تنگ نظری

مصنف : ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : فروری 2018

’’گریٹ برٹش اسلام‘‘ ایک دستاویزی فلم ہے اس فلم کا موضوع انیسویں صدی کے برطانیہ میں بسنے والے تین افراد کا قبول اسلام ہے ۔ یہ تینوں افراد نسلاً انگریز تھے اور ان کا شمار برطانوی امراء میں کیا جاتا تھا۔ ان تین میں سب سے پہلے جس ہستی کا تذکرہ ہؤا ان کا نام ولیم ہینری کوئیلیم تھا۔ یہ 1855 میں برطانیہ کے شہر لیور پول میں پیدا ہوئے۔ یہ پیشہ کے لحاظ سے ایک وکیل تھے اور اس حوالہ سے عوام کی مشکلات سے براہ راست آگاہ تھے اور اس ضمن میں پائی جانے والی بے حسی پر مضطرب تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے اپنا نام ولیم کے بجائے عبداللہ رکھا اور 1889 میں لیورپول میں پہلی باقاعدہ مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس وقت مسلمانوں اور اسلام کو بہت شک کی نگاہ سے دیکھ جاتا تھا۔ اس بارے میں حکومت اور مذہبی طبقہ بالکل یکساں رویہ رکھتے تھے۔ عبدللہ کوئیلیم بھی اس تعصب کا شکار ہونے سے بچ نہ سکے۔ تاہم انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا۔ یہاں تک کہ ان کی شبانہ روز محنت کے نتیجہ میں قریباً پانچ سو دیگر لوگ بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔
اس فہرست میں دوسرا نام بیرن (رئیس) ہیڈلی کا ہے جو آئیرش رؤساء میں ایک بڑا نام تھے۔ انہوں نے بھی اپنا نام اور مقام اسلام کی راہ میں قربان کر دیا۔
تیسرا نام اس عظیم شخصیت کا ہے جن سے قرآن کے انگریزی ترجمہ کا ذوق رکھنے والا ہر شخص بخوبی واقف ہے۔ یہ "سَرے" انگلستان سے تعلق رکھنے والے مارماڈیوک پکتھال تھے جو بعد از قبول اسلام محمد مارماڈیوک پکتھال کے نام سے معروف ہوئے۔
ان تینوں افراد کی زندگیوں اور اسلام کی جانب ان کے سفر میں بہت سی مماثلت پائی جاتی ہے جو ہماری دلچسپی کا اصل میدان ہونا چاہیے۔
پہلی بات جس نے انہیں اپنے ارد گرد موجود نظام اور عقائد سے برگشتہ کیا وہ سیاسی اشرافیہ اور بالخصوص مذہبی رہنماؤں کا سماج کے پسماندہ طبقات کے حوالہ سے بے نیازی کا رویہ تھا۔ انیسویں صدی کا برطانیہ صنعتی انقلاب کے معاشی ثمرات سمیٹنے کے ساتھ اس کے معاشرتی استحصال کا شکار بھی تھا جس میں سر فہرست عام آدمی کا شدید استحصال تھا۔ لیکن اس کی دادرسی کے لیے ریاست اور مذہبی قیادت دونوں ہی تیار نہ تھے۔ یہ تینوں اس بات پر متفق رہے کہ جو فکر عام آدمی کو اپنا مرکز نہیں بناتی وہ خام ہے۔ اس کے نتیجہ میں طبقاتی تقسیم گہری ہوتی ہے اور عام آدمی کی مشکلات دو چند، سہ چند ہو جاتی ہیں۔ اس بات نے انہیں کسی دوسرے نظام حیات کی تلاش کی طرف متوجہ کیا۔ پھر یہی جستجو انہیں اسلام تک کھینچ لائی۔
