الفت کے راستے پر؍ قسط ۷

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : جولائی 2020

غار حرا،مہبط وحی خدا:
جس طرح ہماری بس والے نے ہمیں غار حرا کی زیارت کروائی تھی،اُ س سے شوقِ زیارت کو افزونی ملی اور اچھی بھلی تشنگی لے کر،ہم واپس آئے۔اپنے ذہن میں پلان بنایا کہ موقع ملا ،تو ایک بار غار حرا کے قدموں میں ضرور حاضری دینی ہے۔لیکن سفر حج کے باقی دِنوں میں گونا گوں مصروفیات کے باعث ہمیں غار حرا کی زیارت کاتو موقع تو نہ مل سکا البتہ ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش ،جنت المعلیٰ اورمسجد جن کے مقامات پر حاضری ہوگئی ، جس کا تذکرہ اِن یادداشتوں میں موجود ہے۔جبل نور یا کوہ حرا ،مکہ شریف میں ایک پہاڑی کا نام ہے جو خانہ کعبہ سے تقریباًتین چار کلو میٹرکے فاصلے پر ہے ۔ اِس پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار ہے جو قریباًچارمیٹر لمبی اور ڈیڑھ میٹر چوڑی ہے۔اِس غار کوہی غار حرا کہا جاتا ہے۔یہ وہ مقدس جگہ ہے جہاں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی اُتری تھی۔روایات میں آتا ہے کہ سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،جب آپ کی عمر مبارک چالیس سال سے ایک آدھ سال کم تھی،کہ آپ نے تنہائی میں غوروفکر کی عادت اپنا لی اور دُنیا کے بکھیڑوں سے الگ ہوکر ،کھانا پانی لے کر ،اِس غار میں تشریف لے جاناشروع کردیا۔یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کریم عبادت کرتے اور اللہ کی قدرتوں پر غور و فکر کرتے تھے۔مہینہ مہینہ ،آپ ؐ کا یہاں پرقیام رہتا۔کبھی کبھی ،آپ ؐ کی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہ طاہرہ بھی،غار کے قریب ہی اپنا خیمہ لگا لیتیں اور آپ کی خدمت داری اور خیر خبر رکھا کرتیں۔اِس غار کا وقوع ایسا ہے کہ اِس کے اندر بیٹھا ہوا بندہ صاف طور پر خانہ کعبہ کو دیکھ سکتا ہے، گویا اپنے غور و فکر کے لیے اور عبادت الٰہی کے لیے، آپ ؐ نے ایک ایسی جگہ کا انتخاب فرمایاتھا جوایک طرف تو دُنیا کے شورو شغب سے بہت دُور تھی اور دوسری طرف اللہ پاک کے گھر کی بھی زیارت کرتے رہنا بھی وہاں سے ممکن تھا۔روایات میں آتا ہے کہ ،ماہ رمضان کی اکیسویں تاریخ تھی اور سوموار کی رات تھی کہ وقتِ سحر جناب جبرائیل غار میں تشریف لائے اورآ پ سے کہا کہ پڑھیے،آپ ؐ نے فرمایا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں،جبرائیل امین نے پھر کہا کہ اِقراء ،جواب آیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، جبرائیل امین نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے بازوؤں میں لے کرزورسے بھینچا اور عرض کی ، اِقراء باسمک الذی خلق ،خلق الانسان میں علق ، اِقراء و ربک الاکرم ،الذی علم بالقلم ،علم الانسان ما لم یعلم یہ آیات سورہ العلق کی پہلی پانچ آیات ہیں۔عام نظریے کے مطابق یہ پہلی وحی ہے۔بعض اہل علم کے نزدیک یہ بات محل نظر ہے ،اُن کے بقول ،اپنے مضمون کے اعتبار سے سورہ فاتحہ پہلی وحی ہے۔خاکسار کا رجحان بھی اِس دوسری رائے کی طرف ہے لیکن دلائل کا یہ موقع نہیں۔یہ ایک الگ علمی بحث ہے ،اِ س سے قطع نظر،یہاں پر غار حرا کا مبدا وحی ہونابیان کرنا مقصود ہے۔یہ وہ اعلیٰ مقام ہے جسے میرے مالک نے آ غازِوحی کے لیے پسند فرمایا۔