سوال ، جواب

مصنف : طالب محسن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جون 2020

اجماع کا لفظ دو معنی میں بولا جاتا ہے۔ ایک اجماع امت ہے اور ایک اجماع فقہا ہے۔ اجماع امت کا مطلب یہ ہے کہ امت کسی چیز کو دین کے طور پر حضورﷺ سے منسوب کرنے میں اپنے ہر زمانے میں بالکل متفق ہو۔ یہ رائے کا اتفاق نہیں ہے بلکہ حضور سے دین کو نقل کرنے پر اتفاق ہے یہی ‘‘اجماع’’ دین کا ماخذ ہے اور اس سے اختلاف جائز نہیں۔ دوسرا اجماع رائے پر اجماع ہے یہ اصل میں نصوص سے استنباط پر علما کا متفق ہونا ہے۔ اگرچہ یہ اجماع محض دعویٰ ہے لیکن لوگ بہت سی دینی آرا پر اجماع کا دعوی کرتے ہیں۔ اس طرح کے اجماع سے اختلاف میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ یہ رائے سے اختلاف ہے۔ یہ دین کے کسی جزو سے اختلاف نہیں ہے۔آپ نے گمراہی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ علمی آرا میں غلط اور صحیح کا معاملہ ہوتا ہے حق اور باطل کا معاملہ نہیں ہوتا ۔ علمی آرا میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرا گمراہ ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اپنی رائے پر عمل کریں تو دین پر عمل کر رہے ہیں اور ان سے اختلاف کرنے والا اپنی رائے پر عمل کرے تو وہ دین پر عمل کر رہا ہے۔ ایک مجلس میں تین طلاق کے معاملے میں دو آرا پائی جاتی ہیں ایک رائے یہ ہے کہ یہ تین طلاق ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ایک طلاق ہے۔ جس کی جو بھی رائے ہے وہ اس پر عمل کرنے میں گناہ گار نہیں ہے۔ اس طرح کے معاملات پر گمراہی کا لفظ درست نہیں ہے۔

(طالب محسن)

اللہ تعالی کے نظام تکوین میں کچھ ہستیاں شریک ہیں۔ یہ تصور بالعموم دو صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالی نے کچھ ہستیوں کو خود سے کچھ کاموں میں خود سے شریک کر رکھا ہے یا وہ شریک ہی کی حیثیت سے ہمیشہ سے موجود ہیں۔ یہ شرک کی وہ صورت ہے جو تمام مشرکانہ مذاہب میں بیان کے فرق کے ساتھ موجود ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کچھ ہستیاں عبادت و ریاضت سے اپنے آپ کو مقبول بارگاہ بنا لیتی ہیں اور اس طرح اللہ تعالی ان کو کچھ امور کا ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ دونوں طرح کے شرک زیر بحث آئے ہیں اور ان پر ایک ہی تنقید کی ہے کہ ان کے پاس کوئی سلطان (authority) نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات وحی کے سوا کسی طریقے سے معلوم نہیں ہو سکتی کہ اللہ نے کچھ شرکا بنا رکھے ہیں یا امور تکوینی تک رسائی کا کوئی قاعدہ بنا رکھا ہے۔ چونکہ خدا کی کسی کتاب میں نہ صرف یہ کہ اس طرح کی کسی بات کی طرف اشارہ بھی موجود نہیں ہے بلکہ صریح الفاظ میں ان کی تردید ہوئی ہے اس لیے ان کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔آپ نے جو صورت بیان کی ہے وہ بھی اس تصور پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ان تک پیغام رسانی ہوتی ہے۔ یہ بات دو پہلوؤں سے ناقابل قبول ہے۔ ایک یہ کہ کچھ ریاضتوں سے انسان مخاطبہ الہی کا اہل ہو جاتا ہے۔ یہ بات اوپر والی بات ہی کی طرح بے بنیاد ہے۔ دوسرا یہ کہ ختم نبوت کا تصور اس کے نتیجے میں باطل ہو جاتا ہے اور نبوت کی حقیقت یہی ہے کہ کسی انسان کو مخاطبہ الہی کا مقام حاصل ہو جائے۔ قطب و ابدال جیسے تصورات درحقیقت اسی بنیاد پر باطل ہیں اور ان کے ماننے سے خدائی میں شرکت کا تصور پیدا ہوتا ہے اور ان تصورات کو ماننے والوں کے ہاں اس کے آثار واضح نظر آتے ہیں۔اس حوالے سے مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کی کتاب حقیقت شرک اور حقیقت توحید آپ حاصل کرکے پڑھ لیجیے۔ امید ہے آپ کو بہت ساری باتیں واضح ہو جائیں گی۔آپ نے ستاروں کے اثرات کے ماننے کے شرک ہونے پر بھی تعجب ظاہر کیا ہے۔ قرآن مجید نے جبت کو جرم قرار دیا ہے۔ جبت کا مطلب یہ ہے کہ اوقات اور اشیا کے ماورائی اثرات مانے جائیں۔ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے اور اس تصور کی بھی الہامی لٹریچر سے کوئی بنیاد نہیں ملتی۔ یہ بھی انسانوں ہی کے بنائے ہوئے تصورات ہیں اور انسان کو سعی وجہد کرنے والا اور خدا پر بھروسا کرنے والا بنانے کے بجائے توہم پرست بناتے ہیں۔ قرآن مجید نے جبت کو گناہ قرار دیا ہے اور ستاروں کے اثرات ماننا جبت ہی کے تحت آتا ہے۔
 

