہ شریف کے قاضی بھی ہیں۔یہ دونوں حضرات ریاض کے پیدائشی ہیں۔یہ ایک بے مثال جوڑی ہے۔السعود الشریم کی آواز میں ایک خاص قسم کی نغمیت اور ترنم ہے جو سامع کا دِل موہ لیتاہے۔اس حالیہ سفر میں الشیخ الشریم کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل نہ ہوسکی۔
اِس سفر حج میں،جناب قاری السدیس اور قاری الشریم سے بھی بڑھ کر، جس قاری صاحب کی تلاوت سے متائثر ہوا ،وہ ہیں جناب قاری عبداللہ الجہنی حفظہ اللہ تعالیٰ ۔ اُن کو زندگی میں پہلی بار سن رہا تھا۔اِس بار ، اکثر جہری اورسری نمازیں آپ کی امامت میں ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اِن کے انداز ِتلاوت نے مسحور کیئے رکھا۔اُن کی قریب سے زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا،چھوٹا سا قد ہے لیکن خوبصورت چہرہ مہرہ رکھتے ہیں۔اُن کی آواز کے سحر کا تو نہ ہی پوچھیں!کیا آواز دی ہے اللہ نے اُن کو !
جسم نحیف و نزار لیکن آوازکڑاکے دار،ماشاء اللہ ! کیا ہی گلا ملا ہے جناب کو اور کیا ہی حافظہ اورضبط پایا ہے ۔!سبحان اللہ والحمدللہ!بجلی کی سی روانی سے بہتے چلے جاتے تھے۔آپ کی تلاوت گویابجلی کی کڑک اور بادلوں کی گھن گرج اور دریاؤں کی روانی رکھتی ہے۔ایک تو آواز گرجدار ہے اُوپر سے مسجد الحرام کا بے نظیر ساؤنڈسسٹم،بس ،اُن کی امامت میں، تلاوت کا ایک سماں سابندھ جاتا تھا۔مجھے تولگتا ہے ،حرم تو حرم ،پورا مکہ ہی گونج رہا ہوتا ہے۔آپ بلند آواز ہیں لیکن آواز بھاری نہیں ہے۔اِن نمازوں کی لذت اورچاشنی ہی اورہوتی تھی جو جناب عبداللہ الجہنی کی امامت میں ادا ہوتی تھیں۔آپ کی آوازمیں ترنم ہے۔بلاشبہ آپ کو بلبل الحرمین کہا جا سکتا ہے۔(جاری ہے )