ایک ایسی محفوظ جگہ ہے جہاں پر میرے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئی کئی دِن بسر کیے اورکئی کئی راتیں،اپنے اللہ سے راز و نیاز کرنے میں گزاریں۔یہاں میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت کے منصب پر فائز کیا گیا۔صرف غار ہی نہیں،غار تک جانے والا راستہ،وہ دشت و جبل جہاں یہ غار واقع ہے،وہ ساری فضائیں،وہ ساری گزر گاہیں ،میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے رچی بسی ہیں۔اِن راہوں کا ذرہ ذرہ،اِن پہاڑوں کا ایک ایک پتھردیکھنے کے لائق ہے ،چومنے کے لائق ہے، کیوں؟اِن سب نے سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تلوے چاٹے ہیں۔لوگ کہتے ہیں یہ دیوانگی ہے۔میں کہتا ہوں یہی تو فرزانگی ہے۔لوگ کہتے ہیں یہ جذباتیت ہے میں کہتا ہوں یہی جذباتیت ہی تو دراصل عقل کا مطالبہ ہے۔روایات میں آتا ہے کہ یہاں کے پتھر،قبل از نبوت ،حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے۔تو اِن پتھروں کو یہ خاکسار سلام کرنے عرض کرنے آیا ہے۔ میں تو ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ،اور قرآن سے تعلق کی نسبت سے،اِس غار کی زیارت کرنے کا خواہش مند تھا لیکن بوجوہ ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ 
مقام ولادت ِ محبوب:
جیسا کہ پہلے عرض کیا ،کہ ہم چاروں ہم کمرہ زائرین،عموماًاکٹھے رہتے تھے اور جو کچھ بن پڑتا،عبادات و زیارات کرتے رہتے۔ہم ایک دوسرے کا سہارا اورعمل انگیز تھے ۔ ایک بار ،عصر کی نمازپڑھ کر ،حاجی صاحب نے تجویز دی کہ کیوں نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش کی زیارت کے لیے جایا جائے۔حرمین میں عصر کی نماز جلدی ادا کی جاتی ہے جس کے باعث عصر اور مغرب کے درمیان کافی وقت ہوتا ہے اور یہ وقت عموماً لوگ آرام کرنے میں گزارتے ہیں ۔ ہم تینوں نے اِس تجویز کو پسند کیا اور اِس مقام کی زیارت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔حرم سے باہر آئے تو شدید دھوپ اور سخت گرمی نے ہمارا استقبا ل کیا۔یہ پر انوار مقام ،بیت اللہ کے شمال مشرق میں واقع ہے،ہم اُدھر کو منہ کر کے چل پڑے ۔ حرم کے مشرقی صحن کو عبور کرتے ہی وہ مقدس عمارت ہمیں نظر آنے لگی۔بظاہر تو یہ بڑی قریب نظر آتی تھی لیکن گرمی کی شدت اور سورج کی تمازت کے باعث ،یہ صحرا کے سراب کی مانند ،ہمارے قریب آنے کی بجائے دور ہوتی جارہی تھی۔بہرحال جذبہ شوق اور حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم سے پیار نے ہمارے حوصلے بڑھائے رکھے اور ہم چاروں آگے بڑھتے چلے گئے حتیٰ کہ اُس عمارت تک پہنچ گئے جسے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پیدائش کا شرف حاصل تھا۔
مسعیٰ ہال میں موجود باب السلام سے باہرنکلیں تو سامنے بیت اللہ کا مشرقی باہری صحن ہے۔اُس کو عبور کریں تو سامنے ہی ایک عمارت نظر آتی ہے جو دو منزلہ ہے اور اُس پر ایک لائبریری کا سائن بورڈلگا نظر آتا ہے۔یہی ہے وہ بلڈنگ ، جسے مولد ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ہمیں اس سے نہیں غرض ،یہ کوئی لائبریری ہے یا کوئی دفتر،اندر جانے دیتے ہیں یا نہیں،کوئی عظیم الشان عمارت ہے یاکوئی سادہ سی بلڈنگ ،ہمیں تو محض اس زمین کے ٹکڑے کی نسبت پر رشک ہے ۔ ہم اس ٹکڑے کی زیارت کو آئے ہیں۔ہمیں معلوم ہے کہ صدیاں بیت گئیں ،کسی درو دیوار کا باقی رہنا ممکن نہیں،ہمارے لیے تو یہ جگہ،یہ ماحول ،یہ ہوائیں ،یہ فضائیں اوریہ گلیاںِ مقدس و محترم اور محبوب و مرغوب ہیں کہ،یہیں کہیں،ہمارے محبوب پیدا ہوئے،پلے بڑھے اورہم تومحض ان ہواؤں میں سانس لینے کو اور یہاں پر ہونے کالطف لیتے ہیں۔یہ جو سامنے پہاڑ ایستادہ ہے ،کالاسیاہ ،بے آب و گیاہ ،کم از کم یہ تووہیں ہے اور وہی ہے جس نے میرے آقا کی زیارت کی تھی،اور جس کو میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نورانی آنکھوں سے دیکھا ہوگا۔
