حوا اور سانپ

مصنف : پاؤلو کوہلو

سلسلہ : غیر ملکی ادب

شمارہ : مئی 2020

ایک بار مغربی افریقی مُلک مراکش سے ایک شخص مجھے ملنے آیا۔ اُس نے ایک مقامی صحرائی قبیلہ میں رائج تخلیق بنی نوع انسان کے دَور کی عجیب و غریب کہانی سنائی۔ آئیے آپ کو بھی سناتا ہُوں۔
حوا، جنت عدن میں ایک نہر کے کنارے درختوں کے قریب اکیلی ٹہل رہی تھی۔ شیطان نے سانپ کا روپ دھارا اور اُس کے پیچھے ہو لیا۔ جب ایک خاص درخت قریب آیا تو سانپ نے نہایت محبت سے کہا ‘‘اے حوا، یہ سیب کھا لو۔ دیکھو کتنا لذیذ لگ رہا ہے۔’’حوا اور اُس کے شوہر کو عظیم طاقت نے پہلے ہی اچھی طرح سمجھا دیا ہوا تھا کہ اِس درخت کا پھل نہیں کھانا، لہذا حوا نے صاف انکار کر دیا اور چہل قدمی جاری رکھی۔سانپ کو معلوم تھا کہ حوا انکار کر دے گی، تب اُس نے وہ چال چلی جو آج بھی جرائم کے پس منظر میں ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ انسان بنیادی طور پر نیک فطرت اور اطاعت گزار ہے اس لیے آسانی سے جرم نہیں کروایا جا سکتا، اُسے بہلانا پھسلانا پڑتا ہے، باتیں بنانی پڑتی ہیں۔سانپ اِس انسانی فطرت کو بخوبی جانتا تھا۔ چناچہ اُس نے کہا: ‘‘یہ سیب کھا لو، تُم اپنے مرد کے لیے سب سے حسِین ترین عورت بن جاؤ گی۔’’
حوا نے مسکرا کر کہا ‘‘میرے علاوہ ہے ہی کون! اس لیے مجھے ضرورت نہیں۔’’ سانپ چالبازی سے ہنسا، اُسے ایسے ہی جواب کی توقع تھی، اب وہ اگلی سطح پر آیا ‘‘اف کتنی بے خبر ہو تُم۔ ایک اور عورت موجود ہے جو تُم سے کہیں زیادہ حسِین ہے۔ تمہیں تو کچھ پتا ہی نہیں کہ جنت میں کیا ہو رہا ہے۔ میرے پاس تمام خبریں ہیں۔’’
حوا پریشان ہو گئی مگر یقین کرنے سے انکاری ہو گئی۔ سانپ کو معلوم ہو گیا کہ شک نے کامیابی سے جڑ پکڑ لی ہے۔ اُس نے موقع کی نزاکت کے مطابق کہا ‘‘آؤ دکھاؤں، خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔’’
سانپ نے حوا کے آگے آگے تیز رفتاری سے رینگنا شروع ہو گیا۔ حوا اُس کے پیچھے چل پڑی۔ ویسے تو سانپ دیکھ کر ہی تمام قصہ ظاہر ہو جاتا ہے مگر شک کے اژدھا کے آگے ہر سانپ بے ضرر ہی لگتا ہے۔
قریب ہی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر ایک کنواں موجود تھا۔ وہاں پہنچ کر سانپ نے کہا ‘‘اے حوا، وہ عورت جو تُم سے کہیں زیادہ حسِین و جمیل ہے اور تمہارے شوہر کے دل میں بس اُسی کی صورت ہے، اُس نے اُسے اِس غار میں چھپایا ہوا ہے۔ یقین نہیں آتا تو خود جھانک کر دیکھ لو۔’’
حوا نے بوجھل دل کے ساتھ کنویں میں جھانکا اور دیکھا کہ واقعی حُسن کی بلندیوں کو چُھوتی ایک صورت ہے جس سے نظر ہٹانے کو دل نہیں کرتا۔اچانک سانپ نے اپنی دُم حوا کے آگے کر دی۔ دم میں وہی سیب تھا۔ حوا نے سیب پکڑا اور کھانا شروع کر دیا۔سانپ جانتا تھا کہ کنویں کی واردات کے بعد سیب کے درخت تک واپس پہنچنے کا وقفہ پورے منصوبہ پر پانی پھیر سکتا ہے۔ اِس دوران حوا کو ہوش آ سکتا ہے، اس لیے وہ شروع سے ہی سیب اپنے ہمراہ لے آیا تھا۔سانپ نے حوا کو بآسانی اِس لیے ورغلا دیا تھا کیونکہ حوا کو معلوم نہ تھا کہ عکس کیا ہوتا ہے، نہ کبھی اُس نے اپنی صورت کو خود دیکھا تھا۔ وہ خود کو نہ پہچانتی تھی۔
یہ بھی سنو کہ سانپ نے جھوٹ ہرگز نہیں بولا تھا۔ وہ صورت واقعی سب سے حسِین تھی۔ یہ ایسا سچ تھا جس کے پسِ پردہ تمام کارروائی کی گئی تھی۔ اس لیے کسی بات کا محض سچ ہونا کافی نہیں ہوتا، سچ بولنے والے کی نیت بھی نیک ہونی چاہیے۔
اُسی مراکشی مقامی صحرائی قبیلہ میں یہ قول بھی رائج ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو پہچان لے وہ کسی سے خوف نہیں کھائے گا، نہ ہی مرعوب ہو گا۔اور ایسے شخص کے لیے دنیا میں ہی جنت شروع ہو جاتی ہے۔
٭٭٭

 مترجم: مسافرِ شب محمد احسن