(طالب محسن)

نذر ایک قدیم مذہبی رسم ہے جو تقریباً ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ جس طرح دعا تمام مذاہب میں موجود ہے اسی طرح نذر بھی تمام مذاہب میں موجود ہے۔ نذر کا مطلب اپنے معبود کے سامنے اپنے مال میں سے کوئی چیز پیش کرناہے۔ اس کی دونوں صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ معبود کو راضی کرنے کے لیے نذر پیش کرنا دوسری یہ کہ اپنے کسی کام کے ہونے پرپہلے سے طے شدہ نذر پیش کرنا۔ اسلام میں بھی یہ مذہبی رسم قائم ہے۔ اس نے اسے پورا کرنے کی تلقین کی ہے اور پورا نہ کرسکنے کی صورت میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
 

(طالب محسن)

ہمارے نزدیک، نقود کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی سے نصاب مقرر کیا تھا۔ نقود میں کرنسی نوٹ، سونا اور چاندی سب شامل ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اصل نصاب باون تولے چاندی ہے۔ اس کی قیمت کے برابر اگر روپے موجود ہیں یا سونا یا چاندی موجودہے تو آدمی صاحب نصاب ہے۔ ان کا الگ نصاب مقرر نہیں کیا گیا۔ سونے کا نصاب جو ہمارے ہاں بیان کیا جاتا ہے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باون تولے چاندی کے برابر تھا۔ یہ مقدار سونے کا کوئی الگ نصاب بیان کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ چاندی کی مالیت کے اطلاق کا بیان ہے۔ آپ چاندی، سونا، کرنسی نوٹ اور روپے کو محفوظ کر کے رکھنے کی اختیار کی گئی دوسری تمام صورتوں کو جمع کر کے زکوۃ نکالیں گے۔
 

(طالب محسن)

یہ سوال جس الجھن پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہوتا ہے ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہی تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے ہمیں اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ ہمیں یہ اصولی بات معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ارادہ و اختیار کی آزادی دے رکھی ہے۔ اگر اللہ تعالی نے سب پہلے سے طے کر رکھا ہے تو پھر یہ آزادی بالکل بے معنی ہے۔ پھر جزا یا سزا یا وقوع قیامت یہ سب باتیں اپنی معنویت کھو دیتی ہیں۔ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تدبیر کریں اور تدبیر کی کامیابی کے لیے دعا کریں۔ ہم ان آفات سے محفوظ رہنے کے لیے بھی دعائیں کریں جو دوسرے انسانوں اور قدرتی عوامل کی وجہ سے پیش آتی رہتی ہیں اور جن کا کبھی ہمیں شعور نہیں ہوتا اور اگر کبھی شعور ہو بھی تو ہم اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔حضور کی سکھائی ہوئی ایک دعا کے الفاظ ہیں:
اے اللہ مجھے اس شر سے محفوظ رکھ جس کا آپ نے فیصلہ کیا ہے، کیونکہ تو فیصلے کرتا ہے تیرے اوپر فیصلے نہیں ہوتے۔
یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ ہماری دعا سے اللہ کے فیصلے تبدیل ہوسکتے ہیں۔
اللہ تعالی نے ہمیں یہاں آزمایش کے لیے بھیجا ہے۔ آزمایش کے ضروری ہے کہ انسانوں کو خیر وشر کے انتخاب کی حقیقی آزادی حاصل ہو۔ وہ چاہیں تو اچھے اعمال کریں اور چاہیں تو بداعمالیا ں کریں۔ یہ آزادی بالکل محدود ہو جائے گی اگر انسانوں کو دنیوی معاملات میں فیصلے کی آزادی حاصل نہ ہو۔ مطلب یہ کہ شادی، کاروبار، تعلیم، محنت، پرہیز، علاج، ہنر، طرز زندگی،لباس،رسم ورواج غرض زندگی کے بہت سے دائروں میں انسانوں کو آزادی دی گئی ہے۔ اصل میں یہ آزادی ہی ہمارا مقدر ہے۔ جسے اللہ نے اپنی قدرت کے بل پر جاری وساری کر رکھا ہے۔آپ کی بات بالکل درست ہے کہ شادی میں کئے گئے فیصلے بھی اسی آزادی کے تحت ہیں۔ لیکن یہ آزادی بعض اوقات صرف ارادے تک محدود رہتی ہے اور ایک انسان کو عمل کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اللہ تعالی کی اس مداخلت کے پیچھے کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ ایک انسان کو بہت سی آزمایشیں اس کے ماحول میں موجود انسانوں کے اعمال سے پیش آتی ہیں۔ لہذا مداخلت کرکے اس آزمایش کو مطلوب درجے تک رکھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر الف ب کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلے اور ب کو قتل نہ ہونے دینا مقصود ہو تو ب کو مداخلت کرکے بچا لیا جاتا ہے۔ لیکن فیصلہ کرنے والا قتل کا مجرم بن جاتا ہے اور آخرت میں قتل کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ایک بندے کے مستقبل کو بعض آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی مداخلت کی جاتی ہے۔ وغیرہ
اس وضاحت کو شادی کی مثال پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے زور زبردستی کی ہے انھوں نے اللہ کے دیے ہوئے ایک حق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ الا یہ کہ وہ یہ مداخلت کرنے میں حق بجانب ہوں کہ بچوں کا فیصلہ غلط ہے اور اس سے ان کا نقصان ہوگا۔اس کا دوسرا پہلو بھی کہ اللہ تعالی نے اس معاملے میں مداخلت کرکے آئندہ کے لیے کسی آفت سے حفاظت کا بندوبست کیا ہو۔

 

(طالب محسن)

انسان علم کے معاملے میں مختلف سطحوں پر ہوتے ہیں۔ ہر سطح کے اعتبار سے طریق کار مختلف ہے۔ وہ آدمی جو دین کی واجبی معلومات رکھتا ہے اور کسی ایک نقطہ نظر کو اختیار کیے ہوئے ہے، وہ اپنے مسلک کے مطابق ہی جیے گا اور یہی اس کے لیے ضروری بھی ہے۔ اس آدمی کو یہ کہنا کہ تم براہ راست قرآن وسنت سے دین کے مسائل معلوم کرو،درست نہیں ہے۔ دین کی صحیح بصیرت اور اس کے فنون کا اچھا علم حاصل کیے بغیر یہ کام کرنا کسی بھی صورت میں روا نہیں ہے۔اس آدمی کے لیے ہر حال میں تقلید ہی کا راستہ ہے، اس کے لیے صرف یہی ممکن ہے کہ یہ ایک عالم کی تقلید چھوڑ کر دوسرے عالم کی تقلید اختیار کر لے۔
دوسرا آدمی وہ ہے جو عالم ہے، وہ اپنے مسلک کا استدلال سمجھ سکتا ہے اور اگر اس کے مسلک پر اعتراض کیا جائے تو اس کا جواب بھی دے سکتا ہے۔یہ آدمی اس بات کا مکلف ہے کہ اگر اسے کوئی اعتراض قوی لگے اور اپنے مسلک کی غلطی اس پر واضح ہو جائے تو یہ اسے چھوڑ دے اور اس مسئلے کی حد تک اپنے مسلک میں ترمیم کر لے۔
تیسرا آدمی وہ ہے جو علوم دینیہ پر گہری نظر پیدا کر لیتا ہے۔ تمام مجتہدین کا کام اس کے سامنے ہوتا ہے اور وہ اصول ومبادی سے فروع ومسائل تک نظر ثانی کی اہلیت پیدا کر لیتا ہے۔ یہ آدمی کبھی کسی فقہ یا مسلک کا مقلد نہیں ہوتااور اگر ہوتا ہے تو اسی وقت تک جب وہ کسی مسئلے میں خود تحقیق کرکے اپنی کوئی راے قائم نہیں کر لیتا۔
یہ ایک نمایاں تقسیم ہے۔ اس سے ہر فرد آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے اور تقلید کے معاملے میں اسے کیا طریق کار اختیار کرنا چاہیے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہم میں سے ہر آدمی کو حق کے سچے طلب گار کی حیثیت سے جینا ہے۔ اسے صرف وہی چیز دین کے طور پر اختیار کرنی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جاری ہوئی ہے۔ اسے اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق اس چیز کی تسلی کا اہتمام کرنا ہے کہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے دین پر عمل پیرا ہے۔ وہ جس عالم کا پیروکار ہے، وہ اسے صرف اور صرف وہی چیز دین کے طور پر بتاتا ہے جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہے۔

 

(طالب محسن)

قرآن مجید نے سائل اور محروم کا الگ الگ ذکرکیا ہے اور ان کو دینے کی تلقین کی ہے۔ اس لیے آپ مانگنے والے کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں نہ دیناچاہیں تو معذرت بھی کر سکتے ہیں۔ بھیک مانگنا ایک بری بات ہے لیکن اسے ناجائز قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ جن محتاجوں کی کوئی شنوائی نہ ہو وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اصل میں یہ ایک پیشہ بھی بن گیا ہے اس وجہ سے اس کی مذمت کی جاتی ہے۔ لیکن چونکہ اس میں امکان ہے کہ حقیقی محتاج موجود ہو اس لیے اس کے بارے میں کوئی ایک قاعدہ اختیار کرنا درست نہیں ہو گا۔
 

(طالب محسن)

کپڑے کی جراب اور چمڑے کی جراب میں فرق کرنے کا سبب فقہا میں یہ رہا ہے کہ بعض فقہا کے نزدیک وہ روایت جس میں جرابوں پر مسح کا ذکر ہوا ہے، اتنی قوی نہیں ہے یا ان تک وہ روایت نہیں پہنچی ہے۔ غالباً متأخرین میں دونوں کی ساخت کا فرق بھی اختلاف کا سبب بنا ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ صرف انھی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے جن میں نمی اندر نہ جا سکتی ہو۔ہمارے نزدیک چمڑا ہو یا کپڑا، مسح کی اجازت رخصت کے اصول پر مبنی ہے۔ جرابوں کی ساخت کی نوعیت اس رخصت کا سبب نہیں ہے۔ رخصت کاسبب رفعِ زحمت ہے۔ جس اصول پر اللہ تعالیٰ نے پانی کی عدم دستیابی یا بیماری کے باعث اس بات کی اجازت دی ہے کہ لوگ تیمم کر لیں، اسی اصول پر قیاس کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کی حالت میں جرابیں پہنی ہوں تو پاؤں پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اصول اگر رخصت، یعنی رفعِ زحمت ہے تو اس شرط کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ جرابیں چمڑے کی بنی ہوئی ہوں۔
 

(طالب محسن)

پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ حج بدل کیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہی سوال کیا گیا تھا تو آپ نے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔
دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ سورہ نجم کی آیت میں جو اصولِ اجر بیان کیا گیا ہے وہ اٹل حقیقت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی کو اس کے کیے ہی کا اجر ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اعمال جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا اس میں بدل کا کوئی قائل نہیں ہے۔ جیسے نماززکوۃ اس پر فرض ہے جس کے پاس نصاب کے مطابق مال ہے ہمارے گھروں میں بیویوں کے پاس زیورات ہوتے ہیں اور ان کی بڑی تعداد کی اپنی کوئی آمدنی نہیں ہوتی۔ چنانچہ ان پر عائد ہونے والی زکوۃ ان کے شوہر ادا کرتے ہیں۔ جس اصول پر یہ زکوۃ ادا ہو جاتی ہے اسی اصول پر حج بدل بھی ہو سکتا ہے۔ حج کا ایک حصہ مال ہے اور دوسرا سعی و جہد ہے۔ ایک شخص صاحب مال ہے اور سعی و جہد کی سکت نہیں رکھتا اور اس کا حج کرنے کا پختہ ارادہ ہے اس شخص کا اپنے مال سے کسی دوسرے کو اپنی جگہ بھیجنا کیوں رائگاں جائے گا۔تیسری بات کا جواب یہ ہے کہ ارکان دین پانچ ہیں۔ ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت میں کسی کی شرکت کا کوئی سوال نہیں ہے۔ نماز میں ہر معذوری پر رعایت دے کر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ فرد کو خود ہی ادا کرنی ہے۔ روزہ میں قرآن نے تفصیلی احکام دے کر یہ بیان کر دیا ہے کہ یہ بھی ہر مسلمان کو خود ہی رکھنا ہے۔ مستقل معذور کے لیے بھی فقہا نے فدیے کا طریقہ بیان کیا ہے جو بجائے خود قرآن سے ماخوذ ہے۔ زکوۃ ادا کرنے میں دو جگہ شرکت ہو سکتی ہے ایک یہ کہ زکوۃ ادا کرنے میں مطلوب رقم فراہم کرنے میں کوئی مدد کر دے ۔ دوسرے یہ کہ کسی تک زکوۃ کی رقم پہنچانے میں کوئی ہاتھ بٹا دے۔ حج میں معذور ہونے کی صورت میں اپنی آمدنی سے کسی کو اپنی جگہ پر بھیج دے۔

 

(طالب محسن)

قرآن مجید میں روزے کے جو احکام بیان ہوئے ہیں، ان میں عارضی طور پر روزے کا فدیہ دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد یہ اجازت ختم کر دی گئی۔'' جو آیت 'شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ' کے الفاظ سے شروع ہوتی ہے، اُس میں فدیے کی اجازت ختم ہوگئی ہے۔ چنانچہ حکم کوبعینہٖ دہرا کر اُس میں سے 'وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ،' سے 'اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ' تک کے الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں۔ رمضان کے بعد عام دنوں میں روزہ رکھنا چونکہ مشکل ہوتا ہے ، اِس لیے جب تک طبائع اِس کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہو گئیں، اللہ تعالیٰ نے اِسے لازم نہیں کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے کہ فدیے کی یہ اجازت اِس لیے ختم کردی گئی ہے کہ تم روزوں کی تعداد پوری کر و اور جو خیروبرکت اُس میں چھپی ہوئی ہے، اُس سے محروم نہ رہو۔''
اصل میں بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ضرور ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ رمضان گزرنے کے بعد چھوٹنے والے روزے پورے کیے جائیں 
میرا آپ کو مشورہ یہ ہے کہ آپ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ ممکن ہے اس کا کوئی حل نکل آئے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کچھ روزے چھوڑ دیا کریں اور رمضان کے بعد تعداد پوری کر لیا کریں۔علما فدیے کا آپشن اب صرف ان مریضوں کے لیے بیان کرتے ہیں جن کا مرض مستقل نوعیت کا ہواور روزے رکھنا اب ان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہو۔ میرا خیال نہیں ہے کہ آپ اس نوع سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنا مناسب علاج کرائیں اور جب تک ٹھیک نہ ہوں، کچھ روزے چھوڑ کر بعد میں تعداد پوری کر لیں۔آپ نے کہا کہ آپ نقاہت محسوس کرنے کی وجہ سے خوش دلی سے روزے نہیں رکھ پاتیں۔ اگر آپ یہ بات اپنے سامنے رکھیں کہ اس مشقت کو جھیلنے میں آپ کا اجر دوسرے روزے داروں سے زیادہ ہے تو یہ نفسیاتی کیفیت ختم ہو سکتی ہے۔

 

(طالب محسن)

اسلام میں داخل ہونے سے کیا مراد ہے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور ہمارے پاس ان سے دین سیکھنے اور جاننے کا براہ راست موقع ہو تو کسی فقہ کے ساتھ تمسک کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ عملًا معاملہ یہ ہے کہ ہم قرآن و سنت کے عالم ہوں تب بھی بہت سے معاملات میں ہمیں دوسرے علما کی رائے اور سوچ سے استفادہ کرنا پڑتا ہے۔ عام آدمی جو قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ نہیں کر سکتا وہ علما کی رائے قبول کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رکھتا ہے۔ اس کو یہ مشورہ دینا مہلک ہے کہ تم براہ راست قرآن و سنت سے جو کچھ سمجھ میں آتا ہے اسے اختیار کرو اور کسی عالم کی رائے اور تحقیق کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھو۔ عام آدمی کو صحیح مشورہ یہی ہے کہ وہ قرآن و سنت ہی کو دین کا ماخذ جانے اور علما سے وہی رائے قبول کرے جو اسے قرآن وسنت کے دلائل پر مبنی لگتی ہو۔ اگر کسی شخص کا اختلاف اس کے سامنے آئے تو وہ اس اختلاف کو اپنی استعداد کی حد تک دلائل ہی کی بنا پر رد کرے اور اس اختلاف کی حقیقت کو سمجھنے میں اپنے دینی رہنما ہی سے مدد لے۔ لیکن اگر اسے محسوس ہو کہ اختلاف کرنے والے کی رائے قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہے تو اسے اختیار کرلے اور اپنے گروہ کے ساتھ وابستگی کو تعصب نہ بننے دے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اپنے گروہ کی رائے ساتھ اصرار اگر اللہ اور رسول کی اطاعت کے جذبے کے ساتھ ہو تو مطلوب ہے۔ تقلید انسانی مجبوری ہے۔ اسے صرف اس وقت برا قرار دینا چاہیے جب یہ حق کے مقابلے میں کھڑی ہو جائے اور بندہ جانتے بوجھتے حق کا انکار کر دے۔
 

(طالب محسن)

خالص قانونی نقطہ نظر سے ہر آدمی اپنا کوئی حق چھوڑ بھی سکتا ہے اور دوسرے کو تفویض بھی کر سکتا ہے۔ اسی طرح طلاق کا حق بھی مرد عورت کو تفویض کر سکتا ہے۔ طلاق قرآن مجید کی صریح نص کے مطابق مرد کا حق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 'بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ' (بقرہ2: 237)،''اس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔'' اس کا ایک مقصد ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
''یہاں 'بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ' کے الفاظ میں ایک اور نکتہ بھی ہے جو اس دور کے معاشرتی مفکروں اور مصلحتوں کو خاص طور پر نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ وہ یہ کہ نکاح کی گرہ جس طرح مرد کے قبول سے بندھتی ہے، اسی طرح اسی کی طلاق سے کھلتی ہے، گویا یہ سر رشتہ اصلاً شریعت نے مرد ہی کے اختیار میں رکھا ہے۔ '' (تدبر قرآن 1 / 548 ۔ 549)
استاد گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے اپنی کتاب''میزان'' میں ''طلاق کا حق'' کے تحت لکھا ہے:
''سورہ کی ابتدا 'اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ' کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ اِس کے بعد یہاں بھی اور قرآن کے بعض دوسرے مقامات پر بھی طلاق کے احکام جہاں بیان ہوئے ہیں، اِس فعل کی نسبت مرد ہی کی طرف کی گئی ہے۔ پھر بقرہ (2) کی آیت 237 میں قرآن نے شوہر کے لیے 'الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ' (جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ طلاق کا اختیار شریعت نے مرد کو دیا ہے۔ اِس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔ عورت کی حفاظت اور کفالت کی ذمہ داری ہمیشہ سے مرد پر ہے اور اِس کی اہلیت بھی قدرت نے اُسے ہی دی ہے۔ قرآن نے اِسی بنا پر اُسے قوام قرار دیا اور بقرہ ہی کی آیت 228 میں بہ صراحت فرمایا ہے کہ 'لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ' (شوہروں کو اُن پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے)۔ چنانچہ ذمہ داری کی نوعیت اور حفظ مراتب، دونوں کا تقاضا ہے کہ طلاق کا اختیار بھی شوہر ہی کو دیا جائے۔ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ خاندان کا ادارہ انسان کی ناگزیر ضرورت ہے۔ ذمہ داریوں کے فرق اور وصل و فصل کے یکساں
 اختیارات کے ساتھ جس طرح دنیا کا کوئی دوسرا ادارہ قائم نہیں رہ سکتا، اِسی طرح خاندان کا ادارہ بھی نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ عورت نے اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت و کفالت کے عوض اگر اپنے آپ کو کسی مرد کے سپرد کر دینے کا معاہدہ کر لیا ہے تو اُسے ختم کر دینے کا اختیار بھی اُس سے معاملہ کیے بغیر عورت کو نہیں دیا جا سکتا۔ یہی انصاف ہے۔ اِس کے سوا کوئی دوسری صورت اگر اختیار کی جائے گی تو یہ بے انصافی ہو گی اور اِس کا نتیجہ بھی لامحالہ یہی نکلے گا کہ خاندان کا ادارہ بالآخر ختم ہو کر رہ جائے گا۔ '' (ص 441)
ان دونوں اقتباسات سے واضح ہے کہ تفویض طلاق ممکن تو ہے، لیکن یہ چیز قرآن مجید کے مقصد سے مناسبت نہیں رکھتی۔

 

(طالب محسن)