حکومت ِ وقت نے ہماری قیمتی متاع یعنی عقیدے کی اصلاح کے پیش ِ نظر،یہاں ایک بڑا سا بورڈ آویزاں کر رکھا ہے کہ اس جگہ کی زیارت کوئی مشروع عمل نہیں ہے۔ہم مانتے ہیں،بلاشبہ یہ جگہ،مقام ِ عبادت نہیں اور،ہم تو یہاں عقیدت کو آئے ہیں عبادت کو نہیں۔
ِِحضور ﷺ کی ولادت با سعادت ،محض ایک بچے کی پیدائش کا واقعہ نہیں ،یہ تو کائنات کا سب سے بڑا،عظیم الشان اور سب سے زیادہ فرحت انگیز واقعہ ہے۔یہ تو تاریخ کے رُخ کو موڑ دینے کا واقعہ ہے۔یہ وہ ولادت ہے جس کا انتظار، کائنات کا ذرہ ذرہ ،صدیوں سے کررہا تھا۔ یہ اپنی مثال آپ کا ایک واقعہ ہے۔اس جیسا بچہ نہ پہلے کسی ماں نے جنم دیاہے اور نہ قیامت تک کسی ماں نے جنم دینا ہے۔تو کیا اتنے عظیم الشان واقعہ کی یادگار کو سنبھال وسنوارکر رکھنا اوراس کی زیارت کے لیے حاضر ہوناایک ذمہ داری نہیں تھی،افسوس کہ ،جب تاریخ نے یہ ورثہ آپ تک بحفاظت پہنچا ہی دیا تھاتو آپ نے اسے سنبھالنے میں کوتاہی کی اوراب، آنے والی نسلوں کو یہ تک بتانا گوارا نہیں کر رہے کہ ،ہاں یہی ہے وہ رشک فردوس بریں ٹکڑا،جسے اللہ کریم نے محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مبارک کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ ہم اُس مکان کے سامنے دست بستہ حاضر تھے جس کی قسمت میں ،ازل سے کاتب ِ تقدیر نے آمنہ کے دُرِیتیم کی آمد کا شرف لکھ رکھا تھا۔کیا ہوا کہ اس لمحے اگرسورج اپنی تمازت بکھیر رہا ہے اورکیا پرواہ،اگر ہمارے لیے کسی سائے کا انتظام تک نہیں ہے یہاں،لیکن یہ کیا کم شرف ہے کہ ہم وہاں کھڑے تھے جہاں پر وہ پیدا ہوئے جو ساری کائنات کے لیے سائبان بن کرتشریف لائے۔جن کو دیکھنے ، جن کے بارے میں سوچنے سے ہی سینے میں ٹھنڈ پڑجائے۔صلی اللہ علیہ وسلم ۔
جنت المعلی ٰاورمسجدجن:
 ‘‘اب کیا ارادہ ہے ،حاجی صاحب ؟’’ جائے پیدائش کی زیارت سے فیض یاب ہونے کے بعد ،میں نے عرض کی۔‘‘واپس چلیں۔’’حاجی صاحب نے جواب دیا کہ، ‘‘جنت المعلیٰ بھی اِسی طرف واقع ہے اُس کی زیارت بھی کر لیتے ہیں ،مغرب میں ابھی وقت کافی ہے ،نکلے ہیں تو لگے ہاتھوں یہ زیارت بھی کر لیں۔’’
جنت المعلیٰ مکہ مکرمہ کا قدیمی قبرستان ہے۔پہلے میں جتنی بار مکہ مکرمہ میں حاضرہوا تھا یہاں نہیں آسکا تھا اور مجھے اِس کے وقوع کا بھی علم نہ تھا۔میں نے عرض کی ،‘‘ہاں ،تجویز تو ٹھیک ہے لیکن مجھے اُس کے وقوع کا علم نہیں ہے۔’’ حاجی صاحب نے کہا کہ‘‘ آیئے چلتے ہیں مجھے کچھ اندازہ ہے۔’’ہم حاجی صاحب کے پیچھے چل پڑے لیکن وہ بھی کچھ تذبذب کا شکار تھے۔انھوں نے ایک دو آدمیوں سے اِس بارے استفسار کیا پھروہ ہمیں ایک طرف کو لے کر چل پڑے۔ہم مقام ولادت سے شمال مغرب کی سمت ہم چلنے لگے۔گرمی کا وہی عالم تھا،پسینے چھوٹے ہوئے تھے۔ ٹانگوں کا تھکاوٹ سے برا حال اور وہ چلنے سے انکاری،لیکن ہم چل رہے تھے کہ یہ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے دیس کی گلیاں تھیں۔تاریخ کے اوراق پلٹتے ،سیرت پاک کے گلستان سے پھول چنتے ،آپس میں گپ شپ لگاتے ہم آگے بڑھ رہے تھے۔
عشاق اور بھی تھے جو ہماری طرح اِن گرم گلیوں میں ُ‘آوارہ’’ پھرتے تھے اور لذت پاتے تھے۔ اُن میں ہر قوم اورہر ملک کے لوگ تھے،بنگالی بھی تھے ایرانی بھی، افغانی بھی تھے ،تورانی بھی ۔انڈونیشیا سے آئے ہوئے بھی اور مغرب کے باسی بھی۔ہم سب لوگ ایک دوسرے کے لیے آسرا اور سہارا تھے،وہ ہمیں دیکھتے پیدل چلتے ہوئے ،تو حوصلہ پاتے اور ہم اُن کو دیکھتے تو آگے بڑھنے کا جذبہ پاتے۔ گلیاں تو محاورۃًکہا ہے ،اصلاً ہم ایک وسیع و عریض سڑک پر چل رہے تھے جو کولتار سے بنی تھی اور گرمی میں اضافہ کرتی تھی۔ شمال مغرب کی طرف ہمارا منہ تھا،کچھ دور جاکرایک بس اسٹینڈ بھی نظرآیا اور ایک شاپنگ سینٹر بھی۔اور ہیڈ برج کے نیچے سے گزرے اور ایک چوک کراس کر کے ایک گیٹ نظر آیا اُس کے اندر داخل ہوئے تو گویا جنت میں آگئے۔یہ ایک ائیر کنڈیشنڈ ہا ل تھا اُس میں صوفے لگے تھا ،نہ جانے حقیقت تھی یا میں خواب میں تھا،جب ہوش آیا تو اپنے آپ کو ایک صوفے پر بیٹھا پایا۔بتایا گیا یہ جنت المعلیٰ کی انتظار گاہ ہے۔سوچنے لگا، ‘‘توکیادفن کرنے سے پہلے مردے یہاں انتظار کرتے ہیں۔؟’’ اِس انتظار گاہ میں،چاروں طرف فرج رکھے تھے جو پانی کی بوتلوں سے بھرے تھے اور لوگ دھڑا دھڑ ،وہاں سے پانی لے رہے تھے،ہم بھی اُٹھ کر ،قدرے بھاگ کر،اِس آب سرد کی طرف بڑھے،پانی کی بوتلوں کی طرف کچھ اِس طرح ہاتھ بڑھایا جیسے صدیوں کے پیاسے ہوں۔ہم سب کا یہی حال تھا، براحال تھا۔ راستے کی گرمی اور دھوپ کی شدت اوراب ٹھندے ہال اور اُس میں آب سردکی لذت!!یہ سب حقیقت تھا ،خواب نہیں تھا۔اس ٹھنڈے ہال کی ایک طرف کو گیٹ تھا جو قبرستان کی جانب کھلتا تھا۔جنت المعلیٰ ،مکہ شریف کا قدیمی قبرستان ہے۔قبل از اسلام کے مشاہیر کی قبریں بھی یہاں ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مُردوں کی تدفین کا رواج،اسلام کے آنے سے بھی پہلے ،عرب میں موجود تھا۔یہ چیز دین ابراہیمی کی تعلیمات میں سے ہے ،اِس سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی نہ کسی سطح پر قریش ِ مکہ دین ابراہیمی پرہی عامل تھے۔اس قبرستان میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے آباؤاجداد مدفون ہیں جن میں آپ کے پردادا ہاشم بن عبد مناف ، دادا عبدالمطلب اورچچا ابوطالب اور دیگررشتہ دار شامل ہیں۔البتہ آپ کے والد جناب سیدنا عبداللہ کاانتقال یثرب میں ہواتھا اس لیے اُن کی تدفین یثرب یعنی مدینہ منورہ میں ہوئی تھی اورپیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اماں جان سیدہ آمنہ کا انتقال مدینہ اور مکہ کے درمیان ابوا کے مقام پر ہو اتھااس لیے اُن کا مزار مبارک وہاں پر ہے ۔
آپ ﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ،اُم المومنین سیدہ خدیجہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا انتقال ،نبوت کے دسویں سال،مکہ مکرمہ میں ہوا اور اُن کی تدفین بھی یہیں جنت المعلیٰ میں ہوئی تھی۔اس کے علاوہ کئی دیگر مشاہیر اسلام اور بادشاہوں اور امیروں کی قبریں بھی یہاں ہیں۔آج تک قبرستان کے ایک حصے میں تدفین جاری ہے۔