اسلام کے ساتھ ان کے تعارف کا معاملہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ عبداللہ کوئیلیم اور محمد مارما ڈیوک پکتھال کو خطہ عرب کے دورہ نے اسلام کا روشن چہرہ دکھایا۔ انیسویں صدی اسلام کے سنہری دور کا حصہ نہیں لیکن پھر بھی ان دونوں کا مشترک مشاہدہ یہ تھا کہ ان معاشروں میں ہم نے لوگوں کو در حقیقت مطمئن و مسرور پایا اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ امیر غریب میں سماجی عدم مساوات کا کوئی تصور نہیں تھا۔ مختلف معاشی پس منظر کے لوگوں کا باہم سلوک بہت شاندار تھا۔ عبداللہ کوئیلیم نے تو اپنے دورہ مراکش کے متعلق کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار خود کو وہاں حقیقی معنوں میں مسرور محسوس کیا۔ اسی طرح بیرن ہیڈلی صاحب کا اسلام سے تعارف ان کے دورہ ہندوستان کا مرہون منت ہے۔ ان کے مطابق یہاں کے مسلمانوں کے رکھ رکھاؤ نے انہیں بہت متاثر کیا۔ غرضیکہ معاشرے کی ہم آہنگی اور شائستگی وہ بنیادیں تھی جس نے ان تینوں کو اسلام سے قریب ہونے پر آمادہ کیا۔
دوسری جانب خود ان کے اپنے برطانوی معاشرے میں یہ حالت تھی کہ اسلام کو ہر وقت ایک تشدد پسند اور دقیانوسی مذہب کہہ کر اس کی نفی کی جاتی۔ یہی نہیں جو اسلام قبول کر لیتا اسے غدار اور سیکیورٹی رسک قرار دیا جاتا۔ لیکن اسلام کا جو چہرہ وہ دیکھ چکے تھے اس نے انہیں اپنے سحر میں ایسا گرفتار کیا کہ پھر انہیں اس میں سے کچھ بھی اسلام سے دور نہ کر پایا۔ ریاست کی چیرہ دستیاں بڑھتی گئیں کہ عبداللہ کوئیلیم اور پکتھل صاحب کو برطانیہ چھوڑنا پڑا۔ پکتھال صاحب نے اپنی جلاوطنی میں ہندوستان قیام کے دوران انگیزی زبان میں قرآن کا وہ معرکۃ الآرا ترجمہ کیا جو آج بھی تمام انگریزی تراجم میں نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔ پکتھال اوائل عمر میں مشرق وسطی رہے اور عربی پر عبور حاصل کیا۔ اس نے انہیں قرآن کے مزاج اور نکات کو سمجھنے میں بہت مدد دی اور یہ کسی بھی انگریز کی جانب سے قران کا پہلا ترجمہ تھا۔
اب اکیسیوں صدی ہے مسلمان معاشروں کی وہ وسعت نظری، ہم آہنگی اور رواداری جس نے برطانوی اشرافیہ کے تین اہم ترین ناموں کو اسلام سے روشناس کروایا، رخصت ہوچکی ہے۔ جو تنگ نظری ہمیں اس وقت کے برطانوی معاشرہ میں نظر آتی ہے جس نے درد دل رکھنے والوں کو مایوس کر کے نئی راہوں کا مسافر بنا دیا وہ آج ہمارا حوالہ ہے۔ جو معاشرے اپنی زمین اپنے بسنے والوں پر تنگ کرنے لگتے ہیں وہ اپنی جڑیں اپنے ہاتھوں کھوکھلی کرتے ہیں۔ وہ اپنے عبداللہ کوئیلیم، اپنے بیرن ہیڈلی اور اپنے مارماڈیوک پکتھل دوسروں کے حوالے کر بیٹھتے ہیں اور خود تہی دست ہو کر قحط الرجال کا شکوہ کرتے رہ جاتے ہیں۔ برطانوی سماج نے اپنے رویہ پر نظرثانی کر لی تو اس کی تقدیر بھی بدل گئی۔ ہمارے سامنے یہ سوال ہنوز موجود ہے۔ تنگ نظری اور سماجی نمو باہم متضاد باتیں ہیں۔ خوف اور دباؤ سے دین کی بات کہنی ہے یا حکمت اور نرمی سے۔ ہم نے کیا راہ اپنانی ہے، یہ فیصلہ مجھے اور آپ کو کرنا ہے۔ اس کی توقع ان سے رکھنا جو دراصل موجودہ تلخی کے ذمہ دار ہیں خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔**