ہند ، اسلام اور تصوف

مصنف : قاری محمد حنیف ڈار

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اگست 2020

علامہ دوست محمد قریشی مرحوم اپنے ایام دارالعلوم دیوبند کے بارے میں ایک واقعہ لکھ کر بتاتے ہیں کہ کیوں مسلمانوں کو تصوف کی طرف توجہ دینی پڑی۔ہندوستان جادو کی سر زمین تھی یہاں قدم قدم پر سادھو آسن جمائے بیٹھے تھے اور قوت نفسانیہ کے زور پر ما فوق الفطرت تماشے دکھا کر لوگوں کے ایمان لوٹ رہے تھے۔ عوام کالانعام ان شعبدوں کو عنداللہ ان کی مقبولیت سمجھ کر انہیں حق پر سمجھتے اور ھندوؤں سے زیادہ مسلمان ان کو گھیرے رہتے۔ جس کی وجہ سے ضرورت محسوس کی گئی کہ اس عمل کے توڑ کے لئے ویسا ہی علم حاصل کیا جائے اور قوت نفسانیہ کو قوت نفسانیہ کے ذریعے شکست دی جائے تا کہ دلیل کے لئے رستہ صاف کیا جائے۔ اس فن کی مشقوں میں دیوی دیوتاؤں کے نام کے منتروں اور بھجنوں کی جگہ قرآنی آیات اور مسنون اذکار کو استعمال کرتے ہوئے مسلمان اہل علم نے اللہ کی تائید اور نصرت سے ہندوؤں کو اسی طرح پچھاڑ دیا،جس طرح محمد بن قاسم کی تلوار نے راجہ داہر کو پچھاڑا تھا۔ زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ لوگوں کا بہاؤ، معین الدین چشتی اجمیری اور نظام الدین اولیاء کی جانب ہو گیا،جو نہ صرف علم کی دنیا میں اپنا مقام رکھتے تھے،بلکہ جود و سخا میں بھی اپنے نبیﷺ کی سنت کے متبع تھے۔ ان کا در مسلم غیر مسلم سب کے لئے بلا تعصب کھلا ہوا تھا،رات دن بھوکے آتے اور پیٹ بھر کر کھاتے ۔بعض دفعہ ایک ہی برتن میں ہندو اور مسلم کھاتے۔ روتی بلکتی مائیں تڑپتے بچے لے کر آتیں اور اللہ والوں کی ایک پھونک کے صدقے جو وہ اللہ کا کلام پڑھ کر مارتے ہنستی مسکراتی صحتمند بچے لے کر جاتیں۔ہر مذھب والے کو بلا تعصب سورہ فاتحہ کا ورد دیا جاتا جو ھندو اور مسلم سب کے لئے یکساں مفید ہوتا۔ اس حکیمانہ طریقہ کار کا نتیجہ تھا کہ نظام الدین اولیاء نے 90 ہزار کے لگ بھگ ھندو مسلمان کیئے جبکہ خواجہ معین الدین چشتی نے 9 لاکھ کے لگ بھگ لوگوں کے سینے اسلام کے نور سے منور کیئے!
اس سلسلے میں کچھ واقعات تو مولانا سید مناظر احسن گیلانی صاحب نے اپنی کتاب '' احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے چند ایام '' میں لکھے ہیں جبکہ مرشدی علامہ دوست محمد قریشی نے بھی چند واقعات اپنی کتاب '' کشف الحقیقہ عن المعرفۃ والطریقہ '' میں لکھے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ کے بارے میں مرشدی نے باب باندھا ہے '' کیا اہل بدعت کے پیروں کی توجہ میں اثر ہوتا ہے؟ '' اس کے تحت لکھتے ہیں کہ نہ صرف اہل بدعت بلکہ صریحاً کافر کی توجہ میں بھی اثرہوتا ہے ۔اس کی مثال کچھ یوں سمجھ لیجئے کہ ایک کٹورہ پیشاب کا بھر کر رکھ لیجئے اور دوسرا پانی سے بھر لیجئے،،منہ دونوں میں نظر آ جائے گا مگر ایک سلیم الفطرت شخص پیشاب کے کٹورے میں منہ دیکھنا کبھی پسند نہیں کرے گا! اس سے حق و باطل کا فیصلہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ حامل توجہ کا کردار سنت کے مطابق نہ ہو،یعنی اس فن میں شکست و فتح کشتی یا کبڈی کے کھیل کی مانند ہے۔ کافر یا بدعتی کا توجہ میں غالب آ جانا اس کے دین کی حقانیت کی دلیل نہیں بن سکتا جس طرح کرکٹ میں فتح یا شکست سے دین کی حقانیت کا فیصلہ نہیں ھو سکتا۔
ایک ہندو نوجوان اس عاجز کے دور تعلیم میں مسلمان ہوا، وہ دورہ حدیث کے لئے دیوبند میں داخل تھا۔ طبیعت میں زبردست قابلیت تھی، ذھن رسا اور زبان میں بلا کی فصاحت تھی،دل دردِ اسلام سے لبریز تھا۔ نوجوان سارا دن مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث کے اسباق یاد کرتا، شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب،اور مولانا محمد ابراھیم بلیاوی سے کتابیں پڑھتا۔ طلباء عصر کے بعد سیر کو نکلتے،جبکہ یہ نومسلم شیخ سب سے الگ ہو کر ہندو برہمنوں کے پاس چلا جاتا۔ ساتھ کوئی ایک آدھ میرے جیسا کند ذہن بھی لگ جاتا کہ تبلیغ کا طریقہ سیکھ لیا جائے اور کچھ اجر بھی پا لیا جائے۔ بہت سارے ہندو برہمن اس نوجوان کے ہاتھوں مسلمان ہوئے تا آنکہ شہر بھر میں چرچا ہو گیا کہ اس نوجوان سے کوئی ھندو بچ نہیں پاتا۔ ھندو برہمن اس کا رستہ چھوڑ کر چلتے اور بڑے بڑے برھمن اس سے کنی کتراتے۔ایک دن یہ شیخ نوجوان عصر کے بعد ایک برہمن کے پاس چلا گیا اس حالت میں کہ وہ وید پڑھ رھا تھا۔ نوجوان نے کہا کہ شیخ جی ادھر میری طرف توجہ کیجئے برہمن نے پہلے توجہ اپنے قلب پر کی اور پھر توجہ بھری نگاہ نوجوان کے دل پر ڈالی۔ وہ نو مسلم شیخ صاحب کہتے ھیں کہ میرا قلب اللہ اللہ چھوڑکر رام رام کرنے لگ پڑا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب شیخ کوہوشیار ہو جانا چاہئے تھا اور سامنے سے ہٹ جانا چاہیئے تھا،مگر شیخ جی اس میدان کے آدمی نہ تھے انہوں نے دوبارہ اس کو دعوت دے ڈالی کہ برہمن جی میری طرف توجہ فرمائیں۔ برہمن نے دوبارہ توجہ کی اور نورِ ایمان سلب کر کے کفر بھر دیا۔ پھر تیسری توجہ کے ساتھ اپنی تصویر اس کے دل میں چسپاں کر دی ۔جب اسے محسوس ہو گیا کہ نوجوان اس کے قبضے میں آ چکا ہے تو اس سے مخاطب ہوا اور بولا شیخ جی آپ ہیں بھی ہندو اور رہیں گے بھی ہندو۔ جاؤ اپنے وطن واپس چلے جاؤ،دارالعلوم سے بستر اٹھاؤ اور ریل گاڑی سے اپنے گھر چلے جاؤ۔دارالعلوم میں جب شیخ جی واپس آئے تو کایاہی پلٹی ہوئی تھی ۔گم سم اور ٹک ٹک سب کو دیکھ رہے ہیں۔ حضرت مدنیؒ کو دکھایا گیا،آپ نے فرمایا انہیں حضرت عبدالقادر رائے پوری صاحب کے پاس لے جاؤ۔ صبح ھوئی شیخ صاحب نماز سے بھی فارغ اور اسباق سے بھی فارغ ۔حضرت مدنی کے حکم کے مطابق طلبا شیخ جی کو عبدالقادر رائے پوری صاحب کے پاس چھوڑ آئے ۔حضرت نے آٹھ دن صرف کھلایا پلایا اور بات تک نہ پوچھی۔ نویں دن نوجوان حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ مجھے کلمہ پڑھا کر مسلمان کریں یا مجھے گھر جانے کی اجازت دیں۔ حضرت رائے پوری نے پوری قوت کے ساتھ ایک تھپڑ اسے رسید کیا اور فرمایا '' تو تھا بھی مسلمان ،ہے بھی مسلمان اور رہے گا بھی مسلمان جا کر اپنا سبق پڑھ۔جناب شیخ کا دل دوبارہ اللہ اللہ کے ردھم پہ جاری ہو گیا اور کفر نکل گیا۔اس میں جو لوگ تصوف سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ شیخ نے کون سی ٹیکنیکل غلطی کی۔ کبھی کسی کو اپنے دل پر توجہ دینے کی دعوت نہیں دینی چاھئے،،یہ دشمن کے لئے دل کے قلعے کا دروازہ کھولنے والی بات ہے ۔نوجوان کی دعوت پرہی ہندو برہمن نے دل پہ تصرف کیا۔ حضرت رائے پوری صاحب نے بھی نوجوان کو چھوڑ دیا تا آنکہ اس نے تنگ آ کر وہی دعوت حضرت رائے پوری کو بھی دے ڈالی اور آپ نے تصرف بالید کا سب سے طاقتور اور مسنون داؤ استعمال کیا۔ ورنہ برہمن کا قبضہ چھڑانا مشکل تھا۔ 
    اسلام جب جزیرۃ العرب سے سیلِ رواں کی طرح نکلا تو دنیا کے جرنیلوں کے مقابلے میں بہترین جرنیل اس کے پاس تھے، فلسفیوں کے مقابلے میں بہترین فلسفی اس نے پیدا کیئے اور سیاستدانوں کے مقابلے میں بہترین سیاستدان پیدا کیئے۔ اسی طرح دنیا کے ہر فن کے چوٹی کے ماہرین پیدا کیئے اور تین براعظموں پر اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑ دیئے۔مسئلہ تب ہوا جب اسلام کا مقابلہ ہند میں ظاہر پرستوں سے ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جو یہود کی طرح خدا زمین پر مانگتے تھے، لن نؤمن لک حتی نری اللہ جھرۃ، ہم ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ خدا کو سر کی آنکھوں سے سامنے دیکھ نہ لیں، لہذا یہاں پر انسان بھگوان بنے بیٹھے تھے اور ارتکاز اور مراقبوں سے کچھ نفسانی اور ما فوق الطبیعاتی غیر معمولی صلاحتیں بھی حاصل کر لی تھیں جن کی وجہ سے عوام الناس ان کو خدا کا اوتار ] God incarnated[ بنائے بیٹھے تھے۔ سامری کے بچھڑے کی طرح گائے کی پوجا کرتے تھے اور موسیٰ علیہ السلام کے بچھڑے کو جلانے کی نسبت سے مردے جلاتے تھے، یہاں منطق و معقولات کی کوئی اہمیت نہیں تھی، جیسے ہمارے سادھو اور اچاریہ کر رہے ہیں ویسا کر کے کے دکھانے والے مہاراج دکھاؤ تو ہم تمہارے کو بھگوان مان لیں گے۔ یہاں اسلام کو پاؤں جمانے کے لئے ویسی ہی غیرمعمولی شکتیوں والے انسان درکار تھے جو ان مافوق الطبیعاتی شکتیوں سے یہاں کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کر سکیں، لہذا صوفیاء نے انہیں سات لطیفوں (پاؤر پؤائنٹس ) کو گرم اور متحرک کرنے کے لئے مراقبے اور پاس انفاس،حبس دم قسم کی مشقیں شروع کر دیں اور ویسی ہی صلاحیتیں پیدا کر لیں،یوں لوگوں کا ان کے ساتھ انٹرایکشن شروع ہوا،بہتراخلاق کی بدولت انہوں نے جلد ہی عوام کو متأثر کرنا شروع کیا اور لوگ جوق در جوق ان کے ساتھ جڑتے چلے گئے ۔ انہوں نے کھل کی اسلام کی تبلیغ نہیں کی تا کہ مقامی آبادی ان کے خلاف ایکشن نہ لے، البتہ ان کے ساتھ جڑنے والے اسلامی شعائر کو قبول کرنے لگے ۔روزے تو پہلے سے یہاں بھرت کے نام سے معروف تھے اور نفسانی مشقوں کے لئے رائج تھے، مسلمان صوفیاء نے بھی ان کو بطور remedy رائج کرنا شروع کر دیا، اتنی دفعہ فلاں ذکر، اتنے نوافل، فلاں فلاں دن کا روزہ، پھر ان کا لنگر ہر وقت چلتا رہتا جہاں لوگ بلا تفریق مذہب و ملت استفادہ کرتے ۔مسافروں کے لئے یہ بہترین ۲۴ گھنٹے فری سروس تھی، یوں ایک ایک صوفی کے ہزاروں مرید ہوئے اور بات لاکھوں تک جا پہنچی۔ جس طرح انبیاء سے معجزے طلب کیے جاتے ہیں اگرچہ معجزے طلب کرنے والوں میں سے بہت سارے ان پر ایمان نہیں لاتے، اور جو ایمان لاتے ہیں ان کو معجزوں کی نہ طلب ہوتی ہے نہ ضرورت ، مگر صوفیا کی صداقت کا معیار بھی ان کی کرامت تھی۔ اگر آپ عوام سے الگ کچھ نیا پیش کر سکتے ہیں تو آپ حق پر ہیں ورنہ آپ ہمارے جیسے خدا سے دور ہیں جن کی خدا نہیں سنتا، لہذا صوفیاء کو اپنی بظاہر ما بعد الطبیعاتی قوتوں کو بطور کرامت پیش کرنا پڑا، اور یہ کرامت حاصل کرنے کے لئے کسی ماہر پیر کی نسبت سے مشقتیں اور چلہ کشی کرنی پڑی مگر یہاں ایک غلطی ہو گئی کہ جو ارتقا اس سلسلے میں درکار تھا وہ نہ ہوا، ایک وقت ہوتا ہے بچہ ماں کے دودھ پہ ہوتا ہے پھر بکری اور گائے کے دودھ پہ شفٹ ہوتا ہے یا روٹی پہ لگ جاتا ہے۔ ایک وقت ہوتا ہے انسان صدقِ دل سے اور صمیم قلب سے بچوں کو بتاتا ہے کہ کوئی پری یا فرشتہ دروازہ بجا کرٹوکری میں چھوڑ گیا تھا، مگر ایک وقت آتا ہے کہ بچے کو پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کونسا فرشتہ تھا اور کونسا دروازہ تھا جس سے وہ دنیا میں داخل ہوا تھا، لیکن تصوف میں وہ ارتقا نہ آیا کہ پہلی نہیں تو دوسری نسل کو ہی بتا دیا جاتا کہ یہ ایک فن ہے، اور کرامات اس فن میں مہارت کا نتیجہ۔ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ہم اس کے بندے ہیں، تمہاری طرح سوالی ہیں کبھی کبھی وہ عزت رکھ لیتا ہے اور دعا کو قبولیت نصیب ہو جاتی ہے۔
٭٭٭