طویل عرصے سے ہمیں اس قدیمی قبرستان کی زیارت کرنے کی خواہش تھی اور آج ہم یہاں تھے۔یہاں پر اُس طرح کی کوئی قبریں نہ تھیں جیسے اپنے ہاں کے قبرستانوں میں ہوتی ہیں۔یہ محض کنکریوں اور مٹی کی ڈھیریاں تھیں۔ہم نے ریت مٹی اورچھوٹی چھوٹی دیواروں سے گھرے کئی چوکٹھے اور احاطے بنے دیکھے ۔قبروں کا کوئی نشان یاکوئی کتبہ لگا ہم نے نہیں دیکھا۔قبریں بھی ساری زمین کے برابرلگ رہی تھیں۔البتہ صفائی کا اچھا انتظام دِکھ رہا تھا۔کوئی درخت بوٹا،کوئی شجر پتا بھی نظر نہیں پڑا۔دھوپ بہت تیز تھی ،ہماری تلاش کی جستجو دم توڑ رہی تھی لہٰذا میں توفاتحہ خوانی کر کے اور دعا مانگ کر اس ٹھنڈے ہال میں واپس آگیا۔
میرے ساتھی ابھی قبرستان میں ہی تھے ،میں نے یہاں ہال میں بیٹھے، موبائل پر انکل گوگل سے رابطہ کر لیا اور اس قبرستان کے بارے میں کچھ مزید معلومات اکٹھی کیں وہ یہاں آپ سے بھی شیئر کرتا ہوں۔
دنیا بھر کے دیگر مسلم قبرستانوں کی طرح ،یہاں بھی قبریں زمین سے اُونچی بنائی جاتی تھیں۔اُن پر کتبے اور شناختی علامات اور تاریخ پیدائش و وفات بھی لکھی ہوتی تھیں۔بعض معروف شخصیات کی قبروں پر کتبے اور روضے اور گنبد بھی بنے ہوتے تھے۔سیدہ خدیجہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا بھی روضہ بنا ہوا تھا اور وہ مرجعِ خلائق قبر تھی اور بھی کئی معروف قبروں پر روضے اور مزار بنا لیے گئے تھے ۔اُن مزاروں پر میلے ٹھیلے اور چڑھاوے اور شیرینیاں وغیرہ کابھی وہ سارا نظام موجود تھا،جو ہمارے ہاں کے مزاروں پر دیکھا جا سکتا ہے۔اِ ن رسوم و بدعات کا بیشتر حصہ ،لوگوں کا خود ساختہ اور دینی تعلیمات کیخلاف ہو تا ہے۔۱۹۲۵ ء میں جب موجودہ سعودی خاندان حکمران آیا ، انھوں نے اِن سب خلاف شرع حرکات کو،بجا طور پر، بزورقوت بند کروا دیا اور دوسرے مرحلے پر ،اِن قبروں پر بنے قبے اور گنبد بھی گرا دیئے گئے اورتیسرے مرحلے پر اِ ن قبروں کوبھی زمین برابر کر کے،اِ ن کے نشانات اور شناخت تک کو ختم کر دیا گیا۔اور اب وہاں کی حاضری،زیارت اور فاتحہ خوانی تک کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
ہمارے ملک میں بزرگان ِدین کی قبروں پر جو کچھ ہوتا ہے،تفصیل کا موقع نہیں،اُس میں بہت کچھ غلط ہوتا ہے ،یہ ایک انتہا ہے ، اور بزرگوں کی قبروں کے ساتھ ،جو کچھ یہاں سعودیہ میں کیا گیا ہے ،یہ بھی غلط ہے اور یہ دوسری انتہا ہے۔حقیقت اِ ن دونوں انتہاؤں کے درمیان ہے۔ 
حرم کی طرف واپسی کے اس راستے پر،ایک روڈ پر ایک چھوٹی سی مسجد بھی نظر پڑی جسے ہمارے حاجی یونس صاحب نے مسجد جن قرار دیاجس کا نام ،قبل ازیں کئی لوگوں سے سن رکھا تھا۔‘‘ڈاکٹر صاحب !’’شکیل بھائی بولے،‘‘مسجد جن کا کیا مطلب ہے؟’’میں نے عرض کی ،‘‘مجھے اِس کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات تونہیں ہیں،البتہ احادیث مبارکہ میں ،ایک ایسے مقام کی نشان دہی، ہوتی تو ہے، جہاں چند بار حضور ﷺ کی جنوں سے ملاقات ہوئی،اُن کو آپ ؐنے درس دیا اور وعظ و نصیحت فرمائی اور جنوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور عہد و پیمان بھی کیے۔کئی صحابہ کرام نے اس چیز کو ملاحظہ بھی فرمایا اور رپورٹ بھی کیا۔اس مقام پر بعد کے کسی دور میں مسجد بنا دی گئی جو‘‘ مسجد جن ’’ کے نام سے معروف چلی آرہی ہے۔البتہ یہ یقینی بات ہے کہ پیارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں،اِس نام کی کوئی مسجد نہ تھی۔’’آج ہم اُس کے سامنے تھے۔چھوٹی سی خوبصورت مسجد ہے۔ ظاہر ہے اس کی کئی بار تعمیر و تخریب ہوتی رہی ہوگی،موجودہ عمارت ،سعودی حکومت کی تعمیر کردہ،ایک شاندار عمارت ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی، یہاں اس مقام پر،جہاں ہم کھڑے تھے، متعدد بارتشریف آوری ثابت ہے۔ ہم توسرکار کے نقوش پا کو تلاش کرتے پھر رہے تھے ۔پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ،کسی جگہ کی نسبت ہی دراصل، اس مقام کے تقدس و عزو شرف کا باعث ہے ۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ سر ِ راہ،ایک ایسے ہی مقام کی زیارت نصیب ہوگئی۔ہم اِس کے اندر تونہ جا سکے کیونکہ وہ مقفل تھی اِس لیے باہر باہر سے زیارت کرتے نکل آئے تھے۔ واپسی کے راستے پر،دھوپ اور گرمی کے ستائے ہوئے،گنے کے رس کی دکان پر رک گئے اور ایک ایک گلاس ،یہ مشروب خاص ،نوش جان کیاجو خاصا ہوش آور ثابت ہوا۔جس صاف ستھرے طریقے سے یہ رس نکالا جا رہا تھا ، اصل میں ،میرے لیے یہ کشش کا باعث تھا۔مغرب کی نماز کا وقت قریب آتا جا رہا تھا،ہم حرم کی طرف واپس آرہے تھے تو حاجی صاحب نے،ایک نیا راستہ اختیار کر لیا، ایک چڑھائی کی طرف جاتی سڑک پر ہولیے یعنی ایک ایساڈھلوانی راستہ اختیار کرلیا جس کی حرم کی طرف چڑھائی تھی گویا ایک پہاڑ پر چڑھنا تھا۔میری ٹانگیں شل ہورہی تھیں،اُوپر سے حاجی صاحب نے ایسا راستہ اختیار کر لیا جس پر پورا زور لگانا پڑ رہا تھا،مجھے غصہ تو شدید آیا،میرے دوست شکیل کا بھی کچھ یہی عالم تھا لیکن جب دیکھتے کہ ایک۷۵ سالہ بوڑھا بابا(ہمارے حاجی صاحب ) بڑے اطمینان سے اِس سڑک پر چڑھے جارہا تھا تو اس سے ہمیں حوصلہ ملتااور مہمیز ملتی اور ہم چل پڑتے۔ہم اُوپر اُٹھ رہے تھے،اور اُوپر اُٹھ رہے تھے،نیچے جھانکتے توحرم کے شما ل مشرقی اور مشرقی بیرونی صحن کے مناظربڑے دِل آویز اور دِل کش لگتے حرم کے اس طرف ،آج میں پہلی بار آیا تھا،تو میرا تجسس مجھے کھینچے جا رہا تھا،اب مجھے تھکاوٹ بھول گئی تھی۔مغرب کی سمت میں سورج بھی ڈوبنے جا رہا تھا۔ڈوبتے سورج کی کرنیں،مقام ولادت کے پیچھے والے پہاڑ پر پڑ رہی تھیں اور اِس سے ایک بڑا سہانا منظر بن رہا تھا جس کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔آخر ہم اُوپر آگئے اور ایک دروازے سے اندر داخل ہوئے تو یہ مسعیٰ کی دوسری منزل تھی اورہم مرویٰ پہاڑی والے سرے (end)پر پہنچ گئے۔
بنگالی چائے والا:
ہم چار دوستوں نے ،مغرب اور عشا کی نماز پڑھنے کے لیے ،حرم میں ایک جگہ مخصوص کر لی تھی۔اُس جگہ پر پہنچنے کے لیے ،عصر کی نماز کے بعد ہی کوشش شروع کر دیتے تھے۔راقم چونکہ عام طور پر حرم میں ہی رہتا تھا تو مختلف نمازیں مختلف مقامات پر پڑھتا تھا،لیکن عصر کے بعد اُس مخصوص جگہ پر پہنچ جاتا ،اور باقی دوست بھی ،آگے پیچھے جہاں کہیں ہوتے ،مغرب تک اُس جگہ آ جاتے تھے۔جو پہلے پہنچے اُس کی یہ ڈیوٹی ہوتی تھی کہ وہ دوسروں کے لیے جگہ سنبھالے رکھے مغرب اور عشاء کے درمیان وقت ہوتا تھا ہماری گپ شپ کا،میل ملاقات کا۔اپنے علاقے کا کوئی اور زائر آیا ہوتا تو اُس سے ملاقات بھی اِس جگہ رکھ لیتے،اِس سے بڑی آسانیاں ہوتیں اور اِ س سے ہمیں لطف بھی بڑا آتاتھا۔یا کوئی ایسا آدمی جس سے کہیں تعارف ہوتا اور دوبارہ ملنے کی خواہش ہوتی تو اکثراِس جگہ کا پتہ دیا جاتا اور ملنے کا یہی وقت دیا جاتاتھا۔یہ جگہ کہاں تھی،آیئے آپ کو اِس کا پتہ سمجھاؤں۔باب شاہ فہد والی توسیع کے دونو ں اطراف میں ،یعنی شمالی اور جنوبی اطراف میں برقی زینے لگائے گئے ہیں۔ہم چونکہ مسفلہ کی طرف رہائش رکھتے تھے توہوٹل سے آکر جنوبی برقی زینے کے ذریعے ،ہم باب شاہ فہد والی توسیع کی دوسری منزل کے نماز ہال میں آجاتے تھے۔اِس ہال کے درمیان میں اگلی دو صفوں کو چھوڑ کر ،ایک ستون کو مخصوص کیا ہوا تھا۔ یہاں ایک چائے والا تھا ،جو روزانہ مغرب سے پہلے آتا اوراپنا دستر خوان لگاتا اور اللہ کے مہمانوں کو چائے اور عربی قہوہ پیش کرتا۔ہمارے حاجی صاحب نے اُس سے دوستی لگا لی تھی۔وہ اصلاً بنگلہ دیش کا رہنے والا تھالیکن اب کئی سالوں سے وہ مکہ میں مقیم ہو چکا تھا۔عربی لباس اور عربی گفتگو میں عرب ہی لگتا تھا۔وہ تھوڑی تھوڑی اردو بولتا اور سمجھتا تھا۔اُس کے بقول ،وہ پچھلے تیس سالوں سے ،اِسی جگہ ،انھی صفوں میں یہ خدمت سرانجام دے رہا ہے۔ہم نے آپس میں،اُس کا نام‘‘ بنگالی چائے والا’’ رکھا ہوا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ اُس کے قہوہ نے ہمیں اِس عرب مشروب کا عادی بنا دیا تھا،حالانکہ اِس سے قبل میں اس قہوے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتاتھا۔ہم اُس کے ساتھ اِس خدمت کرنے میں تعاو ن بھی کرتے تھے ۔ پہلے تو ہم سمجھتے تھے کہ و ہ یہ کام اپنی جیب سے کرتا ہے ،لیکن بعد میں گپ شپ سے معلوم ہوا کہ وہ اِس کام کے لیے اعانتیں(donations) بھی اکٹھے کرتا ہے۔کھلے عام تو نہیں مانگتا تھا ،کوئی دے جائے تو بشکریہ قبول کرتا تھا۔کئی بار اِس نے مجھے کہا کہ بعض زائرین جو انگریزی سمجھتے تھے ،کو انگریزی میں اُس کی کارکردگی اور اِس خدمت سے آگاہ کروں اورانھیں کچھ اعانت کرنے کا بھی کہوں۔نمازمغرب کے قریب ،زائرین کی یہ مہمان نوازی،مسجد الحرام کے کئی دیگر حصوں میں بھی دیکھی تھی۔مدینہ طیبہ میں بھی یہ مہمان نوازی کا سلسلہ دیکھا تھا۔حرمین شریفین میں،ماہ رمضان میں تو مہمان نوازی کا یہ سلسلہ ساری ساری رات تک چلتارہتا ہے۔مسجد کے اندر بھی اور باہر بھی دسترخوان بچھائے جاتے ہیں۔اللہ کے مہمانوں کوافطاری و سحری کرائی جاتی ہے۔بڑا ہی دِل فریب منظر ہوتا ہے۔مختلف لوگوں نے اپنے اپنے دسترخوان بچھائے ہوتے ہیں جنھیں ‘‘سفرہ’’ کہا جاتا ہے اور زائرین کرام کو اپنے اپنے سفرے پر تشریف لانے کی دعوت دی جاتی ہے بلکہ منت سماجت کی جاتی ہے۔خاص طور پر بچے بڑی دلچسپی سے یہ کام کرتے ہیں۔یہ سارا کام اِس تیزی سے کیا جاتا ہے کہ نہ تومسجد کی صفائی متائثرہوتی ہے اور نہ ہی وقت ضائع ہوتا ہے ،سفرہ بچھانا ،خورونوش کرنا اور باقیات کو سمیٹنا ،اذان مغرب اور تکبیر جماعت کے درمیانی وقفے میں کر لیا جاتا ہے۔ 
باتیں ملاقاتیں:
مسلمانوں کاسب سے بڑا اجتماع حج ہے۔ اس سال کم و بیش چھبیس لاکھ مسلمان حج کر رہے تھے۔اِس میں دنیا بھر کے تمام ممالک سے لوگ تشریف لاتے ہیں۔میل ملاقات کا اور ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔یہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے اور اعلیٰ ترین عبادت کا موقع ہے،لیکن بہرحال یہ انسانوں کا ایک اجتماع ہے تو بلاشبہ انسانی ضروریات و احتیاجات کا موجود ہونا اور اُن کو پورا کیا جانا بھی لازم ہے ۔لاکھوں لوگوں نے جہاں اپنی عبادت کرنی ہوتی ہے وہاں انھوں نے راتوں کو آرام بھی کرناہوتا ہے ،انھیں رہائش چاہیے اورپُر آسائش چاہیے، کھانا پینا ہے ،علاج معالجہ ہے،اور اِسی طرح دیگر بشری تقاضے ہیں،تو حکومت وقت اِن سب ضروریات کو بہم پہنچا رہی ہوتی ہے۔تیس چالیس دِن کا شیڈول ہوتا ہے اور بڑے منظم انداز سے ہر آدمی چل رہا ہوتا ہے۔کوئی لڑائی نہیں ،کوئی جھگڑا نہیں،ہر آدمی اپنی اپنی عبادت کر رہا ہے لیکن اِس انفرادی عبادت میں بھی ایک اجتماعی رنگ بھر دیا گیا ہے۔ یہ ایسا اجتماع ہے جو کسی انسان ،یا تنظیم یا کسی ملک کے حکمرانوں نے طلب نہیں کیا،بلکہ یہ اجتماع اللہ کریم نے خود بلایا ہے۔لہٰذا اِس اجتماع کاضابطہ کار بھی اللہ نے خود ہی تجویز فرمایا اور اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا۔اگرچہ یہ ایک خالص روحانی اجتماع ہے جس سے زائرین کاکوئی مالی مفاد وابستہ نہیں ہوتا ہے لیکن یہ اجتماع ایک بہت بڑی کاروباری سرگرمی بھی ثابت ہوتا ہے۔ یہ میرے لیے بڑی سعادت کی بات تھی کہ میرے مالک نے مجھے اتنے بڑے (event)کا حصہ بنایا تھا۔یہ وہ چیز ہے جس کی ہر مسلمان آرزو رکھتا ہے ، دعائیں کرتا ہے اور اِس کے حصول کی اُمید میں جیتا ہے۔اب جب یہ خاکسار یہاں تھا تو کوشش کرتا تھا کہ اِس موقع سے بھر پور فائدہ اُٹھایا جائے۔دِلجمعی سے عبادت کی جائے،زیادہ سے زیادہ بیت اللہ کی زیارت کی جائے اور مسجد الحرام میں حاضر رہا جائے۔حرم سے باہر نکلتا تھا تو بھی یہ خواہش اور کوشش ہوتی کہ زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کی جائیں ،حرم کے بارے میں ،اُمت کے بارے میں اور دین کے بارے میں۔میں پاکستان سے ہی یہ سوچ کر گیا تھا کہ کوشش کروں گا کہ مختلف ملکوں کے لوگوں سے مل کر اُن کے ملکوں کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کروں۔یہ ایک بڑا دِل چسپ کام تھا لیکن زبان ،اِس کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھی۔ انگریزی زبان میں جو تھوڑی بہت شد بد تھی اُس سے دال دلیہ تو ہو جاتا تھا لیکن کثیر مسلم ممالک میں یہ زبان بولی اور سمجھی نہیں جاتی،پھر بھی اِن دنوں میں یہ کام بخوبی ہوا۔یہ بڑا عجیب اتفاق ہے کہ مسجد الحرام میں نماز کے بعد ،جب یہ خاکسار اپنے دائیں بائیں نظر دوڑاتا اور دائیں بائیں تشریف فرما زائرین سے ہاتھ ملا تا تو اکثر اوقات وہ بنگلا دیشی قومیت کے لوگ ہوتے۔بڑی چاہت سے ہم ایک دوسرے کو السلام علیکم کہتے اور باہمی تعارف کرواتے۔اکثریت کے ساتھ تو سلام دعا کے علاوہ گفتگو آگے نہیں بڑھ سکی ،کیونکہ اُردو یا انگریزی سے وہ بھائی نا بلد ہوتے۔البتہ چند ایک سے تفصیلی گفتگو رہی جس سے مجھے بنگلہ دیش کے حالات کو سمجھنے میں مدد ملی۔میری جن حضرات سے بھی بات چیت رہی تو سب کو میں نے پاکستان کا ذکر اچھے الفاظ میں کرتے پایا۔مذہبی طور پر ،پاکستان کے دیو بندی مکتب فکر کے علما کو ،وہ لوگ اپنے لیے استاد اور مرشد کا مقام دیتے ہیں اور بڑے ادب اور پیار سے اِن کا تذکرہ کرتے ہیں اِن حضرات سے گفتگو سے اندازہ ہوا کہ تبلیغی جماعت کے وہاں بڑے اثرات ہیں۔ میرا اپنا تعلق چونکہ جماعت اسلامی اور اسلامی جمیعت طلبہ سے رہا ہے ، اِس لیے میری بڑی خواہش تھی کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا کوئی ساتھی ملے تو اُس سے حال احوال کیا جائے۔لیکن افسوس ،کسی ایسے آدمی سے ملاقات نہ ہو سکی۔جن لوگوں سے بات چیت ممکن ہوسکی اُن میں ،ایک دومیڈیکل ڈاکٹرز ،ریٹائرڈ بیورو کریٹس،اورایک دو بڑے کاروباری حضرات شامل ہیں۔

(جاری ہے )